Mualim-ul-Irfan - Al-Hajj : 55
وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْهُ حَتّٰى تَاْتِیَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً اَوْ یَاْتِیَهُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَقِیْمٍ
وَلَا يَزَالُ : اور ہمیشہ رہیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا فِيْ : میں مِرْيَةٍ : شک مِّنْهُ : اس سے حَتّٰى : یہاں تک تَاْتِيَهُمُ : آئے ان پر السَّاعَةُ : قیامت بَغْتَةً : اچانک اَوْ يَاْتِيَهُمْ : یا آجائے ان پر عَذَابُ : عذاب يَوْمٍ عَقِيْمٍ : منحوس دن
اور ہمیشہ رہیں گے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا شک میں اس (قرآن) کی طرف سے ، یہاں تک کہ آجائے ان کے پاس قیامت اچانک ، یا آجائے ان کے پاس عذاب سخت دن کا
ربط آیات : گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا تھا کہ جب بھی اللہ کے نبی اللہ کا کلام یا احکام پڑھتے ہیں تو شیطان اس میں رخنہ اندازی کرتا ہے وہ لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات اور غلط خیالات ڈالتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی مہربانی شامل ہوتی ہے تو وہ شیطان کی وسوسہ اندازی کو زائل کردیتا ہے ، اور حق بات کو ثابت رکھتا ہے۔ اس سے ایمان والوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے لئے عاجزی پیدا ہوتی ہے اور منافق اور مشرک فتنے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ کفار کا شک وتردد : اب اس آی ت میں کفار کے شک وتردد کا ذکر ہے کہ قرآن پاک کے متعلق ان کے شبہات ہمیشہ قائم رہیں گے حتیٰ کہ ان کا خاتمہ ہوجائے ارشاد ہوتا ہے ولا یزال الذین کفروا فی مریۃ منہ اور کافر لوگ ہمیشہ شک وتردد میں پڑے رہیں گے اس قرآن کی طرف سے۔ ان کے ذہن ہمیشہ پراگندہ رہتے ہیں اور وہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے حتی تاتیھم الساعۃ بغتۃ یہاں تک کہ اچانک قیامت واقع ہوجائے اویاتیھم عذاب یوم عقیم یا ان پر سخت دن کا عذاب نازل ہوجائے۔ عقیم بانجھ کو کہتے ہیں ، یعنی وہ جس میں خیر نہ ہو۔ قرآن میں ریح عقیم بھی آتا ہے یعنی سخت مضر اور غیر مفید ہوا۔ بانجھ عورت بھی غیر مفید ہوتی ہے کیونکہ اس سے اولاد نہیں ہوتی اور وہ منحوس سمجھی جاتی ہے۔ تو قیامت کا دن کافروں کے لئے منحوس دن ہوگا جس دن ان کا محاسبہ اعمال ہوگا اور پھر انہیں سزا ملیگی۔ خدا تعالیٰ کی بادشاہی : اسی قیامت کے دن کے متعلق فرمایا الملک یومئذ للہ آج کے دن بادشاہی خدا تعالیٰ کے لئے ہوگی۔ دنیا میں تو مجازی طور پر اقتدار بعض انسانوں میں ہوتا ہے اگرچہ حقیقی بادشاہی اللہ ہی کی ہوتی ہے مگر قیامت کو یہ مجاز بھی ختم ہوجائے گا۔ اور ظاہری باطنی ہر طرح کی حکومت اور اقتدار اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہوگا۔ یحکم بینھم ، پھر اللہ تعالیٰ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ فالذین امنوا وعملوا الصلحت پس وہ لوگ جو دنیا میں ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال انجام دیے فی جنت النعیم وہ نعمت کے باغوں میں ہوں گے اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت کے مقام جنت میں داخل کریگا۔ جہاں انہیں ہر طرح کا آرام و راحت حاصل ہوگی۔ برخلاف اس کے والذین کفروا وکذبوا بایتنا جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا توحید ، احکام الٰہی ، کتب سماویہ ، ملائکہ ، رسل اور قیامت کی تکذیب کی فاولئک لھم عذاب مھین یہی لوگ ہیں جن کے لئے ذلت ناک عذاب ہوگا۔ اس کے لئے عزت کا وہاں کوئی موقع نہیں ہوگا۔ مہاجرین کی حوصلہ افزائی : اب اللہ تعالیٰ نے اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ والذین ھاجروا فی سبیل اللہ اور وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی۔ اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے اپنا وطن ، خویش و اقارب ، دوست احباب ، زمین ، مکان اور تجارت کو چھوڑا ، اور اللہ کی رضا کے طلبگار ہوئے ثم قتلوا پھر یا تو راہ حق میں کفار کے ہاتھوں شہید کردیے گئے اوماتوا یا طبعی موت مرگئے لیرزقنھم اللہ رزقا حسنا اللہ تعالیٰ ان کو باعزت روزی عطا فرمائے گا وان اللہ لھو خیرالرزقین ، بیشک اللہ تعالیٰ بہترین روزی دینے والا ہے اور اس میں ان اہل ایمان کی طرف اشارہ ہے جو مکہ سے مدینے کی طرف ہجرت کرگئے۔ وہ اپنی ہر چیز مکہ میں چھوڑ چھاڑ کر چلے گئے اور ان کی اکثریت بالکل تہی دست ہوگئی تھی۔ سورة الحشر میں بھی اللہ تعالیٰ نے فقرا مہاجرین کی تعریف کی ہے۔ للفقرآء …………………الصدقون (آیت 8) مال فے کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ اس میں ان غریب مہاجرین کا بھی حصہ ہے جو اپنے گھروں اور مالوں سے بےدخل کردیے گئے اور جو اللہ کا فضل اور اس کی رضا کے متلاشی ہیں۔ اللہ کے دین اور اسکے رسول کی مدد پر کمر بستہ ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں۔ چنانچہ مہاجرین کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بلند مرتبہ عطا فرمایا۔ وہ خالی ہاتھ آئے تھے مگر اللہ نے ان کو تجارت اور دیگر ذرائع سے کثیر مال و دولت عطا فرمایا اور اس طرح ان کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ ان کے متعلق یہ خوشخبری بھی سنائی لیدخلنھم مدخلا یرضونہ اللہ تعالیٰ یقینا انہیں ایسے مقامات میں داخل کریگا۔ جس کو وہ پسند کریں گے ، اور یہ خدا تعالیٰ کی رحمت کا مقام جنت ہے ، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے وان اللہ لعلیم حلیم اور بیشک اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور بردبار ہے ، وہ نافرمانوں کی نافرمانی اور سرکشوں کی شرارت پر جلد گرفت نہیں کرتا بلکہ بسا اوقات مہلت دیتا ہے اور یہی اس کی بردباری اور تحمل کی نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت : آگے ارشاد ہوتا ہے ذلک یہ بات تو ہوچکی اور تم نے سن لی۔ دوسری بات یہ ہے ومن عاقب بمثل ماعوقب بہ اور جس شخص نے بدلہ لیا اسی کی مانند جیسا کہ اس کو اذیت پہنچائی گئی تھی ثم بغی علیہ پھر اس پر سرکشی کی گئی لینصرنہ اللہ تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی مدد فرمائے گا اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مشرکین مکہ نے اہل ایمان کو تیرہ سال تک تخت تکلیفیں دیں حتیٰ کہ انہیں ہجرت پر مجبور کردیا۔ پھر اللہ نے اس سے بدر کے معرکے میں انتقام لیا۔ گویا جس طرح کافروں اور مشرکوں نے مسلمانوں کو مکہ میں تنگ کیا ، اس کا بدلہ مسلمانوں نے جنگ بدر میں لے لیا۔ اس کے بعد اگر کافروں نے پھر مسلمانوں پر سرکشی کی جیسا کہ احد اور خندق کے مواقعات پر کی تو اللہ نے فرمایا کہ وہ مظلوم مسلمانوں کو ضرور مدد کرے گا۔ چناچہ ان دونوں مواقع پر کافروں نے مسلمانوں کو نیست ونابود کرنے کی کوشش کی مگر اللہ کی نصرت آڑے آئی اور دونوں مواقع پر کافر اور مشرک ناکام لوٹ گئے۔ جنگ خندق کے موقع پر مسلمانوں نے مدینے کے تین اطراف میں خندق کھود کر اور چوتھی طرف سے ذاتی طور پر دفاع کرکے کافروں کو شہر میں داخل ہونے سے روکے رکھا۔ پھر اللہ نے تندوتیز ہوا بھیج کر دشمن کے لشکر کو درہم برہم کردیا اور فرشتوں نے انہیں دھکیل دھکیل کر واپس جانے پر مجبور کردیا ، یہی اللہ تعالیٰ کی نصرت تھی۔ فرمایا ان اللہ لعفوغفور ، بیشک اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا اور بہت بخشش کرنے والا ہے۔ مطلب یہ کہ اگر یہ سرکش لوگ اس تمام تر زیادتی کے باوجود آئندہ کے لئے باز آجائیں تو اللہ تعالیٰ ان کی کوتاہیوں کو معاف فرمادیگا کیونکہ وہ بہت بخشش کرنے والا ہے۔ توحید الٰہی کی دلیل : فرمایا ذلک یہ اس وجہ سے بان اللہ یولج الیل فی النھار کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں داخل کرتا ہے ویولج النھار فی الیل اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت اور اس کی وحدانیت کی دلیل ہے کہ کائنات کے تمام تصرفات اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور دن اور رات کا نظام اس نے کمال حکمت کے ساتھ بنارکھا ہے وان اللہ سمیع بصیر ہر بات کو سننا اور ہر چیز کو دیکھنا اسی کا کام ہے۔ کوئی چیز اس کے احاطہ علم سے باہر نہیں۔ جب تصرفات اس کے ہاتھ میں ہیں تو وہ مظلموں کی مدد کرنے پر بھی قادر ہے اور وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا۔ فرمایا ذلک یہ اس لئے بان اللہ ھوالحق کہ بیشک اللہ تعالیٰ ہی برحق ہے۔ حق کا معنی قائم ، ثابت اور صحیح ہوتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا نشان ہے وان ما یدعون من دونہ ھوالباطل اور جس کو یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں۔ وہ باطل ہے ۔ غیر اللہ کی عبادت بلاشبہ بےحقیقت اور غلط ہے۔ حق بات یہ ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کی جائے کیونکہ وہی ذات قائم دائم اور برحق ہے۔ فرمایا یاد رکھو وان اللہ ھو العلی الکبیر بیشک اللہ تعالیٰ ہی بلند مرتبت اور بڑائی والا ہے۔ تمام کبریائی اسی کو سزاوار ہے۔ تمام چیزوں کا مافوق الاسباب کنٹرول اسی کے ہاتھ میں ہے ، لہٰذا عبادت بھی اسی کی ہونی چاہیے۔ مردہ دلوں کی زندگی : ارشاد ہوتا ہے الم تران اللہ انزل من السماء ماء کیا تم نے اس پر حقیقت پر غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کی طرف سے پانی نازل فرمایا فتصبح الارض مخضرۃ اور اس کے ذریعے زمین کو سرسبز وشادب بنادیا۔ بارش برسا کر مردہ زمین کو نئی زندگی بخشنا ، اس میں پھل ، پھول ، درخت اور اناج پیدا کرنا اسی مالک الملک کا کام ہے جس طرح وہ بارش کے ذریعے زمین کو تروتازگی بخشتا ہے۔ اسی طرح وہ وحی الٰہی کے ذریعے کفر وشرک کی وجہ سے مردہ دلوں کو نئی زندگی بخشتا ہے فرمایا۔ ان اللہ لطیف خبیر بیشک اللہ تعالیٰ بہت باریک بین اور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔ لہ مافی السموت وما فی الارض اسی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ ہر چیز اسی کی پیدا کردہ اور اسی کے تصرف میں ہے۔ وہ ہر چیز کا مالک ہے۔ وان اللہ لھو الغنی الحمید بیشک اللہ تعالیٰ وہی بےنیاز اور تعریفوں والا ہے۔ وہ غنی ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہیں۔ برخلاف اس کے ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے۔ وہ تعریفوں والا ہے کہ کوئی اس کی تعریف کرے یا نہ کرے ، وہ پھر بھی سب تعریفوں کا مستحق ہے۔ ساری حمدوثنا کا سزاوار وہی ہے۔ وہ غنی ہے اور باقی سب محتاج ہیں۔
Top