بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - An-Noor : 1
سُوْرَةٌ اَنْزَلْنٰهَا وَ فَرَضْنٰهَا وَ اَنْزَلْنَا فِیْهَاۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
سُوْرَةٌ : ایک سورة اَنْزَلْنٰهَا : جو ہم نے نازل کی وَفَرَضْنٰهَا : اور لازم کیا اس کو وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے نازل کیں فِيْهَآ : اس میں اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ : واضح آیتیں لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : تم یاد رکھو
یہ ایک سورة ہے جس کو ہم نے اتارا ہے اور اس کے احکام کو ہم نے ہی فرض قرار دیا ہے۔ اور اتاری ہیں ہم نے اس میں واضح اور کھلی باتیں تاکہ تم نصیحت پکڑ لو
نام اور کوائف : اس سورة کا نام سورة نور ہے جو اس کی آیت اللہ نور السموت والارض سے ماخوذ ہے۔ اس سورة مبارکہ کی دوسری وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں ایسے احکام وقوانین بیان کیے گئے ہیں جن کی وجہ سے اہل ایمان کے دل میں نور پیدا ہوتا ہے۔ اس سورة مبارکہ کی چونسٹھ آیات ، نورکوع ، 1316 الفاظ اور 5980 حروف ہیں۔ یہ سورة مدنی زندگی میں نازل ہوئی۔ زمانہ نزول : اس سورة میں واقعہ افک بیان ہوا ہے جو کہ 6 ھ میں پیش آیا۔ قبیلہ بنی مصطلقی کے لوگ اکثر اسلام دشمن کاروائیوں میں ملوث رہتے تھے۔ جب ان کی ریشہ دوانیاں حد سے بڑھ گئیں ، تو حضور ﷺ نے ان کے خلاف جہاد کا اعلان فرمایا اور خود مجاہدین کی قیادت فرمائی۔ اس سفر میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بھی آپ کے ہمراہ تھیں۔ واپسی پر ایک ایسا حادثہ پیش آیا کہ قافلے نے ایک مقام پر رات کے وقت قیام کیا۔ صبح سویرے حضرت عائشہ ؓ باہر نکلیں تو ان کا ہار گم ہوگیا ، اس کی تلاش میں انہیں دیر ہوگئی ۔ قافلے کی روانگی کا وقت ہوا تو چار آدمیوں نے حضرت عائشہ ؓ کا خالی ہودہ اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیا اور چل دیے۔ قافلے کے پیچھے دیکھ بھال کے لئے جانے والے ایک صحابی صفوان بن معطل سلمی ؓ نے آپ کو دیکھ لیا اور اپنے اونٹ پر سوار کرکے قافلے تک پہنچایا۔ اس واقع پر منافقین نے بڑا پروپیگنڈا کیا حتیٰ کہ حضرت عائشہ ؓ پر اتہام لگایا۔ اس سے اہل ایمان کی بڑی کوفت ہوئی۔ پھر ایک ماہ بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ ؓ کی برات میں اس سورة کی سولہ آیات نازل فرمائیں۔ اس واقعہ سے اس سورة کے نزول کا تعین ہوتا ہے۔ گذشتہ سورة کے ساتھ ربط : گزشتہ سورة المومنون کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے کامیاب اہل ایمان کا ذکر کیا تھا اور ساتھ ان کی بعض صفات بھی بیان کی گئی تھیں۔ پھر آخر سورة میں کافروں کی ناکامی کا ذکر ہوا۔ اور یہ بھی واضح کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بیکار محض پیدا نہیں کیا کہ وہ اس دنیا میں جو چاہے کرتا پھرے ، اس سے باز پرس ہی نہیں ہوگی بلکہ انسان کو اللہ نے مکلف پیدا فرمایا ہے اور وہ اس کے عاید کردہ قوانین کا پابند ہے۔ قانون کی یہ پابندی یا عدم پابندی ہی اس کی کامیابی یا ناکامی کا سبب ہے۔ اب اس سورة میں اللہ نے بعض معاشرتی قوانین بیان فرمائے ہیں جن کی پابندی انسان پر لازم ہے۔ اور یہی اس سورة کا پہلی سورة کے ساتھ ربط ہے ان دونوں سورتوں کا دوسرا باہمی ربط یہ ہے کہ دونوں سورتوں میں بعض مضامین جیسے توحید اور اس کے عقلی ونقلی دلائل ، رسالت پر اعتراضات اور ان کے جوابات ، قیامت اور جزائے عمل وغیرہ مشترک ہیں۔ سورة کی اہمیت : حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے شاگرد اور مشہور تابعی حضرت مجاہد (رح) نے حدیث (تفسیر فتح القدیر ص 3 ج 4 (فیاض) بیان کی ہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے علموا رجالکم سورة المائدۃ وعلموا نساء لکم سورة النور اپنے مردوں کو سورة مائدہ سکھائو کیونکہ اس میں حلت و حرمت اور دیگر مسائل بیان ہوئے ہیں جو زیادہ مردوں سے متعلق ہیں۔ اور اپنی عورتوں کو سورة نور سکھائو کیونکہ اس میں ناموس وعفت کی حفاظت اور بدکاری کے انسداد کے کے قوانین بیان کیے گئے ہیں۔ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں (روح المعانی ص 74 ج 18 (فیاض) کہ حضرت عمر ؓ نے بعض حضرات کو اس مضمون کا مکتوب لکھا تھا ان تعلموا نساء کم سورة النساء والا حزاب والنور یعنی اپنی عورتوں کو سورة نسائ ، سورة احزاب اور سورة نور سکھائو۔ کیونکہ ان سورتوں میں عورتوں سے متعلق بہت سے مسائل آئے ہیں۔ مضامین سورة : اس سورة مبارکہ میں مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے متعلق بہت سے معاشرتی قوانین بیان کیے گئے ہیں۔ تاہم اس کامرکزی مضمون اسلام کا نظام عفت وعصمت ہے۔ اس لحاظ سے یہ سورة فحاشی ، بےحیائی ، بداخلاقی اور زنا کے انسداد کا ایکٹ ہے۔ اس میں عصمت وناموس کی حفاظت کے قوانین بیان کیے گئے ۔ پردے کا حکم دیا گیا۔ حد زنا کے علاوہ اس سورة میں حد قذف بھی بیان کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ لعان کا قانون بیان کیا گیا ہے کہ اگر مرد اپنی عورت پر بےحیائی کا الزام لگائے تو اس معاملے کو کس طرح نمٹایا جائے۔ حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ افک بھی اسی سورة میں بیان ہوا ہے۔ کسی کے گھر میں داخلے کے لئے اجازت کا قانون۔ قرآن کریم کی حقانیت اور صداقت کا ذکر بھی ہے۔ قرآن پاک کی تعلیمات سے استفادہ کرنے والے اور محروم رہنے والے لوگوں کا انجام بیان کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے باہمی تعلقات ، عزیز و اقارب سے حسن سلوک اور آداب رسالت بھی اس سورة کی زینت ہیں۔ اجتماعی مسائل میں خلافت راشدہ کا ذکر اجمالی طور پر بیان کیا گیا ہے۔ منافقین کی مذمت بیان ہوئی ہے۔ غلامی اور مکاتبت کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے احکام ، حدود ، مثالیں ، حقائق ومعارف ، نصیحت آموز باتیں۔ توحید اور تنبیہات بھی اس سورة کے مضامین میں شامل ہیں ، جہاد کا حکم دیا گیا ہے اور رسول کی مخالفت کرنے سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔ سورۃ کی تمہید : سورۃ کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے بڑے زور دار طریقے سے اس کی تمہید بیان کی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے سورة انزلنھا یہ ایک سورة ہے جس کا نزول ہماری طرف سے ہوا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کے شاہی فرمان ہیں اور اس کی طرف سے جاری کردہ قوانین ہیں وفرضنھا اور ہم نے ہی ان احکام کو فرض قرار دیا ہے۔ ان احکام میں فرائض ، واجبات ، سنن اور مستحبات ہیں جن کو ہم نے ہی مقرر کیا ہے۔ یہاں پر فرض سے مراد مقرر کرنا ہے کہ تمام احکام و فرامین اللہ ہی کی طرف سے مقرر کیے جاتے ہیں۔ دوسرے مقام پر آتا ہے قد علمنا…………علیھم (الاحزاب 80) ہم جانتے ہیں جو کچھ ہم نے ان پر مقرر کیا ہے۔ یعنی ہم نے تمام احکامات مصلحت کے مطابق نازل کیے ہیں غرضیکہ فرمایا کہ یہ سورة ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے اور اس میں احکام مقرر کیے ہیں وانزلنا فیھا ایت بینت اس میں ہم نے واضح احکام نازل فرمائے ہیں جن کی تعمیل ضروری ہے لعلکم تذکرون تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ یہ پہلی آیت گویا سورة کی تمہید ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ تمام قوانین اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں جو حاکم علی الاطلاق اور شہنشاء مطلق ہے۔ یہ کوئی من گھڑت یارسمی باتیں نہیں ہیں۔ بلکہ اللہ جل جلالہ کے نازل کردہ قوانین ہیں۔ اگر ان قوانین پر عمل کرو گے تو اس سے تمہارے ذاتی اخلاق بھی درست رہیں گے۔ اور تمہارا معاشرہ بھی سدھر جائے گا۔ تم اجتماعی طور پر مضبوط ہوجائو گے۔ جس کی وجہ سے تمہارادشمن مغلوب ہوجائے گا۔ دراصل قوانین پر عمل درآمد سے ہی کوئی چیز زندہ اور قائم ہوتی ہے۔ اگر عمل نہ ہو تو قانون کی حیثیت فلسفہ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ بہرحال اس ابتدائی آیت میں قوانین پر عمل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس کے بعد اصل قوانین آرہے ہیں جن کا آغاز حدود سے کیا جارہا ہے۔
Top