Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Furqaan : 30
وَ قَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا
وَقَالَ
: اور کہے گا
الرَّسُوْلُ
: رسول
يٰرَبِّ
: اے میرے رب
اِنَّ
: بیشک
قَوْمِي
: میری قوم
اتَّخَذُوْا
: ٹھہرا لیا انہوں نے
ھٰذَا الْقُرْاٰنَ
: اس قرآن کو
مَهْجُوْرًا
: متروک (چھوڑنے کے قابل)
اور کہا اللہ کے رسول نے اے میرے پروردگار بیشک میری قوم نے بنا لیا ہے اس قرآن کو ترک کیا ہو
ربطِ آیات یہ آیات بھی گزشتہ آیات کے ساتھ ہی مربوط ہیں ۔ گزشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے کفار و مشرکین کا شکوہ کیا تھا کہ وہ کہتے ہیں کہ اس پیغمبر پر فرشتے کیوں نہیں اتارے جاتے ۔ نیز اللہ تعالیٰ خود ان کے سامنے کیوں نہیں آتا ؟ اللہ نے جواباً فرمایا کہ یہ لوگ بڑی گستاخی کی بات کرتے ہیں ۔ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ جب فرشتوں کے ظاہر ہونے کا وقت آئے گا تو اس دن ان مجرموں کا بہت برا حال ہوگا ۔ وہ افسوس کے ساتھ اپنے ہاتھ کاٹیں گے اور کہیں گے کاش کہ ہم نے رسول کے ساتھ راستہ پکڑا ہوتا ۔ اس کی اتباع کی ہوتی اور اس کے بجائے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا ۔ یہ سب شیطان کا بہکاوا ہے وہ انسان کو دھوکہ دیکر ذلیل و رسوال کرتا ہے۔ بہر حال اس دن مجرم لوگ اپنے کیے پر پشیمان ہوں گے اور افسوس کا اظہار کریں گے مگر اس وقت ان کا پچھناتا کسی کام نہیں آئے گا ۔ ترک قرآن پر گواہی کفار و مشرکین ایک طرف تو رسالت کا انکار کرتے تھے اور دوسری طرف قرآن کو خود ساختہ بتلا کر اس سے اعراض کرتے تھے ۔ تو اللہ نے اس سلسلے میں حضور ﷺ کی اس شکایت کا ذکر کیا ہے جو وہ قیامت کے روز بارگاہ رب العزت میں پیش کریں گے۔ ارشاد ہوتا ہے وقال الرسول اور اللہ کا رسول کہے گا یرب ان قومی اتخذو ھذا القرآن مھجورا اے میرے پروردگار ! میری قوم نے اس قرآن پاک کو پس پشت ڈال دیا ۔ اے مولا کریم ! میں ان کو تیرا قرآن سناتا تھا یہ اس طرف توجہ ہی نہیں کرتے تھے بلکہ کہتے تھے لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْغَوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَ (حم السجدۃ : 62) اس قرآن کو مت سنو بلکہ شورشرابہ کرو تا کہ تم غالب آ سکو ۔ قرآن کو شاعری کہتے ، کبھی کہانت اور کبھی پہلے لوگوں کے قصے کہانیوں سے تعبیر کرتے ۔ تو اس طرح خود صاحب قرآن اس سے اعراض کرنے والوں کے خلاف گواہی دیں گے۔ مجہور کا عام معنی تو متروک ہی ہے کہ منکرین نے اس کو ترک کردیا نہ اس کو سنا ، نہ سمجھا اور نہ اس پر عمل کیا ۔ اور اگر یہ ہجر کے مارے سے ہو تو اس کا معنی بیہودہ کلام بھی ہو سکتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ کافر لوگ اس کو کلام الٰہی تسلیم کرنے کی بجائے اسے بیہودہ کلام سمجھتے تھے ( العاذ باللہ) بہر حال جس دن منکرین قرآن کے خلاف اللہ کے رسول کی شہادت ہوگی ۔ اس دن ان کا برا حال ہوگا ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ کفار کی طرف سے ترک قرآن تو سمجھ میں آتا ہے کہ انہوں نے سرے سے اس کو تسلیم ہی نہ کیا ۔ لیکن اس کو بر حق تسلیم کرکے اس کے پروگرام پر عمل نہ کرنا بھی قرآن پاک کے عملی ترک پر دلالت کرتا ہے ۔ اس میں اہل ایمان بھی آجائیں گے جو اس کے احکام پر عمل پیرا نہ ہوئے یا جنہوں نے عملی طور پر اس کے پروگرام کی مخالفت کی ۔ لہٰذا ایسے لوگوں کے خلاف بھی اللہ کے رسول اور خود قرآن کی گواہی ہوگی ۔ حدیث شریف 1 ؎ (1 ؎۔ مسلم ص 811 ج 1 ( فیاض) میں حضور ﷺ کا فرمان ہے الفرقان حجۃ لک و علیک قرآن تیرے حق میں یا تیرے خلاف گواہی دے گا ۔ اگر دنیا میں اس کو مان کر اس کے پروگرام کو عملی شکل دی ہے تو پھر تو یہ آدمی کے حق میں بطور گواہ پیش ہوگا اور اگر اس سے روگردانی کی ہے یا اس کی مخالفت کی ہے تو پھر یہ اس شخص کے خلاف گواہی دے گا اور بارگاہ ایزدی میں شکایت کرے گا کہ اس شخص نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا ۔ حضور ﷺ نے اس سلسلہ میں یہ دعا بھی سکھائی ہے۔ اللھم لا تجعل القرآن حجۃ علینا واجعلہ حجۃ لنا اے مولا کریم ! اس قرآن کو ہمارے خلاف دلیل نہ بنا بلکہ اسے ہمارے حق میں دلیل بنا دے۔ خود قرآن بھی آدمی کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دے گا جس نے اس کو تسلیم کیا اور پھر اس کے احکامات پر عمل کیا ۔ قرآن اس کے حق میں گواہی دیگا بلکہ ہر ہر سورة اور ہر ہر آیت اپنے قاری کے حق میں سفارش کرے گی ۔ اور جس شخص نے ایمان لانے کے باوجود اس پر عمل نہیں کیا ۔ قرآن اس کے خلاف گواہی دے گا ۔ اس زمانے میں تو کوئی شاذ لوگ ہی ہیں جو قرآن پر عمل پیرا ہیں وگرنہ تسلیم کرنے کے باوجود لوگوں کی اکثریت اس کے کسی شعبے پر بھی عمل نہیں کرتی بلکہ اس کے خلاف چلتے ہیں۔ قرآن کی تعلیم حاصل نہ کرنا ، اس کی تلاوت اور اس میں غور و فکر سے گریز اور اس کی عدم تصدیق وغیرہ اس کو ترک کرنے کے مترادف ہے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قرآن اور صاحب قرآن ایسے لوگوں کے خلاف گواہی دیں گے۔ یہود و نصاریٰ تو قرآن کو کلام الٰہی تسلیم ہی نہیں کرتے لہٰذا ان کی طرف سے اس پر عمل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر افسوس تو ان اہل ایمان پر ہے جو اس کو خدا کا آخری کلام مانتے ہوئے بھی اس سے اعراض کر رہے ہیں ۔ اسی اعراض کی وجہ سے تو ذلت آتی ہے حضور ﷺ کا فرمان 1 ؎ (1 ؎۔ مسلم ص 272 ج 1 ( فیاض) ہے ان اللہ یرفع بھذا الکتب اقواماً ویضع بہ اخرین اس قرآن پاک کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بعض اقوام کی بلندعطا کرتا ہے اور بعض کو پست کردیتا ہے ۔ جس نے اس پر عمل کیا وہ ترقی کی منازل طے کر گیا اور جس نے روگردانی کی وہ رسوائی کے گڑھے میں جا پڑا ۔ حضور ﷺ کے لیے تسلی قرآن پاک سے روگردانی کا شکوہ بیا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو کفار کی ایذاء رسانیوں پر تسلی دی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا من المجرمین اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے مجرموں میں سے دشمن بنائے ہیں مطلب یہ کہ حق کی مخالفت کرنیوالی صرف آپ ہی کی قوم نہیں بلکہ آپ کی طرح ہر نبی کی قوم نے اپنے پیغمبر کی تکذیب کی ، اسے ساحر اور مجنوں کہا ، اس کو تکلیف پہنچائی ۔ بعض کو ہجرت پر مجبور کیا تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ لہٰذا آپ دل شکستہ نہ ہوں بلکہ تسلی رکھیں بالآخر کامیابی آپ ہی کے حصے میں آئے گی ۔ وکف بربک ھادیا و نصیراً آپ کا پروردگار ہدایت دینے اور مدد گار کے لیے کافی ہے ۔ وہ آپ کو یونہی نہیں چھوڑ دے گا بلکہ آپ کی پوری پوری مدد کریگا۔ اور آپ کی بات کو لوگوں کے دلوں میں پیوست کر دے گا ۔ کفار و مشرکین کے بیہودہ اعتراضات سے قطع نظر آپ اپنا کام جاری رکھیں اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں وہ آپ کا حامی و ناصر ہوگا ۔ بتدریج نزول قرآن پر اعتراض کفار و مشرکین قرآن پاک پر طرح طرح کے اعتراض کرتے تھے ۔ کبھی کہتے کہ یہ خود ساختہ ہے ، کبھی کہتے کہ نبی یہ باتیں دوسروں سے سیکھتا ہے اور پھر قرآن بنا کر پیش کرتا ہے ، اور کبھی اسے پرانے لوگوں کی قصے کہانیاں بتاتے۔ اب آگے اللہ نے اس کا ایک نیا اعتراض نقل کیا ہے وقال الذین کفروا لولا نزل علیہ القران جملۃ واحدۃ کہا ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کا شیوہ اختیار کیا یہ قرآن اس شخص پر بیک وقت کیوں نہیں اتارا گیا ؟ اس سے پہلے انجیل ، تورات اور دیگر صحائف یک مشت نازل ہوتے رہے ہیں مگر قرآن کو تھوڑا تھوڑا کر کے تئیس سال کے طویل عرصہ پر کیوں پھیلا دیا گیا ہے۔ کہتے ، معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص تھوڑا تھوڑا سوچ سوچ کر بتاتا رہتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ اسے خدا تعالیٰ نے اتارا ہے۔ اس قسم کا اعتراض پہلے رکوع میں بھی گزر چکا ہے ۔ کافر لوگ کہتے تھے ۔ ان ھذا الا افلک افتراہ واعانہ علیہ قوم اخرون ( آیت : 4) یہ تو اس شخص کا گھڑا ہوا ہے اور اس معاملے میں بعض دوسرے لوگوں نے اس کی مدد کی ہے۔ بہر حال ان کا اعتراض یہ تھا کہ یہ قرآن یکمشت کیوں نہیں نازل ہوا ۔ جواب نمبر 1 دل کی پختگی اللہ نے جواب میں فرمایا کذلک ہم نے قرآن کو اسی طرح یعنی تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے۔ اور اس کی دو وجوہات ہیں ۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ لنثبت بہ فوادک تا کہ اس کتاب کے ساتھ ہم آپ کے دل کو پختہ کریں ۔ ظاہر ہے کہ وحی کے بار بار نزول سے ہر بار دل میں یقین اور پختگی پیدا ہوگی ۔ ورتلنہ ترتیلا اور ہم نے اس کو ٹھہر ٹھہر کر اتارا ہے ۔ ترتیل کا لغوی معنی آہستہ آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا ہوتا ہے۔ جیسے سورة المزمل میں ہے وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلاً (آیت 4) قرآن پاک ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کریں۔ تا ہم یہاں پر یہ لفظ نزول کے معنی میں آیا ہے کہ ہم نے اس کو بتدریج نازل فرمایا ۔ اس میں بڑی حکمت ہے جو چیز آہستہ آہستہ آئے گی وہ اچھے طریقے سے ضبط ہوتی جائے گی اور دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کرے گی ۔ بر خلاف اس کے جو چیز جلدی جلدی سامنے آئے گی ، وہ نہ تو اچھی طرح ضبط ہو سکے گی اور ن ہی اس پر پختگی حاصل ہوگی ۔ تو فرمایا کہ ہم نے اس قرآن کو اس لیے بتدریج نازل فرمایا ہے کہ یہ آپ کے قلب میں پختہ ہوجائے۔ صحابہ کرام ؓ فرماتے ہیں کہ ہم حضور ﷺ سے قرآن پاک کی جو آیات سیکھتے تھے ۔ ان پر فوراً عمل شروع کردیتے تھے۔ اس لیے ہر حکم دل میں اچھی طرح پیوست ہوجاتا تھا اور ہم اس کا مفہوم اچھی طرح سمجھ جاتے تھے جب علم کے ساتھ عمل بھی شامل ہوجاتا تو پھر ایمان میں مزید پختگی آجاتی ہے۔ ویسے اصولی طور پر بھی جو چیز آہستہ آہستہ سبق سبقا پڑھی جائے وہ اچھی طرح ذہن نشین ہوجاتی ہے ۔ اس کے بر خلاف اگر کوئی پوری کتاب ایک ہی دن یا رات میں ختم کردی جائے تو اس کے اثرات بھی دیر پا نہیں ہوں گے کسی حصے کی سمجھے آئے گی اور کسی کی نہیں آئے گی ۔ ذہین لوگ تو پھر بھی بہت کچھ پا لیتے ہیں مگر عام آدمی اس طریقہ تعلیم سے کما حقہ ، مستند نہیں ہو پاتے ۔ اسی لیے امام بخاری فرماتے ہیں انما العلم بالتعلیم یعنی علم سیکھنے سے ہی آتا ہے جو لوگ اخبار کی طرح کسی چیز کا بیک وقت مطالعہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو علم میں پختگی حاصل نہیں ہوتی ۔ بر خلاف اس کے جو سبق استاد سے سمجھ کر پڑھا ہو ۔ اس میں وقت لگایا ہو ، غور و فکر کیا ہو ، وہ علم یقینی اور دیرپا ہوگا ۔ جہاں تک قرآن پاک کے عرصہ نزول کا تعلق ہے تو حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کو لیلۃ القدر میں حظیرہ القدس یا لوح محفوظ سے آسان دنیا کی طرف نازل فرمایا ، اور پھر تئیس سال میں تھوڑا تھوڑاکر کے حضور ﷺ پر نازل ہوتا رہا ۔ اس عرصہ میں تین سال کا فترت ِ وحی کا عرصہ بھی شامل ہے جس میں سلسلہ وحی منقطع رہا ۔ اما م ابن کثیر (رح) 1 ؎ ( بخاری ص 61 ج 1) ۔۔ (2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 813 ج 3) (فیاض) بھی فرماتے ہیں کہ اللہ نے اس کو ملاء اعلیٰ کے مقام سے آسمان دنیا میں بیت العزت کے مقام پر بیک وقت لیلۃ القدر میں نازل فرمایا اور پھر آگے حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا کر کے تئیس سال میں اس کا نزول پالہ تکمیل کو پہنچا۔ جواب 2 ازالہ شبہات فرمایا : قرآن پاک کے بتدریج نزول کی دوسری حکمت یہ ہے ولا یا تونک بمثل الا جئنک بالحق نہیں لاتے یہ لوگ آپ کے پاس کوئی مثال مگر ہم آپ کے پاس حق لاتے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ ہماری آیت پر جب معترضین کوئی اشکال لاتے ہیں تو ہم فوراً دوسری آیت نازل کر کے ان کے شکوک و شبہات کا ازالہ کردیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک کی بہت سی آیت یسئلونک کے جواب میں نازل ہوئیں ۔ اپنوں یا غیروں نے کوئی چیز دریافت کی تو اللہ نے اس کے جواب میں آیت نازل کرکے مسئلے کا حل پیش کردیا ۔ تو گویا بتدریج نزول قرآن کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ہر اعتراض اور اشکال کا جواب ساتھ کے ساتھ ملتا رہا ۔ فرمایا ہم ہر اشکال کے جواب میں حق لاتے ہیں واحسن تفسیر اور حسب ضرورت بہتر تفسیر بھی لاتے ہیں ۔ جب کوئی مسئلہ وضاحت طلب ہوتا ہے تو اس کی وضاحت کردیتے ہیں ۔ اس بتدریج نزول کے ذریعے تمام مسائل حل ہوتے جاتے ہیں ۔ اگر پورا قرآن ایک مشت نازل کردیا جاتا تو اس کی تفہیم ازالہ شبہات اور عملدرآمد کرنا مشکل ہوجاتا ۔ لہٰذا اس کا آہستہ آہستہ نزول ہی بہترین صورت نزول ہے۔ چہروں کے بل بعث آگے منکرین کتاب و رسالت کا انجام بھی بیان کیا گیا ہے الذین یحشرون علی وجوھم الی جھنم وہ لوگ جو اٹھائے جائیں گے اپنے چہروں کے بل جہنم کی طرف ، یہ لوگ محشر میں پائوں کی بجائے سر کے بل چلیں گے ۔ صحیح حدیث 1 ؎ (1 ؎ تفسیر مبرک ص 661 و کبیر و مظہری ص 9 ج 7) (2 ؎۔ تفسیر مظہری ص 91 ج 7 ) (3 ؎۔ تفسیر الوسعود ص 98 ج 4) (فیاض) میں آتا ہے کہ پوچھنے والے نے پوچھا کیف یحشر الکفر علی وجھہ یعنی کافر آدمی اپنے چہرے کے بل کیسے اٹھایا جائے گا ۔ تو حضور ﷺ والسلام نے فرمایا الیس الذی امشہ علی رجلیہ فی الدنیا قادرا علی ان تمشید علی وجھہ جس مالک الملک نے اسے دنیا میں پائوں پر چلایا ، کیا وہ چہرے کے بل چلانے پر قادر نہیں ہے ؟ دوسروں کے بل چلتے ہوئے جہنم کی طرف جائیں گے ترمذی شریف 2 ؎ کی روایت میں تین گروہوں کا ذکر ہے انکم تحشرون رجالاً ورکبانا و تجرون علی وجوھکم بعض پید چلیں گے بعض سواریوں پر اور بعض سر کے بل دوڑتے ہوئے جائیں گے ۔ ایک حدیث 3 ؎ میں اس طرح آتا ہے کہ حشر کے دن تین قسم کے لوگ ہوں گے ۔ بعض کو زیادہ فکر نہیں ہوگی اور وہ سواری پر سوار ہو کر جائیں گے۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہوں گے جو پائوں پر دوڑتے ہوئے جائیں گے ۔ اور تیسرا گروہ ایسا ہوگا جسے فرشتے چہروں کے بل گھسیٹتے ہوئے دوزخ کی طرف لے جائیں گے۔ فرمایا : جن کو چہروں کے بل اٹھایا جائے گا اولئک شرمکان ، وہ ٹھکانے کے اعتبار سے بد ترین قسم کے لوگ ہونگے ، ان کو بہت ہی برا ٹھکانہ میسر آئیگا ۔ واضل سبیلاً اور راستے کے اعتبار سے بھی یہ لوگ سخت گمراہ ہوں گے ۔ دنیا میں بھی انہوں نے غلط راستہ اختیار کیا اور گمراہی میں مبتلا رہے آگے حشر میں بھی یہ گمراہ کن راستے کے مسافر ہوں گے ۔ دنیا میں انہوں نے قرآن و رسالت کا انکار کیا ، توحید باری تعالیٰ سے بیگانہ رہے ، کسی اچھے راستے کی طرف جانہ ہوا ۔ لہٰذا آخرت میں بھی یہ بھٹکتے ہی پھیریں گے ۔ اور انہیں جنت والا راستہ میسر نہیں آئیگا ۔ دوسرے مقام پر ہے وَمَنْ کَانَ فِیْ ہٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی وَاَضَلُّ سَبِیْلًا (بنی اسرائیل : 27) جو اس دنیا میں اندھا یعنی ہدایت سے محروم رہا اس کو جنت کا راستہ بھی نہیں ملے گا ۔ وہ اس لحاظ سے وہاں پر اندھا ہی ہوگا اور بالآخر جہنم کی تاریکی میں داخل ہوجائے گا۔
Top