Mualim-ul-Irfan - An-Naml : 65
قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰهُ١ؕ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ
قُلْ : فرما دیں لَّا يَعْلَمُ : نہیں جانتا مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین الْغَيْبَ : غیب اِلَّا اللّٰهُ : سوائے اللہ کے وَمَا يَشْعُرُوْنَ : اور وہ نہیں جانتے اَيَّانَ : کب يُبْعَثُوْنَ : وہ اٹھائے جائیں گے
آپ کہہ دیجئے ( اے پیغمبر ! ) نہیں جانتا جو بھی ہے آسمانوں میں اور زمین میں غیب سوائے اللہ کے ، اور ان کو خبر نہیں کہ کب وہ دوبارہ اٹھائے جائیں گے
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ نے مسئلہ توحید سمجھانے اور شرک کی تردید میں کئی عقلی دلائل بیان فرمائے ہیں ۔ ان دلائل میں ارض و سماء کی تخلیق ، بارش کا نزول باغات اور شجاء کی پیداوار زمین کا قرار گاہ ٹھہرانا اور اس میں نہریں جاری کرنا ، زمین میں بوجھل پہاڑ گاڑھ دینا ۔ دو پانیوں کے درمیان آڑ قائم کردینا تا کہ آپس میں خلط ملط نہ ہونے پائیں ۔ وغیرہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد دلائل توحید ہی کے ضمن میں فرمایا کہ مجبور و بیکس کی فریاد ہی کرنے والا اللہ کے سوا کون ہے ؟ اسی نے تم کو پہلے لوگوں کا نائب بنایا خشکی اور تری میں وہی راہ دکھاتا ہے ، باران رحمت سے پہلے وہی خوش خبری لانے والی ہوائوں کو چلاتا ہے۔ بھلا اس کے سوا کوئی اور الٰہ ہے ؟ وہی مخلوق کو ابتداء میں پیدا کرنے والا اور دوباہ لوٹانے والا ہے۔ اسی نے زمین و آسمان سے روزی کے اسباب مہیا فرمائے ۔ غرضیکہ ان تمام امور کو انجام دینے والا صرف اللہ ہے تو پھر معبود بر حق بھی وہی ہے اگر اس کے علاوہ بھی کوئی معبود ہے تو اس کے لیے دلیل پیش کرو ۔ دلائل تو سارے کے سارے اللہ کی وحدانیت کو ثابت کرتے ہیں ۔ لہٰذا اس کے شریک ٹھہرانے کی کوئی وجہ نہیں ہے اسی لیے تو اللہ نے ان دلائل سے قبل فرما دیا اللہ خیراما یشرکون ( آیت : 95) کیا خدا تعالیٰ کی ذات بہتر ہے یا وہ جن کو یہ شریک بناتے ہیں ؟ علم محیظ خاصہ خداوندی ہے منجملہ ان خصوصیات کے جو معبود بر حق میں پائی جاتی ہیں ایک یہ بھی ہے جو اللہ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ تمام چیزوں کا کلی علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ۔ الوہیت کی ایک خصوصیت خالق ہونا ہے۔ الٰہ بھی وہی ہوگا جو ہر چیز کا خالق ہے ۔ سورة یونس میں فرمایا قُلْ ھَلْ مِنْ شُرَکَآئِکُمْ مَّنْ یَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ (آیت : 43) اے پیغمبر ! آپ ان سے پوچھیں کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جس نے سب سے پہلے پیدا کیا اور پھر وہ اس کا اعادہ کرے گا ۔ فرمایا آپ یہ بھی کہہ دیں کہ اللہ ہی اولا ً پیدا کرنے والا ہے اور وہی اس کو لوٹائے گا ۔ اس طرح سورة فاطر میں فرمایا اللہ کے انعامات کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیے ھل من خالق غیر اللہ ( آیت : 3) کیا اللہ کے علاوہ بھی کوئی خالق ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے روزی پہنچاتا ہے ؟ صفت ِخلق کے علاوہ قادر مطلق ہونا بھی الوہیت کی صفت ہے ۔ ہر چیز پر قدرت رکھنا اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے اِنَّ اللہ عَلٰی کُلِّ شََیْئٍ قَدِیْرٌ (البقرہ : 02) ہر چیز پر صرف اللہ ہی قدرت رکھتا ہے۔ پھر علیم کل ہونا یعنی ذرے ذرے کا علم ہونا بھی اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ واللہ بکل شی علیم ( البقرہ 282) ہر چیز کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وکان اللہ بکل شی محیطا ً ( النسائ : 621) اللہ تعالیٰ ہی ہرچیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ قدرت کے لحاظ سے احاطہ ہو یا علم کے لحاظ سے یہ بہرحال اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے۔ عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ غیر مرنی ہے یعنی وہ کھائی نہیں دیتا ۔ یہ بھی اس کی صفات میں سے ہے۔ نافع اور ضار ہونا مختار کل ہونا ، علیم کل ہونا ، خالق ہونا ، یہ سب الوہیت کی صفات مختصر ہیں ۔ اسی طرح علم محیط بھی الوہیت کی صفات میں سے ہے۔ جس ذات میں یہ صفات نہ پائی جائیں وہ کیسے الٰہ ہو سکتا ہے ؟ حافظ ابن حجر عسقلانی (رح) نے شرح بخاری میں حضرت موسیٰ اور خضر (علیہما السلام) کا واقعہ نقل کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اللہ کے یہ نیک بندے جس کشتی پر سوار تھے اس کے کنارے پر ایک چڑیا آ کر بیٹھ گئی ۔ اس نے سمندر میں چونچ مار کر ایک آدھ قطرہ پانی کا لیا تو خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے خطاب کرتے ہوئے یموسی ما علمی و علمک فی جنب علم اللہ الا کمثل ھذا العصفور یعنی اے موسیٰ (علیہ السلام) ! میرے اور تیرے علم کی مثال اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے اس چڑیا نے سمندر سے پانی حاصل کرلیا ہے۔ بات دراصل یہ تھی کہ ایک شخص موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا اور دریافت کیا کہ کیا روئے زمین پر آپ سے زیادہ علم الا بھی کوئی ہے ؟ تو آپ نے فرمایا ، نہیں ۔ بس اسی میں آپ کی آزمائش آگئی ، کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس بات کو اللہ کی طرف کیوں نہیں لوٹایا اور خود ہی سب سے بڑے عالم بن بیٹھے۔ انہیں چاہئے تھا کہ کہتے اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ فی الواقع اس وقت اللہ کے دین اور شریعت کو سب سے زیادہ جاننے والے موسیٰ (علیہ السلام) ہی تھے لیکن پھر بھی ان کی گرفت ہوگئی اذ لم یرد العلم الی اللہ کہ انہوں نے علم کی بات کو اللہ کی طرف کیوں نہ لوٹایا ۔ بہر حال اسی سلسلے میں آپ کو لمبا چوڑا سفر اختیار کرنا پڑا اور پھر خضر (علیہ السلام) نے اپنے اور ان کے علم کی مثال بھی بیان کی کہ کل مخلوق کے مقابلے میں اللہ کے علم کی نسبت قطرے اور لاکھوں مربع میل پر محیط سمندر جتنی بھی نہیں ۔ خدا تعالیٰ کا علم ازل سے لے کر ابد تک ذرے ذرے پر محیط ہے اور یہ الوہیت کی صفت خاصہ جو کسی دوسری مستی میں نہیں پائی جاتی۔ نبی اور علم غیب حافظ ابن حجر (رح) فرماتے ہیں کہ انبیاء (علیہم السلام) پوری بنی نوع انسان میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہوتے ہیں ۔ ان کو وحی کے ذریعے علم حاصل ہوتا ہے۔ ابنیاء کے عقل و حواس اور اعضاء وجوارح بھی بڑے کامل درجے کے ہوتے ہیں ۔ اللہ ان کو معصومہ بناتا ہے ، وہ ابتداء سے ہی اللہ کی حفاظت میں ہوتے ہیں اور ان سے گناہ نہیں سر زد ہونے دیا جاتا ۔ اگر کوئی معمولی سی لعزش ہوجائے تو فوراً تنبیہ کردی جاتی ہے ، کسی نبی کو کسی غلطی پر ٹکنے نہیں دیا جاتا ۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ ان تمام تر کمالات کے باوجود لا یعلمون الغیب الا ما علمھم اللہ وہ غیب کا علم نہیں رکھتے سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ ان کو سکھا دیتا ہے غیب کا جاننا اللہ تعالیٰ کی صفت مختصر ہے۔ حضور خاتم النبیین ﷺ کا ارشاد اوتیت علم الاولین والاخرین مجھے اولین اور آخرین کا علم دیا گیا ہے۔ بلا شبہ آپ تمام انبیاء اور ساری مخلوق سے زیادہ علم رکھتے ہیں اس کے باوجود آپ کو عالم الغیب کہنا درست نہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو دین اور شریعت کا علم مکمل طور پر دیتا ہے۔ کائنات کی بعض چیزوں کے متعلق بھی بہت کچھ علم دیتا ہے مگر ذرے ذرے کا علم نہیں کہ اللہ نے اس کی نفی فرمائی ہے اللہ کا فرمان ہیوَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَایَعْلَمُھَآ اِلَّا ھُوَ (الانعام : 95) غیب کی چابیاں خدا تعالیٰ کے پاس ہیں ۔ اس کے سوا غیب کوئی نہیں جانتا۔ سورة لقمان میں پانچ چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کا علم صرف اللہ کے پاس ہے ، اور وہ یہ ہیں کہ (1) قیامت کب برپا ہوگی (2) بارش کب اور کتنی ہوگی (3) ماں کے پیٹ میں کیا ہے۔ (4) انسان کل کیا کریگا (5) کس کی موت کہاں واقع ہوگی۔ البتہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو غیب کی بعض باتوں پر مطلع کردیتا ہے مگر کسی ایسے شخص پر عالم الغیب ہونے کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ اس میں اسشتباہ واقع ہوتا ہے اور اشتباہ میں کسی کو عالم الغیب نہیں کہہ سکتے۔ دیکھ لیجئے اللہ نے اپنے پیغمبر سے شعرو شاعری کی صریح الفاظ میں نفی کی ہے وَمَا عَلَّمْنٰـہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہٗ (یٰسین : 69) ہم نے اپنی نبی کو شعر کا علم نہیں سکھایا اور نہ وہ اس کی شایان شان ہے شعر و شاعری کا شعبہ بڑا وسیع ہے مگر نبوت کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ اسی طرح کہانت اور سحر کا علم اللہ تعالیٰ نے کس نبی کو نہیں دیا ۔ ہاں حلال و حرام ، جائز و ناجائز اور اصلاح سے متعلق تمام باتیں آپ کو بتلا دی گئی ہیں ۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ ما من شیء یقربکم الی لجنۃ ویبا کم من النار الا انباء تکم بہ کوئی ایسی چیز نہیں جو تمہیں جنت سے قریب کر دے اور دوزخ سے دور کر دے مگر میں نے تمہیں بتلا دی ہے۔ لیکن جہاں تک دنیا کے علوم کا تعلق ہے تو یہ سارے نبی کے لیے ضروری نہیں ہیں ، مثلاً دنیاوی فنون از قسم ریاضی ، جغرافیہ ، سائنس ، جہاز رانی وغیرہ اگر آپ نہیں جانتے تو یہ کوئی نبوت کے منافی بات نہیں ہے ، بلکہ اللہ کے نبی نے ہر مضر علم سے پناہ مانگی ہے۔ علم غیب خاصہ خداوندی ہے آج کی پہلی آیت میں ، اللہ نے علم محیط کی صفت کو ہی بیان کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے لا یعلم من فی السموات والارض الغیب الا اللہ آسمان و زمین میں اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ مخلوق سے علم غیب کی نفی سے متعلق بہت سی آیات ہیں ۔ اللہ نے حضور کی زبان سے کہلوایاولا اقول لکم عندی خزئن اللہ ولا علم الغیب (ہود : 13) میں نہیں کہ تاکہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں آپ نے یہ بھی فرمایا وَلَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لاَسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِج صلے وَمَا مَسَّنِیَ السُّوْٓئُ (الاعراف : 881) اگر میں غیب جانتا ہوتا تو فائدے کی بہت سی چیزیں اکٹھی کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی ۔ اگر اللہ کے نبی کو غیب کا علم ہوتا تو آپ اپنے ستر بہترین حفاظ اور قاریوں کو منافقین کے ساتھ نہ بھیج دیتے جنہیں ہنر معونہ کا مقام پر ھوکے سے قتل کردیا گیا ۔ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور ﷺ نے حج کا احرام باندھا یعنی اس وقت آپ نے عمرہ کی نیت نہیں کی اور ساتھ قربانی کے جانور بھی لیے۔ صحابہ کرام ؓ نے بھی آپ کے تباع میں حج کا احترام باندھا ۔ مکہ معظمہ پہنچ کر خیال آیا کہ مشرکین حج کے مہینوں میں عمرہ ادا کرنے کو گناہ سمجھتے ہیں حالانکہ ایسی بات نہیں ہے تو آپ نے مشرکین کے خلاف کرنے کے لیے صحابہ کو حکم دیا کہ جو لوگ قربانی کے جانور ساتھ نہیں لائے وہ حج کے احرام کو عمرہ میں بدل دیا اور عمرہ کر کے حلال ہوجائیں ۔ آپ نے فرمایا اگر میرے دل میں پہلے وہ بات آجاتی جو بعد میں آئی ہے۔ تو میں قربانی کے جانور مدینہ سے نہ لاتا ۔ اور جو طواف وسعی کی ہے اس کی عمرہ میں تبدیل کردیتا ۔ حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں لو الی استقبک من امری ما استد برت لم اسق الھدی وجعلنھا عمرۃ یہ واقعہ بھی حضور ﷺ سے علم غیب کی نفی کرتا ہے۔ غرضیکہ تین سو سے زیادہ نصوص ملتی ہیں جن میں علم غیب مطلق کی نفی کی گئی ہے علم غیب کا اطلاق صرف خدا تعالیٰ کی ذات پر ہوتا ہے۔ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے سوال و جواب کریں گے۔ اے عیسیٰ ابن مریم ! کیا تو نے لوگوں کو کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو اللہ کے سوا معبود بنا لو ؟ تو عیسیٰ (علیہ السلام) عرض کریں گے کہ پروردگار تو پاک ہے۔ بھلا میرے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ میں ایسی بات کروں جس کا مجھے حق نہیں پہنچتا ۔ اگر میں نے ایسی کوئی بات کی ہے تو تو اسے جانتا ہے ، تو میرے دل کی بات کو جانتا ہے مگر میں تیرے جی کی بات کو نہیں جانتا انک انت علامہ الغیوب (المائدۃ : 611) تمام غیبوں کا جاننے والا صرف تو ہی ہے۔ غیب کیا ہے ؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ انبیاء کے لیے علم غیب کا ثبوت قرآن میں موجود ہے وَمَا کَانَ اللہ ُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ وَلٰـکِنَّ اللہ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَّشَآئُ (آل عمران : 971) اللہ تعالیٰ تمہیں غیب اور مطلع نہیں کرتا مگر اپنے منتخب نبیوں میں جس کو چاہے مطلع کردیتا ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس نبی کو چاہے غیب کی بات پر مطلع کردیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اطلاع علیٰ الغیب کے بعد وہ غیب تو نہ رہا غیب کی تو تعریف ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس نبی کو چاہیے غیب کی بات پر مطلع کردیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اطلاع علی الغیب کے بعد وہ غیب تو نہ رہا غیب کی تو تعریف ہی یہ ہے کہ اس کا علم بغیر کسی واسطے یا اطلاع کے ہو ۔ نبی کو اللہ نے وحی کے ذریعے کوئی بات بتلا دی تو وہ غیب نہ رہا ۔ اسی طرح کشف کے ذریعے اولیاء اللہ کو کوئی بات سمجھا دی یا عقلی طور پر کوئی چیز فہم میں ڈال دی تو اس کو غیب نہیں کہہ سکتے ۔ ہاں اس کو اضافی طور پر غیب کہہ سکتے ہیں جیسے خدا تعالیٰ علم الغیب والشھادۃ ہد ( الحشر : 32) ہے یعنی وہ غیب اور حاضر چیز کو جاننے والا ہے مگر یہ غب مخلوق کی نسبت سے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز مخفی نہیں ۔ اس کا اپنا فرمان ہیوَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّکَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآئِ (یونس : 16) تیرے پروردگار سے تو زمین و آسمان کی ذرہ برابر چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ بہر حال علم غیب وہ ہوگا ۔ جو بغیر کسی کے بتلانے یا حواس ظاہر و باطنہ کو استعمال کرنے کے حاصل ہوگا ۔ اور اس کا اطلاق صرف اللہ کی ذات پر ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو کوئی بات بتلا دیتا ہے تو پھر عیب نہیں رہتا ۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ کوئی شخص کسی جگہ ایک وقوعہ مشاہدہ کر کے آتا ہے تو وہ آ کر دوسرے شخص کو بتلا دیتا ہے اب دوسرے شخص نے وہ خود تو نہیں دیکھا اور نہ ہی بغیر بتلانے کا علم ہوا ہے ، لہٰذا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ دوسرے شخص کو علم غیب ہے بلکہ وہ تو اطلاع کرنے سے ہوا ہے اور اطلاع علی الغیب غیب نہیں ہوتا۔ وقوع قیامت کا وقت بہر حال ذرے ذرے کا علم تو فقط خدا تعالیٰ کو ہے ۔ مخلوق کو تو اتنا بھی علم نہیں وما یشعرون یان یبعتون کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ عین وقوع قیامت کا علم اللہ نے اپنے ساتھ مختص رکھا ہے۔ قرآن میں تصریح موجود ہے ۔ لا بجلیھا لوقتھا الاھو ( الاعراف : 781) اس نے اپنے سوا اس کا وقت کسی پر ظاہر نہیں کیا ۔ بل ادرک علمھم فی الاخرۃ بلکہ آخرت کے معاملہ میں ان کا علم گر گیا ہے۔ درک ادرک کا معنی سمجھنا ، پانا یا اکٹھا ہونا ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا حتیٰ اذا درکوا فیھا جمیعا ً ( الاعراف : 83) جب سارے جرم جہنم میں اکٹھے ہوجائیں گے تا ہم اس مقام پر جلے کا معنی بعض مفسرین فرماتے ہیں ان کا علم گر گیا یا ساقط ہوگیا ۔ یعنی کافروں اور مشرکوں کے خیالات مختلف ہیں ۔ کوئی کہتا ہے کہ قیامت آئیگی اور کوئی کہتا ہے کہ بالکل نہیں آئے گی گویا اس معاملہ میں ان کا علم ساقط ہوگیا ہے اور وہ یقینی طور پر کچھ نہیں جانتے۔ امام زمحشری ذلک کا معنی کامل ہونا کرتے ہیں ۔ اس طرح جملے کا معنی یہ بنتا ہے کہ آخرت کے بارے میں ان کا علم کامل ہوچکا ہے۔ وہ اس طرح کہ وہ تمام اسباب ان کے پاس آ چکے ہیں ۔ جن کے ساتھ قیامت کا علم ہو سکتا ہے مگر پھر بھی یہ لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے انکار کر رہے ہیں ۔ وہ ہر چیز کو اپنے سامنے پیدا ہوتے دیکھتے ہیں ۔ انسان اور جانور پیدا ہوتے ہیں ۔ ہر موسم میں نباتات اگتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ پھر ہر فصل کے موقع پر ان کا اعادہ ہوتے بھی دیکھتے ہیں۔ یہ اس بات کے شواہد ہیں کہ وقوع قیامت بعید نہیں ہے اگر کسی چیز کی تخلیق پہلی دفعہ ممکن ہے تو پھر دوبارہ بھی ممکن ہے ۔ اس میں تردید کی کون سی بات ہے ۔ سورة یونس میں ہے انہ یبدو لخلق ثم یعیدہ ( آیت : 4) وہی پیدائش کی ابتداء کرتا ہے اور وہی دوبارہ لوٹائے گا ۔ فرمایا اس کے باوجود جاہل لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں بل ھم فی شک منھا بلکہ وہ تو شک میں پڑے ہوئے ہیں ۔ سورة النباء میں وضاحت موجو ہے عَمَّ یَتَسَآئَ لُوْنَ عَنِ النَّبَاِ الْعَظِیْمِ الَّذِیْ ہُمْ فِیْہِ مُخْتَلِفُوْنَ (آیت : 1 ، 3) یہ کس چیز کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ بہت بڑی خبر یعنی قیامت کے بارے میں الذی ھم فیہ مختفون ( آیت : 3) جس کے متعلق وہ اختلاف کرتے ہیں ۔ کوئی کہتا ہے کہ آئے گی اور کوئی انکار کرتا ہے۔ یہ لوگ قیامت کے وقوع کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ دل کے اندھے فرمایا : بل ھم منھا عمون بلکہ یہ لوگ آخرت کے بارے میں اندھے ہیں ۔ عمون کا معنی ظاہری آنکھوں کا اندھا پن نہیں بلکہ ان لوگوں کے دل اندھے ہیں جن میں صحیح بات نہیں سماتی ۔ سورة الحج میں ہیفَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰـکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ (آیت : 64) ان کی آنکھیں اندھی نہیں ہیں بلکہ سینوں میں رکھے ہوئے دل اندھے ہیں قوم نوح کے متعلق بھی فرمایا انھم کانوا قوما ً عمین ( الاعراف : 46) وہ ساری کی ساری قوم ہی اندھی تھی ۔ حضور ﷺ کا فرمان مبارک ہے۔ شر العمی عمی القلب بد ترین اندھا پن دل کا اندھا پن ہے۔ ظاہر ی آنکھوں سے محروم بعض لوگ تو بڑے اچھے اچھے کام بھی کر جاتے ہیں بعض لوگوں کے علمی کاموں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ان لوگوں نے علم کی بڑی خدمت کی ہے۔ یہ تو ظاہری نقس ہے کہ انسان آنکھوں سے محروم ہے مگر اصل اندھا تو وہ ہے جس کا دل اندھا ہے یعنی اس میں کفر شرک اور بد عقیدگی بھری ہوئی ہے۔ ایمان کا تصور موجود نہیں ہے اور وہ ہدایت کی بات کو سمجھنے سے عاری ہیں ۔ بہر حال منکرین قیامت کے متعلق فرمایا کہ ان کے پاس علم کے تمام اسباب پہنچ چکے ہیں ۔ مگر اس کے باوجود یہ لوگ شک و تردد میں پڑے ہوئے ہیں ۔ گویا ان کے دل اندھے ہیں جسکی وجہ قیامت کا انکار کر رہے ہیں۔
Top