بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Al-Furqaan : 1
تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَاۙ
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا الَّذِيْ : وہ جو۔ جس نَزَّلَ الْفُرْقَانَ : نازل کیا فرق کرنیوالی کتاب (قرآن) عَلٰي عَبْدِهٖ : اپنے بندہ پر لِيَكُوْنَ : تاکہ وہ ہو لِلْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کے لیے نَذِيْرَۨا : ڈرانے والا
بڑی برکت دینے والی ہے وہ ذات جس نے اتارا ہے فرقان اپنے بندے پر تا کہ ہوجائے وہ تمام جہان والوں کے لیے ڈرانے والا
مذکورہ کوائف اس سور ۃ مبارکہ کا نام سورة الفرقان ہے جو کہ اس کی پہلی آیت میں آمدہ لفظ سے مآخوذ ہے ۔ فرقان قرآن کریم کے ناموں میں سے ایک نامہ ہے قرآن کا معنی پڑھی جانے والی کتاب جب کہ فرقان کا معنی حق و باطل میں فیصلہ کن کتاب ہے ۔ اس سورة میں چونکہ قرآن پاک کی عظمت و بزرگی اور اس کے منزل من اللہ ہونے کا بیان بھی ہے ۔ اس لیے اس سورة کا نام سورة الفرقان رکھا گیا ہے ۔ اس سورة کی ستر آیتیں اور چھ رکوع ہیں ۔ سورة 393 الفاظ اور 3673 حروف پر مشتمل ہے۔ ربط سورت یہ سورة ملکی زندگی میں نازل ہوئی ، جب کہ اس سے پہلی سورة نور مدنی تھی ۔ ان دونوں سورتوں میں مکی اور مدنی بعد ہونے کے باوجود ان کے بعض مضامین مشترک ہیں ۔ مثلاً توحید کے دلائل ، نبوت و رسالت کی صداقت اور اس پر معترضین کے اعتراضات کا وقوع قیامت اور محاسبہ اعمال جیسے مضامین دونوں سورتوں میں پائے جاتے ہیں ۔ اس سورة کے بعد سات مزید سورتیں مکی زدگی سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کے بعد سورة الاحزاب کا تعلق مدنی زندگی سے ہے گویا یہ مسلسل آٹھ سورتیں مکی ہیں ۔ ان مکی سورتوں کے مضامین بھی آپس میں ملتے جلتے ہیں۔ یہ سورة مبارکہ ہجرت سے دو یا تین سال پہلے نازل ہوئی ۔ بعض مفسرین اس کا زمانہ نزول سورة النساء سے آٹھ سال پہلے متعین کرتے ہیں ۔ سورة نساء پانچ یا چھ ہجری میں نازل ہوئی تو اس لحاظ سے بھی اس سورة کا نزول ہجرت سے تقریباً تین سال پہلے بنتا ہے۔ واللہ اعلم۔ مضامین سورة دیگر مکی سورتوں کی طرح اس سورة مبارکہ کے مضامین بھی زیادہ تر عقائد سے تعلق رکھتے ہیں ۔ جن میں توحید ، رسالت ، معدد اور قرآن پاک کی حقانیت و صداقت شامل ہیں ۔ یہ اسلام کا ابتدائی دور تھا اور اس میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے عقائد اور اخلاق کی درستی پر زیادہ دیا ہے ۔ کیونکہ اگر عقیدہ ہی درست نہ ہو تو اللہ کی بارگاہ میں کوئی عمل قبول نہیں ہوتا ۔ اگرچہ تمام مکی سورتوں میں یہی بنیادی مضامین بیان ہوئے ہیں تا ہم بعض سورتوں میں کسی ایک مضمون پر زور دیا گیا ہے ۔ جب کہ دوسری سورة میں دوسرے مضمون کو زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس سورة مبارکہ میں زیادہ تر روئے سخن کفار کی طرف سے رسالت پر اعتراضات کی طرف ہے جس کا اللہ نے جواب دیا ہے اس سورة کا ایک خاص مضمون اللہ کے بندوں کے اوصاف ہیں جو اس کے آخری رکوع میں بیان ہوئے۔ با برکت ذات خداوندی ارشاد ہوتا ہے تبرک الذی بڑی برکت دینے والی ہے وہ ذات یہ الفاظ بعض سورتوں کی ابتداء میں اور بعض کے آخر میں ذکر کیے گئے ہیں اور اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی اعلیٰ وارفع ذات کا ذکر کر کے اس کی بعض صفات کا تذکرہ ہوتا ہے ۔ برکت کا عام فہم معنی زیادتی ہوتا ہے ، تا ہم امام رازی اور تمام شارحین اس بات پر متفق ہیں کہ ہر قسم کی زیادتی کا نام برکت نہیں بلکہ برکت ایسی زیادتی ہے جس میں تقدس کا مفہوم پایا جائے ۔ گویا جس چیز میں معجزے یا کراہت کے طور پر اضافہ ہوجائے تو ہم کہیں گے کہ یہ چیز برکت والی ہے ۔ مسیح (علیہ السلام) نے اپنی والدہ کی گود میں کہا تھا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں ، اللہ نے مجھے کتاب دے کر بھیجا ہے ، مجھے نبی بنایا ہے وجعلنی مبرکا (مریم : 3) اور مجھے با برکت بنایا ہے ۔ دوران سفر پانی ختم ہوگیا ۔ تمام صحابہ ؓ اور جانور مشقت میں پڑگئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ کسی کے پاس پانی کا ایک پیالہ (1 ؎ تفسیر بسیر ص 24 ج 42 (فیاض) ہو تو لے آئے ، ایک پیالہ پانی آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا ۔ آپ نے اپنا ہاتھ مبارک اس پیالے میں رکھا تو انگلیوں کے نیچے سے پانی کے سوتے پھوٹنے لگے ۔ پانی جوش مار کر اوپر آ رہا تھا جسے تمام صحابہ ؓ نے پیا ، اونٹوں نے پیا حتیٰ کہ مشکیزے بھر لیے گئے ، پھر آپ نے پیالے سے ہاتھ نکالا تو وہ اسی طرح پانی سے لبا لب تھا۔ مطلب یہ کہ معجزے یا کرامت کے طور پر کسی چیز میں جو زیادتی آجاتی ہے اسے برکت کے ساتھ موسوم کیا گیا ہے۔ تو فرمایا برکت دینے والی ذات خداوند ہے ۔ اگر ہم دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص کی عمر میں برکت عطا کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص تھوڑی عمر میں بھی زیادہ کام انجام دے لے ۔ بعض آدمیوں کی کارکردگی پر حیرت ہوتی ہے کہ اتنی مختصر زندگی میں اتنے بڑے بڑے کام کیے انجام دے لیے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ جب کسی کام میں برکت عطا کرتا ہے تو تمام مشکلات آسان ہوجاتی ہیں اور انسان بڑے سے بڑا کام بھی انجام دے جاتا ہے۔ کمال عبدیت فرمایا برکت دینے والی ذات فقط ذات ِ خداوندی ہے اور یہ وہی ذات ہے نزل الفرقان علی عبدہ جس نے فیصلہ کن کتاب یعنی قرآن پاک نازل فرمایا ۔ یہ کتاب اس لیے فرقان ہے کہ یہ حق و باطل جائز اور ناجائز ، حلال اور حرام ، صحیح اور غلط کے درمیان فیصلہ کرتی ہے ۔ یہ ہر چیز کو اس طرح کھول کر بیان کرتی ہے کہ کوئی شبہ باقی نہیں رہتا ۔ اور یہ اتاری ہے اس نے اپنے بندے پر اس بندہ سے مراد کامل اور اکمل بندہ حضور ﷺ کی ذات مبارکہ ہے کہ کمال عہدیت کی بناء پر جن کا لقب عہد ہے۔ حضور ﷺ نے فرما ای انی عبد اللہ فقولوا عبد اللہ ورسولہ ، لوگو ! میں اللہ کا بندہ ہوں لہٰذا مجھے اللہ کے بندے اور اس کے رسول کے نام سے ہی پکارا کرو ۔ فرمایا عیسائیوں کی طرح میری ذات میں مبالغہ نہ کرنا کہ مجھے الوہیت کے درجے پر پہنچا دو اور اس طرح شرک میں مبتلا ہو جائو گے۔ الغرض ! عبدیت تمام کمالات میں سے بلند ترین (1 ؎۔ ترمذی مع شمائل ص 495 (فیاض) کمال ہے جس کے ساتھ اللہ نے حضور خاتم النبین ﷺ کو موصوف فرمایا ہے ۔ تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس فیصلہ کن کتاب کو اپنے کامل بندے پر نازل فرمایا۔ نزول قرآن کی غایت فرمایا : اللہ نے اس فرقان کا نزول اس لیے فرمایا ہے لیکون للعلمین نذیراً تا کہ وہ بندہ تمام اقوال عالم کے لیے ڈر سنانے والاہ و جائے ۔ لوگوں کو ان کے برے انجام سے خوفزدہ کر دے۔ انداز و بیشتر ہر نبی کے مشن میں شامل ہے۔ اللہ کو ہر پیغمبر اپنی امت کے اچھے کاموں پر انہیں خوش خبری دیتا ہے اور برے کاروں کے انجام سے ڈراتا ہے ۔ سورة یونس کی ابتداء میں ہے کہ کیا لوگوں کو یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک آدمی کی طرف وحی کی ہے کہ وہ لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرا دے اور اہل ایمان کو خوشخبری سنا دے ان لھم قدم صدق عند ربھم ( آیت : 2) کہ ان کے لیے ان کے رب کے ہاں سچائی کا پایہ ہوگا ۔ اور جو کفر ، شرک ، نفاق اور معاشی کا ارتکاب کرینگے اس کا نتیجہ خدا تعالیٰ کی گرفت کی صورت میں نکلے گا ۔ اسی لیے فرمایا کہ نزول کتاب کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کا نبی لوگوں کو ان کے برے انجام سے خبردار کر دے۔ توحید خداوندی آگے فرمایا : وہ ذات خداوندی وہ ہے الذی لہ ملک السموات والارض جسکی بادشاہی آسمانوں اور زمین میں ہے۔ اور وہ ایسا پروردگار ہے ولم یتخذ ولداً جس نے کوئی بیٹا نہیں بنایا۔ نہ حقیقی اور نہ مجازی ، حقیقی بیٹا باپ سے جنسیت میں مشابہ ہوتا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ جنسیت سے پاک ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کا حقیقی بیٹا ہونا محال ہے۔ ویسے بھی خدا تعالیٰ کا فرمان ہے لم یلدہ ولم یولد ( الاخلاص : 3) نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ وہ کسی سے جنا گیا ہے یعنی نہ اس کا کوئی بیٹا ہے اور نہ کوئی باپ ، جہاں تک مجازی بیٹے کا تعلق ہے ۔ قرآن نے عیسائیوں کا یہ عقیدہ بیان کیا ہے وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ ( الانبیائ : 62) وہ کہتے ہیں کہ خدائے رحمان نے بیٹا بنا لیا ہے حالانکہ وہ تو پاک ہے ، کہتے ہیں اللہ نے مسیح (علیہ السلام) کو اختیارات تفویض کردیئے ہیں کہ وہ لوگوں کی حاجات پوری کریں ۔ اللہ نے ان پر الوہیت کی چادر ڈال دی ( استغفر اللہ) یہ سب شرکیہ عقائد ہیں ، جن کی اللہ نے تردید فرمائی ہے۔ بہر حال فرمایا کہ اللہ نے کوئی بیٹا نہیں بنایا ولمہ یکن لہ شریک فی الملک اور نہ ہی اس کی بادشاہی میں اس کا کوئی شریک ہے۔ وخلق کل شی اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے فقد رہ تقدیر اور اسے ایک خاص اندازے سے مطابق مقرر کیا ہے لہٰذا کسی چیز میں کوئی نقص یا عیب نہیں ہے۔ بلا شبہ جو چیز اللہ کی تقدیر سے کائنات میں ظاہر ہوگی ۔ اس میں کوئی نقص نہیں ہوگا بلکہ وہ بہترین شے ہوگی ۔ بزرگوں کا مقولہ ہے جیسے کہ امام غزالی نے کہا ہے لیس ابدع مما کان کائنات میں جو چیزیں وقع ہوتی ہے ان سے عمدہ کوئی چیز ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کی تقدیر سے معرض وجود میں آئی ہے۔ اس نے ہر چیز کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کر رکھا ہے اور ہر چیز کی تقدیراسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اس کے باوجود انسان اتنے ظالم ہیں واتخذو ا من دونہ الھۃ کہ انہوں نے اللہ کے سوا وسرے معبود بنا لیے ہیں یہ غیروں کو بھی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں ، دوسروں کی عبادت کرتے ہیں ۔ ان کو نافع وضار سمجھ کر ان کی نذریں دیتے ہیں ۔ کوئی فرشتوں اور جنات کی پوجا کرتے ہیں اور کوئی قبروں والے اولیاء اللہ سے مرادیں پوری کرواتے ہیں ۔ گویا لوگوں نے شرک کے مختلف راستے بنا رکھے ہیں جن کے ذریعے وہ دوسروں کو خدا کے منصب پر فائز کرتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ ان کے معبود جبری سفارش کر کے ان کے کام کروا دیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کی سفارش کو رد نہیں کرتا ، بعض لوگوں نے یہ باطل عقیدہ بنا رکھا ہے کہ ہم ان کو راضی کریں گے تو اللہ ہم سے راضی ہوجائے گا ۔ لہٰذا ان کی تذر و نیاز کرنا ضروری ہے ۔ بعض اپنے اور خدا تعالیٰ کے درمیان واسطہ کی تلاش میں رہتے ہیں کہ ہماری تو وہاں تک رسائی نہیں درمیان میں کوئی ایسی ہستی ضروری ہے جو ہمیں وہاں تک پہنچا دے ۔ یہ سب کفریہ اور شرکیہ عقائد ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں ۔ صفت ِ تخلیق اللہ نے فرمایا کہ انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا رکھے ہیں حالانکہ لا یخلقون شیئاً وہ کوئی چیز پیدا کرنے پر قادر نہیں وھم یخلقون اور وہ تو خود تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں ۔ سورة النحل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ افمن یخلق کمن لا یخلق ( آیت 71) بھلا پیدا کرنے والی ہستی اور نہ پیدا کرنے والے برابر ہو سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں کائنات کی ہر چیز خدا تعالیٰ کی تخلیق کردہ ہے ۔ انسان ، روح ، جبرئیل ، شیاطین سب مخلوق ہیں اللہ خالق کل شی ( الزہر : 36) ہر چیز کا خالق اللہ ہی ہے۔ اللہ کے سوا ہر چیز مخلوق ہے ۔ جو پیدا نہیں کرسکتے وہ الٰہ کیسے ہوسکتے ہیں ، لہٰذا غیر اللہ کو معبود سمجھ کر ان سے حاجت براری کرانا کتنی حماقت کی بات ہے۔ مصب یہ کہ صفت ِ تخلیق بھی اللہ کے سوا کسی دوسری ذات میں نہیں پائی جاتی۔ نفع نقصان کا اختیار فرمایا کہ اللہ کے سوا دوسروں کی حالت تو یہ ہے کہ ولا یملکون لا نفسھم ضرا ولا نفعاً وہ تو اپنی ذات کے لیے بھی کسی نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں مگر لوگ پھر بھی ان کی حاجت روا اور مشکل کشا تسلیم کرتے ہیں ولا یملکون موتاً و لا حیوۃً و ہ تو موت وحیات کے مالک بھی نہیں ہیں نہ کسی کو زندگی بخش سکتے ہیں اور نہ کسی کو موت دے سکتے یہ ۔ یہ اختیارات بھی اللہ وحدہٗ لا شریک کے پاس ہیں ۔ ولا نشورا اور یہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر نہیں ہیں ۔ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ ہی سب کو فنا کرے گا اور پھر وہی سب کو دوبارہ زندہ کر کے حساب کتاب کے لیے اپنے سامنے لا کھڑا کرے گا ۔ اس کے سوا اور کون سی ذات ہے جو یہ کام کرسکے ۔ اور ظاہر ہے کہ جو ذات مذکور امور میں سے کوئی کام بھی کرنے پر قدرت نہیں رکھتی ۔ وہ الٰہ کیسے ہو سکتی ہے ؟ معبود بر حق تو وہی ہے جو خالق مالک ، مختار ، نافع ، ضار ہے ۔ وہ جس کو چاہتا ہے نفع پہنچاتا یہ اور جس کو چاہتا ہے نقصان پہنچاتا ہے ، وہی مشکلیں حل کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں ، لہٰذا اس کے سوا کوئی معبود بھی نہیں ہوسکتا ۔
Top