Mualim-ul-Irfan - Al-Hajj : 38
اِنَّ اللّٰهَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ۠   ۧ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُدٰفِعُ : دور کرتا ہے عَنِ : سے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا كُلَّ : کسی خَوَّانٍ : دغاباز كَفُوْرٍ : ناشکرا
بیشک اللہ تعالیٰ دفاع کرتا ہے ان لوگوں سے جو ایمان لائے بیشک اللہ تعالیٰ نہیں پسند کرتا ہر خیانت کرنے والے اور ناشکر گزار انسان کو
ربط آیات : گزشتہ آیات میں بیت اللہ شریف کی تعمیر نو ، حج ، قربانی ، شرک کی تردید اور دیگر مسائل کا ذکر ہوا۔ کفار کی طرف سے اللہ کے راستے اور مسجد حرام سے روکنے کا بیان بھی ہوچکا ہے۔ مکہ کے مشرکی کسی مسلمان کو خانہ کعبہ میں جانے کی اجازت نہیں دیتے تھے حتی کہ 6 ھ میں تقریباً ڈیڑھ ہزار اہل ایمان کو عمرہ ادا کرنے سے روک دیا گیا ، حالانکہ حرم پاک میں مقامی اور بیرونی تمام لوگوں کو عبادت کرنے کا یکساں حق حاصل ہے ۔ آج کی آیات بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہیں۔ پہلی آیت بطور تمہید ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو تسلی دی ہے۔ اس کے بعد دوسری آیت میں جہاد کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور مسلمانوں کی مظلومیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ اہل ایمان کی حوصلہ افزائی : مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ ہمیشہ کفار کے رحم وکرم رپ ہی رہیں گئے بلکہ ان کا اللہ ان کے ساتھ ہے ان اللہ یدافع عن الذین امنوا کافروں کے مقابلے میں بیشک اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا دفاع کریگا۔ ان کے ظلم وستم ہمیشہ نہیں رہیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کفار کے غرور کے بت کو پاش پاش کردے گا ، لہٰذا مسلمانوں کو مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ کی نصرت پر ایمان رکھنا چاہیے۔ وہ ضرور ان کی مدد کرے گا ، ان کو غلبہ عطا کریگا اور کفار میں اہل ایمان کو روکنے کی قوت باتی نہیں رہے گی فرمایا ان اللہ لا یحب کل خوان کفور بیشک اللہ تعالیٰ کسی خائن اور ناشکر گزار کو پسند نہیں کرتا۔ امانت میں خیانت کرنے والا اور اللہ کی نعمتوں کی ناقدری کرنے والا اس کے نزدیک مبغوض ہوتا ہے۔ کفار کی خیانت : کفار ومشرکین اس لحاظ سے خائن ہیں کہ اللہ نے ان کو فطرت سلیمہ اور عقل جیسی نعمتیں عطا فرمائی مگر انہوں نے ان کو بروئے کار لاکر ایمان لانے ، ہدایت قبول کرنے ، شعائر اللہ کی تعظیم کرنے اور نبی آخر الزمان کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ فطر سلیمہ اور عقل اللہ کی جانب سے ان کے پاس امانت تھی مگر انہوں نے ان کا صحیح استعمال نہ کرکے اس امانت میں خیانت کی۔ بعض دوسری آیات اور احادیث میں بھی اس بات کے اشارات ملتے ہیں منافقوں کے متعلق بھی اللہ نے فرمایا فما ربحت تجارتھم (البقرہ 17) ان کی تجارت نے انہیں کچھ فائدہ نہ دیا۔ فطرت سلیمہ اور عقل ان کے پاس بیش قیمت پونجی تھی جس کو خرچ کرکے انہوں نے ایمان جیسا مفید سودا خریدنے کی بجائے نفاق جیسی قبیح چیز کو خرید لیا۔ ان کی تجارت میں خسارے کا یہی مطلب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انان کو عمر بھی بطور پونجی عطا کی ہے ، اسی طرح صحت فطرت سلیمہ اور عقل سلیم بھی پونجی ہے۔ صحیحین (مسلم ص 118 ج 1 (فیاض) کی حدیث میں آتا ہے کل الناس یغدوا فبائع نفسہ فمعتقھا او موبقھا ہر انسان جب رات گزار کر صبح کرتا ہے تو اپنے نفس کو بیچ کر یا تو اسے آزاد کرالیتا ہے یا ہلاکت میں ڈال دیتا ہے۔ جو شخص زندگی کی قدر کرنے والا ہے وہ ایمان ، تقویٰ ، اخلاص اور اعمال صالحہ جیسی اچھی چیزیں خرید کر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے عذاب سے آزاد کرالیتا ہے ، یا پھر کفر ، شرک اور معاصی کا سودا خرید کر اپنی تباہی و بربادی کا سامان پیدا کرلیتا ہے۔ یہاں پر اللہ نے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کافر اور مرشک خائن ہیں ، انہوں نے قیمتی پونجی کو ضائع کردیا ہے اور اس کے بدلے میں ابدی خسارے والی چیز خریدلی ہے یہ لوگ خائن بھی ہیں اور ناشکرگزار بھی۔ یہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کے غرور کو خاک میں ملادے گا۔ یہ اہل ایمان کے لئے تسلی کا مضمون ہوگیا۔ دفاع کا خدائی پروگرام : جب خدا تعالیٰ کسی قوم کی حفاظت کرنا چاہتا ہے تو ظالم قوم سے دفاع کے لئے اسباب بھی پیدا کردیتا ہے۔ بعض سابقہ ظالم اقوام کو اللہ تعالیٰ نے آسمانی آفات نازل کرکے راستے سے ہٹا دیا اور ان کی جگہ دوسری قوموں کو عروج بخشا۔ بعض اوقات وہ مظلوم قوم کو جہاد کی اجازت دے کر ظالم قوم کو تباہ و برباد کردیتا ہے۔ سورة التوبہ میں گزر چکا ہے کہ اللہ نے اہل ایمان کو حکم دیا کہ اگر مشرک لوگ عہد شکنی کریں اور دین میں طعن کریں فقاتلوا……الکفر (آیت 12) تو ان اکابرین کفر سے جنگ کرو اور انہیں راستے سے ہٹا دو ۔ مکی زندگی میں تو جہاد کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ وہاں تو حکم تھا۔ کفوا………………الزکوٰۃ (النسائ 77) کہ نمازیں پڑھتے رہو ، زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور کفار کی طرف سے ہاتھوں کو روکے رکھو۔ اس کے ساتھ لڑائی نہ کرو بلکہ اپنی تنظیم کو مضبوط بنائو اور جہاد کی تیاری کرتے رہو۔ سورة المزمل ابتدائی سورتوں میں سے ہے ، وہاں بھی اشارہ کردیا واخرون…………سبیل اللہ (آیت 20) آگے چل کر تمہیں اللہ کی راہ میں جہاد بھی کرنا ہے ، لہٰذا ابھی سے اس کی تیاری شروع کردو ، پھر جب اللہ کا حکم ہوگا تو میدان کارزار میں داخل ہوجانا۔ سورة الطلاق میں مزید وضاحت فرمادی قد جعل…………قدرا (آیت 3) اللہ نے ہر کام کے لئے ایک وقت مقرر کررکھا ہے جب جماعت بندی ہوتی رہی ، طاقت جمع ہوتی رہی۔ دو دفعہ حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم ہوا اور لوگ وہاں بھی گئے۔ پھر آخر میں ہجرت مدینہ کا حکم ہوا۔ اللہ نے اس مقام کو دارالاسلام بنایا مسلمانوں نے اپنے قوی کو مجتمع کیا اور اللہ نے جہاد کی اجازت بھی مرحمت فرمادی۔ قرآن پاک میں اس بات کی تصریح کردی گئی ہے کہ اسلامی جہاد ، مال و دولت جمع کرنے یا اقتدار حاصل کرنے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی زمین سے فتنہ و فساد کو ختم کیا جائے ، راستے کی رکاوٹوں کو دور کیا جائے اور اللہ کی حدود قائم کی جائیں۔ اگر کوئی شخص یا جماتع اہل ایمان کو اللہ کے راستے سے روکتی ہے تو ایسے شرپسندوں کی سرکوبی ہو اور ایمان لانے والوں کے لئے راستہ بالکل صاف ہو ، جہاد کا یہی مقصد ہے۔ اقدامی اور دفاعی جہاد : امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ ہمارے دین میں اقدامی اور دفاعی دونوں قسم کے جہاد کا حکم ہے۔ چناچہ سورة آل عمران میں ہے قاتلوا ………اوادفعوا (آیت 167) مدینے کے منافقوں سے کہا گیا کہ آئو اللہ کی راہ میں جنگ کرو۔ اگر باہر نکل کر ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے تو کم از کم اپنا دفاع تو کرو ، تمہارے علاقے ، تمہاری عورتیں ، مرد ، اور بچے حملوں کی زد میں ہیں ، دشمن نہ قرابت داری کا لحاظ کرتا ہے اور نہ کسی عہدہ پیمان کا ، فاتح قومیں ہمیشہ مفتوح لوگوں کی بےعزتی کرتی ہیں۔ ان کے مال واسباب لوٹ کرلے جاتے ہیں۔ عورتوں اور مردوں کو لونڈی اور غلام بنالیتے ہیں ، لہٰذا اس مصیبت سے بچائو کی خاطر کم از کم اپنا دفاع تو کرو دیکھ لیں جب امریکہ جاپان پر غالب آیا تو جاپان عورتوں کو امریکہ لے گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق جاپانی عورتوں کے ساتھ بےخیائی کے نتیجے میں سوالاکھ حرامی بچے پیدا ہوئے۔ جب ان کی پرورش کی ذمہ داری امریکہ پر آئی تو انہوں نے ان عورتوں کو اپنے وطن واپس جانے کی اجازت دے دی۔ جہاد کی دوسری قسم اقدامی ہے یعنی آگے بڑھ کر کفر کے جمگھٹوں پر حملہ آور ہونا۔ وہاں کے رہنے والے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے ، ایمان اور توحید کا راستہ روکا جارہا ہے۔ لہٰذا اہل ایمان پر فرض ہے کہ وہ دشمن پر کاری ضرب لگائیں تاکہ فتنہ وفسادختم ہو اور اللہ کے راستے میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔ جہاد کی اجازت : اسی مقصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جہاد کی اجازت دی ہے اذن للذین یقتلون جن اہل ایمان کے ساتھ کافر لوگ لڑائی کرتے ہیں۔ اب ان کو بھی جنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ہجرت کے بعد مشرکین مکہ نے کئی منصوبے بنائے تاکہ مدینہ کی سرزمین پر مسلمانوں کے پائوں جمنے نہ پائیں۔ ہجرت کے دوسرے ہی سال غزوہ بدر پیش آیا جس میں کافروں کو منہ کی کھانی پڑی۔ اس شکست کا بدلہ لینے کے لئے وہ اگلے سالمدینے پر حملہ آور ہوئے اور احد کے مقام پر گھمسان کارن پڑا۔ یہ تو پھر بھی مدینے سے تین میل باہر تھا۔ 6 ھ میں کافر لوگ براہ راست مدینہ پر حملہ آور ہوئے اور مسلمانوں کو اپنے دفاع کے لئے مدینہ کے تین اطراف میں ساڑھے تین میل لمبی۔ دس بارہ فٹ چوڑی اور قد آدم گہری خندق کھودنا پڑی۔ ذرا اندازہ لگائیں کہ بھوکے پیاس اہل ایمان نے یہ کام صرف چھ دنوں میں کیسے مکمل کرلیا۔ یہ اتنا کام تھا کہ آج کے مشینی دور میں بھی اتنی جلدی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا ، مگر اپنے دفاع کی خاطر مسلمانوں نے اتنی بڑی مشقت بھی برداشت کی۔ تو اللہ تعالیٰ نے قوت جمع ہونے پر مسلمانوں کو جہاد کی اجازت دے دی بانھم ظلموا اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا جاتا تھا ۔ اب اللہ تعالیٰ نے مظلوم کو بھی ہتھیار اٹھانے کی اجازت دے دی تاکہ حق اور باطل میں امتیاز ہوجائے۔ مسلمانوں کے لئے نصرت الٰہی : فرمایا وان اللہ علی نصرھم لقدیر بیشک اللہ تعالیٰ ان مظلوموں کی مدد کرنے پر پادر ہے۔ چناچہ مسلمانوں پر بڑی بڑی مشکلات آئیں ، شکست بھی ہوئی ، جانی اور مالی نقصان بھی ہوا مگر بالآخر اللہ نے اہل ایمان کو ہی غالب کیا اور کفر وشرک کا غرور خام میں مل گیا۔ حضرت علی ؓ اور امیر معاویہ ؓ کے درمیان معرکہ صفین تک مسلمان آدھی دنیا پر غالب آچکے تھے ، اور باقی آدھی دنیا میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ مسلمانوں کا مقابلہ کرسکتی ۔ جب بھی موقع آیا ۔ اللہ نے کفار کو مغلوب ہی کیا۔ واقعہ صفین کے بعد مسلمانوں کی عالمی تحریک رک گئی۔ البتہ اس کا اثر ساڑھے چھ سو سال تک قائم رہا ، اور پھر ساتویں صدی میں مسلمانوں پر انحطاط کا دور شروع ہوگیا۔ ساتویں صدی میں تاتاری حملہ آور ہوئے اور انہوں نے مسلمان سلطنتوں کو درہم برہم کرکے رکھ دیا۔ ایک کروڑ سے زیادہ مسلمان تہ تیغ ہوئے۔ بچوں اور عورتوں کو ذلیل کیا گیا اور بغداد کے کتب خانے جلا کر علمی خزانہ بھی برباد کردیا گیا۔ اسی لئے اللہ نے فرمایا کہ مسلمانوں کو اللہ نے جہاد کی اجازت دی کہ وہ مظلوم تھے اور اللہ تعالیٰ ان کی نصرت پر قادر ہے ۔ فرمایا مظلوم وہ تھے الذین اخرجوا من دیارھم بغیر حق جن کو ان کے گھروں سے بلاوجہ نکالا گیا۔ ان کا صرف یہ قصور تھا الا ان یقولوا ربنا اللہ کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو رب تسلیم کرنا تو بڑی سعادت کی بات تھی مگر کافروں کے نزدیک یہی سب سے بڑا عیب تھا۔ اللہ نے فرمایا کہ وہ مظلوم مسلمانوں کی مدد کرے گا اور اس پر اسے مکمل اختیار حاصل ہے ۔ فلسفہ جہاد : آگے اللہ تعالیٰ نے جہاد کا فلسفہ بھی بیان فرمایا ہے کہ وہ ظلم وتعدی کرنے والوں کی سرکوبی بعض دوسرے لوگوں سے کراتا رہتا ہے بعض اوقات ایک ظالم کو دوسرے ظالم پر مسلط کردیتا ہے۔ اللہ نے سورة الانعام میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے وکذلک…………یکسبون (آیت 130) اور اسی طرح ہم ان کی کارگزاری کی بنا پر بعض ظالموں کو بعض پر مسلط کردیتے ہیں۔ اب دیکھ لیں دوسری جنگ عظیم میں جرمنی نے کتنا سر اٹھایا تھا اور کتنا ظلم وستم ڈھایا تھا۔ اس کے چار چار سو ہوائی جہاز یکدم بمباری کرتے تھے۔ شہروں کے شہر تباہ ہوگئے۔ لاکھوں آدمی مارے گئے اور بعض دہشت کے مارے ہوش و حواس کھو بیٹھے ۔ پھر اللہ نے اس پر امریکہ ، برطانیہ اور روس کو مسلط کیا۔ گزشتہ دو سو سال میں برطانیہ کا بھی طوطی بولتا تھا اور وہ برطانیہ عظمیٰ کہلاتا تھا جس کی سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اللہ نے اس کی سرکوبی بھی کرادی اور اب وہ ایک جزیہ تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں اللہ نے مسلمانوں کے ذریعے ظالموں کی سرکوبی کی۔ قادسیہ ، یرموک ، مصر ، خراساں ، افریقہ غرضیکہ ہر معر کے میں مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوا کیونکہ یہ صداقت اور نیکی پر تھے۔ اللہ نے حسب وعدہ ان کی مدد فرمائی۔ عبادت خانوں کی بربادی : اللہ تعالیٰ نے اسی اصول کو یہاں بیان فرمایا۔ ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض اور اگر اللہ تعالیٰ بعض ظالموں کو بعض کے ذریعے دفع نہ کرتا تو بڑا فساد برپا ہوتا جس کے نتیجے میں لھدمت صوامع تو راہبوں کے کے لئے اور خلوت خانے گرادیے جاتے وبیع اور ظالموں کی دست برد سے نصاری کے گرجے بھی نہ بچتے جن میں اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرتے ہیں۔ وصلوٰت اور یہودیوں کے عبادت خانے بھی درہم برہم کردیے جاتے۔ ومسجد یذکر فیھا اسم اللہ کثیرا اور مسلمانوں کی مسجدیں بھی ویران کردی جاتیں جن میں وہ کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ مفسرابوالعالیہ صلوت سے مجوسیوں کے عبادت خانے مراد لیتے ہیں اور بعض نے اس سے صابیوں کے عبادت خانے مراد لیے ہیں اور اس طرح ان چار گروہوں یعنی یہودیوں ، صابیوں ، نصاریٰ اور مجوسیوں کا نام آجاتا ہے جن کا ذکر اس سورة کے دوسرے رکوع میں گزر چکا ہے۔ بہرحال اللہ نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ بعض کو بعض کے ذریعے دفع نہ کرتا تو کوئی عبادت خانہ بھی ان کی دشت برد سے محفوظ نہ رہتا۔ اللہ نے یہ انتظام کررکھا ہے کہ وہ ا کی گروہ کی سرکوبی دوسرے گروہ کے ذریعے کرادیتا ہے۔ عبادت خانوں کی تباہی کے متعلق امام محمد (رح) اپنی تاریخ کی کتابوں السیر الصغیر اور السیر الکبیر میں لکھتے ہیں کہ جب مسلمان حربی کافروں پر حملہ آور ہوتے تو ان کا کچھ لحاظ نہ کرتے۔ ان کے آدمیوں کو قتل کرتے ، ان کو لونڈی غلام بناتے ، عمارتوں کو گراتے حتیٰ کی عبادت خانوں کا لحاظ بھی نہ کرتے۔ کیونکہ دارالحرب میں سب کچھ روا ہے۔ البتہ جن کافروں کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ ہوجاتا اور جو جزیہ دینا قبول کرکے ذمی بن جاتے ان کی جان ، مال ، عزت ، آبرو اور عبادت خانے سب مامون ہوجاتے اور ان کی رسوم میں بھی تعرض نہ کیا جاتا ۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے جو شخص کسی معاہدہ کو قتل کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کردیگا۔ حتیٰ کہ اسے جنت کی خوشبو بھی نہیں پہنچے گی۔ جزیہ کا جواز : اسلام نے مفتوح علاقے میں غیر مسلموں سے جزیہ وصول کرکے انہیں ان کے دین پر قائم رہنے کی اجازت دی ہے اور ان کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے ، اسی لئے وہ ذمی کہلاتے ہیں۔ ان کا مکمل خاتمہ اس لئے نہیں کیا گیا کہ وہ ابھی تک اشتباہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ اگرچہ یہود ونصاریٰ کی گمراہی پر کوئی شک وشبہ نہیں ہے مگر ان کے خیال کے مطابق کہ شاید وہ صحیح راستے پر ہیں ، اللہ نے ان کو ذمی بنانے کی اجازت دیدی ہے ان کا یہ اشتباہ مسیح (علیہ السلام) کے نزول پر رفع ہوگا۔ جب ہدایت کے تمام پردے اٹھ جائیں گے۔ اس وقت یا تو اسلام قبول کریں گے یا پھر ختم کردیے جائیں گے۔ قرب قیامت میں حق و باطل بالکل واضح ہوجائے گا اس لئے اس وقت گوئی شبہ باقی نہیں رہے گا۔ لہٰذا اس وقت جزیہ کا مسئلہ بھی ختم ہوجائے گا اور ان دونوں راستوں میں سے ایک اختیار کرنا ہوگا۔ وہ اسلام قبول کرلیں گے یا پھر قتل کردیے جائیں گے ، درمیانی راستہ کوئی نہیں ہوگا۔ اللہ کی مدد : فرمایا ولینصرن اللہ من ینصرہ یادرکھو ! جو شخص اللہ کی مدد کریگا یعنی اس کے دین اور رسول کی مدد کریگا تو خدا تعالیٰ بھی اس کی مدد کریگا۔ بشرطیکہ اس میں خلوت نیت پایا جائے اور طریق کار بھی صحیح ہو۔ دوسری جگہ ہے ان تنصرو اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم (محمد 7) اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم کردے گا۔ اب مسلمانوں پر مصائب آنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ انہوں نے اللہ کے دین کی کماحقہ مدد نہیں کی۔ اس وقت مسلمانوں کی پچاس سے زیادہ ریاستیں دینا میں موجود ہیں مگر کوئی بھی دین کے تقاضے پورے کرنے پر تیار نہیں۔ تمام ملوک ، شیوخ اور ڈکٹیٹر اپنے اپنے ذاتی اقتدار کے بھوکے ہیں۔ مذہب کا نام برائے نام رہ گیا ہے ، ورنہ کام کچھ نہیں ہورہا ہے ذاتی عیش پرستی کا یہ حال ہے کہ افریقہ کی ایک چھوٹی سی ریاست کے سربراہ نے اپنی رہائش گاہ پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔ سنہری گنبد ہے ، اور سینکڑوں کمروں کو اعلیٰ ترین فرنیچر سے مزین کیا گیا ہے۔ یہ دولت تو امانت تھی جسے غرباء اور حاجت مندوں کے کام آنا چاہیے تھا۔ اس قدر فضول خرچی کی ضرور باز پرس ہوگی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اللہ کے دن کی مدد کی جاتی مگر اس کی توفیق کہاں ؟ اسی لئے تو سارے مسلمان سپر پاورز کے دست نگر ہیں۔ اللہ نے فرمایا وہ ضرور مدد کرے گا اس کی جو اس کے دین کی مدد کرے گا۔ کیونکہ ان اللہ لقوی عزیز بیشک اللہ تعالیٰ بڑی طاقت کا مالک اور غالب ہے۔ وہ ہر کام کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ اہل ایمان کو بھی چاہیے کہ عالم اسباب میں رہتے ہوئے خدا کے دین کی تائید کریں جیسا کہ صحابہ کرام ؓ نے دین کی تائید کی۔ اگر آج کا مسلمان بھی صحابہ کرام ؓ کے نقش قدم پر چل نکلے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ان کی ضرور مدد فرمائے گا۔
Top