Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 102
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ
: وہ جو کہ
اٰمَنُوا
: ایمان لائے
اتَّقُوا
: تم ڈرو
اللّٰهَ
: اللہ
حَقَّ
: حق
تُقٰتِھٖ
: اس سے ڈرنا
وَلَا تَمُوْتُنَّ
: اور تم ہرگز نہ مرنا
اِلَّا
: مگر
وَاَنْتُمْ
: اور تم
مُّسْلِمُوْنَ
: مسلمان (جمع)
اے ایمان والو ! ڈرتے رہو اللہ تعالیٰ سے جیسا کہ حق ہے اس سے ڈرنے کا اور تم نہ مرو مگر اس حالت میں کہ تم فرمانبرداری کرنے والے ہو۔
ربط آیات : گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی بات ماننے سے منع فرمایا تھا۔ اہل کتاب کی گمراہی کا زکر کرنے کے بعد اہل ایمان کو تنبیہ فرمائی کہ اگر انہوں نے اہل کتاب کے کسی گروہ کی بات کو مان لیا ، تو وہ انہیں راہ ہدایت سے کفر کی طرف پھیر دیں گے۔ پھر وضاحت فرمائی کہ اگر عقیدے میں ان کی بات مانی ، تو کافر ہوجاؤ گے اور اگر اعمال میں ان کا اتباع کیا تو اللہ کی ناراضگی مول لوگے اور کفران نعمت کے مرتکب ہوگے۔ اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خاص طور پر رہنمائی فرمائی ہے اور دین کے بنیادی اصولوں پر قائم رہنے بد عقیدگی اور معصیت سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ خوف خدا : ارشاد ہوتا ہے۔ یایھا الذین امنواتقوا اللہ حق تقتہ اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو ، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ ظاہر ہے کہ خوف خدا جبھی حاصل ہوگا۔ جب کسی انسان کی دین پر استقامت ہو ، یعنی اس کا عقیدہ کفر ، شرک اور نفاق سے پاک ہو اور اس کے اعمال بھی بالکل درست ہوں۔ صغائر اور کبائر سے اجتناب کرتا ہو بلکہ ہر مشکوک چیز سے پرہیز کرے۔ اگر اس میں یہ چیزیں پیدا ہوگئیں تو اس کو کمال تقوی حاصل ہو جائے گا اور حق تقتہ کا یہی مقصد ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں۔ کہ تقوے کے کئی درجات ہیں۔ ان میں سے سب سے ادنا درجہ یہ ہے۔ کہ انسان کفر و شرک اور بد عقیدگی سے بچ جائے۔ شیطان اور دیگر گمراہی پھلانے والے عوامل سے دور رو سکے ، اگر کوئی شخص تقوی کا یہ ادنی درجہ بھی حاصل نہ کرسکے ، تو پھر اس کی نجات کی کوئی صورت نہیں۔ کیونکہ اس معاملہ میں کوئی رعایت ممکن نہیں۔ اور تقوے کا اعلی درجہ یہ ہے کہ ایمان کے ساتھ انسان اعمال حسنہ پر بھی کاربند ہو ، اور معاصی سے بچتا ہو۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں۔ " تقوی محافظت بر حدود شرع " یعنی کمال درجے کا تقوی وہ ہے جو شریعت کے حدود کی پوری پوری حفاظت کرتا ہو۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے سورة توبہ میں بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی ایک صفت یہ بھی بتائی ہے " والحفظین لحدود اللہ " یعنی مومن وہ لوگ ہیں جو حدود اللہ کی حفاظت کرتے ہیں ، ان سے آگے نہیں بڑھتے۔ کمال درجے کے متقین ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں۔ حق تقاتہ " جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے " اس کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود زضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔ کہ حق تقتہ کا مطلب ہے۔ ان یقاع ولایعصی کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کی جائے ، نافرمانی نہ کی جائے۔ ویشکر ولایکفر اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کیا جائے ، کفران نعمت نہ ہونے پائے ویذکر ولاینسی اللہ تعالیٰ کو ہمیشہ یاد کرتا رہے ، بھلائے نہ۔ حضرت انس کی روایت ہے حق نقاتہ کی تعریف یوں کی گئی ہے۔ لا یتقی اللہ العبد حق تقتہ حتی یخزن لسانہ یعنی انسان کو اللہ سے کماحقہ ، ڈرنے کا درجہ اس وقت حاصل ہوگا ، جب وہ اپنی زبان کو محفوظ کرلے گا ، گویا اس کو اپنی زبان پر اس قدر کنٹرول حاصل ہونا چاہیئے ، کہ وہ کوئی غلط کلمہ نہ بول سکے بلکہ ہمیشہ اچھی بات کہے۔ ترمذی شریف اور بعض دیگر کتب احادیث میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے ایک اور روایت ہے ، جسے امام ابن کثیر (رح) نے بھی بیان فرمایا ہے۔ ولو ان قطرۃ من الزقوم قطرت فی دارالدنیا اگر زقوم یعنی جہنم کے تھور کا ایک قطرہ زمین پر پھینک دیا جائے ، تو ساری دنیا کی معیشت کو اس ﷺ در بگاڑ دے کہ کوئی انسان دنیا کی کسی چیز سے مستفید نہ ہوسکے۔ اس تھور میں اتنی کڑواہٹ اور بدبو ہے۔ فرمایا پھر تم خیال کرلوفکیف لمن لیس لہ طعام الا من القوم اس شخص کا کیا حشر ہوگا۔ جس کا کھانا زقوم کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ اسے کتنی اذیت پہنچے گی۔ اس لیے فرمایا کہ اللہ سے ڈرتے رہو جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ زقوم کھانے والوں میں نام درج ہوجائے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا اے لوگو ! من احب ان یزحزح عن النار ویدخل الجنہ جو شخص چاہتا ہے۔ کہ اسے دوزخ سے نجات حاصل ہوجائے۔ اور وہ جنت میں داخل ہوجائے فیدرک منیتہ وھویومن باللہ والیوم الاخر تو اسے موت ایسی حالت میں آنی چاہیئے کہ وہ اللہ کی ذات اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو۔ ویاتئ الی الناس مایحب ان یوتی الیہ اور اسے چاہیئے کہ وہ لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرے جو وہ اپنے کیے پسند کرتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ حق تقتہ میں یہی چیز بیان کی گئی ہے کہ ولا تمو تن الا وانتم مسلمون تمہاری موت اسلام کی حالت میں آنی چاہیئے۔ اور یہ مقام جبھی حاصل ہوگا جب انسان ہمیشہ اس کی فکر میں لگا رہے گا۔ وہ ہمیشہ اپنا محاسبہ کرتا رہے گا کہ کہیں اس کی موت اسلام کے علاوہ کسی اور چیز پر نہ آجائے۔ دوسرے مقام پر فرمایا " فاتقو اللہ ما استطعتم " اللہ سے ڈرو جس قدر طاقت رکھتے ہو۔ مفسرین اور محدثین کرام فرماتے ہیں۔ کہ ما استطعتم کا تعلق تقوے کے اعمال والے درجے سے ہے۔ یعنی اپنی استطاعت کے مطابق اعمال حسنہ انجام دیتے رہو۔ اس میں ہر آدمی کی طاقت کے مطابق رعایت موجود ہے۔ برے اعمال سے بچتا رہے ، اگر کوئی خامی رہ جائے گی تو اللہ تعالیٰ مہربانی فرما کر معاف کردیں گے۔ مگر تقوے کے عقیدے والے درجے میں معافی اور رعایت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر ایمان میں نقص آئے گا ، کفر ، شرک یا نفاق میں سے کوئی شائبہ واقع ہوگا تو نجات کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی۔ عقائد میں تھوڑی سی کوتاہی بھی ناقابل برداشت ہے۔ خاتمہ بالایمان : یہاں پر سوال پیدا ہوتا کہ کسی شخص کی موت تو غیر اختیاری چیز ہے۔ وہ خود چاہے بھی تو موت نہیں آسکتی ، پھر اس آیت کا کیا مطلب کہ " نہ مرو تم مگر اس حالت میں کہ تم فرمانبرداری کرنے والے ہو "۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم پوری زندگی اعمال صالحہ میں مشغول رہو ، حتی کہ انہیں پر تمہارا خاتمہ ہوجائے۔ اگر ایسا ہوگیا ، ایمان قائم رہا اور اسی پر خاتمہ ہوگیا ، تو کامرانی یقینی ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے من مات علیہ یبعث علیہ یعنی جو کوئی جس عقیدے اور عمل پر مرے گا ، اسی پر قیامت کو اٹھایا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان اس دنیا کی زندگی میں نیک اعمال انجام دیتا رہے حتی کہ اسے موت آجائے۔ سورة حجر میں یہی بات ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے " واعبد ربک حتی یاتیک الیقین " اپنے رب کی عبادت کرتے رہو ، حتی کہ یقینی چیز یعنی موت آجائے الغرض ! ولا تموتن الا وانتم مسلمون کا مطلب یہ ہوا کہ تم زندگی بھر نیک کاموں میں لگے رہو ، کیونکہ پتہ نہیں کہ موت کس وقت آجائے ، اور موت بحر صرت اسلام کی حالت میں آنی چاہیئے۔ تاکہ حشر کو اسلام ہی کے عقیدے اور عمل پر دوبارہ اٹھایا جائے۔ حبل اللہ : فرمایا واعتصمو ا بحبل اللہ جمیعا اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے پکڑ لو۔ حبل اللہ یعنی اللہ کی رسی سے مراد قرآن پاک ہے۔ ترمذی شریف میں حضرت علی ؓ سے روایت ہے ، حضور نبی کریم (علیہ السلام) نے فرمایا لوگو ! یاد رکھو انما ستکون فتنہ ایک بڑا فتنہ آنے والا ہے۔ حضرت علی فرماتے ہیں میں نے عرض کیا مالمخرج منھا یا رسول اللہ اس فتنہ سے بچ نکلنے کا کیا ذریعہ ہے فرمایا کتاب اللہ وہ بذریعہ اللہ کی کتاب ہے۔ فیہ نباء من قبلکم جس میں تم سے پہلی امتوں کے واقعات ہیں وخبر ما بعدکم اور تمہارے بعد آنے والی اطلاعات ہیں۔ وحکم مابینکم اور اس زندگی میں پہش آنے والے معاملات کے متعلق واضح احکام موجود ہیں۔ فرمایا وھو حبل اللہ المتین یہ خدا کی مضبوط رسی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب صفات قرآن پاک میں موجود ہیں۔ اس میں سابقہ اقوام کے عبرتناک واقعات موجود ہیں جس سے انسان نصیحت پکڑ سکتا ہے۔ دوسرے مقام پر فرمایا " لقد کان فی قصصہم عبرۃ لاو کی الاباب " ان واقعات میں صاحب عقل و بصیرت لوگوں کے لیے عبرت کا سامان موجود ہے۔ اور بعد میں آنے والی اطلاعات میں موت ، قبر ، برزخ ، حشر ، جنت ، دوزخ وغیرہ کے متعلق قرآن پوری پوری اطلاعات بہم پہنچاتا ہے۔ اور تیسری چیز احکام میں جو پوری زندگی کے ہر گوشہ پر محیط ہے اور انسان کی ہر مرحلہ پر رہنمائی کرتے ہیں۔ اوامرو نواہی کی پوری تفصیل موجود ہے۔ جن کے مطابق زندگی بسر کر کے انسان دائمی نجات حاصل کرسکتا ہے۔ الغرض ! یہ قرآن پقاک ہی پے جسے حبل اللہ کا لقب دیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود زضی اللہ عنہ کی روایت میں آتا ہے۔ کتاب اللہ حبل اللہ الممدود منالسماء الی الارض قرآن پاک اللہ کی کتاب ہی حبل اللہ ہے جسے آسمان سے زمین تک دراز کیا گیا ہے۔ قرآن پاک لوح محفوظ بیت العزت سے دنیا میں حضور صلی علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ اسی طرح عبداللہ بن مسعود کی ایک اور روایت میں آتا ہے کہ حضر (علیہ السلام) نے فرمایا القرآن ھو حبل اللہ المتین یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی ہے۔ والنور المبین یہ روشنی دینے والا نور ہے۔ قرآن پاک میں بھی آتا ہے " وانزلنا الیکم نورا مبینا " ہم نے واضح طور پر بیان کرنے والا نور تمہاری طرف اتارا۔ قرآن پاک کے متعلق یہ بھی آتا ہے ھو شفاء النافع یہ نفع پہنچانے والی شفا ہے۔ " فیہ ھدی و شفاء " اس میں ہدایت اور تمام روحانی امراض کی شفا ہے۔ جو کوئی قرآن پاک پر عمل پیرا ہوگا روحانی طور پے صحت یاب ہوگا۔ قرآن پاک عصمۃ لمن تنسک بہ جو اس کو مضبوطی سے تھام لے گا۔ یہ اس کے لئے گمراہی اور دوزخ سے بچاؤ کا ذریعہ بن جائے گا۔ ونجات لمن تبع جو اس کا اتباع کرے گا ، اس کو نجات نصیب ہوگی۔ یہ سب حبل اللہ کی تشریح ہے۔ مسلم شریف کی حدیث میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے رویت ہے حضور ﷺ نے فرمایا ان اللہ یرضی لکم ثلاثا اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین چیزوں کو پسند فرماتا اور تین چیزوں کو ناپسند کرتا ہے۔ فرمایا اللہ کی پسندیدہ چیزیں یہ ہیں۔ ان تعبدہ کہ تم اس کی عبادت کرو ولاتشرکوا بہ شیاء اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ تیسری پسندیدہ چیز فرمایا تعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔ اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔ پھر فرمایا تین ناپسندیدہ چیزوں میں قیل قال یعنی بیہودہ اور بلا مقصد بات چیت ، کثرت سوال اور اضاعتہ المال ہیں کثرت سوال سے مراد یہ ہے کہ لوگ مسائل دریافت کرنے میں تو بال کی کھال اتارتے ہیں ، مگر عمل صفر ہے۔ اور مال کا ضیاع یہ ہے کہ فضول رسومات ، بدعات اور حرام جگہوں پر خرچ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کو ہرگز یہ پسند نہیں کہ اس کے دیے ہوئے مال کو اس کی رضا کے خلاف خرچ کیا جائے۔ الغرض ! حبل اللہ سے مراد قرآن پاک ہے جسے مضبوطی کے ساتھ پکڑنے کی نصیحت کی گئی ہے۔ تفریق بین المسلمین : ارشاد ہوتا ہے ، سب کے سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔ ولا تفرقوا تفرقہ اور اختلاف نہ کرو۔ امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ اس مقام پر جس اختلاف سے منع کیا گیا ہے۔ وہ اصول کا ختلاف ہے ، کیونکہ فروعات میں اختلاف کرنا مباع ہے فروعی اختلافات کے ذریعے انسان کی عبادت درست ہوتی ہے۔ مختلف حالات میں احکام مختلف ہوتے ہیں۔ مثلا حائضہ عورت اور جنبی کے لیے نماز حرام ہے ، لیکن ایک عام مکلف کے لیے فرض ہے۔ مسافر اور مریض کے لیے روزہ کھانا حلال ہے مگر مقیم اور تندرست کے لیے حرام ہے۔ یہ فروعی اختلافات ہیں۔ آئمہ دین جیسے حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی وغیرہ کا بعض فروعات میں آپس میں اختلاف ہے یہ روا ہے بشرطیکہ تعصب سے پرہیز کیا جائے۔ اکثر لوگ تعصب سے کام لیتے ہوئے اپنے مسئلہ پر اڑ جاتے ہیں۔ اسی کو درست سمجھتے ہوئے دوسرے مسلک والوں کو جہنمی قرار دے دیتے ہیں۔ یہ جہالت اور نادانی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔ لبتہ اگر دین کے کسی اصول میں اختلاف کرے گا تو گمراہ ہوجائے گا۔ تذکیر احسانات الہی : آگے فرمایا واذکروا نعمت اللہ علیکم اللہ تعالیٰ کے ان احسانات کو یاد کرو ، جو اس نے تم پر کئے۔ اذکنتم اعداء تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ اور تمہارے اندر عصبیت جاہلیت پائی جاتی تھی۔ ذرا ذرا سی بات پر لڑنے مارنے پر تیار ہوجاتے تھے ، تمہارے سامنے کوئی مشن نہیں تھا۔ ان حالات میں فالف بین قلوبکم اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے الفت ڈال دی۔ آگے سورة انفال میں بھی آئے گا۔ " والف بین قلوبھم ولو انفقت مافی الارض جمیعا ما الفت بین قکوبھم ولکن اللہ الف بینھم " اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں الفت پیدا کی۔ وگرنہ اگر آپ پوری دنیا کے خزانے بھی خرچ کردیتے تو ان کے درمیان پیار و محنب کی فضا قائم نہ کرسکتے۔ یہ تو ایمان اور اسلام کی الفت ہے جو اللہ نے اپنے آخری پیغمبر (علیہ السلام) کو مبعوث فرما کر ان کے درمیان پیدا کی۔ اپنی آخری کتاب نازل فرمائی اسلام کے احکام سے آگاہ فرمایا چناچہ اس کے تقاضوں کو سمجھ کر وہ لوگ اپنے اختلافات بھول گئے ، اس کا نتیجہ یہ ہوا فاصبحتم بنعمتہ اخوانا تم اللہ کے فضل سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔ تمہاری تمام عداوتیں اور پرانی عصبیت دور ہوگئی اور تم آپس میں شیر وشکر ہوگئے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے مومن تقی وفاجر شقی یعنی مومن کی صفت یہ ہے وہ متقی ہوتا ہے اللہ اور اس کے رسول کے احکام کا اتباع کرتا ہے۔ اور فاجر ان احکام کی نافرمانی کر کے گمراہی میں جاگرتا ہے۔ لہذا جب اسلام آگیا تو پھر الفت اور محبت اسلام کی وجہ سے ہونے لگی۔ قبائل اور خاندانوں کا طلسم ٹوٹ گیا اور صدیوں سے جاہلیت کی شکار قوم تہذیب و تمدن کے بام عروج پر پہنچ گئی۔ یہ اسلام کی وجہ سے بھائی بندی کا نتیجہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس جاہل قوم کی عصبیت کا تذکرہ کیا اور ان کو یاد کرایا وکنتم علی شفا حفرۃ من النار فانقذکم منھا تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے۔ شفا فتح کے ساتھ ہو تو اس کا معنی کنارہ ہے۔ اور اگر کسر کے ساتھ شفا تو اس کا معنی تندرستی ہوتا ہے۔ یہاں پر شفا سے مراد کنارہ اور حفرہ گڑھے کو کہتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ تم اپنی جاہلیت اور عصبیت کی بناء پر دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے۔ موت آنے کی دیر تھی کہ ا گڑھے میں گرجاتے۔ مگر اللہ نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا۔ یہ اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ تمہیں ایمان کی دولت نصیب ہوگئی اور تم جہنم کے گڑھے میں گرنے سے بچ گئے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ فرمایا کذلک یبین اللہ لکم ایتہ اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے احکام اور اصول بیان فرماتا ہے۔ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے۔ جن کے ذریعے تم فرمانبردار بن سکتے ہو۔ اور اس کا مقصد یہ ہے لعلکم تھتدون تاکہ تم ہدایت پاجاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے تمہاری ہدایت کے تمام سامان مہیا کردیے ہیں اب ان سے فائدہ اٹھانا تمہارا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب چیزیں واضح فرما دی ہیں۔
Top