Mualim-ul-Irfan - Al-Hajj : 41
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اِنْ : اگر مَّكَّنّٰهُمْ : ہم دسترس دیں انہیں فِي الْاَرْضِ : زمین میں اَقَامُوا : وہ قائم کریں الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتَوُا : اور ادا کریں الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَاَمَرُوْا : اور حکم دیں بِالْمَعْرُوْفِ : نیک کاموں کا وَنَهَوْا : اور وہ روکیں عَنِ الْمُنْكَرِ : برائی سے وَلِلّٰهِ : اور اللہ کیلئے عَاقِبَةُ : انجام کار الْاُمُوْرِ : تمام کام
وہ لوگ کہ اگر ہم ان کو زمین میں جمادیں تو وہ قائم کریں گے نماز اور ادا کریں گے زکوٰۃ۔ اور حکم کریں گے نیکی کا اور روکیں گے برائی سے۔ اور اللہ کے اختیار ہی میں ہے انجام تمام امور کا
ربط آیات : گزشتہ سے پیوستہ رکوع میں بیت اللہ شریف کی تعمیرنو کا ذکر ہوا ، اور اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے اور یہ کہ بیت اللہ کو زائرین کے لئے پاک صاف رکھا جائے۔ اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اعلان حج کا حکم بھی دیا اور پھر حج کے بعض احکامات اور قربانی کے مسائل بیان فرمائے۔ پھر ایمان داروں کے دفاع کی ذمہ داری اٹھائی گئی۔ پھر مظلوم مسلمانوں کو جنت کی اجازت دی گئی اور اللہ نے ان سے نصرت کا وعدہ فرمایا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جہاد کا فلسفہ بھی بیان کیا کہ اگر وہ بعض ظالموں کو بعض دوسروں کے ذریعے دفع نہ کرتا تو دنیا میں اس قدر فتنہ و فساد برپا ہوتا کہ کوئی عبادت خانہ بھی ظالموں کی دست برد سے محفوظ نہ رہتا۔ پھر اللہ نے اہل ایمان کو یقین دلایا کہ اس کے دین کی مدد کرنے والوں کی وہ خود مدد کرتا ہے۔ وہ طاقتور غالب اور مدد کرنے پر قادر ہے۔ اسلامی نظام حکومت : اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسلامی نظام حکومت کا ایک خاکہ پیش کیا ہے کہ اگر وہ اہل ایمان کو دنیا میں غلبہ ، اقتدار اور حکومت عطا کرے تو پھر ان کی کارگزاری وہ ہوگی جو اس آیت کریمہ میں بیان کی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے الذین ان مکنھم فی الارض وہ لوگ کہ جب ہم انہیں زمین میں اقتدار عطا کردیں تو وہ اقاموالصلوٰۃ نماز قائم کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی عبادات میں سے اہم ترین عبادت نماز ہے جس کی وجہ سے اہل ایمان کو روحانی فوائد کے کے علاوہ بہت سے مادی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ تعلق باللہ تو روحانی فائدہ ہے جو نمازی کو حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وقت کی پابندی ، احساس ذمہ داری جماعت بندی ، ایک دوسرے سے میل ملاپ اور امداد باہمی جیسی خوبیاں نماز کی بدولت حاصل ہوتی ہیں۔ تو اللہ نے فرمایا کہ اگر ہم اہل ایمان کو زمین پر حکومت دیں گے تو وہ پہلا کام یہ کریں گے کہ نماز کا نظام قائم کریں گے۔ خود بھی نماز پر کاربند ہوں گے اور دوسروں کو بھی اس کا پابند بنائیں گے۔ یہ ایسی عبادت ہے کہ ہر عاقل ، بالغ ، مرد اور عورت پر دن میں پانچ مرتبہ ادا کرنا فرض ہے اور یہ حقوق اللہ میں داخل ہے۔ فرمایا برسراقتدار جماعت کا دوسرا کام یہ ہوگا واتوا الزکوٰۃ کہ وہ زکوٰۃ ادا کریں گے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی حقوق العباد میں شامل ہے اور اس کے ذریعے غریبوں اور محتاجوں کی اعانت کی جاتی ہے۔ اس نظام کی برکات سے کوئی شخص بھوکاننگا نہیں رہ سکتا۔ نظام زکوٰۃ حکومت کے مالیاتی نظام کا ایک اہم حصہ ہے ، لہٰذا کارپرداران حکومت پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف خود زکوٰۃ ادا کریں بلکہ دوسروں کو بھی اس کا پابند بنائیں۔ نیز زکوٰۃ کی وصولی اور مصرف ایک باقاعدہ سکیم کے تحت عمل میں لائیں۔ یہ حکومت کے فرائض میں داخل ہوگا۔ اللہ نے فرمایا کہ امرائے حکومت کے کرنے کا تیسرا کام یہ ہوگا وامروا بالمعروف ونھوا عن المنکر کہ وہ نیکی کا حکم کریں گے اور برائی سے روکیں گے۔ ظاہر ہے کہ وہ خود تو اس اصول کی پابندی کریں گے مگر دوسروں سے پابندی کرنا بھی ان کے فرائض منصبی میں داخل ہوگا۔ نیکی میں تمام معروف چیزیں آجاتی ہیں اور برائی میں ہر نقصان دہ چیز شامل ہے۔ برائی خواہ اس کا تعلق اعتقاد سے ہو ، اخلاقی یا اعمال سے ، اس سے روکنا ضروری ہے۔ اگر کوئی حکومت برائی کو روکنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر دنیا سے فتنہ و فساد ختم ہوجائیگا اور پورا خطہ امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے نظام حکومت کے متعلق ان چار بنیادی اصولوں یعنی اقامت صلوٰۃ ، ادائے زکوٰۃ ، امبر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذکر کردیا ہے۔ ان میں انفرادی اور اجتماعی سارا نظام آجاتا ہے۔ ان پر عملدرآمد سے ایک طرف اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل جیسے روحانی فوائد حاصل ہوتے ہیں اور انسان حقوق اللہ میں سرخروہ ہوتا ہے تو دوسری طرف دنیا کی زندگی میں سکون وچین حاصل ہو کر حقوق العباد کے تقاضے بھی پورے ہوجاتے ہیں۔ اسلامی نظام حکومت کا مکمل نقشہ صرف خلافت راشدہ کے دور میں ملتا ہے۔ اس کے بعض زمان ومکان میں اس کا جستہ جستہ اثرنظر آتا ہے وگرنہ مجموعی طور پر مسلمان ملوکیت کا شکار ہوگئے ، جبرو استبداد کا دور دورہ شروع ہوگیا۔ امراء کی عیاشیوں کی وجہ سے ایک طبقہ بالکل نادارا ہوگیا ، نیکی مغلوب اور شرغالب آگیا۔ اور اس طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا زریں اصول فراموش کردیا گیا۔ اب مسلمان بحیثیت مجموعی انحطاط کے دور سے گزر رہے ہیں۔ دنیا میں جس جگہ محکوم ہیں وہاں تو اسلامی نظام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ جہاں جہاں علاقائی طور پر مسلمان غالب بھی ہیں۔ اور ان کی ریاستیں بھی موجود ہیں۔ وہاں بھی اسلامی نظام حکومت کی جھلک مشکل سے ہی نظر آتی ہے۔ بعض ملکوں نے اسلام کے کچھ اصول اپنائے ہیں مگر کچھ تو اپنی نااہلی اور ذاتی مفاد کی وجہ سے اور کچھ غیر مسلم بڑی طاقتوں کے دبائو کی وجہ سے مکمل اسلامی نظام حکومت کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ خلافت علی منہاج النبوت : مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خلافت علیٰ منہاج النبوت کا طرف اشارہ فرمایا ہے کہ عنقریب ایک وقت آنے والا ہے جب کہ خلافت راشدہ کا بوجھ اٹھانے والے آیت میں مذکور تمام شرائط پر پورا اتریں گے۔ اللہ نے یہ خلافت قائم کرنے والوں کی نشاندہی بھی فرمادی ہے ، گزشتہ آیت میں گزر چکا ہے کہ ان صفات کے حاملین وہ لوگ ہوں گے الذین اخرجوا من دیارھم بغیر حق جن کو ان کے گھروں سے ناحق نکالا گیا ان کا قصور صرف یہ تھا ان یقولوا بنا اللہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔ یہ وہی پاکیزہ روحیں ہیں جنہیں مشرکین کی زیادتی سے تنگ آکر مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ اس بات کا اشارہ اللہ نے سورة توبہ میں بھی کردیا والسبقون………………والانصار (آیت 100) یہ اولین سبقت کرنے والے مہاجر لوگ تھے جو مدینے پہنچے تو انصار ان کے معاون بن گئے۔ اللہ نے خلافت راشدہ انہی مہاجرین کے ذریعے قائم کی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، عمر فاروق ؓ ، عثمان غنی ؓ ، اور علی مرتضی ؓ سب مہاجرین ہی تو تھے۔ جب اللہ نے انہیں اقتدار عطا فرمایا تو انہوں نے اس آیت کے تقاضوں کو حرف بحرف پورا کیا۔ خلافت راشدہ میں اقامت صلوٰۃ کا اتنا اعلیٰ انتظام تھا کہ حضرت عمر ؓ (موطا امام ص 5) نے اپنے تمام گورنروں کو سرکلر جاری کیے ان من اھم امورکم عندی الصلوٰۃ (موطا امام ملک) تمہارے تمام امور میں میرے نزدیک نماز کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ جس نے نماز کی حفاظت کی وہ باقی دین کی حفاظت بھی کرے گا ، اور جس نے نماز کو ضائع کردیا۔ وہ دین کے باقی امور کو بہت زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا۔ نماز کے لئے ایسا مکمل نظام ہونا چاہیے کہ کوئی فردواحد بھی بےنماز نہ ہو۔ خلافت راشدہ کے پورے دور میں آپ کو یہ نظام روز روشن کی طرح ملے گا۔ اسی طرح خلفائے راشدین نے زکوٰۃ کا ایسا عمدہ نظام قائم کیا کہ زکوٰۃ قوم کے امراء سے وصول کرکے غرباء میں تقسیم کی جاتی تھی تاکہ کوئی آدمی بھوکا پیاسانہ ہو۔ حضور ﷺ (مسلم ص 36 ج 1 (فیاض) کا ارشاد ہے توخذ من اغنیاء کم وترد الی فقراء کم مسلمانوں کے خوشحال لوگوں سے زکوۃ وصول کرو محتاجوں میں تقسیم کردو۔ چنانچہ خلفائے راشدین نے زکوٰۃ کا مثالی نظام قائم کیا۔ حتیٰ کہ ایک زمانے میں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں تھا۔ اس زمانے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نظام بھی اعلیٰ پیمانے پر کیا گیا اور خلفائے راشدین نے ہر نیکی کے کام کی حوصلہ افزائی کی اور ہر برائی کی جڑ بنیاد کاٹ دی۔ غرضیکہ اس آیت میں مذکورہ چاروں کام خلفائے راشدین نے کماحقہ انجام دیے۔ اسی لئے ان کی خلافت کو ” خلافت علیٰ منہاج النبوۃ “ کہا جاتا ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ : شاہ عبدالقادر دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت میں بلا شبہ خلافت راشدہ کی طرف اشارہ ہے مگر آخری حصے میں اس کے برعکس بھی اشارہ ملتا ہے۔ آخر میں ارشاد ہے وللہ عاقبۃ الامور تمام معاملات کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ مطلب یہ کہ یہ ضروری نہیں کہ خلافت راشدہ کا نظام دنیا میں ہمیشہ قائم رہے بلکہ آگے چل کر اس میں تغیرات بھی آسکتے ہیں ابتدائی پچاس سال کے بعد خلافت راشدہ کی کچھ جھلکیاں صدیوں تک نظر آتی رہیں مگر بالآخر نظام میں خرابیاں پیدا ہوگئیں۔ خلوص کی بجائے خود غرضی آگئی اجتماعی فائدے کی بجائے ذاتی فائدے کو ترجیح دی گی۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر برائے نام رہ گیا۔ معروف کے برخلاف منکرات کا غلبہ ہوگیا۔ زکوٰۃ کی روح ختم ہوگئی ، بےنمازوں کی اکثریت ہونے لگی ، حکام خلاف شرع کاموں کے مرتکب ہونے لگے ، ظلم وتعدی کا دور دورہ آگیا ، لوگ کھیل تماشے کی طرف راغب ہوگئے زیب وزینت اور آرام طلبی گھر کرنے لگی اور اس طرح اسلامی نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ دنیا بھر میں دیکھ لیں اخبارات اور رسالے منکرات سے لبریز ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ ریڈیو ، ٹیلیویژن وغیرہ کے ذریعے فحاشی پھیلائی جارہی ہے کہیں کہیں نیکی کی آواز بھی نکلتی ہے مگر برائی کے مقابلے میں اس کو وقت ہی کتنا دیا جاتا ہے۔ تھوڑی سی تلاوت ہوگئی ، کچھ ترجمہ کردیا ، چلتے چلتے ایک آدھ حدیث سنادی اور پھر وہی گانے ، ڈرامے اور فلمیں۔ وہی عشق و محبت کی داستانیں اور وہی دین سے بیگانہ کرنے والے پروگرام ۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ۔ سینما گھروں ، تھیٹروں اور کلبوں سے اچھائی کی کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ یہ تمام ذرائع ابلاغ قوم کے اخلاق کو تباہ کر رہے ہیں۔ اس زمانے کا نظام عدل ہی دیکھ لیں۔ کیا کسی غریب آدمی کو انصاف میسر آسکتا ہے ؟ یہاں تو انصاف خریدنا پڑتا ہے ، جس کے پاس پیسے ہیں۔ پولیس بھی اس کی ہے اور عدالت بھی اس کے گھر کی لونڈی ہے۔ مقدمات کا فیصلہ حقائق کی بجائے رشوت اور سفارش پر ہوتا ہے۔ جس کے پاس یہ چیزیں نہیں ہیں ، اسے انصاف کہاں سے ملے گا ؟۔ جوا ، شراب نوشی ، بدکاری ، سمگلنگ ، ڈاکے ، چوری ، اغواء غرضیکہ وہ کون سا جرم ہے جو معاشرے میں نہیں ہوتا۔ اس کے برخلاف نماز میں کتنے لوگ شریک ہوتے ہیں۔ نماز کی پابندی کے لئے حکومت نے کتنی کوشش کی ہے۔ محض تقریروں سے تو کام نہیں چلتا ، اس کے لئے تو عملی اقدام کی ضرورت ہے۔ موطا امام مالک میں آتا ہے کہ ایک دن سلیمان نامی شخص نماز میں شامل نہ ہوا۔ حضرت عمر ؓ ہر ایک کو نگاہ میں رکھتے تھے ، فوراً اس شخص کے گھر پہنچے۔ اس کی والدہ نے بتایا کہ سلیمان رات دیر تک نماز پڑھتا رہا ، صبح آنکھ لگ گئی تو فجر کی نماز میں حاضر نہیں ہوسکا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ میں تو اس چیز کو پسند کرتا ہوں کہ ساری رات سوتا رہوں اور صبح فجر کی نماز میں حاضر ہوجائوں۔ آپ نے اس شخص کو اس کوتاہی پر ڈانٹ پلائی۔ انہی انتظامات کی وجہ سے سارے لوگ نمازی تھے ، ہر ایک کو فکر تھی مگر یہاں تو کچھ بھی نہیں۔ نہ کوئی نیکی کی طرف راغب کرتا ہے اور نہ برائی سے روکتا ہے نتیجہ ظاہر ہے کہ ہر طرف بد امتی کا دور دورہ ہے۔ ہر قسم کی برائیاں گھروں میں گھسی بیٹھی ہیں مگر کوئی کسی کو کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ تسلی کا مضمون : چونکہ مکی زندگی کے آخری دور میں اہل ایمان کے مصائب میں کئی گنااضافہ ہوگیا تھا ، اس لئے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو تسلی دی ہے فرمایا ، فکر ن کریں ان یکذبوک اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلاتے ہیں فقد کذبت قبلھم قوم نوح وعاد وثمود ، تو بیشک ان سے پہلے قوم نوح ، قوم عاد اور قوم ثمود نے بھی اپنے اپنے نبیوں کی تکذیب کی۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے آپ کو جھٹلایا ، قوم عاد نے حضرت ہودعلیہ السلام کی تکذیب کی اور قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو جھٹلایا فرمایا وقم ابراھیم ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کے ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک کے ہر شخص نے آپ کی تکذیب کی حتیٰ کہ آپ کو آگ میں پھینک دیا۔ اسی طرح وقوم لوط لوط (علیہ السلام) کی قوم نے بھی آپ کی بات کو تسلیم نہ کیا۔ قوم نے آپ کے ساتھ بڑی بدسلوکی کی اور آپ کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں واصحب مدین اور شعیب (علیہ السلام) کی قوم مدین والوں نے بھی آپ کی تکذیب کی اور آپ کی کوئی بات نہ مانی۔ وکذب موسیٰ اور موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی جھٹلایا گیا۔ انہیں جادوگر کہہ کر ان کے ساتھ مقابلہ کیا گیا۔ جب آپ اپنی قوم کے ساتھ مصر سے نکل کھڑے ہوئے تو آپ کا پیچھا کیا گیا مگر اللہ نے ان کو پانی میں غرق کردیا۔ ظالم اقوام کی ہلاکت : اللہ نے فرمایا مکذبین کی ان تمام تر زیادتیوں کے باوجود فاملیت للکفرین ، میں نے کافروں کو مہلت دی۔ ان کو ایمان لانے کا موقع دیا ۔ پھر جب وہ کسی طرح بھی راہ راست پر نہ آئے ثم اخذتھم تو میں نے ان کو پکڑ لیا۔ اس کو سخت سزادی۔ کسی کو پانی میں ڈبویا ، کسی پر پتھر برسائے ، کسی کو تیز ہوا نے تہس نہس کیا اور کسی کو چیخ نے آلیا۔ بالآخر ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ سورة الانعام میں اللہ نے فرمایا فقطع……………ظلموا (آیت 45) پھر ظلم کرنے والی قوم کی جڑ کاٹ دی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے نافرمانوں کو صفحہ ہستی سے نابود کردیا۔ فکیف کان نکیر پس کیسے ہوئی میری گرفت اس مقام پر ارشاد ہوا ہے۔ فکاین من قریۃ اھلکنھا اور کتنی ہی بستیاں ہیں جن کو ہم نے ہلاک کردیا وھی ظالمۃ اور وہ ظلم کرنے والے تھے فھی خاویۃ علی عروشھا وہ اپنی چھتوں کے بل گری پڑی ہیں۔ جب اسرائیلیوں نے زمین میں ظلم و زیادتی کا ارتکاب کیا تو اللہ نے ان پر جابر لوگوں کو مسلط کردیا۔ ان کے گھر اور عبادت خانے گرادیے گئے ، ان کے مردوں کو قتل کیا گیا اور عورتوں اور بچوں کو لونڈی اور غلام بنالیا گیا۔ بخت نصراسرائیلیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کرلے گیا ، اور انہوں نے بابل میں سو سال تک ذلت کی زندگی گزاری ان کی بستیاں ویران ہوچکی تھیں گویا کہ وہ الٹا دی گئی ہوں۔ بعض قوموں کو اللہ تعالیٰ نے زلزلے کے ذریعے اور بعض کو طوفان ، بادوباراں کے ذریعے ہلاک کردیا۔ بہرحال اللہ نے فرمایا کہ ہم نے بہت سی بستیوں کو ہلاک کردیا جن کے رہنے والے ظالم تھے۔ پرانے زمانے میں کسی بستی کا کنواں زندگی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ آج تو فراہمی آپ کے جدید نظام رائج ہیں۔ پہلے وقتوں میں کنویں ہی پانی کی بہم رسانی کا واحد ذریعہ ہوتے تھے۔ تو فرمایا کہ بستیوں کو اس طور ہلاک کیا وبئر معطلۃ کہ ان کے کنوئیں بھی ویران پڑے ہیں۔ جب پانی نکالنے والا ہی کوئی نہیں رہا تو ظاہر ہے کہ کنوئیں بھی اجڑ گئے۔ وقصر مشید اور رہائش کے لئے استعمال ہونے والے بڑے بڑے مضبوط محلات بھی اجڑے پڑے ہیں۔ ان میں رہنے والے بڑے بڑے امراء اور رئوسانیست ونابود ہوچکے ہیں اور وہ محلات جنوں کی آما جگاہ معلوم ہوتے ہیں۔ الغرض اللہ نے پرانی قوموں کا انجام بیان کرکے تنبیہ فرمائی کہ اگر تم بھی سابقہ اقوام کی طرح اللہ کے رسولوں کی تکذیب کرو گے ظلم وستم کا بازار گرم کرو گے تو تمہارا انجام بھی ان سے مختلف نہیں ہوگا چناچہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں بڑے بڑے ائمۃ الکفر مارے گئے ، جو بچ گئے انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ابوجہل نے اپنے ایک اونٹ کی ناک میں سونے کی نکیل ڈال رکھی تھی۔ حضرت عمر ؓ نے اس اونٹ کو قربانی کا جانور بنا کر اللہ کی نیاز کے طور پر بیت اللہ میں بھیج دیا۔ کفار ومنکرین کا حال بان کرکے حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ کو تسلی دی گئی ہے کہ پہلے لوگوں کا بہت برا انجام ہوا۔ اگر مشرکین بھی شرارتوں سے باز نہ آئے تو یہ بھی خدا کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے۔
Top