Mualim-ul-Irfan - Ash-Shu'araa : 160
كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِ اِ۟لْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا قَوْمُ لُوْطِ : قومِ لوط ۨ الْمُرْسَلِيْنَ : رسولوں کو
جھٹلایا قوم لوط نے اللہ کے رسولوں کو
ربط آیات حضور ﷺ اور آپ کے پیروکاروں کی تسلی کے لیے اس سے پہلے بعض انبیاء علہیم السلام اور ان کی اقوام کا حال بیان ہوچکا ہے۔ گزشتہ آیات میں حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم ثمود کا ذکر تھا کہ کس طرح انہوں نے اللہ کی نبی کی تکذیب کی اور پھر اس جرم کی پاداش میں کس طرح عذاب الٰہی کے مورد بنے ۔ اب آج کے درس میں حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کا ذکر ہے کہ انہوں نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا اور ان پر کس طرح کا عذاب نازل ہوا ۔ لوط (علیہ السلام) کی بعثت ارشاد ہوتا ہے کذبت قوم لوط المرسلین قوم لوط نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا ۔ ایک نبی کو جھٹلایا تو گویا تمام نبیوں کو جھٹلایا کیونکہ سب کا مشن تو ایک ہی رہا ہے۔ ہر نبی اور رسول نے اولین درس یہی دیا یقوم اعبدہ اللہ ما لکم من الہ غیرہ ( الاعراف : 37) لوگو ! عبادت صرف اللہ کی کرو کہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے اذ قال لھم اخوھم لو ط جب ان کے بھائی لو ط (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا ، سابقہ دروس میں مذکور انبیاء (علیہم السلام) کی طرح لوط (علیہ السلام) کی بھی قوم کا بھائی کہا گیا ہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، حضرت ہود (علیہ السلام) ، حضرت صالح (علیہ السلام) تو اپنی اپنی اقوام کے افراد تھے لہٰذا انہیں اپنی اپنی قوم کا بھائی کہا گیا ، مگر لوط (علیہ السلام) کا تعلق تو اس قوم سے نہیں تھا جس کی طرف اللہ نے آپ کو مبعوث فرمایا تھا۔ البتہ آپ نے اس قوم میں شادی کی ۔ عربی محاورے میں کہا جاتا ہے بن اخت القوم منھم یعنی بھانجا ا سی قوم کافر و سمجھا جاتا ہے اگرچہ اس کے باپ کا تعلق دوسرے خاندان سے ہو ۔ ایک موقع پر حضور ﷺ نے انصار مدینہ کو بلا کر پوچھا کہ تم میں کوئی غیر آدمی تو نہیں ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہمارا ایک بھانجا ہے ، تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ وہ تمہیں میں شمار ہوتا ہے۔ غالباً اسی لحاظ سے یہاں پر لوط (علیہ السلام) کو قوم کا بھائی کہا گیا ہے کہ وہ آپ کی سسرالی قوم تھی ۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ چونکہ اللہ نے آپ کو اس قوم کی طرف مبعوث فرمایا ، اس لیے ان کا بھائی کہا گیا ہے ۔ گویا آپ ان کے ہم وطن بھائی بن گئے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بعثت کا واقعہ اس طرح پیش آیا کہ آپ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ہی بابل سے ہجرت کی ۔ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر آپ کی قوم کے لوگوں نے عرصہ حیات تنگ کردیا ۔ تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہجرت کا حکم دے دیا چناچہ اپنی بیوی سارہ ؓ اور بھیجتے لوط (علیہ السلام) کے ساتھ بابل سے چل نکلے۔ بابل سے آپ حاران ، پھر مصر اور پھر شام و فلسطین آئے ۔ اس ہجرت کا واقعہ سورة عنکبوت میں مذکور ہے فامن لہ لوط وقالو انی مھا جر الی ربی (العنکبوت 62) اس وقت حضرت لوط (علیہ السلام) ہی ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے اور دوسری آپ کی بیوی تھی ۔ چناچہ یہ تینوں ہجرت ک کے جب مصر سے شام و فلسطین کی طرف روانہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) کو بھی نبوت سے سرفراز فرمایا اور حکم دیا کہ شرق اردن کے علاقے میں جا کر اللہ کا پیغام پہنچائو ۔ اس وقت شرق اردن میں چھ بڑے بڑے شہر سدوم ، عمورہ ، دواسہ اور صعودا وغیرہ تھے جن کی آبادی چار لاکھ سے کم نہ تھی ۔ سدوم کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ۔ یہ علاقہ بڑا سر سبز تھا ، کھیتی باڑی اور باغات عام تھے وسیع پیمانے پر تجارت بھی ہوتی تھی ۔ چھوٹے چھوٹے دیہات اور قصبات بھی موجود تھے ، تو ان لوگوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا ۔ بہر حال شرق اردن پہنچ کر لوط (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو مخاطب کیا ۔ سب سے پہلے توحید کی دعوت دی ۔ کفر ، شرک اور معاصی کی قباحت بیان کی اور فرمایا الا تتقون کیا تم ڈرتے نہیں کہ ان قباحتوں کی وجہ سے ایک دن پکڑے جائو گے ۔ آپ نے اپنا تعارف کراتے ہوئے فرمایا انی لکم رسول امین میں تمہارے لیے امانت دار روسول ہوں۔ میں تمہیں اللہ کا پیغام بلا کم وکاست پہنچا رہا ہوں ۔ فاتقوا اللہ واطیعون پس اللہ سے ڈرو اور میری بات مانو ، میں تمہیں خدا کا پیغام بےلوث طریقے پر پہنچا رہا ہوں وما اسئلک علیہ من اجر اور میں اس کام کے لیے تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا ۔ کیونکہ ان اجری الا علی رب العلمین میرا معاوضہ تو پروردگار عالم کے ذمے ہے۔ مختلف اقوام کی بیماریاں سابقہ اقوام میں کفر اور شرک تو مشترک بیماریاں تھیں ۔ البتہ ہر قوم میں بعض اخلاقی بیماریاں بھی پائی جاتی تھیں ۔ قوم عاد اور ثمود غرور وتکبر اور ظلم و ستم میں مبتلا تھیں ۔ وہ بےجکا بڑی بڑی عمارتیں ، گنبد اور مینار بناتے تھے ، جن کا کوئی خاص مصرف نہ تھا بلکہ محض نمود و نمائش مطلوب ہوتی تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم بھی بد ترین قسم کے شرک میں مبتلام تھی ۔ یہ لوگ چاند ، سورج اور ستاروں کے پرستار تھے ۔ اس کے علاوہ پتھر کے بت تراش کر ان کی پوجا کرتے تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑے مغرور تھے اور اپنے عقائد و اعمال کے خلاف کوئی بات سننا گوارہ نہیں کرتے تھے۔ فرعون اور اس کی قوم کا بھی کم و بیش یہی حال تھا ۔ وہ بھی اپنے آپ کو سب سے بڑا رب کہتا تھا ، جہاں تک لوط (علیہ السلام) کی قوم کا تعلق ہے تو ان میں کفر و شرک کے علاوہ ہم جنسی کی بیماری پائی جاتی تھی ۔ اللہ کا فرمان ہے کہ یہی لوگ اس بد اخلاقی کے موجد تھے ۔ ان سے پہلے یہ بیماری کسی قوم میں نہیں پائی جاتی تھی۔ ہم جنسی کی بیماری اسی خلاف وضع فطری عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لوط (علیہ السلام) نے قوم سے فرمایا انا تون الذکران من العلمین کیا جہان بھر میں شہوت رانی کے لیے تم مردوں کی طرف دوڑتے ہو ، یعنی تم ہم جنسی کے مرتکب ہوتے ہو ۔ وتذرون ما خلق لکم ربکم من ازواجکم اور تمہاری بیویوں میں سے تمہارے پروردگار نے جو کچھ تمہارے لیے پیدا کیا ہے اس کو چھوڑ دیتے ہو ، مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے شہوت کے فرو کرنے کے لیے تمہارے لیے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں ۔ تم ان سے توالتفات نہیں کرتے بلکہ اپنے ہم جنس مردوں کے ساتھ ملوث ہوتے ہو ۔ یہ کتنی خلاف فطرت بات ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بل انتم قوم عدون تم حد سے بڑھنے والے نہایت ہی ظالم لوگ ہو ۔ تم یہ کام انسانیت کی حد سے گزر کر انجام دے رہے ہو ۔ سورة المعارج میں ہے فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآئَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓـئِکَ ہُمُ الْعٰـدُوْنَ (آیت : 13) جو کوئی جائز ذرائع کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ اختیار کرے گا ، تو وہ تعدی کرنے والا ہوگا ۔ اللہ نے منکوحہ بیوی یا شرعی لونڈی کے ذریعے شہوت رانی کو جائز اور حلال قرار دیا ہے۔ باقی تمام ذرائع غیر فطری اور حرام ہیں ۔ چناچہ مشت زنی بھی مکروہ تحریمی میں آتی ہے کہ اس سے کئی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں ۔ جانوروں کے ساتھ التفات بھی حرام ہے۔ اپنی بیوی کا مقام مکروہ استعمال کرنا بھی حرام ہے۔ اللہ کے نبی کا فرمان ہے ۔ من اتی امراۃً فی دبرھا فقد کفربما نزل علی محمد ﷺ یعنی جس شخص نے عورت کے مقام مکروہ میں شہوت رانی کی ، اس نے گویا شریعت محمدیہ کا انکار کردیا ۔ یہ اتنا قبیح فعل ہے اور پھر مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرنا تو بالکل ہی خلاف فطرت ہے۔ اللہ نے اس کو فحش کے لفظ سے تعبیر کیا ہے زنا اور لواطت دونوں افعال کو فحش کہا گیا ہے۔ بہر حال قوم لوط اسی فعی کی بانی تھی۔ لواطت قابل تعزیر جرم ہے ۔ ائمہ کرام میں قدرے اختلاف ہے کہ اس جرم پر حد جاری ہوگی ۔ یا تعزیر ، بعض لواطت کو بھی زنا شمار کر کے حد زنا کے قائل ہیں۔ جب کہ اما م ابوحنیفہ اور بعض دیگر ائمہ فرماتے ہیں کہ ایسے شخص پر تعزیر عائد ہوگی جو حاکم وقت جرم کی نوعیت کے اعتبار سے مقرر کرے ، چونکہ فعل خلاف فطرت ہے اس لیے تمام ائمہ کرام سخت ترین سزا کے قائل ہیں جو کہ سزائے موت تک ہو سکتی ہے۔ صاحب مشکوٰۃ نے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت نقل کی ہے جس میں احرقھما کا لفظ آتا ہے یعنی فاعل اور مفعول دونوں کو آگ میں جلا دیاجائے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ فرماتے ہیں ھدم علیھم حائطا ایسے مجرموں کر دیوار کے نیچے کھڑا کر کے اوپر دیوار گرا دی جائے ۔ ، خلفائے راشدین ؓ کے زمانے میں ایسے معاملات پیش آئے تو انہوں نے اپنی اپنی صوابدید کے مطابق تعزیز لگائی کیونکہ اس جرم کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ قوم لوط سے پہلے یہ فعل شینع کسی قوم میں نہیں پایا جاتا تھا۔ اس کے بعد یہ عام ہوگیا حتیٰ کہ برطانوی پارلیمنٹ نے یہ قانو پاس کردیا ہے کہ اگر دو بالغ مرد باہمی رضا مندی سے اس فعل کا ارتکاب کریں تو ان پر کوئی جرم عائد نہیں ہوتا اور اگر یہ فعل بالجر کیا جائے تو قابل مواخذہ ہوگا ۔ خنزیر خوری کا یہی خاصہ ہے کہ لوگ بےحیا اور بےغیرت ہوجاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جرم بہر حال جرم ہے خواہ وہ رضا مند ی سے انجام دیا جائے یا جبرا ً ۔ خدا تعالیٰ نے اس کو بےحیائی سے تعبیر کیا ہے مگر آج دنیا کی کوئی قوم اس سے پاک نہیں ۔ امریکہ ، برطانیہ حتیٰ کہ اسلامی ممالک میں بھی لعنت میں مبتلا ہوچکے ہیں ۔ ایرانی ، افغانی ، ہندوستان ہر جگہ اس فعل کا ارتکاب ہوتا ہے۔ امام حلبی رقمطراز ہیں کہ پہلی صدی کے آخر تک کسی مسلمان ملک میں کوئی قحبہ خانہ نہیں تھا حالانکہ حضرت عمر ؓ کی حکومت چھتیس لاکھ مربع میل پر محیط تھی ، پھر انگریزوں کے زمانے میں اس فعل کو اتنی ترقی ہوئی کہ اب کوئی ملک بھی اس سے خالی نہیں ہے ۔ خود عرب ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں ۔ قوم کی دھمکی بہر حال جب لوط (علیہ السلام) نے قوم کو اس برے کام سے منع کیا قالوا لئن لم تنتہ یلوط کہنے لگے ۔ اے لوط (علیہ السلام) ! اگر تم اپنے اس وعظ و نصیحت سے باز نہ آئے لتکونن من المخرجین تو ہو جائو گے تم نکا لے ہوئے لوگوں میں سے ۔ مطلب یہ کہ ہمارے معاملات میں دخل اندازی سے باز آ جائو ورنہ ہم تمہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے۔ سورة الاعراف میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ جب لوط (علیہ السلام) نے انہیں منع کیا تو قوم کا جواب یہ تھا۔ اَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ قَرْیَـتِـکُمْج اِنَّھُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَھَّرُوْنَ (آیت 28) ان کو اپنی بستی سے نکال دو ، یہ بڑے پاکباز لوگ بنے پھرتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نجس کام کرتے ہیں قال انی لعملکم من القائلین لوط (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تمہارے اس عمل سے سخت نفرت کرتا ہوں ۔ دین اور اخلاق کے خلاف چیزوں کو تو بد فطرت انسان ہی اچھا سمجھ سکتے ہیں ۔ سلیم الفطرت آدمی تو کبھی بھی ایسے کاموں سے مانوس نہیں ہو سکتا ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ خلاف وضع فطری عمل کے دو نقصانات ہیں ۔ ایک تو افلاح فطرت ہوگا یعنی لوگ فطرت سے باہر نکل جائیں گے اور یہ خدا کے غضب کو دعوت دینے والی بات ہے ، اور دوسرا یہ کہ واجبی ارتقا قات خراب ہوجائیں گے ۔ نکاح کا عمل انسانوں کے فائدے کے لیے واجبی ارتفاق ہے اگر کوئی شخص عورت سے نکاح کی بجائے مردوں یا جانوروں کے ساتھ شہوت رانی کرنے لگے تو نکاح کا سلسلہ درہم برہم ہوجائے گا ۔ اور اس طرح بقائے نسل کا سلسلہ خراب ہوجائے گا اسی لیے لوط (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تمہارے اس عمل سے متنفر ہوں۔ دعائے لوط (علیہ السلام) اس موقع پر لوط (علیہ السلام) نے بارگاہ رب العزت میں دعا بھی کی عرض کیا رب نجنی واھلی مما یعملون پروردگار ! مجھے اور میرے گھر والوں کو ان کاموں سے نجات دے جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔ مطلب یہ کہ ہمیں اس کام اور اس کے نتیجے میں آنے والے عذاب سے بچالے ۔ لوط (علیہ السلام) اللہ کے پاک نبی سے تو کسی برے عمل کی توقع ہو ہی نہیں سکتی تھی اس کا مطلب یہ تھا کہ اس کا م کی نحوست سے بچا ، چناچہ ایسا ہی ہوا ، اللہ نے آپ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور فرمایا فنجینہ واھلہ اجمعین ہم نے لوط (علیہ السلام) اور آپ کے گھر والوں سب کو نجات دی یعنی اس سزا سے بچا لیا جو اس قوم پر نازل ہوئی ۔ فرمایا لا عجوزا فی الغبرین ایک بڑھیا اس عذاب سے نہ بچ سکی جو پیچھے رہنے والوں میں تھی ۔ یہ لوط (علیہ السلام) کی بیوی کی طرف اشارہ ہے جو لوط (علیہ السلام) کے ہمراہ بستی سے نہیں گئی تھی بلکہ قوم کے ساتھ پیچھے ہی رہ گئی تھی ۔ لہٰذا وہ بھی عذاب کا شکار ہوگئی حالانکہ لوط (علیہ السلام) کے اہل خانہ میں سے تھی ۔ بعض کہتے ہیں کہ آپ بیوی تھوڑی دور تک آپ کے ہمراہ نکلی تھی ۔ مگر پھر پلٹ آئی ، اللہ تعالیٰ نے دو کافرہ عورتوں کا ذکر قرآن پاک میں کیا جو اس کے پاک انبیاء کے گھروں میں تھیں ۔ یہ حضرت نوح اور حضرت لوط (علیہما السلام) کی بیویاں تھیں کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتٰـہُمَا (التحریم : 01) یہ دونوں عورتیں ہمارے دو صالح بندوں کے گھروں میں تھیں مگر انہوں نے ان کے ساتھ خیانت کی ۔ یعنی ایمان سے خالی تھیں اور انہوں نے انپے شوہروں کا ساتھ دینے کی بجائے کافروں کا ساتھ دیا ۔ البتہ لوط (علیہ السلام) کی بیٹیاں ایماندار تھیں ۔ انہوں نے آپ کے ساتھ بستی کو چھوڑ دیا اور عذاب الٰہی سے بچ گئیں۔ قوم کی تباہی لوط (علیہ السلام) اور آپ کے اہل خانہ کے بستی سے نکل جانے کا حکم سورة ہود میں اللہ نے ذکر کیا ہے فاسر باھلک بقطع من الیل (آیت : 18) اپنے گھر والوں کو لے کر رات کے کچھ حصے میں نکل جائو ، چناچہ جب آپ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بستی سے نکل گئے تو فرمایا ثم دمرنا الاخرین ہم نے باقی قوم کو ملیا میٹ کردیا ۔ اللہ نے اس قوم کو ایستی تاریخی ہولناک سزا دی جو ہمیشہ یا د رکھی جائے گی ۔ بستیوں کو اس طرح الٹ دیا کہ نیچے والا حصہ اوپر اور اوپر والا نیچے آ گیا ۔ اور اسکے ساتھ ساتھ وامطرنا علیھم مطرا ہم نے ان پر بارش بھی برسائی اور یہ بارش پانی کی نہیں بلکہ پتھروں کی بارش تھی ۔ سورة الحجر میں ہے وامطرنا علیھم حجارۃ من سجیل ( آیت : 47) ہم نے ان پر کھنگر کے پتھر برسائے جن پر مجرموں کے نام لکھے ہوئے تھے کہ یہ فلاں چودھری کے سر پر لگے گا ۔ اور یہ فلاں وڈیروے کو ہلاک کر دیگا ۔ فرمایا ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسائی فساء مصر المنذرین ڈرائے ہوئے لوگوں کی بہت ہی بری بارش تھی ۔ خدا نے ساری قوم کو ہلاک کردیا ۔ ان فی ذلک لایۃ اس واقعہ میں عبرت ہے ۔ اہل مکہ اور بعد میں آنے والوں کو بھی جان لینا چاہئے کہ بد کاری کا نتیجہ کیا نکلتا ہے ۔ وما کان اکثر ھم مومنین مگر مقام افسوس ہے کہ اتنی واضح نشانی کے باوجود ان میں اکثر لوگ ایمان سے خالی ہیں وان ربک لھو العزیز الرحیم اور بیشک تیرا پروردگار زبردست ہے جو کسی نافرمان کو چھوڑتا نہیں اور نہایت مہربان ہے جو اپنے بندوں کو ہر مصیبت سے محفوظ رکھنے پر بھی قادر ہے۔
Top