Mualim-ul-Irfan - Al-Qasas : 22
وَ لَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَآءَ مَدْیَنَ قَالَ عَسٰى رَبِّیْۤ اَنْ یَّهْدِیَنِیْ سَوَآءَ السَّبِیْلِ
وَلَمَّا : اور جب تَوَجَّهَ : اس نے رخ کیا تِلْقَآءَ : طرف مَدْيَنَ : مدین قَالَ : کہا عَسٰى : امید ہے رَبِّيْٓ : میرا رب اَنْ يَّهْدِيَنِيْ : کہ مجھے دکھائے سَوَآءَ السَّبِيْلِ : سیدھا راستہ
اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے توجہ کی مدین کی طرف تو انہوں نے کہا ، امید ہے کہ میرا پروردگار میری رہنمائی فرمائے گا سیدھے راستے کی
ربط آیات جب موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں ایک قبطی آدمی قتل ہوگیا اور قتل کا الزام بھی آپ پر لگا تو فرعون کے درباریوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس شخص کو سزائے موت دینی چاہئے۔ چناچہ آپ کی گرفتاری کا حکم دے دیا گیا ۔ اسی اثناء میں موسیٰ (علیہ السلام) کے ایک خیر خواہ نے آپ کو اطلاع دے دی کہ فرعون نے آپ کی گرفتاری اور قتل کا حکم دے دیا ہے لہٰذا آپ بلا تاخیر یہاں سے نکل جائیں ۔ موسیٰ (علیہ السلام) فوراً وہاں سے چل دیے ، آپ کو پریشانی بھی لا حق تھی کہ پتہ نہیں اب کیا صورت حال پیش آئے گی اور ضمن میں آپ پیچھے مڑ مڑ کر بھی دیکھتے تھے۔ اندریں حالات آپ نے یہ دعا بھی کی ، پروردگار ! تجنی من القوم الظلمین مجھے ظالم قوم سے بچا لے ۔ اللہ نے آپ کی یہ دعا قبول فرمائی اور آپ کو ایک ایسے راستے پر ڈال دیا جو مدین کی طرف جاتا تھا اور جہاں آپ کو امان حاصل ہو سکتی تھی ۔ اسی زمانے میں فرعون کی عملداری سے باہر قریب ترین علاقہ کا ہی تھا ، لہٰذا آپ اسی طرف چل دیئے۔ مدین کا سفر ارشاد ہوتا ہے ولما توجہ تلقاء مدین جب موسیٰ (علیہ السلام) نے مدین کی طرف توجہ یعنی رخ کیا تو اس کو امید کی اس لش لش کے درمیان قال آپ کی زبان سے یہ نکلا عسی ربی ان یھدینی سواء السبیل امید ہے کہ میرا پروردگار سیدھے راستے کی طرف میری رہنمائی فرمائے گا ۔ آپ منزل کے راستے سے واقف نہیں تھے ، ویسے بھی پریشانی لا حق تھی تو ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ سے رست راستے کی دعا بھی کی ۔ اس شہر سے مدین آٹھ دس دن کی مسافت پر تھا۔ آپ بےسرو سامانی کی حالت میں چل دیے ، نہ کوئی توسہ اندر دیگر زا و سفر ، آپ اللہ کے بھروسے پہ تن تنہا چلتے رہے۔ راست میں شکم پروری کے لیے درختوں اور جھاڑیوں کے پتوں اور گھاس پھونس کے سوا کچھ نہیں تھا۔ آپ اسی حالت میں دس دن کے سفر کے بعد مدین پہنچ گئے۔ دوران سفر کے تفصیلی حالات کا ذکر قرآن پاک نے نہیں کیا ۔ البتہ وہاں پر پہنچ جانے کے بعد کے حالات کا ذکر ہے۔ فرمایا ولما ورد ماء مدین جب آپ مدین کے پانی یعنی کنویں پر پہنچے وجد علیہ امۃ من الناس یسقون تو آپ نے واں پر لوگوں کی ایک جماعت کو پایا جو جانوروں کو پانی پلا رہے تھے۔ مفسرین کرام 1 ؎ فرماتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے چل کر خلیج عقبہ کے کنارے مدین پہنچے یہاں پر آنے کا خیال اللہ نے آپ کے دل میں اس لیے ڈالا کہ آپ کو اس مقام کے ساتھ کچھ مناسبت بھی تھی ۔ مدین کی بستی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے مدین کے نام پر موسوم تھی ۔ چونکہ موسیٰ (علیہ السلام) بھی ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے ، لہٰذا ادھر آنے میں آپ کے لیے اللہ نے ایک خاص کشش پیدا کردی تھی ۔ اب مدین کی بستی تو وہاں موجود نہیں البتہ اس کے کھنڈرات پائے جاتے ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے سیاح اب بھی جاتے ہیں وہاں کے مقامی لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے کے تاریخ مقامات کی نشاندہی کرتے ہیں اور اس سلسلے میں دو کنوئیں بھی دکھاتے ہیں جو اب ویران ہوچکے ہیں۔ ان میں سے ایک کنوئیں سے موسیٰ (علیہ السلام) نے پانی نکال کر شعیب (علیہ السلام) کی بکریوں کو پلایا تھا۔ اس زمانے کے لوگ پانی کی ضروریات اسی کنویں سے پوری کرتے تھے۔ 1 ؎۔ قرطبی ص 862 ج 31 ( فیاض) شعیب (علیہ السلام) کی …… بہر حال موسیٰ (علیہ السلام) دس دن کے سفر کے بعد تکے مانے مدین کے کنوئیں پر پہنچے۔ لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے۔ ووجد من دونھم امراتین تذورن ان لوگوں کے علاوہ آپ نے دو عورتوں کو دیکھا جو اپنے جانوروں کو پانی پر جانے سے روک رہی تھیں ۔ موسیٰ (علیہ السلام) تو شروع سے ہی کمزوروں کے حامی اور ظالموں کے دشمن تھے ، یہ ماجرا دیکھ کر وہ رہ نہ سکے اور ان دو عورتوں کی طرف متوجہ ہوئے قال ما خطبکما کہنے لگے تم دونوں کا کیا حال ہے یعنی کیا وجہ ہے کہ تم اپنی بکریوں کو پانی کی طرف جانے سے روک رہی ہو۔ جب کہ انہیں بھی پانی کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے اپنی مجبوری کا اظہار کیا قالتا لانسقی حتی یصدر الرعاء دونوں نے کہا کہ ہم اپنے جانوروں کو اس وقت تک پانی نہیں پلا سکتیں ، جب تک یہ چرواہے اپنے جانوروں کو سیراب کر کے چلے نہ جائیں ۔ ہم اپنے جانوروں کو اس لیے روک رہی ہیں کہ یہ چرواہے فارغ ہو کر چلے جائیں تو بچھا کھچا پانی ہم بھی اپنی جریوں کو پلا لیں ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وابونا شیخ کبیر اور ہمارا باپ بوڑھا اور عمر رسیدہ آدمی ہے۔ وہ اس قابل نہیں کہ مشقت کا کام کرسکے لہٰذا باہر مجبوری جانوروں کی دیکھ بھال ہمیں کرنا پڑتی ہے۔ یہ سن کر موسیٰ (علیہ السلام) کا دل بھر آیا ۔ اگرچہ وہ خود طویل سفر کر کے تھکے ہارے پہنچے تھے مگر انہوں نے لڑکیوں کی مدد کرنا ضروری سمجھا فسقی لھما چناچہ آپ نے ان کے جانوروں کو پانی نکال کر پلایا ، چونکہ آپ کو عنقرب نبوت ملنے والی تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ آپ کو مختلف آزمائشوں میں ڈال رہا تھا ، سورة طہٰ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وفتنک فتونا ( طہٰ : 04) ہم نے تمہیں مختلف طریقوں سے آزمایا مصر سے مدین تک کا طویل سفر بھی آپ کی آزمائش تھی ۔ اس سے پہلے پیدائش کے وقت بھی آپ کی آزمائش ہوئی تھی ۔ اس کے بعد بھی آپ کو بار بار آزمائش میں ڈالا گیا اور آپ ہر بار سرخرو ہوتے ۔ آپ کی اس غریب الوطنی کے باوجود آپ کے دل میں شفقت کا جذبہ بیدا ہوا اور آپ نے ان عورتوں کے جانوروں کو پانی پلایا انبیاء کے جذبات ایسے ہی پاکیزہ ہوتے ہیں ۔ وہ خود بھوکے پیاسے رہ کر بھی دوسروں کو کھلا تے پلاتے ہیں ، ان کی نت اور عزائم نیک ہوتے ہیں ، لہٰذا وہ غریب الوطنی میں بھی مستحقین کی مدد کرنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں ۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی یہی کام کیا ۔ حضرت عمر ؓ سے منقول 1 ؎ ہے کہ اس علاقے کے چرواہے جب اپنے جانوروں کو پانی پلا لیتے تھے تو کنوئیں پر بھاری پتھر رکھ جاتے تھے تا کہ کوئی دوسرا پتھر پانی نہ نکال سکے وہ پتھر دس آدمی بھی مل کر بمشکل ہٹاتے تھے ، مگر موسیٰ (علیہ السلام) نے تن تنہا اس پتھر کو سرکا کر پانی کا ایک ڈول نکالا اور بکریوں کو پلایا۔ مرد و زن کے لیے دائرہ ہائے کار اس آیت کریمہ سے لڑکیوں کی مجبوری کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ مخصوص حالات کی بناء پر بکریوں کی دیکھ بھال کر رہی تھی ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ مشقت کے تمام کام مردوں کی ذمہ داری ہے نہ کہ عورتوں کی کھیتی باڑی ، تجارتی سفر ، کان کنی ، حیوانات کی پرورش وغیرہ مردوں کے ذمے ہے۔ اللہ نے مردوں اور عورتوں کے لیے مختلف دائرہ ہائے کار متعین فرمائے ہیں ۔ باہر کا کام مردوں کے ذمے ہے۔ جب کہ گھر کی چار دیواری کے نذر بچوں کی دیکھ بھال اور امور خانہ داری عورتوں پر عائد ہوتے ہیں ۔ آج مغربی تہذیب کے شیدائی محض پراپیگنڈا کے زور پر مرد و زن کو شانہ بشانہ کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ دونوں اصناف کے حقوق و فرائض مختلف ہیں اور ان کا اختلاط معاشرے میں بےراہ روی کا باعث بن رہا ہے ۔ اس حد تک تو درست ہے کہ بحیثیت انسان ہونے اور مکلف ہونے کے مرد و زن برابر ہیں ، مگر صنف کے اعتبار سے دونوں میں فرق ہے ایک صنف نازک ہے اور دوسری مشتاق ، برابری کا تصور خلاف فطرت ہے ، ہر صفت کے الگ الگ حقوق اور جدا جدا فرائض ہیں ۔ جو لوگ عورتوں کو معاشرے کے ہر میدان میں کھینچ لانا چاہتے ہیں ، وہ حقوق و فرائض سے تجاوز کرے مرتکب ہوتے ہیں ، اسمبلیوں کی رکنیت ، کارخانوں اور دفتروں کی ملازمت ، پولیس اور فوج میں بھرتی ، کھیلوں کے میدان میں آمد ، صنف نازک کے لیے ہرگز روا نہیں ۔ البتہ جہاں عورت کی حیا داری کو ملحوظ خاطر 1 ؎۔ ابن کثیر ص 383 ج 3 ( فیاض) رکھتے ہوئے اس کے لیے کام کرنا ممکن ہو ، وہاں وہ اپنا فریضہ ادا کرسکتی ہے ، مثلاً لڑکیوں کے سکول و کالج میں تعلیم دے سکتی ہے ، ایسے اداروں میں جہاں مردوں اور عورتوں کا اختلاط نہ ہو ، وہاں جاسکتی ہے ، البتہ جہاد مرد و زن مل کر کام کریں گے وہاں لازماً خرابی پیدا ہوگی ، لہٰذا اس معاملہ میں امریکہ ، روس اور یورپ کی اندھی تقلید کی بجائے اسلامی نقطہ نظر کے مطابق عربی اور فحاشی سے بچ کر بہتر طریقہ کار اختیار کرنا ہوگا ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا آرام کرنا جب موسیٰ (علیہ السلام) ہمدردانہ جذبے کے تحت دو عورتوں کی بکریوں کو پانی پلا چکے ثم تولی الی الظلل پھر آپ سامنے کی طرف پلٹے ، قریب ہی کوئی درخت تھا ، اس کے نیچے بیٹھ گئے ۔ اس سے لڑکیوں نے اندازہ لگایا کہ یہ کوئی مسافر آدمی ہے جس کی یہاں کوئی جان پہچان نہیں ، لہٰذا تھوڑی دیر آرام کرنے کے لیے سائے میں بیٹھ گیا ہے ، ظاہر ہے کہ مسافروں کا گھر بار تو ہوتا نہیں ، وہ ذرا ستانے کے لیے سائے کا ہی رخ کرتے ہیں ، کسی ایسے ہی مسافر نے کہا تھا ؎ بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھائوں گھنی ہوتی ہے ہائے کیا شے غریب الوطنی ہوتی ہے دنیا کے مسافر کی طرح آخرت کا مسافر بھی غریب الوطن ہوتا ہے جو قبر میں تنہا پڑا رہتا ہے ، کسی شاعر نے اس سے یہ تصور باندھا ہے ؎ دن کو نور برستا ہے مری تربت پر اور رات کو چادر مہتاب تنی ہوتی ہے بہر حال موسیٰ (علیہ السلام) چھائوں میں آ کر بیٹھ گئے ، حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے منقول ہے 1 ؎ کہ جب وہ شام و فلسطین گئے تو وہاں سے مدین دو دن کی مسافت پر تھا۔ کہتے ہیں کہ وہاں جانے کے لیے میں نے سواری کو تیز چلایا ، جب وہاں پہنچا تو میں نے وہاں کے ان تاریخی مقامات کے متعلق دریافت کیا ، چناچہ مجھے وہ کنواں دکھایا گیا ، جہاں سے موسیٰ (علیہ السلام) نے پانی نکالا تھا اور وہ درخت بھی جس کے نیچے آپ نے آرام فرمایا تھا ، کہتے ہیں کہ میرے اونٹ نے اس درخت کے کچھ پتے 1 ؎۔ ابن کثیر ص 483 ج 3 و طبری ص 85 ج 02 ( فیاض) بھی کھانے ، مگر وہ اس کے مزاج کے مطابق نہیں تھے لہٰذا پھینک دیئے ، کہتے ہیں کہ میں نے وہاں موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی حالت پر غور کیا اور پھر یہ دعا بھی کی ، فقال رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر کہنے لگے ، اے میرے پروردگار ! تو میری بہتری کے لیے جو کچھ بھی اتارے میں اس کا محتاج ہوں ، موسیٰ (علیہ السلام) نے نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل کی بھیک مانگی ، ذر غور فرمائیں کہ آپ اللہ کے مقرب بندے ہیں مگر اس سے سامنے عاجزی کا اظہار کر رہے ہیں اور اس سے بہتر ی کے طلب گار ہیں ۔ آپ نے مشکل کشائی اور حاجت روائی کا دعویٰ نہیں بلکہ اپنی بےبسی کا اظہار کیا ہے ، اللہ کی ساری مخلوق اس کی محتاج ہے ۔ خواہ وہ فرشتے ہوں ، جنات ہوں ، انسان ہوں ، پیغمبر ہوں یا ولی ہوں ، اس کی رحمت کے بغیر کسی کو جائے پناہ نہیں اللہ کا فرمان ہے یٰٓـاَیُّہَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآئُ اِلَی اللہ ِج وَ اللہ ُ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ (فاطر : 51) لوگو ! تم سب اللہ کے محتاج ہو اور وہ غنی لو اور تعریفوں والا ہے۔ ہر جاندارکھانے ، پینے چلنے پھرنے ، صحت ، آرام حتیٰ کہ سانس لینے تک کے لیے اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے ، اس میں یک و بد کی کوئی تمیز نہیں یسئلہ من فی السموات والارض ( الرحمن : 92) آسمان و زمین کی ساری مخلوق اسی کے در کی سوالی ہے ، با شعور مخلوق زبان قال سے مانگ رہی ہے ، جب کہ بےشعور اشیاء زبان حال سے اپنی حاجت طلب کرتی ہے ، مانگنے والے سب میں مگر دینے والا صرف خدا تعالیٰ ہے ۔ یہ تو انسانوں کی بد بختی ہے جو مخلوق میں سے بعض کو حاجت روا اور مشکل کشا بنا لیتے ہیں ، حالانکہ خدا کے سوا کسی کے کچھ اختیار میں نہیں ، موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اسی لیے کہا تھا کہ تو جو مجھ پر مہربانی کرتے ہیں ، اس کے لیے محتاج ہوں۔ شرم و حیا کی پیکر موسیٰ (علیہ السلام) کو سائے میں بیٹھے ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی فجاء تہ احد لھما تمشی علی استحیاء کہ ان دو لڑکیوں میں سے ایک شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی موسیٰ علیہ السلا م کے پاس آئی ۔ اس ایک لفظ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لیے شرم و حیاء کے مسئلہ کی پوری حقیقت بیان کردی ہے ۔ حیا تو مردوں کے لیے بھی ضروری ہے مگر یہ چیز اللہ نے عورت کی فطرت میں ڈال دی ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے لا ایمان لمن حیاء لہ جس میں حیا نہیں اس میں ایمان بھی نہیں ۔ بہر حال وہ لڑکی شرم و حیا کا پیکر بن کر با پردہ جھکی نظروں کے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئی ۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے بات کرتے وقت اس نے اپنے منہ پر آستین کا پلورکھ لیا تھا۔ شرم و حیا تو عورت کا زیور ہے مگر آج دنیا میں دیکھ لیں کہ اس کو کس طرح پامال کیا جا رہا ہے۔ اخبارات اور رسائل میں عورتوں کی نیک عریاں تصویریں کس قدر بےحیائی کا ثبوت ہے۔ مغربیت اور الحاد نے لوگوں کو کس بےراہ روی پر ڈال دیا ہے۔ اخبارات اور ٹی وی کے ذریعے نئے نئے ڈیزائنوں کی تراش اور میک اپ کے نئے نئے طریقے لوگوں کو کس طرف لے جا رہے ہیں ۔ تمام ذرائع ابلاغ عریانی اور فحاشی کی تشہیر میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ریڈیو ، ٹی وی اور سٹیج پر نسوانی گانوں کی بھر مار ہے۔ ہم اسے ترقی کا زینہ سمجھ رہے ہیں حالانکہ اس پر خدا کی لعنت برس رہی ہے۔ معاشرے میں بےراہ روی پیدا ہوتی ہے ۔ اخلاق بگڑتے ہیں اور نسلیں خراب ہوتی ہیں پہلے یہ فحاش صرف سینما گھروں میں حاصل ہوتی تھی ۔ اب ٹی وی اور وی سی آر کے ذریعے ہر گھر اس کا اڈا بن چکا ہے ۔ ہم مغرب والوں کی کتنی بھی نقالی کرلیں ۔ ان کا مقام حاصل نہیں کرسکتے ، ہم ان سے یہ تباہ کن عریانی اور فحاشی ہی لے سکتے ہیں ورنہ جس ٹیکنالوجی کی ہمیں ضرورت ہے۔ وہ ہرگز دینے پر تیار نہیں ، امداد کے نام پر تیار مال دیں گے۔ اپنے آدمی بطور مشیر بھجیں گے۔ مگر مطلوبہ ٹیکنالوجی دینے کے لیے تیار نہیں کہ کہیں یہ بھی ہمارے ہم پلہ نہ بن جائیں امریکہ کے ساتھ طویل ترین دوستی کے باوجود وہ آپ کو ایٹمی ٹیکنالوجی دینے کے لیے تیار نہیں ۔ فرانس نے کس قدر آمادگی ظاہر کی تھی مگر اس کو بھی روک دیا گیا ۔ تمام بڑی طاقتیں مسلمانوں کی ازلی دشمن ہیں اور وہ انہیں کبھی پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے۔ بلکہ ہمیشہ اپنا دست نگر بنا کر رکھنا چاہتے ہیں ۔ مسلمانوں نے جب بھی کوئی چیز حاصل کی اللہ کے بھروسے پر اپنی ذہانت سے غمیر اقوام کے بھروسے پر کبھی کچھ نہیں ملے گا ۔ یہ تو انسانیت کے دشمن ہیں ، ان کی تہذیب تمدن کو اختیار کرنا اور پھر اس پر فخر کرنا تو لعنت ہے۔ ہمارا تمدن تو قرآن پاک اور اسوہ حسنہ کی تعلیمات میں مضمر ہے۔ حضرت فاطمہ ؓ نے اپنی وفات سے پہلے وصیت کی تھی کہ مجھے رات کے وقت دفن کرنا ، تا کہ میری میت پر بھی کسی غیر مرد کی نگاہ نہ پڑے ، مگر آج ہم جس طرف جا رہے ہیں وہ تباہ کن ہے۔ شعیب (علیہ السلام) کی طرف دعوت بہر حال ان میں سے ایک لڑکی شرم و حیاکا پیکر بن کر آئی ۔ قالت اور موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا ان ابی یدعوک بیشک میرا باپ تجھے بلاتا ہے۔ لیجزیک اجرما سقیت لنا تا کہ وہ آپ کو بدلہ دے اس چیز کا جواب آپ نے ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے۔ مفسرین کرام 1 ؎ بیان کرتے ہیں کہ جب لڑکیاں بکریوں کو پانی پلا کر واپس اپنے گھر گئیں تو ان کے باپ نے پوچھا کہ آج تم اتنی جلدی کیسے آگئیں ؟ انہوں نے بتایا کہ وہاں کنوئیں پر ایک مسافر آ گیا تھا جس نے ہمدردی کے طور پر ہماری بکریوں کو پانی نکال کر پلایا ، اور اب وہ وہاں سائے میں آرام کر رہا ہے ، باپ نے کہا کہ تم نے اسے بلا لیا ہوتا تا کہ ہم اس کو کھانا کھلاتے ، وہ مسافرپتہ نہیں کب سے بھوکاپیاسا ہے ، اور کیسا ہے ؟ بہر حال اس لڑکی نے اپنے با پ کی طرف سے دعوت دی کہ میرا باپ تجھے بلاتا ہے ، کیونکہ اس کا اپنی طرف سے دعوت پسندیدہ معلوم نہیں ہوتا تھا ، اور ادب کا تقاضا بھی یہی تھا کہ بڑوں کو مقدم رکھا جائے۔ 1 ؎۔ کشاف ص 302 ج 3 ( فیاض) لہٰذا اس نے یہی کہا کہ میرا باپ تجھے بلاتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) لڑکی کے کہنے پر چل دیے فلما جاء کا پھر جب وہ اس کے باپ کے پاس پہنچے وقص علیہ نقصص اور اس کے سامنے سارا واقعہ بیان کیا کہ اس طرح میرے ہاتھوں سے قتل ہوگیا ہے ۔ اور فرعونی حکومت مجھے گرفتار کرنا چاہتی ہے ، لہٰذا میں ادھر بھاگ آیا ہوں ۔ آپ کی سر گزشت سن کر اس بزرگ نے کہا قال لا تخف خوف نہ کھائو نجوت من القوم الظلمین تم ظالم قوم کی دست برد سے بچ نکلے ہو ۔ اس علاقے میں فرعون کی عملداری نہیں ہے ، نہ اس کے کارندے یہاں آتے ہیں ، لہٰذا تم بےفکر ہو جائو اللہ نے تمہیں ان کے ظلم سے بچا لیا ہے۔ مفسرین کرام 1 ؎ بیان کرتے ہیں کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) کو کھانا پیش کیا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر کھانا کھانے سے انکار کردیا کہ میں اس خاندان سے تعلق رکھتا ہوں جو نیکی کے کام پر بدلہ نہیں لیا کرتے۔ تو اس بزرگ نے کہا کہ ہماری عادت بھی یہ ہے کہ ہم مسافروں کو ضرو ر کھاناکھلاتے ہیں ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مہمان نوازی کے بہت سے واقعات زبان زد عام ہیں ۔ خود حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے من لم یکرم ضیف فلیس منا جو شخص مہمان کی عزت نہیں کرتا وہ ہمارے گروہ میں سین ہیں ہے۔ واقف کار کی عزت تو کی ہی جاتی ہے ، ناواقف کی مہمان نوازی بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی جانے پہچانے مہمان کی۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ آپ کے صحابہ کرام ؓ آپ کے حکم کے مطابق یحفظون الغریب مسافر کی حفاظت کرتے تھے اور اس کو بھوکا پیاسا نہیں چھوڑتے تھے ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے گھر میں بلانے والے بزرگ کون ہیں ؟ اس کے متعلق 3 ؎ اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے جلیل القدر نبی شعیب (علیہ السلام) ہیں اور بعض دوسرے اصحاب کہتے ہیں کہ آپ شعیب (علیہ السلام) نہیں کیونکہ ان کے زمانے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں چار سو سال کی مسافت ہے۔ 1 ؎۔ ابو المسعود ص 151 ج 2۔ 2 ؎۔ ابن کثیر ص 382 ج 3 ( فیاض) اور فرماتے ہیں کہ آپ شعیب (علیہ السلام) کے بھیجتے تھے ، تا ہم زیادہ مشہور یہی ہے کہ آپ شعیب (علیہ السلام) ہیں اللہ نے آپ کا نام قرآن میں نہیں بتلایا ، بائبل میں راوید یا راد عید کا ذکر آتا ہے ، کہیں ثیرون نام ذکر کیا گیا ہے اور کہیں تو باب بھی آتا ہے ، تا ہم یہ بات یقینی ہے کہ آپ اللہ کے نیک سیرت انسان تھے۔
Top