Mualim-ul-Irfan - Al-Ankaboot : 67
اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّ یُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ١ؕ اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَ بِنِعْمَةِ اللّٰهِ یَكْفُرُوْنَ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَوْا : انہوں نے نہیں دیکھا اَنَّا جَعَلْنَا : کہ ہم نے بنایا حَرَمًا : حرم (سرزمین مکہ) اٰمِنًا : امن کی جگہ وَّ : جبکہ يُتَخَطَّفُ : اچک لیے جاتے ہیں النَّاسُ : لوگ مِنْ : سے (کے) حَوْلِهِمْ ۭ : اس کے ارد گرد اَفَبِالْبَاطِلِ : کیا پس باطل پر يُؤْمِنُوْنَ : ایمان لاتے ہیں وَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ : اور اللہ کی نعمت کی يَكْفُرُوْنَ : ناشکری کرتے ہیں
کیا نہیں دیکھا ان لوگوں نے کہ بیشک ہم نے بنایا ہے حرم کو امن کی جگہ۔ اور اچک لیے جاتے ہیں لوگ ان کے اردگرد سے کیا یہ باطل پر یقین رکھتے ہیں اور اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں ؟
ربط آیات سورة العنکبوت میں اللہ تعالیٰ نے زیادہ تر ایمان کے ساتھ ابتلا کا ذکر کیا ہے اور اس پر مثالیں بیان کی ہیں۔ پھر کفر اور شرک کی تردید کی ہے اور توحید و رسالت کے اثبات کا ذکر کیا ہے اب آخر میں ایک تو اللہ کی نعمت یاد دلائی گئی ہے کہ اہل مکہ کو اللہ نے امن جیسی عظیم نعمت عطا کی اور اس کے ساتھ مشرکوں کو وعید بھی سنائی ہے۔ سورة کی آخری آیت میں مجاہدے کا مضمون بیان کیا ہے جیسا کہ سورة کی ابتدا میں ومن جاھد فانما یجاھد لنفسہ میں کیا گیا تھا۔ مجاہدہ بھی آزمائش ہی کی ایک صورت ہے۔ قریش مکہ پر احسان نزول قرآن کے زمانے میں سرزمین عرب میں سال بھر میں آٹھ ماہ سخت بد امنی کے ہوتے تھے۔ اس دوران قافلوں پر حملے ہوتے ، لوٹ مار ہوتی ، قتل و غارت کا بازار گرم ہوتا جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان آٹھ ماہ میں سارے راستے پر خطرہ ہوتے تھے ، کوئی قافلہ بحفاظت سفر نہیں کرسکتا تھا جس کی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہو کر رہ جاتا تھا ، البتہ سال کے باقی چار مہینے حرمت والے مہینے کہلاتے تھے جن میں ہتھیار پھینک دئیے جاتے تھے ، کوئی کسی سے تعرض نہیں کرتا تھا۔ تجارتی قافلے بےدھڑک اپنا سفر جاری رکھتے تھے ، گویا اس دوران میں ہر قسم کا سفر پرامن ہوتا تھا۔ البتہ قریش مکہ کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ بیت اللہ شریف کی تولیت کی وجہ سے ان کے لیے سارا سال پُر امن ہوتا تھا۔ ان کے تجارتی اور دیگر قافلے بلا روک ٹوک جہاں چاہتے سفر کرتے اور ان کے راستے میں کوئی مزاحم نہیں ہوتا تھا۔ یہی وہ احسان ہے جو اللہ نے سورة القریش میں بھی بیان کیا ہے کہ ان کے تجارتی قافلے موسم گرما میں شام کی طرف جاتے تھے اور موسم سرما میں یمن کا رُخ کرتے تھے۔ اس مقام پر بھی اسی احسان کا تذکرہ فرمایا ہے اولم یروانا جعلنا حرماً امناً کیا قریش مکہ نے نہیں دیکھا کہ ہم نے حرم پاک کو امن کا خطہ بنادیا ہے اور اسی وجہ سے حرم کے متولی قریش بھی مامون ہوگئے ہیں۔ دوسرے لوگوں کے برخلاف انہیں مکمل امن وامان حاصل ہے اور یہ جہاں چاہیں بلا روک ٹوک جاسکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ حرم کو پُر امن خطہ کسی لات منات یا عزیٰ نے تو نہیں بنایا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص مہربانی سے تخلیق ارضی کے زمانے سے ہی اسے امن والا خطہ بنادیا تھا۔ اسی علاقے میں جنگ و جدل ممنوع قرار دی گئی اور ہر گاہ کے لیے دوسری سزا مقر ر کی گئی جس کی وجہ سے قریش کو مکمل طور پر امن حاصل ہوگیا۔ حرم پاک کے علاوہ باقی عرب کی حالت یہ تھی ویتخطف الناس من حولھم کہ قریش کے اردگرد کے علاقوں سے لوگ اچک لیے جاتے تھے۔ وہاں کسی کی جان ، مال اور عزت محفوظ نہ تھی۔ ہمیشہ فتنہ و فساد کا بازار گرم رہتا۔ اللہ تعالیٰ نے قریش کو یہی احسان یاد دلایا اور فرمایا کہ بیت اللہ شریف کے پروردگار کی عبادت کرو الذی اطعھم من جوع و امنھم من خوف (قریش 04) جس نے انہیں بھوک میں روزی اور خوف میں امن عطا فرمایا۔ یہ محض اللہ کے گھر کی برکت تھی کہ لوگوں کے دلوں میں متولیان کعبہ کی عزت و احترام تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی تعمیر کعبہ کے وقت اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا کی تھی۔ فاجعل افدۃً من الناس تھوی الیھم وارزقھم من الثمرات لعلھم یشکرون ( ابراہیم۔ 73) اے مولا کریم ! لوگوں کے لوگوں کو بیت اللہ شریف کی طرف مائل کردے اور یہاں کے رہنے والوں کو پھلوں کی روزی عطا فرما تاکہ یہ تیرا شکریہ ادا کریں۔ الغرض ! اللہ نے قریش مکہ کو امن وامان اور روزی رسانی کا احسان یاد دلا کر فرمایا کہ اس احسان کے بدلے میں ان کو چاہئے تھا کہ وہ شرک نہ کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی توحید کو تسلیم کرتے۔ اس کے برخلاف ان لوگوں نے اللہ کی اس نعمت کی قدر نہ کی اور اہل ایمان کو ایذا رسانی پر تُل گئے۔ قریش کے اس قبیح عقیدہ و کردار کی بنا پر اللہ نے فرمایا افبالباطل یومنون کیا یہ لوگ باطل پر یقین رکھتے ہیں ؟ وبنعمۃ اللہ یکفرون اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت کی ناقدری کرتے ہیں ؟ قریش مکہ کا تو خاص طور پر فرض تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکر ادا کرتے اور اس کی وحدانیت کو تسلیم کرتے مگر پیغمر آخر الزمان کو تکالیف پہنچانے میں یہی لوگ پیش پیش تھے جو ان کی بد بختی کی علامت ہے۔ سب سے بڑا ظالم فرمایا ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذباً اس سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے جو شخص خدا کا شریک ٹھہراتا ہے۔ وہ اس پر افتراء باندھتا ہے کیونکہ وہ تو وحدہ لا شریک ہے۔ خدا کا شریک بنانے کا مطلب یہ ہے ام تتبئونہ بما لا یعلم فی الارض ( الرعد۔ 33) گویا کہ تم اللہ تعالیٰ کو ایسی چیز کی خبر دے رہے ہو جس کو وہ زمین میں نہیں جانتا۔ اس قسم کا خیال بذات خود کفر کی بات ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ فرمایا ظالم کی ایک علامت تو یہ ہے کہ وہ خدا پر جھوٹ باندھتا ہے اور دوسری یہ اوکذب بالحق لما جاء و یا جب کوئی حق بات اس کے پاس آجائے تو وہ اس کو جھٹلا دیتا ہے یہ بھی اس کے بڑا ظالم ہو نیکی نشانی ہے جب خدا کا پیغمبر اللہ تعالیٰ کا پیغام سناتا ہے وحی الٰہی کی بات کرتا ہے تو یہ شخص اس کی تکذیب کرتا ہے لہٰذا یہ سب سے بڑا ظالم ہے ۔ کوئی سلیم الفصرت اللہ اور اس کے رسول کی بات جھٹلانے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ فرمایا جو شخص کسی بات کو جھٹلاتا ہے الیس فی جھنم مثوی للکفرین کیا ایسے کافروں کا ٹھکانہ جہنم میں نہیں ہے ؟ یقینا ایسے لوگ جہنم کا شکار بنیں گے۔ مجاہدے کی مختلف صورتیں مجاہدہ بھی آزمائش ہی کی ایک صورت ہے۔ اس لیے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے مجاہدہ کرنے والوں کو تسلی دی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے والذین جاھدوا فینا لھندینھم سبلنا اور وہ لوگ جنہوں نے ہمارے لیے مجاہدہ کیا ہم ضرور ان کی اپنے راستوں کی حرف رہنمائی کریں گے۔ مجاہدہ جہاد کے وہ سے ہے جس کا معنی اپنی پوری ظاہری اور باطنی قوت کو دشمن کے مقابلے میں صرف کرنا ہے۔ جہا د کی ایک صورت جہاد بالسیف ہے یعنی تلوار کے ساتھ میدان جنگ میں دشمن کا مقابلہ کرنا۔ جنگ عام حالات میں تو فرض کفایہ ہوتی ہے کہ بعض لوگ اس میں ہمہ وقت شریک ہوتے ہیں اور ملکی سرحدوں کا دفاع کرتے ہیں جبکہ باقی لوگ اپنے گھروں میں رہ کر باقی امور زندگی از قسم کاروبار ، محنت مزدوری ، کھیتی باڑی اور ملازمت وغیرہ انجام دیتے ہیں۔ البتہ جب دشمن کے خلاف بالعمل جنگ شروع ہوجائے تو پھر یہ ہر مسلمان پر فرض عین ہوجاتی ہے اور ہر شخص کسی نہ کسی صورت میں ایسی جنگ میں شریک ہوجاتا ہے۔ مجاہدے کی ایک صورت حصول علم بھی ہے کہ یہ بھی محنت و مشقت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ امام بخاری فرماتے ہیں انما العلم بالتعلم یعنی علم سیکھنے سے آتا ہے۔ عام لوگوں کا تو یہی دستور ہے ، البتہ بنیاء (علیہم السلام) کو وحی کے ذریعے علم سکھایاجاتا ہے علم حاصل کرنے کے بعد اسے دوسروں تک پہنچانا بھی تبلیغ دین کا کام انجام دینا بھی بہت بڑا مجاہدہ ہے۔ یہ بھی عام حالات میں فرض کفایہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ تبلیغ دین کا کام کرتے ہیں جب کہ دوسرے لوگ معمول کے کاروبار میں مصروف رہتے ہیں۔ البتہ اگر حالات ایسے پیدا ہوجائیں کہ کسی بستی ، علاقے یا خطے میں دین پہنچانے والا کوئی نہ ہو تو جس شخص کو اس بات کا علم ہوجائے کہ فلاں جبکہ جگہ پر دین حقی کی تشفی پائی جاتی ہے تو اس پر فرض عین ہوجاتا ہے کہ وہ دین کا پیغام وہاں تک پہنچائے ورنہ گنہگار ہوگا۔ قلم بھی جہاڈ کا ایک ذریعہ ہے۔ ہزاروں اور لاکھوں مصنفین نے دین اسلام کی تائید و تشریح میں لاکھوں کتابیں لکھی ہیں۔ قرآن پاک اور سنت رسول کی تشریح و توصیح کی ہے جو کہ بہت بڑا مجاہدہ ہے۔ اگر کوئی شخص نیت صادقہ کے ساتھ دین اسلام کے دفاع میں ایک مضمون شائع کراتا ہے تو گویا جہاد میں شریک ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف محض تفریح طبع کے لیے جھوٹے سچے مضامین لکھنا بےسود ہے۔ آج کل صحافی حقیقی خبر کی بجائے بناوٹی خبریں شائع کرتے ہیڈ۔ اس زمانے میں خبر بنائی جاتی ہے۔ دنیا میں بھر ذرائع ابلاغ پر یہودیوں کی اجارہ داری ہے اور وہ اپنی مرضی کی خبریں بناتے ہیں اور پھر انہیں اپنے مفاد کے لیے دنیا بھر میں شائع کراتے ہیں۔ ایسی خبروں کا کچھ اعتبار نہیں اگر نیت صحیح ہو اور حقیقت کو واضح کرنا مقصود ہو تو صحافت کا پیسہ بھی جہاڈ کا حصہ بن سکتا ہے۔ اور یہ قلم کا جہاد تصور ہوگا۔ سورة العلق میں ہے الذی علم بالقلم اللہ کی ذات وہ ہے جس نے انسان کو قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ آجکل کی بناوٹی خبروں کی طرح انگریز کا جاری کردہ قانون شہادت بھی بناوٹی ہے۔ اللہ کا فرمان تو یہ ہے واقیمو الشہادۃ للہ یعنی اللہ کی رضا کے لیے چشم دید گواہی ٹھیک ٹھیک دو مگر موجودہ قانون شہادت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے گواہی بنانی پڑتی ہے۔ عدالت میں پیش ہونے سے پہلے وکیل اور پولیس والے گواہ کو پڑھاتے ہیں کہ اس طرح گواہی دینا اور یوں نہ کہنا ورنہ کیس خراب ہوجائے گا۔ ابو دائود اور مسند احمد میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے جاھدو الکفار والمشرکین باموالکم والسستکم وانفسکم یعنی کافروں اور مشرکوں کے ساتھ اپنے مالوں ، زبانوں اور جانوں سے جہاد کرو۔ زبان کے ذریعے تقریر کرتا ہے۔ غیر اقوام کے شکوک و شہبات دور کرتا ہے۔ اسلام کی تشریح و توصیح کرتا ہے تو یہ جہاد باللسان ہے اور کوئی شخص مال رکھتا ہے مگر جسمانی طور پر کمزور ہے یا تقریر وبیان پر ملکہ نہیں رکھتا تو وہ مال کے ذریعے جہاد میں شریک ہوسکتا ہے اور جو شخص نوجوان اور صحت مند ہے وہ براہ راست میدان جنگ میں تلوار کے ساتھ جہاد کردے گا۔ غرضیکہ جہاد ہر مسلمان پر کبھی فرض کفایہ ہوتا ہے اور کبھی فرض عین ۔ وہ اپنی حیثیت کے مطابق اس میں حصہ لینے کا پابند ہے اللہ نے فرمایا کہ جن لوگوں نے ہمارے لیے مجاہدہ کیا ہم ضرور ان کی اپنے راستوں کی طرف راہنمائی کریں گے۔ یعنی ان کے لیے راستے واضح کردیں گے۔ یہاں پر سبلنا جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جس طرح مجاہدے کے مختلف قسم کے ہیں اسی طرح ہمارے راستے بھی مختلف قسم کے ہیں جس مجاہدے میں خلوص نیت کار فرما ہوگا اس کیلئے راستہ بھی واضح ہوجائیگا جس پر چل کر انسان منزل مقصود تک پہنچ جائے گا۔ چار عدائے دین مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اعدائے دین چار ہیں جن میں سے دو ظاہری اور دو باطنی ہیں جن کے ساتھ مجاہدہ کرنا ضروری ہے۔ ظاہری دشمنوں میں کافر اور منافق ہیں اللہ نے فرمایا ہے جاھدو الکفار والمنفقین (التوبہ 37) یعنی کافروں اور منافقوں کے خلاف جہاد کرو۔ کافروں کے ساتھ جہاد تو تلوار کے ذریعے ہوتا ہے جبکہ منافقوں کے ساتھ زبان سے جہاد کرنا پڑتا ہے تاکہ ان کے نفاق کو لوگوں کے سامنے ظاہر کرکے ان کو ذلیل و رسوا کیا جاسکے۔ اور لوگ ان کے نفاق سے بچ سکیں۔ باطنی دشمنوں میں ایک شیطان ہے جو نظر نہیں آتا اور یوسوس فی صدور الناس (الناس۔ 5) لوگوں کے دلوں میں وسوسہ اندازی کرکے انہیں برائی پر آمادہ کرتا ہے۔ لوگوں کے بُرے اعمال کو مزین کرکے دکھاتا ہے تاکہ لوگ اسی بُرائی میں پھنسے رہیں اور راہ راست کی طرف نہ آسکیں۔ اس کے بعد دوسرا باطنی دشمن خود انسان کا نفس امارہ ہے جو انسان کو برائی کی طرف لے جاتا ہے۔ ان سب اعداد کے خلاف جہاد کرنا بھی جہاد ہی کا حصہ ہے کوئی شخص جس بھی صورت میں مجاہدہ کریگا۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے راستے واضح کرتا چلا جائے گا اور اس کا صحیح نتیجہ سامنے آئے گا۔ نیکو کاروں کے لیے معیت الٰہی فرمایا و ان اللہ لمع المحسنین اللہ تعالیٰ البتہ نیکی کرنیوالوں کے ساتھ ہے جو شخص نیکی کی طرف رجوع کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور نصرت اس کے شامل حال ہوتی ہے۔ البتہ قابل غور بات یہ ہے کہ انسان واقعی نیکی کی طرف راغب ہو۔ ایسا نہ ہو کہ غلط کام کر رہا ہو۔ مگر سمجھتا یہ ہو کہ وہ نیکی کا کام کر رہا ہے۔ تمام اہل بدعت کا یہی حال ہے کہ وہ رواج تو بدعات کو دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم بہت بڑی نیکی کا کام کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو خدا تعالیٰ کی تائید و حمایت حاصل نہیں ہوسکتی۔ جو شخص خدا تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے اور مخلوق خدا کی بےلوث خدمت کرتا ہے ، وہی نیکی انجام دینے والا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے ہی لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
Top