Mualim-ul-Irfan - Al-Qasas : 86
وَ مَا كُنْتَ تَرْجُوْۤا اَنْ یُّلْقٰۤى اِلَیْكَ الْكِتٰبُ اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ ظَهِیْرًا لِّلْكٰفِرِیْنَ٘
وَمَا كُنْتَ : اور تم نہ تھے تَرْجُوْٓا : امید رکھتے اَنْ يُّلْقٰٓى : کہ اتاری جائے گی اِلَيْكَ : تمہاری طرف الْكِتٰبُ : کتاب اِلَّا : مگر رَحْمَةً : رحمت مِّنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب فَلَا تَكُوْنَنَّ : سو تو ہرگز نہ ہوتا ظَهِيْرًا : مددگار لِّلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے
اور نہیں آپ توقع رکھتے تھے کہ اتاری جائے آپکی طرف کتاب ، مگر یہ مہربانی ہے آپ کے پروردگار کی طرف سے ۔ پس نہ ہوں آپ مدد گار کفر کرنے والوں کے
ربط آیات سورۃ القصص میں بنیادی عقائد توحید ، رسالت ، معاد اور قرآن پاک کی حقانیت و صداقت کے علاوہ بہت سی نصیحت کی باتیں بھی بیان کی گئی ہیں ۔ اس میں کفر کی مذمت اور غرور وتکبر کی قباحت ذکر ہوتی ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ بلا شبہ مشرکین آپ کی طرح طرح کی اذیتیں پہنچاتے ہیں مگر آپ موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات کو بھی ذہن میں رکھیں کہ انہیں زندگی بھر کن کن مشکل حالات سے گزرنا پڑا ۔ ان کا واسطہ بھی بڑے سرکش اور متکبر لوگوں کے ساتھ تھا ، آپ کے مخالفین بھی بڑے نا ہنجار میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مغروروں میں فرعون اور ہامان تھا۔ جب کہ حاسدوں میں قارون تھا اسی طرح آپ کے بھی بڑی بڑے معتبر وظن اور حاسدین ہیں ۔ آپ دل برداشتہ نہ ہوں ، بلکہ حالات کا مقابلہ خندہ پیشانی سے کریں ، بالآخرکامیابی آپ ہی کے حصے میں آئیگی۔ نبوت عطیہ خداوندی ہے آج کے درس میں سب سے پہلے نبوت و رسالت اور وحی الٰہی کو وہبی چیز قرار دیا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ نبوت کسی کی خواہش یا محنت کی بدولت حاصل نہیں ہوتی ۔ بلکہ یہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہوتا ہے جو اپنے فضل و رحمت سے جس کو چاہے اس منصب کے لیے چن لیتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے وما کنت ترجوان یلقی الیک الکتب اور آپ نہیں امید رکھتے تھے کہ آپ کی طرف کتاب نازل کی جائیگی ۔ اللہ نے حضور ﷺ کو خطاب کرکے فرمایا ہے کہ آپ کو کتاب عطا ہونے یعنی نبوت ملنے کی کوئی امید یا توقع نہیں تھی الا رحمۃ من ربک بلکہ یہ تو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر خاص رحمت ہے اس نے اپنے فضل سے نبوت کا تاج آپ کے سر پر رکھا۔ مطلب یہ کہ عطا نے نبوت میں کسی عبادت و ریاضت یا کسی دوسری محنت کا کوئی دخل نہیں ہوتا کہ کوئی یہ امید کرنے لگے کہ اب مجھے نبوت ملنے والی ہے۔ یہ تو خالصتا ً عطیہ خداوندی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر شخص کی استعداد اور خلوص کو جانتا ہے جس کی بناء پر وہ نبوت و رسالت کے لیے انتخاب کرتا ہے کسی نبی کو نبوت عطا ہونے سے پہلے کوئی توقع یا امید نہیں تھی کہ اسے اس منصب جلیل پر فائز کیا جا رہا ہے۔ خود حضور ﷺ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ سخت خوفزدہ ہوئے اور لزرتے کانپتے گھر تشریف لائے۔ حضرت خدیجہ ؓ کو سارا واقعہ سنایا جنہوں نے آپ کو تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہلاک نہیں کرے گا ۔ آپ تو صلہ رحمی کرنے والے اور دوسروں کے کام آنے والے ہیں ، ہاں اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ قبل از نبوت بھی کسی نبی سے کوئی گناہ نہیں سر زد ہونے دیتا بلکہ اس کی حفاظت کرتا ہے۔ اس ضمن میں قادیانیوں نے نہایت ہی غلط عقیدہ وضع کر رکھا ہے۔ مرزا غلام احمد کے بیٹے مرزا محمود نے لکھا ہے کہ کوئی شخص عبادت و ریاضت کرتے کرتے نبی کا درجہ پا سکتا ہے۔ بلکہ نبی سے آگے بھی بڑھ سکتا ہے ( نعوذ باللہ) قادیانیوں کے لٹریچر میں اس قسم کی کفر یہ باتیں موجود ہیں مگر افسوس کا مقام ہے کہ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ بھی ایسی چیزوں کو پڑھ کر واہ واہ کرتے ہیں ۔ دنیا کا اقتدار ، ملازمت ، حکومت ، وزارت ، ممبری وغیرہ کے لیے تو انسان امیدوار بنتا ہے ، پھر محنت کرتا ہے انتخاب لڑتا ہے ، خرچ کرتا ہے ، تب کہیں جا کر اسے ممبری کی امید ہوتی ہے پھر وہ وزیر بنتا ہے۔ وزیراعلیٰ کے عہدہ پر فائز ہوتا ہے یا وزیراعظم اور صدر بن جاتا ہے۔ اسی طرح عام ملازمت کا بھی یہی حال ہے ۔ انسان کسی معمولی عہدے پر فائز ہوتا ہے۔ اور پھر اپنی محنت اور قابلیت کی بناء پر اعلیٰ عہدے تک ترقی کرجاتا ہے ، مگر نبوت کے لیے ایسا کوئی قانون نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہوتی ہے۔ نبی کو اپنی نبوت کا اس وقت علم ہوتا ہے ، جب اللہ تعالیٰ اس پر وحی نازل فرما کر اسے آگاہ کرتا ہے ، تو یہاں بھی فرمایا کہ آپ کو امید نہیں تھی کہ آپ کو نبوت عطا ہو رہی ہے اور آپ پر یہ کتاب نازل ہونے والی ہے بلکہ یہ تو آپ کے پروردگار کی طرف سے خاص رحمت تھی کہ اس نے آپ کو اس منصب کے لیے منتخب فرمایا اور تمام انبیاء میں آپ کو بلند ترین مقام عطا فرمایا ولکن رسول اللہ و خاتم النبین (الاحزاب : 04) آپ کو رسول بنایا اور نبیوں کا خاتم بھی بنا دیا ۔ آپ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوگیا ۔ اللہ نے فرمایا ہے تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ (البقرہ : 352) ہم نے رسولوں میں سے بعض کو بعض پر فضلیت بخشی ورفع بعضھم درجت ( البقرہ : 352) اور حضور ﷺ کو سب سے اعلیٰ درجہ عطا فرمایا۔ کفار سے عدم تعاون فرمایا کہ جب اللہ نے آپ پر اس قدر احسان فرمایا ہے فلا تکونن ظھیر اً للکفرین پس نہ ہوں آپ کافروں کے مدد گار اور پشت پناہ یہی بات موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ میں سورة کی ابتداء میں بیان ہوچکی ہے۔ جب ان کے ہاتھوں غیر ارادی طور پر ایک قبطی قتل ہوگیا تو وہ اس فعل پر نادم ہونے اور اسے شیطان کا عمل قرار دیا ۔ پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور اللہ نے ان کو معاف بھی کردیا اس پر موقع پر موسیٰ (علیہ السلام) نے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا ۔ قَالَ رَبِّ بِمَآ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ فَلَنْ اَکُوْنَ ظَہِیْرًا لِّلْمُجْرِمِیْنَ (القصص : 71) پروردگار ! اس وجہ سے کہ تو نے مجھ پر اس قدر احسان کیا ہے تو میں کبھی بھی مجرموں کا مدد گار یا پشت پناہ نہیں بنوں گا ۔ بل کے ہمیشہ حق پرستوں کا ساتھ دوں گا ۔ شاہ عبد القادر (رح) یہاں پر ایک اور لطیف بات بھی ذکر کرتے ہیں ۔ آپ اس آیت کا مفہوم اس طرح بیان کرتے ہیں کہ آپ اپنی قوم کو اپنا نہ سمجھیں کہ انہوں نے آپ کو ہجرت پر مجبور کردیا ۔ اب آپ کا وہی اپنا ہے جو ایمان در توحید کو تسلیم کر کے آپ کا ساتھ دیگا ۔ اللہ نے عام مومنوں کے لیے بھی یہی اصول بیان فرمایا ہے۔ وَ لَا تَرْکَنُوْٓا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ (ہود : 311) اے ایمان والو ! ظالموں کی طرف مت جھکو۔ اگر ایسا کرو گے تو ان کی طرح تمہیں بھی جہنم چھوئے گی ، لہٰذا ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ کسی کافر ، مشرک یا مجرم کا ساتھ نہ دے اور نہ ہی ان کا مدد گار یا پشت پناہ بنے۔ اللہ نے ایک عام اصول یہ بھی بتلا دیا ہے۔ وتعادنوا علی البر وانتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدون ( المائدہ : 3) نیکی اور تقویٰ کے کام میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور گناہ اور تعدی کے معاملے میں تعاون نہ کرو ، کوئی امیر ہو ، وزیر ہو ، صدر ہو یا بادشاہ ظلم و زیادتی میں کسی کے ممدو معاون نہ ہو ، اگر کفر ، شرک ، اتحاد اور بےدینی میں تعاون کرو گے ، تو جہنم کے مستحق ٹھہروگے۔ مداہنیت سے پرہیز دوسری بات اللہ نے اپنے نبی کو یہ فرمائی ولا یصدنک عن ایت اللہ بعد دد نزئت انیک کہ کافر لوگ آپ کو آیات الٰہی کے نزول کے بعد ان سے روک نہ دیں ۔ مطلب یہ کہ آپ کافروں سے کوئی ایسا معاہدہ نہ کرلیں جو تبلیغ حق کے راستے میں رکاوٹ بن جائے ۔ مثلاً سورة القلم میں ہے وَدُّوْا لَوْتُدْھِنُ فَیُدْھِنُوْنَ ( آیت : 9) کافر لوگ چاہتے ہیں کہ آپ اپنے مشن میں کچھ ڈھیلے پڑجائیں تو وہ بھی مخالفت میں کمی کردیں گے۔ فرمایا دین کے معاملے میں اس قسم کی سودے بازی درست نہیں ۔ دین کے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ اس کو مداہنت کہا جاتا ہے کہ کسی لالچ یا دبائو میں آ کر مشن کر ترک کردیا جائے یا نرمی پیدا کردی جائے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کافر لوگ آپ کو دین کی تبلیغ ، توحید کی شاعت یا کفر کی مذمت بیان کرنے کے معاملہ میں سودا بازی کریں کہ تم ان کو چھوڑ دو تو ہمیں تمہیں فلاح فلاں رعایت دے دیں گے ۔ اللہ نے فرمایا ایسا نہیں ہو سکتا بلکہ آپ اپنے مسلک پر قائم رہیں اور تبلیغ دین کا کام جاری رکھیں۔ دعوت الی اللہ فرمایا اپنے دین پر استقامت اختیار کرتے ہوئے وادع الی ربک لوگوں کو اپنے پروردگار کی طرف دعوت دیں کہ آئو اللہ کی توحید ، اس کے دین اور اس کی شریعت کو مانو ، اس کی کتاب پر ایمان لائو ، فرشتوں اور قیامت کے دن کو تسلیم کرو۔ ولا تکنن من المشرکین اور آپ شرک کرنے والوں میں نہ ہوں ، شرکیہ رسوم میں شریک ہونا یا دل سے ان کو اچھا سمجھنا انہی کے ساتھ شامل ہونے والی بات ہے ۔ مومن کا فرض ہے کہ وہ کفر ، شرک اور بدعات سے نفرت کرے ، اگرچہ یہ خطاب حضور خاتم النبیین ﷺ کو ہے مگر پوری نوع انسانی کو سمجھانا مقصود ہے کہ کسی طرح بھی شرک میں ملوث نہ ہوں کہ اللہ نے اس گناہ کی عدم معافی کا بار بار اعلان کیا ہے۔ فرمایا ولا تدع مع اللہ الھا ً اخر اور نہ پکاریں آپ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے الٰہ کو اپنی حاجتوں میں غیر اللہ کو پکارنا اس کی عبادت کرنے کے مترادف ہے خواہ وہ فرشتہ ہو ، جن ہو ، پیغمبر ہو یا کوئی ولی ہو ۔ مافوق الاسباب کسی غیر اللہ کو پکارنا اسے الٰہ تصویر کرنا ہے۔ اللہ نے اس سے منع فرمایا ہے ۔ عالم اسباب میں تو ایک دوسرے کو آواز دے کر اس کی حتیٰ الامکان مدد بھی حاصل کرسکتے ہیں مگر جہاں ظاہری اسباب ختم ہوجاتے ہیں ۔ وہاں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات اور ہی پکارنا روا ہے ، اگر کسی دوسری ذات کو پکارے گا تو مشرک بن جائے گا ، اللہ تعالیٰ ہی ہر مقام پر حاضر و ناظر ہے ، ہر چیز پر اسی کا تسفہ ہے ، وہی ہر آیات کی پکار کو سنتا ہے اور اسکی حاجت براری ہوتا ہے۔ لہٰذا پکارنا بھی صرف اسی کو چاہیے سورة الاعراف میں فرمایا وادعوہ مخلصین لہ الدین (آیت : 93) اسی کو پارو اس حال میں کہ اسی کی اطاعت کرنے والے ہو ۔ غیر اللہ کو پکارنا بھی منع ہے اور عبادت کرنا بھی منع ہے۔ عبادت کرنا انتہائی درجے کی تعظیم کا نام ہے جو کہ صرف خدا تعالیٰ کے لیے روا ہے۔ یہ تعظیم اگر جسم کے ساتھ ہو تو غیر اللہ کے سامنے دست بستہ کھڑا ہونا ۔ رکوع کرنا یعنی جھکنا یا سجدہ کرنا عبادت میں شمار ہوگا ۔ اسی طرح مالی عبادت میں غیر اللہ کی خوشنودی کے لیے قربانی فرما دیاصدقہ ہے……امر کی منت ماننا ، مال صرف کرنا ، سب عبادت میں شامل ہے۔ اگر کوئی اللہ کے و کسی دوست سے نفع نقصان کی امید رکھے گا ۔ تو وہ بھی مشرک سے کم قلبی عبادت …کی دمکتی ہے۔ اللہ کے سوا دل میں کسی دوسرے کا خوف تھا نا کہ فلاں ہمیں نقصان پہنچا نے پر قادر ہے۔ اسی طرح ماسوی اللہ کسی پر بھروسہ رکھنا بھی رواہ نہیں ۔ تو کل بھی اللہ کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ وَعَلَی اللہ ِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ (آل عمران : 221) اگر صاحب ایمان ہو تو اللہ کی ذات پر ہی بھروسہ رکھو کہ سارا کنٹرول اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ لا الہ الا ھو اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے لہٰذا اس کے سوا کسی کو مت پکارو۔ ہر چیز ……… آگے اللہ نے اس چند روزہ زندگی کی بےثباتی کا ذکر فرمایا ہے کل شی ھالک الا وجھہ ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے وجہ کا لفظی معنی تو چہرہ ہوتا ہے مگر اس سے ذات ہی مراد لی جاتی ہے۔ …… اور بعض دوسرے مفسرین میں فرماتے ہیں ۔ وجھہ 1 ؎۔ بیضاوی ص 302 ج 2 و تفسیر کبیر ص 22 ج 52 ( فیاض) سے اللہ کی ذات مراد ہے ہرچیز فانی ہے ، یا تو وہ بالفعل فنا ہے یا آگے چل کر فنا ہونے والی ہے ، اللہ کے سوا کوئی ذات اور کوئی چیز دائمی نہیں ہے ۔ ازلی اور ابدی ذات صرف ذات خداوندی ہے۔ جو حی اور قیوم ہے اور جس پر کبھی فنا نہیں ، فرشتوں کو اللہ نے انسانوں کی تخلیق سے کھربوں سال پہلے پیدا کیا ، مگر ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب اللہ کے مقرب ترین فرشتوں جبرائیل ، میکائیل ، اسرافیل اور عزارئیل پر بھی موت طاری ہو جائیگی ۔ اللہ کی ذات کے سوا کوئی چیز زندہ نہیں رہے گی۔ حضور ﷺ کے زمانے میں حضرت لبید ؓ بہت بڑے شاعر ہوئے ہیں ۔ ان کا شاعری میں مرتبہ ایسا ہی ہے ، جیسے یہاں پر غالب ، میر تقی میر ، حسرت مومن اور اقبال ہوئے ہیں ۔ آپ نے نوے سال تک دور جاہلیت میں گزارے اور پھر اس کے بعد اسلام لائے ، اور مزید پینتالیس سال اسلام کی حالت میں گزارے ، مسلمان ہونے کے بعد شاعری ترک کردی تھی ۔ کہتے تھے اب مجھے صرف سورة بقرہ ہی کافی ہے ۔ حضور ﷺ 1 ؎ نے اسلام کے متعلق فرمایا تھا اصدق کلمہ قالت العرب قول لبید یعنی عربوں کے ہاں سچا کلمہ اگر کوئی سے تو وہ لبید ؓ کا ہے ۔ آپ نے دنیا کی بےثباتی کے متعلق ہے ؎ الا کل شیء ما خلا اللہ باطل وکل نعیم لا محالۃ زائل نعیمک فی الدنیا غرور وحسرۃ وانت عنقریب عن مقیلک رجل خدا کی ذات کے سوا ہر چیز فانی ہے ، اور دنیا کی ہر نعمت لا محالہ زائل ہوجانے والی ہے ، تمہاری دنیا کی نعمتیں باعث افسوس اور حسرت میں اور تم عنقریب پہلے ٹھکانے سے کوچ کر کے جانے والے ہو ، گویا انسان کی ہستی کچھ نہیں ، سعدی صاحب نے بھی کہا ہے۔ کس اربقائے دائم و عہد مقیم نیست جاوید پادشاہی و عہد مقیم تست 1 ؎۔ ابن کثیر ص 304 ج 3 ( فیاض) کسی کے لیے ہمیشگی اور عہد مقیم نہیں ہے۔ اے پروردگار ! ہمیشہ کی بادشاہی اور عہد مقیم صرف تیری ذات کی ہے۔ نظام حیدر آباد کا استاد جلیل مانک پوری بڑا عالم اور شاعر بھی تھا ، وہ کہتا ہے۔ ہستی ہے عدم میری نظر میں سوجھی ہے یہی ایک عمر بھر میں میر تقی نے بھی اس مضمون کو عمدہ طریقے سے بیان کیا ہے۔ بود و نقش و نگار سا ہے کچھ صورت اعتبار سا ہے کچھ یہ فرصت جسے کہیں ہیں عمر دیکھو تو ایک انتظار سا ہے کچھ خود اللہ تعالیٰ نے سورة الرحمن میں اس مضمون کو اس طرح بیان فرماتا ہے۔ کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ (62 تا 72) اس جہان کی ہر چیز فانی اور باطل ہے اور باقی رہنے والی صرف اللہ کی ذات ہے جو صاحب جلال و عظمت ہے۔ فرمایا لہ الحکم والیہ ترجعون اسی کا حکم ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہو ۔ ایک دن آنے والا ہے۔ جب ساری مخلوق اس کی عدالت میں حاضر ہوگی ، اور اس دنیا میں کردہ اعمال کا ثمرہ پائے گی۔ امام ابن جریر ؓ کی توجیہہ امام ابن جریر (رح) فرماتے ہیں 1 ؎ کہ کل شی ھالک الا وجھہ کا تعلق انسان کے عمل سے بھی ہو سکتا ہے ، گویا انسان کا ہر عمل فانی اور زائل ہے سوائے اس عمل کے جس کا رخ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف ہے۔ یعنی جو عمل خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے کیا جائے گا ۔ وہی قائم رہیگا ، وہی مقبول ہو کر اچھا بدلہ پائے گا ۔ اور باقی سارے اعمال صائع ہوجائیں گے ۔ گویا وجھہ سے خدا تعالیٰ کی رضا بھی مراد ہو سکتی ہے۔ جیسے ؎ استغفر اللہ دنبا لست محسیہ رب العباد الیہ الوجہ العمل 1 ؎۔ طبری ص 721 ج 02 (فیاض) میں اللہ تعالیٰ نے ان گناہوں کی معافی طلب کرتا ہوں کہ جن کو میں شمار کرنے سے بھی عاجز ہوں ۔ اے بندوں کے پروردگار ! انسان اور اس کے عمل کا رخ اسی کی طرف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو عمل خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کیا جائے گا ۔ وہی مقبول ہوگا ۔ باقی کچھ نہیں ، اگرچہ یہ مفہوم بھی بیان کیا جاتا مگر پہلا مفہوم زیادہ راجح ہے۔ امام ابن کثیر نے بیان 1 ؎ کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ اپنے آپ کو نصیحت کرنے کے لیے کسی ویران مکان یا کھنڈرات کی طرف نکل جاتے ۔ وہاں کسی ٹوٹے پھوٹے درو دیوار پر کھڑے ہو کر آواز دیتے ، راستے مکان این اھلک تیرے مکین کہاں گئے۔ اس کے بعد یہی آیت تلاوت فرماتے کل شیء ھالک الا وجھہ لہ الحکم والیہ ترجعون ان کا مقصد عبرت حاصل کرنا ہوتا تھا کہ اتنے عالیشان محلات میں رہنے والے باقی نہ رہے۔ ان کی رہائش گاہیں بھی اجڑ گئیں ، گویا ہر چیزفانی ہے ۔ قبرستان میں جا کر بھی انسان کو یہی نصیحت ہوتی ہے کہ دنیا کی کوئی چیز باقی نہیں ہے۔ صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہی قائم و دائم ہے۔ 1 ؎۔ ابن کثیر ص 304 ج 3 ( فیاض)
Top