Mualim-ul-Irfan - Al-Muminoon : 51
یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا١ؕ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الرُّسُلُ : رسول (جمع) كُلُوْا : کھاؤ مِنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَاعْمَلُوْا : اور عمل کرو صَالِحًا : نیک اِنِّىْ : بیشک میں بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے رسولو ! کھائو پاکیزہ چیزوں سے اور عمل کرو نیک بیشک جو کچھ تم کرتے ہو میں ان کو جانتا ہوں
ربط آیات : اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور دیگر انبیاء کا ذکر کیا اور بتایا کہ انہوں نے اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا اور توحید کی دعوت دی۔ پھر انبیاء کے تذکرے میں موقوں کی نافرمانی اور ان کی ہلاکت کا ذکر ہوا۔ پھر اللہ نے فرعون کی سرکشی ، نافرمانی اور تکبر کا حال بیان کیا اور آخر میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کی والدہ کا ذکر کیا۔ یہ دونوں ماں بیٹا اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اکثرقوموں نے محض اس لئے انبیاء کی تکذیب کی کہ وہ انسان تھے ، کہتے تھے ہم اپنے جیسے انسان کا اتباع کیسے کریں اور اسی بنیاد پر انہوں نے رسالت کا انکار کیا۔ پھر اللہ نے وقوع قیامت اور بعث بعدالموت کا ذکر کیا اور اسے برحق فرمایا۔ اللہ نے اس بارے میں بہت سے دلائل دیے جن سے اللہ کی توحید اور وقوع قیامت پر ایمان لانے کی ترغیب ملتی ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ اس بارے میں شبہ کرنے والے لوگ غلط کار اور نادان ہیں۔ اکل حلال اور اعمال صالحہ : اب آج کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ملت کا ایک عام اصول بیان کیا ہے جو تمام انبیاء کی تعلیم میں مشترک ہے۔ ارشاد ہوتا ہے یایھا الرسل کلوا من الطیبت واعلمو صالحا اے رسولو ! پاک چیز کھائو اور نیک اعمال انجام دو ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ خطاب تمام انبیاء سے کب ہوا ، اس کے متعلق مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ خطاب معراج کے موقع پر کیا گیا جب تمام انبیاء نے بیت المقدس میں حضور ﷺ کی اقتداء میں نماز ادا کی۔ بعض دوسرے مفسرین کا خیال ہے کہ یہ خطاب اس وقت کا ہے جب اللہ نے تمام انبیاء سے میثاق لیا جس کا ذکر سورة آل عمران میں ہے واذاخذ…………النبین (آیت 81) بعض یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ خطاب سارے انبیاء کو اکٹھا نہیں کیا گیا تھا بلکہ ہر نبی کو اللہ نے اس کے زمانہ نبوت کے دوران میں حلال چیزیں کھانے اور نیک اعمال انجام دینے کا حکم دیا تھا ، تاہم اس کو اکٹھا ذکر کردیا گیا ہے۔ بہرحال ان دو باتوں کا حکم ملت کا ایک عام اصول ہے۔ دین ، ملت اور شریعت : حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس کام کا حکم اللہ نے نبیوں کو دیا ہے۔ وہ حکم تمام مومنوں کے لئے بھی قابل عمل ہے کہ حلال چیزیں کھائو اور نیک کام کرو۔ گذشتہ دروس میں انبیاء کی یہ تعلیم اپنی اپنی قوم کے لئے گزر چکی ہے ان اعبدو…………غیر (آیت 32) لوگو ! اللہ کی عبادت کرو ، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ یہ دین کا اصول ہے جو ہر نبی نے اپنی امت تک پہنچایا۔ دین کے بڑے بڑے اصولوں میں توحید رسالت ، قیامت ، کتب سماویہ ، ملائکہ اور تقدیر پر ایمان لانا ہے جب کہ اکل حلال اور عمل صالح کا تعلق ملت سے ہے تمام انبیاء کا دین اور ملت ایک ہی ہے۔ سورة الانبیاء میں بھی وحت ملت انبیاء کا ذکر ہوچکا ہے ان ھذہ…………واحدۃ (آیت 92) اور یہاں بھی اگلی آیت میں یہی الفاظ آرہے ہیں۔ ملت میں کلی اصول ہوتے ہیں۔ چناچہ اخلاق کی پاکیزگی ، اکل حلال اور عمل صالح سارے نبیوں کے مشترک اصول ہیں۔ دراصل یہ تین چیزیں ملتی جلتی ہیں ایک دین دوسری ملت اور تیسری شریعت۔ دین میں بنیادی اصول ہوتے ہیں جو کہ تمام انبیاء کی تعلیم میں مشترک ہوتے ہیں۔ اور ملت میں کلی اصول ہوتے ہیں اور یہ بھی تمام انبیاء کی ملل کے لئے مشترک ہوتے ہیں۔ تیسری چیز شریعت ہے۔ جو ہر نبی کی الگ ہوتی ہے۔ اس میں جزیات ہوتی ہیں۔ بعض شرائع میں کوئی چیز حلال ہوتی ہے تو بعض میں حرام ہوتی ہے۔ اور ایک شریعت کے بعض احکام دوسری شریعت کے لئے منسوخ ہوجاتے ہیں۔ شریعت کو منہاج کے لفظ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے لکل……………ونھا جا (المائدہ 48) ہم نے ہر امت کے لئے علیحدہ علیحدہ منہاج یا شریعت مقرر کردی ہے اور پھر آخر میں اللہ نیحضور ﷺ سے خطاب کرکے فرمایا ثم جعلنک……………فاتبعھا (الجاثیۃ 18) ہم نے آپ کے لئے بھی ایک خاص شریعت مقرر کی ہے اس کا اتباع کریں ، اور لوگوں کو بھی اس کی دعوت دیں۔ بہرحال اکل حلال اور عمل صالح ملت کے اصولوں میں سے ہیں ، اور یہ سارے نبیوں کے مشترک اصول ہیں اللہ نے سب انبیاء کو یہی حکم دیا ہے۔ امام حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ نے کسی چیز کے سیاہ وسفید رنگ کی بناء پر یہ حکم نہیں دیا بلکہ حلال چیز کو معیاری قرار دے کر اس کو کھانے کا حکم دیا ہے۔ حضرت نعمان بن توقل ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر میں خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو مانوں ، رسالت کی گواہی دوں ، نماز ادا کرو ، زکوٰۃ دوں ، حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھوں ، تو کیا مجھے نجات حاصل ہوجائے گا۔ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں۔ حلت و حرمت کے امتیاز کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا اور حلال و حرام کی تعریف یہ ہے۔ الحلال ما احل اللہ والحرام ماحرم اللہ حلال وہ چیز ہے جس کو اللہ نے حلال قرار دیا ہے اور حرام وہ ہے جس کو اللہ نے حرام کہا ہے۔ لفظ ” طیب “ کی تشریح : طیب اس چیز کو کہا جاتا ہے جو حلال بھی ہو اور پاکیزہ بھی۔ بعض مقامات پر حللا طیبا (البقرہ 168) دونوں الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کھانا عام طور پر حلال بھی ہوتا ہے اور پاکیزہ بھی ، اور اگر اس میں بدبو پیدا ہوجائے تو طیب نہیں رتا بلکہ مکروہ تحریمی کے حکم میں آجاتا ہے۔ طیب ہونے کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ اس کے ساتھ کسی کا حق متعلق نہ ہو۔ مثلاً اگر ایک مسروقہ بکری کو شرعی طریقہ سے ذبح کرکے اس کا گوشت پکایا جائے تو اس کا گوشت پاک تو ہے مگر طیب نہیں ہے۔ یا اگر کوئی طیب گوشت کو چور ی کرکے پکالے تو پھر بھی وہ طیب نہیں ہوگا۔ حرام چیز کے استعمال سے حرام خون پیدا ہوگا اور ایسی چیز کھانے سے عبادت بھی مقبول نہیں ہوگی۔ اسی طرح حرام لباس پہننے سے بھی عبادت نامقبول ہوگی۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) نے اپنی کتاب حجۃ الل البالغہ میں فلسفہ اکل وشرب بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں ، یادرکھو ! انسان کی سعادت چار خصلتوں پر موقوف ہے اور وہ خصلتیں (1) طہارت (2) اخبات (3) سماحت اور (4) عدالت ہیں۔ اگر ان کی متضاد وخصلتیں پائی جائیں گی یعنی (1) نجاست (2) تکبر (3) خاست (4) ظلم تو وہ شخص شقی یا بدبخت ہوگا۔ سعادت مند شخص وہ ہوگا جس میں پہلی چار خصلتیں پائی جائیں گی۔ فرماتے ہیں کہ انسان کے جسم اور اخلاق پر خوراک سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ اگر خوراک پاک ہوگی تو اخلاق بھی پاک ہوں گے۔ اور اگر خوراک ناپاک ہوگی تو انسان کے اخلاق بھی ناپاک ہوں گے۔ اسی لئے اللہ نے اپنے رسولوں اور ان کی معرفت تمام لوگوں کو حکم دیا کہ پاک چیزیں کھائو جو حلال بھی ہوں اور صاف ستھری بھی۔ باطنی نجاست : نجاست ظاہری بھی ہوتی ہے اور باطنی بھی۔ اگر کھانے یا مشروب میں کوئی نجاست پڑجائے تو ظاہر ہے کہ وہ ناپاک ہو کر کھانے پینے کے قابل نہیں رہیگا ۔ یہ تو ظاہری نجاست ہے۔ اور باطنی نجاست یہ ہے کہ کوئی چیز غبر اللہ کی نیاز کے طور پر دی جائے۔ وہ بظاہر تو صاف ستھری ہوگی۔ مگر اس میں روحانی نجاست پائی جاتی ہے اللہ تعالیٰ نے چار چیزوں کو قطعی حرام قرار دیا ہے انما حرم………………………لغیر اللہ (البقرہ 173) ان میں سے مراد میں ظاہری نجاست ہے۔ خون کے استعمال سے درندگی کی خصلت پیدا ہوتی ہے۔ اور خنزیر کے گوشت اور نذر لغیر اللہ میں روحانی نجاست پائی جاتی ہے جس سے دل اور رورح پلید ہوجاتے ہیں۔ حضور ﷺ کا فرمان (طحاوی ص 8 ج 1 (فیاض) ہے انجاس الناس علی انفسھم یعنی لوگوں کو نجاست ان کے نفسوں میں پڑی ہوئی ہے۔ شرک سے روح ناپاک ہوجاتی ہے۔ اسی لئے فرمایا فاجتنبو………الاوثان (الحج 30) بت پرستی کی گندگی سے بچو۔ یہ ۔۔۔ باطنہ کی گندگی ہے۔ جس شخص کا دل و دماغ اور روح ناپاک ہو وہ اللہ کی بارگاہ میں پہنچنے کے اہل نہیں رہتا۔ خدا کی بارگاہ میں تو اس کی رسائی ہوگی الامن…………سلیم (الشعرآء 89) جو قلب سلیم لے کر جائیگا ، ایسادل جس میں کفر ، شرک اور نفاق جیسی کوئی گندی چیز نہ ہو۔ اکل حلال اور صدق مقال : اللہ نے سارے نبیوں اور اہل ایمان کو طیب چیزیں کھانے کا حکم دیا ہے کلوا…………رزقنکم (طہ 81) جو روزی ہم نے تمہیں دی ہے اس میں سے طیب چیزیں کھائو یعنی جو حلال بھی ہوں اور صاف ستھری بھی ۔ حضور ﷺ کا (تفسیر ابن کثیر ص 247 ج 3 (فیاض) فرمان بھی ہے ان اللہ طیب لا یقبل الا طیبا اللہ تعالیٰ خود پاک ہے اور وہ صرف پاک چیز کو ہی قبول کرتا ہے۔ حرام مال سے صدقہ و خیرات قبول نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص مرنے کے بعد پیچھے حرام مال چھوڑ گیا ہے تو وہ اس کے لئے جہنم کا توشہ ہوگا۔ علامہ اقبال مرحوم نے بھی کہا ہے ؎ سر دین اکل حلال وصدق مقال خلو وجلوت تماشائے جمال دین کا راز ان دو چیزوں میں ہے یعنی اکل حلال اور صدق مقال۔ حلال چیز کھانا اور سچی بات کرنا۔ فرماتے ہیں کہ جلوت وخلوت میں اللہ ہی کی صفت ظاہر ہونی چاہیے۔ الغرض حلال بہت بڑی چیز ہے ۔ ” کشف الغمہ “ میں امام حسن بصری (رح) سے منقول ہے ، کاش مجھے خالص حلال روزی نصیب ہو تو میں اسے ہسپتالوں میں بیماروں میں تقسیم کروں۔ کیونکہ حلال خوراک میں اللہ نے شفا رکھی ہے بہرحال جہاں اللہ نے پاک اشیا کھانے اور نیک عمل کرنے کا حکم دیا ، وہاں یہ بھی فرمایا انی بما تعملون علیم بیشک میں تمہارے اعمال سے بخوبی واقف ہوں۔ فرقہ بندی : ارشاد ہوتا ہے وان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ بیشک تمہارا دین اور ملت ایک ہی ہے وانا ربکم فاتقون اور میں تمہارا پروردگار ہو ، پس مجھ ہی سے اور میری نافرمانی سے بچتے رہو۔ اللہ نے سارے نبیوں کو ان کے اپنے اپنے دور میں یہی حکم دیا ، مگر بعد میں آنے والے لوگوں کی حایت یہ ہوئی فتقطعوا امرھم بینھم زبرا ، انہوں نے اپنے معاملات کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ دین کے بنیادی عقائد کو ترک کردیا۔ اس میں اپنی خواہشات کے مطابق محرمات اور مشکوکات کو داخل کردیا اور اس طرح بہت سے گمراہ فرقے بن گئے۔ سورة الانعام میں اللہ نے فرمایا ہے ان الذین………… ……شیء (آیت 160) جن لوگوں نے دین میں گروہ بندی کردی اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ فرقہ بندی یہی ہے کہ دین کے اساسی اصولوں کو ترک کردیاجائے یا ان کو غلط معنے پہنادیے جائیں اور یا پھر غلط عقیدے وضع کرلیے جائیں۔ اچھے اعمال کو چھوڑ کر غلط رسومات کو اختیار کرلینا بھی فرقہ بندی میں شامل ہے ۔ یہ ایک مہلک چیز ہے جس کی انتہا جہنم ہے۔ فرمایا اس تمام تر فرقہ بندی کے باوجو کل حزب بما لدیھم فرحون ہر گروہ اپنی اپنی بات پر خوش ہے کہ وہ ٹھیک راستے پر جا رہے ہیں۔ یادرکھو ! گمراہ فرقے وہ ہیں جن میں اساس دین کا بگاڑ ہے اس سے فروعات مراد نہیں ہیں کیونکہ فروعات میں توسع ہوتی ہے اگر اس میں اختلاف بھی ہوگا تو بنیاد بہرحال ایک ہی ہوگی۔ چناچہ مشہور مذاہب اربعہ یا محدیثین میں جو اختلاف ہوتا ہے وہ فرقہ بندی میں داخل نہیں۔ یہ سب لوگ ہدایت پر ہیں۔ یہودونصاری کی طرح عقیدے ، رسومات اور اعمال میں گڑ بڑ ہو تو یہ فرقہ بندی ہے جو کہ گمراہی ہے۔ فرمایا فذرھم فی غمرتھم حتی حین ، ان فرقہ پرست گمراہ لوگوں کو ایک مقررہ وقت تک ان کی غفلتوں میں چھوڑ دیں۔ یہ لوگ دنیا میں اپنا وقت گزار لیں۔ ایحسبون………………وبنین کیا یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان کی مال واولاد کی صورت میں جو مدد کر رہے ہیں۔ نسارع لھم فی الخیرت تو کیا ہم ان کے لئے بھلائیوں میں سبقت کر رہے ہیں ؟ جب نافرمانی کے باوجود اللہ کسی کو مال واولاد میں برکت دیتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اللہ مجھ سے راضی ہے جبھی تو انعام واکرام ہو رہے ہیں۔ فرمایا ، یہ اس کی خام خیالی ہے سنستدر……………یعلمون (القلم 44) یہ تو استدراج ہے۔ ہم انہیں ایسے طریقے سے پکڑیں گے کہ انہیں خبر بھی نہ ہوگی واملی……… …متین (القلم 45) میں ان کو مہلت دیتا ہوں اور میری تدبیر بڑی قوی ہے اگر اس زندگی میں بچ بھی گیا تو آئندہ زندگی میں ضرور گرفت ہوگی۔ فرمایا ، یہ لوگ توحید کی بجائے شرک ، اعمال صالحہ کی بجائے اعمال فاسدہ اور عقائد حقہ کی بجائے عقائد باطلہ اختیار کرکے اور حلال و حرام کی تمیز سے صرف نظر کرکے سمجھ رہے ہیں کہ وہ ٹھیک راستے پر جا رہے ہیں۔ نہیں بلا لا یشعرون ، بلکہ ان کو تو شعورہی نہیں ہے۔ خدا مہلت دے رہا ہے اور یہ اپنی کارکردگی پر خوش ہو رہے ہیں۔ عنقریب پکڑے جائیں گے۔
Top