Mualim-ul-Irfan - Al-Ankaboot : 46
وَ لَا تُجَادِلُوْۤا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ١ۖۗ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ وَ قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ وَ اِلٰهُنَا وَ اِلٰهُكُمْ وَاحِدٌ وَّ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ
وَلَا تُجَادِلُوْٓا : اور تم نہ جھگڑو اَهْلَ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اِلَّا : مگر بِالَّتِيْ : اس طریقہ سے جو ھِىَ اَحْسَنُ ڰ : وہ بہتر اِلَّا : بجز الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا : جن لوگوں نے ظلم کیا مِنْهُمْ : ان (میں) سے وَقُوْلُوْٓا : اور تم کہو اٰمَنَّا بالَّذِيْٓ : ہم ایمان لائے اس پر جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْنَا : ہماری طرف وَاُنْزِلَ : اور نازل کیا گیا اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف وَاِلٰهُنَا : اور ہمارا معبود وَاِلٰهُكُمْ : اور تمہارا معبود وَاحِدٌ : ایک وَّنَحْنُ : اور ہم لَهٗ : اس کے مُسْلِمُوْنَ : فرمانبردار (جمع)
اور نہ جھگڑا کرو تم ( اے اہل ایمان) اہل کتاب کے ساتھ مگر اس طریقے سے جو بہتر ہو ہاں مگر وہ جو ظالم ہیں ان میں سے۔ اور کہو تم کہ ایمان لائے ہو اس چیز پر جو اتاری گئی ہے ہماری طرف اور جو اتاری گئی ہے۔ تمہاری طرف۔ ہمارا معبود اور تمہارا معبود ایک ہی ہے اور ہم اس کی فرمانبرداری کرنے والے ہیں
ربطِ آیات سورة العنکبوت اللہ تعالیٰ نے زیادہ تر ایمان کے ساتھ ابتلاء کا ذکر کیا ہے اور اس سلسلہ میں بعض انبیاء کی آزمائش کے واقعات بیان کرکے اہل ایمان کو تسلی دی ہے کہ کسی کو بغیر آزمائش کے نہیں چھوڑا جائے گا۔ پھر اللہ نے شرک کی قباحت کو ایک مثال کے ذریعے واضح کیا ، پھر توحید کی دعوت دی۔ اس کے بعد نبی (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ جو چیز آپ کی طرف بصورت وحی ناز کی جاتی ہے اس کو پڑھیں اور نماز قائم رکھیں کہ یہ بےحیائی اور برائی سے روکنے والی چیز ہے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے اور اللہ تعالیٰ تمہاری تمام کارگزاریوں سے واقف ہے۔ اہل کتاب کے ساتھ مجادلہ اہل کتاب اور مشرک لوگ اسلام اور پیغمر اسلام پر طرح طرح کے بیہودہ اعتراض کرتے تھے۔ پھر نبی کریم (علیہ السلام) کو ان کا جواب بھی دینا پڑتا تھا جسکی وجہ سے بحث مباحثہ بعض اوقات طول پکڑ جاتا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس ضمن میں بعض ہدایات دی ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے ولاتجادلواھل الکتب الا بالتی ھی احسن اے اہل ایمان ! تم اہل کتاب سے جھگڑا نہ کرو مگر ایسے طریقے سے جو بہتر ہو۔ اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں۔ قرآن پاک سے پہلے جو آسمانی کتابیں تورات اور انجیل نازل ہوئیں ان کو ماننے والے اہل کتاب کہلاتے ہیں۔ بلاشبہ یہ دونوں کتابیں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائیں جن میں ان امتوں کی راہنمائی کے لیے ٹھیک ٹھیک احکام موجود تھے مگر خود ان کے ماننے والوں نے بعد میں ان کتابوں میں تحریف کرکے ان میں تفسیر و تبدل پیدا کردیا۔ حضور ﷺ کے زمانہ مبارک تک اگرچہ یہ کتابیں اپنی اصلی شکل میں باقی نہیں رہی تھیں ، پھر بھی ان میں بعض باتیں محفوظ رہ گئی تھیں اور وہ قرآن پاک سے مطابقت رکھتی تھیں۔ اس سلسلے میں اکثر بحث و تمحیص ہوتی رہتی تھی۔ اللہ نے مشرکین کے ساتھ بھی بحث مباحثہ کی اجازت دی ہے مگر ان کے دین کی تو جڑ اور بنیاد ہی غلط تھی۔ ان کے پاس کوئی آسمانی کتاب کسی صورت میں بھی موجود نہیں تھی۔ البتہ اہل کتاب کے پاس چونکہ آسمانی کتابیں موجود تھیں اگرچہ وہ تحریف شدہ تھیں ، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ بحث کرنے میں احتیاط سے کام لینے کا حکم دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم ان کی کسی صحیح بات کا بھی انکار کر بیٹھو یا کسی غلط بات کو تسلیم کرلو۔ بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے کہ اہل کتاب میں سے بعض لوگ تورات کا کچھ حصہ پڑھ کر مسلمانوں کو سناتے تو بعض اوقات مسلمان اسے پسند کرتے تھے۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا لا تصدقواھل الکتب ولا تکذبو تم اہل کتاب کی نہ تو تصدیق کرو۔ نہ تکذیب کرو بلکہ قولو امنا بالذی انزل الینا وانزل الیکم یوں کہو کہ ہم ہر اس چیز پر ایمان لائے جو ہماری طرف نازل کی گئی ہے اور جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے کیونکہ والھنا والھکم واحد تمہارا اور ہمارا معبود ایک ہے ونحن لہ مسلمون اور ہم اس کے فرمانبردار ہیں۔ سورة ال عمران میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا قل یاھل الکتب تعالو ا الی کلمۃ سواء بیننا وبیننکم الا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئا (آیت۔ 46) آپ اہل کتاب سے کہہ دیں کہ آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے اور وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ اہل کتاب کے ساتھ بحث کرتے وقت نرم رویہ اختیار کریں اور ان کی بات کی نہ تو تصدیق کریں اور نہ تکذیب بلکہ ہر اس چیز پر ایمان لانے کا اعلان کریں۔ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ الا الذین ظلمو منھم مگر ان میں سے جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کو یہ نرمی والی رعایت حاصل نہیں ہوگی۔ ان کے ساتھ گفتگو میں اگر تلخ کلامی بھی ہوجائے تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے۔ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان ظالموں سے کون لوگ مراد ہیں۔ ظالم تو سارے کے سارے اہل کتاب تھے کیونکہ وہ شرک کے مرتکب ہوتے تھے مگر یہاں پر وہ لوگ مراد ہیں جو ہٹ دھرم تھے اور کسی بات کو سننے کے لیے بھی تیار نہ ہوتے تھے۔ تاہم جو لوگ نرم رویہ اختیار کریں تم ان کے ساتھ نرم لہجے میں بات کرو۔ وقولو امنا بالذی انزل الینا وانزل الیکم اور یوں کہوں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس چیز پر جو ہماری طرف نازل کی گئی ہے اور اس پر بھی جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہماری طرف تو اللہ تعالیٰ نے اپنا قرآن نازل فرمایا ہے اور اپنے نبی کو خاص شریعت احکام ، مسائل اور دین عطا کیا ہے ، لہٰذا ہمارا اس پر ایمان ہے۔ اور تمہاری طرف بھی اللہ تعالیٰ نے تورات اور انجیل نازل فرمائی تھیں۔ جو مکمل برحق ہیں۔ ہمارے لیے اب بھی یہی حکم ہے کہ ہم تمام کتب کا دیہ پر ایمان لائیں۔ سورة الشورہ میں بھی اللہ نے یہی حکم دیا وقل امنت بما انزل اللہ من کتب ( آیت۔ 51) اے پیغمبر ! آپ صاف کہہ دیں کہ اللہ نے جو بھی کتاب اتاری ہے میرا اس پر ایمان ہے کہ وہ برحق ہے۔ اگر ان لوگوں نے بعد میں کوئی تبدیلیاں کرلی ہیں تو اس کے ذمے دار وہ خود ہیں ہم تو تمام اصل آسمانی کتب اور صحائف پر ایمان رکھتے ہیں۔ فرمایا ، آپ اہل کتاب سے یہ بھی فرما دیں والھنا والھکم واحد ونحن لہ مسلمون اور ہمارا معبود اور تمہارا معبود بھی ایک ہی ہے۔ یہ تمہارے ساتھ یک گو نہ اشتراک بھی ہے کہ ہمارا سب کا معبود ایک ہی اللہ جل جلالہ ہے۔ اہل کتاب کے ساتھ تو یہ قدر مشترک ہے مگر مشرکین کے معبود بھی جدا جدا ہیں لہٰذا ان کے ساتھ یہ بات نہیں ہوسکتی۔ ان کے متعلق تو یہی حکم ہے لا اعبدما تعبدون (الکفرون 02) میں ان باطل معبودوں کی پوجا نہیں کرسکتا جن کی تم کرتے ہو۔ لکم دینکم ولی دین ( الکفرون۔ 6) تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے۔ مشرکوں کے ساتھ تو نقطہ اتحاد موجود ہی نہیں جس پر سب کی نگاہ مرتکز ہوسکے ، لہٰذا ان کو دو ٹوک جواب دو اور اہل کتاب کے ساتھ نرم رویہ رکھو کہ ان کے ساتھ قدر مشترک موجود ہے۔ ارشاد ہوتا ہے وکذلک انزلنا الیک الکتب اور اسی طرح منصف مزاج اہل کتاب ہم نے اتاری ہے آپ کی طرف کتاب یعنی جس طرح اہل کتاب کی طرف تورات اور انجیل نازل کی گئی۔ اسی طرح آپ کی طرف قرآن پاک جیسی عظیم کتاب نازل کی گئی ہے فالذین اتینھم الکتب یومنون بہ پس وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب دی ہے وہ بھی اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ اہل کتاب سارے کے سارے تو قرآن پاک پر ایمان نہیں رکھتے تھے بلکہ ایک قلیل تعداد ایمان لائی۔ سورة آل عمران میں وضاحت موجود ہے۔ ولو امن اھل الکتب لکان خیرا لھم منھم المومنون واکثرھم الفسقون (آیت۔ 011) اگر وہ سارے ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہتر تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے تھوڑے ایمان لاتے ہیں جب کہ ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔ چناچہ حضور ﷺ کے زمانہ مبارکہ سے لیکر آج تک اہل کتاب کی اکثریت نافرمان ہی رہی ہے اور اصل یہ مشرکوں سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں۔ البتہ ہر زمانے میں ان میں سے کچھ لوگ ضرور منصف مزاج پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ حضور ﷺ کے زمانہ میں مدینہ کے اطراف میں دس بڑے بڑے یہودی عالم تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر یہ سارے کے سارے ایمان لے آئیں تو روئے زمین پر کوئی یہودی ایمان قبول کیے بغیر نہ رہے۔ مگر ان دس علماء میں سے صرف حضرت عبداللہ بن سلامہ ؓ ایمان کی دولت سے مشرف ہوئے جب کہ باقی نو اپنی ضد اور عناد پر ہی اڑے رہے۔ بعد کے ادوار میں بھی بعض لوگ ایمان قبول کرتے رہے ہیں۔ ملکہ وکٹوریہ کے زمانہ میں عبداللہ کو یلم بہت بڑا بیرسٹر تھا جس نے ایمان قبول کیا۔ اس کا تعلق شاہی خاندان سے تھا۔ اس کے اسلام لانے سے انگریز بڑے سیخ پا ہوئے تھے مگر وہ مرد مومن بمع اپنے چالیس ساتھیوں کے ایمان پر ڈٹا رہا۔ جنگ عظیم کے دوران مارما ڈیوک پکھتال کو انگریز نے جاسوسی کے لیے ترکی بھیجا۔ وہ سات سال تک شیخ السلام کی مجلس میں بیٹھا تو اللہ نے اس کا دل پلٹ دیا اور مسلمان ہوگیا۔ اس نے انگریزی زبان میں قرآن پاک کا بڑا مستند ترجمہ کیا ہے حیدرآباد دکن میں انگریزی اخبار کا ایڈیٹر بھی رہا۔ حال ہی میں فرانس کے ایک بڑے فلسفی نے ایمان قبول کیا ہے۔ جرمنی کالیوپولڈ یہودی تھا۔ کہیں بدئوں کے ساتھ سفر میں جارہا تھا۔ راستے میں کھانے کا وقت ہوا تو بدو نے کھانا لیا ، بسم اللہ کہہ کر دستر خوان پر خپا اور اپنے ہم سفر کو بھی دعوت دی۔ بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کیا اور کھانے کے بعد الحمد للہ کہا تو اس شخص پر اس کا بڑا اثر ہوا اور وہ مسلمان ہوگیا۔ بڑا عالم فاضل آدمی تھا محمد اسد نام رکھا۔ اب بھی کہیں یورپ میں زندگی کے دن گزار رہا ہے۔ اسلام لانے کے بعد اس نے کئی کتابیں بھی لکھیں۔ ان میں اسلام چورستے پر (ISLAM AT THE CROSS ROAD) اور شاہراہ مکہ (ROAD TO MAKKAH) مشہورد تصنیفات ہیں۔ بہرحال منصف مزاج لوگ ہر دور میں پیدا ہوتے رہے ہیں جو حقیقت کو تسلیم کرلیتے ہیں مگر اہل کتاب کی غالب اکثریت ہمیشہ عناد کا شکار ہی رہی ہے۔ منصف مزاج مشرکین فرمایا ومن ھولاء من یومن بہ اور ان میں سے یعنی مشرکین میں سے بھی بعض ایسے ہیں جو ایمان قبول کرتے ہیں۔ چناچہ جاپان کا پروفیسر ہشامہ تھا۔ اس کے ہاتھ قرآن کا نسخہ آگیا۔ اس نے بنظیر عمیق مطالعہ کیا تو اللہ نے کایا پلٹ دی اور وہ مسلمان ہوگیا۔ دو سال تک مصر میں رہ کر عربی زبان سیکھی اور اسلامی لٹریچر کا مزید مطالعہ کیا۔ وہ خود کہا کرتا تھا کہ میں مسلمانوں کو دیکھ کر مسلمان نہیں ہوا ، بلکہ خوش قسمتی سے مجھے قرآن پاک میسر آگیا ، اس کو پڑھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ قرآن سچا ہے اور اس کا لایا ہوا اسلام سچا ہے ، باقی سارے ادیان غلط ہیں۔ جاپانی اکثر مشرک یا بدھ ہیں مگر اللہ نے اس شخص کو ایمان کی دولت سے نوازا۔ ہندوئوں اور صابیوں میں سے بھی بعض اوقات منصف مزاج نکل آتے ہیں جو اسلام کی دعوت کو قبول کرلیتے ہیں ، نزول قرآن کے زمانہ میں مشرکین عرب میں سے بعض لوگوں کے متعلق فرمایا کہ وہ ایمان لے آتے ہیں وما یجعد بایتینا الا الکفرون اور نہیں انکار کرتے ہماری آیتوں کا ، مگر نافرمان لوگ جو بڑے ضدی اور ہٹ دھرم ہوتے ہیں۔ وگرنہ جن میں قبولیتِ حق کا تھوڑا سا جذبہ موجود ہوتا ہے۔ وہ ایمان قبول کرلیتے ہیں۔ حضور ﷺ کی صداقت کی دلیل فرمایا اے پیغمبر آخر الزمان ! آپ کی صداقت کی یہ بہت بڑی دلیل ہے۔ وما کنت تتلو من قبلہ من کتب کہ آپ اس سے پہلے تو کتاب نہیں پڑھتے تھے ولا تخطہ بیمینک اور نہ آپ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے۔ اگر آپ پہلے پڑھے لکھے ہوتے۔ انا لا رتاب المبطلون۔ تو یہ باطل پرست لوگ شک کرتے کہ یہ تو پڑھا لکھا آدمی ہے۔ کہیں پرانی کتابوں سے مضامین اخذ کرکے ہمیں سناتا رہتا ہے ، مگر آپ نے تو کبھی پڑھا اور نہ لکھا ، نہ کسی سکول کالج میں گئے نہ کسی استاد کے سامنے زانوائے تلمذ طے کیا ، اس کے باوجود آپ قرآن جیسی عظیم الشان کتاب پڑھتے ہیں اور لوگوں کے سامنے علوم و معارف کے سمندر بہاتے ہیں ، یہی تو آپ کی نبوت کی صداقت کی دلیل ہے کہ اُمّی ہونے کے باوجود اللہ نے آپ کی زبان پر قرآن کو جاری فرما دیا ہے اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے تو یہ لوگ آپ پر شک کرسکتے تھے مگر اب تو ان کے پاس شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ گئی۔ قرآن پاک کی حفاظت فرمایا بل ھو اٰیت بینت فی صدور الذین اوتو العلم بلکہ یہ تو واضح آیتیں ہیں جو اہل علم لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہیں۔ یہ بھی اس کتاب کے برحق ہونے کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا ایسا انتظام کردیا ہے کہ پوری کی پوری کتاب حفاظ کے سینوں میں بند کردی ہے ہمارا اندازہ ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کی ایک ارب کی آبادی میں ایک کروڑ حافظ ضرور موجود ہیں۔ اس کے علاوہ عام مسلمانوں کو قرآن کا کچھ نہ کچھ حصہ تو یاد ہے جو وہ نماز میں پڑھتے ہیں۔ اس کے برخلاف یہودو نصاریٰ میں سے تورات یا انجیل کا ایک بھی حافظ آپ کو نہیں ملے گا۔ کیا یہ کتاب الٰہی کے برحق ہونے کی کھلی دلیل نہیں ہے ؟ ایک زمانے میں انگریزوں نے اس کتاب پاک کو ختم کرنے کا منصوبہ بنانا چاہا ، مگر انہیں جلد ہی معلوم ہوگیا کہ یہ ایسی کتاب ہے جسے کبھی مٹایا نہیں جاسکتا۔ حضور ﷺ کی ایک حدیث قدسی میں اللہ کا فرمان ہے نزلت الیک کتبا تقرہ نائما ویقظان میں نے آپ کی طرف ایک ایسی کتاب نازل فرمائی ہے جس کو آپ بحالت نیند بھی پڑھتے ہیں اور بیداری میں بھی یہ ایسی کتاب ہے کہ جس کو نہ آگ جلا سکتی ہے اور نہ پانی دھو سکتا ہے اگر کسی وقت اس کے تمام نسخے بھی ضائع ہوجائیں تو حافظہ صاحبان اسے پھر سے تیار کرلیں گے۔ جہاں تک نیند کے دوران قرآن پاک کی تلاوت کا تعلق ہے تو ایسے واقعات بھی سننے میں آتے رہتے ہیں۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) کے ایک استاد نے لکھا ہے کہ میں نے خواب میں الحمد سے لیکر والناس تک پورا قرآن پاک حضور ﷺ کے سامنے پڑھا ، جسے آپ (علیہ السلام) نے سماعت فرمایا۔ تو دنیا میں ایسے خوش قسمت لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے نیند کی حالت میں قرآن بھی پڑھا اور حضور ﷺ کی زیارت بھی نصیب ہوگئی۔ بہرحال فرمایا کہ یہ واضح آیتیں ہیں جو اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہیں۔ وما یجحد بایتینا الا الظلمون اور نہیں انکار کرتے ہماری آیتوں کا مگر ظالم لوگ جو حد سے زیادہ… اور ضدی ہوتے ہیں اور اتنی واضح نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے۔ اللہ نے اہل کتاب اور مشرکین کے بےانصاف لوگوں کا شکوہ بھی کیا ہے۔ معجزات کا مطالبہ آگے مشرکین کی ایک اور ہٹ دھرمی کا ذکر کیا ہے۔ وقالو لولا نزل علیہ اٰیت من ربہ کہتے ہیں کہ اس شخص پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشانیاں کیوں نہیں اتاری جاتیں ؟ مشرکین چاہتے تھے کہ نبی (علیہ السلام) ہماری مرضی کے مطابق معجزات ظاہر کریں تو پھر ہم ایمان لائیں گے۔ اللہ نے اس کے جواب میں فرمایا قل انما الایت عند اللہ آپ کہہ دیں کہ نشانیاں تو ساری اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں پیغمبر کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ تمہاری خواہش پر جب چاہے کوئی معجزہ پیش کردے۔ یہ تو اللہ کے اختیار میں ہے ، وہ جب چاہتا ہے کوئی نشانی ظاہر کردیتا ہے جہاں تک نبی کی ذات کات علق ہے تو آپ کہہ دیں وانما انا نذیر مبین کہ میں تو کھول کر ڈر سنانے والا ہوں۔ میں تو اللہ کا پیغام سناتا ہوں اور بُرے انجام سے ڈراتا ہوں یعنی میرا کام اندوتبشیر ہے۔ نشانیاں ظاہر کرنا نہیں اور نہ فرمائشیں پوری کرنا میرے اختیار میں ہے۔ سورة المومن میں صراحت موجود ہے وما کان لرسول ان یاتی بایۃ الا باذن اللہ (آیت 87) کسی نبی اور رسول کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے کوئی معجزہ پیش کرسکے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہو یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر منحصر ہے ، وہ کبھی فرمائش پوری کردیتا ہے اور کبھی نہیں کرتا۔ قرآن بطور رحمت اور نصیحت فرمایا اولم یکفھم انا انزلنا علیک الکتب یتلی علیھم کیا ان لوگوں کے لیے یہ نظانی کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر یہ کتاب نازل کی جو ان کو پڑھ کر سنائی جارہی ہے اور یہ نازل بھی ایسی ہستی پر ہوتی ہے جو بالکل امی ہے۔ ان فی ذلک الرحمۃ بیشک اس میں رحمت ہے۔ رحمت ہدایت پر چلنے کے نتیجہ میں ملتی ہے جو اللہ کی نازل کردہ ہدایت کو اختیار کرے گا وہ اللہ کی رحمت کا مستحق ہوگا۔ وذکری لقوم یومنون اور یہ کتاب نصیحت ہے ۔ ان لوگوں کے لیے جو اس پر ایمان لاتے ہیں اس کے برخلاف جو ضد اور عناد سے کام لیتے ہیں۔ جو ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کتاب الٰہی کا انکار کرتے ہیں ان کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہ تو ان لوگوں کے لئے نصیحت ہے ۔ جو انصاف پسند ہیں بہرحال یہ قرآن پاک اہل ایمان کے لیے نصیحت اور رحمت کا ذریعہ ہے۔
Top