Mualim-ul-Irfan - Al-Hajj : 8
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ لَا هُدًى وَّ لَا كِتٰبٍ مُّنِیْرٍۙ
وَ : اور مِنَ النَّاسِ : لوگوں میں سے مَنْ : جو يُّجَادِلُ : جھگڑتا ہے فِي اللّٰهِ : اللہ (کے بارے) میں بِغَيْرِ عِلْمٍ : بغیر کسی علم وَّ : اور لَا هُدًى : بغیر کسی دلیل وَّلَا : اور بغیر کسی كِتٰبٍ : کتاب مُّنِيْرٍ : روشن
اور بعض لوگ وہ ہیں جو جھگڑا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے بارے میں بغیر علم ، بغیر ہدایت اور بغیر روشن کتاب کے
ربط آیات : ابتدائے سورة میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے زلزلے اور اس کی ہولناکی کا ذکر کیا۔ اس وقت انسانوں پر ایک قسم کی مدہوشی طاری ہوگی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قوع قیامت کے بارے میں دو دلائل بیان فرمائے۔ ایک دلیل خود انسان کی تخلیق سے تعلق رکھتی ہے جب کہ دوسری دلیل زمین کی روئیدگی کے متعلق ہے یہ دونوں دلیلیں قیامت کی آمد کا پتہ دیتی ہیں اور اس بات میں شک وشبہ کی کو گی گنجائش نہیں۔ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ جو لوگ قبروں میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کو یقینا دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ اور پھر حساب کتاب کی منزل آئے گی۔ جھگڑالو لوگ : اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے کافروں ، مشرکوں اور منافقوں کا رد فرمایا۔ ارشاد ہوتا ہے ومن الناس من یجادل فی اللہ بغیر علم ولا ھدی ولا کتب منیر اور لوگوں میں سے بعض وہ ہیں جو جھگڑا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے بارے میں یعنی ان کی توحید کے متعلق مگر نہ تو ان کے پاس کوئی علم (نقلی یا عقلی دلیل) ہے ، نہ ہدایت کی بات اور نہ روشن کتاب وہ تو محض اپنے رسم و رواج اور جہالت کی بنیاد پر جھگڑا کرتے ہیں۔ ثانی عطفہ ، اپنے پہلو کو موڑتے ہیں یعنی غرور وتکبر کرتے ہیں لیضل عن سبیل اللہ ، تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی اللہ کے راستے سے گمراہ کردیں۔ پہلے خود گمراہ ہوئے اور پھر دوسروں کو کیا۔ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا لہ فی الدنیا خزی کہ اس کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اس دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوگا ونذیقہ یوم القیمۃ عذاب الحریق ، اور قیامت والے دن ہم اسے جلا ڈالنے والا عذاب چکھائیں گے۔ پھر ان سے کہا جائے گا ذلک بما قدمت یدک یہ وہ چیز ہے جو تیرے ہاتھوں نے آگے بھیجی ہے دنیا میں تو نے یہی کمایا تھا کہ خود بھی گمراہ ہوا اور دوسروں کو بھی بہکایا ، اس کا بدلہ یہی ہے کہ اب عذاب کا مزاچکھو۔ اللہ تعالیٰ نے بلاوجہ تمہیں سزا میں مبتلا نہیں کیا کیونکہ وان اللہ لیس بظلام للعبید بیشک اللہ تعالیٰ تو بندوں پر کبھی بھی ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ تو تمہارے ہی اعمال کا خمیازہ ہے۔ مفاد پرست منافق : آگے اللہ نے منافق قسم کے لوگوں کا حال بیان فرمایا ہے ، ومن الناس من یعبداللہ علی حرف ، اور لوگوں میں سے بعض ایسے ہیں جو ایک کنارے پر اللہ کی عبادت کرتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ان میں دلجمعی اور یکسوئی تو ہے نہیں ، اطمینان قلب مفقود ہے۔ تردد اور تذبذب کی حالت میں بادل نخواستہ کچھ عبادت کرلیتے ہیں جیسے کوئی شخص کسی چیز کے کنارے پر کھڑا ہو اور ہر آن اس کے گرنے کا احتمال ہو اسی طرح منافق قسم کے لوگ بھی اللہ کی عبادت تو کرتے ہیں مگر نہ جانے کس وقت چھوڑ بیٹھیں۔ کسی ایسے ہی شخص کی مثال دی ہے فان اصابہ خیرن اطمان بہ ، کہ اگر اسے کسی وقت بھلائی پہنچ جائے تو مطمئن ہوجاتا ہے ، کہتا ہے ٹھیک راستے پر جارہا ہوں۔ وان اصابتہ فتنۃ ن انقلب علی وجھہ ، اور اگر اسے کوئی آزمائش آجائے ، کوئی جانی مالی نقصان ہوجائے یا کوئی دوسری پریشانی لاحق ہوجائے ، کوئی جانی مالی نقصان ہوجائے یا کوئی دوسری پریشانی لاحق ہوجائے تو شکستہ دل ہو کر اپنے چہرے کے بل پلٹ جاتا ہے۔ یعنی ایمان سے پھرجاتا ہے۔ اطراف مدینہ میں اس قسم کے لوگ موجود تھے جو ایمان لے آتے۔ پھر دیکھتے اگر خیروبرکت حاصل ہوتی ، دنیاوی مفاد مل جاتا تو کہتے اسلام بالکل سچا دین ہے ، اور اگر کوئی تکلیف پہنچ جاتی کوئی نقصان ہوجاتا تو دین چھوڑ کر مرتد ہوجاتے۔ مفسرین کرام نے ایک یہودی کا واقعہ بیان کیا ہے۔ کہ پہلے تو وہ ایمان لے آیا۔ پھر اسے کوئی پریشانی لاحق ہوگئی تو حضور ﷺ سے کہنے لگا کہ مجھ سے اسلام کی بیعت واپس لے لو۔ آپ نے فرمایا کہ بیعت تو واپس نہیں ہوسکتی۔ اس قسم کے لوگ موجود تھے جو کسی مفاد کی کی خاطر اسلام میں داخل ہوتے ۔ اس دوران تذبذب کا شکار رہتے۔ جب مطلوبہ مفاد حاصل نہ ہوتا تو مرتد ہوجاتے۔ ایسے نادان قسم کے لوگوں کی اللہ نے سخت مذمت بیان فرمائی ہے۔ جو محض دنیا کی خاطر اسلام قبول کرتے ہیں۔ اللہ کی خوشنودی اور آخرت کی کامیابی قطعاً ان کے پیش نظر نہیں ہوتی۔ جدید روشنی کے لوگ بھی اسلام میں دنیوی مفاد کی باتیں تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ کا فیصلہ ہے۔ خسرو الدنیا والاخرۃ ، کہ وہ دنیا میں بھی نقصان اٹھانے والے ہیں۔ کیونکہ دنیا کا مفاد تو ایک محدود مدت کے لئے ہے ، وہ بہرحال ختم ہوجائے گا ، یہ لوگ آخرت میں بھی نقصان اٹھانے والے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ ایمان کی سلامتی کی بجائے برے عقیدے لے کر اس دنیا سے گئے ہیں فرمایا ذلک ھوالخسران المبین ، یہی تو کھلا نقصان ہے جس میں یہ لوگ مبتلا ہیں۔ غیر اللہ کے لئے بےفائدہ پکار : فرمایا ، اللہ کو چھوڑ کر ایسے لوگ کیا کرتے ہیں ؟ یدعوا من دون اللہ مالا یضرہ ومالا ینفعہ اللہ کے سوا وہ ایسی ہستیوں کو پکارتا ہے جو نہ تو اسے نقصان پہنچا سکتی ہیں اور نہ نفع دے سکتی ہیں۔ ہر انسان کسی نہ کسی ذات کو اپنا معبود ماننے پر مجبور ہے۔ مگر وہ اللہ قادر مطلق ، علیم کل اور مختار کل کو چھوڑ کر ایسی ہستیوں کو الٰہ بناتا ہے جن کے قبضہ میں نہ نفع ہے اور نہ نقصان ، مٹی ، پتھر اور لکڑی کے بت تو ویسے ہی بےجان چیزیں ہیں ، بھلا وہ کسی کا کیا سنوار سکتے ہیں یا بگاڑ سکتے ہیں۔ اور جو جاندار چیزیں بھی ہیں ان میں بھی الوہیت والی کوئی صفت نہیں پائی جاتی ، لہٰذا ان میں سے کوئی بھی الٰہ بننے کے قابل نہیں ہے۔ ذلک ھوالضلل البعید یہ تو دور کی گمراہی میں پڑنے والی بات ہے۔ فرمایا یدعوا لمن ضرہ اقرب من نفعہ یہ لوگ ایسی ذات کو پکارتے ہیں کہ جس کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ قریب ہے۔ نفع کی بات تو محض اس کا ظن ہے کہ فلاں ہستی میری حاجت روائی یا مشکل کشائی کرسکتی ہے۔ یا کم از کم ہماری مراد خدا تعالیٰ سے پوری کر اسکتے ہیں یہ ایک موہوم نظریہ ہے ۔ غیر اللہ کی پرستش قطعی طور پر مضر ہے جس کا نقصان پرستش کرنے والے ہی کو ہوگا لبئس المولیٰ ولبئس العشیر ، یہ بہت ہی برا آقا یا دوست ہے اور بہت ہی برا ساتھی ہے ۔ جس شخص نے اللہ کے سوا کسی بت ، نبی ، ولی یا فرشتے کو اپنا آقا ، دوست یا معبود بنایا تو وہ قیامت کے دن ایسی الوہیت سے انکار کردیں گے اور پرستش کرنے والوں کے دشمن بن جائیں گے۔ اسی لئے فرمایا کہ جن کو یہ لوگ اپنا معبودسمجھتے ہیں۔ وہ قیامت کے دن ان کے برے ساتھی ثابت ہوں گے جو ان کی مدد کرنے کی بجائے ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ فرمایا ان اللہ یدخل الذین امنوا وعملو الصلحت جنت تجری من تحتھا الانھر ، بیشک اللہ تعالیٰ داخل کرے گا۔ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال انجام دیے ایسے باغات میں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ان کے ایمان اور اعمال کی بدولت اپنی رحمت سے اپنی رحمت کے اعلیٰ مقام تک پہنچائیگا۔ ان اللہ یفعل مایرید ، بیشک اللہ تعالیٰ کر گزرتا ہے جس کام کا وہ ارادہ کرتا ہے۔ نیک لوگوں کے بارے میں اللہ کا ارادہ یہی ہوگا کہ وہ انہیں جنت میں پہنچائے اور اعزاز واکرام سے نوازے۔ اور جو لوگ کفر اور شرک کرنے والے ہیں یا منافق ہیں اور تذبذب کا شکار ہوتے ہیں ، اللہ تعالیٰ یقینا ان کو سزا کے مقام پر پہنچائے گا۔ اللہ تعالیٰ سے بدگمانی : ارشاد ہوتا ہے من یظن ان لن ینصرہ اللہ فی الدنیا والاخرۃ ، جو شخص گمان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی دنیا اور آخرت میں مدد نہیں کریگا۔ فلیمدد بسبب الی السمائ ، اسے چاہیے کہ کوئی رسی دراز کرے آسمان کی طرف ثم لیقطع ، پھر اس کو کاٹ دے فلنظر ھل یذھبن کیدہ مایغیظ پھر دیکھ لے کیا اس کی تدبیر اس کے غصے کو دور کرتی ہے ؟ مفسرین کرام اس کی تفسیر دو طریقے سے بیان کرتے ہیں۔ بعض فرماتے ہیں کہ ینصرہ میں ہ کی ضمیر ہر اس انفرادی شخص کی طرف لوٹتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہوچکا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ مایوسی کفر ہے ۔ جیسا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں سے فرمایا تھا ولا تایئسوا………………الکفرون (یوسف 87) اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا کیونکہ اللہ کی رحمت سے تو صرف کافر ہی ناامید ہوسکتے ہیں۔ ایک ایماندار تو آخر وقت تک اللہ کی رحمت کا امیدوار رہتا ہے۔ ، البتہ وہ اس کی سزا سے خائف ضرور ہوتے ہیں مگر ناامید نہیں ہوتے کیونکہ یہ کفر والی بات ہے۔ اور جو آدمی مایوس ہوگیا اس کے جی میں جو آئے کرے۔ عام طور پر خود کشی کی وارداتیں ایسی ہی ناامیدی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ تو مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی شخص اللہ کی مدد سے مایوس ہوگیا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ آسمان تک رسی دراز کرکے اس کے ساتھ لٹک جائے اور پھر اسے کاٹ دے اور دیکھ لے کہ اس کا غصہ کس حد تک فرو ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ ینصرہ میں ہ کی ضمیر نبی (علیہ السلام) کی طرف لوٹتی ہے اس طرح معنی یہ بنتا ہے۔ کہ جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی مدد نہیں کرے گا اسے چاہیے کہ زمین سے لے کر آسمان تک ایک رسی دراز کرلے اور پھر اس کے ذریعے اوپر چڑھ کر اللہ تعالیٰ کی مدد کو منقطع کردے اور پھر دیکھ لے کہ اس کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے یا نہیں ؟ اس کا غصہ تو جبھی فرو ہوسکتا ہے جب وہ اللہ کی طرف سے نبی ﷺ پر نازل ہونے والی مدد کو کاٹ دے۔ مگر ایسا کرنے سے اسے یقینا مایوسی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے انبیاء کی مدد کرتا ہے اس کا اعلان ہے انا لننصر…………الاشھاد (المومن 51) بیشک ہم اپنے رسولوں اور اہل ایمان کی دنیا میں بھی مدد کرتے ہیں اور آخرت میں بھی مدد کریں گے جس دن گواہ کھڑے ہوں گے ۔ غرضیکہ جو شخص اللہ کی مدد سے مایوس ہوچکا ہے وہ جو چاہے تدبیر اختیار کرکے دیکھ لے۔ وہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ فرمایا وکذلک انزلنہ ایت بینت ، اور اسی طرح ہم نے اس کتاب کو واضح آیات کی صورت میں نازل کیا ہے۔ اس میں شک وتردد والی کوئی بات نہیں ہے۔ اب جس کا جی چاہے ان آیات سے فائدہ اٹھالے اور جو چاہے ان سے محروم رہے وان اللہ یھدی من یرید ، بیشک اللہ تعالیٰ اسی کو ہدایت دیتا ہے جس کو چاہے۔ اللہ کے علم اور حکمت میں کسی شخص کی جس قدر استعداد ، صلاحیت اور نیک نیتی ہوتی ہے ، اسی کے مطابق وہ اس کی راہنمائی کرتا ہے۔ مذاہب عالم پر ایک نظر : اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے مذہب عالم کے نام لے کر فرمایا ہے کہ وہ ان کے درمیان قیامت والے دن فیصلہ کردے گا کہ ان میں سے کون سا سچا دین ہے اور کون سا جھوٹا۔ ارشاد ہوتا ہے ان الذین امنوا ، بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے۔ انہوں نے اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کیا اس کے رسولوں ، کتابوں ، ملائکہ ، معاد اور خیر وشر کی تقدیر پر ایمان لائے ایک گروہ تو یہ ہے جو کہ اہل ایمان کا گروہ ہے۔ اور دوسرا گروہ وہ ہے والذین ھادوا جو یہودی بن گئے۔ کہنے کو تو یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور کتاب تورات کے پیروکار ہیں مگر انہوں نے تورات میں تحریف کرلی۔ بہت سی اچھی باتیں اس میں سے نکال لیں اور من مرضی کی غلط ملط باتیں ملادیں اور اس طرح انہوں نے اصل دین کو بگاڑ کر رکھ دیا۔ اللہ نے تیسرے مذہب کے متعلق فرمایا والصابئین اور جو صابی ہوئے۔ بعض تو نصاریٰ کو بھی صابیوں کا ہی ایک گروہ مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ یحییٰ (علیہ السلام) کو ماننے والے لوگ ہیں۔ البتہ بعض لوگ صابی ان کو مانتے ہیں جو ستاروں میں کرشمہ کے قائل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے صابی دور تھا۔ بعض اسے نوح (علیہ السلام) سے بھی پہلے کا دور تسلیم کرتے ہیں اور اس دور میں حضرت شیث (علیہ السلام) اور ادریس (علیہ السلام) کو شامل کرتے ہیں ، تاہم یہ امر مسلم ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے سے پہلے صابی دور تھا۔ ان میں سے کچھ ستارہ پرست بن گئے۔ کوئی انسانوں کی پوجا کرنے لگے اور طرح طرح کی شرکیہ باتوں میں ملوث ہوگئے چناچہ پرانی تہذیبوں میں سے بابل ، آشوریوں اور کلدانیوں کی تہذیبوں کا تعلق صابیوں ہی سے تھا۔ قدیم مصر کی تہذیب اور چین کی پرانی تہذیب کا تعلق بھی صابی دور سے ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک صابی دور رہا ، پھر حنیفیت کا دور شروع ہوگیا۔ اس دور میں یہودی ، نصرانی اور عرب کے مشرکین شامل ہیں۔ حضور ﷺ سے ساڑھے چار سو سال پہلے تک عرب کے لوگ دین حنیف پر ہی تھے۔ پھر قصی ابن کلاب کے زمانے سے شرک کا آغاز ہوا۔ تو اس پورے دور میں سے یہودونصاریٰ اور عربوں نے اپنے اپنے دین کو بگاڑ لیا اور اب حضور ﷺ کی بعثت کے بعد صرف اہل ایمان ہی دین حنیف پر قائم ہیں۔ امام جلال الدین سیوطی (رح) نویں دسویں صدی ہجری کے حافظ الحدیث ہیں جنہوں نے پانچ سو سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں۔ آپ اپنی کتاب ” حسن المحاضرۃ فی احوال المصر والقاھرۃ “ میں رقمطراز ہیں کہ اپنے وقت میں صابی مذہب ہی اصل دین تھا اور اس میں توحید طہارت ، صلوٰۃ اور صوم چاروں اصول پائے جاتے تھے مگر بعد میں انہوں نے خود اپنے دین کو بگاڑ لیا اور شرک میں مبتلا ہوگئے۔ والنصریٰ فرمایا چوتھا مذہب نصاریٰ کا ہے جو اپنے آپ کو مسیح (علیہ السلام) کا پیروکار سمجھتے ہیں۔ ان میں سے بعض نے ثثلیت کا عقیدہ اپنا لیا اور بعض نے مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہہ دیا اور اس طرح شرک میں مبتلا ہوگئے۔ فرمایا والمجوس پانچواں مذہب مجوسیوں کا ہے یہ لوگ آگ میں کرشمہ مانتے ہیں اور اسے ہمیشہ جلائے رکھتے ہیں ، بجھنے نہیں دیتے۔ یہ لوگ ثنویت کے قائل ہیں۔ دو خدا مانتے ہیں۔ ایک اہرمن اور دوسرا یزدان۔ نور اور ظلمت اور خیر اور شر کا الگ الگ خدا مانتے ہیں۔ یہ آگ کے پجاری بھی مشرک ہیں۔ اور چھٹا دین والذین اشرکوا کا ہے یعنی وہ لوگ جنہوں نے شرک کا ارتکاب کیا۔ عرب کے سارے لوگ مشرک تھے جو بتوں کی پوجا کرتے تھے حتیٰ کہ انہوں نے خانہ کعبہ کے اردگرد بھی بت رکھے ہوئے تھے۔ ہنود بھی مورتیوں کے پجاری ہیں۔ کافرستان کے لوگ اب تک مشرک ہیں۔ اب اس کا کچھ حصہ نورستان کے نام سے پاکستان میں بھی شامل ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ شرک سے تائب ہوئے ہیں۔ یہاں پر دو قسم کے کافر تھے یعنی سرخ کافر اور سیاہ کافر۔ سیاہ کافر تو اب تک کفر میں مبتلا ہیں ، البتہ سرخ کافرامیر عبدالرحمان مرحول کے زمانے میں مسلمان ہوگئے تھے ، یہ حصہ افغانستان میں شامل تھا۔ ان کی رسومات بھی عجیب و غریب ہیں۔ اسی طرح بدھ والے بھی بڑی عجیب عجیب رسمیں ادا کرتے ہیں۔ چین کے قدیم مشرکین دہریت میں چلے گئے۔ چینی ، جاپانی ، ویٹ نامی ، جزائر شرق الہند کے باشندے سب صابی تھے مگر بعد میں شرک میں مبتلا ہوگئے۔ علامہ زمخشری (رح) فرماتے (کشاف ص 147 ج 3 (فیاض) ہیں کہ ساری دنیا میں کل پانچ مذاہب ہیں ، جن میں سے چار مذہب شیطانی ہیں اور ایک مذہب رحمانی ہے۔ رحمانی مذہب تو اہل ایمان کا ہے جو حضور خاتم النبیین ﷺ کے پیروکار ہیں۔ اور باقی (1) صابی ونصاریٰ (2) یہودی (3) مجوسی (4) مشرک شیطانی مذاہب ہیں۔ قرآن پاک نے صابی اور نصاریٰ کو علیحدہ علیحدہ شمار کیا ہے۔ اس طرح کل چھ مذاہب میں سے ایک رحمانی اور پانچ شیطانی بنتے ہیں۔ ان کے علاوہ دنیا میں بعض دوسرے مذہبی راہنما بھی ہوئے ہیں جن کے متعلق وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کیسے لوگ تھے ابراہیم (علیہ السلام) کے دور کے قریبی زمانہ میں ایران میں زرتشت ہوا ہے۔ خدا جانے وہ کیسا آدمی تھا ، نبی تھا یا نہیں ، تاریخی واقعات پر یقین نہیں کیا جاسکتا اور یقین کے ساتھ اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح برصغیر میں بھی بعض مشہور ہستیاں گزری ہیں۔ مہاتما بدھ ، رام چند ر جی ، کرشن جی مہاراج وغیرہ کے متعلق ہندوئوں کی کتابوں میں جو کچھ موجود ہے ، وہ تو شرکیہ باتیں ہیں جو کسی نبی کے شایان شان نہیں ہوسکتیں۔ ان کے متعلق بھی حقیقت معلوم نہیں ہوسکی۔ ہو سکتا ہے کہ یہودیوں کی طرح ان کے پیروکاروں نے بھی اپنے اپنے مذاہب میں نئی نئی باتیں شامل کرکے مذہب کو بگاڑ دیا ہو۔ یہودیوں نے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ، حضرت دائود (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف بھی نہایت ہی بیہودہ باتیں منسوب کردی ہیں۔ بہرحال یہ سب بگڑے ہوئے مذاہب ہیں۔ اللہ کا آخری فیصلہ : فرمایا یہ سب ایسے مذاہب ہیں کہ ان اللہ یفصل بینھم یوم القیمۃ ان کے درمیان اللہ تعالیٰ ہی قیامت کے دن فیصلہ کریگا۔ یہ قطعی اور آخری فیصلہ ہوگا۔ اس دن دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ ہر مذہب کے پیروکاروں کو پتہ چل جائے گا کہ وہ دنیا میں کس طریقے پر چلتے رہے۔ ان اللہ علی کل شیء شھید ، اللہ تعالیٰ ہر چیز پر نگہبان ہے وہ ہر شے کو دیکھ رہا ہے۔ دنیا میں اس وقت مذکورہ چھ مذاہب پائے جاتے ہیں جن کی باقیات اس وقت بھی مختلف ممالک میں موجود ہیں۔ البت ہکامیابی صرف ایمان والوں کے حصے میں ہے۔ دنیا کے جس خطہ میں بھی ہوں ، اللہ تعالیٰ انہیں آخرت کی کامیابی عطا کریں گے ۔ جب قیامت والے دن فیصلے ہوں گے تو پھر ہر ایک کو پتہ چلے گا کہ وہ کس کس غلطی میں مبتلا تھے اور پھر انہیں خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا۔
Top