بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 1
الٓمَّٓۙ
الٓٓمَّ : الف لام میم
الم۔
نام اور کوائف : سورۃ کا نام آل عمران ہے۔ چونکہ اس سورة میں عمران کی اولاد کا ذکر ہے اس لیے اس کا نام آل عمران ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح پہلی سورة میں بقرہ یعنی گائے کا ذکر ہے ، تو اس کا نام سورة بقرہ ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں ، کہ عمران دو ہیں۔ ایک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے والد اور دوسرے حضرت مریم (علیہا السلام) کے والد۔ چونکہ اس سورة میں زیادہ تر حضرت مریم ؓ اور ان کے بیٹے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر ہے۔ اس لیے یہاں پر عمران سے مراد حضرت مریم ؓ کے والد ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے والد بھی پیغمبر نہیں تھے۔ اور حضرت مریم کے والد بھی پیغمبر نہیں۔ البتہ یہ دونوں حضرات نیک ، صالح اور ایماندار تھے تاہم حضرت مریم کے والد عمران بیت المقدس کے امام تھے۔ ہاں ! حضرت مریم کے خالو حضرت زکریا (علیہ السلام) اللہ کے نبی تھے۔ زمانہ نزول : یہ سورة مدنی ہے کیونکہ ہجرت کے بعد نازل ہوئی۔ ہجرت سے پہلے نازل ہوئی۔ ہجرت سے پہلے نازل ہونے والی سورتیں مکی کہلاتی ہیں۔ اس سورة میں نجران کے اس عیسائی وفد کا ذکر ہے۔ جو حضور ﷺ سے بحث مباحثہ کے لیے فتح مکہ سے اگلے سال یعنی سن 9 ہجری میں مدینے آیا تھا۔ لہذا اس کا زمانہ نزول سن 9 ہجری ہے۔ البتہ اس سورة میں جنگ بدر اور جنگ احد کا ذکر بھی ہے۔ اس لیے بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس کا زمانہ نزول سن 4 ہجری تا سن 9 ہجری ہے۔ بعض آیات سن 9 ہجری سے پہلے نازل ہوئی ہیں اور بعض اس سال میں۔ تاہم اس سورة کا زیادہ تر حصہ سن 9 ہجری میں نازل ہوا۔ تفسیر تنویر جو حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی طرف منسوب ہے اور جسے امام فیروز آبادی نے مرتب کیا ہے۔ اس کے مطابق سورة آل عمران کا نزول سورة انفال کے بعد ہوا ہے۔ مرکزی مضمون : سورة انفال میں بدر وغیرہ کے واقعات مذکور ہیں اور جیسا کہ عرض کیا گیا تھا کہ سورة بقرہ کا خاص مضمون یہود کی اصلاح اور اس کے ساتھ اہل ایمان کے لیے ضروری احکام ہیں جن کے ذریعہ حصول تقویٰ کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ نظام خلافت کبریٰ کا مفصل بیان ہے۔ اس سورة میں روئے سخن زیادہ تر نصاری کی طرف ہے اور اہل ایمان کے لیے ضروری احکام بھی ہیں۔ چناچہ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس سورة کی ابتدائی 83 آیتوں میں عیسائیوں کے باطل عقیدہ کا رد ہے۔ اور ضمناً بہت سی دوسری باتیں بھی بیان ہوئی ہیں۔ توحید کا مسئلہ اور اس کے عقلی و نقلی دلائل پیش کیے گئے ہیں اس کے علاوہ قرآن پاک کی حقانیت اور صداقت کا تذکرہ ہے۔ پہلی سورة میں جو بعض باتیں اجمالاً ذکر کی گئی تھیں۔ ان کا تفصیلی ذکر ہے جیسے وہاں پر شہداء کا ذکر اجمالی تھا ، یہاں تفصیل کے ساتھ ہوگا۔ وہاں پر رسولوں کا ذکر اجمالی تھا ، اب تفصیل کے ساتھ آئے گا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور حضرت مسیح (علیہ السلام) اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کے تذکرے سورة بقرہ میں اجمالی تھے ، اب ان کا مفصل تذکرہ آئے گا ، سورة بقرہ کے آخر میں ایمانیات کا تذکرہ تھا۔ امن الرسول بما انزل الیہ من ربہ والمومنون۔ کل امن باللہ و ملائکتہ و کتبہ ورسلہ۔ اس سورة مبارکہ میں ابتداء ہی سے توحید کا مسئلہ بیان ہوا ہے۔ نجران کا وفد : یمن کے نجران کا عیسائی وفد ساٹھ افراد پر مشتمل تھا۔ جن میں چودہ سر کردہ آدمی اور تین سردار تھے۔ ان میں عبدالمسیح عاقب امارت اور سیادت کے لحاظ سے اعلی حیثیت کا مالک تھا۔ ایہم السید عقلمندی اور تدبیر میں کامل تصور کیا جاتا تھا اور تیسرا شخص ابو حارثہ ابن علقمہ مذہبی اعتبار سے ایک جید عالم ، پادری ، وقیع اور معزز شخص تھا۔ یہ آدمی در اصل عربوں کے مشہور قبیلہ بکر بن وائل سے تعلق رکھتا تھا۔ اس قبیلہ نے عیسائی مذہب اختیار کرلیا تھا۔ روم کے عیسائی بادشاہ نے انہیں جاگیر بخش رکھی تھی۔ ان کی بڑی قدر و منزلت کرتا تھا۔ روم کے عیسائی بادشاہ نے انہیں جاگیر بخش رکھی تھی۔ ان کی بڑی قدر و منزلت کرتا تھا۔ انہیں ایک بہت بڑا گرجا بنا کردیا تھا۔ مورخین کے اقوال ، سیرت کی کتابوں اور ذخیرہ احادیث سے وفدِ نجران کی آمد کے دو مقاصد سمجھ میں آتے ہیں۔ پہلا مقصد تو سیاسی تھا یہ وہ زمانہ تھا جب مکہ فتح ہو کر عرب کی پوری سرزمین اور یمن کے کچھ علاقے بھی مسلمانوں کے تسلط میں آ چکے تھے اور نجران کے یہ عیسائی بھی مسلمانوں سے خائف تھے۔ ادھر مدینہ طیبہ کے گرد یہودیوں کی اکثریت تھی۔ جن میں تین خاندان بنو قریظہ ، بنو نضیر اور بنو قینقاع خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ یہ بڑے متعصب یہودی تھے۔ سود خور اور سازشی ذہن کے حامل تھے۔ ان کی اسی خباثت کی وجہ سے ان میں سے دو قبیلوں یعنی بنو نضیر اور بنو قینقاع کو جلا وطن کردیا گیا تھا۔ تیسرے قبیلہ بنو قریظہ کا فیصلہ جنگ خندق کے بعد کیا گیا تھا۔ ان لوگوں نے اس جنگ میں مسلمانوں کے ساتھ غداری کی تھی۔ چناچہ جنگ کے بعد ان کا مسئلہ پیش ہوا۔ کہ وہ اپنی سزا خود ہی تجویز کریں۔ انہوں نے حضرت سعد بن معاذ کو اس سلسلے میں حکم تسلیم کیا ، جنہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ ان کے تمام مردوں کو جن کی تعداد چار سو یا چھ سو تھی قتل کردیا جائے ، ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے ، اور ان کے اموال مسلمانوں میں تقسیم کردیے جائیں۔ چناچہ اس فیصلے پر عمل کرکے ان کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا گیا۔ اس موقع پر حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ سعد کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق ہے۔ ان تاریخی واقعات سے نجران کے عیسائی سخت خائف تھے کہ کہیں مسلمان ان کے ساتھ بھی یہودیوں جیسا سلوک نہ کریں۔ لہذا انہوں نے اس وفد کے ذریعے مسلمانوں سے صلح کرنے اور ان سے امان حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اور جزیہ ادا کرکے مسلمانوں کے زیر تسلط اپنے ہی علاقے میں آباد رہنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ وفد نجران کی آمد کا دوسرا بڑا مقصد عیسائیت کی تبلیغ تھا۔ مسیح (علیہ السلام) کے متعلق ان کا عقیدہ تھا کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں یا تین خداؤں میں سے تیسرے ہیں یا وہ خود خدا ہیں۔ اس عقیدے پر وہ حضور ختم المرسلین ﷺ سے بحث مباحثہ کرنا چاہتے تھے۔ اس کا ذکر آگے سورة میں صریح الفاظ میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ فان حاجوک۔ اگر یہ آپ سے جھگڑا کریں۔ تو پہلے نرم طریقہ سے ان کو سمجھانے کی کوشش کریں۔ فقل اسلمت وجہی للہ و من اتبعن۔ یعنی میں اور میرے پیروکاروں نے اپنے آپ کو اللہ کے لیے سونپ دیا ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ آپ کی دعوت کو قبول نہ کریں۔ اور آپ سے مسلسل جھگڑا کریں۔ فقل تعالوا ندع ابناءنا و ابناء کم و نساءنا و نساء کم و انفسنا و انفسکم ۔ ثم نبتہل فنجعل لعنت اللہ علی الکذبین۔ تو پھر ان کو دعوت مباہلہ دے دیں۔ اور اعلان کردیں کہ آؤ تم بھی اپنی اولاد اور عورتوں کے ساتھ میدان میں نکل آؤ اور اگر پھر بھی اسی طریقے سے آتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کے ساتھ دعا کریں۔ اور جھوٹے پر خدا کی لعنت کریں۔ مگر آپ کے اس چیلنج کو عیسائیوں نے قبول نہ کیا۔ اس کا تفصیلی ذکر آگے آئے گا۔ بہرحال عیسائیوں کا دوسرا مقصد حضور ﷺ سے بحث و مباحثہ کرنا تھا۔ موضوع بحث : چونکہ عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو الٰہ مانتے تھے۔ لہذا اس بحث مباحثے کا موضوع بھی مسئلہ الوہیت قرار پایا۔ چناچہ حضور ﷺ نے ان کے سامنے الوہیت کی چار صفات بیان کرکے دریافت کیا کہ کیا یہ صفات عیسیٰ (علیہ السلام) میں بھی پائی جاتی ہیں۔ فرمایا کیا عیسیٰ (علیہ السلام) ازلی اور ابدی ہیں جن کو کبھی فنا نہیں۔ تو عیسائیوں نے اقرار کیا۔ کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کو حیات سرمدی حاصل نہیں۔ حضور ﷺ نے دریافت کی۔ کیا عیسیٰ (علیہ السلام) کا علم ہر چیز پر محیط ہے اور کیا ان سے کوئی چیز مخفی نہیں ؟ عیسائیوں نے اس کا جواب بھی نفی میں دیا۔ آپ نے تیسرا سوال کیا کہ کیا عیسیٰ (علیہ السلام) ماں کے پیٹ سے پیدا نہیں ہوئے ؟ انہوں نے کہا کہ بیشک آپ حضرت مریم کے پیٹ سے پیدا ہوئے ، پھر آپ نے سوال کیا ، کیا عیسیٰ (علیہ السلام) قادر مطلق ہیں۔ انہیں ہر چیز پر تصرف حاصل ہے ؟ عیسائی وفد یہ بھی ثابت نہ کرسکا ، بلکہ اس کا انکار کیا۔ تو حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ چاروں صفات الوہیت کی صفات ہیں۔ اگر بقول تمہارے ان میں سے ایک بھی حضرت مسیح (علیہ السلام) میں نہیں پائی جاتی تو پھر تم انہیں الٰہ کیسے تسلیم کرتے ہو۔ آپ نے فرمایا ، تمہیں شرم آنی چاہئے اور اس باطل عقیدہ سے توبہ کرنی چاہیے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے۔ کھانا کھاتے رہے ، پانی پیتے رہے ، بول و براز کی ضرورت رہی۔ تو ایسی شخصیت الٰہ کیونکر ہوسکتی ہے ، الٰہ تو وہ ذات پاک ہے ، جو ازلی اور ابدی ہے جس کو فنا نہیں جس کا علم ہر چیز پر محیط ہے اور کوئی چیز مخفی نہیں جو قادر مطلق ہے۔ اور نہ کسی کا بیٹا ہے نہ کسی کا باپ ہے مسیح (علیہ السلام) ان میں سے کسی بھی صفت سے متصف نہیں لہذا ان کو الٰہ تسلیم کرنا کس قدر جہالت کی بات ہے ، بہرحال عیسائی بحث مباحثہ کرتے رہے اور اپنی ضد پر اڑے رہے۔ آخر میں حضور ﷺ نے دعوت مباہلہ دی ، مگر عیسائی اس سے بھی بھاگ گئے۔ ایمانیات کا بیان : جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے۔ سورة بقرہ کے آخر میں ایمانیات کا ذکر تھا اور اس سورة کی ابتداء اسی مضمون سے ہورہی ہے۔ الم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم۔ الم حروف مقطعات میں سے ہے۔ اور اس کا ذکر سورة بقرہ کی ابتدا میں ہوگیا تھا۔ اب ارشاد ہوتا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ یعنی وہی الیہ ہے کیونکہ وہ حیی اور قیوم ہے۔ اس کی حیات ازلی اور ابدی ہے وہ حی ہے۔ اور وہ حیات دینے والا ہے۔ وہ قیوم ہے یعنی خود قائم ہے ، ہمیشہ قائم رہے گا۔ اور دوسروں کو قائم رکھنے والا ہے۔ وہی سب کو تھامنے والا ہے۔ خدا کے سوا نہ کوئی حی ہے اور نہ قیوم ہے۔ لہذا معبود برحق وہی ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ عبادت کے لائق کوئی نہیں ہوسکتا۔ یہ تو عقلی دلیل ہے۔ کہ مسجود خلائق صرف وہی ذات ہے۔ اب نقلی دلیل ہے۔ کہ مسئلہ توحید سمجھانے کے لیے ، لوگوں کو ایمان کی حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے اور شرک و کفر کی بیخ کنی کے لیے اس مالک الملک نے کتابیں نازل فرمائیں۔ نزل علیک الکتب بالحق۔ اس اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب یعنی قرآن پاک حق کے ساتھ نازل فرمایا۔ اور اس کی خوبی یہ ہے کہ یہ مصدقا لما بین یدیہ اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے۔ جس طرح ہر آنیوالا نبی پچھلے نبی کی تصدیق کرتا ہے۔ اسی طرح ہر آسمانی کتاب سابقہ کتاب کی تصدیق کرتی ہے۔ اور اس میں شامل شدہ خرابیوں کی نشاندہی کرتی ہے یہ چیز قرآن پاک نے بتائی کہ تورات سچی کتاب ہے۔ جو اللہ نے نازل فرمائی۔ مگر یہودیوں نے اس میں خرابیاں پیدا کیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر فرمایا وانزل التوراۃ والانجیل ، اللہ تعالیٰ نے تورات اور انجیل کو نازل فرمایا۔ تورات کا معنی ہی قانون (LAW) ہے۔ جب فرعون غرق ہوگیا اور بنی اسرائیل اس کے عذاب سے بچ گئے۔ تو انہوں نے خود موسیٰ (علیہ السلام) سے عرض کیا۔ کہ مصر میں قیام کے دوران میں تو ہم مجبوراً فرعون کے قانون کے تحت زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔ اب ہم آزاد ہیں اس لیے ہمارے لیے کوئی اپنی شریعت یعنی قانون ہونا چہایے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس قانون کے لیے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی۔ تو اللہ رب العزت نے فرمایا۔ کوہ طور پر آ کر اعتکاف کرو ، چالیس روزے رکھو تو آپ کو کتاب دی جائے گی۔ یہ سارا واقعہ سورة اعراف میں موجود ہے۔ چناچہ یہودیوں کی اپنی خواہش کے جواب میں ان کو تورات عطا کی گئی ۔ یہ ایک عظیم کتاب تھی۔ مگر یہودیوں ، اور عیسائیوں اور ان کے پیروکاروں نے اس میں تحریف کرکے اس کو بگاڑ دیا۔ تاہم اس کا کافی حصہ اب بھی اپنی اصل صورت میں موجود ہے۔ فرمایا والانجیل ، یعنی تورات کے بعد ہم نے انجیل بھی اتاری۔ یہ کتاب بنی اسرائیل کے آخری نبی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی۔ مگر افسوس کہ اس کا مصدقہ نسخہ آج دنیا سے مفقود ہے۔ اصل انجیل وہ فرامین اور خطبات ہیں۔ جس مسیح (علیہ السلام) نے اپنی زندگی کے آخری تین برسوں میں ارشاد فرمائے۔ آپ کی زندگی میں یہ فرامین تحریری صورت میں موجود نہ تھے۔ بلکہ آپ کے شاگرد ان کی زبانی تبلیغ کرتے تھے۔ ایک مدت کے بعد جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معتقدین کو یہودیوں سے الگ امت قرار دیا گیا۔ اور انہیں عیسائی کہا جانے لگا۔ تو انہوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی زندگی اور ان کے فرمودات پر کتابیں تصنیف کیں جن کی تعداد 34 تک پہنچتی ہے۔ موجودہ اناجیل اربعہ کی بنیاد یہی کتابیں ہیں۔ یہ چاروں انجیلیں یونانی زبان بولنے والے عیسائیوں کی ترتیب دی ہوئی ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد اس مذہب میں داخل ہوئے۔ ان اناجیل کا ایک بھی نسخہ اصل یونانی زبان میں موجود نہیں۔ عیسائی ان میں تغیر و تبدل کرتے رہے۔ لہذا آج انجیل کے وہی احکامات قابل اعتماد سمجھے جاسکتے ہیں جن کی تصدیق قرآن پاک نے کی ہے باقی سب غیر معتبر اقوال ہیں۔ فرمایا : من قبل ھدی للناس : یہ تورات و انجیل پہلے لوگوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائیں۔ انبیائے بنی اسرائیل انہیں کتابوں کے احکامات کی تجدید کے لیے آتے رہے۔ تا آنکہ وانزل الفرقان اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کو نازل فرمایا۔ اس مقدس اور آخری کتاب کے ذریعے سابقہ تمام احکام منسوخ ہوگئے۔ اور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے یہی احکام قرآن منبع رشد و ہدایت ٹھہرے۔ اس کے ساتھ ہی نبوت کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند کردیا گیا۔ اور تبلیغ دین کا کام علمائے امت کے سپرد ہوا۔ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل (اور العلماء ورثۃ الانبیاء) یعنی میری امت کے علمائے حق بنی اسرائیل کے نبیوں کی مانند ہیں۔ جو کام بنی اسرائیل کے نبی انجام دیتے تھے ، وہی کام میری امت کے علماء انجام دیتے رہیں گے۔ فرقان کا معنی حق و باطل میں فرق کرنے والا یا متنازعہ امور میں آخری فیصلہ کرنے والا ہے۔ قرآن پاک کو فرقان اس لیے کہا گیا ہے۔ کہ جب بھی اللہ کے دین کو کسی نے بگارنے کی کوشش کی ، قرآن پاک نے حق کی نشاندہی کردی۔ تورات و انجیل کے تحریف شدہ نسخوں میں آج بھی قرآن پاک اللہ تعالیٰ کے اصل احکام کو واضح کرکے اپنے فرقان ہونے کا ثبوت مہیا کر رہا ہے۔ منکرین کا انجام : فرمایا ان واضح احکامات آجانے کے بعد ان الذین کفروا بایات اللہ۔ جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا۔ انکار لفظی بھی ہوسکتا ہے۔ اور معنوی بھی لفظی انکار تو یہ ہے کہ اللہ کی کتاب کے الفاظ کو ہی بدل دیا جائے جیسا کہ یہودیوں نے تورات کے ساتھ کیا۔ اور معنوی انکار یہ ہے کہ واضح حکم کی غلط تاویل کرکے اسے اپنی مرضی کے مطابق غلط معنی پہنا دیے جائیں۔ اس کی بھی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ کس طرح یہودیوں اور عیسائیوں نے اللہ کے احکام کو اپنی من مرضٰ کے معنی پہنائے اپنے گردوپیش میں نظر دوڑائیں ایسے منکرین آیات کی آج بھی کمی نہیں ، اگرچہ آج اللہ کے اس آخری کلام کی تحریف لفظی تو ممکن نہیں مگر کتنے ہی پیٹ کے پجاری معنوی تحریفات کرکے اللہ کے غضب کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ایسے ہی منکرین کے متعلق فرمایا لھم عذاب شدید ان کے لیے سخت عذاب ہے۔ جب اللہ کی پکڑ آئے گی تو پھر اس سے بچ نہیں سکیں گے کیونکہ واللہ عزیز۔ اللہ تعالیٰ غلبے والا ہے۔ اسے ہر چیز پر غلبہ حاصل ہے۔ اس کی گرفت سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ اس کے سامنے کوئی چالاکی اور حیلہ سازی کام نہیں آئیگی۔ اور وہ ذوانتقام یعنی بدلہ لینے والا ہے وہ ظلم و زیادتی کی رسی کو دراز ضرور کرتا ہے۔ مگر جب اپنے باگی سے انتقام لینے پر آتا ہے۔ تو اس کے راستے میں کوئی چیز حائل نہیں ہوتی۔ فرمایا : ان اللہ لا یخفی علیہ شیء فی الارض ولا فی السماء۔ زمین و آسمان کی کوئی چیز اللہ تعالیٰ سے مخفی نہیں اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اہل کتاب خوب سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی سازشوں سے بیخبر نہیں۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہہ کر یہ لوگ جس طرح اس کی توحید میں خلل اندازی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی تمام سازشوں سے واقف ہے۔ اور یہ تمام باتیں ان کے اعمال ناموں میں لکھی جا رہی ہیں۔ وقت آنے پر اس کا بدلہ چکا دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ : فرمایا ھو الذی یصورکم فی الارحام کیف یشاء ۔ وہی ذات پاک ہے۔ جو ماؤں کے رحموں میں تمہاری تصویریں بناتا ہے جس طرح چاہے بچے کی ظاہری شکل و صورت یعنی گورا ، کالا ، گندمی ، سرخ وغیرہ ہونا بھی اسی کی قدرت تامہ کا شاہکار ہے۔ اور اس کا نیک و بد ، عقل مند اور بےعقل سعید اور شقی ہونا سب اس کے علم اور قدرت میں ہے۔ یہاں پر بنی اسرائیل یعنی یہودیوں اور عیسائیوں کو یہ سمجھانا بھی مقصود ہے۔ کہ مسیح (علیہ السلام) دیگر مخلوق کی طرح ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے۔ اور ابتدائی حالت سے لے کر پیدائش تک ان پر جو تغیرات گزرے وہ سب ان کی کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود یہ لوگ حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا کس مشابہت کی بنا پر کہتے ہیں یہ تو بڑی زیادت کی بات ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے پیدا کیا۔ تو اس مالک الملک کے لیے یہ کونسی ایسی بڑی بات ہے۔ اس نے تو حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا (علیہا السلام) کو بغیر ماں باپ کے پیدا فرمادیا تھا۔ لا الہ الا ھو العزیز الحکیم۔ معبود حقیقی وہی ہے اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ کیونکہ عبادت کے لائق وہی ہوسکتا ہے جو قدرت کاملہ کا مالک ہو اور جس کا علم ہر چیز پر محیط ہو۔ یہ صفات صرف اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں۔ لہذا الٰہ بھی صرف وہی ہے مسیح (علیہ السلام) الٰہ نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ وہ تو مخلوق ہیں اور نہ وہ قدرت کاملہ کے مالک ہیں اور نہ ان کا علم ہر چیز پر محیط ہے۔ اور نہ وہ ازلی و ابدی ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ عزیز یعنی ہر چیز پر غالب ہے اور حکیم ہے کہ اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔ کائنات کا تمام نظام اس کے مقررہ اصولوں اور حکمت کے مطابق انجام پا رہا ہے۔
Top