Mualim-ul-Irfan - Al-Muminoon : 57
اِنَّ الَّذِیْنَ هُمْ مِّنْ خَشْیَةِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ هُمْ : وہ مِّنْ : سے خَشْيَةِ : ڈر رَبِّهِمْ : اپنا رب مُّشْفِقُوْنَ : ڈرنے والے (سہمے ہوئے)
بیشک وہ لوگ جو اپنے رب کے خوف سے ڈرنے والے ہوتے ہیں
ربط آیات : گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے دلائل توحید ذکر کرنے کے بعد نافرمان لوگوں کا حال بیان کیا اور اس سلسلے میں بہت سے نبیوں کا تذکرہ کیا۔ انہوں نے اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا مگر انہوں نے انکار کیا۔ آخر میں موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کا ذکر آیا۔ پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کی والدہ کا بھی مختصر تذکرہ ہوا۔ اس کے بعد اللہ نے تمام نبیوں کی مشترک تعلیم کا ذکر کیا۔ اللہ نے تمام رسولوں کو یہی اصول سمجھایا کلوا من الطیبت واعملوا صالحا ہمیشہ حلال اور طیب چیز کھائو اور نیک اعمال انجام دو ۔ اسی اصول ملت کی تعلیم انبیاء (علیہم السلام) نے عام لوگوں کو بھی دی ۔ پھر بعد میں لوگوں میں اختلافات پیدا ہوگئے اور وہ مختلف فرقوں میں بٹ گئے ۔ بہت سے گمراہ فرقے پیدا ہوئے جنہوں نے دین کے اصول ترک کردیئے ، یا پھر ان کو غلط معنی پہنا کر ان سے غلط مطلب اخذ کیا۔ ان کا عقیدہ فاسد اور اخلاق بگڑ گیا۔ ہر گروہ اپنے اپنے عقائد میں مگن ہوگیا اور اسی کو اصل دین سمجھنے لگا۔ لیکن اللہ نے اپنے نبی کو فرمایا کہ ان غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو چھوڑ دو ، ہم نے ان کو دنیا کا مال ، اولاد ، اور دیگر نعمتیں عطا کی ہیں مگر یہ لوگ ان اشیاء میں اپنی بہتری خیال نہ کریں۔ آج یہ لوگ لہو ولعب اور عیش و عشرت میں پڑے ہوئے ہیں مگر ایک دن آنے والا ہے جب یہ مبتلائے عذاب ہوں گے ۔ ان کی موجودہ آسودہ حالی محض استدراج ہے اور انہیں اللہ کے طرف سے مہلت مل رہی ہے جس سے یہ فائدہ اٹھا کر ایمان نہیں لے آتے۔ دراصل ان کو حق و باطل کی پہچان کا شعور ہی نہیں ہے۔ اہل ایمان کے خصائل : اب اللہ تعالیٰ نے نافرمانوں کے مقابلے میں اہل ایمان کے بعض خصائل بیان کیے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے ان الذین ھم من خشیۃ ربھم مشفقون ایمان اور نیکی والے لوگ وہ ہیں جو اپنے رب کے خوف سے ڈرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ محتاط رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی کسی نافرمانی کا ارتکاب نہ کر بیٹھیں جس کی وجہ سے ان کی گرفت ہوجائے۔ یہ لوگ اپنے رب کے انعامات کی ناقدری نہیں کرتے بلکہ ہر نعمت پر اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ فرمایا نیکی والوں کی دوسری خصلت یہ ہے والذین ھم بایت ربھم یومنون ، وہ اپنے پروردگار کی آیتوں پر ایمان لاتے ہیں آیات میں معجزات ، قدرت کی نشانیاں ، احکام ، کتب سماویہ ، تمام شرائع اور دین وملت کے اصول سب چیزیں شامل ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ اطاعت گزار ان سب چیزوں پر ایمان رکھتے ہیں کہ یہ برحق ہیں اور انہی کے اتباع میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ فرمایا تیسری خصلت یہ ہے والذین ھم بربھم لا یشرکون کہ وہ اپنے رب کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں بناتے ۔ وہ خالص ایمان اور توحید پر قائم رہتے ہیں۔ ان میں کسی کا جلی یاخفی شرک نہیں پایا جاتا اور ان کے عمل میں سچائی اور اخلاص ہوتا ہے ۔ غرضیکہ ایسے لوگ نہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں کسی کو شریک بناتے ہیں ، نہ صفات میں اور نہ عبادت میں۔ ان کو یقین ہوتا ہے۔ کہ سارا اختیار اللہ کے پاس ہے اور اختیاری میں بھی اس کا کوئی شرک نہیں ہے ۔ فرمایا والذین یوتون ما اتوا ، اللہ کے نیک بندوں کی چوتھی خصلت یہ ہے کہ وہ دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں۔ یا وہ کرتے ہیں جو کچھ کہ کرتے ہیں اس حالت میں وقلوبھم وجلۃ کہ ان کے دل اس بات سے خوفزدہ ہوتے ہیں انھم الی ربھم رجعون ، کہ بیشک وہ اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی روایت میں موجود ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ سے دریافت کیا حضرت ! کیا یوتون ما اتوا میں ہر اچھا بر ا عمل شامل ہے ؟ فرمایا یا بنت صدیق اس سے برائی کے کام از قسم چوری ، ڈاکہ ، زنا وغیرہ نہیں۔ بلکہ صرف نیکی کے کام مراد ہیں۔ یعنی یہ لوگ ایسے ہیں کہ نماز ، روزہ ، صدقہ خیرات وغیرہ کام کرنے کے باوجود اپنے رب سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انہیں ایک دن اپنے پروردگار کے سامنے حاضر ہونا ہے اور ہوسکتا ہے کہ کسی خامی کی بناء پر ان کی کوئی نیکی قبول ہی نہ ہو اور وہاں انہیں شرمندگی اٹھانا پڑے۔ وہ اسی فکر میں غلطان رہتے ہیں۔ امام حسن بصری (رح) کا قول ہے کہ مومن نیکی اور خوف خدا کو جمع کرتا ہے جب کہ منافق آدمی برائی اور بےفکری کو اکٹھا کرتا ہے۔ تو مومن کی حالت یہ ہے کہ نیکی کے کام انجام دینے کے باوجود وہ خدا سے ڈرتے رہتے ہیں۔ جب کہ منافق لوگ برائی بھی کرتے ہیں اور ان میں خوف خدا بھی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی لئے فرمایا الایمان بین الخوف والرجی ، کہ ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے۔ یہ دونوں چیزیں ایمان کی علامت ہیں۔ نیکی کی قبولیت : نیکی کی قبولیت کا مسئلہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس شخص کی کون سی نیکی درجہ قبولیت کو پہنچتی ہے ، اور کون سی نیکی رائیگاں گئی ہے بہت سے لوگ ہیں جو راہ خدا میں صدقہ و خیرات بھی کرتے ہیں اور نیکی کے دوسرے کام بھی انجام دیتے ہیں مگر وہ غیر معیاری ہونے کی بناء پر درجہ قبولیت کو نہیں پہنچ پاتے۔ اور جو لوگ نیکی کا کام کرنے کے باوجود دل میں ڈرتے رہتے ہیں کہ پتہ نہیں یہ قبول بھی ہوئی ہے یا نہیں ، فرمایا اولئک یسرعون فی الخیرات ، یہی لوگ ہیں جو بھلائی کے کاموں کی طرف دوڑتے ہیں یعنی ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں و ھم لھا سبقون اور وہ ایسے کام میں سبقت کرنے والے ہوتے ہیں۔ یعنی آگے بڑھنے والے ہوتے ہیں۔ آگے ارشاد ہوتا ہے ولا نکلف نفسا الا وسعھا ہم کسی نفس کو اس کی وسعت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتے۔ کسی شخص کی طاقت سے باہر کسی کام پر اللہ تعالیٰ باز پرس نہیں کرتا۔ دین میں اللہ نے بڑی وسعت رکھی ہے اور فرمایا ہے الدین یسرا یعنی دین آسان ہے ، اس میں کوئی مشکل بات نہیں ہے جو انسان کے بس سے باہر ہو۔ اللہ نے انسان کی سہولت کی خاطر اس کے ہر عذر پر رخصت رکھی ہے۔ مگر انسان ہے کہ طاقت رکھنے کے باوجود نیکی کے کاموں میں کوشش نہیں کرتا۔ لاپرواہی کرتا ہے جس کا نتیجہ خطرناک صورت میں ظاہر ہوگا۔ انسان کا نامہ اعمال : فرمایا ولدینا کتب ینطق بالحق ہمارے پاس ایک نوشتہ اور کتاب ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے انسانوں کے اعمال نامے محفوظ کر رکھے ہیں جنہیں جزائے عمل کے وقت سامنے رکھ دیا جائے گا اور ہر شخص سے کہا جائے گا اقراکتبک (بنی اسرائیل 14) اپنا اعمال نامہ خود ہی پڑھ لو۔ جو لوگ اس دنیا میں بالکل ان پڑھ ہیں۔ وہ بھی خدا کے حضور اپنی کارکردگی کا مطالعہ خود کرسکیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان میں پڑھنے کی استعداد پیدا کردے گا اور وہ اپنی زندگی بھر کی پونجی کاریکارڈ خود پڑھ سکیں گے۔ اور پھر کہیں گے مال ھذا……………حاضرا (الکہف 49) یہ کیسی کتاب ہے جو نہ کسی چھوٹی چیز کو چھوڑتی ہے اور نہ بڑی کو بلکہ اس نے ہر عمل کا احاطہ کررکھا ہے۔ پھر وہ اپنا ہر عمل اپنے سامنے موجود پائیں گے۔ حدیث قدسی میں حضور کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا انما ھی اعمالکم احصیھا علیکم ، یہ تمہارے ہی اعمال ہیں جنہیں میں نے شمار کررکھا ہے۔ جو ان میں بھلائی پائے وہ خدا کا شکر ادا کرے اور جو ان میں برائی دیکھے فلا یلومن الانفسہ تو وہ اپنے ہی نفس کو ملامت کرے۔ غرضیکہ قیامت والے دن جزا وسزاکا فیصلہ ہر آدمی کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوگا وھم لا یظلمون ، اور ان پر کسی قسم کی زیادتی نہیں کی جائے گی۔ نافرمانوں کا حال : اہل ایمان کے ذکر کے بعد آگے اللہ نے پھر نافرمانوں کا حال بیان کیا ہے بل قلوبھم فی غمرۃ من ھذا ، اس طرف سے یعنی آخرت کی جانب سے ان کے دل غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے ولھم اعمال من دون ذلک ھم لھا عملون ، کہ ان غافل لوگوں کے اعمال اہل ایمان کے اعمال سے مختلف ہوتے ہیں۔ وہ نیکی کی بجائے برائی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ توحید پر ایمان لاتے وہ کفریہ ، شرکیہ کام انجام دیتے ہیں۔ رسومات باطلہ ، لہو ولعب ، نفاق اور بدعملی میں مبتلا ہیں۔ وہ آخرت کی طرف دھیان ہی نہیں کرتے اور نہ اس کے لئے کوئی تیاری کرتے ہیں۔ اگر کوئی عمل کرتے ہیں تو ریاکاری کے لئے جو ایمان کے تقاضے پورے نہیں کرتے ان کے ہاتھوں قوم وملک کی بھلائی کا کوئی کام انجام نہیں پاتا ، بلکہ شیطان کے اتباع میں غرور وتکبر والے کام کرتے ہیں جن میں رسومات فاسدہ پیش پیش ہوتی ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ غافل لوگ کرنے والے کام تو کرتے ن ہیں اور ان کی بجائے دوسرے کام کرتے ہیں جو انہیں مزید گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں۔ حتی اذا اخذنا مترفیھم بالعذاب ، یہاڈ تک کہ جب ہم ان کے آسودہ حال لوگوں کو عذاب میں پکڑ لیتے ہیں اذا ھم یجرون تو وہ چیخنے چلانے لگتے ہیں۔ واویلا کرتے ہیں کہ یہ کیا ہوگیا ہے۔ پھر ادھر سے آواز آتی ہے لا تجئروا الیوم ، آج کے دن مت چلائو۔ تم نے دنیا میں نیکی کی طرف دھیا ن نہ دیا۔ خدا کی توحید ، اس کے رسولوں اور قیامت کا انکار کیا۔ آج جب تم اپنے انجام کو پہنچ چکے ہو انکم منا لا تنصرون ، تو آ ج ہماری طرف سے تمہاری کوئی مدد نہیں کی جائیگی ہم نے تمہیں زندگی دی۔ ہدایت کے سارے سامان مہیا کیے مگر تم نے کچھ پرواہ نہ کی۔ قد کانت ایتی تتلی علیکم میری آیتیں تم پر پڑھی جاتی تھیں۔ میرے احکام ، شرائع اور قوانین تمہیں پڑھ کر سنائیجاتے تھے۔ فکنتم علی اعقابکم تنکصون ، مگر تم اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ کر بھاگے تھے اور میری فرامین کو سننے کے لئے بھی تیار نہ تھے عام کافروں کا وطیرہ اللہ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو کہتے تھے لا تسمعوا…… …فیہ (حم سجدہ 26) شوروغل مچائو تاکہ قرآن کی آواز ہی کانوں میں نہ پڑے ۔ منافقوں کا حال بھی یہ تھا کہ جب قرآن کی بات ہوتی تو آنکھ بچا کر مجلس سے کھسک جاتے۔ تو فرمایا ، آج تو چیختے چلاتے ہو مگر دنیا میں تو نیکی کے کام سے بھاگتے تھے مستکبرین بہ ، تم غرور وتکبر میں مبتلا تھے۔ انبیاء کو حقیر سمجھتے تھے اور اہل ایمان کو ذلیل کہتے تھے۔ اپنے مالوں اور اولادوں پر اتراتے تھے اور اہل ایمان کی بات تک سننے کے لئے تیار نہ تھے۔ بہ ، کے مرجع کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کا مرجع حرم شریف ہے ، یعنی نافرمان لوگ حرم شریف میں تکبر کرتے تھے۔ اس کامرجع کتاب یعنی قرآن پاک بھی ہوسکتا ہے۔ اور اس طرح معنی یہ ہوگا کہ وہ لوگ قرآن پاک کے ساتھ تکبر کرتے تھے اور الہ بہ کامرجع پیغمبر (علیہ السلام) کی ذات ہو تو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ نبی کے ساتھ تکبر کرتے تھے۔ پھر فرمایا سمرا تھجرون ، سمر ، چاندنی رات میں قصہ گوئی کرنے کو کہتے ہیں کفارومشرکین بیت اللہ شریف کے گرد بیٹھ کر راتوں کو قصے بیان کیا کرتے تھے ، اس لئے ان کی ایک یہ خصلت بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ سامر تھے۔ وہاں پر وہ پیغمبر اسلام کے متعلق بھی بیہودہ گفتگو کرتے تھے۔ کبھی شاعر ، کبھی کاہن اور کبھی مجنون کہتے تھے اللہ نے فرمایا وہ تھجرون یعنی یا واگوائی کرنیوالے تھے۔ فضول باتیں کرتے تھے۔ اگر یہ لفظ ھجر کے مادہ سے ہو تو یہ معنی ہے۔ اور اگر ھجر کے مادہ سے ہو تو اس کا منی چھوڑنا ہوتا ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ اللہ کے رسول کو قصہ گو سمجھ کر چھوڑ کر چلے جاتے تھے۔ سامر اور تھجر سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ نبی ﷺ کو قصہ گو سمجھ کر تکبر کرتے تھی اور پھر چھوڑ کر چلے جاتے تھے۔ یہ حال بیان کرنے کے بعد اللہ نے آگے مزید تفصیلات بیان کی ہیں اور ان کا انجام بھی ذکر ہے۔
Top