Mualim-ul-Irfan - An-Naml : 54
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ
وَلُوْطًا : اور لوط اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم اَتَاْتُوْنَ : کیا تم آگئے (اتر آئے) ہو الْفَاحِشَةَ : بےحیائی وَاَنْتُمْ : اور تم تُبْصِرُوْنَ : دیکھتے ہو
اور لوط (علیہ السلام) ( کو بھی ہم نے رسول بنا کر بھیجا ، جب کہا انہوں نے اپنی قوم سے ۔ کیا تم بےحیائی کا کام کرتے ہو اور تم دیکھتے ہو
ربط آیات اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود کا ذکر کیا کہ ان کی طرف ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو رسول بنا کر بھیجا ۔ اللہ نے ان کے ہاتھ پر اونٹنی کی حیرت انگیز نشانی ظاہر فرمائی مگر قوم نے اس کا انکار کیا اور صالح (علیہ السلام) کو ختم کردینے کا منصوبہ بنایا ۔ اللہ نے ان کی تدبیر کو ناکام بنایا ، وہ صالح (علیہ السلام) کو تو قتل نہ کرسکے البتہ خود ہی اللہ کے عذاب کا شکار ہو کر ہلاک ہوئے ۔ اللہ نے یہ واقعہ حضور خاتم النبیین ﷺ کے زمانے کے مشرکین کی نصیحت اور عبرت کے لیے بیان کیا ۔ اب اسی طرح لوط (علیہ السلام) اور انکی قوم کے واقعات کا ذکر ہو رہا ہے وہ لوگ بھی ان کے وعظ و نصیحت کو برداشت نہیں کرتے تھے بلکہ انہیں اپنے راستے میں ایک رکاوٹ سمجھتے تھے ۔ انہوں نے بھی لوط (علیہ السلام) کو ختم کرنے کی کوشش کی مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت ترین عذاب کا شکار ہوئے۔ قوم لوط کی خرابیاں یہ لوگ بحرمیت کے اطراف میں شرق اردن کے علاقے میں آباد تھے ، ان کی زرعی زمینیں اور باغات تھے جو کہ بڑا زرخیز علاقہ تھا۔ تجارت بھی خوب کرتے تھے اور بڑے خوشحال لوگ تھے ۔ اس قوم کے چھ بڑے بڑے شہر اور بہت سے قصبات اور دیہات تھے ۔ مفسرین کرام ان کی کل آبادی چار سے گیارہ لاکھ تک بتاتے ہیں ۔ بڑ ی بڑی بستیاں سدوم ، عامورہ ، صعودۃ اور دوامہ وغیرہ تھیں جن میں سدوم کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اس قوم کے فرد نہیں تھے بلکہ آپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے جو سام ابن نوح کی اولاد میں سے تھے ۔ بایل میں آباد تھے پھر جب ابراہیم (علیہ السلام) نے بایل سے ہجرت کی تو آپ کی بیوی سارہ ؓ اور لوط (علیہ السلام) نے بھی آپ کے ساتھ ہجرت کی ۔ اللہ تعالیٰ نے دوران سفر ہی لوط (علیہ السلام) کو نبوت عطا فرمائی اور اپنا پیغام سنانے کے لیے اہل سدوم کی طرف مبعوث فرمایا ، چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) تو مصر سے ہوتے ہوئے شام و فلسطین کے علاقے میں چلے گئے اور لوط (علیہ السلام) نے شرق اردن پہنچ کر تبلیغ حق کا آغاز کردیا ۔ اس قوم میں بھی دیگر قوموں کی طرح کفر اور شرک پایا جاتا تھا ، مگر ان میں ایک قبیح ترین بیماری ہم جنسی کی بھی پائی جاتی تھی ۔ یہی قوم اس فعل کی موجد ہے سب سے پہلے شیطان نے اسی قوم کو اس فعل پر آمادہ کیا۔ سورۃ عنکبوت میں ہے اِنَّـکُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَز مَا سَبَقَکُمْ بِہَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰـلَمِیْنَ (آیت : 82) تم ایسی بےحیائی کے مرتکب ہوتے ہو جو تم سے پہلے جہان بھر میں کسی نے نہیں کی ۔ یہ لوگ اس فعل شنیع میں اس حد تک بڑھ چکے تھے کہ اللہ نے لوط (علیہ السلام) کی زبان سے کہلوایااَئِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَلا وَتاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْکُمُ الْمُنْکَرَ (العنکبوت : 92) کیا تم شہوت رانی کے لیے مردوں سے التفات کرتے ہو ، مسافروں کا راستہ کاٹتے ہو ۔ اور اپنی مجلسوں میں ناپسندیدہ کام کرتے ہو ؟ ہم جنسی کے علاوہ اس قوم میں دیگر اخلاقی برائیاں بھی پائی جاتی تھیں ۔ مسافروں کو لوٹ لیتے تھے ، راستے میں بیٹھ جاتے ، جہاں دائو چلا کر کسی کو لوٹ لیا ، مقامی طور پر تجارت میں ڈنڈی مارتے تھے اور اگر کوئی تاجر مال لیکر باہر سے آجاتا تو اس کا مال ہتھیانے کی کوشش کرتے ۔ ان کا عام طور پر طریقہ کار یہ تھا کہ کوئی چیز گھر میں دکھانے کے بہانے اسے لے گئے اور پھر ہضم کر گئے ، اگر کسی نے مزاحمت کی تو اس کا باقی سامان بھی لوٹ لیا ۔ مجلس میں بیٹھ کر بیہودہ باتیں کرنا اور بےحجابانہگوز مارنا ان کا عام معمول تھا۔ لوط (علیہ السلام) کا وعظ لوط (علیہ السلام) نے درس توحید کے بعد قوم کو لواطت کی خرابی سے آگاہ کیا اور اس فعل شنیع سے باز رکھنے کی کوشش کی ۔ ارشاد ہوتا ہے ولوط اذ قال لقومہ اور لوط (علیہ السلام) کو بھی ہم نے ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا ، جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے آپ اس قوم کے فرد نہیں تھے ، بلکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ہی بابل سے ہجرت کر کے آئے تھے چونکہ آپ اس قوم کی طرف مبعوث ہوئے لہٰذا اس قوم کو آپ ہی کی قوم کہا گیا ہے ۔ تو لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لوگوں سے فرمایا اتاتون الفاحشۃ کیا تم بےحیائی کا کام کرتے ہو ۔ اغلام بازی جیسے قبیح فعل کے مرتکب ہوتے ہو وانتم تبصرون اور تم دیکھتے بھی ہو تبصرون کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ تم اس کام کو برا سمجھتے ہوئے بھی اس کا ارتکاب کر رہے ہو اور دوسرے یہ کہ تم بےحجابانہ طور پر ایک دوسرے کو آمنے سامنے دیکھتے ہوئے بھی اس برائی کو کیے جا رہ ہو اور ذرا شرم نہیں کھاتے۔ فرمایا ائنک لتانون الرجال شھوۃ من دون النساء کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر شہوت زنی کے لیے مردوں کی طرف دوڑتے ہو ؟ یہ تو بڑا ہی گندا کام ہے ۔ بل انتم قوم تجھلون تم تو بڑے ہی نادان اور بےسمجھ لوگ ہو۔ اللہ نے شہوت زانی کے لیے دوسری جنس بنائی ہے مگر تم یہ کام اپنے ہم جنس مردوں سے کرتے ہو ۔ سورة الشعراء میں گزر چکا ہے کہ آپ نے اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا انی لعلکم من القالین (آیت : 861) میں تمہارے اس فعل سے نفرت کرتا ہوں ۔ قرآن پاک میں زنا اور لواطت دونوں جرائم کو فحش کہا گیا ہے بلکہ لواطت زنا سے بھی زیادہ قبیح فعل ہے۔ یہ خلاف وضع فطری ہے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اتنا برا فعل ہے کہ اس کو تو سوائے بندروں کے کوئی دوسرا جانور بھی پسند نہیں کرتا ۔ بندر کو اس فعل کی وجہ سے ذلیل جانور کہا گیا ہے۔ لواطت کی قباحتیں امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ اگر لوگ طوالت کرنے لگیں یا جانوروں کے ساتھ یہ فعل شروع کردیں تو ارتقاقات صالحہ بالکل تباہ ہو کر رہ جائیں گے۔ مثلاً نکاح کرنا ضروری ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ نے بقائے نسل کا سلسلہ قائم کیا ہے ، اگر اغلام بازی شروع کردی جائے تو بقائے نسل کا سلسلہ ختم ہوجائے گا اور نکاح کی وجہ سے لوگوں پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ وہ بھی برباد ہوجائیں گی ، لہٰذا یہ فعل فطرت کے بالکل خلاف ہے ۔ اس فعل سے اخلاق بگڑ جاتا ہے اور دین بھی خراب ہوتا ہے نسل میں خرابی آتی ہے ۔ ارتقاقات ختم ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے اور پھر اس کی گرفت آتی ہے ۔ لو ط (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو تیس سال تک وعظ کیا ۔ آپ نے اس کام میں شب و روز ایک کردیا ، مگر ان لوگوں پر کچھ اثر نہ ہوا ۔ دوسری جگہ موجود ہے کہ آپ کی بیٹیوں کے سوا کوئی بھی آپ پر ایمان نہ لایا حتیٰ کہ بیوی بھی کافرہ ہی رہیں۔ قوم کا جواب لوط (علیہ السلام) کی قوم آپ کا وعظ سن سن کر تنگ آگئی۔ فما کان جواب فومہ الا ان قالوا اخرجوا ال لوط من فریتکم نھم اناس یتطھرون آخر ان کا جواب یہ تھا کہ لوط (علیہ السلام) کے گھر والوں کو اپنی بستی سے نکال دو ۔ یہ بڑے پاکباز لوگ بنے پھرتے ہیں جو ہمیں گند کہتے ہیں ۔ کہنے لگے ان گندی بستیوں میں کیا کام ، ان کو نکا ل باہر کو کہ یہ کسی اچھی جگہ پر چلے جائیں ، مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ صالح (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) کی قومیں اپنے اپنے نبیوں کو ختم کرنا یا نکالناچاہتی تھیں ۔ مگر اللہ نے ان کو ذلیل و خوار کر کے اس دنیا سے ہی نکال دیا ۔ سورة قمر اور دوسری سورتوں میں یہ بھی موجود ہے کہ اگر بستی میں کوئی مہمان آجاتا تو اس کے ساتھ بد فعلی کا ارتکاب کر ڈالنے پر ایسی خبیث قوم تھی۔ آخر کار خدا تعالیٰ کا غضب جوش میں آیا تو اللہ نے فرشتوں کو انسانی شکل میں بھیج کر قوم پر عذاب نازل کیا جس کی تفصیلات دوسری سورتوں میں موجود ہیں۔ لوط (علیہ السلام) کے اہل خانہ کی نجات فرمایا پھر جب اس قوم پر عذاب آیا فانحینہ واھلہ الا امرتہ تو ہم نے لوط (علیہ السلام) اور آپ کے گھر والوں کو بچا لیا ۔ ماسوائے آپ کی بیوی کے قدر نھا من الغبرین ہم نے اس کے متعلق ٹھہرا رکھا تھا کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں سے ہوگی ۔ جب قوم پر عذاب کا وقت قریب آگیا تو لوط (علیہ السلام) کو حکم ہوا فاسر باھلک بقطع من لیل ولا یلتفت منکم احد لا امراتک ( ہود : 18) کہ اپنے اہل کو لے کر رات کے پچھلے حصہ میں بستی سے نکل جائو اور تم میں سے کوئی بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے مگر تمہاری بیوی کہ اس پر مصیبت آنے والی ہے وہ آ کر رہے گی ۔ مفسرین بیان کرتے ہیں کہ آپ کے گھر والے آگے آگے تھے اور آپ ان کے پیچھے چل رہے تھے ، ایماندار اہل خانہ میں آپ کی بچیاں ہی تھیں کیونکہ بیوی تو ایمان نہیں لائی تھی اور وہ ساتھ نہیں نکل تھیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ گھر سے نکلتے وقت بیوی بھی ساتھ تھی مگر تھوڑی دورآ کر پھر واپس چلی گئی اور باقی قوم کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہوگئی۔ لوط (علیہ السلام) اور آپ کی بیوی کا رشتہ قیامت والے دن بھی کچھ کام نہیں آئے گا کیونکہ بیوی ایمان ہی نہیں لائی ۔ وہ فریاد کریگی مگر کوئی شنوائی نہیں ہوگی۔ نوح (علیہ السلام) کی بیوی کی طرح لوط (علیہ السلام) کی بیوی بھی نافرمان تھی ۔ اللہ نے دونوں کے متعلق فرمایا کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتٰـہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللہ ِ شَیْئًا وَّقِیْلَ ادْخُـلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ ( التحریم : 01) یہ ہمارے نیک بندوں کے حرم میں تھیں مگر دونوں نافرمان تھیں اور ہمارے دونوں بندے اللہ کے ہاں کسی کام نہ آسکے اور وہ دونوں عورتیں باقی جہنمیوں کے ساتھ دوزخ میں داخل ہوں گی۔ اللہ نے یہ واقعہ عبرت کے لیے بیان فرمایا ہے ۔ دوسری صرف فرعون جیسے متکبر اور مستبد شخص کی بیوی مومنہ تھی ۔ اس نے بڑی تکلیفوں کے ساتھ شہادت پائی تو اللہ نے اسکے لیے جنت میں اعلیٰ ترین مقام بنایا ہے ، اسی طرح اللہ نے حضرت مریم (علیہا السلام) کی مثال بیان فرمائی ہے کہ ان کو اللہ نے کیسی پاکیزگی عطا فرمائی ۔ بہر حال فرمایا کہ ہم نے لوط (علیہ السلام) کے گھر والوں کو بچا لیا سوائے ان کی بیوی کے جو پیچھے رہنے والوں میں تھی ۔ قوم لوط پر عذاب فرمایا وامطرنا علیھم مطراً اور ہم نے ان پر بارش برسائی قوم کی تباہی کا وقت آ چکا تھا۔ اللہ نے ان پر باش کے ذریعے پانی نازل نہیں کیا بلکہ ان پر پتھر برسائے گئے اور پتھر بھی ایسے مسومۃ عند ربک للمسرفین ( الذرات : 43) جن پر مجرموں کے نام کندہ تھے کہ یہ پتھر فلاں سردار کے سر پر پڑے گا اور یہ فلاں کا کام تما م کریگا اللہ نے پتھروں پر نام لکھ کر متعلقہ نافرمانوں کو مارے ، ایک تو یہ سزا تھی اور دوسری یہ کہ جعلنا عالیھا سافلھا ( ہود : 28) ہم نے اس خط ارضی کا نچلا حصہ اوپر اور اوپر والا حصہ نیچے کردیا یعنی زمین کو بالکل الٹ دیا کیونکہ وہ لوگ کام ہی الٹے کرتے تھے ، کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے شہوت زنی کرتے تھے ۔ سورة الحجر میں ایک تیسری سزا کا بھی ذکر ہے ۔ فاخذتھم الصحیۃ مشرقین ( آیت 37) دن چڑھے ان کو ایک زبردست چیخ نے پکڑ لیا او اس طرح وہ پوری قوم تباہ ہوگئی۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ فعل لواطت کے لیے اللہ نے کوئی حد مقرر نہیں کی ، بلکہ اس کے مرتکب کو تعزیری سزا دی جائے گی۔ امام ابوحنیفہ (رح) سخت ترین سزا کے قائل ہیں مثلاً کسی دیوار کے نیچے کھڑا کر کے اوپر دیوار گرا دی جائے ، یا کسی بلندی سے نیچے گرا دیا جائے ۔ غرضیکہ عبرت ناک سزا ملنی چاہئے ، تا ہم ہجرم کی نوعیت کے اعتبار سے قید و بند کی سزا بھی دی جاسکتی ہے ۔ بہر حال فرمایا کہ ہم نے ان پر بارش برسائی ۔ بائبل کی روایت کے مطابق اس بارش میں آگ ، گندھک اور پتھر تھے۔ یہ قہر خداوندی کی بارش تھی فساء ………یہ بہت بری بارش تھی کہ اس میں رحمت کی بجائے عذاب الٰہی تھا جس سے ساری قوم ہلاک ہوگئی۔
Top