Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 112
ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْۤا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الْمَسْكَنَةُ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ الْاَنْۢبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ١ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَۗ
ضُرِبَتْ : چسپاں کردی گئی عَلَيْهِمُ : ان پر الذِّلَّةُ : ذلت اَيْنَ مَا : جہاں کہیں ثُقِفُوْٓا : وہ پائے جائیں اِلَّا : سوائے بِحَبْلٍ : اس (عہد) مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے وَحَبْلٍ : اور اس (عہد) مِّنَ النَّاسِ : لوگوں سے وَبَآءُوْ : وہ لوٹے بِغَضَبٍ : غضب کے ساتھ مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے (کے) وَضُرِبَتْ : اور چسپاں کردی گئی عَلَيْهِمُ : ان پر الْمَسْكَنَةُ : محتاجی ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّھُمْ : اس لیے کہ وہ كَانُوْا : تھے يَكْفُرُوْنَ : انکار کرتے بِاٰيٰتِ : آیتیں اللّٰهِ : اللہ وَيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے تھے الْاَنْۢبِيَآءَ : نبی (جمع) بِغَيْرِ حَقٍّ : ناحق ذٰلِكَ : یہ بِمَا : اس لیے عَصَوْا : انہوں نے نافرمانی کی وَّكَانُوْا : اور تھے يَعْتَدُوْنَ : حد سے بڑھ جاتے
ان پر ذلت مسلط کی گئی ہے ، جہاں بھی وہ پائے جائیں گے۔ مگر اللہ کی رسی کے ساتھ اور لوگوں کی سی کے ساتھ۔ اور وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے ، اور مسلط کی گئی ان پر مسکنت ، یہ اس وجہ سے کہ وہ اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے تھے۔ یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے نافرمانی کی ، اور وہ حد سے بڑھنے والے تھے۔
ربط آیات : گزشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے۔ کہ جس طرح حضور نبی کریم ﷺ تمام انبیاء سے افضل ہیں ، اسی طرح آپ کی امت بھی تمام امتوں سے افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم ازلی میں بھی یہ چیز موجود ہے۔ اور لوح محفوظ میں بھی درج ہے۔ اس کے بعد اہل کتاب سے شکوہ کیا گیا اگر وہ نبی آخر الزمان پر ایمان لے آتے ، تو بہترین امت میں شامل ہوجاتے ، اور یہ ان کے لیے بہتر ہوتا ، مگر وہ اپنے باطل عقیدے پر اڑے رہے۔ پھر فرمایا کہ ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں مگر اکثر نافرمان ہیں۔ پھر اہل ایمان کو تسلی دی گئی کہ ان سے کوئی خطرہ محسوس نہ کرو۔ یہ لوگ تمہیں زبانی حد تک تو ستائیں گے مگر تمہارا کوئی نقصان نہ کرسکیں گے۔ اگر تمہارے مقابلے میں آئیں گے ، پیٹھ دکھا کر بھاگیں گے۔ چناچہ نزول قورآن کے زمانے میں خیبر کے یہودیوں کو شکست ہوئی ، مدینے کے اطراف میں آباد یہودی قبائل بنی نضیر ، بنی قریضہ اور بنی قینقاع ذلیل و خوار ہوئے۔ تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں رومیوں نے شکست فاش کھائی۔ شام اور مصر کے علاقے ان سے پاک ہوئے۔ اور جب تک مسلمانوں میں صلاحیت اور نیکی کا جذبہ قائم رہا وہ یہودیوں پر غالب رہے۔ پھر ساتویں صدی میں مسلمانوں کا انحطاط شروع ہوا ، جو گزشتہ آٹھ صدیوں سے جاری ہے۔ یہودیوں کی ذلت : اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب خصوصا یہودیوں کے متعلق فرمایا ضربت علیھم الذلۃ این ماتقفو اس پر ذلت مسلت کردی گئی ، جہاں بھی وہ پائے جائیں۔ جب انہوں نے اللہ کی کتاب میں تحریف کی ہے اور برائیوں میں ملوث ہوئے ہیں ، اس وقت سے ذلیل خوار ہو رہے ہیں۔ قرآن میں یہودیوں کی ذلت کا ذکر بہت سے دوسرے مقامات پر بھی موجود ہے ، ان کی رسوائی کے متعلق پہلی بات تو یہ ہے کہ یہودی سیاسی عروج اور اقتدار سے محروم کردیے گئے ہیں۔ گذشتہ اڑھائی ہزار سالہ تاریخ سے ظاہر ہے کہ دنیا کے کسی خطے میں ان کو اقتدار حاصل نہیں ہوا۔ اس سے پہلے ان کی عظیم الشان سلطنتیں تھیں ، مگر اب اس سے محروم ہیں۔ اور محکومی کی زندگی بسر کر رہے ہیں این ماثقفو کا یہی مطلب ہے کہ یہ لوگ جہاں کہیں بھی ہیں ذلیل و خوار ہو کر ہی گزر اوقات کر رہے ہیں۔ یہودیوں کی ذلت کی دوسری بات یہ ہے کہ یہ لوگ عزت نفس سے محروم رہے ہیں۔ کروڑ پتی ہونے کے باوجود بھکاریوں کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مال سے محبت ، ہر کام میں سازش اور ہر قوم سے مکاری اور چالاکی ان کی خصوصیت رہی ہے۔ ان کو کہیں بھی آرام سے بیٹھنا نصیب نہیں ہوا۔ اہک جگہ شرارت کی تو دوسری جگہ چلے گئے وہاں سازش کی تو وہاں سے نکالے گئے۔ گذشتہ تاریخ سے واضح ہے کہ دنیا کی کوئی قوم انہیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے نصاری سے بھی ان کی ایسی ہی ان بن تھی۔ جیسے مسلمانوں کے ساتھ۔ یہودی کبھی عیسائیوں کے ماتحت رہے ، کبھی مسلمانوں کے اور کبھی دیگر اقوام کے دست نگر رہے۔ حبل اللہ اور حبل الناس : اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ جہاں بھی پائے جائیں ان پر ذلت اور رسوائی مسلط ہوگی الا بحبل من اللہ ہاں ! اگر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیں تو رسوائی سے بچ جائیں گے ، بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ کی رسی سے مراد تورات کی وہ بچی کچی رسمیں ہیں جن پر یہلوگ عمل کرتے ہیں۔ گویا تورات سے کسی حد تک وابستگی کی بنیاد پر یہ دنیا میں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر اتنا بھی نہ ہوتا تو یہ لوگ صفحہ ہستی سے مکمل طور پر مٹ چکے ہوتے ، بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ اللہ کی رسی سے مراد اللہ کا عہد و پیماں ہے ، لہذا اگر یہ ایمان قبول کرلیں۔ تو عزت کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ فرمایا یہودیوں کے دنیا میں زندہ رہنے کی دوسری صورت یہ ہے کہ وحبل من الناس کہ دوسرے لوگوں کے ساتھ معاہدہ کر کے ان کی ماتحتی میں رہنا قبول کرلیں۔ تو پھر بھی زلت سے بچ جائیں گے۔ بعض مفسرین نے حبل من اللہ کا ترجمہ اللہ کی دستاویز اور حبل من الناس کا ترجمہلوگوں کی دستاویز کیا ہے۔ مقصد ایک ہی ہے۔ کہ یا تورات سے کسی حد تک لگاؤ کی وجہ سے یا پھر دوسری اقوام کے ساتھ عہد و پیماں کر کے گزر اوقات کرسکیں گے۔ دوسرے لوگوں کی ماتحتی قبول کرنا ہوگی اور ان کی رعیت بن کے رہنا پڑے گا۔ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی (رح) یہی تفسیر کرتے ہیں۔ بعض مفسرین نے حبل کا معنی ذمہ کیا ہے۔ یعنی اللہ کا ذمہ اور مسلمانوں کا ذمہ۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کو اپنی امان میں لے لیں یا مسلمان ان کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھائیں تو ذلت سے بچ سکیں گے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ ناس سے مراد عام لوگ ہیں۔ اگر کوئی دوسری قوم بھی ان کی پشت پناہی کرنے لگے ، تو یہ رسوائی سے بچے رہیں گے۔ محروم اقتدار : جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے۔ گذشتہ اڑھائی ہزار سال میں یہودی اقتدار سے محروم رہے ہیں ، اور ہمیشہ دیگر اقوام کے ماتحت رہ کہ وقت گزارا ہے۔ ان کی سابقہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے تجارت کے بہانے جہاں بھی قدم جمانے کی کوشش کی ، ہمیشہ تکلیف اٹھائی جرمن قوم نے ان کو خوب مارا ، لوگ جرمنوں کو بدنام کرتے تھے۔ کہ انہوں نے یہودیوں سے اچھا سلوک نہیں کیا ، مگر وہ کہتے تھے کہ کہ تمہیں ان کی شرارتوں کا علم نہیں ہے ، یہ سازشی لوگ ہیں ان کو ہر وقت شرارت ہی سوجھتی ہے۔ جہاں بھی رہتے ہیں لوگوں کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتے۔ یہ لوگ ترکی میں ہمیشہ رہے ہیں اور اب بھی ہیں مگر اسلامی سلطنتیں ان سے ہمیشہ تکلیف اٹھاتی رہی ہیں۔ مسلمان ان کو رعایاسمجھ کر ان سے نرمی برتتے رہے مگر یہ اپنی فطرت سے کبھی باز نہ آئے۔ اب موجودہ زمانے میں صورت حال مختلف ہے۔ تقریبا چالیس سال قبل اسرائیل کی حکومت قائم ہوئی اور یہودیوں کو ٹھکانا نصیب ہوا۔ اس پر چہ میگوئیاں ہونے لگی ہیں کہ کیا قرآن پاک کا دعوی معاذ اللہ غلط ثابت ہوا ہے۔ کہ یہودیوں پر ذلت مسلط کردی گئی اور وہ اقتدار سے محروم ہیں۔ اس ضمن میں عرض ہے۔ کہ یہودیوں کی موجودہ حکومت کی کوئی بنیاد نہیں ، ان کا موجودہ اقتدارمحض حبل من الناس کی بدولت ہے۔ ناس سے مراد غیر ملکی طاقتیں ہیں ۔ جن میں کچھ عیسائی ہیں اور کچھ دہریہ ہیں۔ اسرائیل ان کی مشترکہ چھاؤنی ہے ۔ جسے ارد گرد کے مسلمان ملکوں کو تنگ کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ اسرائیل کا قیام ان چاروں عالمی طاقتوں کی مسلمانوں کے خلاف سازش کا نتیجہ ہے۔ اگر آج یہ قوتیں اسرائیل سے اپنا سایہ اٹھا لیں ، تو یہودی ایک دن بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔ امریکہ اس سازش میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ اسرائیل اپنے اردگرد مسلمانوں پر ظلم کر رہا ہے۔ تل ابیب کی بجائے بیت المقدس کو دار الخلافہ بنایا گیا ہے۔ جولان کی پہاڑیوں پر غاصبانہ قبضہ کیا ہے۔ اور پھر انہیں اسرائیلی اسمبلی کے ذریعے اسرائیل کا حصہ قرار دے لیا ہے ، حالانکہ یہ شامی علاقہ ہے ، مگر اس ساری کاروائی میں امریکہ خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ وہ اسرائیل کو ذیادتی کرنے سے روک سکتا ہے۔ مگر دانستہ اس کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ اسرائیلی حکومت قائم کرنے والے برطانیہ اور فرانس ہیں۔ امریکہ بھی اپنے مفاد میں ان کے ساتھ شامل ہوگیا ہے ، ادھر روس کا مفاد بھی اسی میں ہے۔ کہ مسلمان ملکوں کے درمیان اسرائیل کا یہ شاخسانہ قائم رہے۔ پہلی تین طاقتیں عیسائی ہونے کے باوجود آپس میں بھی درپردہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ مگر مسلمانوں کی مخالفت کے معاملہ میں سب اکٹھے ہیں ، روس تو ویسے ہی دہریہ اور منکر خدا ہے ، اسے مسلمانوں سے کیا ہمدردی ہوسکتی ہے۔ البتہ جہاں اس کا اپنا مفاد وابستہ ہو ، وہاں وہ ہر کاروائی کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ بحرحال اسرائیلی حکومت کے قیام اور اس کی پشت پناہی میں سب شریک ہیں۔ مسلمانوں کی زبوں حالی : اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی آبادی ایک عرب کے لگ بھگ ہے ، پچاس کے قریب خود مختار حکومتیں ہیں مگر ان عیسائی اور اشتر کی طاقتوں نے انہیں اس قدر بےبس کر رکھا ہے کہ وا آپس میں ایک دوسرے کی مدد بھی نہیں کرسکتے۔ قیام پاکستان کے وقت مسلمان ممالک مدد کرسکتے تھے۔ مگر نہیں کی گئی۔ آج کابل کے مجاہدین آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں ، مگر ہماری اپنی حکومت ہمیں سرحد پار جاکر مجاہدین کی مدد کرنے سے روکے گی۔ حقیقت یہی ہے کہ یہودی حبل من الناس اس کی وجہ سے نہ صرف خود زندہ ہیں بلکہ دوسروں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ بیت المقدس کی توہین ہورہی ہے۔ بیس 20 لاکھ فلسطینی مسلمانوں کو اس زمین سے نکال دیا گیا ہے۔ بہت سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ کچھ اردن میں پڑے ہیں ، کچھ لبنان میں مگر وہاں بھی آئے دن ان کے خیموں میں بمباری ہوتی رہتی ہے۔ ان کی بچیاں جیلوں میں گل سڑ رہی ہیں ، یتیم بچوں کو عیسائی مشنریاں لے گئی ہیں ، تاکہ انہیں عیسائی بنایا جاسکے ، مگر دنیا بھر کے مسلمان بےبس ہیں۔ سپر پاورز مسلمانوں کے راستے میں حائل ہیں۔ مگر یہ ہیں کہ پھر بھی ان کے گن گاتے ہیں۔ انہیں کے طور طریقے اختیار کرتے ہیں۔ وہ تو مسلمانوں کو عیش و عشرت کے راستے پر ڈال رہے ہیں ۔ نئے نئے فیشن ، ٹیلی ویژن ، وی سی آر ، بڑی بڑی کوٹھیاں اور کاریں ، کھیل اور تماشے سب مسلمانوں کو خواب غفلت میں سلانے کے لیے کیا جارہا ہے۔ تاکہ یہ اپنے پاؤں پر کھڑے نہ ہوسکیں ، اپنی مارکیٹ کی خاطر صنعتی ترقی میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ آج تک ہم جہازوں کے معمولی پرزے تک درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ مسلمان عرب کا ہو یا عجم کا ، سب ایک ہی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ غیر اقوام کے اس قدر دست نگر ہوچکے ہیں۔ کہ ان کے بغیر ایک قدم نہیں چل سکتے۔ غضب الہی : بہرحال ہمارا ایمان ہے۔ کہ یہودیوں پر ذلت ہمیشہ کے لیے مسلط کی گئی ہے۔ اگرچہ اس وقت ان کو ایک پناہ گاہ میسر آگئی ہے مگر صحیح حدیث کے مطابق ایک وقت آنے والا ہے ، جب ان کو شجر و حجر بھی پناہ نہیں دیں گے اگر کوئی یہودی کسی درخت کے پیچھے چھپا ہوگا ، تو وہ درخت پکار کر کہے گا ، اے مسلمان ! یہودی یہاں چھپا ہے اس کو پکڑ لو۔ مسیح (علیہ السلام) کے دوبارہ نزول پر ایسا وقت ضرور آنے والا ہے۔ فرمایا ان پر ذلت اور رسوائی مسلط کی گئی ہے وباء و بغضب من اللہ اور وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے ، کیونکہ نافرمانیاں کرتے کرتے ان کی ذہنیت ہی بگڑ گئی وضربت علیھم المسکنۃ اور ان پر مسکینی وارد کردی گئی۔ اکثر یہودی اپنے آپ کو مسکین ہی ظاہر کرتے ہیں۔ ہمیشہ سے ان کا یہی وطیرہ ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے ذالک بانھم کانو یکفرون بایت اللہ کہ انہوں نے اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر کیا ہے۔ ویقتلون الانبیاء بغیر حق اور اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کیا ہے۔ گذشتہ ادوار میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور اس زمانے کے یہودی اس کارنامے پر فخر کرتے ہیں ، یہ کہتے ہیں۔ کہ ہمارے آباؤ اجداد نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ جو لوگ اللہ کی آیتوں کا انکار کرنے والے ہیں اور خدا کے نبیوں کے قاتل ہیں ، ظاہر ہے وہ غضب ہی لے کر لوٹیں گے۔ ذلک بما عصوا یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ نافرمانیاں کرتے رہے۔ وکانوا یعتدون اور یہ حد سے بڑھنے والے لوگ تھے۔ سعید روحیں : اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہودیوں کی اکثریت تو نافرمان ہی ہے تاہم یہ سب کے سب برابر نہیں ہیں لیسوا سواء ان میں سے کچھ فیصدی اچھے بھی ہیں۔ ان میں نیک بخت اور سعید روحیں بھی ہیں من اھل الکتب امۃ قائمۃ اہل کتاب میں سے ایک گروہ سیدھے راستے پر بھی قائم ہے۔ ان اچھے لوگوں کا کام یہ ہے یتلون ایت اللہ اناء الیل وہ اللہ کی آیتوں کو رات کی گھڑیوں میں پڑھتے ہیں ایسے لوگ ایمان قبول کرتے ہیں۔ اور حضور خاتم النبیین کا اتباع کرتے ہیں۔ چناچہ نزول قرآن کے زمانے میں نجران کے چالیس 40 عربی النسل عیسائیوں نے فورا اسلام قبول کرلیا۔ حبشہ کے بادشاہ نجاشی (رح) نے اسلام کی حقانیت سے متاثر ہو کر حضرت عثمان ؓ اور حضرت جعفر ؓ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ وہاں کے اکتیس 31 مزید باشندے بھی ایمان لائے۔ اسی طرح روم میں آٹھ آدمی فورا مسلمان ہوگئے۔ مدینہ کے حقیقت پسند لوگوں نے بھی اسلام کو لبیک کہا ، عبداللہ بن سلام تو حضور ﷺ کی پہلی زیارت کرنے پر ہی اسلام سے مشرف ہوگیا۔ مدینے کی اکثریت مشرکوں کی تھی مگر بعض شرک کو برا سمجھتے تھے۔ مدینے کے اطراف میں یہودی آباد تھے۔ ان میں کچھ سعید روحیں ضرور موجود تھیں۔ ان میں براء بن معردر ؓ کا نام آتا ہے۔ محمد ابن مسلمہ ؓ وغیرہ جنابت کا غسل کرتے تھے اور توحید کا تصور بھی رکھتے تھے۔ جب نبی آخر الزمان (علیہ السلام) کے متعلق سنا تو فورا ایمان لے آئے۔ بعد کے دور میں بھی بعض یورپین عیسائیوں نے اسلام قبول کیا ہے۔ ان میں برطانیہ کا مسٹر کو یلم ہے جس کا نام عبداللہ کو یلم رکھا گیا۔ موکودہ زمانے میں محمد اسد ہے۔ یہ جرمنی کا یہودی تھا ، مگر اللہ نے سمجھ عطا کی۔ اب وہ فرانس میں ہے اور دین خدمت بھی کر رہا ہے۔ راسخ العقیدہ مسلمان ہے۔ پاکستان میں بھی رہ چکا ہے۔ اس نے کئی ایک کتابیں لکھی ہیں۔ موجودہ دور کا محمد پکھتال ترکی میں ملازم تھا ، اس نے اسلام قبول کیا ، اس نے قرآن پاک کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ غرضیکہ سارے کے سارے اہل کتاب بدبخت نہیں ہیں بلکہ ان میں کچھ سمجھدار لوگ بھی ہیں۔ فرمایا اللہ تعالیٰ کی آیات کی تلاوت کے علاوہ وھم یسجدون یہ لوگ اللہ کے سامنے سجدہ ریز بھی ہوتے ہیں ، فرمایا یؤمنون باللہ والیوم الاخر یہ لوگ اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔ جس حضور ﷺ کی سچائی کا علم ہیتا ہے۔ فورا ایمان قبول کرتے ہیں۔ ویاء مرون بالمعروف پھر نہ صرف خود ایمان لاتے ہیں۔ بلکہ دوسروں کو بھی نیکی کا حکم کرتے ہیں۔ وہنھون عن المنکر اور برائی سے روکتے ہیں یعنی تبلیغ دین کا کام بھی کرتے ہیں۔ اور پھر ان کی حالت یہ ہوجاتی ہے وسارعون فی الخیرات وہ نیکی کے کاموں میں سبقت کرنے لگتے ہیں۔ واولئک من الصلحین یہی لوگ صالح ہیں۔ یہ اچھے لوگوں کی تعریف بھی ہوگئی۔ فرمایا وما یفعلوا من خیر فلن یکفروہ جو بھی نیکی کا کام کریں گے ، ان کی ناقدری نہیں کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکی کو قبول کر کے بہتر اجر عطا فرمائیں گے۔ بلکہ حدیث شریف کے مطابق ایسے لوگوں کو دوہرا اجر ملے گا۔ پہلے وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) یا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمن لاتے تھے ، ایک اجر اس ایمان کا ہوگا اور دوسرا اجر حضور خاتم النبیین پر ایمان لانے کا ہوگا۔ اس طرح وہ دوہرے اجر کے مستحق ہوں گے۔ فرمایا واللہ علیھم بالمتقین اللہ تعالیٰ متقیوں یعنی اس سے ڈرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔ اس کے علم میں ہے۔ کہ کون لوگ ایسے ہیں ، جو کفر و شرک کی برائیوں سے بچ کر نکل جاتے ہیں۔
Top