Mualim-ul-Irfan - Al-Qasas : 83
تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا١ؕ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ
تِلْكَ : یہ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ : آخرت کا گھر نَجْعَلُهَا : ہم کرتے ہیں اسے لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو لَا يُرِيْدُوْنَ : وہ نہیں چاہتے عُلُوًّا : برتری فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَ : اور لَا فَسَادًا : نہ فساد وَالْعَاقِبَةُ : اور انجام (نیک) لِلْمُتَّقِيْنَ : اور انجام (نیک)
وہ آخرت کا گھر کہ ہم ٹھہراتے ہیں اس کو ان لوگوں کے لیے جو نہیں چاہتے بڑائی زمین میں اور نہ فساد ، اور اچھا انجام متقیوں کے لیے ہے
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ نے قارون کے تکبر ، غرور ، دولت مندی اور موسیٰ (علیہ السلام) کو ایذا رسائی کا ذکر کیا اور پھر اس کا انجام بھی بیان فرمایا ، اللہ نے اسے اس کے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا اور ایسے وقت میں اس کی دولت ، دوست احباب کچھ بھی کام نہ آئے۔ جو لوگ قارون کی شان و شوکت پر رشک کرتے تھے ان کو بھی ندامت اٹھانا پڑی ۔ اس کی تباہی کو دیکھ کر ان لوگوں کو کہنا پڑا کہ اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے رزق کے دروازے کشادہ کر دے اور جس کے لیے چاہے تنگ کردے۔ دولت کی فراوانی نیکی کی علامت نہیں بلکہ یہ تو اللہ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے ، ان لوگوں نے تسلیم کیا کہ اللہ نے ہم پر بڑا احسان کیا جو ہماری تمنا کے باوجود ہمیں قارون کا ہم پلہ نہیں بنایا ورنہ ہم بھی اس کے ساتھ ہی زمین میں دھنس جاتے اور ہمارا کوئی پرسان حال نہ ہوتا ۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ کافر لوگ کبھی فلاح نہیں پا سکتے ، ان کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے۔ …جنت آج کی پہلی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں کا ذکر کیا ہے جو انسان کے جنت کے جانے کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہیں ۔ ان میں سے ایک غرور ہے اور دوسرا فساد ، گزشتہ رکوع میں بھی دارالآخرت کا ذکر آ چکا ہے کہ قارون کی قوم نے اس سے کہا کہ اللہ نے جو مال و دولت تمہیں عطا کیا ہے اس کے ذریعے آخرت کا گھر تلاش کرو اور لوگوں پر احسان کرو جس طرح اللہ نے تم پر احسان کیا ہے۔ اب اس آیت میں بھی دارآلاخرت کا ذکر اس حوالے سے کیا گیا کہ یہ ان لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جو غرور اور فساد سے پرہیز کرتے ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے تلک الدار ا الاخرۃ آخرت کا گھر وہ ہے کہ نجعلھا للذین لایریدون علوا فی الارض ولا فسادا ہم بناتے ہیں اس کو ان لوگوں کے لیے جو نہیں چاہئے زمین میں بڑائی اور نہ فساد کرتے ہیں ۔ گویا آخرت کے گھر کے حصو ل میں دو چیزیں برائی یعنی غرور وتکبر اور فساد مانع ہیں۔ غرور اور تکبر تکبر روحانی بیماریوں میں سے سب سے بڑی بیماری ہے۔ تکبر ہی کی وجہ سے ابلیس راندہ درگاہ ٹھہرا ۔ اللہ نے فرمایا ۔ ابی واستکبر وکان من الکفرین ( البقرہ : 43) اس نے حکم خداوندی کا انکار کیا اور تکبر کیا جس کی وجہ سے وہ کافروں میں شمار ہوگیا ۔ دوسرے کو اپنے سے کم تر اور حقیر سمجھنا تکبر کی علامت ہے ۔ اس قسم کا تکبر عام لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ کوئی شخص دوسرے کو علم کے اعتبار سے حقیرسمجھتا ہے ، کوئی خاندان ، برادری اور جتھے کے اعتبار سے ، کوئی دولت اور قوت کی بناء پر دوسرے کو حقیر جانتا ہے۔ یہ بڑی قبیح چیز ہے اور آخرت کے گھرکے راستے میں رکاوٹ ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے لا یفخر بعضکم علی بعض ولا یبغی بعضکم علی بعض کوئی شخص دوسرے کے مقابلے میں فخر نہ کرے اور نہ کوئی ایک دوسرے پر سر کشی کرے۔ اس کی بجائے تو اضع اور انکساری کو اختیار کرنا چاہئے۔ بزرگان دین فرماتے ہیں کہ تکبر ایسی قبیح بیماری ہے کہ انسانی جسم سے اس کو نکالنا بہت مشکل ہوا ہے ایک پہاڑ کو سوئی کے ذریعے اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کرنا آسان ہے مگر تکبر کو انسان سے نکالنا مشکل ہے۔ اسی لیے تکبر کی بیماری سب سے آخر میں نکلتی ہے۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ جس آدمی کی جان اس کے جسم سے اس حالت میں جدا ہو کہ وہ شخص تکبر ، خیانت اور غلول سے پاک ہو تو ایسا شخص جنت میں داخل ہوگا ، ایک روایت میں دین یعنی قرضہ کا ذکر بھی آتا کہ اس سے بھی پاک ہونا ضروی ہے۔ یہ حقوق العباد کا حصہ ہے اور جب تک صاحب حق معاف نہ کرے ، اس کی معافی کی کوئی صورت نہیں ہے۔ کسی کی حق تلفی خیانت ہے جس کے متعلق اللہ کا فرمان ہے ان اللہ لا یحب الخائنین ( الانفال : 85) وہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ خائن اللہ کی نگاہ میں مبغوض ہوتے ہیں۔ فساد فی الارض دوسری مانع جنت چیز فساد فی الارض ہے ۔ فساد کا عام فہم معنی تو قتل و غارت مار دھاڑ اور ظلم و زیادتی وغیرہ ہوتا ہے۔ تا ہم قانون خداوندی کی خلاف ورزی ، کفر شرک اور معاصی کا ارتکاب بھی فساد فی الارض میں داخل ہے ۔ ابھی پچھلے رکوع میں گزرا ہے کہ قارون کی قوم نے اس سے کہا لا تبع الفساد فی الارض ان اللہ لا یحب المفسدین زمین میں فساد نہ تلاش کرو اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا سورة الاعراف میں واضح طور پر فسادفی الارض سے منع کیا گیا ہے۔ وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا ( آیت : 65) نہ فساد کرو زمین میں اس کی اصلاح کے بعد ، بہر حال جب تک قوانین الٰہیہ پر عمل ہوتا رہے گا ۔ لوگوں کو امن حاصل ہوگا ۔ جب شرک کفر اور معاصی کا ارتکاب ہوگا ۔ تو بدامنی اور شر و فساد پیدا ہوگا ۔ بدعات اور خلاف سنت امور بھی فساد کا باعث ہوتے ہیں ، لہٰذا ایسی چیزوں سے اجتناب کرنا چاہئے۔ حسد غرور وتکبر اور فساد فی الارض کے علاوہ حسد کی بیماری بھی عام لوگوں میں پائی جاتی ہے ۔ بعض بزرگوں کا قول ہے ما خلا جسدا عن حسد یعنی کو فی انسانی جسم حسد سے خالی نہیں ہوتا ۔ اسی لیے حاسد کے حسد سے پناہ مانگی گئی ہے ومن شر حاسد اذا حسد ( الفلق : 5) ابو دائود شریف کی روایت 1 ؎ میں آتا ہے کہ لوگو ! حسد سے بچتے رہو فان الحسد یا کل الحسنت کما تا کل النار الحطب کیونکہ حسد آدمی کی نیکیوں کو اس طرح کھاجاتا ہے۔ جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ بہر حال فرمایا کہ آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا ہے جو تکبر اور فسادفی الارض سے اجتناب کرتے ہیں ۔ والعاقبۃ للمتقین اور اچھا انجام متقیوں کا ہی ہوگا ۔ تقویٰ کا معنی اور محافظت بر حدود شرع ، یعنی شریعت کی حدود کی حفاظت کرنا ہے۔ جو شخص حدود شریعت کو قائم رکھے گا ۔ وہ کامیاب ہوگا ۔ متقی پر آزمائش تو آئیں گی لیکن بالآخر وہ خدا کی رحمت کے مقام میں پہنچ جائیگا ۔ اس کے بر خلاف تکبر اور فساد کرنے والے محروم رہ جائیں گے۔ نیکی اور برائی کا بدلہ آگے ارشاد ہوتا ہے من جاء بالحسنۃ فلہ خیر منھا 1 ؎۔ کنز العمال ص 362 ج 3 بحوالہ ابن مردویہ و بیہقی در منثور ص 914 ج 6 و ص 024 (فیاض) جو شخص نیکی لے کر آیا ، اللہ کے ہاں اس کے اس نیکی سے بہتر بدلہ ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ کا عام قانون یہ ہے من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امتالھا (الانعام : 161) یعنی نیکی کا کم از کم بدلہ دس گنا ہے اور زیادہ کوئی حد نہیں ، یہ بدلہ سات سو گنا یا سات لاکھ گنا سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے انسان کا خلوص جس قدر بڑھتا جائیگا ، اسی قدر اللہ کے ہاں اجر وثواب میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا ، حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ اللہ کے راستے میں خرچ کیا ہوا کھجور کا ایک دانہ اجر وثواب میں احد پہاڑ سے بھی بڑھ سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان کا عمل تو ایک محدود وقت کے لیے ہوتا ، مگر اس کا اجر وثواب چونکہ دائمی ہوتا ہے ، لہٰذا وہ عمل سے بہر صورت بہترہ وتا ہے۔ فرمایا ومن جاء بالسیئۃ فلا یجزی الذین عملا السیات الاما کانوا نعملو اور جو کوئی برائی لے کر آیا ، تو برائی کا ارتکاب کرنے والوں کا بدلہ ان کی برائی کے برابر ہی ہوگا ۔ اس سے زیادہ نہیں ہوگا ۔ شاہ عبد القادر دہلوی (رح) لکھتے 1 ؎ ہیں کہ اللہ نے نیکی کیلئے بہتر اجر کا وعدہ کیا ہے ، لہٰذا وہ تو ہر صورت ملنا ہے مگر برائی کے اجر کے لیے وعدہ نہیں فرمایا ، لہٰذا ممکن ہے کہ وہ معاف ہی ہوجائے ، ہاں اگر کسی کو سزا ملے گی تو اتنی ہی جتنی اس نے برائی کی ہوگی ، اس سے زیادہ نہیں۔ واپس لوٹانے کا اعلان اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو بہتر مستقبل کی پیش گوئی کر کے تسلی دی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ان الذی فرض علیک لقرن وہ ذات جس نے آپ پر قرآن فرض کیا ہے لرادک الی معاد وہ آپ کو لوٹائے گا ۔ لوٹانے کی جگہ کی طرف ، لوٹانے کی جگہ سے متعلق مفسرین 2 ؎ کرام دو قسم کی تفسیریں بیان کرتے ہیں ۔ معاد سے ایک مراد تو قیامت والے دن لوٹانے کی جگہ ہے کہ آپ اس دن بلند ترین مقام پر فائز ہوں گے ، جیسا کہ سورة بنی اسرائیل میں آتا ہے ۔ عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا ( آیت : 97) امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا ۔ جہاں آپ سجدہ ریز ہونگے۔ 1 ؎۔ موضح القران ص 374 ۔ 2 ؎۔ ابن کثیر ص 304 ج 3 و طبری ص 431 ج 03 ( فیاض) اور پھر اذن الٰہی سے شفاعت کبریٰ اور شفاعت صغریٰ کریں گے ۔ مطلب یہ کہ اگر اس لوٹانے سے قیامت کا لوٹانا مراد ہے تو وہاں بھی آپ کو نہایت ہی عزت و احترام والے مقام میں لوٹایا جائے گا ۔ معاد کا دوسرا معنی مفسرین کرام یہ بیان کرتے ہیں کہ اس کا ارشاد آپ کو مکہ مکرمہ میں واپس لوٹانے کی طرف ہے ، چناچہ بعض مفسرین 2 ؎ فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضور ﷺ کی ہجرت الی المدینہ کے موقع پر نازل ہوئی تھی ۔ آپ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے ، وہیں جوان ہوئے ، نبوت بھی اسی مقام میں ملی مگر مشرکین مکہ نے آپ پر عرصہ حیات تنگ کردیا اور آپ کو ہجرت پر مجبور کردیا ۔ چناچہ آپ غار ثور سے نکل کر ایک غیر معروف راستے پر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ، پھر جب آپ حجفہ کے مقام پر پہنچے تو مدینہ کے لیے سیدھا راستہ اختیار کیا ۔ اسی دوران آپ خذورۃ نامی پہاڑ پر چڑھے اور حرم شریف کی طرف دیکھ کر آپ کا دل بھر آیا ، اور نہایت حسرت و افسوس کے ساتھ فرمایا کہ اگر مکہ والے مجھے مجبور نہ کرتے تو اللہ کے گھر کا پڑوس چھوڑ کر نہ جاتا ، گویا مکہ کی جدائی حضور ﷺ کے لیے سخت اضطراب کا باعث بنی ۔ مفسرین فرماتے ہیں 3 ؎ کہ اس حالت میں اللہ نے یہ آیت نازل فرما کر حضور ﷺ کو تسلی دی کہ جس خدا تعالیٰ نے آپ پر قرآن نازل فرمایا وہ ضرور آپ کو مکہ کی طرف دوبارہ لوٹائے گا ۔ مطلب یہ کہ اب تو آپ مجبور مکہ مکرمہ سے خصت ہو رہے ہیں مگر ایک وقت آئے گا ۔ جب آپ فاتحانہ انداز میں ذہانت عزت و احترام کے ساتھ اس شہر میں واپس آئیں گے۔ اللہ نے اپنا یہ وعدہ پورا فرمایا اور ہجرت کے آٹھ سال کے بعد آپ دس ہزار قدسیوں کی جماعت کے ساتھ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے مگر کسی نے رحمت نہ کی ۔ قرآن فرض کرنے سے مراد قرآن کا نزول ہے ۔ اس کے علاوہ پاک کی تلاوت بھی اس ضمن میں آتی ہے جیسے فرمایا اتل ما وحی الیک من الکتب ( العنکبوت : 54) آپ کے پاس جو کتاب نازل کی گئی ہے۔ آپ اس کی 1 ؎۔ ابن کثیر ص 204 ج 3 ۔ 2 ؎۔ ابن کثیر ص 304 ج 3 وقرطبی ص 123 ج 31 ۔ 3 ؎۔ بیضاوی ص 023 ج 2 (فیاض) تلاوت کریں ۔ اس کے بعد کتاب اللہ کی تعلیم و حکمت ، اس پر عملدرآمد اور تزکیہ نفس وغیرہ سب فرض کے حکم میں داخل ہے۔ تو فرمایا کہ جس خدا نے آپ پر قرآن فرض کیا ہے ۔ وہ ضرور آپ کو لوٹائے کے مقام پر لوٹائے گا ، لہٰذا آپ دل برداشتہ نہ ہوں بلکہ تسلی رکھیں ، سورة الضحیٰ میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمادیا۔ وللاخرۃ خیر لک من الاولی (آیت : 4) آپ کا آخری دور پہلے دور کی نسبت لازماً بہتر ہوگا ۔ اللہ نے اپنا وعدہ بھی پورا فرمایا اور اسلام کو غلبہ عطا کیا ۔ ارشاد ہوتا ہے قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے ربی اعلم من جاء بالھدی میرا پروردگار خوب جانتا ہے اس شخص کو جو ہدایت لے کر آیا ہے۔ ومن ھو فی ضلل مبین اور اس کو بھی جانتا ہے جو کھلی گمراہی میں مبتلا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کی نیت ، ارادے اور اعمال سے واقف ہے اور اسی کے مطابق ہر ایک کو بدلہ دیگا ، پہلے نیکی اور برائی کا ذکر کر کے جزائے عمل کو بیان کیا ، اب ہدایت اور گمراہی کی رو سے بدلے کا ذکر کیا ہے کہ ہر ایک کو اس کے کیے کا پھل ملے گا ۔
Top