Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Ankaboot : 67
اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّ یُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ١ؕ اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَ بِنِعْمَةِ اللّٰهِ یَكْفُرُوْنَ
اَوَ
: کیا
لَمْ يَرَوْا
: انہوں نے نہیں دیکھا
اَنَّا جَعَلْنَا
: کہ ہم نے بنایا
حَرَمًا
: حرم (سرزمین مکہ)
اٰمِنًا
: امن کی جگہ
وَّ
: جبکہ
يُتَخَطَّفُ
: اچک لیے جاتے ہیں
النَّاسُ
: لوگ
مِنْ
: سے (کے)
حَوْلِهِمْ ۭ
: اس کے ارد گرد
اَفَبِالْبَاطِلِ
: کیا پس باطل پر
يُؤْمِنُوْنَ
: ایمان لاتے ہیں
وَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ
: اور اللہ کی نعمت کی
يَكْفُرُوْنَ
: ناشکری کرتے ہیں
کیا نہیں دیکھا ان لوگوں نے کہ بیشک ہم نے بنایا ہے حرم کو امن کی جگہ۔ اور اچک لیے جاتے ہیں لوگ ان کے اردگرد سے کیا یہ باطل پر یقین رکھتے ہیں اور اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں ؟
ربط آیات سورة العنکبوت میں اللہ تعالیٰ نے زیادہ تر ایمان کے ساتھ ابتلا کا ذکر کیا ہے اور اس پر مثالیں بیان کی ہیں۔ پھر کفر اور شرک کی تردید کی ہے اور توحید و رسالت کے اثبات کا ذکر کیا ہے اب آخر میں ایک تو اللہ کی نعمت یاد دلائی گئی ہے کہ اہل مکہ کو اللہ نے امن جیسی عظیم نعمت عطا کی اور اس کے ساتھ مشرکوں کو وعید بھی سنائی ہے۔ سورة کی آخری آیت میں مجاہدے کا مضمون بیان کیا ہے جیسا کہ سورة کی ابتدا میں ومن جاھد فانما یجاھد لنفسہ میں کیا گیا تھا۔ مجاہدہ بھی آزمائش ہی کی ایک صورت ہے۔ قریش مکہ پر احسان نزول قرآن کے زمانے میں سرزمین عرب میں سال بھر میں آٹھ ماہ سخت بد امنی کے ہوتے تھے۔ اس دوران قافلوں پر حملے ہوتے ، لوٹ مار ہوتی ، قتل و غارت کا بازار گرم ہوتا جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان آٹھ ماہ میں سارے راستے پر خطرہ ہوتے تھے ، کوئی قافلہ بحفاظت سفر نہیں کرسکتا تھا جس کی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہو کر رہ جاتا تھا ، البتہ سال کے باقی چار مہینے حرمت والے مہینے کہلاتے تھے جن میں ہتھیار پھینک دئیے جاتے تھے ، کوئی کسی سے تعرض نہیں کرتا تھا۔ تجارتی قافلے بےدھڑک اپنا سفر جاری رکھتے تھے ، گویا اس دوران میں ہر قسم کا سفر پرامن ہوتا تھا۔ البتہ قریش مکہ کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ بیت اللہ شریف کی تولیت کی وجہ سے ان کے لیے سارا سال پُر امن ہوتا تھا۔ ان کے تجارتی اور دیگر قافلے بلا روک ٹوک جہاں چاہتے سفر کرتے اور ان کے راستے میں کوئی مزاحم نہیں ہوتا تھا۔ یہی وہ احسان ہے جو اللہ نے سورة القریش میں بھی بیان کیا ہے کہ ان کے تجارتی قافلے موسم گرما میں شام کی طرف جاتے تھے اور موسم سرما میں یمن کا رُخ کرتے تھے۔ اس مقام پر بھی اسی احسان کا تذکرہ فرمایا ہے اولم یروانا جعلنا حرماً امناً کیا قریش مکہ نے نہیں دیکھا کہ ہم نے حرم پاک کو امن کا خطہ بنادیا ہے اور اسی وجہ سے حرم کے متولی قریش بھی مامون ہوگئے ہیں۔ دوسرے لوگوں کے برخلاف انہیں مکمل امن وامان حاصل ہے اور یہ جہاں چاہیں بلا روک ٹوک جاسکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ حرم کو پُر امن خطہ کسی لات منات یا عزیٰ نے تو نہیں بنایا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص مہربانی سے تخلیق ارضی کے زمانے سے ہی اسے امن والا خطہ بنادیا تھا۔ اسی علاقے میں جنگ و جدل ممنوع قرار دی گئی اور ہر گاہ کے لیے دوسری سزا مقر ر کی گئی جس کی وجہ سے قریش کو مکمل طور پر امن حاصل ہوگیا۔ حرم پاک کے علاوہ باقی عرب کی حالت یہ تھی ویتخطف الناس من حولھم کہ قریش کے اردگرد کے علاقوں سے لوگ اچک لیے جاتے تھے۔ وہاں کسی کی جان ، مال اور عزت محفوظ نہ تھی۔ ہمیشہ فتنہ و فساد کا بازار گرم رہتا۔ اللہ تعالیٰ نے قریش کو یہی احسان یاد دلایا اور فرمایا کہ بیت اللہ شریف کے پروردگار کی عبادت کرو الذی اطعھم من جوع و امنھم من خوف (قریش 04) جس نے انہیں بھوک میں روزی اور خوف میں امن عطا فرمایا۔ یہ محض اللہ کے گھر کی برکت تھی کہ لوگوں کے دلوں میں متولیان کعبہ کی عزت و احترام تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی تعمیر کعبہ کے وقت اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا کی تھی۔ فاجعل افدۃً من الناس تھوی الیھم وارزقھم من الثمرات لعلھم یشکرون ( ابراہیم۔ 73) اے مولا کریم ! لوگوں کے لوگوں کو بیت اللہ شریف کی طرف مائل کردے اور یہاں کے رہنے والوں کو پھلوں کی روزی عطا فرما تاکہ یہ تیرا شکریہ ادا کریں۔ الغرض ! اللہ نے قریش مکہ کو امن وامان اور روزی رسانی کا احسان یاد دلا کر فرمایا کہ اس احسان کے بدلے میں ان کو چاہئے تھا کہ وہ شرک نہ کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی توحید کو تسلیم کرتے۔ اس کے برخلاف ان لوگوں نے اللہ کی اس نعمت کی قدر نہ کی اور اہل ایمان کو ایذا رسانی پر تُل گئے۔ قریش کے اس قبیح عقیدہ و کردار کی بنا پر اللہ نے فرمایا افبالباطل یومنون کیا یہ لوگ باطل پر یقین رکھتے ہیں ؟ وبنعمۃ اللہ یکفرون اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت کی ناقدری کرتے ہیں ؟ قریش مکہ کا تو خاص طور پر فرض تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکر ادا کرتے اور اس کی وحدانیت کو تسلیم کرتے مگر پیغمر آخر الزمان کو تکالیف پہنچانے میں یہی لوگ پیش پیش تھے جو ان کی بد بختی کی علامت ہے۔ سب سے بڑا ظالم فرمایا ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذباً اس سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے جو شخص خدا کا شریک ٹھہراتا ہے۔ وہ اس پر افتراء باندھتا ہے کیونکہ وہ تو وحدہ لا شریک ہے۔ خدا کا شریک بنانے کا مطلب یہ ہے ام تتبئونہ بما لا یعلم فی الارض ( الرعد۔ 33) گویا کہ تم اللہ تعالیٰ کو ایسی چیز کی خبر دے رہے ہو جس کو وہ زمین میں نہیں جانتا۔ اس قسم کا خیال بذات خود کفر کی بات ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ فرمایا ظالم کی ایک علامت تو یہ ہے کہ وہ خدا پر جھوٹ باندھتا ہے اور دوسری یہ اوکذب بالحق لما جاء و یا جب کوئی حق بات اس کے پاس آجائے تو وہ اس کو جھٹلا دیتا ہے یہ بھی اس کے بڑا ظالم ہو نیکی نشانی ہے جب خدا کا پیغمبر اللہ تعالیٰ کا پیغام سناتا ہے وحی الٰہی کی بات کرتا ہے تو یہ شخص اس کی تکذیب کرتا ہے لہٰذا یہ سب سے بڑا ظالم ہے ۔ کوئی سلیم الفصرت اللہ اور اس کے رسول کی بات جھٹلانے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ فرمایا جو شخص کسی بات کو جھٹلاتا ہے الیس فی جھنم مثوی للکفرین کیا ایسے کافروں کا ٹھکانہ جہنم میں نہیں ہے ؟ یقینا ایسے لوگ جہنم کا شکار بنیں گے۔ مجاہدے کی مختلف صورتیں مجاہدہ بھی آزمائش ہی کی ایک صورت ہے۔ اس لیے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے مجاہدہ کرنے والوں کو تسلی دی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے والذین جاھدوا فینا لھندینھم سبلنا اور وہ لوگ جنہوں نے ہمارے لیے مجاہدہ کیا ہم ضرور ان کی اپنے راستوں کی حرف رہنمائی کریں گے۔ مجاہدہ جہاد کے وہ سے ہے جس کا معنی اپنی پوری ظاہری اور باطنی قوت کو دشمن کے مقابلے میں صرف کرنا ہے۔ جہا د کی ایک صورت جہاد بالسیف ہے یعنی تلوار کے ساتھ میدان جنگ میں دشمن کا مقابلہ کرنا۔ جنگ عام حالات میں تو فرض کفایہ ہوتی ہے کہ بعض لوگ اس میں ہمہ وقت شریک ہوتے ہیں اور ملکی سرحدوں کا دفاع کرتے ہیں جبکہ باقی لوگ اپنے گھروں میں رہ کر باقی امور زندگی از قسم کاروبار ، محنت مزدوری ، کھیتی باڑی اور ملازمت وغیرہ انجام دیتے ہیں۔ البتہ جب دشمن کے خلاف بالعمل جنگ شروع ہوجائے تو پھر یہ ہر مسلمان پر فرض عین ہوجاتی ہے اور ہر شخص کسی نہ کسی صورت میں ایسی جنگ میں شریک ہوجاتا ہے۔ مجاہدے کی ایک صورت حصول علم بھی ہے کہ یہ بھی محنت و مشقت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ امام بخاری فرماتے ہیں انما العلم بالتعلم یعنی علم سیکھنے سے آتا ہے۔ عام لوگوں کا تو یہی دستور ہے ، البتہ بنیاء (علیہم السلام) کو وحی کے ذریعے علم سکھایاجاتا ہے علم حاصل کرنے کے بعد اسے دوسروں تک پہنچانا بھی تبلیغ دین کا کام انجام دینا بھی بہت بڑا مجاہدہ ہے۔ یہ بھی عام حالات میں فرض کفایہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ تبلیغ دین کا کام کرتے ہیں جب کہ دوسرے لوگ معمول کے کاروبار میں مصروف رہتے ہیں۔ البتہ اگر حالات ایسے پیدا ہوجائیں کہ کسی بستی ، علاقے یا خطے میں دین پہنچانے والا کوئی نہ ہو تو جس شخص کو اس بات کا علم ہوجائے کہ فلاں جبکہ جگہ پر دین حقی کی تشفی پائی جاتی ہے تو اس پر فرض عین ہوجاتا ہے کہ وہ دین کا پیغام وہاں تک پہنچائے ورنہ گنہگار ہوگا۔ قلم بھی جہاڈ کا ایک ذریعہ ہے۔ ہزاروں اور لاکھوں مصنفین نے دین اسلام کی تائید و تشریح میں لاکھوں کتابیں لکھی ہیں۔ قرآن پاک اور سنت رسول کی تشریح و توصیح کی ہے جو کہ بہت بڑا مجاہدہ ہے۔ اگر کوئی شخص نیت صادقہ کے ساتھ دین اسلام کے دفاع میں ایک مضمون شائع کراتا ہے تو گویا جہاد میں شریک ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف محض تفریح طبع کے لیے جھوٹے سچے مضامین لکھنا بےسود ہے۔ آج کل صحافی حقیقی خبر کی بجائے بناوٹی خبریں شائع کرتے ہیڈ۔ اس زمانے میں خبر بنائی جاتی ہے۔ دنیا میں بھر ذرائع ابلاغ پر یہودیوں کی اجارہ داری ہے اور وہ اپنی مرضی کی خبریں بناتے ہیں اور پھر انہیں اپنے مفاد کے لیے دنیا بھر میں شائع کراتے ہیں۔ ایسی خبروں کا کچھ اعتبار نہیں اگر نیت صحیح ہو اور حقیقت کو واضح کرنا مقصود ہو تو صحافت کا پیسہ بھی جہاڈ کا حصہ بن سکتا ہے۔ اور یہ قلم کا جہاد تصور ہوگا۔ سورة العلق میں ہے الذی علم بالقلم اللہ کی ذات وہ ہے جس نے انسان کو قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ آجکل کی بناوٹی خبروں کی طرح انگریز کا جاری کردہ قانون شہادت بھی بناوٹی ہے۔ اللہ کا فرمان تو یہ ہے واقیمو الشہادۃ للہ یعنی اللہ کی رضا کے لیے چشم دید گواہی ٹھیک ٹھیک دو مگر موجودہ قانون شہادت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے گواہی بنانی پڑتی ہے۔ عدالت میں پیش ہونے سے پہلے وکیل اور پولیس والے گواہ کو پڑھاتے ہیں کہ اس طرح گواہی دینا اور یوں نہ کہنا ورنہ کیس خراب ہوجائے گا۔ ابو دائود اور مسند احمد میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے جاھدو الکفار والمشرکین باموالکم والسستکم وانفسکم یعنی کافروں اور مشرکوں کے ساتھ اپنے مالوں ، زبانوں اور جانوں سے جہاد کرو۔ زبان کے ذریعے تقریر کرتا ہے۔ غیر اقوام کے شکوک و شہبات دور کرتا ہے۔ اسلام کی تشریح و توصیح کرتا ہے تو یہ جہاد باللسان ہے اور کوئی شخص مال رکھتا ہے مگر جسمانی طور پر کمزور ہے یا تقریر وبیان پر ملکہ نہیں رکھتا تو وہ مال کے ذریعے جہاد میں شریک ہوسکتا ہے اور جو شخص نوجوان اور صحت مند ہے وہ براہ راست میدان جنگ میں تلوار کے ساتھ جہاد کردے گا۔ غرضیکہ جہاد ہر مسلمان پر کبھی فرض کفایہ ہوتا ہے اور کبھی فرض عین ۔ وہ اپنی حیثیت کے مطابق اس میں حصہ لینے کا پابند ہے اللہ نے فرمایا کہ جن لوگوں نے ہمارے لیے مجاہدہ کیا ہم ضرور ان کی اپنے راستوں کی طرف راہنمائی کریں گے۔ یعنی ان کے لیے راستے واضح کردیں گے۔ یہاں پر سبلنا جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جس طرح مجاہدے کے مختلف قسم کے ہیں اسی طرح ہمارے راستے بھی مختلف قسم کے ہیں جس مجاہدے میں خلوص نیت کار فرما ہوگا اس کیلئے راستہ بھی واضح ہوجائیگا جس پر چل کر انسان منزل مقصود تک پہنچ جائے گا۔ چار عدائے دین مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اعدائے دین چار ہیں جن میں سے دو ظاہری اور دو باطنی ہیں جن کے ساتھ مجاہدہ کرنا ضروری ہے۔ ظاہری دشمنوں میں کافر اور منافق ہیں اللہ نے فرمایا ہے جاھدو الکفار والمنفقین (التوبہ 37) یعنی کافروں اور منافقوں کے خلاف جہاد کرو۔ کافروں کے ساتھ جہاد تو تلوار کے ذریعے ہوتا ہے جبکہ منافقوں کے ساتھ زبان سے جہاد کرنا پڑتا ہے تاکہ ان کے نفاق کو لوگوں کے سامنے ظاہر کرکے ان کو ذلیل و رسوا کیا جاسکے۔ اور لوگ ان کے نفاق سے بچ سکیں۔ باطنی دشمنوں میں ایک شیطان ہے جو نظر نہیں آتا اور یوسوس فی صدور الناس (الناس۔ 5) لوگوں کے دلوں میں وسوسہ اندازی کرکے انہیں برائی پر آمادہ کرتا ہے۔ لوگوں کے بُرے اعمال کو مزین کرکے دکھاتا ہے تاکہ لوگ اسی بُرائی میں پھنسے رہیں اور راہ راست کی طرف نہ آسکیں۔ اس کے بعد دوسرا باطنی دشمن خود انسان کا نفس امارہ ہے جو انسان کو برائی کی طرف لے جاتا ہے۔ ان سب اعداد کے خلاف جہاد کرنا بھی جہاد ہی کا حصہ ہے کوئی شخص جس بھی صورت میں مجاہدہ کریگا۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے راستے واضح کرتا چلا جائے گا اور اس کا صحیح نتیجہ سامنے آئے گا۔ نیکو کاروں کے لیے معیت الٰہی فرمایا و ان اللہ لمع المحسنین اللہ تعالیٰ البتہ نیکی کرنیوالوں کے ساتھ ہے جو شخص نیکی کی طرف رجوع کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور نصرت اس کے شامل حال ہوتی ہے۔ البتہ قابل غور بات یہ ہے کہ انسان واقعی نیکی کی طرف راغب ہو۔ ایسا نہ ہو کہ غلط کام کر رہا ہو۔ مگر سمجھتا یہ ہو کہ وہ نیکی کا کام کر رہا ہے۔ تمام اہل بدعت کا یہی حال ہے کہ وہ رواج تو بدعات کو دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم بہت بڑی نیکی کا کام کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو خدا تعالیٰ کی تائید و حمایت حاصل نہیں ہوسکتی۔ جو شخص خدا تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے اور مخلوق خدا کی بےلوث خدمت کرتا ہے ، وہی نیکی انجام دینے والا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے ہی لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
Top