Mualim-ul-Irfan - Ash-Shu'araa : 224
وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَؕ
وَالشُّعَرَآءُ : اور شاعر (جمع يَتَّبِعُهُمُ : ان کی پیروی کرتے ہیں الْغَاوٗنَ : گمراہ لوگ
اور شاعر لوگ ، پیروی کرتے ہیں ان کی گمراہ لوگ
ربط آیات اس سورة مبارکہ میں زیادہ تر تسلی کا مضمون بیان کیا گیا ہے ۔ مختلف انبیاء علہیم السلام اور ان کی قوموں کا حال بیان کر کے قوموں کی تباہی کا ذکر کیا گیا ہے تا کہ حضور ﷺ اور آپ کے ماننے والے دل برداشتہ نہ ہوں اور جان لیں کہ اہل حق کو ہمیشہ ایسی ہی تکالیف برداشت کرنا پڑی ہیں ، تا ہم انجام ہمیشہ انہیں کا اچھا ہوتا رہا ہے اور نافرمان ناکامو نامراد ہی رہے ہیں ۔ دیگر مکی سورتوں کی طرح اس سورة میں بھی چار بنیادی مسائل بیان ہوئے ہیں یعنی توحید ، رسالت ، معاد اور قرآن پاک کی حقانیت صداقت ، گزشتہ درس میں صداقت قرآن کا بیان تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا بےمثال علام ہے اور ایسا کلام نازل کرنا شیاطین کی قدرت میں نہیں ہے ۔ اس کو اتارنے والا رب العالمین لانے والا روح الامین اور جس ہستی کے قلب مبارک پر نازل ہوا ہے وہ پوری مخلوق میں لطیف پاکیزہ اور اعلیٰ قدروں کی حامل ہے ۔ شعرو شاعری کی نفی مشرک لوگ حضور ﷺ کے متعلق طرح طرح کی باتیں کرتے تھے کبھی کاہن کہتے کبھی جادوگر اور کبھی شاعر ، اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم سے شاعری کی نفی کی ہے ۔ شعر و شاعری کے رموز سے واقف لوگ خود بھی اقرار کرتے تھے کہ قرآن پاک کو شعر و شاعری پر محمول نہیں کیا جاسکتا ، چناچہ حضر ت ابو ذر غفاری ؓ کے بھائی انیس ؓ جو خود بہت بڑے شاعر تھے ۔ انہوں نے اپنے بھائی کے پاس یہ رپورٹ پیش کی جو کہ حدیث میں موجود ہے ۔ کہتے ہیں کہ میں نے نبی (علیہ السلام) کا پیش کردہ کلام سنا ہے ، یہ کاہنوں والا کلام نہیں کیونکہ بحیثیت کاہن میں خود بھی ان کے کلام سے واقف ہوں ۔ پھر کہتے ہیں ولقد و ضعتہ علی اقراء الشعراء میں نے اسے شاعروں کے اوزان پر بھی پرکھا ہے مگر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ کسی شاعر کا کلام بھی نہیں ہے ، بلکہ یہ تو خدا تعالیٰ کا کلام اور اس کی صفت ہے جو اس کے علم کے ساتھ نازل کیا گیا ہے ، گزشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ یہ شیاطین کا کلام بھی نہیں ہے کیونکہ ان کا کلام تو شر و فساد پر مبنی ہوتا ہے جب کہ یہ کلام نہایت ہی اعلیٰ وارفع کلام ہے جو رشد و ہدایت سے بھر پور اور امن و سلامتی کا پیغام ہے۔ شعر و شاعری کی حقیقت شاعری ایک فن ہے جو قدیم زمانے سے چلا آ رہا ہے ۔ شاعری ہر زبان کا موضوع سخن رہا ہے خصوصاً عربی زبان میں تو یہ پایہ عروج پر تھی جب قرآن کا نزول ہو رہا تھا ۔ عربی کے سینکڑوں اور ہزاروں بڑے بڑے شعراء گزرے ہیں جن کا ذکر تاریخ میں موجود ہے فارسی زبان میں شاعری کو عروج نزول قرآن کے کافی عرصہ بعد حاصل ہوا ۔ فارسی زبان میں بڑے بڑے شعراء پیدا ہوئے ہیں ۔ اسی طرح انگریزی زبان کے بھی بڑے پائے کے شعراء گزرے ہیں ۔ شعر و شاعری کا شغف ہر زمانے میں رہا ہے اور آج بھی ہے شاعر شعور سے مشتق ہے جس کا معنی سمجھ بوجھ ہوتا ہے ۔ کسی حقیقت کو عام آدمی سمجھ تو سکتا ہے مگر اسے موثر طور پر بیان نہیں کرسکتا ، شاعر میں یہ ملکہ موجود ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماضی الضمیرکو نہایت موثر انداز میں شعار کو زبان میں پیش کرسکتا ہے ۔ شعر اس لیے بھی پسند ہوتا ہے کہ ایک شاعر اپنی زبان میں دوسرے لوگوں کی ترجمانی کرتا ہے ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) شعر و شاعری کی تعریف میں کہتے ہیں اصوات مقطعہ بازاء معان متنوعۃ یہ موزوں آوازیں ہوتی ہیں جو طرح طرح کے معانی پر مشتمل ہوتی ہے ۔ شعر میں وزن ، قافیہ اور ردیف ہوتا ہے جس کی وجہ سے نثر کی نسبت شعر میں زیادہ کشش پائی جاتی ہے ۔ البتہ اس ضمن میں اصولی بات یہ ہے الشعر کلام حسنہ حسن و قبیحہ قبیح شعر ایک کلام ہے جس کا اچھا حصہ اچھا ہے اور برا حصہ بہر حال برا ہے ۔ اشعار میں اچھے اور برے دونوں عناصر پائے جاتے ہیں اور دونوں طرح کے خیالات کو منظوم کیا جاسکتا ہے۔ عمومی شاعری کی قباحتیں ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے شعر و شاعری پر عمومی تجزیہ فرمایا ہے جسے شعر و شاعری کا نچوڑ کہا جاسکتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے والشعراء یبعھم الغاون اور شاعروں کے پیچھے چلنے والے اکثر گمراہ لوگ ہوتے ہیں ۔ اللہ نے یہاں پر اس فن کے تین نقائص بیان فرماتے ہیں ، پہلا نقص تو یہی ہے کہ اس کے متبعین اکثر گمراہ لوگ ہوتے ہیں اور دوسرا نقص یہ ہے الم ترانھم فی کل وادیھیمون کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ شاعر لوگ تخیلات کی ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں ۔ طرح طرح کے تخیلات باندھتے ہیں اور ایسی بےتکی باتیں کرتے ہیں جن کی کوئی جڑ بنیاد نہیں ہوتی بلکہ خیالی گھوڑے دوڑاتے رہتے ہیں ۔ اللہ نے اس فن کا تیسرا عیب یہ گنوایا ہے وانھم یقولون مالا یفعلون شاعر لوگ وہ کچھ کہتے ہیں جو خود نہیں کرتے ، گویا ان کے قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے ۔ عام طور پر شاعر لوگ نشر باز ہوتے ہیں اور اخلاق سے گری ہوئی حرکات کرتے ہیں ۔ ان کے کام میں بالعموم عشق و محبت کی داستانیں ہوتی ہیں ۔ وہ بھی اسی لیے فرمایا کہ ان کے پیچھے چلنے والے بھی بالعموم گمراہ لوگ ہوتے ہیں جو سچ اور جھوٹ میں امتیاز کرنے سے عاری ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ جس چیز کی بنیاد ہی جھوٹ اور وہم پر ہو اس کا اتباع گمراہی کے سوا کیا ہو سکتا ہے ؟ مگر فی الواقعہ کوئی شاعر جس قدر جھوٹا اور بےسرو پا خیال باندھتا ہے وہ اسی قدر زیادہ داد پاتا ہے ۔ بزرگان دین کا قول بھی ہ چواکذب وست احسن دست یعنی جس قدر کوئی جھوٹی بات ہوگی۔ اسی قدر وہ اچھی محسوس ہوگی۔ جس شعر میں ہوائی گھوڑے زیادہ دوڑائیگئے ہوں ، وہ زیادہ اچھا لگتا ہے ، یا جس قدر خلاف واقعہ اور اخلاق سے گر ی ہوئی بات ہوگی ، اسی قدر داد کے ڈونگر سے برسائے جائیں گے۔ جاہلیت کے زمانے کا امر القیس بڑا مشہور و معروف شاعر گزرا ہے اس کا باپ بنی اسد کا بادشاہ تھا ، یہ شہزادگی کے زمانے میں شعر و شاعری اور عشق بازی کی طرف راغب ہوگیا شراب نوشی بھی کرتا تھا ، اس لیے اس کا لقب ہی ملک الضلین مشہورہو گیا ۔ یعنی گمراہ بادشاہ وحیر عام شاعروں کی طرح اس کے قدر میں بھی فحش اور اخلاق سے گری ہوئی باتیں پائی جاتی ہیں ، اس وجہ سے اس کا مذکور لقب مشہور ہوگیا ۔ ……… شاعر متنبی چوتھی صدی میں مسلمانوں کے دور کا مشہور شاعر ہوا ہے ۔ اس نے ابتداء میں نبوت کا دعویٰ بھی کیا مگر جب سخت پٹائی ہوئی تو تائب ہوگیا ۔ شعراء کے اکثر دیوانوں کی طرح متنبی نے کلام میں بھی فحش اور اخلاقی لحا ظ سے کمزورباتیں پائی جاتیں ہیں ظاہر ہے کہ ایسی باتوں کو پسند کرنے والے لوگ بھی اخلاقی لحاظ سے ویسے ہی ہوں گے ۔ اسی لیے فرمایا کہ شعر والی اکثریت گمراہ ہے اور ان کے متبعین بھی ویسے ہی ہیں ۔ بھلا ایسے کلام کا قرآن پاک کے ساتھ کیا تقابل ہو سکتا ہے ؟ قرآن پاک کے قاری تو کمال درجے کے با عمل ہوتے ہیں جب کہ شعراء کے قول و فعل میں غایت درجے کا تضاد پایا جاتا ہے ۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا ہے وما علمنہ الشعر وما ینبغی لہ ( یٰسین : 97) ہم نے اپنے نبی (علیہ السلام) کو فن شعر نہیں سکھایا ۔۔۔۔۔ اور نہ ہی یہ اس کے لائق ہے ، گویا شعر و شاعری منصب نبوت کے منافی چیز ہے ۔ نبوت کی بنیاد حق صداقت پر ہے۔ جب کہ شاعری کی بنیاد تخیلات پر ہے ، یہاں جتنا جھوٹا تخیل باندھا جائے گا اتنی ہی شاعری کامیاب سمجھی جائے گی۔ حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) شعر و شاعری کی ایک مثال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک شاعر نے اپنے محبوب کا تذکرہ اس طرح کیا ہے ؎ اے رشاب مسیحا تیری رفتار پہ قربان سو بار میری لاش ٹھوکر سے جلا دی تخیل کے اعتبار سے یہ بڑا اونچے درجے کا شعر سمجھا جاتا ہے مگر ہے جھوٹ کا پلندہ ، پہلے خود با مردہ تصور کیا ، پھر اپنے محبوب کو اپنی لاش پر سے گزارا گویا کہ وہ اس سراہ پڑتی تھی اور چاہے محبوب کے پائوں کی ٹھوکر لگی تو لاش زندہ ہوگئی ، کیسی فضول اور خلاف واقعہ بات ہے ، اسی طرح ایک عربی شاعر کہتا ہے ؎ لو ضم الی صدر ھا لم یحمل الی قابر اگر محبوب اسے اپنی چھاتی سے لگا لے تو کوئی شخص مردے کو قبر کی طرف نہ لے جائے یعنی محبوب کے مس سے مردہ زندہ و جائے اور اسے دفن کرنے کی نوبت نہیں آئے گی ، عام طور پر ایسے ہی بےمرد…باندھے جاتے ہیں ۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کسی سفر میں جا رہے تھے ، راستے میں کوئی شاعر بیہودہ شعر گاتا ہوا ملا ، آپ (علیہ السلام) نے فرمایا خذوالشیطن اس شیطان کو چڑو۔ یہ کیا جیتا جا رہا ہے آنحضرت ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا لان یمتلی لرجل جو فہ فتحا خیر لہ من ان لینشدشغرا اگر کوئی شخص ہے …… تو وہ اس شعر گوئی سے بہتر ہے ۔ حقیقت یہ یہ کہ بد اخلاقی کے اشعار ایسے ہی ہوتے ہیں شاعروں کے پیچھے چلنے والے بھی بےنماز و شراب کے رسد اور بد کردار لوگ ہوتے ہیں جو بلاوجہ واہ واہ کرتے رہتے ہیں ، نہ انہیں فرائض کا خیال ہے ، نہ کوئی اخلاق ہے اور نہ اعمال ہی قابل قبول ہیں ، میں نے خود ایک جیسے میں رحی کہ پچھلی طرف ایک شخص پیشاب بھی کر رہا ہے اور شاعر کو داد بھی دے رہا ہے ۔ بر خلاف اس کے جن لوگوں نے قرآن پاک کو لائحہ عمل بنایا ہے ان کے اخلاق ، اعمال اور کردار اعلیٰ درجے کے ہوتے ہیں ۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں عام شعراء کے تجزیہ میں تین نقائص کا ذکر کیا ہے ۔ اول یہ کہ شاعروں کے پیچھے چلنے والے اکثر گمراہ لوگ ہوتے ہیں جبکہ قرآن پاک پر عمل کرنے والے اعلیٰ اخلاق و کردار کے مالک ہوتے ہیں ۔ دوسری بات یہ کہ شاعر لوگ تخیلات کے سمندر میں ہوائی گھوڑے دوڑاتے پھرتے ہیں جب کہ قرآن کے پیرو کار حقیقت کے متبع ہوتے ہیں ۔ اللہ نے فرمایا کہ شاعروں کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے جب کہ عامل بالقرآن لوگ حقیقت سے سر مو انحراف نہیں کرتے ۔ اس طرح گویا ان آیات کا تعلق سورة کی ابتدائی آیت فلک آیت الکتب المبین سے بھی ہوگیا ۔ وہاں فرمایا تھا کہ یہ کھول کر بیان کرنے والی کتاب کی آیتیں ہیں اور یہاں پر شعراء کے کلام کی نفی کردی گئی ہے ۔ شعرائے … عمومی شعراء کے تذکرہ کے بعد اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ متشنیات کا تذکرہ فرمایا ہے اور واضح کیا کہ مذکورہ قباحتوں کے مصداق سو فیصدی شعراء نہیں ہیں بلکہ ان میں کچھ اچھے لوگ بھی ہیں اور ان کا ذکر اس طرح فرمایا ہے الا الدین امنوا مگر وہ لوگ جنہوں نے ایمان قبول کرلیا وعملوالصلحت اور جنہوں نے اچھے اعمال انجام دیئے وذکرو اللہ کثیرا اور انہوں نے کثرت سے اللہ کا ذکر کیا وانتصروا من بعد ما ظلموا اور بدلہ لیا مظلوم بن جانے کے بعد ظاہر ہے کہ ایسے شاعروں کا کلام مبنی بر حقیقت ہوگا ۔ ایسے لوگ نہ تو بےحقیقت خیالی گھوڑے دوڑائیں گے نہ ان کے قول و فعل میں تضاد ہوگا ، لہٰذ ان کے پیچھے چلنے والے گمراہ بھی نہیں ہوں گے ۔ ان صفات کے حامل بعض شعراء حضور ﷺ کے صحابہ میں بھی موجود تھے ، تین خلفائے راشدین حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، عمر فاروق ؓ اور علی مرتضیٰ ؓ خود شعر کہتے تھے اور ظاہر ہے کہ وہ پوری امت میں سے اکابر صحابہ اور عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں ۔ اسی طرح حسان بن ثابت ؓ کے شعراء میں سے تھے ۔ حضور ﷺ نے خود ان کو کفار کی مذمت میں شعر کہنے کی دعوت دی تھی ۔ آپ نے فرمایا تھا اھجھم وجبریل الامین معک اے حسان ؓ ان کی بجو بیان کرو۔ جبرائیل امین تمہاری تائید میں ہیں چناچہ آپ مسجد نبوی میں کھڑے ہو کر کفار کی مذمت بیان کیا کرتے تھے۔ کعب بن زہیر ؓ بھی بڑے شاعر تھے ۔ بعد میں مسلمان ہوگئے ۔ شماس بن ضرار ؓ شاعر تھے۔ عبد اللہ بن رواحہ ؓ کا شمار اونچے درجے کے شعراء میں ہوتا تھا ، لبید ؓ بھی شاعر تھے مگر اسلام لانے کے بعد انہوں نے شعر گوئی ترک کردی تھی ۔ انہوں نے بڑی لمبی عمر پائی جس میں نوے سالہ جاہلیت کا اور ساٹھ سالہ اسلام کا دور گزرا کہتے تھے اب مجھے شعر و شاعری سے کوئی رغبت نہیں ، مجھے قرآن کافی ہے ، وہی پڑھتا رہتا ہوں ۔ اسی طرح ابو سفیان بھی شاعر تھے ۔ ابتدائی زمانہ میں اسلام کی سخت ترین مخالفت کی ، مگر جب ایمان لے آئے تو آپ اور پورے خاندان نے اسلام کی خدمت کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا ۔ آپ شعروں کے ذریعے کفار کی مذمت بیان کرتے تھے ۔ بہر حال اس قسم کے شعراء بہت قلیل تعداد میں تھے جنہوں نے خدمت اسلام کو اپنے شعروں کا موضوع سخن بنایا ، اللہ نے ان کو عمومی شاعروں سے مستثنیٰ فرمایا ہے۔ خط عرب سے باہر بھی بڑے بڑے شعراء ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے اشعار کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ صاحب مثنوی مولانا روم کا شمار اسی زمرے میں ہوتا ہے ، انہوں نے اپنے شعروں کے ذریعے علم عقائد بیان کیے ہیں اور بہت سے حقائق نہایت عمدہ پیرائے میں واضح کیے ہیں ، اسی طرح شیخ سعدی (رح) اپنے اشعار کے ذریعے نصیحت کی باتیں بیان کرتے ہیں تو کمال کرتے ہیں ۔ ان کی کتابیں دینی مدرسوں میں پڑھائی جاتی ہیں ، آپ غزلیات کے بہت بڑے امام تھے ۔ عام بزرگ اور درویش آدمی تھے ، طبیعت میں ظرافت بھی تھی مگر بحیثیت مجموعی آپ کا کلام بہت عمدہ ہے یہاں پر برصغیر میں ڈاکٹر اقبال مرحوم کو قومی شاعر تسلیم کیا جاتا ہے انہوں نے ملت اسلامیہ کا بڑا دفاع کیا ہے ۔ آپ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے ، انگریز سے ” سر “ کا خطاب بھی پایا مگر ذہنی طور پر ان کے خلاف تھے ۔ انہوں نے اپنے کلام میں انگریزی تہذیب و تمدن کی بڑی مذمت کی ہے اور مسلمانوں کو بیدار کرنے کی سعی کی ہے مولانا ظفر علی خان کا شمار بھی اعلیٰ پایہ کے شاعروں میں ہوتا ہے ، وہ بھی انگریزوں اور قادیانیوں کے سخت مخالف تھے ، دین و ملت کے دفاع اور انگریزوں اور مرزئیوں کی مخالفت میں آپ کے اشعار کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے ۔ بہر حال فرمایا کہ عام قسم کے شاعروں میں کچھ استثناء بھی ہیں ۔ عام لوگ تو عشق و محبت کے افسانے ہی گھڑتے رہتے ہیں جن سے قوم و ملت کو کچھ فائدہ نہیں ہوتا بلکہ ایسے اشعار سے بےراہ روی ہی فروغ پاتی ہے ۔ البتہ ایمان لانے کے بعد اعمال صالحہ اور کثرت سے ذکر الٰہی کرنے والے شعراء جنہوں نے مظلوم ہونے کے بعد ظالموں سے بدلہ لیا ، وہ پسندیدہ شعراء ہیں اور انہوں نے قوم و ملت کی گراں قدر خدمت بھی کی ہے اور مسلمانوں کو اپنا اصل مقام یاد کرا کے اسے دوبارہ حاصل کرنے کی رغبت دلائی ہے ۔ فرمایا وسیعلم الذین ظلموا ظلم کرنے والے عنقریب جان لیں گے ۔ ای منقلب ینقلبون کہ وہ کس کروٹ پر پلٹتے ہیں ان کی شعر و شاعری اور دیگر افعال و کردار کا پتہ چل جائے گا کہ انہوں نے دنیا میں کیا کیا کارنامے انجام دیئے ۔ انجام آگے آ رہا ہے ، پھر پتہ چل جائے گا کہ ان کا اونٹ کس کروٹ پر بیٹھتا ہے۔ سورة کا آغاز صداقت قرآن سے ہوا تھا ، اب آخر میں معاد کا ذکر بھی ہوگیا ۔
Top