Mualim-ul-Irfan - Ash-Shu'araa : 153
قَالُوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَۚ
قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنْتَ : تم مِنَ : سے الْمُسَحَّرِيْنَ : سحر زدہ لوگ
صالح (علیہ السلام) کی بات کے جواب میں کہا ان لوگوں نے بیشک تو سحر زدہ لوگوں میں سے ہے
ربط آیات اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف نبی بنا کر مبعوث فرمایا آپ نے حلق تبلیغ ادا کرتے ہوئے قوم کو خدا تعالیٰ کا پیغام سنا ۔ ان کی خامیاں بیان کیں اور ان سے بچنے کی تلقین کی ۔ ان کو خدا تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلائیں اور اس فانی دنیا کی بےثباتی کا ذکر کیا ۔ آپ نے قوم کو ان کی خوشحالی پر تنبیہ فرمایا اور اسراف سے منع فرمایا ۔ اللہ کا خوف دلایا اور اپنی اطاعت کا حکم دیا ۔ آپ نے یہ بھی واضح کردیا کہ میں تمہیں نصیحت کی بات بتلاتا ہوں جس میں خود تمہارا ہی فائدہ ہے۔ قوم ثمود کا جواب آپ کی قوم نے پیغام حق سن کر اس کو تسلیم کرنے کی بجائے نہایت متکبرانہ طریقے سے یوں جواب دیا قالوا انما انت من المسحرین کہنے لگے تو تو سخر زدہ لوگوں میں سے ہے۔ یہ الزام صرف قوم ثمود نے ہی نہیں لگایا بلکہ دوسرے بعض انبیاء کو بھی یہی کیا گیا ۔ مثلاً حضر ت موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کے متعلق کہا گیا کہ یہ جادوگر ہیں ۔ قریش مکہ نے اہل ایمان کو حفاظت کر کے کہا ان تتبعون الارجلا مسحورا (بنی اسرائیل : 74) تم تو سحر زدہ آدمی کا اتباع کرتے ہو ۔ اس پر تو کسی نے جادو کردیا ہے اور یہ شخص بہکی بہکی باتیں کرتا ہے۔ پھر جب مشرکین نے معجزہ شق القمر دیکھا تو کہنے لگے سحر مستمر ( القمر : 2) یہ تو چلتا ہوا جادو ہے پہلے بھی لوگ کرتے تھے اب یہ شخص بھی کرتا ہے۔ اسی طرح صالح (علیہ السلام) کو بھی کہا کہ تو تو مسخرین میں سے ہے یعنی تجھ پر کسی نے جادو کردیا ہے جس کی وجہ سے تمہاری عقل خراب ہوگئی ہے۔ فرعون کی طرح وہ بھی اپنی کارگزاری کو ہی عقل مندی سمجھتے تھے۔ فرعون نے اپنی قوم کو اس طرح ورغلایا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) تو تمہیں گمراہ کر رہا ہے۔ وما اھدیکم الا سبیل الرشاد ( المومن : 91) مگر میں تمہیں ٹھیک راستہ بتلارہا ہوں ۔ ہمارے آبائو اجداد بالکل ٹھیک تھے ، ان کا طور طریقہ بھی درست تھا اور ہم اسی کے پابند ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے حواری بہک گئے ہیں جو عجیب و غریب باتیں کرتے ہیں جو ہم نے اپنے بڑوں سے کبھی نہیں سنیں ۔ بہر حال کبھی انہوں نے کاہن کہا ، کبھی شاعرکہا اور کبھی سحر زدہ کہہ دیا ۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ سحر پھیپھڑے کو بھی کہا جاتا ہے۔ مراد ان کی یہ تھی کہ یہ محض تو پھیپھڑا رکھنے والا انسان ہے۔ تو کھانا کھاتا ہے ، انسانوں کی طرح سانس لیتا ہے بھلا ہم ایسے شخص کو رسولوں کیسے تسلیم کرلیں ۔ اس کے علاوہ سحرہ معنی دھوکہ بھی ہوتا ہے جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے ؎ ارنا موضعین لا مرغیب ونسحر بالطعام وبا الشراب ہم غیب کی طرف اپنی سواریاں تیزی کے ساتھ دوڑا رہے ہیں ، پتہ نہیں آگے کیا ہوگا مگر ہمیں کھانے پینے سے دھوکا دیا جاتا ہے۔ ہمیں کھانے پینے کا لالچ دے کر اس طرف لگا دیا گیا ہے جس کے انجام کا کچھ علم نہیں تا ہم اس مقام پر پہلامعنی ہی زیادہ متبادر ہے کہ تو سحر زدہ آدمی ہے۔ بشریت اور رسالت قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) پر یہ اعتراض بھی کیا ۔ کہنے لگے ما انت الا بشر مثلنا تو تو ہمارے جیسا ہی انسان ہے ، تمہیں ہم پر کون سی فوقیت حاصل ہے جو تم نبوت و رسالت کا دعویٰ کر رہے ہو ۔ یہ حقیقت ہے کہ مادہ پرست لوگ حقیقت کو پائے بغیر محض ظاہری صورت دیکھ کر ہی الٹا سیدھا فیصلے کرلیتے ہیں ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اپنی کتاب 1 ؎ النوز الکبیر (رح) میں فرماتے ہیں کہ اکثر کفار و مشرکین نے بشریت کو رسالت کے منافی سمجھ کر ہی رسالت و نبوت کا انکار کیا اور حقیقت کو نہ جانا کہتے تھے کہ یہ رسالت کا دعویدار بھی ہماری طرح کھاتا پیتا ہے ۔ ہماری طرح اس کے بھی بال بچے ہیں ۔ بازاروں سے سودا سلف خریدتا ہے ، بھلا اس کو ہم کیسے نبی مان لیں ! مگر حقیقت یہ ہے کہ لوازمات بشریت نبوت و رسالت کے ہرگز منافی نہیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے ہی رسول اور نبی منتخب کرتا ہے مگر ان کے قلب و دماغ کو کمال حاصل ہوتا ہے اور ان کی روحانیت ایسی بےمثال ہوئی ہے جو عام انسانوں کے لیے ممکن نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے خود خاتم النبیین ﷺ کی زبان سے بھی کہلوایا 1 ؎۔ الفوز الکبیر ص 71 قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ (الکہف : 011) آپ کہہ دیں کہ میں بھی تمہارے جیسا انسان ہوں ، البتہ مجھ پر وحی کی جاتی ہے ، مگر وحی کا نزول کوئی معمولی چیز نہیں ہے ، یہ تو اللہ تعالیٰ کا خاص انتخاب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر انسان کی استعداد اور صلاحیت کو خوب جانتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ منصب رسالت کے لائق کون انسان ہے ۔ بہر حال قوم ثمود نے صالح (علیہ السلام) کی ظاہر شکل و صورت دیکھ کر آپ کی رسالت کا انکار کردیا اور حقیقت کو نہ پا سکے۔ مولانا روم (رح) نے صورت پرستوں کا حال اسی طرح بیان کیا ہے ؎ چند صورت بینی اے صورت پرست جان بےمعنی است لز صورت پرست در گزر از صورت و معنی نگر زانکہ مقصود از صدف باشد گہر صورت پرست صرف ظاہری صورت کو ہی سمجھ رہا ہے اور وہ جان اور روحانیت کی حقیقت سے بےبہرہ ہے۔ صورت سے گزر کر حقیقت کو بھی دیکھ لو کیونکہ محض ظاہری سیپ مقصود نہیں ہوتا بلکہ اس کے اندر موجود ہوتی مطلوب ہوتا ہے ۔ مطلب یہ کہ صرف ظاہری شکل و صورت دیکھ کر یہ کہ دنیا کہ یہ بھی انسان ہے اور ہم بھی انسان ہیں ۔ درست نہیں ہے بلکہ نبی کے اندر پائی جانے والی حقیقت اور اس کے کمال پر بھی نگاہ ہونی چاہئے ۔ فرمایا ، تم نے صرف ظاہری صورت پر انکار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ، یہ تو پرلے درجے کی گمراہی ہے۔ کہنے لگے ، تو تو ہمارے جیسا آدمی ہے ہماری برادری اور قوم کا جاناپہنچانا ہے۔ ہم تجھے کیسے رسول مان لیں ؟ مشرکین مکیہ بھی کہتے تھے کہ ابو طالب کے یتیم بھیجتے کو ہم کیسے رسول مان لیں لَوْ لَا نُزِّلَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ (الزخرف : 13) یہ قرآن مکہ اور طائف کی بستیوں میں سے کسی صاحب حیثیت آدمی پہ کیوں نہ اترا ۔ یہاں بڑے بڑے سردار ابوائکم عبد الیل ، مبعود ، حبیب حصے بڑے بڑے عظیم عقل مند اور صاحب حیثیت لوگ ہیں ، اللہ نے اگر کسی کو نبی بنانا تھا تو ان میں سے کسی کو بناتا ۔ یہ تو ہماری عقل و فکر سے باہر ہے۔ ہم محمد ﷺ کو رسول ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ صورت پرست اور وہ پرستوں کی سوچ اسی حد تک ہوتی ہے۔ اونٹنی کا معجزہ پہلے تو قوم ثمود نے صالح (علیہ السلام) کا بشریت کی بناء پر انکار کیا ۔ پھر کہنے لگے فات بایۃ ان کنت من الصدقین گر تو بچا ہے تو کوئی نشانی پیش کر اور نشانی بھی ایسی ہو جو ہم خود طلب کریں ۔ یہ لوگ سنگ تراش تھے پتھروں کے ساتھ ان کو خاص تعلق تھا ، لہٰذا انہوں نے اشانی بھی ایسی طلب کی ۔ کہنے لگے کہ اس سامنے والی چٹان سے ایک اونٹنی نکال کردکھائیں ۔ اس وقت بہت سے لوگ جمع تھے۔ صالح (علیہ السلام) نے نماز پڑھی اور بارگاہ رب العزت میں دعا کی ۔ چناچہ تمام لوگوں کے سامنے چٹان میں سے اونٹنی پیدا ہوئی ۔ پھر اس نے بچہ بھی جنا ۔ یہ بہت لمبی چوڑی اونٹنی تھی ۔ ابو موسیٰ اشعری ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ میں نے وہ مقام دیکھا ہے جس جگہ صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی بیٹھی تھی ، یہ جگہ نوے فٹ مربع ہے ۔ اللہ نے اپنی قدرت کاملہ ہے یہ نشانی دکھائی ، اونٹنی ادھر ادھر گھومتی پھرتی تھی ۔ دوسرے جانو اس کی شکل و صورت سے گھبراتے تھے۔ پانی پینے کی باری بہر حال جب وہ اونٹنی چٹان سے برآمدہو گئی تو اللہ کا حکم ہوا قال ھذہ ناقد صالح (علیہ السلام) نے کہا کہ یہ اونٹنی ہے جو تم نے طلب کی ہے لھا شرب ولکم شرب یوم معلوم اس کے لیے پانی کی باری ہے اور تمہارے لیے بھی پانی پینے کی باری ہے ایک مقررہ دن پر ایک دن چشمے سے یہ اونٹنی پانی پیا کریگی اور دوسرے دن تم اپنے جانوروں کو سیراب کیا کرو گے ، چناچہ دن مقرر کرلیے گئے ایک دن اکیلی اونٹنی پانی پیتی تھی اور دکوسرے دن باقی جانور ۔ اس آیت سے مفسرین نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اگر کسی چیز میں بعض لوگوں کا اشتراک ہو تو آپس میں باری مقرر کی جاسکتی ہے مثلاً اگر کسی کا کنواں مشترکہ ہے تو پانی نکالنے کی باری ٹھہرائی جاسکتی ہے کوئی ہو تو ہے تو اس کی سواری یا دودھ وغیرہ کے لیے روزانہ ، ہفتہ وار یا ماہانہ بنیاد پر باری ٹھہرائی جاسکتی ہے۔ اونٹنی کا قتل یہ سلسلہ کچھ عرصہ تک چلتا رہا دریں اثناء بعض لوگوں کو خیال پیدا ہوا کہ یہ اونٹنی ہمارے لیے عذاب بن چکی ہے۔ اسے دیکھ کر ہمارے جانور ڈر جاتے ہیں اور پھر یہ ایک دن اکیلی سارا پانی پی جاتی ہے ۔ اس سے کسی طرح چھٹکارا حاصل کرنا چاہئے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے لوگوں کو خبردار کردیا ولا تمسوھا بسوء لوگو ! اس اونٹنی کو برائی کے ساتھ مت چھونا ۔ اس کو بری نیت سے ہاتھ نہ لگانا ، نہ اس کو زخمی کرنا ، اگر ایسا کرو گے فیاخذ کم عذاب یوم عظیم تو تم کو بڑے دن کا عذاب پکڑے گا ۔ تم خدا تعالیٰ کی گرفت میں آ جائو گے ۔ اگرچہ بڑے دن سے مراد قیامت کا دن ہے جب ثواب اور عذاب کا فیصلہ ہوگا ۔ مگر جس دن کسی قوم پر عذاب آیا اس کے لیے وہ بھی برا دن ہوتا ہے۔ تو صالح (علیہ السلام) نے قوم کو خبردار کیا کہ اس اونٹنی سے تعرض کرسکے کہیں خدا کے عذاب میں مبتلا نہ ہوجانا۔ سورۃ نمل میں آتا ہے وَ کَانَ فِیْ الْمَدِیْنَۃِ تِسْعَۃُ رَھْطٍ یُّفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ (آیت : 84) شہر میں غنڈہ قسم کے نو آدمی تھے جن کا کام ہی فتنہ و فساد کا بازار گرم کرنا تھا اور وہ معاشرے میں اصلاح نہیں چاہتے تھے ، ان میں سے سر کردہ آدمی قدار ابن سائف تھے۔ اس اونٹنی کو راستے سے ہٹانے کے لیے ان بد معاشوں کی خدمات حاصل کی گئیں ۔ شہر میں غنیرہ نامی عورت تھی جس کی کئی جوان بیٹیاں تھیں ۔ اس کی بہت سی بھیڑ بکریاں تھیں جنہیں اس اونٹنی کی وجہ سے پانی پلانے میں دقت پیش آتی تھی ۔ اس عورت نے قدار ابن سالف سے معاملہ طے کیا کہ اگر وہ اونٹنی کو قتل کر دے تو وہ اپنی لڑکی کا نکاح اس کے ساتھ کردیگی ۔ قدا ر نے اپنے غنڈہ ساتھیوں سے مشورہ کیا اور پھر وہ اونٹنی کی گزر گاہ پر ایک درے میں چھپ کر بیٹھ گئے جونہی اونٹنی وہاں سے گزری فعقرو ھا تو انہوں نے اس کے پائوں کاٹ ڈالے جب اونٹنی گر پڑی تو تمام ساتھیوں نے مل کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے ۔ اونٹنی کا بچہ بھی ساتھ تھا ، ماں کو قتل ہوتے دیکھ کر اس نے ایک خوفناک چیخ ماری اور پھر وہ اسی چٹان میں غائب ہوگیا جہاں سے اونٹنی برآمد ہوئی تھی۔ قوم پر عذاب اونٹنی کے قتل پر صالح (علیہ السلام) نے قوم کو سخت سرزنش کی اور عذاب کی آمد کی پیش گوئی کی ۔ صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تمہیں تین دن کی مہلت دی گئی ہے اس کے بعد تم پر سخت عذاب آنے والا ہے۔ یہ جان کر فاصبحو ندمین ہ قوم کے لوگ سخت پشیمان ہوئے کہ وہ کیا کر بیٹھے ہیں ۔ یہ پشیمانی توبہ والی نہیں تھی ۔ بلکہ غلط کام کرنے کی محض ندامت تھی اور ان کی اکثریتی جگہ بدستور قائم تھی ۔ جب تین دن گزر گیء فاخذھم العذاب تو ان کو عذاب نے آن پکڑا ، نیچے سے زلزلہ آیا اور اوپر سے سخت قسم کی چیخ آئی ۔ جس سے اس قوم کے سترہ سو شہر اور قصبات ملیا میٹ ہوگئے۔ زلزے سے ان کی عمارات تباہ ہوگئیں ، کچھ ان کے نیچے دب کر مر گئے اور باقیوں کے چیخ کی وجہ سے جگر پھٹ گئے اور وہ سارے کے سارے ہلاک ہوگئے ۔ صرف کم و بیش چار سو افراد بچے جو صالح (علیہ السلام) پر ایمان لا چکے تھے ۔ پھر ان کو حکم ہوا کہ وہاں سے چلے جائیں چناچہ صالح (علیہ السلام) اہل ایمان کو لے کر اس اجڑی ہوئی بستی سے نکل گئے۔ نصیحت کی بات اللہ نے صالح (علیہ السلام) کی قوم کا واقعہ بیان کرنے کے بعد پھر نصیحت والی بات دہرائی ہے ان فی ذلک لایۃ اس واقعہ میں تمام لوگوں کے لیے نشانی ہے سوا وہ مکہ کے رہنے والے ہوں یا دنیا کے کسی خطے سے تعلق رکھتے ہوں سب کو جان لینا چاہئے کہ خدا کے نافرمانوں کا کیا حشر ہوتا ہے۔ ان تباہ شدہ قوموں کی عمارت کے کھنڈرات بول بول کر درس عبرت دے رہے ہیں کہ دیکھو اللہ کے نبیوں کی نافرمانی نہ کرنا ، ورنہ تمہارا حشر بھی سابقہ اقوام سے مختلف نہ ہوگا ۔ ان تمام تر تنبیہات کے باوجود اللہ نے فرمایا۔ وما کان اکثر ھم مومنین اکثر لوگ ایمان قبول نہیں کرتے ۔ تو حید کو ماننے والے بہت قلیل لوگ ہوتے ہیں ۔ آج بھی دنیا بھر میں دیکھ لیں کل آبادی کا تین چوتھائی کا فر و مشرک ہے جب کہ توحید کے پرستار صرف چوتھا یا پانچواں حصہ ہیں ۔ فرمایا وان ربک لھو العزیز الرحیم بیشک تیرا پروردگار کمال قدرت کا مالک ہے وہ جب چاہے گروت کرلے اور سزا دے دے ۔ وہ انتہائی مہربانی بھی ہے کہ اپنے بندوں کی نہایت ہی خطرناک حالات میں بھی حفاظت کرتا ہے اور ان کو راہ دکھلاتا ہے ، چناچہ اللہ نے صالح (علیہ السلام) کو اور آپ کے ساتھیوں کو اس عذاب زدہ بستی سے چلے جانے کا حکم دیا اور آپ وہاں سے حضر موت کی طرف چلے گئے۔
Top