Mualim-ul-Irfan - Al-Qasas : 79
فَخَرَجَ عَلٰى قَوْمِهٖ فِیْ زِیْنَتِهٖ١ؕ قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ قَارُوْنُ١ۙ اِنَّهٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ
فَخَرَجَ : پھر وہ نکلا عَلٰي : پر (سامنے) قَوْمِهٖ : اپنی قوم فِيْ : میں (ساتھ) زِيْنَتِهٖ : اپنی زیب و زینت قَالَ : کہا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُرِيْدُوْنَ : چاہتے تھے الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی يٰلَيْتَ : اے کاش لَنَا مِثْلَ : ہمارے پاس ہوتا ایسا مَآ اُوْتِيَ : جو دیا گیا قَارُوْنُ : قارون اِنَّهٗ : بیشک وہ لَذُوْ حَظٍّ : نصیب والا عَظِيْمٍ : بڑا
پس نکلا ( قارون) اپنی قوم کے سامنے اپنی زینت میں ، کہا ان لوگوں نے جو دنیا کی زندگی چاہتے تھے ، کاش کہ ہمارے لیے بھی وہی کچھ ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔ بیشک وہ اللہ بڑی خوش قسمتی والا ہے
ربط آیات : اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ہم قوم قارون کا ذکر کیا جو سرکش اور مغرور ہوچکا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ مال و دولت پر اتراتا تھا ، اس کی قوم کے لوگوں اور خود موسیٰ نے بھی سمجھایا کہ وہ اس مال پر غرور وتکبر کرنے کی بجائے اس کے ذریعے آخرت کا بہتر گھر تلاش کرے۔ نیز یہ کہ مخلوق اسی طرح احسان کرے جس طرح اللہ نے اسے مال و دولت دے کر اس پر احسان کیا ہے ، مگر وہ سخت مغرور تھا ، کہنے لگا مجھ پر کسی کا کیا احسان ہے۔ یہ دولت تو میں نے اپنے علم و ہنر کی بنا پر کمائی ہے ، مگر اللہ نے تنبیہ فرمائی کہ اس شخص کو اتنا بھی پتہ نہیں چلا کہ اس جیسی متکبر قوموں کو ہم نے پہلے ہی ہلاک کیا ہے۔ وہ تو اس سے بھی زیادہ طاقتور تھے اور تعداد میں بھی زیادہ تھے مگر اللہ کے فیصلے کے مقابلے میں ان کا مال و دولت ، جاہ و حشمت ، فوج اور پولیس کچھ کام نہ آئی اور وہ اپنے انجام کو پہنچ کر رہے۔ فرمایا جب اللہ کسی مجرم کو گرفت میں لیتا ہے تو پھر اس سے اس کے جرموں کے متعلق پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ، ان کی ساری کارگزاری اللہ کے علم میں ہوتی ہے اور وہ ان کے عقیدہ و عمل کے مطابق ان سے سلوک کرتا ہے۔ قارون پر رشک قارون کی شان و شوکت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا فخرج علی قومہ فی زینہ ایک روز قارون اپنی قوم کے پاس نہایت زیب وزینت اور شان و شوکت کے ساتھ نکلا ۔ شیخ سعدی (رح) نے قارون کے متعلق کہا ہے ؎ قارون ہلاک شد کہ چہل خانہ کنج داشت نو شیرواں نمرد کہ نام نکو گذاشت قارون ہلاک ہوگیا ، حالانکہ اس کے پاس سونے سے بھرے ہوئے چالیس مکان تھے اس کے بر خلاف نو شیرواں عادل تھا ، اس کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ تو فرمایا کہ ایک دن قارون بڑی شان کے ساتھ باہر نکلا ، کسی تقریب میں جانا ہوگا ، نہایت فاخرہ لباس پہنچ رکھا تھا۔ سنہری زین والے شہابی رنگ کے خچر یا گھوڑے پر سوار تھا ، نوکر چاکر ، غلام اور لونڈیاں ہمراہ تھے۔ اس کی اس شان و شوکت کو دیکھ کر قال الدین یریدون الحیوۃ الدنیا کہا ان لوگوں نے جو دنیا کی زندگی کے ہی خواہش مند تھے۔ اکثر لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں جو دنیا کی زیب وزینت اور ٹھاٹھ باٹھ پر ہی فریفتہ ہوتے ہیں اور وہ اسی کو اول و آخرسمجھتے ہیں ۔ قارون کو اس حالت میں دیکھ کر ان کے منہ میں بھی پانی بھر آیا اور کہنے لگے یلیت لنا مثل ما اوتی قارون کاش کہ ہمیں بھی وہی کچھ حاصل ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔ دیکھو یہ کتنا خوش قسمت آدمی ہے جسے دنیا کی ہر آسائش حاصل ہے۔ کاش ہمیں بھی یہ چیز میسر آئیں ۔ اس زمانے میں بھی لوگوں کا یہی حال ہے ، کسی کی کار ، کوٹھی ، لباس ، عیش و عشرت ، کارخانے ، زمین وغیرہ دیکھ کر ویسی ہی تمنا کرنے لگتے ہیں ، بلکہ اللہ نے فرمایا کہ بعض لوگ تو دنیا پر اس قدر ریجھ جاتے ہیں کہ وہ یوں کہنے لگتے ہیں رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ یَوْمِ الْحِسَابِ ( ص : 61) اے ہمارے پروردگار ! ہمیں جو کچھ دینا ہے قیامت سے پہلے پہلے اسی دنیا میں دے دے۔ ایسے لوگ لازما ً آخرت کو پس پست ڈال دیتے ہیں ، تو موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے بعض لوگوں نے بھی قارون پر رشک کیا اور کہنے لگے انہ لذوحظ عظیم بیشک وہ تو بڑا خوش قسمت آدمی ہے جس کے پاس مال و دولت کی اس قدر فراوانی ہے۔ اہل علم کا نظریہ اس کے بر خلاف وقال الذین اوتوا العلم کہا ان لوگوں نے جن کو علم دیا گیا تھا۔ اس علم سے دنیا کے علم سائنس ، ریاضی ، ٹیکنالوجی ، جغرافیہ وغیرہ نہیں بلکہ اس سے انبیاء (علیہم السلام) کا علم مراد ہے جو انہیں وحی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اور یہ علم اللہ تعالیٰ کے دین شریعت اور احکام پر مشتمل ہوتا ہے دنیا کا علم جاننے والے تو آج عیسائی اور یہودی اور دیگر لوگ بہت زیادہ ہیں جو آسمانوں پر کمندیں ڈال رہے ہیں مگر یہ علوم آخرت کے لحاظ سے بےسود ہیں ۔ مفید علم تو وہ ہے جس پر خدا تعالیٰ راضی ہو ، جس کے ذریعے اللہ اور اس کی مخلوق کے حقوق معلوم ہو سکیں اور جس سے دل میں روشنی پیدا ہو ۔ بہر حال اہل علم لوگوں نے کہاویلکم تمہارے لیے خرابی ہے۔ تمام دنیاوی ٹھاٹھ باٹھ کی تمنا کر رہے ہو حالانکہ یہ سازو سامان بالکل عارضی اور ناپائیدار ہے۔ یاد رکھو ! ثواب اللہ خیر لمن امن وعمل صالحا ً اللہ کا عطا کردہ اجر وثواب بہتر ہے مگر اس شخص کے لیے جو ایمان لایا اور جس نے اچھا عمل کیا ۔ انسان کو چاہئے کہ وہ دنیا کے فانی مال کی تمنا کرنے کی بجائے اللہ کے دائمی انعامات کی خواہش کرے۔ حضور ﷺ نے دعا سکھائی ہے 1 ؎ اللھم لا تجعل الدنیا اکبر ھمنا ولا مبلغ علمنا اے اللہ ہمارا مقصود صرف دنیا کی طلب کو نہ بنا اور نہ ہی ہمارے علم کو صرف دنیا تک محدود رکھ ۔ دنیا کی خواہش تو کافر ، مشرک اور ملحد کرتے ہیں ۔ جب کہ مومنوں کو برزخ اور آخرت کی فکر ہوتی ہے اور وہ اس کی بہتر ی کے طالب ہوتے ہیں ۔ دنیا کی زندگی تو سو پچاس سال میں ختم ہو جائیگی اور یہاں کی ہر چیز یہیں رہ جائے گی ۔ جب کہ آخرت کی زندگی لا محدود اور دائمی ہے۔ لہٰذا اس کی فکر ہونی چاہئے۔ حضرت شعیب علیہ السلا م نے اپنی قوم کو تجارتی بد دیانتی سے منع 1 ؎۔ ترمذی ص 405 ( فیاض) کرتے ہوئے فرمایا ، کسی کا حق غضب نہ کرو اور جو حقوق قابل ادائیگی ہیں ۔ ان کو ادا کرنے کے بعد بَقِیَّتُ اللہ ِ خَیْرٌ لَّـکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَج وَمَآ اَنَا عَلَیْکُمْ بِحَفِیْظٍ (ھود : 68) جو کچھ تمہارے پاس بچ رہے۔ وہی تمہارے لیے بہتر ہے ، اگر تم ایمان والے ہو ، مطلب یہ ہے کہ حلال روزی میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالتا ہے جب کہ ناجائز ذرائع سے حاصل شدہ مال ناجائز اور حرام کاموں میں ہی صرف ہوتا ہے۔ مال حرام بود بجائے حرام رفت کے مصداق عامہ مال حرام راستے ہی حرچ ہوتا ہے۔ تو موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے اہل علم لوگوں نے قارون پر رشک کرنے والوں کو سمجھایا کہ تم قارون کی طرح دنیا کے طالب بن رہے ہو ۔ تمہارا یہ سودا اچھا نہیں ہے بلکہ اہل ایمان اور اعمال صریح انجام دینے والوں کو جو کچھ اللہ کے ہاں ملنے والا ہے۔ وہ بہتر ہے اور ساتھ یہ بھی فرمایا ولا یلقھا لا الصبرون اور یہ سعادت تو صرف صبر کرنے والوں کو ہی حاصل ہوتی ہے اہل ایمان دنیا میں مشکلات کو برداشت کرتے ہیں ۔ ایمان اور نیکی کی دولت کماتے ہیں ، وہ دنیا کی آرزو نہیں کرتے ، طعن وتشنیع اور بھوک پیاس کو برداشت کرتے ہیں ۔ عبادت و ریاضت میں مشقت اٹھانے میں مال ہے تو اس کو صحیح مقام میں خرچ کرتے ہیں ، لہٰذا وہ اللہ کے بےپائیاں انعامات کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ قارون کی ہلاکت مفسرین کرام 1 ؎ یہاں کرتے ہیں کہ قارون کی ہلاکت موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف ایک سازش کرنے کے نتیجے میں ہوتی ۔ ایک موقع پر موسیٰ (علیہ السلام) لوگوں کے سامنے تعزیری احکام بیان کر رہے تھے کہ جس نے چوری کی اس کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں گے اور جس نے زنا کا ارتکاب کیا اس کو درے مارے جائیں گے یا سنگسار کردیا جائے گا ۔ قارون کسی ایسے ہی موقع کی تلاش میں تھا۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے مل کر ایک سازش تیار کر رکھی تھی ۔ ایک فاحشہ عورت کو سونے کا تھال بھر کر اس مقصد کے لیے دیا تھا کہ وہ جمع عام میں موسیٰ (علیہ السلام) پر بدکاری کی تہمت لگائے چناچہ اس موقع اس عورت کو بلایا گیا ۔ بہت سے لوگ جمع تھے جنہیں موسیٰ (علیہ السلام) 1 ؎۔ طبری ص 611 تا 811 (فیاض) وعظ کر رہے تھے ۔ عین اس وقت قارون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے سوال کیا کہ کیا یہ مجرم کی یہی سزا ہے ؟ آپ نے اثبات میں جواب دیا۔ پھر قارون نے مزید پوچھا کہ اگر آپ بھی نعوذ باللہ زناکے مرتکب ہوں تو کیا آپ کو بھی یہی سزا دی جائے گی ۔ آپ نے پھر تصدیق کی ۔ اتنے میں اس فاحشہ عورت کا اشارہ کیا گیا جس نے عام مجلس کے دوران موسیٰ (علیہ السلام) پر بدکاری کا الزام لگا دیا اس اچانک حملے سے موسیٰ (علیہ السلام) سخت پریشان ہوگئے مگر اللہ نے آپ کو ہمت عطا فرمائی آپ نے اس عورت کو قریب بلایا اور فرمایا تجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھ پر تورات نازل فرمائی ہے جس نے بحر قلزم میں بنی اسرائیل کیلئے راستے بنادیئے اور جس نے فرعون کو غرق کیا ۔ سچ سچ بتائو کہ تم نے یہ الزام کیوں لگایا ہے ، وہ عورت گھبرا کر حق لینے پر مجبورہو گئی کہ قارون اور اس کے ساتھیوں نے روپے پیسے دے کر اس سے یہ الزام لگوایا ہے ۔ جب حقیقت واضح ہوگئی تو موسیٰ (علیہ السلام) منبر سے نیچے اتر آئے اور نہایت گریہ درازی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے دعا کی پروردگار یہ لوگ حد سے گزر گئے ہیں ۔ اب تو ہی ان سے انتقام لے ، چناچہ اسی مجلس میں اللہ تعالیٰ کا قہر و غضب کا حکم آ گیا کہ ان ناہنجاروں کو ابھی زمین نگل لے گی ، چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اعلان کیا کہ جو شخص قارون کی اس کمینہ حرکت کو ناپسند کرتا ہے وہ اس سے الگ ہو کر ہمارے ساتھ شامل ہوجائے کیونکہ اب اس پر خدا کا عذاب نازل ہونے والا ہے ، چناچہ مفسرین بیان کرتے ہیں کہ لوگوں کی اکثریت نے قارون سے علیحدگی اختیار کرلی اور اس کے ساتھ چند افرادرہ گئے جو اس کے گھر والے یا دیگر حامی تھے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے قارون کے مکانات جن میں مال و دولت جمع کر رکھا تھا۔ زمین میں دھنسنے لگے ، اس کے ساتھ قارون اور اس کے حامی بھی زمین میں دھنسا دیئے گئے۔ قارون کے علاوہ یہ سزا بعض دوسرے لوگوں کو بھی ملی ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ پہلی امتوں میں سے ایک شخص دو دیدہ زیب چادریں اوڑھ کر اکڑ کر جارہا تھا۔ ایک چادر تہہ بند کے طور پر باندھ رکھ ہوگی اور دوسری اوپر اوڑھی ہوگی۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اسکے غرور وتکبر کی بناء پر اللہ نے اس کو زمین میں دھنسا دیا اور وہ قیامت تک دھنستا ہی چلا جائے گا ۔ حتیٰ کہ قیامت کے دن کہیں اس کا قدم جا کر ٹکے گا ۔ قارون کی ہلاکت اگلی آیت میں اللہ نے قارون کی ہلاکت کا حال بیان کیا ہے۔ فخسفنابہ وبدارہ الارض پھر دھنسا دیا ہم نے قارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں ، مطلب یہ کہ جن مکانات میں اس نے خزانے جمع کر رکھے تھے ۔ قارون کے ساتھ وہ بھی زمین میں دھنسا دیئے گئے اور اس طرح نہ وہ خود باقی رہا اور نہ اس کا مال و دولت ۔ اللہ نے خزانوں کو بھی زمین میں غر ق کردیا تا کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اس کی ہلاکت کے بعد قارون کے خزانوں پر قبضہ کرنا چاہتے تھے ، حالانکہ یہ تو اس کی اپنی غلط کارروائی کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے اسے عبرت ناک سزا دی ۔ فرمایا اس کی حالت یہ تھی فما کان لہ من فئۃ ینصرونہ من دون اللہ اللہ کے سوا کوئی گروہ اس کی مدد کرنے والا نہیں تھا۔ وما کان من المنتصرین اور نہ وہ کسی سے انتقام لینے کی طاقت رکھتا تھا۔ وہ کف افسوس ملتا ہوا زمین میں دھنس گیا ۔ دنیا میں خسف کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں ۔ اخبار میں میں نے 9491؁ء کا واقعہ پڑھا تھا۔ فیروز پور کے کسی علاقے میں سکولی بچے سکو ل میں پڑھ رہے تھے کہ اچانک پوری کی پوری عمارت زمین میں دھنس گئی ۔ جب جاپان میں زلزلہ آیا تھا تو زمین میں ہزار ہزار میل لمبی دراڑیں پڑگئی تھیں ۔ اس زلزلے میں ڈیڑھ لاکھ انسان لقمہ اجل بنے اور اتنے ہی زخمی ہوئے۔ امریکہ میں شہاب گرنے سے ایک بستی کے تین چار سو آدمی جل کر خاکستر ہوگئے تھے۔ بہر حال اس قسم کی سزا بعض اوقات ملا کرتی ہے اور قارون بھی اسی طرح کی گرفت میں آیا۔ رشک کرنے والوں کا اعتراف حقیقت فرمایا جب لوگوں نے قارون اور اس کے خزانوں کو اس طرح ہلاک ہوتے دیکھا واصبح الذین تمنوا مکانہ بالامس تو کل تک جو لوگ قارون کے مرتبے کی تمنا کرتے تھے یقولون و یکان اللہ یبسصر الرزق لمن یشاء من عبادہ ویقدر وہ کہنے لگے تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہتا ہے روزی وسیع کردیتا ہے ، اور جس کی چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ، اس کی مصلحت کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ، مخلوق اس سلسلے میں بالکل عاجز ہے ، یہ اللہ کی حکمت ہے کہ بعض اوقات وہ بد ترین قسم کے نافرمانوں کے لیے بھی رزق کے دروازے کھول دیتا ہے ، وہ سونے چاندی میں کھیلتے ہیں ۔ جب کہ بعض نہایت ہی صالح آدمی تنگی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ ان رشک کرنے والوں نے مزید کہا لولا ان من اللہ علینا لخسف بنا اگر اللہ تعالیٰ ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی زمین میں دھنسا دیتا اب ان لوگوں نے حقیقت کو پہچانا ، کہنے لگے کہ کل تک تو ہم قارون کی شان و شوکت کی تمنا کر رہے تھے مگر اس کا مال و دولت تو اس کے لیے قہر الٰہی کا سبب بن گیا ، اللہ کا بڑا احسان ہے کہ ہم اس سزا سے بچ گئے ۔ ان لوگوں نے اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا ویگانہ لا یفلح الکفرون کہنے لگے تعجب ہے یعنی حسرت اور افسوس کا مقام ہے کہ کافر لوگ کبھی فلاح نہیں پائیں گے ، اگر وہ آج بظاہرکامیاب نظر آتے ہیں تو کل جہنم کے کندہ ناتراش بننے والے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کفر و شرک سے محفوظ رکھے ۔ انسان کو توبہ کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ معاف فرمائے۔
Top