Mualim-ul-Irfan - An-Naml : 20
وَ تَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَا لِیَ لَاۤ اَرَى الْهُدْهُدَ١ۖ٘ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَآئِبِیْنَ
وَتَفَقَّدَ : اور اس نے خبر لی (جائزہ لیا) الطَّيْرَ : پرندے فَقَالَ : تو اس نے کہا مَا لِيَ : کیا ہے لَآ اَرَى : میں نہیں دیکھتا الْهُدْهُدَ : ہدہد کو اَمْ كَانَ : کیا وہ ہے مِنَ : سے الْغَآئِبِيْنَ : غائب ہونے والے
اور خبر کی ( سلیمان (علیہ السلام) نے) پرندوں کی ۔ پس کہا کیا ہے کہ میں نہیں دیکھتا ہد ہد کو ۔ کیا وہ غائب ہے ؟
ربط آیات گزشتہ درس میں ایک چیونٹی کا حال بیان ہوا ۔ سلیمان (علیہ السلام) چیونٹی کی بات سن کر مسکرائے اور پھر ان انعامات کا شکریہ ادا کیا جو اللہ نے آپ پر اور آپ کے والدین پر کر رکھے تھے۔ آپ نے اللہ سے اس کے پسندیدہ نیک اعمال کرنے کی توفیق بھی طلب کی اور ایک خصوصی دعا یہ کی کہ پروردگار ! مجھے اپنے نیک بندوں میں شامل رکھ ۔ جانوروں اور پرندوں کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی خدمت کے لیے پیدا کیا ہے۔ چناچہ لوگ بہمیۃ الانعام یعنی اونٹ ، گائے ، بھیڑ اور بکری سے ، دودھ ، بال اور کھالیں حاصل کرتے ہیں ۔ بعض جانوروں سے باربرداری کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ بعض وحشی جانوروں کو باقاعدہ سیدھا کر کے ان سے بھی خدمت لی جاتی ہے۔ ریچھ کو تربیت دے کر اس سے کام لیا جاتا ہے۔ پرندوں میں باز اور شکرے وغیرہ سے شکار کیا جاتا ہے۔ گدھے اور خچر وغیرہ خاص بار برداری کے کام آتے ہیں ۔ قدیم زمانے میں کبوتر سے پیغام رسانی کا کام لیا جاتا تھا ، کتوں کو سیدھا کر کے ان سے شکار کیا جاتا ہے اور وہ چوکیداری کا کام بھی کرتے ہیں ۔ غرضیکہ انسان جانوروں اور پرندوں سے قدیم زمانے سے خدمت لیتے آئے ہیں ۔ ہد ہد کی غیر حاضری حضرت سلیمان علیہ السلا م کو اللہ نے یہ خاص انعام عطا فرمایا تھا کہ ہوا ، پرندے اور جنات آپ کے تابع کردیے تھے جن سے وہ حسب ضرورت کام لیتے تھے ۔ تو اسی سلسلے میں آج کے درس میں ایک پرندے ہد ہدہ کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ سلیمان (علیہ السلام) ضرورت کے مطابق بعض کام بھی ان کے سپرد کرتے تھے ، چناچہ ارشاد ہوتا ہے وتفقدالطیر اور سلیمان (علیہ السلام) نے پرندوں کی حاضری لی۔ تفقد کا معنی دیکھ بھال کرنا ، حاضری لینا یا باز پرس کرنا ہوتا ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ بھی اپنے ساتھیوں کی یتفقد دیکھ بھال کیا کرتے تھے ، پوچھ گچھ ہوتی تھی کہ کہیں لوگ غافل نہ ہوجائیں بلکہ ہر وقت مستعد رہیں ۔ اسی طریقے سے سلیمان (علیہ السلام) نے ایک موقع پر تمام پرندوں کو جمع کیا ۔ اور ان کی حاضری لی ۔ غالباً اس وقت آپ ہد ہد نامی پرندے سے کوئی کام لینا چاہتے تھے مگر وہ نظر نہ آیا ۔ فقال ما لی لا اری الھد ھد تو آپ نے کہا ، کیا بات ہے کہ مجھے ہد ہد نظر نہیں آ رہا اس پرندے کے متعلق مشہور ہے کہ اللہ نے اس کو ایسی صلاحیت عطا فرمائی ہے کہ اے زیر زمین پانی نظر آجاتا ہے اور یہ اس کی نشاندہی کردیتا ہے ، اس موقع پر بھی سلیمان (علیہ السلام) بمع لشکر کہیں جا رہے تھے ، پانی کا ذخیرہ ختم ہوچکا تھا اور پانی کی تلاش کے لیے ہد ہد کی خدمات ضرورت تھی کہ وہ کسی جگہ زیر زمین پانی کی نشاندہی کرے تو جنات کے ذریعے فوراً نکلوا لیا جائے ، مگر ہد ہدنظر نہیں آ رہا تھا ، کامل ہیر والے نے لکھا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے دریافت کیا گیا کہ ہد ہدہ کو زمین کے منوں نیچے تو پانی نظر آجاتا ہے مگر زمین کے اوپر اس کے لیے لگایا گیا جال اسے کیوں نہیں نظر آتا ؟ انہوں نے جواب دیا اذا جاء القدر عشی البصر جب اس کی تقدیر آجاتی ہے تو پھر اس کی آنکھ اندھی ہوجاتی ہے اسے قریب پڑا جال بھی نظر ہیں آتا۔ بہر حال سلیمان (علیہ السلام) نے ہد ہدہ کو نہ پا کر کہا کہ کیا بات ہے کہ مجھے ہد ہدہ نظر نہیں آ رہا امر کان من الغائبین کیا وہ غائب یعنی غیر حاضر ہے ؟ کہنے لگے ، اگر ایسی بات ہے لا عذبنہ عذاباً شدید ًا تو میں اسے سخت سزا دوں گا اولا ً بحنہ یا میں اسے ذبح ہی کر ڈالوں گا ۔ اولیا تینی بسلطن ثبین یا اگر وہ سزا سے بچنا چاہتا ہے تو کوئی کھلی دلیل پیش کرے یعنی اپنی غیر حاضری کا کوئی معقول عذر پیش کرے۔ ہد ہد ایک مشہور جانور ہے جسے عربی ، اردو اور پنجابی وغیرہ میں ہد ہدہ ہی کہا جاتا ہے۔ اس کی لمبی چونچ ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ زمین کو کریدتا رہتا ہے اور وہاں سے کیڑے مکوڑے نکال نکال کر کھاتا ہے۔ مٹیالے رنگ کے اس پرندے کو اللہ نے پرواز کی بڑی قوت عطا کی ہے یہ بڑی لمبی حتیٰ کہ سینکڑوں میل تک کی اڑان کرسکتا ہے مصرا اور فلسطین وغیرہ کے علاقے میں سردی کے موسم میں عموما ً پایا جاتا ہے ، بعض پرندے دور دور سے اڑ کر یہاں بھی آجاتے ہیں ۔ روس اور چین کے علاقے سے بعض چڑیاں سخت سردی سے بچنے کے لیے ادھر آجاتی ہیں اور لوگ ان کا شکار کرلیتے ہیں ۔ اللہ نے انہیں ایسی قوت پرواز بخشی ہے کہ اس میں رکاوٹ پڑنے کا بھی کوئی خطرہ نہیں ہوتا ۔ تھک گئے تو ذرا سستا لیا اور پھر چل پڑے بر خلاف اس کے موجودہ دور کے تیز رفتار ہوائی جہاز اور راکٹ وغیرہ کی اڑان بھی خطرے سے خالی نہیں ہوتی اور آئے دن ان کے حادثات ہوتے رہتے ہیں ۔ ابھی ابھی امریکہ کی چیلنجز نامی شٹل پرواز کے فوراً بعد حادثہ کا شکار ہوگئی جس میں دو عورتوں سمیت سات جانیں ضائع ہوگئیں اور اس خلائی شل میں خرچ آنے والی کروڑوں ڈالر کی رقم ضائع ہوگئی۔ امام دمیری (رح) نے حیات الحیوان میں لکھا ہے کہ ہد ہد حلال جانور نہیں ہے ۔ ابو دائود شریف میں اس کا گوشت کھانے کی ممانعت آئی ہے وجہ یہ ہے کہ یہ پرندہ دانہ دنگا یا سبزی وغیرہ کھاتا نہیں ، محض کیڑے مکوڑے کھاتے ہے ، لہٰذا اس کے گوشت سے بدبو آتی ہے اور ظاہر ہے کہ بد بو دار چیز کا کھانا جائز نہیں ہے اسی طرح اگر روٹی ، سالن یا چاول وغیرہ بدبو دینے لگیں تو ان کا استعمال جائز نہیں رہتا۔ ملکہ سبا کے متعلق خبر بہر حال سلیمان (علیہ السلام) نے ہد ہد کی غیر حاضری کا نوٹس لیا فمکث غیر بعید پس زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ہدہد آ گیا فقال اور کہا احطت بما لم تحط بہ میں نے ایک ایسی بات کا احاطہ کیا جس کا آپ نے نہیں کیا ، یعنی اے سلیمان (علیہ السلام) میں ایک ایسی خبر لایا ہوں جس سے آپ بیخبر ہیں وجئتک من سیا بنیا یقین اور میں آپ کے پاس ملک سبا سے ایک یقینی خبر لایا ہوں ۔ چیونٹی کی طرح ہد ہد کا عقیدہ بھی یہی تھا کہ سلیمان (علیہ السلام) بےمثال سلطنت کے مالک ہونے کے باوجود علم محیط نہیں رکھتے تھے کہ نہیں ہر چیز کا علم ہوتا ، بلکہ وہ تو یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ملک سبا میں کون حکمران ہے اور وہاں کے لوگوں کا عقیدہ کیا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ نے سلیمان (علیہ السلام) کی سلطنت کو بتدریج وسیع فرمایا تھا پہلے فلسطین اور شام آپ کے ماتحت تھے ۔ پھر مصر میں زیر نگیں آگیا اور آخر میں سبا بھی آپ کی سلطنت میں شامل ہوگیا ۔ بہر حال ہد ہدنے سلیمان (علیہ السلام) سے کہا کہ میں ملک سبا ہے یہ خبر لایا ہوں انی وجدت امراۃ تملکھم میں نے وہاں پر ایک عورت کو پایا ہے جو اہل سبا پر حکمرانی کرتی ہے واوتیت من کل شیء اور اسے ہر قسم کا سازو سامان دیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ ضرورت کی ہر چیز ا ن کے پاس ہے وہ کسی چیز کی کمی محسوس نہیں کرتے۔ ہر چیز سے یہ مراد نہیں کہ قیامت تک ایجاد ہونے والی ہر چیز ان کے پاس موجود تھی بلکہ اس زمانے کی ضروریات کے مطابق ان کے اپس فوج خزانہ ، غلہ اور تما م ضروریات زندگی مہیا تھیں ، اس کی مثال وہی ہے جو سورة نحل میں ہے۔ اللہ نے شہد کی مکھی کو حکم دیا کہ پہاڑوں ، درختوں اور اونچی جگہوں میں گھر بنائو ثم کلی من کل المثرت ( آیت 96) پھر ہر پھل میں سے کھائو ، یہاں بھی ہر پھل سے یہ مراد نہیں ہے کہ دنیا بھر کے پھلوں میں سے لازماً ہر ایک کو کھائو بلکہ جو جو پھل تمہارے مناسب حال ہے اس کو کھائو ، پھولوں کا رس چوسو اور پھر شہد پیدا کرو ۔ ہد ہد نے یہ بھی خحبر دی ولھا عرش عظیم کہ مکہ سبا کے پاس بہت بڑا تخت ہے جس پر بیٹھ کر وہ امو ر سلطنت انجام دیتی ہے ۔ اس تخت کا مفصل حال آگے آ رہا ہے ، تا ہم مفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ یہ عظیم تخت اسی ہاتھ لمبا ، پچاس ہاتھ چوڑا اور چالیس ہاتھ اونچا تھا جو کہ نہایت قیمتی زر و جواہرات کے ساتھ مرصع تھا۔۔ سورج پرست قوم ہد ہد نے اپنا سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے مزید انکشاف کیا ۔ وجد تھا وقومھا یسجدون للشمس من دون اللہ کہ میں نے اس کملہ اور اس کی قوم کو سورج کے سامنے سجدہ کرتے پایا ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر گویا کہ قوم سبا سورج پرست مشرک تھی ، حقیقت یہ ہے کہ کائنات کی تمام چیزیں شجر ، حجر ، چرند ، پرند سب اللہ ہی کی تسبیح بیا ن کرتے ہیں جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وان من شی الا یسبح بحمدہ ( بنی اسرائیل : 44) کائنات کی ہر چیز اسی کی تقدیس بیان کرتی ہے ۔ فطرت صحیحہ کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو مانا جائے سورج پرستار مصر میں بھی تھے اور ایران میں بھی ، سورج کی پوجا کرنے والے برصغیر میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ کراچی کے مجوسی اب بھی طلوع شخص کے وقت سمندر کے کنارے پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور طلوع کے وقت سورج کو سجدہ اور سلام کرتے ہیں ۔ اسی لیے ہماری شریعت میں سورج کے طلوع و غروب اور عین استوا کے وقت سجدہ کرنے سے منع کردیا گیا ہے۔ بہر حال ہد ہدہ نیب تایا کہ جس قوم کا وہ ذکر کر رہا ہے ، وہ سورج پرست ہے ۔ ملکہ سبا کے متعلق مفسرین اور مؤرخین نے طرح طرح کی باتیں بیان کی ہیں ۔ اس کا اصل نام بلقیس تھا جو سبا پر حکومت کرتی تھیں ۔ کہتے ہیں کہ اس کا باپ کسی سردار کی بیٹی سے شادی کرنے کے لیے تیار نہیں تھا ۔ بالآخر اس نے ایک جنیہ ( جن عورت) سے شادی کی جس سے بلقیس پیدا ہوئی ۔ اللہ نے جنات کو یہ اختیار دے رکھا ہے کہ وہ انسانی شکل میں متشکل ہو سکتے ہیں ۔ عین ممکن ہے کہ بلقیس کے باپ نے کسی ایسی ہی جن عورت سے شادی کرلی ہو ۔ پھر بلقیس کی نسبت ایک ایسے شخص سے ہوئی جس کو وہ پسند نہیں کرتی تھی ، لہٰذا اس نے اس شخص کو راستے سے ہٹا دیا اور خود حکمران بن گئی ، یہ سب تفسیری اور تاریخی روایات ہیں ، جن کے متعلق یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا واللہ اعلم ۔ ایسے ہی دیگر حالات وواقعات سے قطع نظر بلقیس ایک ذہین و فطین عورت تھی ۔ اس کے پاس بڑی فوج تھی ۔ پارلیمنٹ اور مصاحب تھے جن سے وہ امور سلطنت میں مشورے کرتی رہتی تھی ۔ ہد ہدنے ایک تو قوم سبا کی سورج پرستی کی خبر دی اور دوسری بات یہ بیان کی وزین لھم الشطین اعمالھم اس مشرک قوم کے اعمال کو شیطان نے ان کے لیے مزین کر رکھا ہے ، جو کچھ کرتے تھے شیطان اس کی تصدیق کرتا ہے کہ تم بہت اچھا کام کر رہے ہو لہٰذا وہ سورج پرستی سے تائب ہو کر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو پہچاننے کی بجائے ۔ سورج پرستی کو ہی حقیقت سمجھ رہے ہیں فصدھم عن السبیل اور اس طرح شیطان نے ان کو سیدھے راستے سے روک رکھا ہے ہد ہد نے کہا فھم لا یھتدون وہ ہدایت نہیں پاتے۔ غلط راستے پر چل کر صحیح راستے سے محروم ہوچکے ہیں ۔ مقصد یہ تھا کہ سلیمان (علیہ السلام) اس مشرک قوم کے خلاف کارروائی کریں۔ بعض پرویز قسم کے دہریے اس سارے مضمون کو پرندے کا بیان تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہد ہد نامی کوئی آدمی تھا جس نے یہ ساری خبر آ کر سلیمان (علیہ السلام) کو دی تھی ، حالانکہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر جنات ، پرندے اور ہوا سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیے تھے اور آپ ان سے کام بھی لیتے تھے۔ ہد ہد کی توحید پرستی ہد ہد نے قوم سبا کے شرک کا ذکر کرنے کے بعد پھر خود ہی توحید کے بعض دلائل بھی پیش کیے۔ کہنے لگا الا یسجدوا للہ الذی یخرج الخب فی اسموات والارض قوم سبا کے لوگ کیوں نہیں سجدہ کرتے صرف اللہ تعالیٰ کہ جو آسمان و زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جو آسمانوں میں پوشیدہ پانی نازل کر کے اس سے طرح طرح کی سبزیاں اگاتا ہے ۔ زمین کے نیچے سے پانی ، تیل ، لوہا ، سیسہ ، سونا ، چاندی اور دیگر مع دنیات نکالتا ہے۔ ویعام ما تخفون وما تعلنون اور ہر اس چیز کو جانتا ہے ، جس کو تم چھپاتے ہو یا ظاہر کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے ۔ وہ قادر مطلق اور علیم کل ہے ۔ ایسے خداوند قدوس کو چھوڑ کر قوم سباسورج کی پوجا کیوں کرتی ہے ؟ وہ خدا تعالیٰ کے سامنے کیوں سجدہ ریزہ نہیں ہوجاتی ؟ ہد ہدنے مزید کہا اللہ کی ذات وہ ہے اللہ لا الہ الا ھو کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہر قسم کی عبادت کے لائق صرف اور صرف وہی ذات ہے رب العرش العظیم اور عرش عظیم کا مالک بھی وہی ہے 1 ؎ پھر دوسروں کے سامنے کیوں سجدہ کرتے ہیں فقال احطت سے لے کر یہاں سارا بیان ہد ہدکا ہے۔ اس نے ایک طرف قوم سبا کے شرک کی نشاندہی کی تو دوسری طرف دلائل توحید بھی بیان کردیے۔ جب اللہ کی ادنیٰ مخلوق پرندے بھی توحید خداوندی کو تسلیم کرتے ہیں تو انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس کا تو بطریق اولیٰ فرض ہے کہ وہ توحید خداوندی کو تسلیم کرے اور ہر قسم کے کفر اور شرک میں باز آجائے۔ خط بنام ملکہ سبا ہد ہدکا یہ سارا بیان سننے کے بعد قال سلیمان (علیہ السلام) نے کہا سننظر اصدقت ام کنت من الکذبین ہم ابھی دیکھتے ہیں کہ تو اپنی بات میں سچا ہے یا تو نے جھوٹ بولا ہے ۔ اس سے پیشتر سلیمان (علیہ السلام) ہد ہد کو سخت سزا دینے یا ذبح کر ڈالنے کا اعلان کرچکے تھے تاوقتیکہ وہ کوئی معقول عذر پیش نہ کرے ۔ اب جبکہ اس نے عذر پیش کردیا تو سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہم ابھی تمہاری اس خبر کی تصدیق کیے لیتے ہیں ۔ اور اس کا طریقہ یہ اختیار کیا کہ ہد ہد سے کہنے لگے ۔ اذھب بکتبی ھذا میری یہ چٹھی لے جائو فالقہ الیھم اور اسے قوم سبا کے لوگوں کے سامنے ڈال دو ۔ میرا یہ خط ان تک پہنچائو ثم لول عنھم پھر ان سے پیچھے پلٹ آئو فانظر ما زا یرجعون اور دیکھو کہ وہ اس خطہ کا کیا جواب دیتے ہیں ۔ مفسرین بیان کرتے ہیں کہ ہد ہد فوراً خط لے کر ملکہ سبا کے محل پر پہنچا اس وقت گھر کے دروازے تو بند تھے البتہ ایک روشندان کھلا تھا ، جس کے راستے وہ ملکہ کی خوابگاہ میں داخل ہوگیا ۔ خط اس کے سینے کے قریب رکھ دیا اور پھر اسی روشندان کے راستے باہر نکل آیا ۔ جب ملکہ نیند سے بیدار ہوئی تو اس نے اپنے قریب خطہ پڑا پایا ۔ اس نے اپنے تمام دربایوں کو اپنے دربار میں طلب کیا اور ان سے اس طرح گویا ہوئی قالت یایھا الملاء انی القی الی کتب کریم کہنے تھی ۔ اے میرے درباریو ! میرے پاس ایک عزت والا خط ڈالا گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ خوبصورت سر مہر۔ 1 ؎۔ اس آیت پر قرآن کریم کا آٹھواں سجدہ تلاوت ہے ( فیاض) لفافے میں عمدہ طریقے سے لکھا ہوا شاہی خط تھا جس سے ملکہ نے اندازہ لگایا کہ یہ کسی معزز شخصیت کی طرف سے آیا ہے ، چناچہ اس نے اسے با عزت فرد قرار دیا اور بتایا انہ من سلیمن یہ سلیمان (علیہ السلام) کی طرف سے موصول ہوا ہے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اصل مضمون کے علاوہ اس خط میں سلیمان (علیہ السلام) نے اپنا تعارف بھی کرایا تھا ، اور اس کی ابتداء اس طرح تھی من عبد اللہ سلیمان ابن دائو السلام علی من اتبع الھدی یہ خط اللہ کے بندے سلیمان ابن دائود (علیہما السلام) کی طرف سے ہے اور سلامتی ہو اور اس پر جو ہدایت کی پیروی کرتا ہے۔ اس قسم کے تبلیغی خطوط حضور ﷺ کی سیرت میں بھی ملتے ہیں جو آپ نے اطراف کے بادشاہوں اور دیگر اعلیٰ شخصیتوں کو تحریر فرمائے ۔ آپ نے بھی ہر خط کا آغاز من محمد رسول اللہ سے کیا اور آگے 1 ؎ الی ھر قل عصیم الروم وغیرہ لکھا یعنی اللہ کے رسول محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف روم کے عقیم ہر قل کی طرف اور پھر اصل مضمون شروع کرنے سے پہلے السلام علی من اتباع الھدی کے الفاظ بھی تحریر کروائے۔ بہر حال سلیمان (علیہ السلام) نے ایسا ہی خط بلقیس کے امام بھیجا۔ خط کا مضمون ملکہ سبا نے خط بھیجنے والے کا تعارف کرانے کے بعد اس کا مضمون پڑھنا شروع کیا انہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کہ اس خط میں لکھا ہے شروع اللہ کے نام سے جو نہایت بخشش کرنے والا اور بڑا مہربان ہے ۔ گویا مضمون کی ابتداء اللہ تعالیٰ کے پاک نام کے ساتھ کی اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اس مقام پر بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن پاک کی ایک آیت کے طور پر آتی ہے ۔ البتہ قرآن پاک کے ہر نسخہ میں ہر سورة کی ابتداء میں بھی پوری بسم اللہ تحریر ہے ۔ فقہائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ ہر سورة کی ابتدا والی بسم اللہ قرآن پاک کا حصہ ہے یا نہیں امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ اس مقام پر آنے والی بسم اللہ کے علاوہ صرف ایک واقعہ قرآن کی آیت ہے اور ہر سورة کی ابتداء میں لکھی جانے والی قرآن کا حصہ نہیں ہے البتہ دیگر حضرات اس مقدم پر بھی اور ہر سورة کی ابتداء والی بسم اللہ کو بھی قرآن کا 1 ؎۔ بخاری ص 4 ج 1 ( فیاض) حصہ تصور کرتے ہیں ۔ بہر حال خط کا مضمون یہ تھا الا تعلم علی قوم سبا کے لوگو ! میرے سامنے سر کشی اختیار نہ کرو ، میرے مقابلے میں نہ آنا واتونی مسلمین بلکہ اطاعت گزار بن کر میرے پاس چلے آئو ۔ مطلب یہ تھا کہ کفر و شرک کو چھوڑ کر صحیح دین اختیار کرلو ۔ اب اگلی آیت میں اس خط پر ردعمل کا ذکر آ رہا ۔
Top