Mualim-ul-Irfan - Ash-Shu'araa : 141
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا ثَمُوْدُ : ثمود الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
جھٹلایا قوم نے اللہ کے رسولوں کو
قوم ثمود تسلی کے مضمون میں قوم عاد کا ذکر گزشتہ دروس میں ہوچکا ہے ، اب آج کے درس میں قوم ثمود کا تذکرہ ہے جو حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم تھی ۔ یہ لوگ عادثانی بھی کہلاتے ہیں ، جزیرہ نما عرب کے شمال میں یہ لوگ وادی تبوک سے لے کر وادی قریٰ تک آباد تھے۔ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (رح) نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس علاقے میں اس قوم کی سترہ سو بڑی بڑی بستیاں تھیں ۔ ترکوں کے زمانے میں تبوک تک ریل بھی جاتی تھی اور وہاں پر ریلوے سٹیشن بھی تھا جس کی عمارت آج بھی موجود ہے۔ اس جگہ کا نام اب بھی مدائن صالح ہے۔ قوم عا د کی طرح قوم ثمود بھی بڑی متمدن قوم تھی ۔ ان کی بستیوں کے کھنڈرات اب بھی نظر آتے ہیں ۔ قوم ثمود کے لوگ زیادہ تر تاجر پیشہ تھے ، کھیتی باڑی بھی کرتے تھے ۔ اور بڑے آسودہ حال تھے یہ لوگ کمال دجے کے سنگ تراش تھے۔ پہاڑوں کو کھود کر نہایت پر آسائش اور نقش نگاہ والے مکانات بناتے تھے ، ان کی صناعی کے نمونے جنوبی ہندوستان میں ایجنٹا اور آلودہ کی تہذیبوں میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ قوم ثمود کی طرح یہ لوگ بھی اپنے مکان پتھروں کو تراش تراش کر بناتے تھے ، مجسمہ سازی ان کا محبوب مشغلہ تھا ، ان کے بنائے ہوئے مجسمے آج بھی عجائب خانوں کی زینت بنے ہوئے ہیں اور مکانات کے کھنڈرات بھی نظر آتے ہیں ۔ قوم عاد کے بعد قوم ثمود نے بڑی ترقی کی ۔ یہ بھی سام ابن نو ح کی اولاد میں سے سامی نسل کے لوگ تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تعلق بھی اسی نسل کے ساتھ تھا۔ بہر حال قوم ثمود اپنے دور میں دنیاوی لحاظ سے نہایت ترقی یافتہ قوم تھی ۔ ان کو دنیا کی ہر قسم کی آسائش حاصل تھی ۔ یہ لوگ عقل معاش کے بام عروج پر تھے ۔ مگر عقل عاد سے یکسر خالی تھے۔ اسی دنیا کو سب کچھ سمجھتے تھے اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔ مشرک اور دہریے تو سرے سے معاد کے منکرین میں تا ہم یہودو نصاریٰ کا نظریہ بھی درست نہیں ہے ۔ قرآن پاک نے ایسے لوگوں کا نقشہ اس طرح کھینچنا ہییَعْلَمُوْنَ ظَاہِرًا مِّنَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَھُمْ عَنِ الْاٰخِرَۃِ ھُمْ غٰـفِلُوْنَ (الروم : 7) یہ لوگ دنیا کے ظاہری حالات کو تو نہایت اچھی طرح جانتے ہیں ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں بڑی ترقی کی ہے۔ صنعت حرفت میں بہت آگے جا چکے ہیں ، چاند پر کمندیں ڈال رہے ہیں مگر آخرت کے معاملات سے بالکل غافل ہیں ۔ ان کو کچھ پتہ نہیں کہ مرنے کے بعد بھی کوئی زندگی ہے اور وہاں اس زندگی کا پورا پورا حساب دینا پڑے گا ۔ اس کے بعد جزائے عمل کا مرحلہ آئے گا ہر ایک کو اس کے لیے دھرے کا پورا پورا بدلہ ملے گا ۔ بہر حال قوم ثمود اپنی پوری مادی ترقی کے باوجود معاد سے غافل تھی۔ صالح (علیہ السلام) کا خطاب ارشاد باری تعالیٰ ہے کذبت ثمو د المرسلین قوم ثمود نے اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا ۔ انہوں نے اپنے رسول صالح (علیہ السلام) کی تکذیب کی مگر کسی ایک رسول کی تکذیب تمام رسولوں کے جھٹلانے کے مترادف ہے لہٰذا حسب سابق یہاں بھی جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اذقال لھم اخوھم صلح جب کہا ان کو ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) نے بھائی اس لیے کہ آپ اپنی قوم کے فرد تھے ، انہی کی برادری اور خاندان سے تعلق تھا۔ اللہ نے ان کے سر پر تاج نبوت رکھا تو انہوں نے اللہ کا پیغام سنانا شروع کیا اور قوم سے فرمایا الا تتقون تم ڈرتے کیوں نہیں ؟ تم کفر ، شرک ، معاصی اور ناپ تول کی اخلاقی بیماری میں مبتلا ہو ۔ مگر خدا تعالیٰ کی گرفت سے بےخوف ہوچکے ہو ۔ فرمایا یاد رکھو ! انی لکم رسول امین میں تمہاری طرف اللہ کا پیغام لانے والا اور امانت دار ہوں ۔ میں اللہ کا ہر پیغام بلا کم وکاست تم تک پہنچانے پر مامور ہوں ۔ اس ضمن میں کوئی خیانت اور رعایت یا طرفداری نہیں کرتا ، لہٰذا فاتقوا اللہ واطیعون اللہ سے ڈرو اور میری بات مانو ۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو ، نیز اعبدو اللہ ما لکم من الہ غیرہ ( الاعراف : 37) عبادت صرف اللہ کی کرو کہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے آپ نے قوم سے یہ بھی فرمایا کہ میں تم تک اللہ کا پیغام بےلوث پہنچا رہا ہوں وما اسئلکم علیہ من اجر اور اس کام کے لیے تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا ان اجری الاعلی رب العالمین میرا معاوضہ تو تمام جہانوں کے پروردگار کے ذمے ہے ، تمام انبیاء اور رسل یہی بات کہتے ہیں کہ تبلیغ حق کے ضمن میں ان کا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے ، تعلیم حاصل کرنے کے لیے عام طور پر فیس دینا پڑتی ہے۔ کاہن اور سالر بھی اپنا معاوضہ طلب کرتا ہے ، شاعر بھی اپنی فیس طلب کرتے ہیں ، ان سب کا مقصود دنیا طلبی ہوتا ہے لیکن انبیاء کی جماعت ایک ایسی جماعت ہے جو صراط مستقیم پر راہنمائی کرنے کے لیے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتی ۔ اللہ کا نبی ہمیشہ یہی کہتا ہے وانا لکم ناصح امین ( الاعراف : 86) میں تو نصیحت کرنے والا امانت دار ہوں ۔ وانصح لکم ( الاعراف : 26) میں تمہیں نصیحت کی بات بتاتا ہوں جو تمہارے فائدے میں ہے ، اس میں تمہاری خیر خواہی ہے ، ظاہر ہے کہ کسی بےغرض آدمی کی بات کو سننا فطرت سلیمہ کا تقاضا ہے مگر تاریخ رسالت شاہد ہے کہ اکثر اقوام نے اپنے اپنے رسولوں کی تکذیب ہی کی۔ انعامات کا تذکرہ ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی ضمیر کو مزید جھنجھوڑ اور فرمایا اتترکون فی ما ھھمنا امنین کیا تم سمجھتے ہو کہ تم یہاں اسی طرح امن میں چھوڑ دیئے جائو گے ؟ مطلب یہ کہ کیا تم ہمیشہ اسی طرح خوشحالی کی زندگی بسر کرتے رہو گے اور تمہیں کبھی زوال نہیں آئے گا ۔ فرعون بھی تو ہی کہتا تھا اس سب پر غالب ہوں ۔ میری سلطنت کو کبھی زوال نہیں آئے گا ۔ عام طور پر ملوک اور مشرکین کا یہی ذہن ہوتا ہے ۔ اسی لیے تو انہیں آخرت کی فکر نہیں ہوتی ۔ اگر وہ لحظہ بھر کے لیے خیال کریں کہ اگر آج خوشحال ہیں تو کل کر بد حال بھی ہو سکتے ہیں تو وہ غرور وتکبر اور ظلم و ستم سے باز آجائیں ، مگر اس طرف تو ان دھیان جاتا ہی نہیں۔ بہرحال ہود (علیہ السلام) نے کہا ، کیا تم اسی طرح یہاں امن میں رہو گے ؟ فی جنت و عیون تمہارے باغات اور ان کو سیراب کرنے والے چشمے اور نہریں اسی طرح با عمل رہیں گی ؟ اور کیا تم اس خا م خیالی میں بھی مبتلا ہو کہ وزوع و نخل تمہاری کھیتیاں اور کھجوریں بھی اسی طرح لہلہلاتی اور بار آور ہوتی رہیں گی ۔ کھجوروں کے وہ درخت طلعھا ھضیم کہ جن کے خوشے نہایت ہی نرم ہیں ۔ ھضیم کا معنی نرم و نازک بھی ہوتا ہے اور جھکاہو بھی شیخ الہند اس کا معنی ملائم کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے کھجور کے جب نئے شگوفے پھوٹتے ہیں تو وہ نہایت ہی نرم و نازک اور ملائم ہوتے ہیں ۔ پھر جب پھل اچھی طرح آجاتا ہے تو وہ اپنے وزن کی وجہ سے معمول سا جھک بھی جاتا ہے۔ تو اس طرح یہ دونوں معانی درست ہیں ۔ کھجور کا خوشہ پھوٹنے سے لے کر پھل برداشت کرنے تک کے مختلف مراحل کے عربی زبان میں مختلف نام آتے ہیں ۔ مثلاً جب کھجور کا پہلا خوشہ پھوٹتا ہے تو اس کو کفریٰ کہا جاتا ہے۔ اس کا اندرونی حصہ اس وقت سفید ہوتا ہے جو اغریض کہلاتا ہے۔ پھر جب پھل کی نمود ہوتی ہے تو اس کو خلال کہتے ہیں اور جب ذرابڑا ہوجاتا ہے تو بلح کہلاتا ہے ۔ پھر جب اس کے دانے بڑے ہوجاتے ہیں ۔ تو اسے بسر کہتے ہیں ۔ جب ان میں زردی آجاتی ہے تو وہ رطب بن جاتا ہے ۔ اور آخر میں اگر کھجور خشک ہو تو تم کہلاتی ہے ۔ بہر حال ہود (علیہ السلام) نے قوم سے کہا کہ کیا تم سمجھے ہو کہ تمہاری کھیتیاں اور کھجوریں اسی طرح بار آور ہوتی رہیں گی ؟ کھجور کے درخت میں اللہ تعالیٰ نے یہ عجیب و غریب حکمت رکھی ہے کہ اس میں نر اور مادہ ہوتے ہیں ۔ مادہ درخت کا خوشہ نکلنے والا حصہ بند سا ہوتا ہے جسے دو جوتے آپس میں ملے ہوئے ہوں ۔ جب مذکر درخت کا بور مادہ درخت کے مذکورہ صحیفہ پر پڑنا ہے تو اس سے پیوند کاری ہو کر پھل اچھا آتا ہے ۔ اگر نر درخت کا بور مطلوبہ جگہ تک نہ پہنچ سکے تو پھل ناقص رہ جاتا ہے ۔ عرب اور دوسرے گرم ممالک میں کھجور نہایت ہی مفید کار آمد دیر پا پھل ہے جو بیک وقت بطور پھل اور خوراک استعمال ہوتا ہے ۔ قوم ثمود کے پاس کھجوروں کے بکثرت باغات تھے جس کی وجہ سے وہ بڑے خوشحال لوگ تھے۔ پر تکلف مکانات ہود (علیہ السلام) نے قوم کو یہ بھی یاد دلایا وتنحتون من الجبال بیوتافرھین تم تراشے ہو پہاڑوں میں پر تکلف مکانات جیسا کہ پہلے عرض کیا ۔ قوم عاد کی شرح قوم ثمود بھی فن تعمیر کی ماہر تھی ۔ یہ لوگ پہاڑوں کی تراش تراش کر ان کے اندر نہایت ہی دیدہ زیب نقش و نگاہ والے مکانات تعمیر کرتے تھے۔ فرمایا یہ تمام آسائشیں دائمی نہیں ہیں یہ کسی وقت بھی ختم ہو سکتی ہیں لہٰذا حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرو فاتقوا اللہ واطیعون اللہ تعالیٰ کی گرفت سے ڈر جانا اور میر ی بات مانو ، میں تمہیں سچی بات بتاتا ہوں ۔ دنیا کی خوشنمائی سے نکل کر آخرت کی فکر کرو کہ اسی میں تمہاری بہتری ہے۔ یہ دنیا اور اس کی تمام رونقیں جلدی ختم ہونے والی ہیں ، تمہاری موت کے بعد ایک دائمی زندگی شروع ہونے والی ہے۔ جہاں تمہارے یہ باغات ، محلات اور آرام و آسائش کی کوئی چیز کام نہیں آئے گی اور تم اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں سکو گے۔ اسراف کی ممانعت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو خبردار کیا ولا تطیعوا من المسرفین اور اسراف کرنے والوں کی بات کو مت مانو ، قوم عاد کے متعلق بھی بیان ہوچکا ہے کہ بڑے مسرف لوگ تھے۔ عالیشان مکانات ، بڑے بڑے مینار اور گنبد تعمیر کرتے تھے جن سے نہ رہائش مقصود ہوتی تھی اور نہ کوئی دوسرا مفید کام بلکہ محض نمود و نمائش مطلوب ہوتی تھی۔ یہ بیماری اس قوم ثمود میں بھی پائی جاتی تھی ۔ فضول رسم و رواج اور لہو و لعب میں بےدریغ روپیہ صرف کرتے تھے۔ شراب نوشی اور جوئے بازی عام تھی ، استقبالیوں اور دعوتوں میں یہاں بھی فضول خرچی کی جاتی ہے ۔ کسی وزیر امیر یا سید کی آمد ہوتی ہے تو بیشمار جھنڈیاں اور آرائشی دروازے بنائے جاتے ہیں ۔ استقبا یہ نعروں کے بورڈ آویزاں کیے جاتے ہیں ۔ علاقے بھر کو دلہن کی طرح سجا یا جاتا ہے۔ رنگ برنگے قمقموں سے سڑکوں کو سجایا جاتا ہے۔ یہ سب فضول اور حرام کام ہیں ، یہی رقم غریبوں اور محتاجوں کی بحالی پر خرچ کی جاسکتی ہے۔ بھوکوں کے لیے کھانے اور ننگوں کے لیے تن پوشی کا بندوست ہو سکتا ہے یا پھر بےگھر لوگوں کے لیے گرمی سردی سے بچائو کے لیے سایہ مہیا کیا جاسکتا ہے مگر اس فضول خرچی کو کون روکے ؟ امراء کو دیکھا دیکھی غریب لوگ بھی شادی کی رسومات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ، نہ امر غریبوں کا خیال کرتے ہیں اور نہ غریب اپنی حیثیت پر نظر رکھتے ہیں ۔ نام و نمود کے لیے ایک دوڑلگی ہوئی ہے اور اسی اسراف سے ہو پرانی قوموں میں پایا جاتا ہے اور آج بھی موجود ہے ۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اسراف سے منع فرمایا اور کہا کہ مسرفوں کی بات کو نہ مانو۔ فساد فی الارض اور مسرف لوگ وہ ہیں الذین یفسدون فی الارض جو کہ زمین میں فساد برپا کرتے ہیں ولا یصلحون اور اصلاح نہیں کرتے ظاہر ہے کہ اصلاح معاشرہ تو نیکی کے ذریعے ہوتی ہے۔ غریب پروری اور عدل و انصاف سے ہوتی ہے نہ کہ جوا بدی اور شراب نوشی کے ذریعے ، تمام برے کام فساد کی بنیاد بنتے ہیں ۔ امام بیضاوی فرماتے ہیں کہ اخلال بالشرائع یعنی قوانین خداوندی کی خلاف ورزی ہی فساد فی الارض ہے مشرک کافر اور منافق قسم کے لوگ فساد فی الارض کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ صالح (علیہ السلام) نے بھی یہی بات کی کہ مسرفوں کی بات نہ مانو ۔ وہ خدا کا قانون توڑ کر زمین میں فساد کا موجب بنتے ہیں ۔ لہو و لعب ، رسومات بد اور بدعات کو فروغ دیتے ہیں ۔ فوٹو گرافی کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔ حالانکہ حضور ﷺ 1 ؎ کا فرمان ہے لعن اللہ المعصورین مصوروں پر اللہ کی لعنت برستی ہے۔ یہ اسراف ہی تو ہے اور یہی فساد فی الارض ہے سورة الاعراف میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کے یہ الفاظ بھی ہیں جو انہوں نے اپنی قوم سے ہے وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلاَحِھَا ( آیت : 58) لوگو ! زمین میں امن قائم ہوجانے کے بعد اس میں فساد نہ پھیلائو ۔ بہر حال صالح (علیہ السلام) نے قوم کو اسراف اور زمین میں فساد پھیلانے سے منع کیا ۔ آپ کی اس تقریر کے بعد اگلی آیات میں قوم کا جواب ہے۔ 1 ؎۔ قرطبی 832 ج 41 و احکام القرآن للجصاصص 373 ج 3 ( فیاض)
Top