Mualim-ul-Irfan - Al-Qasas : 36
فَلَمَّا جَآءَهُمْ مُّوْسٰى بِاٰیٰتِنَا بَیِّنٰتٍ قَالُوْا مَا هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًى وَّ مَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِیْۤ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَ
فَلَمَّا : پھر جب جَآءَهُمْ : آیا ان کے پاس مُّوْسٰي : موسیٰ بِاٰيٰتِنَا : ہماری نشانیوں کے ساتھ بَيِّنٰتٍ : کھلی۔ واضح قَالُوْا : وہ بولے مَا هٰذَآ : نہیں ہے یہ اِلَّا : مگر سِحْرٌ : ایک جادو مُّفْتَرًى : افترا کیا ہوا وَّ : اور مَا سَمِعْنَا : نہیں سنا ہے ہم نے بِهٰذَا : یہ۔ ایسی بات فِيْٓ : میں اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِيْنَ : اپنے اگلے باپ دادا
پس جب آئے ان کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) ہماری نشانیاں لے کر تو کہا انہوں نے کہ نہیں ہے یہ مگر جادو گھڑا ہوا ۔ اور نہیں سنا ہم نے ایسا اپنے پہلے آبائو اجداد سے
ربط آیات موسیٰ (علیہ السلام) اپنی اہلیہ اور ساز و سامان مدین سے مصر جا رہے تھے کہ راستے میں کوہ طور کی مقدس وادی سے گزر ہوا۔ اس مقام پر اللہ نے ان سے کلام کیا اور نبوت و رسالت عطا فرمائی اور ساتھ دو عظیم معجزات عصا اور ید بیضاء بھی عنایت کیے ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو تبلیغ حق کا حکم ہوا ۔ انہوں نے اس راستے میں حائل مشکلات کا ذکر کیا تو اللہ نے یقین دلایا کہ فکر نہ کرو ، بالآخر تم ہی غالب رہو گے ۔ اللہ نے آپ کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو بھی نبوت سے سرفراز فرمایا اور فریضہ نبوت میں آپ کا ممدو معاون بنایا۔ موسیٰ (علیہ السلام) حکم خداوندی کے مطابق مصر پہنچے اور آگے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو منتظر پایا ، پھر وہ دونوں فرعون کے د ربار میں پہنچے تا کہ اللہ کا پیغام پہنچا سکیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) فرعونی دربار میں فرعون کے دربار میں جانے سے متعلق اللہ تعالیٰ نے بعض مقامات پر حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) دونوں کا ذکر کیا ہے جیسے سورة طہٰ اور سورة الشعراء میں ہے اور بعض مقامات مثلاً اکیلے موسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ کیا ہے۔ ارشاد ہتا ہے فلملجاء ھم موسیٰ بایتنا بینت جب موسیٰ (علیہ السلام) ہماری واضح نشانیاں لے کر فرعون کے دربار میں پہنچے۔ یہ نشانیاں وہی دو عظیم معجزات عصا اور ید بیضاء تھیں ۔ معجزہ کہتے ہیں ایسی چیز کو جس سے عام مخلوق عاجز آجائے اور اس کا مقابلہ نہ کرسکے ، اس کے علاوہ خود نبوت اور نبی کا کلام اور پیغام بھی ایک واضح چیز ہوتی ہے ۔ تو بینات میں معجزات اور نبی کی طرف سے پیغام دونوں چیزیں شامل ہیں۔ تو جب یہ چیزیں لے کر موسیٰ (علیہ السلام) فرعونی دربار میں پہنچے ، معجزات پیش کیے اور اللہ کا پیغام سنایا تو انہوں نے صاف انکار کردیا قالوا ما ھذا الا سحر مفتری کہنے لگے یہ تو محض گھڑا ہوا جادو ہے۔ فرعون کے درباریوں نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور اس طرح انہوں نے معجزات کو جادو سے تعبیر کر کے انکار کردیا ۔ یہاں پر قالوا جمع کا صیغہ اسی لیے لایا گیا ہے کہ فرعون اور اس کے درباریوں سب نے ان نشانیوں کا انکار کردیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ یہ شخص نبوت کا دعوت کرتا ہے ، وحی الٰہی کی باتیں سناتا ہے اور ہماری طرف مبعوث ہوتے کی بات کرتا ہے مثلاً وما سمعنا بھذا فی ابائنا الاولین ہم نے ایسی باتیں اپنے آبائو اجداد سے پہلے تو کبھی نہیں سنیں ۔ یہ کہتا ہے کہ ساری کائنات کا ایک ہی خدا ہے ۔ وہی سب کو پیدا کرنے والا ، تھامنے والا اور فنا کرنے والا ہے ، اور پھر قیامت والے دن وہی دوبارہ زندہ کر کے حساب کتاب لے گا اور جزائے عمل کا فیصلہ کرے گا ۔ فرعون اور اس کے حواری کہنے لگے ہم نے تو ایسی باتیں پہلے کبھی نہیں سنیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی حق گوئی اس کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا وقال موسیٰ رب اعلم بمن جاء ابالھدی من عندہ میرا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے اس کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی مرضی سے اور کسی ذاتی غرض کے لیے تو نہیں آئے بلکہ اللہ کے حکم سے اس کا پیغام لے کر آئے ہیں اور وہی بہترجانتا ہے ومن تکون لہ عاقبۃ الدار کہ آخرت میں اچھا گھر کس کا ہے ، مگر اتنی بات یقینی ہے انہ لا یفلح الظلمون کہ ظالم لوگ کبھی فلاح نہیں پا سکتے ، وہ ہمیشہ نامراد رہیں گے ، ظلم میں سر فہرست کفر اور شرک ہے ، اس کے بعد دیگر مظالم از قسم لڑائی ، جھگڑا ، حق تلفی ، قتل ناحق وغیرہ آتے ہیں ۔ تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں پروردگار عالم کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہوں ، اور اس کا فیصلہ یہی ہے کہ اس ہدایت کو قبول کرنیوالوں کا انجام بخیر ہوگا اور ظلم و زیادتی کے مرتکبین ناکام ہوجائیں گے۔ اونچے مینار کی تعمیر فرعون پر اس تبلیغ کا چنداں اثر نہ ہوا ۔ کہنے لگا کہ مصر کی سلطنت میں مطلق العنان اور با اختیارحاکم تو میں ہوں ، میں سیاہ وسفید کا مالک ہوں ، ملک زرخیز ہے جس میں نہیں چل رہی ہیں ۔ ڈیم بنے ہوئے ہیں ، ہر طرح کی آسودہ حالی ہے ، مگر یہ موسیٰ (علیہ السلام) کسی اور الٰہ کا پتہ بتا رہا ہے ، پھر اپنے درباریوں کی طرف متوجہ ہوا ۔ وقال فرعون یایھا الملا ما علمت لکم من الہ غیر کہنے لگا ۔ اے میرے سردارو ! میں تو تمہارے لیے اپنے سوا کسی کو معبود نہیں جانتا۔ یہ موسیٰ کس الٰہ کی بات کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ اوپر آسمانوں میں ہے۔ اور سب اسی کے اختیار میں ہے ، پھر کہنے لگا ، اچھا میں موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ اپنے وزیر ہامان سے کہا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ فاوقدلی یاھامن علی الطین اے ہامان اینٹوں کا ایک بھٹہ لگا اور اس میں پختہ اینٹیں تیار کر ائو ۔ ظاہر ہے کہ اس وقت مصر جیسے متمدن ملک میں پکی عمارات کا عام رواج تھا اور اینٹیں پکانے کے لیے بھٹے بھی موجود ہوں گے۔ تو یہ چونکہ اہم کام تھا ، اس لیے وزیر سے کہنے لگا کہ پہلے اینٹیں تیار کرواذ فلجعل لی صرحا ً پھر میرے لیے ایک اونچا محل یعنی مینار تعمیر کر ائو لعلی اطلع الی الہ موسیٰ تا کہ میں اس کے اوپر سے جھانک کر موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کو دیکھ سکوں کہ وہ کیسا ہے ۔ وانی لا ظننہ من الکذبین اور میں گمان کرتا ہوں کہ وہ جھوٹا ہے۔ مفسرین کو اس بارے میں اختلاف ہے کہ فرعون کے مذکورہ حکم کے مطابق کوئی محل یا مینار تیار بھی ہوا تھا یا نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ فرعون نے یہ حکم دفع الوقتی کے لیے ازراہ تمسخردیا تھا تا کہ درباری موسیٰ (علیہ السلام) کی بات سے متاثر نہ ہوجائیں ۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ کسی صحیح روایت میں اس محل کی تیاری کا ذکر نہیں ملتا ، صرف تفسیری 1 ؎ روایتوں میں آتا ہے کہ ہامان نے پچاس ہزارکاریگر اور مزدور محل کی تیاری کے کام پر لگا دے اور مینار کی شکل کا محل تیار ہوگیا ۔ بعض 2 ؎ کہتے ہیں کہ فرعون اس مینار نما محل کے اوپر چڑھا مگر وہ آسمان تک کہاں پہنچ سکتا تھا۔ اسے کچھ نظر نہ آتا تو شرمسار بھی ہوا ۔ اور تعصب وعناد کی بناء پر خدا تعالیٰ کا انکار بھی کیا ، بعض کہتے ہیں کہ فرعون کو اس کے اوپر چڑھنے کا موقع ہی نہیں ملا ۔ جب محل تیار ہوگیا تو اللہ نے فرشتے کو بھیج کر اس کو گرا دیا ۔ اس کے تین ٹکڑے ہوئے۔ ایک فرعون کے لشکر پر گرا جس سے بڑی تباہی پھیلی ۔ دوسرا حصہ پانی میں گرا اور تیسرا حصہ کیسے ہی نہتشر ہوگیا اور فرعون اپنی اس سکیم میں بھی ناکام رہا ۔ فرعونیوں کا تکبر فرعون کے انکار ، تعصب ، ضد اور انکار کی وجہ سے یہ بیان فرمائی ہے واستکبر ھو و جنودہ فی الارض بغیر الحق فرعون اور اس کے لشکر نے زمین میں ناحق تکبر اور غرور کیا ۔ اقتدار کے نشے میں توحید کا انکار کیا اور خود الوہیت کا دعویدار بناء نبی کی بات کو ٹھکرایا ۔ سورة النمل میں موجود ہے وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا (آیت : 41) کہ فرعونی ظلم و زیادتی کی وجہ سے احکام الٰہی اور معجزات کا انکار کرتے تھے حالانکہ ان کے دل اسکی تصدیق کرتے تھے کہ موسیٰ (علیہ السلام) سچے ہیں ۔ جب فرعون نے انکار کردیا ۔ تو الناس علی دین ملوکھم کے مطابق اس کے حواریوں اور دیگر رعایا نے بھی انکار کردیا ۔ جیسا حاکم ہوتا ہے ، ویسے ہی اس کے کارندے اور عام لوگ ہوتے ہیں ، وہی وضع قطع اور وہی رسم و رواج سب اپناتے ہیں ، لہٰذا اہل ایمان کے سوا ساری قوم نے انکار کردیا محض تکبر کی وجہ سے اور دوسری بات انہوں نے یہ کی ۔ وظنوا انھم الینا لا یرجعون کہنے لگے کہ ہم گمان کرتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کی طرف نہیں لوٹائے جائیں گے ، گویا انہوں نے معاد اور جزائے عمل کا بھی انکار کردیا ۔ کہنے لگے موسیٰ (علیہ السلام) ہمیں خواہ مخواہ آنے والے ان دیکھے دن کے خوف میں مبتلا کر رہا ہے ، کہتا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جائو گے ، اللہ کے حضور پیشی ہوگی ، محاسبہ اعمال ہوگا اور جزا و سزا کا فیصلہ ہوگا ، ہمیں تو ان باتوں پر یقین نہیں آتا ، ہم نہیں خیال کرتے کہ مرنے کے بعد پھر خدا تعالیٰ کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ انجام کار اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے فرمایا فلخذنہ و جنودہ ہم نے پکڑ لیا فرعون اور اس کے لشکر کو ، ان کی گرفت کا وقت آ گیا فنبذنھم فی الیم اور ان سب کو سمندر میں پھینک دیا ۔ یہاں تفصیل نہیں ہے دوسری سورتوں میں موجود ہے کہ میلے کے دن موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر نکل گئے ۔ سمندر کے کنارے پہنچے تو اللہ نے ان کے لیے بارہ راستے بنا دیئے جن سے وہ گزر گئے تعاقب میں فرعون اور اس کا لشکر بھی انہی راستوں سے سمندر میں داخل ہوا ۔ مگر اللہ نے طرفین کے پانیوں کو ملا دیا ، اور اس طرح وہ سب کے سب بحر قلزم میں غرق ہوگئے ، تو فرمایا ہم نے ان پر گرفت کی اور ان کو پانی میں ڈبو دیا ۔ فانظر کیفی کان عاقبۃ الظلمین بس دیکھ لو ظالموں کا کیسا انجام ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے غرور کو کس طرح خاک میں ملا دیا۔ نیز فرمایا وجعلنھم ائمۃ یدعون الی النار اور ہم نے ان کو ایسا پیشوا ( لیڈر) بنایا جو آگ کی طرف دعوت دیتے ہیں یعنی لوگوں کو گمراہ کر کے دوزخ کا ایندھن بناتے ہیں۔ پیشوا ہدایت کے بھی ہوتے ہیں اور گمراہی کے بھی ، اللہ نے فرعونیوں کو گمراہی کفر اور دعوت الی النار کا لیڈر بنایا ، دوسرے مقام پر عام مشرکین کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے کہ مشرک عورتوں سے نکاح بھی نہ کرو ، کیونکہاُولٰٓـئِکَ یَدْعُوْنَ اِلَی النَّارِج وَ اللہ ُ یَدْعُوْٓا اِلَی الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِاِذْنِہٖ (البقرہ : 122) کیونکہ وہ تمہیں دوزخ کی طرف بلاتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ تمہیں جنت اور اپنی مغفرت کی طرف دعوت دیتا ہے اللہ تعالیٰ کی دعوت کو قبول کرو اور دوزخ کے عذاب سے بچ جائو۔ شیخ ابن عربی (رح) فرماتے ہیں کہ انسانوں کے اس دنیا میں کیے جانے والے کام آگے چل کر ان کے لیے جزائے عمل میں تبدیل ہوجائیں گے ۔ بعض لوگوں کے اعمال انہیں سانپ ، بچھوئوں اور درندوں کی شکل میں کاٹیں گے اور بعض چیزیں آگ کی شکل میں تبدیل ہو کر گناہ گاروں پر مسلط ہوں گی ۔ اسی طرح اعمال حسنہ ، باغات ، پھلوں ، پھولوں اور حور و قصور میں تبدیل ہوجائی گے ترمذی شریف میں آتا ہے کہ جب کوئی بندہ مومن اللہ کی حمد وثناء بیان کرتا ہے اور زبان سے ایک دفعہ سبحان اللہ کہتا ہے جس میں اس کی محبت ، عقیدت ، تعظیم اور اخلاص شامل ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک درخت لگا دیتا ہے۔ غرضیکہ کفر و شرک والے لگ بظاہر تو کفریہ اور شرکیہ رسوم کی دعوت دیتے ہیں مگر درحقیقت وہ لوگوں کو دوزخ کی طرف بلاتے ہیں۔ قیامت والے دن مایوسی فرمایا کہ دنیا کے اندر تو ہم ان لوگوں کو دوزخ کی طرف دعوت کا امام بتائیں گے ویوم القیمۃ لا ینصرون اور قیامت والے دن ان کی کوئی مدد نہیں کی جائیگی۔ نہ ان کا لشکر کام آئے گا اور نہ مال و دولت ، تابع اور متبوع سب جہنم رسید ہوں گے ، نہ کوئی سفارش کام آئیگی اور نہ کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا۔ فرمایا اس دنیا میں یہ حال بھی ہوگا واتبعنھم فی ھذہ الدنیالعنۃ اس دنیا میں ہم نے ان کے پیچھے لعنت لگا دی ہے۔ شرائع الٰہیہ کے تمام پیروکار اور نیک لوگ ہمیشہ یہی کہتے ہیں لعنۃ اللہ علی الظلمین ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو۔ فرعونیوں ، کافروں اور مشرکوں پر لوگ لعنت بھیجتے ہیں ۔ فرعون نے تو حید کا انکار کیا ، معاد کی تکذیب کی ۔ رسولوں کی بات نہ مانی تو ہمیشہ کے لیے بمع اپنے متبعین کے لعنتی ٹھہرا ، ان کے لیے یہی تحفہ ہے ویوم القیمۃ ھم من المقبوحین یہ لوگ قیامت والے دن برائی اور قباحت والوں میں سے ہوں گے ۔ ان کی شکلیں تبدیل اور حال برا ہوگا ، گویا کہ ہر قسم کی قباحت میں مبتلا ہوں گے ، اللہ نے دنیا اور آخرت کی دونوں سزائوں کا ذکر کردیا ہے۔
Top