Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Ash-Shu'araa : 160
كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِ اِ۟لْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ
: جھٹلایا
قَوْمُ لُوْطِ
: قومِ لوط
ۨ الْمُرْسَلِيْنَ
: رسولوں کو
جھٹلایا قوم لوط نے اللہ کے رسولوں کو
ربط آیات حضور ﷺ اور آپ کے پیروکاروں کی تسلی کے لیے اس سے پہلے بعض انبیاء علہیم السلام اور ان کی اقوام کا حال بیان ہوچکا ہے۔ گزشتہ آیات میں حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم ثمود کا ذکر تھا کہ کس طرح انہوں نے اللہ کی نبی کی تکذیب کی اور پھر اس جرم کی پاداش میں کس طرح عذاب الٰہی کے مورد بنے ۔ اب آج کے درس میں حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کا ذکر ہے کہ انہوں نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا اور ان پر کس طرح کا عذاب نازل ہوا ۔ لوط (علیہ السلام) کی بعثت ارشاد ہوتا ہے کذبت قوم لوط المرسلین قوم لوط نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا ۔ ایک نبی کو جھٹلایا تو گویا تمام نبیوں کو جھٹلایا کیونکہ سب کا مشن تو ایک ہی رہا ہے۔ ہر نبی اور رسول نے اولین درس یہی دیا یقوم اعبدہ اللہ ما لکم من الہ غیرہ ( الاعراف : 37) لوگو ! عبادت صرف اللہ کی کرو کہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے اذ قال لھم اخوھم لو ط جب ان کے بھائی لو ط (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا ، سابقہ دروس میں مذکور انبیاء (علیہم السلام) کی طرح لوط (علیہ السلام) کی بھی قوم کا بھائی کہا گیا ہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، حضرت ہود (علیہ السلام) ، حضرت صالح (علیہ السلام) تو اپنی اپنی اقوام کے افراد تھے لہٰذا انہیں اپنی اپنی قوم کا بھائی کہا گیا ، مگر لوط (علیہ السلام) کا تعلق تو اس قوم سے نہیں تھا جس کی طرف اللہ نے آپ کو مبعوث فرمایا تھا۔ البتہ آپ نے اس قوم میں شادی کی ۔ عربی محاورے میں کہا جاتا ہے بن اخت القوم منھم یعنی بھانجا ا سی قوم کافر و سمجھا جاتا ہے اگرچہ اس کے باپ کا تعلق دوسرے خاندان سے ہو ۔ ایک موقع پر حضور ﷺ نے انصار مدینہ کو بلا کر پوچھا کہ تم میں کوئی غیر آدمی تو نہیں ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہمارا ایک بھانجا ہے ، تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ وہ تمہیں میں شمار ہوتا ہے۔ غالباً اسی لحاظ سے یہاں پر لوط (علیہ السلام) کو قوم کا بھائی کہا گیا ہے کہ وہ آپ کی سسرالی قوم تھی ۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ چونکہ اللہ نے آپ کو اس قوم کی طرف مبعوث فرمایا ، اس لیے ان کا بھائی کہا گیا ہے ۔ گویا آپ ان کے ہم وطن بھائی بن گئے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بعثت کا واقعہ اس طرح پیش آیا کہ آپ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ہی بابل سے ہجرت کی ۔ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر آپ کی قوم کے لوگوں نے عرصہ حیات تنگ کردیا ۔ تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہجرت کا حکم دے دیا چناچہ اپنی بیوی سارہ ؓ اور بھیجتے لوط (علیہ السلام) کے ساتھ بابل سے چل نکلے۔ بابل سے آپ حاران ، پھر مصر اور پھر شام و فلسطین آئے ۔ اس ہجرت کا واقعہ سورة عنکبوت میں مذکور ہے فامن لہ لوط وقالو انی مھا جر الی ربی (العنکبوت 62) اس وقت حضرت لوط (علیہ السلام) ہی ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے اور دوسری آپ کی بیوی تھی ۔ چناچہ یہ تینوں ہجرت ک کے جب مصر سے شام و فلسطین کی طرف روانہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) کو بھی نبوت سے سرفراز فرمایا اور حکم دیا کہ شرق اردن کے علاقے میں جا کر اللہ کا پیغام پہنچائو ۔ اس وقت شرق اردن میں چھ بڑے بڑے شہر سدوم ، عمورہ ، دواسہ اور صعودا وغیرہ تھے جن کی آبادی چار لاکھ سے کم نہ تھی ۔ سدوم کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ۔ یہ علاقہ بڑا سر سبز تھا ، کھیتی باڑی اور باغات عام تھے وسیع پیمانے پر تجارت بھی ہوتی تھی ۔ چھوٹے چھوٹے دیہات اور قصبات بھی موجود تھے ، تو ان لوگوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا ۔ بہر حال شرق اردن پہنچ کر لوط (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو مخاطب کیا ۔ سب سے پہلے توحید کی دعوت دی ۔ کفر ، شرک اور معاصی کی قباحت بیان کی اور فرمایا الا تتقون کیا تم ڈرتے نہیں کہ ان قباحتوں کی وجہ سے ایک دن پکڑے جائو گے ۔ آپ نے اپنا تعارف کراتے ہوئے فرمایا انی لکم رسول امین میں تمہارے لیے امانت دار روسول ہوں۔ میں تمہیں اللہ کا پیغام بلا کم وکاست پہنچا رہا ہوں ۔ فاتقوا اللہ واطیعون پس اللہ سے ڈرو اور میری بات مانو ، میں تمہیں خدا کا پیغام بےلوث طریقے پر پہنچا رہا ہوں وما اسئلک علیہ من اجر اور میں اس کام کے لیے تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا ۔ کیونکہ ان اجری الا علی رب العلمین میرا معاوضہ تو پروردگار عالم کے ذمے ہے۔ مختلف اقوام کی بیماریاں سابقہ اقوام میں کفر اور شرک تو مشترک بیماریاں تھیں ۔ البتہ ہر قوم میں بعض اخلاقی بیماریاں بھی پائی جاتی تھیں ۔ قوم عاد اور ثمود غرور وتکبر اور ظلم و ستم میں مبتلا تھیں ۔ وہ بےجکا بڑی بڑی عمارتیں ، گنبد اور مینار بناتے تھے ، جن کا کوئی خاص مصرف نہ تھا بلکہ محض نمود و نمائش مطلوب ہوتی تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم بھی بد ترین قسم کے شرک میں مبتلام تھی ۔ یہ لوگ چاند ، سورج اور ستاروں کے پرستار تھے ۔ اس کے علاوہ پتھر کے بت تراش کر ان کی پوجا کرتے تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑے مغرور تھے اور اپنے عقائد و اعمال کے خلاف کوئی بات سننا گوارہ نہیں کرتے تھے۔ فرعون اور اس کی قوم کا بھی کم و بیش یہی حال تھا ۔ وہ بھی اپنے آپ کو سب سے بڑا رب کہتا تھا ، جہاں تک لوط (علیہ السلام) کی قوم کا تعلق ہے تو ان میں کفر و شرک کے علاوہ ہم جنسی کی بیماری پائی جاتی تھی ۔ اللہ کا فرمان ہے کہ یہی لوگ اس بد اخلاقی کے موجد تھے ۔ ان سے پہلے یہ بیماری کسی قوم میں نہیں پائی جاتی تھی۔ ہم جنسی کی بیماری اسی خلاف وضع فطری عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لوط (علیہ السلام) نے قوم سے فرمایا انا تون الذکران من العلمین کیا جہان بھر میں شہوت رانی کے لیے تم مردوں کی طرف دوڑتے ہو ، یعنی تم ہم جنسی کے مرتکب ہوتے ہو ۔ وتذرون ما خلق لکم ربکم من ازواجکم اور تمہاری بیویوں میں سے تمہارے پروردگار نے جو کچھ تمہارے لیے پیدا کیا ہے اس کو چھوڑ دیتے ہو ، مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے شہوت کے فرو کرنے کے لیے تمہارے لیے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں ۔ تم ان سے توالتفات نہیں کرتے بلکہ اپنے ہم جنس مردوں کے ساتھ ملوث ہوتے ہو ۔ یہ کتنی خلاف فطرت بات ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بل انتم قوم عدون تم حد سے بڑھنے والے نہایت ہی ظالم لوگ ہو ۔ تم یہ کام انسانیت کی حد سے گزر کر انجام دے رہے ہو ۔ سورة المعارج میں ہے فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآئَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓـئِکَ ہُمُ الْعٰـدُوْنَ (آیت : 13) جو کوئی جائز ذرائع کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ اختیار کرے گا ، تو وہ تعدی کرنے والا ہوگا ۔ اللہ نے منکوحہ بیوی یا شرعی لونڈی کے ذریعے شہوت رانی کو جائز اور حلال قرار دیا ہے۔ باقی تمام ذرائع غیر فطری اور حرام ہیں ۔ چناچہ مشت زنی بھی مکروہ تحریمی میں آتی ہے کہ اس سے کئی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں ۔ جانوروں کے ساتھ التفات بھی حرام ہے۔ اپنی بیوی کا مقام مکروہ استعمال کرنا بھی حرام ہے۔ اللہ کے نبی کا فرمان ہے ۔ من اتی امراۃً فی دبرھا فقد کفربما نزل علی محمد ﷺ یعنی جس شخص نے عورت کے مقام مکروہ میں شہوت رانی کی ، اس نے گویا شریعت محمدیہ کا انکار کردیا ۔ یہ اتنا قبیح فعل ہے اور پھر مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرنا تو بالکل ہی خلاف فطرت ہے۔ اللہ نے اس کو فحش کے لفظ سے تعبیر کیا ہے زنا اور لواطت دونوں افعال کو فحش کہا گیا ہے۔ بہر حال قوم لوط اسی فعی کی بانی تھی۔ لواطت قابل تعزیر جرم ہے ۔ ائمہ کرام میں قدرے اختلاف ہے کہ اس جرم پر حد جاری ہوگی ۔ یا تعزیر ، بعض لواطت کو بھی زنا شمار کر کے حد زنا کے قائل ہیں۔ جب کہ اما م ابوحنیفہ اور بعض دیگر ائمہ فرماتے ہیں کہ ایسے شخص پر تعزیر عائد ہوگی جو حاکم وقت جرم کی نوعیت کے اعتبار سے مقرر کرے ، چونکہ فعل خلاف فطرت ہے اس لیے تمام ائمہ کرام سخت ترین سزا کے قائل ہیں جو کہ سزائے موت تک ہو سکتی ہے۔ صاحب مشکوٰۃ نے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت نقل کی ہے جس میں احرقھما کا لفظ آتا ہے یعنی فاعل اور مفعول دونوں کو آگ میں جلا دیاجائے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ فرماتے ہیں ھدم علیھم حائطا ایسے مجرموں کر دیوار کے نیچے کھڑا کر کے اوپر دیوار گرا دی جائے ۔ ، خلفائے راشدین ؓ کے زمانے میں ایسے معاملات پیش آئے تو انہوں نے اپنی اپنی صوابدید کے مطابق تعزیز لگائی کیونکہ اس جرم کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ قوم لوط سے پہلے یہ فعل شینع کسی قوم میں نہیں پایا جاتا تھا۔ اس کے بعد یہ عام ہوگیا حتیٰ کہ برطانوی پارلیمنٹ نے یہ قانو پاس کردیا ہے کہ اگر دو بالغ مرد باہمی رضا مندی سے اس فعل کا ارتکاب کریں تو ان پر کوئی جرم عائد نہیں ہوتا اور اگر یہ فعل بالجر کیا جائے تو قابل مواخذہ ہوگا ۔ خنزیر خوری کا یہی خاصہ ہے کہ لوگ بےحیا اور بےغیرت ہوجاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جرم بہر حال جرم ہے خواہ وہ رضا مند ی سے انجام دیا جائے یا جبرا ً ۔ خدا تعالیٰ نے اس کو بےحیائی سے تعبیر کیا ہے مگر آج دنیا کی کوئی قوم اس سے پاک نہیں ۔ امریکہ ، برطانیہ حتیٰ کہ اسلامی ممالک میں بھی لعنت میں مبتلا ہوچکے ہیں ۔ ایرانی ، افغانی ، ہندوستان ہر جگہ اس فعل کا ارتکاب ہوتا ہے۔ امام حلبی رقمطراز ہیں کہ پہلی صدی کے آخر تک کسی مسلمان ملک میں کوئی قحبہ خانہ نہیں تھا حالانکہ حضرت عمر ؓ کی حکومت چھتیس لاکھ مربع میل پر محیط تھی ، پھر انگریزوں کے زمانے میں اس فعل کو اتنی ترقی ہوئی کہ اب کوئی ملک بھی اس سے خالی نہیں ہے ۔ خود عرب ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں ۔ قوم کی دھمکی بہر حال جب لوط (علیہ السلام) نے قوم کو اس برے کام سے منع کیا قالوا لئن لم تنتہ یلوط کہنے لگے ۔ اے لوط (علیہ السلام) ! اگر تم اپنے اس وعظ و نصیحت سے باز نہ آئے لتکونن من المخرجین تو ہو جائو گے تم نکا لے ہوئے لوگوں میں سے ۔ مطلب یہ کہ ہمارے معاملات میں دخل اندازی سے باز آ جائو ورنہ ہم تمہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے۔ سورة الاعراف میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ جب لوط (علیہ السلام) نے انہیں منع کیا تو قوم کا جواب یہ تھا۔ اَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ قَرْیَـتِـکُمْج اِنَّھُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَھَّرُوْنَ (آیت 28) ان کو اپنی بستی سے نکال دو ، یہ بڑے پاکباز لوگ بنے پھرتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نجس کام کرتے ہیں قال انی لعملکم من القائلین لوط (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تمہارے اس عمل سے سخت نفرت کرتا ہوں ۔ دین اور اخلاق کے خلاف چیزوں کو تو بد فطرت انسان ہی اچھا سمجھ سکتے ہیں ۔ سلیم الفطرت آدمی تو کبھی بھی ایسے کاموں سے مانوس نہیں ہو سکتا ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ خلاف وضع فطری عمل کے دو نقصانات ہیں ۔ ایک تو افلاح فطرت ہوگا یعنی لوگ فطرت سے باہر نکل جائیں گے اور یہ خدا کے غضب کو دعوت دینے والی بات ہے ، اور دوسرا یہ کہ واجبی ارتقا قات خراب ہوجائیں گے ۔ نکاح کا عمل انسانوں کے فائدے کے لیے واجبی ارتفاق ہے اگر کوئی شخص عورت سے نکاح کی بجائے مردوں یا جانوروں کے ساتھ شہوت رانی کرنے لگے تو نکاح کا سلسلہ درہم برہم ہوجائے گا ۔ اور اس طرح بقائے نسل کا سلسلہ خراب ہوجائے گا اسی لیے لوط (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تمہارے اس عمل سے متنفر ہوں۔ دعائے لوط (علیہ السلام) اس موقع پر لوط (علیہ السلام) نے بارگاہ رب العزت میں دعا بھی کی عرض کیا رب نجنی واھلی مما یعملون پروردگار ! مجھے اور میرے گھر والوں کو ان کاموں سے نجات دے جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔ مطلب یہ کہ ہمیں اس کام اور اس کے نتیجے میں آنے والے عذاب سے بچالے ۔ لوط (علیہ السلام) اللہ کے پاک نبی سے تو کسی برے عمل کی توقع ہو ہی نہیں سکتی تھی اس کا مطلب یہ تھا کہ اس کا م کی نحوست سے بچا ، چناچہ ایسا ہی ہوا ، اللہ نے آپ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور فرمایا فنجینہ واھلہ اجمعین ہم نے لوط (علیہ السلام) اور آپ کے گھر والوں سب کو نجات دی یعنی اس سزا سے بچا لیا جو اس قوم پر نازل ہوئی ۔ فرمایا لا عجوزا فی الغبرین ایک بڑھیا اس عذاب سے نہ بچ سکی جو پیچھے رہنے والوں میں تھی ۔ یہ لوط (علیہ السلام) کی بیوی کی طرف اشارہ ہے جو لوط (علیہ السلام) کے ہمراہ بستی سے نہیں گئی تھی بلکہ قوم کے ساتھ پیچھے ہی رہ گئی تھی ۔ لہٰذا وہ بھی عذاب کا شکار ہوگئی حالانکہ لوط (علیہ السلام) کے اہل خانہ میں سے تھی ۔ بعض کہتے ہیں کہ آپ بیوی تھوڑی دور تک آپ کے ہمراہ نکلی تھی ۔ مگر پھر پلٹ آئی ، اللہ تعالیٰ نے دو کافرہ عورتوں کا ذکر قرآن پاک میں کیا جو اس کے پاک انبیاء کے گھروں میں تھیں ۔ یہ حضرت نوح اور حضرت لوط (علیہما السلام) کی بیویاں تھیں کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتٰـہُمَا (التحریم : 01) یہ دونوں عورتیں ہمارے دو صالح بندوں کے گھروں میں تھیں مگر انہوں نے ان کے ساتھ خیانت کی ۔ یعنی ایمان سے خالی تھیں اور انہوں نے انپے شوہروں کا ساتھ دینے کی بجائے کافروں کا ساتھ دیا ۔ البتہ لوط (علیہ السلام) کی بیٹیاں ایماندار تھیں ۔ انہوں نے آپ کے ساتھ بستی کو چھوڑ دیا اور عذاب الٰہی سے بچ گئیں۔ قوم کی تباہی لوط (علیہ السلام) اور آپ کے اہل خانہ کے بستی سے نکل جانے کا حکم سورة ہود میں اللہ نے ذکر کیا ہے فاسر باھلک بقطع من الیل (آیت : 18) اپنے گھر والوں کو لے کر رات کے کچھ حصے میں نکل جائو ، چناچہ جب آپ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بستی سے نکل گئے تو فرمایا ثم دمرنا الاخرین ہم نے باقی قوم کو ملیا میٹ کردیا ۔ اللہ نے اس قوم کو ایستی تاریخی ہولناک سزا دی جو ہمیشہ یا د رکھی جائے گی ۔ بستیوں کو اس طرح الٹ دیا کہ نیچے والا حصہ اوپر اور اوپر والا نیچے آ گیا ۔ اور اسکے ساتھ ساتھ وامطرنا علیھم مطرا ہم نے ان پر بارش بھی برسائی اور یہ بارش پانی کی نہیں بلکہ پتھروں کی بارش تھی ۔ سورة الحجر میں ہے وامطرنا علیھم حجارۃ من سجیل ( آیت : 47) ہم نے ان پر کھنگر کے پتھر برسائے جن پر مجرموں کے نام لکھے ہوئے تھے کہ یہ فلاں چودھری کے سر پر لگے گا ۔ اور یہ فلاں وڈیروے کو ہلاک کر دیگا ۔ فرمایا ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسائی فساء مصر المنذرین ڈرائے ہوئے لوگوں کی بہت ہی بری بارش تھی ۔ خدا نے ساری قوم کو ہلاک کردیا ۔ ان فی ذلک لایۃ اس واقعہ میں عبرت ہے ۔ اہل مکہ اور بعد میں آنے والوں کو بھی جان لینا چاہئے کہ بد کاری کا نتیجہ کیا نکلتا ہے ۔ وما کان اکثر ھم مومنین مگر مقام افسوس ہے کہ اتنی واضح نشانی کے باوجود ان میں اکثر لوگ ایمان سے خالی ہیں وان ربک لھو العزیز الرحیم اور بیشک تیرا پروردگار زبردست ہے جو کسی نافرمان کو چھوڑتا نہیں اور نہایت مہربان ہے جو اپنے بندوں کو ہر مصیبت سے محفوظ رکھنے پر بھی قادر ہے۔
Top