Mualim-ul-Irfan - Al-Qasas : 51
وَ لَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَؕ
وَلَقَدْ وَصَّلْنَا : اور البتہ ہم نے مسلسل بھیجا لَهُمُ : ان کے لیے الْقَوْلَ : (اپنا) کلام لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور البتہ تحقیق ہم نے ملا دیا ہے ان لوگوں کیلئے ( نصیحت کی) بات کو تا کہ یہ نصیحت حاصل کریں
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کا شکوہ بیان کیا تھا کہ وہ ایمان کی بات قبول کرنے کی بجائے ہدایت کی بات کو ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں ، کبھی کہتے ہیں کہ یہ پیغمبر موسیٰ (علیہ السلام) جیسے معجزات کیوں نہیں لایا اور کبھی کہتے ہیں کہ آپ پر پورا قرآن یکبارگی کیوں نہیں نازل ہوا۔ اللہ نے جواباً فرمایا کہ ضدی او عنادی لوگ ہمیشہ محروم ہی رہتے ہیں ۔ اب تو یہ موسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے سے بات کرتے ہیں ۔ مگر جب خود کلیم اللہ معجزات اور تورات لے کر آئے تھے تو کیا اس وقت انہوں نے تسلیم کیا تھا ؟ نہیں بلکہ ان بدبختوں نے اس وقت بھی ان کو جھٹلا دیا تھا۔ آپ کے معجزات کو جادو سے تعبیر کیا ۔ اور آپ کو جادوگر کہا گیا ۔ ان کو تو انکار کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ چاہئے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہدایت اس شخص کو نصیب ہوتی ہے جو اس کی طلب کرتا ہے اور جو خواہش کی پیروی کرتا ہے وہ محروم رہتا ہے۔ جب تک ظالم اپنے ظلم سے باز نہ آجائیں ، وہ ہدایت کو نہیں پا سکتے۔ ہدایت کا تسلسل اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آسمانی ہدایت کے تسلسل کو اس طرح واضح کیا ہے۔ ولقد وصلنا لھم القول اور البتہ تحقیق ہم نے ملا دیا ہے ہدایت کی بات کو ان لوگوں کے لیے ، نزول قرآن کے زمانے کے لوگوں کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ جس طرح پہلے موجودہ کے پاس ان کے ہادی ہدایت کا سامان لے آتے رہے ہیں ۔ اسی طرح آخری امت کے لوگوں کے پاس بھی ہمارا آخری نبی کتاب ہدایت لے کر آیا ہے۔ نبی آخر الزمان سابقہ تمام انبیاء او کتب سماویہ کی تصدق کرتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے سابقہ اور موجودہ ہدایت کی باتوں کو آپس میں جوڑ دیا ہے۔ مفسرین 1 ؎ کرام فرماتے ہیں کہ وصلنا کا اطلاق قرآنی آیات پر بھی کہا جاسکتا ہے یعنی ہم نے قرآن پاک کی آیات کو یکے بعد دیگرے نازل فرما کر ان کو آپس میں مربوط کردیا ہے۔ اللہ نے تورات کی طرح قرآن کو یکبارگی نازل نہیں کیا بلکہ 32 سال کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا کر کے نازل فرمایا ہے۔ اور اس کی حکمت یہ بیان فرمائی ہے۔ وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰـہُ لَتَقْرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَّنَزَّلْنٰـہُ تَنْزِیْلاً (بنی اسرائیل : 601) ہم نے قرآن کو تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا تا کہ لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سنائو۔ اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا ہے ۔ سورة النحل میں یہ حکمت بھی بیان فرمائی ہے۔ وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ (آیت : 44) اور ہم نے آپ پر یہ کتاب نازل کی ہے تا کہ لوگوں پر واضح کردیں جو کچھ ان کی طرف اترا ہے اور تا کہ وہ غور و فکر کریں ، مطلب کہ یہ قرآن پاک کے بتدریج نزول میں خاص حکمت ہے ۔ جس طرح طلباء کو تھوڑا تھوڑا سبق دیا جاتا ہے کہ انہیں اچھی طرح ضبط ہوجائے ۔ اسی طرح قرآن پاک کو بھی تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا گیا ہے ، تا کہ لوگ اس کے احکام اچھی طرح سیکھ سکیں ، ان پر عمل کرسکیں اور اگر کسی حکم میں کوئی اشکال ہو تو اس کی وضاحت کردی جائے ، اللہ نے فرمایا وَکُلَّ شَیْئٍ فَصَّلْنٰـہُ تَفْصِیْلاً ( بنی اسرائیل : 21) ہم نے ہر چیز کی تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے۔ غرضیکہ فرمایا کہ ہم قرآن کی آیتوں کو یکے بعد دیگرے نازل کر کے جوڑتے چلے گئے ہیں تا کہ لوگ ان کو ضبط کریں ، ان میں غور و فکر کریں لعلھم یتذکرون تا کہ وہ ان سے نصیحت حاصل کریں۔ اہل کتاب کا قبول ایمان اگل آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان اہل کتاب کی تعریف بیان فرمائی کہ جو پہلی 1 ؎۔ مظہری صد 371 ج 7 ( فیاض) کتابوں پر ایمان رکھتے تھے ، پھر جب قرآن نازل ہوا تو اس کو بھی قبول کیا ۔ ارشاد ہوتا ہے الذین اتینھم الکتب من قبلہ وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب دی تھی اس قرآن سے پہلے ، قرآن سے پہلے مشہورتب سماویہ تورات اور انجیل تھیں جن کے ماننے والے یہودی اور نصاریٰ کہلاتے ہیں ۔ ھم بہ یومنون وہ اس قرآن پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔ یہود و نصاری کی اکثریت تو اپنی ضد اور عناد پر ہی اڑی رہی اور اللہ نے ان کے متعلق فرمایا ۔ وان اکثر کم فسقون (المائدہ : 95) کہ ان کی اکثریت تو نافرمانوں کی تھی ، تا ہم ان میں بعض نبی آخر الزمان اور قرآن پاک پر ایمان بھی لائے۔ مدینہ کے بہت کم یہودی تھے جو مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ عبد اللہ بن سلام ؓ اور ان کے ساتھیوں نے ایمان قبول کیا وہ بڑے عالم فاضل تھے ۔ آپ کے دو بھتیجوں میں سے ایک ایمان لایا ، جو صاحب علم تھا۔ تمیم کا ذکر ملتا ہے ۔ وہ پہلے عیسائی تھی ، پھر مسلمان ہوئے ۔ بیرون عرب حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے حضرت عثمان ؓ اور حضرت جعفر ؓ کی دعوت پر ایمان قبول کیا ۔ جب یہ لوگ کے سے ہجرت کر کے حبشہ گئے تھے ۔ نجاشی کے علاوہ کچھ اور لوگوں کو بھی ہدایت نصیب ہوئی ، انہوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر ایمان قبول کیا ، اگرچہ نجاشی خود حضور ﷺ کی زیارت سے مشرف نہ ہوسکا ۔ حبشہ کے جن نصرانیوں نے ایمان قبول کیا ، تاریخی روایات میں ان کی تعداد بیس کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ تا ہم سورة المائدہ میں ان کی رقیق القلبی کی تعریف بیان کی گئی ہے۔ وَاِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِ (آیت : 38) جب انہوں نے اس چیز کو سنا جو رسول کی طرف نازل کی گئی ہے تو آپ نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اس وجہ سے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا اور ان کے دلوں میں ایمان راسخ ہوگیا ۔ جب ابو جہل وغیرہ کو حبشہ کے ان لوگوں کی آمد کی خبر ہوئی تو کہنے لگے کہ یہ کتنے بیوقوف لوگ ہیں جو ابھی تحقیق کرنے کے لیے آئے ہیں۔ 1 ؎۔ مظہری ص 371 ج 7 ( فیاض) کہ یہاں واقعی کوئی نبی آیا بھی ہے یا نہیں ، مگر ایمان قبول کر کے جا رہے ہیں ۔ سیرت کی کتابوں میں آتا ہے کہ ان لوگوں نے یہی جواب دیا تھا جو آگے اسی درس میں آ رہا ہے یعنی ہم جاہلوں سے الجھتے نہیں ۔ تمہارے کام تمہارے لیے ہیں اور ہمارے کام ہمارے لیے ہیں ، تم جہالت پر قائم رہو ہم تو ایمان لاتے ہیں۔ دوہرے حکم کے مستحقین فرمایا : واذ یتلی علیھم اور جب پڑھ کر سنایا جاتا ہے ، ان کو جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی وہ قالوا امنا بہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے انہ الحق من ربنا کیونکہ یہ ہمارے پروردگار کی طرف سے بر حق ہے انا کنا من قبلہ مسلمین ہم تو اس سے پہلے ہی فرمانبردار تھے یعنی ہمارا اس کتاب پر بھی ایمان ہے اور جس نبی پر یہ کلام اترا ہے ، ہم اس کی رسالت کی بھی گواہی دیتے ہیں ۔ اللہ نے ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا ۔ اولئک یوتوں اجرھم مرنین بما صبرو کہ ان کو دوہرا اجر دیاجائے گا ۔ اس وجہ سے کہ انہوں نے صبر کیا ۔ پہلے وہ سابقہ دین پر ایمان رکھتے تھے ، مگر جب اللہ کا آخری نبی آ گیا تو اس کو تسلیم کیا اور اس پر نازل ہونے والی کتاب کو مانا جس کی وجہ سے انہیں طرح طرح کی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ۔ مگر انہوں نے صبر و استقامت کا دامن نہ چھوڑا اور اللہ کے سچے دین پر جمے رہے ، یہ لوگ دوہرے اجر کے مستحق ٹھہرے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ جس شخص کے پاس لونڈی تھی ، اس نے اس کی تعلیم و تربیت کا اچھا انظام کیا ، پھر آزاد کر کے اس سے نکاح کرلیا حالانکہ وہ بحیثیت لونڈی بھی اس سے استفادہ کرسکتا تھا تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ دوہرا اجر عطاء فرمائے گا ۔ دوسرا وہ شخص بھی دوہرے اجر کا مستحق ہے جو کسی کا غلام ہے ، آقا کی خدمت بھی کرتا ہے اور خدا کی عبادت بھی اچھے طریقے سے کرتا ہے ، اس میں کمی نہیں آنے دیتا ۔ فرمایا تیسراشخص وہ ہے کہ پہلے نبی اور پہلی کتاب پر ایمان رکھتا تھا جب اللہ کا نبی آیا اور اس کی آخری کتاب آئی ، تو وہ ان پر بھی ایمان لایا ، یہ بھی دوہرے اجر کا مستحق ہے۔ 1 ؎۔ مظہری ص 471 ج 7 ( فیاض) شیخ ابن عربی (رح) بات اس طرح سمجھاتے ہیں کہ اہل کتاب کو دہرا اجر اس وجہ سے ملے گا کہ پہلے وہ اپنے نبی اور اپنی کتاب پر ایمان رکھتے تھے ، پھر جب حضور خاتم النبیین ﷺ تشریف لائے تو وہ آپ پر اور قرآن پر بھی ایمان لائے ، چونکہ حضور ﷺ تمام سابقہ انبیاء کے مصدق ہیں ، لہٰذا آپ کے ضمن میں بھی اپنے نبی پر ایمان لانا ثابت ہوا ۔ آخری امت کے لوگوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ تمام نبیوں پر ایمان لائیں کیونکہ ایک نبی کا انکار بھی کفر کے مترادف ہے ، بہر حال اہل کتاب کا اپنے نبی پر دو مرتبہ ایمان لانا ثابت ہوا ، لہٰذا انہیں دوہرے اجر کی بشارت دی گئی ہے۔ برائی کے بدلے بھلائی ان لوگوں کی ایک اور صفت یہ بیان کی گئی ہے ویدرء ون بالحسنۃ السیئۃ اور ہٹاتے ہیں نیکی کے ساتھ برائی کو ، مطلب یہ کہ ایسے لوگ برائی کا جواب برائی سے دینے کی بجائے بھلائی سے دیتے ہیں ، کسی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا بلا شبہ دوسرے کو متاثر کرتا ہے اور اس کے دل میں نرمی پیدا ہوتی ہے ، پھر یہی چیز ایمان قبول کرنے کی بنیاد پر بھی بنتی ہے ۔ حضور ﷺ 1 ؎ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ سے فرمایا تھا اتباع السیئۃ الحسنۃ اگر کوئی برائی کا کام ہوجائے تو اسکے بعد فوراً نیکی کرو ۔ حضرت ابو ذر غفاری (رح) کی روایت میں آتا ہے کہ برائی کے بعد نیکی کرو گے تو برائی مٹ جائیگی۔ سورة ہود میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی موجود ہے ان الحسنت یذھبن نسیئت ( آیت : 411) بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ تو یہاں بھی اللہ نے برائی کے بدلے نیکی اختیار کر نیکی تعریف فرمائی ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ فرمایا جو لوگ دوسرے اجر کے مستحق بنتے ہیں ان کی ایک صفت یہ بھی ہے ومما رزقنھم ینفقون اور جو کچھ ہم نے ان کو حلال روزی دی ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ یہ حکم صرف اہل کتاب کے لیے ہی مخصوص نہیں بلکہ تمام اہل ایمان کے لیے انفاق فی سبیل اللہ جزو ایمان ہے ۔ اس ضمن میں سب سے پہلے فرائض کو پورا کیا جائیگا ، پھر واجبات اور مستجباب وغیرہ۔ ان اخراجات 1 ؎۔ مظہری ص 571 ج 7 ( فیاض) میں زکوٰۃ کو اولین حیثیت حاصل ہے کیونکہ یہ اللہ نے یہ صاحب نصاب پر فرض قرار دی ہے۔ اس کے بعد صدقہ فطر ہے ، قربانی ہے ، جن لوگوں کے حقوق تم پر حقوق واجبہ کی حیثیت رکھتے ہیں ان کے حقوق ادا کرو ۔ حج اور عمرہ کے لیے خرچ کرو۔ مسافروں ، غرباء ، مساکین اور نا داروں کی خبر رکھو ۔ خرچ کی یہ تمام ہدایت قرآن پاک اور احادیث نبوی میں مذکور ہیں ۔ پھر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کن امور پر خرچہ ضروری اور کون سی جگہ حرام ہے۔ ظاہر ہے کہ لہو لعب ، کھیل کود ، اسراف و تبایہ ، رسم و راج اور شو بازی کے لیے خرچ کرنا کچھ مفید نہیں ہو سکتا بلکہ التاو بال ہوگا ، گویا ناجائز مقامات پر خرچ کرنے سے دین اور دنیا دونوں برباد ہوئے ۔ بہر حال جس خرچ کی تعریف بیان کی گئی ہے وہ جائز اور امور ضروریہ کے اخراجات ہیں۔ لغوبات سے ناراض دوہرے اجر والوں کی اللہ نے یہ صفت بھی بیان فرمائی ہے واذ سمعو اللغوا اعرضو نہ جب وہ کسی بیہودہ بات کو سنتے ہیں تو کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں۔ وقالو ا لنا اعمالنا ولکم عما لکم اور یوں کہتے ہیں کہ ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں ہم تمہاری لغویات میں حصہ نہیں لیتے ، تم اپنا کام کرتے رہو ، ہم اپنا نیکی کا کام انجام دیتے رہیں گے۔ یہ لوگ یوں کہہ کر فضولیات سے بچ نکلتے ہیں سلم علیکم تم پر سلامتی ہو لا نبتغی الجھلین ہم جاہلوں کی تلاش میں نہیں رہتے یعنی نہ ہم ان کو منہ لگاتے ہیں اور نہ ان سے الجھتے ہیں ۔ سلام دو قسم کا ہوتا ہے ، ایک ملاقات کا کہ دو مومن آپس میں ملتے وقت السلام علیکم کہتے ہیں اور دوسرا سلام متارکت کہلاتا ہے جس سے علیحدگی مراد ہوتی ہے کہ ہمارا آپس میں نبھاہ نہیں ہو سکتا ۔ نیک اور بد اکٹھے نہیں چل سکتے ، لہٰذا ہم تم سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں ۔ جب تم کسی کی بات کو سننے ، سمجھنے اور ماننے کے لیے تیار نہیں تو پھر ہمارا تمہارا کوئی واسطہ نہیں۔ ہدایت بدست خدا انہی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر (علیہ السلام) کو تسلیم دی ہے ۔ حضور ﷺ کی شدید خواہش تھی کہ ساری مخلوق ہدایت حاصل کرکے خدا کے غضب سے بچ جائے مگر اللہ نے فرمایا کہ یہ بات آپ کے دائرہ کار میں نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انک لا تھدی من اجبت جسے آپ چاہیں اسے راہ راست پر نہیں لاسکتے ولکن اللہ یھدی من یشاء بلکہ اللہ راہ راست پر لاتا ہے جس کو چاہتا ہے۔ یہ اختیار اس نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے وھو اعلم بالمھتدین اور وہی بہتر جانتا ہے ہدایت پانے والوں کی ۔ اسے علم ہے کہ ہدایت حاصل کر نیکی استعداد کون رکھتا ہے اور کون اس سے محروم ہے ۔ صحیح احادیث 1 ؎ میں حضور ﷺ کے چچا ابو طالب کا واقعہ مذکور ہے۔ کہ حضور ﷺ کی شدید ترین خواہش کے باوجود اس نے ایمال قبول نہ کیا ۔ ابو طالب کے آخری لمحات میں حضور ﷺ اس کے سرہانے موجود تھے۔ آپ نے آخری کوشش کی اور کہا یا عم قل لا الہ لا اللہ اشھد لک یوم القیمۃ اے میرے چچا لا الہ الا اللہ کہہ دے میں قیامت کے دن تیرے حق میں گواہی دوں گا ۔ مگر اس نے یہ دعوت قبول نہ کی بلکہ انکار کردیا اور کہا کہ میں اپنے آبائو اجداد کے دین پر ہی مرنا چاہتا ہوں ، حضور ﷺ کو بڑا صدمہ ہوا کیونکہ ابو طالب نے زندگی بھر آپ کا ساتھ دیا تھا ، آٹھ سال کی عمر میں آپ کو کفالت میں لیا ۔ حضور ﷺ کی نبوت کے دس سال بھی پائے نبوت کے اظہار میں آپ کا ساتھ بھی دیتا رہا ، حتیٰ کہ شعب ابی طالب میں آپ کے خاندان کے ہمراہ تین سال تک نظر بند بھی رہا مگر خاتمہ کفر اور شرک پر ہی ہوا ، ایمان قبول نہیں کیا ۔ مشرک کے لیے دعا جب ابو طالب نے ایمان لانے سے صاف انکار کردیا تو حضور ﷺ نے مایوسی کے عالم میں فرمایا کہ میں تیرے لیے اس کے سوا کیا کرسکتا ہوں۔ لا ستغفرن لک کہ تیرے لیے بخشش کی دعا ہی کروں ۔ جب تک کہ مجھے روک نہ دیا جائے۔ اس کے جواب میں اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی مَاکَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَلَوْ کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْم بَعْدِمَا تَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ (التوبہ : 311) نہ تو یہ نبی کی شان ہے اور نہ کسی دوسرے مومن کی کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں اگرچہ وہ ان کے قرابتدار ہی کیوں نہ ہوں ، بعد اس کے کہ ان پر واضح ہوگیا کہ یہ لوگ جہنم والے ہیں ، مطلب یہ کہ اگر کسی کا باپ ، بیٹا ، بھائی ، بیو ی ، چچا ، بھتیجا کوئی بھی ہو اگر اس کا خاتمہ کفر شرک پر ہوا ہے تو اسکے لیے بخشش کی دعا کرنا حرام ہے۔ ہاں ! اس کی زندگی میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت نصیب فرما دے اور اگر وہ نہیں مانتا تو پھر نبی کی دعا بھی مقبول نہیں ۔ ظاہر ہے کہ جب راہ راست پر لانا پیغمبر کے اختیار میں نہیں ہے ۔ تو پھر کوئی ولی ، بزر گ یا پیر کیا کرسکتا ہے ؟ آج تو لوگ کہتے ہیں کہ پیر کا دامن پکڑ لیا تو بیڑا پار ہوجائے گا ، مگر نہ عقیدہ درست ہے ، نہ اخلاق اور نہ اعمال تو بیڑا کیسے پار ہوگا ؟ مرشدان بر حق کا کام سیدھا راستہ بتانا ہے ، لوگوں کی تربیت کرنا ہے ، حق و باطل سے روشناس کرانا ہے ، مگر منزل مقصود تک پہنچانا اللہ کا کام ہے۔ 1 ؎۔ مظہری ص 571 ج 7 و روح المعانی ص 65 ج 2 ( فیاض)
Top