Mualim-ul-Irfan - Al-Hajj : 70
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ فِیْ كِتٰبٍ١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ
اَلَمْ تَعْلَمْ : کیا تجھے معلوم نہیں اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا : جو فِي السَّمَآءِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین اِنَّ : بیشک ذٰلِكَ : یہ فِيْ كِتٰبٍ : کتاب میں اِنَّ : بیشک ذٰلِكَ : یہ عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر يَسِيْرٌ : آسان
کیا آپ نہیں جانتے کہ بیشک اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ بلاشبہ یہ بات کتاب میں (لکھی ہوئی) ہے۔ بیشک یہ بات اللہ پر آسان ہے
ربط آیات : گزشتہ آیات میں قربانی کا ذکر اور کفروشرک کا رد تھا۔ اللہ نے توحید کے کچھ دلائل بیان فرمائے اور قربانی کے متعلق فرمایا کہ ہم نے ہر امت کے لئے قربانی کا ایک طریقہ مقرر کیا ہے۔ اور اگر یہ لوگ اس معاملہ میں کوئی جھگڑا کریں تو اللہ نے اپنے نبی کو فرمایا کہ آپ انہیں توحید کی طرف دعوت دیں ، نیز بتادیں کہ اللہ تعالیٰ تمہاری کار گزاریوں کو جانتا ہے ، اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کے متعلق وہ قیامت کو فیصلہ کردے گا۔ متعلقات قربانی : گزشتہ آیات میں قربانی کا خصوصی ذکر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ہر امت کے لئے قربانی کا طریقہ مقرر کیا ہے تاکہ معلوم دنوں میں لوگ حلال مویشیوں کو اللہ کے نام لے کر ذبح کریں۔ اس قربانی کو اپنی جان کا بدل سمجھیں اور اس طرح جذبہ قربانی کو زندہ رکھیں۔ امام ابوبکر حبصاص (رح) فرماتے ہیں کہ ائمہ اہل سنت کے نزدیک قربانی واجب ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) ، امام محمد (رح) ، امام ابو یوسف (رح) اور امام زفر (رح) بھی اسی کے قائل ہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے استاذ الاستاذ امام ابراہیم نخعی (رح) فرماتے ہیں کہ قربانی صاحب نصاب مقیم آدمی پر واجب ہے ، مسافر کے لئے ضروری نہیں۔ حاجی بھی چونکہ مسافر ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی ہر سال گھر پر کی جانے والی قربانی واجب نہیں ہوتی۔ تاہم امام مالک (رح) کے نزدیک ہر صاحب حیثیت پر قربانی ضروری ہے خواہ مقیم ہو یا مسافر۔ البتہ شافعی (رح) کے نزدیک عیدالاضحی کی قربانی سنت موکدہ ہے۔ قربانی تین ایام یعنی دس ، گیارہ اور بارہ ذی الحج کو کی جاسکتی ہے صحیحین (بخاری ص 835 ج 2 و مسلم ص 158 ج 2 وابودائود ص 388 وموطا امام مالک ص 187 (فیاض) کی روایت میں آتا ہے کہ ایک سال حضور ﷺ نے تین دن سے زیادہ گوشت رکھنے کی ممانعت فرمادی۔ وجہ یہ تھی کہ اس سال بہت سے غریب لوگ باہر سے مدینہ منورہ آگئے تھے اور اگر مدینہ کے لوگ قربانی کا گوشت زیادہ دنوں تک کے لئے محفوظ کرلیتے تو ان غرباء کو کچھ نہیں مل سکتا تھا۔ لہٰذا آپ نے فرمایا کہ اپنے لئے تین دن سے زیادہ گوشت نہ رکھو۔ جو تین دن کی ضروریات سے زیادہ ہو ، اسے غریبوں میں تقسیم کردو۔ پھر اگلے سال آنحضرت (علیہ السلام) نے حکم دیا کہ سابقہ حکم منسوخ ہے اب گوشت خشک کرکے جتنے دن تک چاہو رکھ سکتے ہو اس روایت میں چونکہ تین دن کا ذکر ہے اس لیے جمہور ائمہ کرام تین دن کی قربانی کے ہی قائل ہیں۔ امام شافعی (رح) قربانی کو ایام تشریق کے ساتھ منسلک کرتے ہیں جو کہ چار دن ہیں یعنی دسویں تا تیرھویں ذی الحج۔ امام احمد (رح) فرماتے ہیں کہ چار دن والی روایت میں راوی کو بیان کرنے میں غلطی ہوئی ہے۔ اس نے بیان کیا ہے ایام منی کلھا منحر یعنی منیٰ میں ٹھہرنے کے سارے دن (ایام تشریق) قربانی کے دن ہیں حالانکہ حضور ﷺ نے قیام عرفہ کے متعلق فرمایا تھا العرفات کلہا موقف یعنی سارا میدان عرفات موقف ہے ، نو تاریخ جہاں کسی کا جی چاہے ٹھہر جائے۔ البتہ اس میں وادی عرنہ شامل نہیں جو مسجد نمرہ کے عقب میں نشیبی جگہ ہے۔ اسی طرح حضور ﷺ نے فرمایا کہ مزدلفہ میں ہر جگہ ٹھہر سکتے ہو سوائے وادی محسر کے کہ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے ہاتھی والوں پر عذاب نازل فرمایا تھا جس کا ذکر سورة الفیل میں موجود ہے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مکہ کی گلیاں اور بازار اور سارے میدان منیٰ میں جہاں چاہو قربانی کرلو۔ مگر آج کل انتظامی امور کے تحت حکومت وقت نے منیٰ میں قربانی کے لئے بعض قربان گاہیں مقرر کردی ہیں اور حاجی لوگ ان مقررہ قربان گاہوں میں ہی قربانی کرتے ہیں ہر خیمے میں قربانی کرنے سے صفائی کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ بہرحال حضور ﷺ نے ایام تشریق کو کہیں بھی قربانی کے دن نہیں فرمایا ، لہٰذا صحیح بات یہی ہے کہ قربانی صرف تین دن ہوتی ہے۔ حضرت علی ؓ اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ بھی فرماتے ہیں کہ قربانی دس تاریخ اور دو دن بعد ہے لہٰذا قربانی کے کل ایام تین ہی ہیں۔ اللہ کا علم محیط : اس اسی سلسلے میں ارشاد ہوتا ہے الم تعلم اے مخاطب ! کیا تو نہیں جانتا ؟ اگر یہ بات تجھے معلوم نہیں تو جان لینا چاہیے اور اس پر قطعی یقین رکھنا چاہیے کہ ان اللہ یعلم مافی السماء والارض بیشک اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے۔ اس کا علم ہر چیز پر حاوی ہے۔ قرآن پاک میں ہے واللہ بکل شیء علیم۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے۔ وہ نہ صرف ذاتی طور پر ہر چیز کا علم رکھتا ہے بلکہ ان ذلک فی کتب کائنات کی ہر چیز لوح محفوظ میں بھی درج ہے۔ لوح محفوظ کے اندراج کو تقدیر کتابی کہتے ہیں اور تمام اہل سنت والجماعت کا اس پر ایمان ہے خلقہ فقدرہ (عبس 19) اللہ نے انسان کو پیدا کیا ، پھر اس کی تقدیر بنائی ۔ صحیح حدیث میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں قدر مقادیر الخلق قبل خلق السموت والارض خمسین الف سنۃ یعنی اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوق کی تقدیر بنائی۔ تقدیر کی تین قسمیں : محدثین کرام تقدیر کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلے نمبر پر تقدیر ارادی ہے۔ یعنی کائنات میں جو کام بھی واقع ہوتا ہے ، وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے سے ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ کی مشیت کے بغیر بھی کوئی چیز واقع ہوسکتی ہے تو اس کا عقیدہ مشرکانہ سمجھا جائے گا۔ تقدیر کی دوسری قسم علمی تقدیر ہے یعنی کائنات کی پیدائش سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ ہر چیزکو جانتا تھا ، کہ فلاں چیز فلاں وقت پر ظاہر ہوگی۔ اور فلاں واقعہ اس طرح پیش آئیگا۔ اس پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ اللہ کا فرمان ہے الا یعلم من……………الخبیر (الملک 14) کیا وہی نہیں جانے گا جس نے خود ہر چیز کو پیدا کیا ؟ حالانکہ وہ باریک بین اور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔ وہ تو ازل سے ہر چیز کو جانتا ہے۔ جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ کسی واقع ہوچکی یا آئندہ پیش آنے والی چیز کو نہیں جانتا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ سابقہ موجودہ اور آئندہ پیش آنے والی ہر چیز کو اللہ نے کتاب یعنی لوح محفوظ میں بھی لکھوا دیا ہے۔ اس مقام پر بھی یہی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے اور ہر چیز لوح محفوظ میں بھی درج ہے۔ فرمایا ان ذلک علی اللہ یسیر ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے لئے آسان ہے۔ یہ اس کے لئے کوئی مشکل کام نہیں۔ وہ تو قادر مطلق اور علیم کل ہے ، اس کے لئے کون سی بات مشکل ہے ؟ غیر اللہ کی بلادلیل عبادت : آگے اللہ نے مشرکوں کا رد فرمایا ہے ویعبدون من دون اللہ مالم ینزل بہ سلطنا یہ لوگ ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جن کے متعلق اللہ نے کوئی سند اور دلیل نہیں فرمائی۔ غیر اللہ کی عبادت پر نہ کوئی عقلی دلیل پیش کی جاسکتی ہے ، نہ نقلی اور نہ مشاہداتی۔ اسی لئے قرآن میں بار بار بیان کیا گیا ہے کہ کفر اور شرک کرنے والے کے پاس لابرھان لہ بہ (المومنون 117) قطعاً کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ وہ تو صرف آبائواجداد یا خاندان اور برادری کے رسم و رواج کو ہی دلیل کے طور پر پیش کرسکتا ہے۔ جس کے متعلق اللہ نے فرمایا اولوکان…………یھتدون (البقرہ 170) اگرچہ ان کے آبائو اجداد بےعلم اور غیر ہدایت یافتہ ہی کیوں نہ ہوں ، مگر یہ بلا سوچے سمجھے اسی ڈگر پر چلے جا رہے ہیں۔ ہاں اگر آباو اجداد صحیح راستے پر ہوں تو پھر ان کا اتباع کرنا فخر کی بات ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بھی تو یہی کہا تھا۔ واتبعت……………ویعقوب (یوسف 38) میں تو اپنے باپ دادا ابراہیم ، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) کی ملت پر چلتا ہوں اور انہی کا اتباع کرتا ہوں۔ آبائو اجداد کے اختیار کردہ غلط راستے پر چلنا اندھی تقلید کہلاتا ہے۔ فرمایا مشرک لوگ اللہ کے سوا ایسی چیز کی پرستش کرتے ہیں جس کے متعلق نہ تو ان کے پاس کوئی دلیل ہے وما لیس لھم بہ علم اور نہ ہی ان کے پاس اس چیز کا کوئی علم ہے۔ یہ تو پوجا کی جانے والی چیز کی حقیقت سے ہی نابلد ہیں۔ یہ لوگ بعض بےجان چیزوں سے حاجت روائی کرتے ہیں جو کہ ویسے ہی بےجان ہیں۔ یا ان کو اپنا سفارشی تسلیم کرکے ان کی عبادت کرتے ہیں جیسا کہ اللہ نے ان کا یہ بیان نقل فرمایا۔ وما نعبدھم……………زلفی (الزمر 3) ہم تو ان کی اس لئے عبادت کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیتے ہیں یعنی ہماری سفارش کرتے ہیں۔ بعض معبودوں کے متعلق یہ لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ نے ان پر الوہیت کی چادر ڈال دی ہے۔ یہ اللہ کے محبوب ہیں اور اس سے ہر بات منوا لیتے ہیں۔ یہ محض جاہلانہ باتیں ہیں جن کے پیچھے اندھی تقلید کارفرما ہے۔ فرمایا ، یہ کتنے ظالم لوگ ہیں جو قادر مطلق ، مختارمطلق اور علیم کل ہستی کو چھوڑ کر بےاختیار چیزوں کی پرستش کرتے ہیں۔ کبھی کسی قبر سے مانگنے لگتے ہیں کبھی شجر وحجر کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور کبھی شمس وقمر سے حاجت براری کرتے ہیں۔ فرمایا حقیقت یہ ہے کہ تمام انسان ، ملائکہ اور جن اور کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ سے حاجتیں طلب کرتے ہیں یسئلہ…………ولارض (الرحمن 29) آسمان و زمین کی ہر چیز اسی مالک الملک کی سوالی ہے۔ بھلا جو خود سوالی ہوں وہ دوسروں کی کون سی حاجت پوری کریں گے ؟ وما للظلمین من نصیر اس قسم کے ظالموں اور مشرکوں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ اس سے بڑا ظلم کیا ہوسکتا ہے کہ خدائے وحدہ لاشریک کو چھوڑ کر مخلوق میں کرشمہ مانا جائے اور ان کے سامنے اپنی حاجات پیش کی جائیں۔ یہ ظالم لوگ ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔ توحید سے چڑ : اللہ نے کفار ومشرکین کی ایک بڑی حرکت یہ بھی بیان فرمائی۔ و اذا تتلی علیھم ایتنا بینت جب ان کے سامنے ہماری واضح آیتیں پڑھی جاتی ہیں تعرف فی وجوہ الذین کفروا المنکر تو تم کافروں کے چہروں پر ناگواری کے اثرات محسوس کرو گے۔ آیات الٰہی کی تلاوت کافروں کے لئے سخت پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ سورة الزمر میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔ واذاذکر……… ………یستبشرون (الزمر 45) جب ان کے سامنے صرف اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے ، تو ان کے دل بگڑ جاتے ہیں ، اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر کیا جائے تو وہ بڑے خوش ہوتے ہیں۔ آپ روز مرہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ مشرک لوگ توحید کے مسئلہ کو خشک مضمون سمجھ کر ناک بھوں چڑھاتے ہیں مگر جب جھوٹی کرامتیں ، جھوٹے قصے اور بےبنیاد باتیں بیان کی جائیں تو خوب جھومتے ہیں۔ تو فرمایا کہ توحید کی ذکر سے وہ ناگواری محسوس کرتے ہیں حالانکہ ایمان والوں کو اللہ وحدہ لاشریک کی صفت سن کر خوشی ہونی چاہیے۔ دین کی تو جڑ اور بنیاد ہی توحید ہے مگر یہ لوگ توحید کے بیان پر سیخ پا ہوجاتے ہیں فرمایا یکادون یسطون بالذین یتلون علیھم ایتنا ، قریب ہے کہ یہ لوگ حملہ آور ہوجائیں ان پر جو ہماری آیتیں پڑھتے ہیں۔ مشرکین کی ساری تاریخ پڑھ لیں۔ ہر نبی کے دور میں انہوں نے اپنے نبی پر حملہ کیا۔ اس کی تکذیب کی ، جادوگر کہا اور طرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کیا سلوک کیا اور پیغمبر آخرالزمان کو کونسی تکلیف تھی جو نہ پہنچائی گئی ہو ، محض اس لئے کہ وہ کہتے تھے ان یقولوا ربنا اللہ کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے ، ہم اس کے سوا کسی کو خالق ، مالک اور لائق عبادت نہیں مانتے۔ سارے انبیاء اسی جرم کی پاداش میں ماریں کھاتے رہے۔ حتیٰ کہ بعض کو قتل بھی کردیا گیا۔ بہرحال اسی طرح اہل بدعت اور غالی رافضی اور شرک نواز لوگ بھی اہل توحید کی بات سننا گوارا نہیں کرتے بلکہ بسا اوقات ان پر حملہ کردیتے ہیں۔ اس قسم کی مثالیں آپ کو ہر جگہ ملیں گے۔ نواب آف بہاولپور کی مسجد میں مولانا رحمت اللہ (رح) جیسے متدین اور نیک سیرت عالم دین کو بم مار کر ہلاک کردیا گیا۔ اس کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے خطبہ جمعہ کے دوران قرآن پاک کی روشنی میں مسئلہ بشریت رسول بیان کیا ، مگر اہل بدعت اسے برداشت نہ کرسکے۔ اسی مسئلہ پر اکاڑہ میں دو طالب علموں کو شہید کردیا گیا خود حضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ پر حملہ ہوا۔ آپ کو اتنا پیٹا گیا کہ سر کے بال اکھڑگئے۔ آج بھی لوگ قرآن سے بدکتے ہیں۔ دراصل مشرکوں کو توحید سے چڑ ہے۔ سورة البینہ میں ہے وما امروا…………لہ الدین (آیت 5) تمام کائنات کے لوگوں کو اللہ نے یہی حکم دیا ہے کہ وہ صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں ، اسی کی غلامی اختیار کریں کیونکہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ جب یہ بات کی جاتی ہے تو وہ مرنے مارنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ یہاں اسی بات کو بیان کیا گیا ہے۔ دوزخ کی آگ : ارشاد ہوتا ہے ، اے پیغمبر قل افانبئکم بشر من ذلکم آپ کہہ دیجئے ، کیا میں بتلائوں تم کو اس سے بھی بری بات۔ یعنی قرآن پاک کی آیات اور توحید الٰہی کا بیان سن کر چیں بچیں ہونے سے بھی زیادہ بری چیز النار دوزخ کی آگ ہے وعدھا اللہ الذین کفروا جس کا اللہ تعالیٰ نے کافروں کی ساتھ وعدہ کررکھا ہے کہ وہ ان کو ضرور اس آگ میں ڈالے گا۔ آج تو ان کو آیات الٰہی پسند نہیں آتیں مگر قیامت کا دن آنے والا ہے۔ جب ان کا ٹھکانہ دوزخ کی آگ ہوگا۔ وبئس المصیر اور یہ لوٹ کر جانے کی بہت ہی بری جگہ ہے جو خدا تعالیٰ کے غضب اور قہر کا مقام ہے۔
Top