Mualim-ul-Irfan - Al-Ankaboot : 41
مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِیَآءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ١ۚۖ اِتَّخَذَتْ بَیْتًا١ؕ وَ اِنَّ اَوْهَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْكَبُوْتِ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
مَثَلُ : مثال الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے اتَّخَذُوْا : بنائے مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا اَوْلِيَآءَ : مددگار كَمَثَلِ : مانند الْعَنْكَبُوْتِ : مکڑی اِتَّخَذَتْ : اس نے بنایا بَيْتًا : ایک گھر وَاِنَّ : اور بیشک اَوْهَنَ : سب سے کمزور الْبُيُوْتِ : گھروں میں لَبَيْتُ : گھر ہے الْعَنْكَبُوْتِ : مکڑی کا لَوْ كَانُوْا : کاش ہوتے وہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے
مثال ان لوگوں کی جنہوں نے بنائے ہیں اللہ کے سوا کار ساز ، مکڑی کی مثال ہے جس نے بنایا اپنا گھر ، اور بیشک تمام گھروں سے کمزور گھر بہتر مکڑی کا گھر ہوتا ہے اگر ان لوگوں کی سمجھ ہوتی
ربط آیات : گذشتہ دروس میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ ابتلا کا ذکر فرمایا۔ اور کچھ لوگوں کی مثالیں بھی بیان فرمائیں۔ اس سلسلے مٰں اللہ کے پاک انبیاء ، نوح (علیہ السلام) ابراہیم علیہ السلا ، لوط (علیہ السلام) اور شعیب (علیہ السلام) اور ان پر آنے والی آزمائشوں کا ذکر ہوا۔ پھر اللہ نے کافروں اور مشرکوں کا انجام اور ان کو ملنے والی سزاؤں کا تذکرہ کیا۔ ایمان ہی کے سلسلے میں توحید کا بیان ہوا۔ باقی مکی سورتوں کی طرح اس سورة میں بھی بنیادی مضامین۔ نبوت و رسالت ، معاد اور وحی الہی کا ذکر ہے جو کہ مختلف سورتوں میں مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہ۔ اس درس میں مسئلہ توحید کو خاص طور پر بیان کیا گیا ہے اور ایک مثال کے ذریعے شرک کا رد کیا گیا ہے۔ شرک کی مثال مکڑی کے جالے سے : ارشاد ہوتا ہے۔ مثل الذین اتخذوا من دون اللہ اولیاء کمثل العنکبوت۔ ان لوگوں کی مثال مکڑی کی ہے جنہوں اللہ کے سوا دوسروں کو کارساز بنا لیا ہے۔ ولی کا معنی دوست ، رفیق ، ساتھی اور کارساز بھی ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ جن لوگوں نے اللہ کے سوا دوسروں کو مشکل کشا اور حاجت روا بنا لیا ہے۔ مافوق الاسباب ان سے مدد طلب کرتے ہیں ، ان کو اپنا حمایتی سمجھتے ہیں ، ان کی مثال مکڑی کی ہے۔ اتخذت بیتا۔ جو اپنا گھر بناتی ظاہر ہے کہ مکڑی کا گھر وہ جالا ہوتا ہے جو وہ اپنے منہ سے نکلنے والے لعاب سے اپنے ارد گرد بن لیتی ہے۔ مکڑی اسی گھر میں رہائش اختیار کرتی ہے۔ اور اسی کے ذریعے شکار کرکے اپنی خوراک کا بندوبست کرتی ہے۔ ہرجاندار کو سر چھپانے اور گرمی اور سردی سے بچاؤ کے لیے گھر کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان اپنی رہائش کے لیے کچے مکانوں سے لے کر عالیشان محلات تک تیار کرتے ہیں اور ان میں ہر طرح کی سہولتیں مہیا کرتے ہیں ۔ صحرائوں اور جنگلوں میں رہنے والے لوگ خیمے کا گھر بناتے ہیں ۔ جنگلوں میں رہنے والے درندے غاروں اور گہرے کھڈوں کو گھر کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔۔۔۔ پرندے درختوں پر اپنے گھونسلے بناتے ہیں اور وہیں انڈے بچے دیتے ہیں ۔ رینگنے والے جانور کیڑے ، مکوڑے ، سانپ بچھو وغیرہ زمین کے اندر گھر بناتے ہیں ۔ چیونٹیوں کا ذکر سورة النمل میں ہوچکا ہے ، وہ بھی اپنی بلوں میں رہتی ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ ان تمام گھروں کا موازنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے وان اوھن البیروت لبیت العنکبوت کہ سب سے کمزور گھر مکڑی کا گھر یعنی اس کا اجالا ہوتا ہے جو نہ اسے گرمی سردی سے بچا سکتا ہے اور نہ تیز ہوا کو برداشت کرسکتا ہے ، ذرا آندھی یا بارش آئی تو وہ ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے ، اگر آپ قریب سے بھی گزر جائے تو یہ جل کر راکھ ہوجاتا ہے۔ غرضیکہ تمام گھروں میں کمزور ترین گھر مکڑی کا جالا ہوتا ہے۔ اور مشرکین کے نظریات بھی یقینا اتنے ہی کمزور ہوتے ہیں جو غیر اللہ کو اپنا کار ساز ، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر ان سے حاجت براری کرتے ہیں ۔ فرمایا لو کانوا یعلمون کاش ان لوگوں کو سمجھ ہوتی اور یہ جان سکتے کہ سڑک کتنی کمزور چیز ہے جس پر وہ تکیہ لگائے بیٹھے ہیں ۔ سورة الحج میں اللہ کا فرمان موجود ہے ، لوگو ! ذرا غور سے سنوجو لوگ اللہ کے علاوہ دوسروں کو اپنی حاجتوں میں پکارتے ہیں ، وہ تو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے ۔ اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو اس سے واپس نہیں لے سکتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ضعف الطالب والمطلوب ( آیت : 37) کہ مانگنے والا اور جس سے مانگا جا رہا ہے دونوں کمزور ہیں ، مانگنے والا تو ظاہر ہے کہ وہ اس چیز سے محروم ہے جس کا مطلب کر رہا ہے۔ اور جس سے مانگتا ہے ، نہ وہ چیز اس کے پاس ہے اور نہ وہ دینے پر قادر ہے۔ لہٰذا طالب اور مطلوب دونوں کمزور ہیں ۔ حقیقت یہ ہے ان القوۃ للہ جمیعاً ـ(البقرہ۔ 165) ۔ ساری کی ساری طاقت اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے اور مخلوق ساری عاجز اور محتاج ہے۔ کوئی جن ، کوئی فرشتہ ، کوئی انسان خواہ نبی ، ولی ، یا صاحب قبر ہو ، سب کمزور اور محتاج ہے۔ کوئی کسی کی حاجت روائی اور مشکل کشائی نہیں کرسکتا۔ جو مافقوق فی الاسباب ان کو پکارتا ہے۔ وہ شرک کا مرتکب ہوتا ہے۔ انسان کی بنیادی ضروریات : اس آیت میں گھر کا ذکر آیا ہے تو اس ضمن میں حضور ﷺ کا فرمان بھی سن لیجئے جو ترمذی شریف میں موجود ہے کہ انسان کی بنیادی ضروریات میں کھانا۔ پینا ، پہننا وبیت یسکنہ۔ اور وہ گھر ہے جس میں انسان سکونت اختیار کرسکے۔ گرمی سردی سے بچاؤ۔ جسمانی سکون و راحت ، جان و مال کی حفاظت کے لیے ہر شخص کے پاس گھر ہونا چاہئے ، کچا ہو یا پکا۔ اگرچہ کرائے کا ہو مگر ہونا تو چاہئے جس میں کوئی شخص سکون پکڑ سکے۔ بعض دیگر چیزیں بھی انسان کی بنیادی ضوریات میں آتی ہیں اور ہر شخص کو میسر آنی چاہئیں۔ مثلاً ہر زندہ انسان کے لیے صحت ایک بنیادی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر انسان اپنے فرائض ادا نہیں کرسکتا ، اور نہ ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہوسکتا ہے۔ انسان محنت مزدوری کر کے اپنے لیے روزی کا سامان بھی پیدا نہیں کرسکتا ، جنگ میں حصہ نہیں لے سکتا۔ تعلیم حاصل نہیں کرسکتا۔ حتی کہ اللہ کی عبادت بھی صحیح طریقے سے نہیں کرسکتا۔ لہذا صحت کا ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح انسان کے لیے کم از کم اتنی تعلیم تو ضروری ہے جس سے وہ اپنے حقوق و فرائض کو تو پہچان سکے ، حلال و حرام میں امتیاز نہ کرسکے ، جائز و ناجائز اور صحیح اور غلط کو پہچان سکے یہ چھ چیزیں انسان کے بنیادی حقوق میں شمار ہوتی ہیں۔ اقوام متحدہ والے تو ان حقوق کی آجکل بہت تشہیر کرتے ہیں اور ان کی فراہمی کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ چیزیں تو قرآن و سنت میں موجود ہیں اور کوئی انسان ان حقوق سے محروم نہیں رہنا چاہئے۔ انسان کی بےبسی : شرک کے بودا پن کے متعلق عرض کر رہا تھا کہ لوگ خواہ مخواہ مخلوق سے امید لگا لیتے ہیں حالانکہ انسان اشرف المخلوق ہونے کے باوجود بےبس ہے اور اس کو کو کوئی اختیار نہیں ہے ۔ اسی سورة کے دوسرے رکوع میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ میں گزر چکا ہے کہ جو لوگ اللہ کے علاوہ دوسروں کی عبادت کرتے ہیں وہ روزی کے مالک نہیں ہیں لہٰذا فابتغوا عند اللہ الرزق ( آیت : 71) روزی بھی اللہ ہی کے ہاں تلاش کرو ، زمین و آسمان سے روزی کے تمام اسباب اللہ تعالیٰ ہی مہیا کرتا ہے ۔ مخلوق تو خود روزی کی محتاج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کی والدہ کے متعلق فرمایا کانا یا کلن الطعام ( المائدہ : 57) کہ وہ دونوں کھانا کھاتے تھے ، جو کھانے کا محتاج ہے وہ الٰہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ جب اللہ کے نبی معبود نہیں ہو سکتے تو باقی مخلوق کس شمار میں ہے ؟ انسان کھانے پینے کے علاوہ سانس لینے کے لیے ہوا کا محتاج ہے ، چلنے پھرنے کے لیے زمین کا محتاج ہے لوگ بلا وجہ انسانوں کو الوہیت کا درجہ دیتے ہیں ۔ کوئی یا علی ؓ مدد پکار رہا ہے ، کوئی یا حسین ؓ سے مدد مانگتا ہے ۔ کوئی یا غوث الاعظم کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑا ہے۔ کوئی کسی ولی کو پکاررہا ہے کوئی کسی صحابی کو اور کوئی جبرائیل اور میکائیل فرشتوں سے مدد کا طالب ہے۔ جب قیامت کا دن آئے گا تو یہ سب انکار کردیں گے اور اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کریں گے کہ مولاکریم ! ہم نے تو تیرے سوا کسی کو اپنا کار ساز نہیں مانا ، پھر انہوں نے ہمیں کیسے اپنا کار ساز مان لیا ؟ ہم نے تو انہیں نہیں کہا کہ ہمیں اپنا حاجت روا اور مشکل کشا تسلیم کرلو ۔ بہر حال فرمایا کہ ہر قسم کا شرک مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ہے ، اور اس پر قطعاً اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔ فرمایا حقیقت یہ ہے کہ ان الہ یعلم ما یدعون من دونہ من شی اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے ان چیزوں کو جن کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ۔ وھو العزیز الحکیم اور وہ کمال قدرت کا مالک اور حکمت والا ہے۔ سارا اختیار اسی کے پاس ہے ، یہ ایک کی حاجت روانی اور مشکل کشائی وہی کرتا ہے ۔ اس نے کسی کو اختیار نہیں دیا ۔ واجب الوجود ، خالق ، مدبر اور معبود وہی ہے۔ اس کے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں ، نہ کوئی نفع نقصان پہنچا سکتا ہے ، وہ جس طرح چاہے تصرف کرے اس کے سامنے کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا ، کمال قدرت اور حکمت کا مالک وہی وحدہ لا شریک ہے۔ مثال کی اہمیت فرمایا وتلک الا مثال نضر بھا للناس یہ مثالیں ہیں جن کو ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تورات ، انجیل اور قرآن پاک میں بہت سی مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ اس مقاصد پر مکڑی کے جالے کی مثال ہے جب کہ سورة نمل میں چیونٹیوں کی مثال بیان کی ہے اور سورة النمل میں شہد کی مکھیوں کی مثال ہے۔ سورة النور میں نور خداوندی کی مثال بیان کی گئی ہے کہیں مکھی ، مچھر اور کیڑے مکوڑوں کی مثالیں ہیں کہیں مومن اور کافر کی مثال ہے تو کہیں کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کی مثال ہے ۔ الغرض ! اللہ نے بہت سی مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی بہت سی مثالیں بیان کی گئی ہیں امام ترمذی نے کتاب الامثالی کے نام پر ایک مستقل باب بیان کیا ہے۔ اور مثال بیان کرنے کا فلسفہ یہ ہے کہ کسی باریک مضمون کو انسانی عقل و فہم کے قریب لایاجاسکے۔ حضرت عمرو ابن العاص ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والصلام کی زبان مبارک سے سن کر ایک ہزار مثالیں یاد کر رکھی ہیں آپ فاتح مصر ہیں۔ پہلے کفر میں شدید تھے مگر جب ایمان لے آئے تو اسلام کی فدا کاری میں بھی پیش پیش رہے۔ کلیلہ ونمہ نامی کتاب تبت والوں نے آج سے دو ہزار دو سو سال قبل لکھی تھی جس کا ترجمہ سنسکرت ، فارسی عربی اور دیگر زبانوں میں ہوا۔ اس میں گیدڑ ، لومڑی ، ہاتھی ، سانپ ، بچھو وغیرہ کی زبانوں سے بڑی سبق آموز اور حکمت کی باتیں سمجھائی گئی ہیں یہ بھی جانوروں کی مثالیں ہیں اور ان کے ذریعے کوئی چیز آسانی سے سمجھ سکتے ہیں فرمایا وما یعقلھا الا العالمون ان مثالوں کو اہل علم اور اہل عقل ہی سمجھ سکتے ہیں اور پھر آگے دوسروں کو بھی سمجھا سکتے ہیں۔ لہٰذا عام لوگوں کو اہل علم کا اتباع کرنا چاہئے۔ تخلیق ارض و سما آگے اللہ نے ارض و سما کا اپنی نشانی کے طور پر ذکر فرمایا ہے ارشاد ہوتا ہے خلق اللہ السموت والارض بالحق اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو تخلیق کیا حق کے ساتھ۔ اللہ نے اس کائنات کو بیکار محض پیدا نہیں کیا ، بلکہ یہ اس کی حکمت کا ایک نمونہ ہے انسان کی تخلیق بھی عبث نہیں ، اس کا انجام بھی سامنے آنے والا ہے فرمایا ان فی ذلک لایۃ للمومنین اس میں ایمان والوں کے لیے نشانی ہے۔ جو لوگ ایمان اور عقل سے عاری ہیں وہ ان نشانیوں سے کچھ فائدہ نہیں اٹھاتے۔ اللہ نے ایمان کے ساتھ ابتلا کا سلسلہ بیان فرمایا ہے۔ اور اس کے لیے نیک بندوں کا حال ذکر کیا ہے۔ اور ساتھ ساتھ مجرموں کی سزا کا ذکر بھی کیا ہے۔ دین اور توحید کے بنیادی مسائل کا ذکر فرمایا ہے اور شرک کی قباحت کو مثال کے ذریعے واضح کیا ہے تاکہ لوگ شرک سے باز آجائیں۔
Top