Mualim-ul-Irfan - Al-Hajj : 77
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَ افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ۩  ۞
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : وہ لوگ جو ایمان لائے ارْكَعُوْا : تم رکوع کرو وَاسْجُدُوْا : اور سجدہ کرو وَاعْبُدُوْا : اور عبادت کرو رَبَّكُمْ : اپنا رب وَافْعَلُوا : اور کرو الْخَيْرَ : اچھے کام لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح (دوجہان میں کامیابی) پاؤ
اے ایمان والو ! رکوع کرو ، سجدہ کرو اور عبادت کرو اپنے پروردگار کی اور بھلائی کے کام کرو تاکہ تم فلاح پاجائو
ربط آیات : گزشتہ آیات میں مشرکین کی برائی اور قباحت کا ذکر تھا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو صحیح طریقے پر نہیں پہچانا وہ ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جنہیں کچھ اختیار حاصل نہیں۔ اس ضمن میں اللہ نے معبودان باطلہ کی بےبسی کو مکھی کی مثال دے کر بیان فرمایا کہ وہ تو مکھی جیسی حقیر چیز کو پیدا کرنے پر بھی قادر نہیں ، بلکہ اگر مکھی کوئی چیز چھین لے جائے تو اسے واپس لینے کی طاقت بھی نہیں رکھتے چہ جائیکہ وہ دوسروں کی حاجت براری کریں۔ اللہ کی ساری مخلوق خواہ وہ جاندار ہو یا بےجان اللہ کے سامنے عاجز ہے ، لہٰذا ان میں الوہیت کا پایا جانا بعید از قیاس ہے۔ مشرکین کی طرف سے ان کی پرستش نہایت ہی بےوقوفی کی بات ہے۔ عبادت صرف اللہ کی : غیر اللہ کی پرستش کی مذمت بیان کرنے کے بعد اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے صرف اپنی عبادت کرنے کی تلقین کی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے یایھا الذین امنوارکعوا واسجدوا واعبدو ربکم اے ایمان والو ! رکوع کرو ، سجدہ کرو ، اور عبادت کرو اپنے پروردگار کی۔ رکوع و سجود سے مرادنماز ہے کیونکہ یہ دنوں نماز کے اہم ارکان شمار ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو ماننے کے بعد سجدہ صرف اللہ کو روا ہے۔ دوسرے مقام پر اللہ کا فرمان ہے لا تسجدوا…………خلقھن (حم السجدۃ 37) شمس وقمر کو سجدہ نہ کرو بلکہ اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان چیزوں کو پیدا فرمایا ہے۔ سجدہ انتہائی درجے کی تعظیم کا نام ہے اور یہ صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہی روا ہے۔ رکوع اس سے ادنی درجے کی تعظیم ہے مگر یہ بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے ، اسی لئے کسی کے ساتھ ملاقات کے وقت جھک کر رکوع کی شکل نہیں اختیار کرنی چاہیے کہ یہ مکروہ ہے۔ حضور ﷺ نے انحنا سے بھی منع فرمایا ہے ۔ بہرحال فرمایا کہ رکوع و سجود اور ہر قسم کی عبادت اللہ ہی کو کرو۔ سجدہ تلاوت : یہ آیت امام شافعی (رح) کے نزدیک سجدہ تلاوت والی آیت ہے۔ البتہ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اس آیت میں مذکور ہو سجدہ سے مراد نماز کا سجدہ ہے۔ لہٰذا اس کو پڑھنے اور سننے والے پر سجدہ تلاوت لازم نہیں آتا۔ ان دو فقائے کرام میں اس معمولی سے اختلاف کے باوجود دنوں ائمہ قرآن پاک کے کل چودہ مقامات میں سجدہ تلاوت کے قابل ہیں امام شافعی (رح) آیت زیر درس والے سجدہ کو سجدہ تلاوت مانتے ہیں۔ مگر سورة صٓ والے سجدہ کے قائل نہیں۔ امام ابوحنیفہ سورة صٓ کے سجدہ کے قائل ہیں مگر اس سورة کے سجدہ تلاوت کو تسلیم نہیں کرتے۔ امام مالک (رح) ساتویں منزل میں سورة نجم ، سورة انشقاق اور سورة علق کے تین سجدے تسلیم نہیں کریت لہٰذا ان کے نزدیک پورے قرآن میں سجدہ ہائے تلاوت صرف گیارہ ہیں۔ غالباً ان تک وہ احادیث نہیں پہنچ سکیں جن میں ساتویں منزل کے سجدوں کا ذکر ہے اور جن کے مطابق خود حضور ﷺ نے ان مقامات پر سجدہ ادا فرمایا (بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ امام مالک (رح) کے نزدیک گیارہ سجدات موکدہ ہیں اور تین غیر موکدہ۔ نیکی کے کام : نماز اور عبادت کے حکم کے بعد فرمایا وافعلو الخیر بھلائی کے کام کرو لعلکم تفلحون ، تاکہ تمہیں فلاں نصیب ہو۔ شرک اور کفر سے اپنے آپ کو بچائو۔ خدا تعالیٰ کے سامنے تعظیم بجا لائو اور اپنی پیشانی کو اسی کے سامنے رکھو۔ شرک اور کفر میں انسان کی ہلاکت ہے جب کہ بھائی کے کاموں میں فلاح ہے۔ بنیادی طور پر نیکی کے کاموں میں عبادات اربعہ یعنی نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج ہیں۔ اس کے علاوہ صلہ رحمی ، مکارم اخلاق ، مخلوق خدا کے ساتھ ہمدردی ، غریب پروری ، حق و انصاف کی شہادت وغیرہ سب نیکی کے کام ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ اس کی عبادت کرو اور دیگر نیکی کے کام بھی انجام دو ۔ جہاد فی سبیل اللہ : اگلی آیت میں اللہ نے جہاد کا بھی حکم فرمایا وجاھدوا فی اللہ حق جھادہ اللہ کی رضا کی خاطر جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ جہادصرف قتال کا نام نہیں بلکہ اس سے مراد ہے استعمال الوسع والطاقۃ فی مقابلۃ العدوظاھرا و باطنا یعنی اپنی وسعت اور طاقت کے مطابق ظاہری اور باطنی طور پر دشمن کا مقابلہ کرنا ” جہاد “ کہلاتا ہے۔ اسی لئے کبھی جہاد کا معنی اصلاح نفس بھی ہوتا ہے ۔ ترمذی شریف (ترمذی ص 252) کی روایت میں ہے والمجاھد من جاھد نفسہ یعنی مجاہدوہ ہے جس نے اپنے نفس کے ساتھ جہاد کیا۔ میدان جنگ میں دشمن کے خلاف صف آرا ہو کر لڑائی کرنا بھی جہاد ہے ارشاد ربانی ہے وجاھدوا…………سبیل اللہ (التوبہ 41) اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور جانوروں سے جہاد کرو۔ ابودائودشریف اور مسنداحمد کی روایت میں ہے جاھدوالکفار والمشرکین باموالکم وانفسکم والسنتکم کافروں اور مشرکوں کے ساتھ اپنے مالوں ، جانوں اور زبانوں سے جہاد کرو۔ غیر مسلموں کے سامنے زبان کے ذریعے کلمہ حق ادا کرنا اور ان کو تبلیغ کرنا بھی جہاد میں داخل ہے۔ حضور ﷺ (ترمذی ص 316 (فیاض) کا ارشاد مبارک ہے افضل الجھاد کلمۃ حق عند سلطن جائر یعنی ظالم حاکم کے روبرو کلمہ حق کہناافضل جہاد ہے ۔ کج رو گمراہوں کے شکوک و شبہات دور کرنے کے لیء تحریر وتقریر کا استعمال بھی جہاد میں شامل ہے۔ مسئلہ دین کی وضاحت کے لئے کتاب رسالہ یا مضمون لکھنا قلمی جہاد ہے۔ بشرطیکہ نیت صحیح ہو۔ اور محض معاوضہ لینا مقصودنہ ہو۔ پیسے لے کر اخبار میں صحیح غلط ہر قسم کا کالم لکھ دیا تو یہ جہاد نہیں ہوگا۔ علمائے حق نے حدیث کی کتابیں جمع کی ہیں۔ قرآن پاک اور حدیث کی شرح بیان کی ہے اور دیگر دینی کتب تحریر کی ہیں ، یہ سب جہاد میں داخل ہے۔ گمراہ فرقوں کے پول کو زبانی یا تحریری طور پر کھولنا بھی جہاد ہے۔ غرضیکہ اسلام کی دعوت دینا ، اس کی تعلیم کا بندوبست کرنا اور لوگوں کی روحانی تربیت کرنا بھی جہاد ہی کی ایک قسم ہے بعض نوجوان جان تو دے سکتے ہیں مگر مالی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔ وہ جان کی بازی لگا کر عملی جہاد میں شریک ہوسکتے ہیں۔ بعض صاحب ثروت لوگ جسمانی طور پر جہاد بالسیف کے قابل نہیں ہوتے۔ وہ مالی جہاد کرسکتے ہیں اور کن کو اللہ نے زبان وقلم کی وسعت عطا فرمائی ہے وہ استعداد کے ذریعہ جہاد بنا سکتے ہیں۔ امام ابوبکر حبصاص (رح) اپنی تفسیر ” احکام القرآن “ میں فرماتے ہیں کہ کوئی بھی اہل ایمان جہاد سے مستثنیٰ نہیں۔ ہاں معذور لوگ اندھے ، لنگڑے ، مالی اور جسمانی طور پر کمزور مسلمان اس صورت میں مستثنیٰ ہیں اذا………ورسولہ (التوبۃ 91) جب کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے حق میں خیرخواہ ہوں۔ اگر وہ خیر خواہ بھی نہیں ہیں اور مجاہدین کے پیچھے ان کی برائی اور ندامت بیان کر رہے ہیں ، یا غلط پروپیگنڈہ کرتے ہیں تو وہ مجرم ہوں گے ، غرضیکہ ہر آدمی کو حسب استطاعت جہاد میں حصہ لینے کا حکم ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ اللہ کے لئے جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ جہاد کے معاملہ میں غفلت : کتنے افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں کے وسائل جہاد میں صرف ہونے کی بجائے برائی کے کاموں میں صرف ہو رہے ہیں۔ اخبارات بلا شبہ قلمی جہاد کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں مگر ان میں اکثر صوبہ واریت کی بات کی جاتی ہے اقتدار کی خاطر انتشار پھیلانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ غلط سیاست کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ دشمنان اسلام کے نظام کی تعریف و توصیف کا اہتمام ہوتا ہے اسلام کی بات برائے نام ہوتی ہے اس کے برخلاف یہودونصاریٰ کی طرف سے ذہنوں میں ڈالی گئی بات کی تشہیر ہوتی ہے۔ اسی لئے بغیر سوچے سمجھے اخبارات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ جان بوجھ کر واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا گمراہی کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔ یہی حال دیگر ذرائع ابلاغ کا بھی ہے ۔ مسلمانوں کے وسائل کس کام میں صرف ہو رہے ہیں ؟ آرٹ گیلریوں کی تعمیر و ترقی کے لئے لاکھوں روپے صرف ہو رہے ہیں۔ ؟ مگر آج تک کسی حکومت کہ یہ توفیق نہیں ہوتی کہ حدیث کی کوئی کتاب ہی شائع کردے۔ سونے کے تاروں سے قرآن کریم کی کتابت پر بہت بڑی رقم خرچ ہوئی ہے مگر اس کا فائدہ ؟ نمودونمائش کے سوا اس میں کیا رکھا ہے ؟ اتنی رقم کاغذ پر قرآن حکیم کی اشاعت پر صرف ہوتی اور قرآن کی تعلیم کا بندوبست ہوتا ، اس کی تعلیمات پر عمل درآمد کو ممکن بنایا جاتا تو کوئی فائدہ بھی ہوتا۔ بعض مزاروں پر سونے کے دروازے لگائے ہیں ، ان پر بڑے بڑے گنبد تعمیر ہوئے ہیں ، مینار بنائے گئے ہیں۔ یہ تو مشرکین کا شیوہ ہے اور اللہ نے ان کی مذمت بیان فرمائی ہے۔ بڑی بڑی عمارات تو کھڑی کردی ہیں بھلا یہ تو بتائو کہ تعمیر انسانیت کے لئے کتنا کام ہے ؟ غربت اور جہالت کو دور کرنے کرنے کے لئے کتنی مساعی کی ہیں ؟ آج بھی ستر فیصد لوگ جاہل ہیں۔ ان کی جہالت کو کون دور کرے گا ، یہی تو جہاد ہے کہ لوگوں تک علم کی روشنی پہنچائی جائے اور انہیں ضروریات دین سے روشناس کرایا جائے۔ انسان کی عقلی اور دینی ضروریات کو پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ، وہ اسے اپنا فرض سمجھ کر پورا کریں۔ امت محمدیہ کی خصوصیت : آگے اللہ تعالیٰ نے اس آخری امت کی خصوصیت بیان فرمائی ہے۔ ھواجتبکم اللہ تعالیٰ نے تمہیں برگزیدہ بنایا ہے تمہیں افضل الانبیاء کی امت میں شامل کیا ، قرآن جیسی عظیم المرتبت کتاب عطا کی ، اسلام کی دولت سے نوازا مگر تم نے نہ قرآن کی قدر کی ، نہ اسلام اور نہ ایمان کی۔ تمہارے نزدیک مال و دولت ، رسم و رواج ، جہالت ، بےایمانی اور برائی کی قدر ہے۔ کاش کہ تم اللہ کی نعمتوں کی قدر کرکے اس کے شکر گزار بندے بن جاتے۔ فرمایا اس کا ایک اور بڑا انعام یہ ہے وما جعل علیکم فی الدین من حرج اس نے دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں ڈالی۔ تمہیں کوئی مشکل میں پڑنے والا حکم نہیں دیا۔ اس کے برخلاف آپ موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات میں پڑھتے ہیں کہ اللہ نے انہیں کتنے سخت احکام دیے۔ انہیں کل مال کا چوتھا حصہ زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا۔ جب کہ اس آخری امت کے لئے چالیسواں حصہ مقرر ہے مگر لوگ پھر بھی اس کی ادائیگی حیلوں بہانوں سے ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بنی اسرائیل کی توبہ ہی بعض اوقات قبول نہیں ہوتی تھی۔ جب تک وہ ایک دوسرے کو قتل نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے بچھڑے کے کثیر پجاریوں کی توبہ اسی صورت میں قبول کی کہ ان کے رشتہ داروں ہی نے ان کو قتل کیا۔ ان کے ہاں اگر قیمتی سے قیمتی کپڑے پر بھی پیشاب کی چھینٹ پڑجاتی تو وہ دھونے سے پاک نہیں ہوتا تھا بلکہ اس حصہ کو کاٹنا پڑتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت پر ایسی تنگی نہیں ڈالی۔ یہاں تو نجاست غلیظہ بھی کپڑے کو لگ جائے تو تین دفعہ دھونے سے پاک ہوجاتا ہے۔ اس امت کے لئے توبہ کی قبولیت بھی آسان ہے ، اگر کوئی شخص سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمالیتا ہے۔ اللہ نے بعض احکام میں بھی اس امت کو رخصت عطا کی ہے سفر میں ہے تو روزہ افطار کرسکتا ہے۔ تکلیف ہے تو نماز بیٹھ کر اور لیٹ کر بھی پڑھ سکتا ہے۔ وضو نہیں کرسکتا تو تیمم کرلے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ ساری سہولتیں دی ہیں کیونکہ الدین یسر ہمارا دین آسان ہے ، اس میں تنگی والی کوئی بات نہیں ہے۔ ملت ابراہیمی پر ثابت قدمی : ارشاد ہوتا ہے ملۃ ابیکم ابرھیم اپنے جدامجد ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت کو لازم پکڑو۔ اللہ نے تم پر آسانی رکھی ہے جو ملت ابراہیمیہ کا خاصہ ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہمارے نبی آخرالزمان کے تو بالفصل جدامجد ہیں۔ جب ہمارے نبی کے باپ ہیں ، تو ہمارے بھی باپ ہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ابیکم کہہ کر خطاب فرمایا ہے آپ اسرائیلیوں کے بھی بالفعل باپ ہیں کیونکہ بنی اسرائیل حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں۔ اسی طرح عرب کے لوگ بھی آپ کی براہ راست اولاد ہیں کیونکہ وہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے ابیکم کے لفظ۔ سے ساری نسل انسانی کو خطاب فرمایا ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان (ابن کثیر ص 186 ج 1 (فیاض) ہے نحن معشر الانبیاء علات یعنی ہم نبیوں کا گروہ سارے علاقی بھائی ہیں ، جن کا باپ ایک اور مائیں مختلف ہیں مطلب یہ کہ سب انبیاء کا دین تو واحد ہے مگر شرائع مختلف ہیں اس لحاظ سے بھی ابیکم کا خطاب مناسب حال ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ھوسمکم المسلمین اے لوگو ! اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے ھو سے ابراہیم (علیہ السلام) بھی مراد ہوسکتے ہیں کہ انہوں نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی تھی ربنا ……………لک (البقرہ 128) اے ہمارے پروردگار ! ہم دونوں باپ بیٹا کو اپنا فرمانبردار بنادے ومن ذریتنا امۃ مسلمۃ لک اور ہماری اولاد میں امت مسلمہ برپا کر اور ان میں اپنا عظیم الشان رسول مبعوث فرما۔ امت مسلمہ اسی وقت کا رکھا ہوا نام ہے جس کا ظہور ہزاروں سال بعد ہوا۔ فرمایا اس نے تمہارا نام مسلمان رکھا من قبل اس سے پہلے بھی وفی ھذا اور اس قرآن میں بھی تمہارا یہی نام ہے مسلمان کا معنی فرمانبردار اور اطاعت گزار ہے ، لہٰذا تم اسم باسمیٰ بن جائو۔ فرمایا اللہ نے تم پر یہ انعامات کیے ہیں لیکون الرسول شھید علیکم تاکہ اللہ کا رسول تم پر گواہ بن جائے وتکونوا شھداء علی الناس ، اور تم لوگوں پر گواہ ہوجائو۔ شہادت کا ایک معنی تو گواہی ہے اور یہ گواہی قیامت والے دن ہوگی کہ حضور ﷺ اپنی امت کی صفائی کی شہادت دیں گے ، اور پھر اس امت کے لوگ پہلی امتوں اور ان کے نبیوں کے حق میں گواہی دیں گے ۔ شاہ عبدالقادر (رح) اس کا معنی یوں کرتے ہیں ” تاکہ رسول تمہارے سامنے حق وصداقت کو ظاہر کرنے والا بن جائے اور تم حق وصداقت کی گواہی دینے اور اس کو ظاہر کرنے والے بن جائو۔ دوسرے لفظوں میں اللہ کا رسول تمہارا معلم بن جائے اور تم باقی لوگوں کے معلم بن جائو اور ان تک دین پہنچائو۔ چناچہ حضور ﷺ کے اولین مخاطبین قریش انصار نے اللہ کا دین آگے چلایا اور باقی دنیا کو اسلام کی تعلیم سے روشناس کرایا۔ خلاصہ سورة : بات قیامت کے زلزلے سے شروع کی ، پھر توحید ، رسالت ، حج ، جہاد ، قربانی کے مسائل بیان کیے جو کہ دین کی اہم ترین باتیں ہیں ۔ اب آخر میں سورة کا خلاصہ بیان کیا جارہا ہے۔ فاقیموالصلوٰۃ واتوالزکوٰۃ نماز پڑھتے رہو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو۔ یہ دو عبادات ملت اسلامیہ کی رکنیت کی علامت ہیں۔ ایک کے ذریعے اللہ سے تعلق درست ہوتا ہے۔ اور دوسری کے ذریعے مخلوق کے ساتھ بھلائی ہوتی ہے آگے فرمایا واعتصموا باللہ اور الہ کو مضبوطی سے پکڑ لو یعنی اپنی حاجات میں اسی پر اعتماد رکھو۔ تنگی ، بیماری ، تندرستی ، راحت ہر حالت میں خدا کی ذات پر توکل رکھو ، تمہاری مشکلات کو حل کرنے والی وہی ذات ہے۔ ھومولکم وہی تمہارا کار ساز فنعم المولیٰ ونعم النصیر پس بہتر مولیٰ ہے اور بہترین مددگار ہے۔ اسی پر بھروسہ رکھو اور اسی کی اطاعت کرتے رہو۔
Top