Mualim-ul-Irfan - Al-Muminoon : 12
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍۚ
وَ : اور لَقَدْ خَلَقْنَا : البتہ ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے سُلٰلَةٍ : خلاصہ (چنی ہوئی) مِّنْ طِيْنٍ : مٹی سے
اور البتہ تحقیق ہم نے پیدا کیا انسان کو مٹی کے خلاصے سے
ربط آیات : سورۃ کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی بعض صفات بیان فرمائی ہیں اور نوید سنائی ہے کہ جن لوگوں میں یہ اوصاف پائے جائیں گے ان کو کامیابی نصیب ہوگی اور وہ آخرت میں جنت الفردوس کے مالک بن جائیں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسئلہ تخلیق انسانی بیان فرمایا ہے کہ اس نے انسان کی تخلیق کن کن مراحل کے بعد کی۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ انسان اپنی طبعی عمر پوری کرکے فوت ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن دوبارہ اٹھائے گا اور پھر حساب کی منزل آئیگی اور جزا اور سزا کا فیصلہ ہوگا۔ انسان کی اولین تخلیق مٹی سے : ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے تخلیق انسان کی دو صورتیں بیان فرمائی ہیں۔ اس نے پہلے انسان یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) کو براہ راست مٹی سے پیدا کیا جب کہ باقی نسل کو قطرہ آب کے توسط سے۔ پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کا ذکر فرمایا ہے ولقد خلقنا الانسان من سللۃ من طین اور البتہ تحقیق ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا۔ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ اللہ نے فرشتے کو حکم دیا کہ تمام سطح ارض سے چھانٹ کر مٹھی مٹی لائو۔ تعمیل حکم کی گئی تو اسی مٹی سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کا ڈھانچہ تیار کیا ، پھر اس میں روح پھونکی تو وہ جیتا جاگتا انسان بن گیا۔ زمین کی مٹی مختلف مقامات پر مختلف نوعیت کی ہے ، کہیں ریتلی ہے اور کہیں چکنی۔ کوئی مٹی سفید ہے ، کوئی سرخ اور کوئی سیاہ ، کوئی پتھریلی ہے اور کوئی بھربھری ، مٹی کی انہی خصوصیات کی وجہ سے انسانوں میں بھی مختلف خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ مختلف علاقوں میں مختلف رنگوں کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ پھر ان کی طبیعتیں بھی مختلف ہوتی ہیں ، کوئی سعادت مند اور کوئی شرپسند۔ کوئی نرم طبیعت اور کوئی سخت طبیعت ، کوئی صلح کن اور کوئی جنگجو ، گویا اس مٹی کا اثر انسانی اخلاق پر بھی پڑتا ہے اور اسی پر مختلف لوگوں کی طبائع مختلف ہوتی ہیں۔ اگرچہ براہ راست مٹی سے تخلیق صرف آدم (علیہ السلام) کی ہوئی تھی تاہم اس کو تمام انسانوں پر بھی منطبق کیا جاسکتا ہے۔ یہ اس وجہ سے کہ جن غذائوں کے استعمال سے انسان کی پرورش ہوتی ہے اور نسل انسانی کی بقا کے لئے نطفہ کا سلسلہ چلتا ہے ، وہ ساری کی ساری غذائیں مٹی ہی کی پیداوار ہیں۔ اناج ، پھل سبزیاں وغیرہ جو انسان استعمال کرتے ہیں۔ وہ مٹی سے ہی اگتی ہیں۔ لہٰذا اس لحاظ سے بھی انسان کی تخلیق مٹی سے ہی ثابت ہوتی ہے۔ گویا مٹی انسان کی اصل ہے ، مرنے کے بعد پھر مٹی ہی اس کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے اور قیامت کو دوبارہ اس مٹی سے انسان کو اٹھایا جائے گا۔ مٹی میں فطرتی طور پر عاجزی اور انکساری پائی جاتی ہے۔ لہٰذا جو شخص منکسرالمزاج ہوگا۔ وہ دراصل اپنے اصل کی طرف رجوع کرنے والا ہوگا۔ جو کہ ایک اچھی صفت ہے۔ قطرہ آب سے تخلیق : مٹی سے ابتدائی تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کے فطری ذریعہ تخلیق کا ذکر فرمایا ہے۔ ثم جعلنہ نطفۃ فی قرار مکین ، پھر ہم نے اسے قطرہ آب کی شکل میں جمے ہوئے ٹھکانے یعنی رحم مادر میں رکھا۔ نطفہ شفاف پانی کو کہتے ہیں جس میں کوئی میل کچیل یا کسی دوسری چیز کی ملاوٹ نہ ہو۔ انسان کا مادہ تولید بھی بایں معنی شفاف ہوتا ہے کہ یہ صرف ایک ہی انسان کا مادہ ہوتا ہے اور اس میں کسی دوسرے شخص کی ملاوٹ نہیں ہوتی۔ غرضیکہ فرمایا کہ ہم نے مرد کے مادہ تولید کو عورت کے رحم میں رکھا اور پھر وہاں اسے مختلف مراحل سے گزارا اور اس کی مختلف شکلیں بنائیں اور پھر اس سے مکمل انسان کو پیدا کردیا۔ قرآن میں دوسری جگہ نطفہ کو ماء مھین بھی کہا گیا ہے یعنی یہ ایک حقیر پانی ہے جس کی ناپاکی میں کوئی شبہ نہیں۔ اگر یہ کپڑے کو لگ جائے تو کپڑا بھی اچھی طرح دھوئے بغیر پاک نہیں ہوتا۔ اور یہ بھی ہے کہ جس راستے سے اس پانی کا اخراج ہوتا ہے وہ بھی نجاست آلود ہتا ہے۔ اس لئے اس کو حقیر پانی کہا گیا ہے اور پھر اس سے انسان جیسی اشرف مخلوق کو پیدا کیا جو اس کی ساری مخلوق میں شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ رحم مادر میں تغیرات : فرمایا ، ہم نے اس قطرہ آب کو رحم مادر میں مقرر جگہ پر رکھا۔ ثم خلقنا النطفۃ علقۃ پھر اس قطرہ آب خون کے لوتھڑے میں تبدیل کیا۔ گویا چالیس دن کے عرصہ میں پانی کا یہ حقیر قطرہ خون کا لوتھڑا بن گیا۔ فخلقنا العلقۃ مضغۃ پھر ہم نے خون کے جمے ہوئے لوتھڑے کو گوشت کے ٹکڑے میں بدل دیا۔ اس تبدیلی پر بھی چالیس دن کا عرصہ صرف ہوا۔ فخلقنا المضغۃ عظما پھر مزید چالیس دن کے عرصہ میں ہم نے اس گوشت میں ہڈیاں پیدا کردیں۔ فکسونا اعلظم لحما پھر ہم نے ان ہڈیوں کو گوشت پہنا دیا یہ کورس بھی چالیس دن میں مکمل ہوا۔ ایک تحقیق کے مطابق انسانی جسم میں پانچ سو ہڈیاں ہیں جن کو جوڑ کر انسانی ڈھانچہ مکمل کیا جاتا ہے۔ ہڈیوں کو کو جوڑنے کے لئے اللہ تعالیٰ ان کے درمیان ہی لچکدار مادہ تخلیق کرتا ہے اور ہڈیوں کو باندھنے کے لئے رباطات یعنی رسیاں بھی جسم کے اندر ہی پیدا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جھلیاں اور پٹھے ہوتے ہیں جن کے ذریعے ہڈیوں کو اس طریقے سے آپس میں باندھ دیا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسری سے مربوط ہوجاتی ہیں ، اور پھر ان پر گوشت چڑھا کر انسانی اعضا کو مکمل کردیا جاتا ہے۔ فرمایا ہڈیوں پر گوشت چڑھانے کے بعد ثم انشانہ خلقا اخر پھر ہم نے اس کو ایک نئی شکل و صورت میں لاکھڑا کیا۔ جب ڈھانچہ مکمل ہوگیا تو پھر جس پر کھال پیدا ہوگئی۔ بال اگ آئے ، ناخن بن گئے اور اندرونی اور بیرونی تمام نشیب و فراز بن گئے ۔ ذرا غور کریں کہ کجا ایک حقیر قطرہ آب اور کجا ایک مکمل انسان جس کی آنکھیں ، کان ، دل کام کرنے لگتے ہیں۔ ایک خاص مدت کے بعد دل کی دھڑکن بھی شروع ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے تمام ساختوں میں خون گردش کرنے لگتا ہے اور جسم کی نشونما شروع ہوجاتی ہے۔ وگرنہ انسان تو اس قدر کمزور ہے کہ ساری دنیا کے سائنسدان بھی مل کر ایک قطرہ خون نہیں پیدا کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ یہ کام کروڑوں فرشتوں کے ذریعے کرتا ہے۔ قدرت کا شاہکار : جب کوئی شخص تخلیق انسانی کے ان مراحل پر غور وفکر کرتا ہے۔ تو اس کی زبان پر بےساختہ خدائے بلند برتر کی حمد کا ترانہ آجاتا ہے۔ فتبرک اللہ احسن الخالقین ، پس بڑی بابرکت ہے اللہ تعالیٰ کی ذات جو سب سے بہتر تخلیق کرنے والا ہے۔ انسان کی تخلیق اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بہترین شاہکار ہے جسے خود اللہ تعالیٰ نے احسن تقویم کے لفظ سے موصوف کیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے انسان اس کی بہترین مخلوق ہے اس کی شکل و صورت اور اعضاء وجوارح اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کا بہترین نمونہ ہیں۔ مفسر قرآن علامہ زمحشری (رح) (کشاف ص 178 ج 3 (فیاض) ثم انشانہ خلقا اخر پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ (رح) نے اس جملے سے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے مرغی کا انڈا چھین کر اسے مرغی کے نیچے رکھ دے اور اس سے بچہ نکل آئے تو وہ شخص صرف انڈا واپس کرنے کا ذمہ دار ہوگا نہ کہ انڈے سے نکلنے والا بچہ ، اگر انڈا میسر نہ ہو تو اس کی قیمت ادا کریگا وہ شخص بچہ واپس کرنے کا مکلف نہیں کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے اسے دوسری شکل و صورت میں تبدیل کردیا ہے۔ جیسا کہ اس حصہ آیت سے واضح ہے ۔ سائنسی تحقیقات : میڈیکل سانئس والوں نے انسانی تخلیق کے نو ماہ کے عرصہ پر بڑی عرق ریزی کے ساتھ تحقیق کی ہے۔ اس عرصہ کے دوران ایک ایک لمحہ میں ہونے والے تغیرات کا خورد بینوں کے ذریعے مطالعہ کیا ہے جو کہ دس سال میں مکمل ہوا۔ مڈوائفری کی مشہور کتاب (Ten Teachers دس معلمین) میں اس تحقیق کی تمام تفصیلات درج ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ میں سائنسدانوں نے بڑی بڑی تحقیقات کرکے دنیا کو نئی نئی چیزوں اور نئے نئے تجربات سے روشناس کرایا ہے بعض سائنسدانوں نے محض چیونٹیوں پر چالیس سال تک محنت کی ، ان کے تمام خدوخال ، ان کے حرکات و سکنات اور ان کے معمولات و مشغولات کا مطالعہ کیا اور پھر انہیں کتابی صورت میں شائع کیا ظاہر ہے کہ بغیر محنت کے کوئی چیز حاصل نہیں ہوسکتی ۔ بڑے بڑے تجربات اور مشاہدات ہی صحیح نتیجہ پر پہنچنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اپنے عروج کے زمانے میں مسلمانوں نے بھی سائنسی تجربات کرنے میں بڑی بڑی محنت کی ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں ان کے مقابلہ کی کوئی قوم نہ تھ ، اس سے پہلے رومیوں اور یونانیوں نے بھی بڑی بڑی مشقتیں اٹھائیں اور بنی نوح انسان کی خدمت کی ۔ بعد میں ابن سینا جیسے مسلمانوں سائنسدان بھی پیدا ہوئے۔ اس شخص نے صرف سولہ سال کی عمر میں پانچ جلدوں پر محیط فن طب پر ” قانون “ نامی کتاب لکھی جس کے نتائج آج کے سائنسی دور میں بھی پچھتر فیصد تک درست ثابت ہو رہے ہیں۔ ان کے باوجود اس شخص کا دعویٰ ہے کہ اس کا اصل موضوع تو فلسفہ ہے ، طب کی تحقیق تو اس نے محض شغل کے طور پر اختیار کررکھی ہے۔ جب اسے بادشاہ وقت نے وزارت عظمی کی پیش کش کی تو اس نے قبولیت کے لئے دو شرائط پیش کیں۔ پہلی یہ کہ اگر کوئی مجھ سے علاج معالجے کے متعلق مشورہ طلب کریگا تو مجھے وہ مشورہ دینے کی اجازت ہوگی ، اور دوسری شرط یہ کہ اگر میرے طالب علم حصول علم کے لئے آئیں تو ان کو روکا نہیں جائیگا اور مجھے ان کی تشنگی دور کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ بادشاہ نے آپ کے یہ دونوں شرائط تسلیم کیں اور وزارت عظمیٰ پر فائز کیا۔ افسوس کا مقام ہے کہ اب مسلمانوں میں یہ جذبہ باقی نہیں رہا ، ان کی صلاحیتیں تباہ ہوچکی ہیں ، دوسروں کے غلام بن چکے ہیں اور اب ان کے پاس غیروں کی خوشہ چینی کے سوا کچھ نہیں رہا۔ ایک کاتب وحی کا واقعہ : حضور ﷺ کے زمانے میں آپ ایک شخص کو قرآن پاک لکھوایا کرتے تھے۔ جب آیت ثم انشانہ خلقا اخرا کا نزول ہوا۔ تو حضور ﷺ نے اس شخص کو لکھنے کے لئے کہا۔ جب وہ شخص یہ الفاظ لکھ چکا تو آگے اس کی زبان پر خود بخود یہ الفاظ جاری ہوگئے فتبرک اللہ احسن الخالقین اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا اس پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ خالق ارض وسما کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔ جب حضور ﷺ نے اسے یہی الفاظ لکھنے کے لئے کہا تو شیطان نے اس کے دماغ میں فتور پیدا کردیا اور کہنے لگا کہ یہ الفاظ تو پہلے ہی میری زبان پر جاری ہوچکے ہیں لہٰذا یہ مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے۔ وحی کے نزول کا دعویٰ کرکے وہ شخص مرتد ہوگیا اور مکہ چلا گیا ، تاہم فتح مکہ کے بعد اللہ نے اسے پھر توفیق بخشی اور وہ تائب ہو کر پھر دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا ، تاریخ میں اس کے بڑے بڑے کارناموں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ انسان کی موت اور بعثت : آگے فرمایا ثم انکم بعد ذلک لمیتون پھر اس کے بعد تمہیں موت آنے والی ہے کیونکہ اللہ رب العزت کا یہ اٹل فیصلہ ہے کل نفس ذائقۃ الموت (آلعمران 185) ہر ذی جان کو موت سے ہمکنار ہونا ہے۔ فرمایا ثم انکم یوم القیمۃ تبعثون پھر تم قیامت والے دن دوبارہ اٹھائے جائو گے۔ پھر حساب کتاب اور جزائے عمل کی منزل آئے گی اور تمہیں اسی دنیا کی کارکردگی کا پھل مل کر رہے گا۔ پیدائش انسان کا آغاز تھی۔ اس کے ساتھ اللہ نے انجام کا ذکر بھی کردیا۔ یہ سب باتیں توحید خداوندی کے دلائل ہیں۔ جنہیں دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قدرت سمجھ میں آتی ہے۔ یہ تو انسان کا اندرونی حال تھا ، آگے اللہ نے بیرونی مشاہدات کا تذکرہ بھی کیا ہے ولقد خلقنا فوقکم سبع طرائق ہم نے تمہارے اوپر سات طبقات بناڈالے ، طریق راستے کو بھی کہتے ہیں اور طبقہ کو بھی۔ یہاں آسمان کے ساتھ طبقات مراد ہیں۔ اللہ نے ہر طبقہ میں اپنی حکمت کے شواہد رکھے ہیں۔ فرمایا ہم نے ہر چیز کو تخلیق کیا وما کنا عن الخلق غفلین اور ہم اپنی مخلوق سے غافل نہیں ہیں۔ یہ سب کچھ پیدا کرکے اسے ویسے نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس کی مسلسل نگہداشت بھی کرتے ہیں اور ہر مخلوق کے لئے اس کے مناسب حال سامان بھی مہیا کرتے ہیں۔ یہ ہمارے علم و حکمت میں ہے کہ کس کو کیا چیز کس وقت میں دینی ہے اور کس سے کیا چیز کب روکنی ہے ۔ جس نے پیدا کیا ہے۔ وہ اپنی مخلوق سے غافل نہیں ہے۔ فیملی پلاننگ والے تو دنیا کو بھوک سے بچانے کے لئے بڑے بڑے منصوبے بناتے ہیں مگر وہ سارے بیکار محض ہیں۔ ہر جاندار کی روزی کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے اٹھا رکھا ہے۔ اس کا واضح اعلان ہے وما من……………رزقھا (ہود 6) وہ پیدا کرتا ہے تو روزی کے وسائل بھی مہیا کرتا ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کے شاہکار ہیں۔ وہ وحدہ لاشریک ہے۔ یہ دلائل قدرت دیکھ کر انسان کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لے آنا چاہیے تاکہ اسے دائمی فلاں نصیب ہوسکے۔
Top