Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Qasas : 76
اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰى فَبَغٰى عَلَیْهِمْ١۪ وَ اٰتَیْنٰهُ مِنَ الْكُنُوْزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَهٗ لَتَنُوْٓاُ بِالْعُصْبَةِ اُولِی الْقُوَّةِ١ۗ اِذْ قَالَ لَهٗ قَوْمُهٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ
اِنَّ
: بیشک
قَارُوْنَ
: قارون
كَانَ
: تھا
مِنْ
: سے
قَوْمِ مُوْسٰي
: موسیٰ کی قوم
فَبَغٰى
: سو اس نے زیادتی کی
عَلَيْهِمْ
: ان پر
وَاٰتَيْنٰهُ
: اور ہم نے دئیے تھے اس کو
مِنَ الْكُنُوْزِ
: خزانے
مَآ اِنَّ
: اتنے کہ
مَفَاتِحَهٗ
: اس کی کنجیاں
لَتَنُوْٓاُ
: بھاری ہوتیں
بِالْعُصْبَةِ
: ایک جماعت پر
اُولِي الْقُوَّةِ
: زور آور
اِذْ قَالَ
: جب کہا
لَهٗ
: اس کو
قَوْمُهٗ
: اس کی قوم
لَا تَفْرَحْ
: نہ خوش ہو (نہ اترا)
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
لَا يُحِبُّ
: پسند نہیں کرتا
الْفَرِحِيْنَ
: خوش ہونے (اترانے) والے
بیشک قارون تھا موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم سے ، پس سر کش کی اس نے ان کے خلاف ، اور ہم نے ویسے تھے اس کو خزانوں میں سے اس قدر کہ بیشک اسکی چابیاں بوجھل کرتی تھیں ایک طاقتور گروہ کو ، جب کہا اس کے لیے اس کی قوم نے مت اترائو ۔ بیشک اللہ تعالیٰ نہیں پسند کرتا اترانے والو کو
ربط آیات اللہ تعالیٰ نے پہلے مشرکوں کا د کیا ، پھر توحید کے عقلی دلائل بیان فرمائے اور قیامت اور جزائے عمل کا ذکر کیا ۔ اس سے پہلے مشرکین کو تنبیہ کی گئی جو غرور وتکبر کی وجہ سے توحید اور رسالت کا انکار کرتے تھے اور ظلم و زیادتی کے مرتکب ہوتے تھے ، اللہ نے ان کو سمجھانے کے لیے بعض پہلی بستیوں کی ہلاکت کا ذکر کیا ۔ اب سورة کے آخری حصے میں اللہ نے ایسے ہی لوگوں کو نصیحت کے لیے قارون کا واقعہ بیان کیا ہے۔ یہ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کا آدمی تھا۔ اللہ نے بےتحاشا مال و دولت دے رکھا تھا ، مگر اس نے سرکشی اختیار کی اور موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ حسد اور ضد کا اظہار کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس اس کے مال و دولت سمیت ہلاک کردیا۔ مشرک لوگ بھی چونکہ ضد ، عناد ، حسد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے تھے ، یہ واقعہ بیان کر کے اللہ نے ان کو بھی عبرت دلائی ہے۔ قارون کا تعلق ارشاد ہوتا ہے ان قارون کان من قوم موسیٰ بیشک قارون موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم سے تھا۔ امام بیضاوی 1 ؎ اور بعض دوسرے مفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف موسیٰ (علیہ السلام) کا ہم قومہ تھا بلکہ آپ کا چچا زاد بھائی تھا۔ قارون ابن یصہر ابن قابث ابن لاویٰ ، موسیٰ (علیہ السلام) کے باپ کا نام عمران تھا۔ گویا قابث کے دو بیٹے تھے۔ یصہر اور عمران ، تا ہم بعض نے قارون کو موسیٰ (علیہ السلام) کا خالہ زاد بھائی بھی لکھا ہے قارون اگرچہ بنی اسرائیل میں سے تھا اور انہی میں رلا ملا ہوا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی بظاہر تصدیق بھی کرتا 1 ؎۔ بخاری ص 002 ج 3 ( فیاض) تھا مگر در پردہ فرعون کے ساتھ رابطہ رکھتا تھا ، بلکہ اس کا ایجنٹ تھا فرعون جو بلکہ غیرہ ، اسرائیلیوں سے لینا چاہتا اس کے لیے قارون کی خدمات حاصل کرتا تھا ، فرعون بڑے بڑے ٹھیکے قارون نے سپرد کرتا اور پھر وہ یہ کام معمولی اجرت پر اسرائیلیوں سے کرواتا ، جس کی وجہ سے اس نے بہت سا مال و دولت جمع کرلیا تھا۔ عام ظالم حکمرانوں کا ہمیشہ سے یہی دستور رہا ہے کہ وہ بعض لوگوں کو اپنا گروہ بنا کر قوم کا خو ن چوسے رہتے ہیں ۔ انگریز نے برصغیر میں حکمرانی کے دوران کئی مسلمانوں کو اپنا ایجنٹ بنا کر پوری قوم کی دلیل کیا اپنے حامیوں کو بڑے بڑے عہدے اور جاگیریں دیں اور پھر ان کے ذریعے فوجی بھرتی لی اور بہت سے دیگر کا ر کروانے سر محمد شفیع حضرت مولانا شیر محمد شرقپوری کا خالہ زاد بھائی تھا ، مگر انگریز کا ایجنٹ تھا اسی طرح سرف ضل حسین ، سر سکندر حیات اور پنجاب ، سندھ اور سرحد کے دیگر بڑے بڑے خاندانوں کو مراعات دیں اور بڑے بڑے کام لیں ، قارون بھی اسی طرح فرعون کا ایجنٹ تھا اسے بڑی مراعات حاصل تھیں جسکی وجہ سے وہ بڑا مالدار بن گیا۔ قارون کا غرور اور حسد فرعون کی غرقابی کے بعد بھی قارون اپنی قوم اسرائیل کے ساتھ ہی رہا تورا پڑھتا تھا اور بظاہر موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان بھی رکھتا تھا مگر آپ کی سیادت و قیادت اور نبوت و رسالت کی وجہ سے حسد کرنے لگا ۔ کہنے لگا موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) تو دونوں نبی بن گئے ۔ دنیا اور آخرت کی قیادت ان دونوں بھائیوں نے سنبھال لی مگر اتنے مال و دولت کے باوجود میری تو کوئی قدر و منزلت نہ ہوئی ۔ ادھر یہ حسد پیدا ہوا ، اور ادھر موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے کل مال کا ایک چوتھائی زکوۃ ادا کرنے کے لیے کہا ، اس پر قارون اور بھی جل بھن کر کباب ہوگیا کہنے لگا میں نے یہ دولت اپنے علم و ہنر کی بناء پر یہ حاصل کی ہے ، اب یہ میری دولت بھی زکوٰۃ کے نام پر سمیٹنا چاہتا ہے۔ وہ شخص پہلے ہی متکبر تھا ، مال و دولت کو جاتا دیکھا تو مزید غصے سے بگڑ گیا اور صاف انکار کردیا کہ ہم موسیٰ (علیہ السلام) کے احکام کی پابندی نہیں کرسکتے ۔ یہی صورت حال خود حضور ﷺ کے ساتھ پیش آئی ۔ مکہ میں ابو جہل اور ابو لہب جیسے بڑے بڑے مردار تھے۔ حضور ﷺ نے دعویٰ نبوت سے سیخ پاہو گئے اور کہنے لگے کہ اگر نبوت اس کو مل گئی تو ہمارے پاس کیا رہ گیا ، حاجیوں کی خدمت پر پہلے بنی ہاشم قابض ہیں ، اب نبی بھی اسی خاندان سے بن گیا تو ہماری سرداری کا تو جنازہ نکل گیا ، چناچہ انہوں نے حسد اور غرور کی بنا کر آپ کی نبوت و رسالت کا انکار کردیا ، بعینہٖ اسی طرح قارون بھی موسیٰ (علیہ السلام) کا مخالف ہوگیا ، اور ان کے خلاف طرح طرح کی الزام تراشی کرنے لگا ۔ فبغی علیھم اس طرح اس نے اسرائیلیوں کے خلاف سر کشی کی۔ قارون کی دولت مندی اس کی دولت مندی کے متعلق اللہ نے فرمایا واتینہ من الکنوز ہم نے اسے خزانوں میں سے اس قدر عطا کیا ما ان مفاتحۃ لتنواء با لعصبۃ اولی القوۃ کہ ایک طاقتور جماعت اس کی چابیاں اٹھانے سے بوجھل ہوجاتی تھی ۔ مطلب یہ کہ اس کے خزانوں کی الماریوں اور صندوقوں وغیرہ کی چابیاں اس قدر تھیں کہ بہت سے لوگ مل کر بھی بمشکل اٹھاتے تھے۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی 1 ؎ فرماتے ہیں کہ عصبہ کا اطلاق تین سے دس افراد کی جماعت پر ہوتا ہے ، اگر ہر آدمی کے حصے پانچ پانچ سو چابیاں آئیں تو گویا خزانوں کی صندوقوں کی تعداد چار پانچ ہزار بنتی ہے۔ ان میں روپے پیسے ہوں ، سونا چاندی ہو یا دیگر قیمتی اشیاء بہر حال قارون اتنے مال کا مالک تھا۔ مفاتح دو الفاظ کی مشترک جمع ہے یعنی مفتح اور مفتح ، مفتح کا معنی خزانہ ہوتا ہے جب کہ مفتح چابی کو کہتے ہیں ۔ ہر دو الفاظ قارون کی کثرت مال و دولت پر دلالت کرتے ہیں ۔ اس زمانے میں تو اتنا بڑا مالدار شخص اکا د کا ہی ہوتا تھا مگر آج کے دور میں قارون جیسے بیشمار دولت مند موجود ہیں ۔ آج کے کروڑ پتی سیٹھوں کی تجوریوں ، تہہ خانے ، سٹور اور بینک بیلنس وغیرہ کا حساب لگایا جائے ، ان کے ملازمین ، کارندوں اور ایجنٹوں کو شمار کیا جائے تو یہ بھی قارون سے کسی طرح کم نہیں نکلیں گے بلکہ اس سے بڑھ کر مالدار ظاہر ہوں گے۔ بہر حال قارون کی ٹھاٹھ باٹھ ، اس کے چال چلن اور غرور وتکبر کو دیکھ کر اذ قال لہ قومہ ، اس کی اپنی قوم نے اس کو سمجھانے کی کوشش کی اور نصیحت کی لا تفرح کہ اس مال و دولت پر اترائو نہیں ۔ 1 ؎۔ بیان القرآن ص 121 ج 8 ( فیاض) فرح کا معنی اترانا بھی ہوتا ہے ، اور خوش ہونا بھی ، لوگوں نے کہا اس عارضی مال کی وجہ سے نہ تو غرور وتکبر میں مبتلا ہو اور نہ ہی اس پر خوش ہو۔ ایسا کرنا حرام ہے ، ضد اور حسد کو چھوڑ دو اور موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت سے باز آ جائو ۔ اسرائیلی اور تفسیری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قارون کے ساتھ اڑھائی تین سو آدمی ہر وقت رہتے تھے ، یہ اس کے حامیوں کا خصوصی دستر تھا ، جن کا کام صرف ہاں میں ہاں ملانا تھا۔ یہ لوگ قارون کو غلط مشورے دے کر اس کی دعونت میں اضافہ کا باعث بنتے تھے ۔ لوگوں نے کہا کہ اللہ نے تمہیں اس قدر دولت عطا کی ہے تو اللہ کا شکر ادا کرو ، اور اس کے راستے میں خرح کرو ۔ یاد رکھو ! ان اللہ لا یحب الفرحین بیشک اللہ تعالیٰ اترانے والوں یعنی تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ اللہ کی نعمت پا کر تو خوش ہونا چاہئے نا کہ اکڑ دکھائی چاہئے ، قرآن اور ایمان کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ یہ اس کا فضل اور رحمت ہے ۔ فبذلک فلیفرحوا ( یونس : 851) لوگوں کو اس سے خوش ہونا چاہئے۔ آخرت کا گھر قوم نے کہا اس دنیا کی رنگینوں میں الجھ کر رہ جانے کی بجائے واتبع فیما اتک اللہ الدارالاخرۃ جو چیز اللہ نے تمہیں عطا کی ہے اس میں آخرت کا گھر تلاش کرو۔ مال و دولت کو صحیح طریقے پر خرچ کرو گے اور اس انعام پر اللہ کا شکر ادا کرو گے ۔ غرباء و مساکین کا خیال رکھو گے ۔ تمام حقوق ادا کرو گے تو آخرت میں بہتر گھر حاصل ہوگا۔ فرمایا ولا تنس نصیبک من الدنیا اور دنیا سے اپنا حصہ مت بھولو ۔ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس دنیا میں اتنا مال دیا ہے تو اس سے آخرت کا توشہ بنائو ۔ اس مال سے دنیا میں تمہارا حصہ یہی ہے کہ اس کے ذریع نیکی کمائو اور اطاعت کرو ۔ اس مال کو حرام راستوں میں خرح کرنے کی بجائے شکر گزاری کے مقام میں خرچ کرو ۔ اس کو عیاشی ، فحاشی اور بد معاشی میں مت گنوائو ۔ بلکہ دنیا میں اس سے فائدہ اٹھا کر آخرت کا سامان پیدا کرو۔ تمہارے لیے یہی بہتر ہے۔ اس کے علاوہ قوم نے قارون کو ایک اور نصیحت بھی کی ۔ کہنے لگے واحسن کما احسن اللہ الیک اور تم بھی لوگوں پر اسی طرح احسان کرو ، جس طرح اللہ نے تمہیں مال و دولت دیکر تم پر احسان کیا ہے۔ اس میں سے غرباء و مساکین ، بیوگان ، مسافروں اور قیدیوں کی اعانت کرو ، ضرورت مندوں کو قرض دو تا کہ وہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکیں ، صدقہ خیرات کرتے رہو ، تا کہ تمہارے مال میں برکت آئے۔ فساد فی الارض قوم نے یہ بھی کہا ولا تبغ الفساد فی الارض اور زمین میں فساد مت تلاش کرو ۔ فساد سے مراد اخلال بالشرائع ، معاصی کا ارتکاب ، رضا کی قائم کردہ حدو د کو توڑنا اور من مانی کرنا ہے۔ مشرک ، کفر ، بد عت اور رسومات باطلہ کا ادا کرنا ، فساد فی الارض ہے ، اسی طرح مال کو غلط جگہ پر خرچ کرنا ، کھیل تماشے ، لہو و لعب ، شراب نوشی ، بارود بازی ، پتنگ بازی اور شادی بیاہ کی رسومات پر خرچ کرنا بھی فساد ہے۔ موت کی رسومات تیجا ، ساتواں اور چالیسواں وغیرہ کرنا ، قبروں کو پختہ بنابا ، غرباء و مساکین کا خیال نہ کرنا ، صدقہ و خیرات کا غلط طریقہ اختیار کرنا اور لوگوں کے حقوق ادا نہ کرنا بھی فساد فی الارض کا حصہ ہے ۔ دوسری جگہ فرمایا ولا تفسدو فی الارض بعد اصلاحھا ( الاعراف : 65) زمین میں فساد نہ کرو ، اس کی اصلاح کے بعد ، اصلاح تو نیکی ، اطاعت اور عبادت و ریاضت سے ہوتی ہے ۔ اگر اس کا الٹ ہو رہا ہے تو بظاہر ہے کہ وہ فساد ہے ۔ اور اللہ کا قانون یہ ہے کہ ان اللہ لا یحب المفسدین بیشک اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ بہر حال قارون کی قوم نے اس کو سمجھایا کہ مال و دولت پر اترائو نہیں بلکہ اس کے ذریعے آخرت کا بہتر گھر تلاوش کرو ، جس طرح اللہ نے تم پر احسان کیا ہے ، اسی طرح تم بھی لوگوں پر احسان کرو اور زمین میں فساد نہ پھیلائو۔ علم و ہنر پر اعتماد قوم کی اس نصیحت کے جواب میں قال انما وتیتہ علی علم عندی کہنے لگا یہ سب کچھ مجھے میرے علم کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔ میں اہل علم ہوں ، ہنر مند ہوں ، استعداد کا مالک ، میں نے یہ دولت اپنی عقل و حکمت کی وجہ سے کمائی ہے ۔ اس میں کسی کا مجھ پر کیا احسان ہے ؟ دنیا کے اکثر دولت مند اسی قبیل سے ہوتے ہیں ۔ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سائنس اور ٹیکنالوجی ہے ۔ ہمارے پاس لیبارٹریاں جن میں بڑے بڑے تجربات کر کے نئی نئی چیزیں ایجاد کرتے ہیں اور پھر دولت کماتے ہیں ایسے لوگ اللہ کے فضل کو دخیل نہیں سمجھتے ، بلکہ اپنی عقل ، فن اور مہارت کو آمدنی کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ عقل و فہم اور حکمت و دانائی بھی تو اللہ ہی کی عطا کردہ ہوتی ہے۔ وہ جب چاہے کسی کو دے دے اور جب چاہے واپس لے لے ، لہٰذا ہر اچھائی منجانب اللہ ہوتی ہے اور اسی کی طرف منسوب کرنی چاہئے۔ اللہ کا فرمان ہے مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللہ ِ (النسائ : 97) تمہیں جو بھی بھلائی پہنچتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے لہٰذا علم و ہنر اور استعداد و قابلیت کو اپنی ذات کی طرف منسوب کرنا پرلے درجے کی حماقت ہے ، قارون کے دماغ میں یہی فتور تھا ، لہٰذا اس نے مال و دولت کو اپنی ذاتی استعداد کی طرف منسوب کیا ۔ طاقتور اقوام کی ہلاکت اللہ نے فرمایا کہ یہ شخص مال و دولت ، قوت اور جتھے پر غورکر رہا ہے حالانکہ اس کو اتنا علم نہیں اولم یعلم ان اللہ قد ھلک من قبلہ من القرون من ھو اشد قوۃ و اکثر جمعا ً کہ اس سے پہلے ہم نے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کردیا جو ان سے طاقت میں بھی زیادہ تھے اور افرادی قوت کے لحاظ سے بھی زیادہ تھے ، اللہ نے فرمایا کہ قارون تو ایک عام پبلک کا آدمی ہے کسی سلطنت کا مالک بھی نہیں ۔ محض مال و دولت پر اترا رہا ہے ہم نے تو عاد ، ثمود ، قوم نوح ، قوم ابراہیم ، قوم لوط ، کلدانیوں اور مصریوں جیسی بڑی بڑی مہذب قوموں کو نیست و نابود کردیا ۔ بلا شبہ وہ قارون کی نسبت ہر لحاظ سے طاقتور تھے ، سلطنتوں کے مالک تھے ، ان کے پاس فوجیں تھیں ، دنیا کی ہر چیز میسر تھی ، مگر جب انہوں نے سر کشی کی ، غرور وتکبر کیا ، تو ہم نے انہیں صحیفہ ہستی سے ناپید کردیا ۔ فرمایا ولا یسئل عن ذنوبھم المجرمون مجرموں کو ان کے گناہوں کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا ۔ مطلب یہ ہے کہ جب ان کی ہلاکت کا فیصلہ ہوجاتا ہے تو پھر انہیں صفائی کا موقع دینے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی ۔ اللہ تعالیٰ کو ان کے جرائم کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ سورة الرحمن میں ہے یعرف المجرمون بسیمھم ( آیت : 14) مجرم اپنے چہروں سے ہی پہچانے جاتے ہیں اور پھر انہیں گھسیٹ کر دوزخ میں پھینک دیا جاتا ہے قارون کا بھی یہی حال ہوگا ، مکہ کے مشرکوں کو بھی تنبیہ مقصود ہے کہ وہ بھی مال و دولت اور نفری پر غرور نہ کریں بلکہ حقیقت کو پہچاننے کی کوشش کریں ، ورنہ ان کا انجام بھی قارون اور سابقہ اقوام سے مختلف نہیں ہوگا۔
Top