Mualim-ul-Irfan - Ash-Shu'araa : 192
وَ اِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہ لَتَنْزِيْلُ : البتہ اتارا ہوا رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کا رب
اور بیشک یہ ( قرآن) البتہ اتارا ہوا ہے رب العالمین کی طرف سے
ربط آیات گزشتہ پانچ رکوع میں حضر ت نوح (علیہ السلام) ، حضرت ہود (علیہ السلام) ، حضرت صالح (علیہ السلام) ، حضرت لوط (علیہ السلام) اور حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کی اقوام کے حالات بیان کیے گئے ہیں ۔ ان واقعات کو بیان کر کے حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ کو تسلی دلانا مقصود تھا سابقہ انبیاء کی اقوام نے بھی ان کو جھٹلایا ، ان کو تکلیفیں پہنچائیں اور بالکل برے انجام سے دو چار ہوئے ، لہٰذا اگر مکہ والے بھی آپ سے بد سلوکی کرتے ہیں ، آپ پر ایمان نہیں لاتے تو ان کا انجام بھی سابقہ اقوام سے مختلف نہیں ہوتا ۔ اب آج کے درس میں قرآن پاک کی حقانیت کا ذکر ہو رہا ہے سورة کی ابتدا بھی اسی مضمون سے ہوئی تھی تلک ایت الکتب المبین ( آیت 03) یہ کیوں کر بیان کرنے والی کتاب کی آیتیں ہیں ۔ وما یاتیھم من ذکر من رحمن محدث لا کانو عنہ معرضین ( آیت : 05) ان لوگوں کے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی نئی نصیحت آتی ہے۔ یہ اس سے اعراض کرنے والے ہوتے ہیں ۔ اور اب سورة کے آخری حصے میں بھی یہی مضمون آ رہا ہے اور نزول قرآن کے بارے میں بعض حقائق بیان کئے گئے ہیں۔ مکی سورتوں کے مضامین مکی سورتوں میں بالعموم چار اہم مضامین بیان ہوئے ہیں ۔ ان میں سے پہلا مضمون توحید ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے سینکڑوں ، ہزاروں عنوانات کے تحت توحید کے دلائل بیان کیے ہیں اور شرک و تو لیا میں یہ مضمون سورة کے آخری حصے میں بھی آ رہا ہے ۔ مکی سورتوں کا دوسرا اہم مضمون رسالت کا ہے۔ مشرکین رسالت کا انکار کرتے تھے ۔ سابقہ امتوں اور آخری امت کے مشرکین کا عندیہ یہ تھا وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَائَ ہُمُ الْہُدٰٓی اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللہ ُ بَشَرًا رَّسُوْلًا (بنی اسرائیل : 49) جب بھی لوگوں کے پاس اللہ کی ہدایت آئی تو انہوں نے یہ کہہ کر ایمان لانے سے انکار کردیا کہ کیا اللہ نے ایک انسان کو رسول بنا کر بھیجا ہے ، ان کے نزدیک بشریت رسالت کے منافی تھی ، حالانکہ اللہ نے انسانوں کی طرف انسانوں کو ہی رسول بنا کر بھیجا ہے ۔ ان کا دوسرا زخم یہ تھا کہ اگر کسی انسان کو ہی رسول بنانا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کسی صاحب حیثیت آدمی کو رسول بناتا جس کے باغات ہوتے ، نوکر چاکر اور فوج ہوتی ۔ بھلا ایک نادار آدمی کیسے رسول ہو سکتا ہے ۔ اس مضمون میں اللہ نے رسالت کے تصور کو واضح کیا ہے اور منکرین کے اعتراضات کو رد فرما یا ہے۔ مکی سورتوں کا تیسرا اہم مضمون معاد ہے ۔ وقوع قیامت کے منکرین ہمیشہ سے اور آج بھی ایسا ایک طبقہ موجود ہے ۔ اللہ نے مکی سورتوں میں بعث بعد الموت اور فی سبہ اعمال کے مسئلہ کو بھی کھول کر بیان کیا ہے حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کی ساری تعلیمات میں ایک تہائی حصہ بعث بعد الموت پر مشتمل ہے۔ اللہ نے آخرت کے معاملہ کو اس قدر اہمیت دی ہے اور ان سورتوں کا چوتھا مضمون قرآن پاک کی حقانیت و صداقت ہے ، دنیا میں بیشمار لوگ ایسے ہیں جو قرآن کو خدا کا کلام ماننے کے لیے تیار نہیں اور اس ضمن میں طرح طرح کے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں ۔ اللہ نے قرآن پاک کی حقانیت و صداقت کو مختلف دلائل سے واضح کیا ہے اور منکرین کے زعم باطل کا رد فرمایا ہے آج کے درس میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے۔ نزول قرآن ارشاد ہوتا ہے وانہ لتتن یل رب العالمین بیشک یہ قرآن پاک البتہ اتارا ہوا ہے۔ رب العالمین کی طرف سے یہ کلام الٰہی ہے کسی مخلوق کا کلام نہیں ہے اور اس کے طریقہ نزول کے متعلق فرمایا نزل بہ الروح الامین اس کو ایک امانتدار فرشتہ جبرائیل (علیہ السلام) لے کر اترا ہے۔ روح کا معنی جبرئیل فرشتہ ہے جو تمام انبیاء (علیہم السلام) پر وحی لانے پر مامور رہا ہے اور وہ امانت دار ہے کہ اللہ کا پیغام ٹھیک ٹھیک اس کے انبیاء اور رسل تک پہنچاتا رہا ہے۔ یہ اللہ کی عظیم المرتب مخلوق میں سے مقرب ترین فرشتہ ہے جس نے اس قرآن پاک کو اتارا ہے علی قلبک آپ کے قلب مبارک پر لتکون من المنذرین تا کہ ہوجائیں آپ ڈر سنانے والوں میں سے ، گویا نزول قرآن کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مجرمین کو ان کے بر انجام سے آگاہ کردیا جائے اللہ نے سورة المدثر میں بھی اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ اے مدثر ! قم نافذر ( آیت : 2) آپ اٹھ کھڑے ہوں اور مختلف خدا کو ان کے برے انجام سے ڈرا دیں ۔ ہر نبی مبشر اور منذر ہوتا ہے ۔ جو نیکی والوں کو اچھے انجام کی خوش خبری اور برائی والوں کو برے انجام کی اطلاع دیتا ہے ۔ سورة الصف میں ہے وما نرسل المرسلین الا مبرشین و منذرین ( آیت 65) ہم نہیں بھیجتے رسولوں کو مگر خوش خبری دینے اور ڈرانے والے بنا کر۔ نزول اور وحی مختلف صورتیں فرمایا ہم نے یہ قرآن روح الامین کی وساطت سے آپ کے قلب مبارک پر اتارا ہے عام طور پر وحی کے نزول کی یہی صورت رہی ہے۔ تا ہم بعض دوسرے طرقوں سے بھی وحی کا نزول ہوتا رہا ہے ۔ ایک صحابی نے حضور ﷺ سے عرض کیا ۔ حضور ! کیف یاتیک الوحی آپ پر وحی کس طرح آتی ہے ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس کی مختلف سورتیں ہیں۔ مثلاً کبھی فرشتہ انسانی شکل میں منتقل ہو کر آتا ہے اور میں اس کی بات کو یاد کرلیتا ہوں ۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے 1 ؎ یا تینی مثل صلحصلۃ الجرس وحی اس طرح آئی ہے جیسے گھنٹی بجتی ہے مگر اس کی آواز کو کوئی دوسرا شخص نہیں سن سکتا ۔ اس کی سماعت پیغمبر تک ہی محدود ہوتی ہے اور اس طرح وحی قلب مبارک پر اترتی ہے۔ حدیث میں حضور ﷺ کے قلب کی تعریف میں فرشتوں نے آ کر آپ کو اللہ نے قلب ولیہ مضبوط دل عطا فرما یا ہے۔ اس میں سننے کے لیے دوکان اور دیکھنے کے لیے دو آنکھیں ہیں ۔ بہر حال حضور ﷺ نے فرمایا وحی کی گھنٹی والی صورت زیادہ شدید ہوتی ہے کیونکہ فرشتہ خطیرۃ القدس سے براہ راست آپ کے قلب کے ساتھ تعلق جوڑتا (وحی الٰہی لاتا ہے ۔ آپ نے فرمایا ھو اشد علی صور ت یہ مجھ پر بڑی شان ہوتی ہے۔ صحابہ کرام بیان کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں کی دسمبر جنوری جتنی شدید سردی میں بھی نزول وحی کے وقت حضور ﷺ کی پیشانی مبارک سے پسینے کے قطرے ٹپکنے لگتے تھے۔ آنحضرت ﷺ کا رنگ بھی مشغیر ہوجاتا اور ایسا محسوس ہوتا کہ آپ پر غنودگی کی سی کیفیت طاری ہو رہی ہے۔ مسلم شریف کی احادیث میں آتا ہے کہ ایک موقع پر جب ایسی ہی حالت طاری ہوئی اور پھر آپ کی حالت معمول پر آئی تو آپ نے فرمایا : لوگو ! خوشخبری حاصل کرو کہ اللہ نے مجھے پر سورة الکوثر نازل فرمائی ہے پھر آپ نے اس مختصر ترین سورة کی تلاوت فرمائی۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ وقوع تغیر میں انسلاخ ہوتا ہے ، یعنی ایسی حالت میں اللہ کا نبی بشریت سے نکل کر ملکیت کی طرف آتا ہے اور ادھر فرشتہ ملکیت سے نیچے اتر آتا ہے ، اس طرح گویا دونوں طرف سے انسلاخ ہوتا ہے تا کہ وحی الٰہی پیغمبر کے قلب پر اتر سکے۔ اس طرح وحی کے الفاظ اور ان کے مطائب پوری طرح دل پر منتقل کردیئے جاتے ہیں ۔ حضور ﷺ قلب مبارک وہ عظیم قلب تھا ، جس پر پورا قرآن نازل ہوا ۔ 1 ؎۔ بخاری ص 2 ج 1 ( فیاض) قلب انسانی کی اہمیت انسانی جسم میں دل اور دماغ کو رئیس الاعضاء کہا جاتا ہے ، یہ دونوں اعلیٰ ترین عضو ہیں مرکز الحلاق اور قوت ارادی کے اعتبار سے انسان کا قلب رئیس الاعضاء ہے ۔ جب کہ امور طبعیہ اور حس و حرکت کے اعتبار سے مہاع اعلیٰ عضو ہے ۔ اخلاق اچھا ہو یا برا اس کا مرکزہر حال دل ہے۔ اسی لیے انسان کی سزا کے متعلق اللہ کا فرمان ہے کہ دوزخ کی آگ سب سے پہلے انسان کے دل پر اثر انداز ہوئی۔ سورة الہمزہ کے الفاظ ہیں ۔ التی تطلع علی الافدۃ ( آیت : 7) یہ وہ لوگ ہے جو دلوں پر چڑھے گی ۔ جسم پر اس کا اثر بعد میں ہوگا ۔ بہر حال جس شخص نے قلب جیسے مرکز اخلاق عضو کو خراب کردیا تو سزا کا اثر بھی سب سے پہلے اسی پر ہوگا ہر آدمی کے سینے میں قلب ایک بےمثال نعمت ہے۔ اور جس دل پر قرآن نازل ہوا وہ سب سے عظیم قلب ہے ۔ اس دل میں جو نورایت اور کمال تھا وہ کسی مخلوق کے کسی دل میں نہیں ہے۔ قرآن اور عربی زبان فرمایا اس قرآن پاک کو روح الامین لے کر آئے یلسان عربی مبین جس کی زبان عربی ہے جو بالکل واضح اور فصیح زبان ہے ۔ اس سے یہ بھی مراد لیا جاسکتا ہے کہ عربی زبان میں نازل ہونے والا یہ قرآن پاک اپنے مضامین ، مطالب معانی دلائل ، مسائل احکام اور شواہد کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن پاک کہلانے کا مستحق وہی نسخہ ہوگا جو عربی زبان میں ہوگا ، کسی دوسری زبان میں ہونے والا ترجمہ قرآن تو کہلا سکتا ہے مگر قرآن نہیں ہو سکتا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فاقرء واما تیسر من القرن ( المزمل : 02) نماز میں جیتا میسر آسکے قرآن پڑھا کریں ۔ اور قرآن وہی ہے جو عربی میں ہے ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ نماز عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں نہیں پڑھی جاسکتی ۔ بعض محد قسم کے لوگ کہتے ہیں کہ ہم عربی کو سمجھتے نہیں لہٰذا اگر نماز اپنی زبان اردو ، پنجابی وغیرہ میں پڑھ لیا کریں تو مطلب بھی سمجھ میں آئے گا اور نماز اچھے طریقے سے ادا ہوگی ۔ یہ سخت بےدینی کی بات ہے ، بجائے اس کے کہ نماز اور قرآن پاک کی چند سورتوں کا ترجمہ سیکھ لیا ائے۔ انہوں نے نماز کو اردو میں منتقل کرنے کی تجویز پیش کردی ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ لوگ انگریزی ، فارسی ، فرانسیسی اور جرمن زبان سیکھنے میں تو کوئی دقت محسوس نہیں کرتے مگر قرآن پاک کی زبان عربی کی باری آتی ہے تو اس کو سیکھنے کی بجائے قرآن اور نماز کے ترجمے پر گزارہ کرنا چاہتے ہیں ۔ آدمی تھوڑی سی کوشش کرے تو نماز کی حد تک تو قرآن کے الفاظ اور ترجمہ سیکھ سکتا ہے اور پھر پوری دلجمعی کے ساتھ نماز ادا کرسکتا ہے۔ سابقہ کتب کی پیش گوئیاں فرمایا وانہ لفی زبر الاولین اور بیشک یہ قرآن البتہ پہلی کتابوں میں بھی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن کا ذکر اور اس کی پیش گوئیاں ساقہ صحائف یعنی لقب کا ویہ میں بھی موجود ہیں ، چناچہ تورات میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا کہ اے موسیٰ ! میں تیرے بھائی بندوں میں سے تیرے جیسا عظیم رسول برپا کروں گا اور اس کے منہ میں اپنا کلام ڈالوں گا ۔ یہ وہی کلام ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی صورت میں نازل فرمایا اور بھائی بندوں سے مراد دوسرا خاندا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اسرائیلی خاندان سے تھے جب کہ حضور خاتم النبین ﷺ کا تعلق اسماعیلی خاندان سے ہے البتہ دونوں خاندان حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں ، لہٰذا یہ آپس میں بھائی بند ٹھہرے۔ کلام منہ میں ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ میں اس کو اپنا کلام سکھائوں گا ۔ دوسری جگہ مذکور ہے کہ قرآن پاک کے بعض احکام پہلی کتابوں میں بھی موجود ہے ، مثلاً توحید ، رسالت اور معاد ہر نبی کی تعلیمات کا جزو رہے ہیں ۔ بہت سے دیگر اصول بھی تمام نبیوں میں متفق علیہ رہے ہیں ۔ قصاص کا مسئلہ جس طرح قرآن پاک میں ہے اسی طرح تورات میں بھی تھا کہ جان کے بدلے جان ، آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان وغیرہ قرآن پاک میں اس قدر علومو معارف موجود ہے کہ کوئی انسان ان سب پر حاوی نہیں ہو سکتا ۔ قرآن خدا تعالیٰ کی صفت ہے۔ اللہ نے اس کو اپنے علم کے ساتھ اتارا ہے چونکہ خدا کی صفت اور اس کا علم لا محدود ہے لہٰذا کوئی انسان قرآن کا احاطہ نہیں کرسکتا البتہ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ کوئی شخص جس قدر قرآن میں نگاہ و نظر کریگا اس کے ذہن اور اسکی معلومات میں اسی قدر وسعت پیدا ہوگی ۔ یہ سلسلہ ابدلاً تک ترقی کرتا چلا جائے گا ۔ فرمایا اولم یکن لھم ایۃ کیا ان کے لیے یہ نشانی کافی نہیں ہے۔ ان یعلمہ علمو بنی اسرائیل کہ اس قرآن پاک کو علمائے بنی اسرائیل جانتے ہیں کہ یہ واقعی وہی کتاب ہے جسکی پیشن گوئیاں سابقہ کتب سماویہ میں موجود ہیں ، چناچہ منصف مزاج علماء نے بنی اسرائیل اس کی گواہی دیتے تھے۔ ان میں حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ اور بعض دیگر علماء شامل ہیں جو سابقہ کتابوں کے عالم تھے اور جنہیں اللہ نے ایمان کی دولت بھی نصیب فرمائی ۔ انہوں نے تصدیق کی یہ اللہ کی سچی کتاب ہے جس کی پیشن گوئیاں سابقہ کتب میں موجود ہیں ۔ فرمایا اس بات کو تو بنی اسرائیل کے علماء بخوبی جانتے ہیں تو کیا یہ بات مشرکین کے لیے کافی دلیل نہیں ہے کہ قرآن اللہ کی سچی کتاب ہے اس کے باوجود یہ لوگ انکار کیوں کرتے ہیں ؟ انکا ر کے لیے حیلے بہانے ارشاد ہوتا ہے ولو نزلنہ علی بعض الاعجمین اور اگر ہم اتارتے اس قرآن کریم کو کسی عجمی ( غیر عربی) پر فقراہ علیھم پھر وہ ان کو پڑھ کر سناتا ما کانوا بہ مومنین تو پھر بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے ، پھر ان کا بہانہ یہ ہوتا کہ ہم عربی ہیں اور اس عجمی کی بات کیسے سمجھ سکتے ہیں ۔ شاہ عبد القادر (رح) لکھتے ہیں کہ کفار یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اللہ کا رسول عربی ہے اور عربی بھی عربی ہے کہ یہ اس کا خود ساختہ ہو سکتا ہے اگر یہ قرآن کسی غری عربی پر اترتا اور وہ ہمیں پڑھ کر سناتا تو ہم مان جاتے کہ واقعی یہ خدا کا کلام ہے جو ایک غیر عربی کی زبان سے ادا ہو رہا ہے۔ مطلب یہ کہ مکنرین نے ہر صورت میں انکار ہی کرنا ہوتا ہے۔ وہ کوئی بھی حیلہ بہانہ تلاش کرسکتے ہیں۔ فرمایا کذلک سلکنہ فی قلوب المجرمین اسی طرح ہم نے اس کو گناہ گاروں کے دلوں میں چلایا ہے۔ یہ لوگ اسی طرح کے حیلے بہانوں سے لا یومنون بہ اس کلام الٰہی پر ایمان نہیں لاتے ۔ حتی یرو العذاب الالیم کہاں تک ، درد ناک عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں یہ لوگ آخر عذاب کا کیوں انتظا کر رہے ہیں ۔ جب وہ آئے گا فیاتیھم بغتۃ و ھم لایشعرون تو وہ چانک آجائیگا اور ان کو خبر بھی نہ ہوگی ۔ فیقولوا ھل نحن منظرون پھر اس وقت کہیں گے کاش کہ ہمیں چھ مہلت مل جائے ۔ اگر یہ عذاب کسی طرح ٹل جائے تو اب ہم ایمان لے آئیں گے ۔ اللہ نے فرمایا افبعذا بنا یستعجلون کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کے دینے میں جلدی کرتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ان کا رویہ اس قد مخالفانہ ہے کہ یہ عذاب کو خود دعوت سے ہے ہیں مگر جب وہ وارد ہوجائے گا تو پھر مہلت مانگنے لگیں گے۔ فرمایا افرایت ان متعنھم سنین آپ دیکھ لیں اگر ہم ان کو کئی سال تک فائدہ دیتے ہیں ۔ یہ جس طرح آج عیش و آرام میں پڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ہم ان کو نہ ، سال یا سال تک اس دنیا میں فائدہ پہنچاتے رہیں۔ ثم جاء ھم ما گانو یوعدون پھر آجائے ان کے پاس وہ چیز جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے یعنی سال ہا سال کے عیش و آرام کے بعد اگر ان پر عذاب آجائے ۔ ما اغنی منھم ما کانوا یمتعون تو یہ مال و دولت اور جاہ واقتدار مانگو کچھ فائدہ نہیں دے گا ۔ یعنی کوئی چیز ان کو اللہ کی گرفت سے بچا نہیں سکے گی دنیا کے یہ سارے سازو سامان دھرے کے دھرے رہ جائیں گے ۔ اور اس وقت یہ لوگ … ملیں گے۔ اتمام حجت آگے ، اللہ نے تسلی کے سلسلے میں فرمایا وما اھلکنا من قریۃ الا لھا منذرون ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ اس کے لیے ڈرانے والے ہوتے تھے ۔ پہلے اللہ تعالیٰ انبیاء (علیہم السلام) یا ان کے متبعین کو بھیج کر حجت تمام کرتا ہے اور پھر کسی قوم پر گرفت کرتا ہے۔ ذکری یہ نصیحت کی باتیں ہیں جو لوگوں کو سمجھائی جاتی ہیں تا کہ وہ ایمان قبو ل کرلیں ۔ ایسا نہیں ہوتا کہ بغیر خبردار کیے اور بغیر موقع دیے کسی قوم پر عذاب بھیج دیں۔ سورة بنی اسرائیل میں بھی ہے وماکنسم معذبین حتی نبعث رسولا ( آیت 5) ہم کسی قوم کو اس وقت تک سزا میں مبتلا نہیں کرتے جب تک کہ ان کی طرف رسول مبعوث نہیں کرتے جو ان کو خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچاتا ہے ۔ پھر جب وہ انکار پر اصرار کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے گرفت آجاتی ہے۔ وما کنا ظلمین اور ہم ظالم نہیں ہیں یعنی کسی پر زیادتی نہیں کرتے کہ حجت تمام کیے بغیر کسی پر عذاب نازل کردیں ، یہ ہمارے طریقے کے خلاف ہے۔
Top