Mualim-ul-Irfan - Al-Furqaan : 68
وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَ١ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًاۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو لَا يَدْعُوْنَ : نہیں پکارتے مَعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ اِلٰهًا اٰخَرَ : کوئی معبود وَلَا يَقْتُلُوْنَ : اور وہ قتل نہیں کرتے النَّفْسَ : جان الَّتِيْ حَرَّمَ : جسے حرام کیا اللّٰهُ : اللہ اِلَّا بالْحَقِّ : مگر جہاں حق ہو وَلَا يَزْنُوْنَ : اور وہ زنا نہیں کرتے وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے گا ذٰلِكَ : یہ يَلْقَ اَثَامًا : وہ دو چار ہوگا بڑی سزا
اور ( عباد الرحمن) وہ لوگ ہیں جو نہیں پکارتے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو الٰہ اور نہیں قتل کرتے اس جان کو کہ اللہ نے اسے حرام قرار دیا ہے مگر حق کے ساتھ ، اور نہیں وہ بدکاری کرتے ، اور جو شخص ایسا کرے گا ، وہ پائے گا ، گناہوں کی سزا
ربط آیات پہلے خدائے رحمان کے اوصاف اور کمالات کا ذکر ہوا ۔ پھر اللہ نے عباد الرحمان کی صفات بیان فرمائیں ۔ اب تک پانچ صفات کا بیان ہوچکا ہے یعنی خدائے رحمان کے بندے وہ ہیں جو (1) زمین پر اکڑ کر نہیں چلتے بلکہ وقار اور سکنیت کے ساتھ چلتے ہیں (2) جب ان سے نادان لوگ بات کرتے ہیں تو وہ الجھنے کی بجائے سلام کر کے گزر جاتے ہیں۔ (3) اللہ کے بندوں کی راتیں سجود و قیام میں گزرتی ہیں (4) وہ اپنے پروردگار سے دوزخ کو دور کرنے کی دعائیں کرتے ہیں (5) وہ لوگ خرچ کتے وقت نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل بلکہ میانہ روی اختیار کرتے ہیں۔ (6) شرک سے بیزاری اب آج کی آیات میں عباد الرحمان کی چھٹی صفت یہ بیان ہوئی ہے والذین لا یدعون مع اللہ لھا آخریہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو اللہ نہیں پکارتے یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں کسی کو شریک نہیں بناتے۔ یہ بڑی عظیم اور سب سے مقدر صفت ہے۔ خدا کا بندہ کسی کو الوہیت میں شریک نہیں کرے گا ، چونکہ حالق ومالک ، قادرمطلق ، مختار مطلق اور علیم کل صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے لہٰذا اس کے سوا مستحق عبادت بھی کوئی نہیں ، قولاً فعلاً ، عملاً غایت درجے کی تعظیم کے لائق صرف ذات خداوندی ہے۔ صحیحین میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی روایت 1 ؎ میں آتا ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ سب سے بڑا گناہ کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا ان تجعل للہ ندا وھو خلقک سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تو اللہ کا شریک ٹھہرائے 1 ؎۔ بحر الحبط ص 405 ج 6 احکام للحصاص ص 623 ج 4 رکشاف ص 492 ج 3 (فیاض) حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے ، غرض کیا ، اس کے بعد کونسا گناہ ہے۔ فرمایا ان تقبل ولدک خشیۃ ان یطعم معات تو اپنے بچے کو اس وجہ سے قتل کر دے کہ وہ تیرے ساتھ کھانے پینے میں شریک ہوجائے گا ۔ اولاد کی پرورش کے خوف سے اسے مار ڈالے ۔ ابن مسعود ؓ نے پھر عرض کیا ۔ اس کے بعد کون سا گناہ ہے ۔ آپ نے فرمایا ۔ انتزانی حلیلۃ جارک کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی سے بدکاری کرے۔ گویا یہ اکبر الکیانیہ میں سے بعض جرائم ہیں ک ، اور ان میں سے سر فہرست اشراک باللہ ہے اگر کوئی شخص اللہ کے سوا کسی دوسرے کو اللہ کی عبادت میں یا صفت میں شریک کرے گا ، کسی کو نافع اور ضاء سمجھ کر اس سے حاجت طلب کرے گا ، مراد مانگے گا ، یا کسی کی نذر و نیاز پیش کریگا تو یہ شرک ہوگا جسے سب سے بڑا جرم شمار کیا گیا ہے۔ (7) قتل نفس سے اجتناب فرمایا اللہ کے بندوں کی ساتویں صفت یہ ہے ولا یقتلون الفنس التی حرم اللہ الا بالحق کہ وہ کسی جان کو ناحق قتل نہیں کرتے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ صرف تین صورتوں میں قتل کرنا روا ہے ایک ایسا قتل جو قتل کے بدلے میں قصاص کے طور پر کیا جائے ۔ دوسرا مرتد کا قتل ہے جو دین اسلام سے پھرجائے اور سمجھانے بجھانے اور شکوک و شبہات دور کرنے کے باوجود دین میں واپس نہ آئے ، اور تیسرا قتل محض زانی کا ہے جسے سنگسار کردیا جائے ۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ کے بندے وہ ہیں جو اللہ کی حرام کردہ کسی جان کو قتل نہیں کرتے سوائے قتل حق کے۔ (8) زنا سے پرہیز آگے فرمایا اللہ کے بندے وہ ہیں ولا یزنون جو بدکاری کا ارتکاب نہیں کرتے ۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے ، زنا بھی اکبر العبائر میں شامل ہے پھر اس میں بھی قبیح بدکاری وہ ہے جو اپنے پڑوسی کی بیوی سے کی جائے کیونکہ ان للجار علی الجار حقا ً پڑوسی کا پڑوسی پر بڑا حق ہوتا ہے۔ ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کے مال اور عزت و ناموس کا محافظ ہوتا ہے اور اگر وہی اس کی آبروریزی کرے تو یہ بہت برا گناہ ہوگا ۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے 1 ؎ کہ دس گھروں سے چوری کرنا زیادہ ہلکا ہے اس سے کہ پڑوسی کے ایک گھر سے چوری کی جائے ۔ چوری تو مطلق حرام ہے مگر پڑوسی کی چوری دس گناہ زیادہ قبیح ہے۔ فرمایا ومن یفعل ذلک یلق اثاما جو کوئی ایسے فعل کا ارتکاب کرے گا ۔ وہ گناہوں کے جرم کو پا لے گا ۔ آثام ، اتم کی جمع ہے جس کا معنی گناہ 1 ؎ ہوتا ہے ۔ بعض 2 ؎ فرماتے ہیں کہ آثام جہنم کی ایک وادی کا نام ہے ۔ جس میں سخت سزا دی جائے گی ۔ اگر یہ معنی ہو تو جملے کا مطلب یہ ہوگا کہ ایساشخص جہنم کی اس وادی کو پالے گا یعنی اس میں پہنچ جائے گا ۔ فرمایا ایسے مجرم کے لیے یضعف لہ العذاب یوم القیمۃ قیامت والے دن اس کے عذاب کو دگنا کردیا جائے گا ۔ نہ اس کا جرم ختم ہوگا اور نہ سزا ختم ہوگی ۔ بلکہ بڑھتی ہی جائے گی ، اس لیے فرمایا کہ اس کی سزا کو ڈبل کردیا جائے گا ۔ ویخلد فیہ مھانا اور وہ اس میں ذلیل و خوار ہو کر رہے گا ۔ یہ لو ایک گناہ کی سا ہے۔ اگر اس کے علاوہ دیگر جرائم بھی ہیں تو ہر جرم کی الگ الگ سزا ملے گی اور وہاں سے نکلنے کی کوئی صورت نہ ہوگی۔ (9) توبہ اور ایانت فرمایا الا من تاب وامن وعمل عملا صالحا مگر جس شخص نے توبہ کرلی ، وہ ایمان لے آیا ، اور اس نے اچھا عمل بھی کیا ۔ فاولئک یبدل اللہ سیاتھم حسنت پس یہی لوگ ہیں کہ جن کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں میں تبدیل کر دے گا یعنی پہلے جرائم معاف ہو کر ان کی جگہ نیکیاں لکھ دی جائیں گی ۔ جب تک انسان کے ہوش و حواس قائم ہیں اور اس پر موت کا غرغرہ طاہری نہیں ہوجاتا ۔ اس کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے ، وہ ہر گناہ سے حتیٰ کہ کفر اور شرک جیسے بد ترین گناہوں سے بھی تائب ہو کر اللہ کے نیک بندوں میں شامل ہو سکتا ہے۔ 1 ؎۔ ابن کثیر ص 623 ج 3 در منثور ص 17 ج 5 ( فیاض) حضرت ابو ذر غفاری (رح) کی روایت 1 ؎ میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ، قیامت والے دن اللہ تعالیٰ ایک بندے کو حاضر کرنے کا حکم دیں گے۔ 1 ؎ جب وہ حاضر ہوگا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اس کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو شمار کیا جائے ، پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم نے یہ گناہ کیا ، وہ شخص اقرار کرتا جائے ۔۔۔ گا اور ساتھ ساتھ خائف بھی ہوگا کہ کہیں اللہ تعالیٰ بڑے بڑے جرائم کے متعلق نہ پوچھ لے ۔ پھر حکم ہوگا ، جائو ہم نے تمہارے یہ چھوٹے چھوٹے گناہ معاف کردیئے ، اور ان کے بدلے میں ایک ایک نیکی دے دی ۔ وہ شخص دلیر ہوجائے گا کہ گناہوں کے بدلے میں نیکیاں ہی مل رہی ہیں تو کیوں نہ بڑے بڑے گناہوں کا تذکرہ بھی ہوجائے تا کہ ان کے بدلے میں بھی نیکیاں مل جائیں پھر وہ عرض کرے گا ۔ کہ مولا کریم ! ابھی میرے بعض گناہوں کا ذکر نہیں ہوا ۔ یہ بیان کرتے ہوئے حضور ﷺ نے تبسم فرمایا کہ دیکھو ! یہ شخص پہلے تو اپنے گناہوں سے خائف تھا مگر اب اللہ کی مہربانی دیکھ کر اتنا دلیر ہوگیا کہ خود ان کا تذکرہ کر رہا ہے۔ بہر حال بعض لوگوں پر اللہ تعالیٰ اس قدر راضی ہوجائے گا کہ ان کے گناہوں کی بجائے ان کے نام نیکیاں درج ہوجائیں گی ۔ یہ سب سچے دل سے توبہ کرنے کی وجہ سے ہوگا ۔ وکان اللہ غفوررحیما ً اور بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور مہربان ہے ۔ اللہ نے یہ بھی فرمایا ومن تاب و عمل صالحا ً جس نے توبہ کرلی اور نیک عمل ، نجاردیا فانہ یتوب الی اللہ متابا پس بیشک وہ شخص اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع رکھتا ہے۔ رجوع رکھنا ، یہ ایمان والوں کی علی صفت ہے کہ کوتاہی ہوجاتی ہے تو فوراً تائب ہوجاتے ہیں ۔ ایسا کرنے والے شخص کے نہ صرف گناہ معاف ہوجائیں گے بلکہ اس کے گناہ نیکیوں میں بدل دیئے جائیں گے۔ (01) جھوٹ سے پرہیز اس کے علاوہ اللہ کے بندوں کی دسویں صفت یہ ہے والذین لا یشھدون الزور کہ و ہ جھوٹے کام میں حاضر نہیں ہوتے بلکہ ہر جھوٹے 1 ؎۔ منثور ص 97 ج 5 ( فیاض) فعل سے پرہیز کرتے ہیں ۔ بعض اس سے مراد جھوٹی گواہی لیتے ہیں یعنی اللہ کے بندے وہ ہیں جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے کہ جھوٹی بھی اکبر الکبائر میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے واقیمو الشھادۃ للہ ( الطلاق : 3) یعنی اللہ کے لیے گواہی صحیح صحیح دو ، چناچہ گواہ کا عادل ہونا ضروری ہے۔ کسی فاسق فاجر اور غیر عادل گواہ کی گواہی معتبر نہیں ہے کیونکہ جھوٹی گواہی سے یا تو کسی کا جائز حق ضائع ہوتا ہے یا ناجائز ثابت ہوتا ہے ، کسی مسلمان حق تلفی بھی بہت بڑا جرم ہے۔ اسی لیے مصنف ابن ابی شیبہ (رح) اور مصنف عبد الرزاق (رح) جیسی کتب احادیث میں یہ حدیث موجود ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ جس شخص کے بارے میں ثابت ہوجائے کہ اس نے کسی معاملہ میں جھوٹی گواہی دی ہے تو اس کو چالیس درے مارے جائیں ۔ اس کا منہ سیاہ کر کے اس کی تشہیر کی جائے کہ یہ جھوٹا گواہ ہے ، نیز اس کو قید میں بھی ڈالا جائے وہ تینوں سزائوں کا مستحق ہے۔ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو ہماری عدالتوں کا سارا نظام ہی جھوٹی گواہیوں پر چل رہا ہے۔ پولیس والے گواہ کو اچھی طرح پڑھا کر عدالت میں پیش کرتے ہیں کہ یوں کہنا اور یوں نہ کہنا ۔ در حقیقت ہونا تو یہ چاہئے کہ گواہ جو کچھ جانتا ہے یا اس نے جو دیکھا ہے بےکم وکاست بیان کرے ۔ مگر اس طرح تو مقدمہ خراب ہوجاتا ہے۔ جب تک اس میں جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہوگی ۔ مقدمے کا فیصلہ حسب منشاء حاصل نہیں کیا جاسکتا ۔ سارا قانون شہادت ہی غلط ہے۔ عدالتوں میں روزمرہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ تھوڑی سی فیس کے بدلے پیشہ ور اجرتی گواہ مل جاتے ہیں ۔ بعض تو ایک سگریٹ کے بدلے جھوٹی گواہی دینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں ۔ لوگ گواہی کی اہمیت سے اس قدر بےخوف ہوچکے ہیں ایسے حالات میں عدالتوں کا نظام کیسے درست ہو سکتا ہے اور سوسائٹی کیسے پاک ہو سکتی ہے ؟ بہر حال عباد الرحمان کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ نہ وہ جھوٹی گواہی دیتے ہیں اور نہ کسی مطلق جھوٹے معاملے میں شریک ہوتے ہیں۔ (01) لغو بات سے کنارہ کشی اللہ کے بندوں کی گیارہوں صفت یہ ہے کہ واذا مروا بالغو مرواکراما کہ جب وہ کسی لغو بات کے پاس سے گزرتے ہیں ۔ تو شریفانہ طریقہ پر گزر جاتے ہیں ۔ ہر بیہودہ ، ناجائز اور فحش بات لغو کے زمرہ میں آتی ہے ۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ اور امام ابوحنیفہ ؓ لغو بات سے گانا ، بجانا مراد لیتے ہیں ۔ کھیل تماشہ ، گانا بجانا ، عشق و محبت کی داستانیں سب لغو یات میں شامل ہیں بعض آثار میں آتا ہے ینبت النفاق فی القلب کہ یہ چیزیں دل میں نفاق پیدا کرتی ہیں ۔ مگر آج آپ معاشرے میں نظر مار کر دیکھ لیں ، کوئی گھر ، کوئی مکان ، کوئی رفاہ عامہ کا ادارہ ، کوئی کلب اور آرٹ گیلری اس قباحت سے پاک نہیں ہے۔ ریڈیو ہو یا ٹی وی ہر وقت موسیقی کا پروگرام چل رہا ہے کھیل تماشے کے لیے وازرتیں بنی ہوئی ہیں ۔ لاکھوں روپیہ کا زرمبادلہ خرچ کر کے بین الاقوامی کھیلوں میں حصہ لیا جاتا ہے اور پھر جیتنے پر صدر اور وزیراعظم کی طرف سے مبارکباد دی جاتی ہے ۔ اللہ کے بندو ! انہوں نے کون سا قلعہ فتح کرلیا ہے۔ کوئی قوم اور ملک کی خدمت کی ہوتی ، دین کی خدمت کی ہوتی تو کچھ فائدہ بھی ہوتا ۔ یہی حال پہلوانی اور باڈی بلڈنگ کے فن کا ہے۔ محض فضولیات اور تضیع اوقات ہے۔ پیسے کی بربادی ہے ، عیسائیوں ، یہودیوں اور دہریوں کے نقش قدم پر بلا سوچے سمجھے چل رہے ہیں ۔ آخر ان ڈراموں سے قوم کی کون سی اصلاح ہوتی ، یہ تو الٹا چوری ، ڈکیتی اور عشق و محبت کی تربیت گاہیں بن چکی ہیں مگر ساری انہی لغو یات میں الجھ کر رہ گئی ہے ، کوئی نہیں کہتا کہ بھائی ان لغویات کی بجائے کوئی اچھا کام کرو ، اللہ نے فرمایا کہ اللہ کے مقبول بندے وہ ہیں جو ایسی لغویات سے شریفانہ طریقے سے گزر جاتے ہیں اور ان میں ملوث نہیں ہوتے۔
Top