Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Naml : 7
اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِاَهْلِهٖۤ اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا١ؕ سَاٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ اٰتِیْكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ
اِذْ
: جب
قَالَ
: کہا
مُوْسٰي
: موسیٰ
لِاَهْلِهٖٓ
: اپنے گھر والوں سے
اِنِّىْٓ
: بیشک میں
اٰنَسْتُ
: میں نے دیکھی ہے
نَارًا
: ایک آگ
سَاٰتِيْكُمْ
: میں ابھی لاتا ہوں
مِّنْهَا
: اس کی
بِخَبَرٍ
: کوئی خبر
اَوْ اٰتِيْكُمْ
: یا لاتا ہوں تمہارے پاس
بِشِهَابٍ
: شعلہ
قَبَسٍ
: انگارہ
لَّعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تَصْطَلُوْنَ
: تم سینکو
جب کہا موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے گھر والوں سے تحقیق میں نے محسوس کی ہے آگ ، عنقریب میں لاتا ہوں تمہارے پاس آگ سے خبر یا لاتا ہوں میں تمہارے پاس شعلہ سلگا کرتا کہ تم سینک سکو
ربط آیات سورۃ ہذا کی ابتدائی آیات میں قرآن کریم کی حقانیت اور صداقت کا ذکر تھا کہ یہ خدائے حکیم وعلیم کی طرف سے پیغمبر پر نازل کیا گیا ہے اور یہ اہل ایمان کے لیے ہدایت اور خوش خبری ہے ، پھر ایمان والوں کی بعض صفات بھی بیان کیں کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور آخرت پر پورا پورا یقین رکھتے ہیں ، پھر منکرین آخرت کی سزا کا ذکر بھی بنوا کہ اس دنیا میں ان کے اعمال کو مزین کر کے دکھایا جاتا ہے اور یہ لوگ آخرت میں سخت نقصان اٹھانے والے ہوں گے ۔ اس کے بعد آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی کے ایک گوشے کو بےنقاب کیا ہے ۔ اس واقعہ میں پیغمبر آخرالزمان کے لیے تسلی بھی ہے اور اللہ کی قدرت کا نمونہ بھی ، دوسری طرف اللہ نے نافرمانوں کا حال بھی بیان فرمایا ہے جنہوں نے ظلم اور تکبر کی بناء پر اللہ کی طرف سے آمدہ ہدایت کو ٹھکرا کر گمراہی کو قبول کیا ، اللہ نے اشارتا ً ان کا انجام بھی بیان فرمایا ہے۔ مدین سے مصر کا سفر ارشاد ہوتا ہے ، اس وقت کو دھیان میں لائو اذ قال موسیٰ لا ھلہ جب کہ کہا موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے گھر والوں سے یہ واقعہ مدین سے مصر واپس آتے ہوئے دوران سفر پیش آیا ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعونیوں کے حالات قرآن پاک میں مختلف انداز میں بیان ہوئے ہیں کبھی آپ کا واقعہ ابتدائی زندگی سے شروع ہوتا ہے اور کبھی درمیان سے ، گزشتہ سورة الشعراء میں بھی آپ کا ذکر اس وقت سے شروع ہوا تھا جب آپ کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کے پا س تبلیغ حق کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کیا اب بس مقام پر واقعہ تھوڑا پیچھے سے شروع کیا گیا ہے ایک قبطی کے قتل کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) مدین چلے گئے ۔ وہاں دس سال تک حضرت شعیب (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر رہے پھر آپ نے اپنی والدہ اور بھائی سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو شعیب (علیہ السلام) نے اجازت دے دی اور آپ کی بیوی کچھ بکریاں اور خادم بھی ہمراہ کر دے ، سردی کا موسم تھا ۔ رات کے وقت آگ کی ضرورت محسوس ہوئی ، مگر چقاق نے اپنا کام نہ کیا ۔ آپ نے دور سے آگ سلگتی ہوئی دیکھی تو وہاں جانے کا ارادہ کیا ۔ اس موقع پر آپ نے اپنے گھر والوں سے یا شاید کوئی بچہ بھی ہو ، آپ نے ان سے فرمایا انی انست ناراً میں نے دور آگ محسوس کی ہے ، لہٰذا تم لوگ یہیں ٹھہرو۔ ساتیکم منھا بخیر میں وہاں سے تمہارے لیے کوئی خبر لاتا ہوں ۔ ظاہر ہے کہ راستہ صحیح پر معلوم نہیں تھا ، آپ نے سوچا کہ جہاں آگ جل رہی ہے وہاں کچھ لوگ ہوں گے جن سے راستہ بھی معلو کیا جاسکے گا اس لیے آپ نے فرمایا کہ میں کوئی خبر لاتا ہوں ای اتیکم بشھاب قبس یا آگ کا کوئی شعلہ سلگا کر تمہارے پاس لاتا ہوں لعلکم تضطلون تا کہ تم اسے سینک سکو ، ظاہر یہ کہ شدید سرد رات میں گرمی کی ضرورت بھی محسوس ہو رہی تھی ، چونکہ چقماق نے آگ نہیں پکڑی تھی اس لیے آپ نے وہاں سے کوئی شعلہ لا کر آگ جلانے کا ارادہ ظاہر فرمایا ۔ آگ سینکنے کی ضرورت ہر سرد علاقے میں پڑتی ہے ۔ طور کا علاقہ بھی سرد علاقہ ہے جہاں آگ کی ضرورت محسوس ہوئی ، ویسے بھی عربی کا مقولہ ہے النار فاکھۃ الشتاء فمن رد الکل الفوا کہ شاتیا فلیصطلی آگ موسم سرما کا پھل ہے ، جو کوئی یہ پھل کھانا چاہے اسے چاہئے کہ آگ سینک لے ، بہر حال موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم یہیں ٹھہرو ، میں کوئی راستے کی خبر لاتا ہوں آگ جلانے کے لیے کوئی شعلہ ہی سلگا لاتا ہوں۔ با برکت آگ فلما جاء ھا پس جب موسیٰ (علیہ السلام) اس آگ کے پاس آئے تو دی ان بورک من فی النار تو آپ کو آواز دی گئی کہ برکت دی گئی اس کو جو اس آگ کے اندر ہے ۔ ومن حولھا اور جو اس کے ارد گرد ہے ۔ من موصولہ ہوتا ہے اور معنی یہ بنتا ہے کہ آگ کے اندر کون ہے ؟ تا ہم مفسرین کرام نے اس جملے کی تشریح مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے ۔ بعض مفسرین اس من کو تصور کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جملے کا معنی یہ ہے کہ آگ اور اس کے ارد گرد میں برکت دی گئی ہے یعنی آگ اور اسکا ماحول بابرکت ہے ۔ بعض فرماتے ہیں کہ آگ کے اندر فرشتے تھے جن سے آگ ظاہر ہو رہی تھی اور جن کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ با برکت تھے ۔ اور بعض اس کا معنی یوں کرتے ہیں کہ برکت دی گئی ہے اس شخص کو جو آگ کی تلاش میں آیا ہے ، اس سے خود موسیٰ (علیہ السلام) کی ذات مراد ہے اور وہ خطہ بھی با برکت ہے ۔ جہاں یہ آگ نظر آ رہی تھی سورة طہٰ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے موسیٰ ! میرے تیرا پروردگار ہوں اپنے جوتے اتار دو انک بالود لمقدس طوی ( آیت : 21) کیونکہ آپ طوی کی مقدس وادی میں پہنچ چکے ہیں یہ جوتے اتارنے کا حکم ایسا ہی ہے جیسے مسجد جیسی پاکیزہ جگہ پر جوتے اتارنے کا حکم ہے ، بعض اس کو حجاب ناری یا نوری کہتے ہیں ۔ مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے حجابہ النار او النور خدا تعالیٰ کا حجاب نار ہے یا نور ہے اگر اللہ تعالیٰ اس حجاب کو ہٹا دے تو کائنات کی ساری چیزیں جل جائیں ۔ اللہ کی نگاہ تو ہر چیز پر پڑ رہی ہے ، اگر یہ حجاب دور ہوجائے تو کوئی چیز بھی سلامت نہ رہے۔ عقید ہ حلول کی نفی بہر حال مفسرین کرا م فرماتے ہیں کہ من فی النار سے مراد خود موسیٰ (علیہ السلام) یا فرشتے یا وہ خطہ ہے جس کو اللہ نے با برکت کہا ہے ۔ اسی لیے آگے یہ بھی فرمایا ہے وسبحن اللہ رب العالمین اور اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے جو تمام کائنات کا ربی ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا تنزیہہ بھی بیان کی گئی کہ کہیں کوئی شخص یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ خدا تعالیٰ خود اس آگ میں حلول کر گیا تھا ۔ خدا تعالیٰ تو زمان و مکان اور جہت سے منزہ ہے ، لہٰذا اس کے حلول کر جانے کا عقیدہ قطعا ً باطل ہے ، یہ عیدہ ہنود میں بھی پایا جاتا ہے وہ بھی کہتے ہیں کہ بعض چیزوں میں خدا حلول کرجاتا ہے ۔ عیسائیوں نے بھی یہ باطل عقیدہ بنا رکھا ہے کہ خدا تعالیٰ کا ظہور مسیح (علیہ السلام) کے روپ میں ہوا یعنی نا سوت کے اندر لاہوت داخل ہوگیا ۔ یہ مشر کا نہ عقیدہ ہے اور اسی سے بچنے کے لیے مفسرین کرام نے من سے فرشتے ، موسیٰ (علیہ السلام) کی ذات مراد لیا ہے خواہ علی ہجویری (رح) نے اپنی کتاب کشف المحجواب 1 ؎ میں ذکر کیا ہے کہ صوفیا کے بارہ فرقے ہیں ۔ ان میں سے دس فرقے اہل حق میں سے اور دو گمراہ ہیں ۔ یہ وہی گمراہ فرقے ہیں جو حلولی عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کسی پیغمبر ، ولی یا بزرگ کی شکل میں حلول کرسکتا ہے ۔ 1 ؎۔ کشف المحجوب فارسی ص 381 ( فیاض) بعض وحدت الوجود والوں کا عقیدہ بھی ایسا ہی ہے ، اس میں بھی کئی طبقے ہیں ۔ بعض اہل حق ہیں اور بعض گمراہ اور زندیق ہیں بہر حال حلولی عقیدہ باطل ہے ، موسیٰ (علیہ السلام) کو نظر آنے والی آ گ تو آواز سنانے کا ایک ذریعہ قتی نہ کہ خود خدا تعالیٰ اس میں حلول کر گیا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) سے خطاب اس ابتدائی آواز کے بعد دوسری آواز سنائی دی ۔ اللہ نے فرمایا یموسی انہ انا اللہ العزیز الحکیم اے موسیٰ ! میں اللہ ہوں عزیز اور حکیم ۔ بعض آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آواز بےکیف تھی ۔ اس کی کوئی جہت نہیں تھی جبکہ ہر ذرے ذرے سے آواز سنائی دے رہی تھی ، پھر الہل نے حکم دیا والق عصاک اور اپنی لاٹھی کو نیچے پھینک دیں ۔ تعمیل حکم میں موسیٰ (علیہ السلام) نے لاٹھی پھینک دی فلما راھا تھن کا نھا جان پھر جب آپ نے اس کی طرف دیکھا تو گویا کہ وہ سانپ تھا جو دوڑ رہا تھا ۔ جان پتلے اور لمبے سانپ کو کہتے ہیں ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی لاٹھی سانپ کا روپ دھار چکی تھی یہ دیکھ رک ولی مدبر اموسیٰ (علیہ السلام) پشت پھیر کر بھاگے ولم یعقب اور آپ نے پیچھے پلٹ کر بھی نہ دیکھا ، اتنے خوفزدہ ہوئے ۔ اللہ نے آپ کو تشویش کو دیکھتے ہوئے فرمایا یموسیٰ لا تخفف اے موسیٰ (علیہ السلام) ! خوف نہ کھائیں کیونکہ انی لا یخاف ندی المرسلون میرے پاک رسول خوف نہیں کھاتے اللہ کے رسول مقام قرب میں ہوتے ہیں اور ان پر انس ہوتا ہے وحشت نہیں ہوتی ، وہ ڈرتے نہیں الامن ظلم مگر جس سے کوئی لغزش ہوگئی ہو ثم بدل حسنا بع سوء پھر اس نے اس کو اچھائی میں بدل لیا ہو برائی کے بعد فانی غفور رحیم تو میں اس کو معاف کرنے والا اور مہربان ہوں ، چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) سے ایک لغزش ہوگئی کہ انہوں نے ایک قطبی کو قتل کردیا ۔ پھر انہوں نے اللہ سے معافی کی درخواست کی تو اللہ نے معاف بھی کردیا ۔ اس طرح گویا اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا۔ انبیاء پر خوف کا ورود انبیاء (علیہم السلام) پر ورود خوف کے متعلق مولانا اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ کھانا پینا ، ہنسنا رونا ، زندگی موت ، خوف اور راحت وغیرہ انسان کے امور طبیعت میں داخل ہیں اور ان کا ورود انبیاء پر بھی ہوتا ہے بعض اوقات کسی دشمن کا خوف ہوتا ہے کوئی حادثہ پیش آجاتا ہے تو ایسے مواقع پر خوفزدہ ہونا کمال کے منافع نہیں ہے بلکہ عین فطرت ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ خوف کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک خالق کی جانب سے اور دوسرا مخلوق کی طرف ہے ۔ اگر خوف اللہ کی جانب سے ہو تو نبی کو بھی ڈرنا چاہئے ۔ لاٹھی کا سانپ بن جانا منجانب اللہ تھا لہٰذا موسیٰ (علیہ السلام) کی خوفنزدہ کی بالکل درست تھی ، انہیں ڈرنا ہی چاہئے تھا ۔ خود حضور ﷺ کے متعلق آتا ہے کہ جب بادل چھا جاتے تو آپ خوفزدہ ہوجاتے ۔ اس خوفزدگی میں کبھی اندر آتے اور کبھی باہر جاتے ۔ جب تک بارش نہیں ہوجاتی تھی ۔ آپ چین سے نہیں بیٹھتے تھے آپ فرمایا کرتے تھے کہ ابر کی آمد خدا تعالیٰ کی جانب سے ہوتی ہے اور میں خوف کھاتا ہوں کہ کہیں یہ ویسے ہی بادل نہ ہوں جیسے قوم عاد پر آئے تھے اور ان کو ہلاک کردیا تھا ، بر خلاف اس کے ابراہیم (علیہ السلام) کو جب آگ میں پھینکے جانے کا وقت آیا تو آپ بالکل خوفزدہ نہیں ہوئے ، کیونکہ یہ خوف مخلوق کی طرف سے تھا۔ بہر حال اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا کہ خوف نہ کھائو کیونکہ تیرے ہاں اللہ کے رسول خوف نہیں کھاتے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ پر پہلا معجزہ یہ ظاہر ہوا کہ انہوں نے اپنی لاٹھی پھینکی تو وہ دوڑتا ہوا سانپ بن گئی۔ پھر اللہ نے دوسرا معجزہ اس طرح ظاہر کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا وادخل یدک فی جیبک اپنے ہاتھ کو اپنی بغل میں دبائو تخرج بیضاء یہ سفید ہو کر نکلے گا اور ایسا بیف بھی نہیں ہوگا جو کسی بیماری پھلبہری وغیرہ سے سفید ہوگیا ہو بلکہ من غیر سوء اس میں کسی قسم کی برائی یا خرابی نہیں ہوگی ، بلکہ وہ تو معجزانہ طور پر سورج کی طرح چمکتا ہوگا ۔ اور فرمایا فیی تسمع آیت الی فرعون وقومہ یہ ان نو نشانیوں میں سے ہیں جو موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون اور اس کی قوم کی طرف دی گئیں ۔ اس کے علاوہ سات مزید نشانیاں بھی اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی عطا فرمائیں جن کا ذکر سورة الاعراف 1 ؎۔ مسلم ص 59 ج 1 ص (فیاض) میں موجود ہے ۔ فرمایا یہ نشانیاں لے کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف جائو کیونہ انھم کانو قوما فسقین وہ بڑے نافرمان لوگ ہیں ، حد سے گزرنے والے یعنی فرمانبرداری سے باہر نکلنے والے ہیں۔ اس مقام پر اپنے ساتھ اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کی معیت کا ذکر نہیں کیا گیا۔ مفصل سورة الشعراء ، طہٰ اور اعراف وغیرہ میں گزر چکے ہیں ۔ یہاں پر اختصار کے ساتھ یہی بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ عصا اور یا بیضا کے معجزات لے کر فرعون اور اس کی قوم کے پاس جائو اور انہیں حق کی دعوت دو ۔ فرعون کا انکار ارشاد ہوتا ہے فلما جاء تھم ایتنا مبصرۃ جب فرعون اور اس کی قوم کے پاس ہماری بصیرت افروز نشانیاں آئیں ۔ بصارت آنکھ کی روشنی کو کہتے ہیں جب کہ بصیرت دل کی روشنی سے عبارت ہے۔ اسی لیے قرآنی آیات کو بصائر سے تعبیر کیا گیا ہے کہ یہ دلوں میں روشنی برپا کرتی ہیں ، جب یہ نشانیاں فرعون اور اس کی قوم کے پاس آئیں قالو ھذا سخر مبین تو وہ کہنے لگے کہ یہ تو کھلا جادو ہے ۔ پچھلی سورة میں بھی گزر چکا ہے کہ فرعونیوں نے معجزات کو جادو کہا اور پھر جادو کا مقابلہ جادو سے کر نیکی کوشش کی مگر حق کے مقابلے میں ناکام ہوئے مگر اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کو نہ چھوڑا ۔ ان نشانیوں کو جادو کہہ کر وحجدوا بھا ان کا انکار کردیا ۔ اور ان کا یہ انکارزیادتی اور تکبر کی وجہ سے تھا کہنے لگے یہ شخص ہماری سلطنت چھیننا چاہتا ہے مگر ہم ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ اس کو قید کردیں گے یا جان سے مار ڈالیں گے۔ یہ ان کا ظلم اور تکبر بول رہا ہے ، درمیان میں اللہ نے فرمایا کہ ان کی اندرونی حالت یہ تھی واستقن تھا انفسھم ظلما ً وعلوا انکی جانوں نے معجزات کی حقیقت کا یقین کرلیا تھا۔ وہ دل و جان سے تسلیم کر رہے تھے کہ یہ جادو نہیں ہے بلکہ کوئی غیر معمولی چیز ہے مگر ظلم و زیادتی اور غرور وتکبر کی بناء پر معجزات کا انکار کر رہے تھے ۔ اللہ نے فرمایا ۔ فانظر کیف کان عاقبۃ المفسدین بھلا دیکھو تو ! فساد کرنے والوں کا کیسا انجام ہوا ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے سارا ہا سال تک فرعون اور اس کی قوم کو وعظ کیا ، ان کو ان کے برے انجام سے ڈرایا مگر وہ لوگ کفر ، شرک اور ظلم وتکبر میں مبتلا رہے۔ اللہ کے نبیوں کی بات نہ مانی ، پھر وہ وقت بھی آتا جب اللہ نے ساری قوم کو اپنے غضب کا نشانہ بنایا اور ان کو پانی میں غرق کیا ۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ ذرا دیکھو تو سہی کہ فسادیوں کا انجام کیسا ہوتا ہے۔
Top