Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 121
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
وَاِذْ
: اور جب
غَدَوْتَ
: آپ صبح سویرے
مِنْ
: سے
اَھْلِكَ
: اپنے گھر
تُبَوِّئُ
: بٹھانے لگے
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومن (جمع)
مَقَاعِدَ
: ٹھکانے
لِلْقِتَالِ
: جنگ کے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
سَمِيْعٌ
: سننے والا
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
اور جب آپ صبح کے وقت نکلے اپنے گھر سے ، آپ ٹھکانے مقرر کرتے تھے ایمان والوں کے لی لڑائی کے واسطے ، اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔
ربط آیات : پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی دشمنی اور عناد کا تذکرہ کرکے ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی ممانعت فرمائی اور یہ بھی بتا دیا کہ جو عناد ان کے دلوں میں پایا جاتا ہے ، وہ بہت زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یاد دلایا کہ تم تمام آسمانوں کتابوں پر ایمان رکھتے ہو ، مگر اہل کتاب قرآن پاک کو اللہ کا کلام تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ، فرمایا ان حالات میں تمہاری اہل کتاب کے ساتھ دوستی کی کوئی گنجائش باقی نہیں۔ اگر ان سے قریبی تعلقات قائم کیے گئے تو وہ اہل اسلام کو نقصان پہنچائیں گے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتا دیا کہ اے ایمان والو ! اگر تم صبر اور تقوے پر قائم رہوگے ، تو اہل کتاب اپنی تمام تر عداوت کے باوجود تمہاری کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کے تمام اعمال کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ صبر اور تقوے : شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) سے تقوی کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے آیت کریمہ ان اللہ یامر بالعدل والاحسان۔ پڑھ کر سنا دی۔ آپ کا مطلب یہ تھا کہ تقوی سے مراد کفر ، شرک اور معاصی سے بچاؤ اور عدل و انصاف پر قیام ہے۔ عدل ایک بنیادی اصول ہے جس پر تمام بنی نوع انسان کا عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ عادل لوگ ہی دنیا میں اچھا نظام قائم کرسکتے ہیں۔ اسی عدل کی بدولت اچھی حکومت اور اچھی سوسائٹی معرض وجود میں آتی ہے۔ جہاں عدل نہیں ہوگا۔ وہاں نہ حکومت اچھی ہوگی ، نہ سوسائٹی۔ لہذا مسلمانوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ اگر انہیں شکست ہوجائے یا کوئی نقصان اٹھانا پڑے ، تو ان کو سمجھ لینا چاہئے کہ ان کے تقوے اور صبر میں خرابی پیدا ہوگئی ہے وہ ان زریں اصولوں پر قائم نہیں رہ سکے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم ان اصولوں پر قائم رہوگے ، تو دشمن کی کوئی تدبیر تمہارے خلاف کامیاب نہیں ہوگی۔ اب آج کے درس میں دو واقعات کی طرف اشارہ کرکے مثال بیان کی جا رہی ہے۔ کہ دیکھو ! بدر کے میدان میں اہل ایمان نے اللہ کی ذات مکمل بھروسہ کیا ، تقوے اور صبر کا دامن تھامے رکھا ، تو اللہ نے انہیں فتح عطا کی ، حالانکہ تعداد کے لحاظ سے مسلمان قلیل تھے ، اور سامان حرب کی بھی شدید قلت تھی۔ دوسری طرح احد کے میدان میں مسلمانوں کی تعداد بدر کی نسبت زیادہ تھی ، مگر صبر اور تقوے میں کمی آنے کی وجہ سے شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ آگے جنگ احد کے واقعات تفصیلاً آ رہے ہیں۔ اور اس موقع پر مسلمانوں کی طرف سے جو غلطی سرزد ہوئی تھی ، اس پر تنبیہ فرمائی گئی ہے ، کہ آئندہ ایسی چیز کا اعادہ نہیں ہونا چاہئے۔ جنگ احد کا پس منظر : رمضان 2 ھ میں جنگ بدر لڑی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسی شاندار فتح عطا کی ، جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ قریش مکہ اپنی اس شکست سے سخت سیخ پا ہوئے اور ان کے دلوں میں انتقام کا جذبہ بھڑکنے لگا۔ ابوسفیان کے جس تجارتی قافلہ کی حفاظت کے نام پر یہ جنگ لڑی گئی ، اس کا سارا منافع مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لیے وقف کردیا گیا۔ جنگ بدر میں بڑے بڑے آئمہ کفر مارے گئے تھے ، کسی کا باپ مارا گیا ، کسی کا بیٹا قتل ہوا ، سب غیظ و غضب سے بھرے ہوئے تھے۔ لہذا وہ پوری تیار کے ساتھ مدینہ طیبہ پر حملہ آور ہوئے۔ صحابہ ؓ سے مشورہ : جب اس حملہ کی خبر مدینہ منورہ پہنچی تو حضور ﷺ نے صحابہ کو جمع کرکے ان کا مشورہ طلب کیا ، کہ دشمن کا مقابلہ شہر کے اندر رہ کر کرنا چاہئے یا شہر سے باہر کھلے میدان میں۔ اس معاملہ میں واضح طور پر دو رائیں تھیں۔ نوجوان طبقہ خصوصاً وہ صحابہ جو جنگ بدر میں شامل نہیں ہوسکے تھے ، ان میں جوش و ولولہ تھا ، اور وہ دشمن کا مقابلہ باہر نکل کر کرنا چاہتے تھے۔ ان کی اکثریت تھی۔ تاہم انصار کی اکثریت کی رائے یہ تھی کہ دشمن کی کثیر تعداد کے پیش نظر مقابلہ شہر کے اندر رہ کر کرنا چاہئے۔ ان کا خیال تھا کہ مجاہدین کے علاوہ عورتیں اور بچے بھی شہر کی جنگ میں شریک ہوسکتے ہیں۔ وہ پتھروں کی بارش کرکے بھی غنیم کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس سے پہلے تجربہ بھی یہی تھا۔ کہ شہر پر حملہ آور ہونے والوں کو چنداں کامیابی نہیں ہوتی رہی تھی ، لہذا ان لوگوں کا مشورہ یہ تھا کہ شہر میں رہ کر مقابلہ کیا جائے۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کی رائے بھی یہی تھی۔ خود حضور نبی کریم ﷺ کی ذاتی رائے بھی اندرون شہر مقابلہ کرنے کے متعلق تھی۔ چونکہ اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی وحی نہیں آئی تھی۔ اس لیے عام اصول۔ وشاورھم فی الامر۔ کے مطابق آپ نے مشورہ طلب کیا اور اکثریت رائے کے مطابق شہر سے باہر جا کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یاد رہے کہ مشورہ کرنا اسلام کے اہم اصولوں میں سے ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے ، جو بات مشورے سے کی جاتی ہے ، اس میں نقصان نہیں ہوتا۔ پھر یہ بھی ہے کہ مشورہ ہر کس و ناکس سے نہیں ہوتا بلکہ دانا ، سمجھدار ، متقی اور صائب الرائے لوگوں سے ہوتا ہے۔ یہ ایک الگ اصول ہے جس کی تشریح اسی سورة میں آگے آ رہی ہے۔ حضور ﷺ کے خواب : اس دوران حضور ﷺ نے خواب دیکھا ، جس کی تعبیر بھی خود آپ نے بیان فرما دی۔ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں ایک ذبح شدہ گائے دیکھی۔ جس کی تعبیر یہ ہے کہ ہمیں خیر حاصل ہوگی۔ خواب کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ میں نے اپنی تلوار ذوالفقار کو حرکت دی تو وہ ٹوٹ گئی اور اس میں دندانے پڑگئے ، اس کی تعبیر یہ ہے۔ کہ ہمیں ہزیمت ہوگی۔ مورخ ابن ہشام لکھتے ہیں کہ تلوار میں دندانے پڑنے کی تعبیر میں حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرے اہل بیت کا ایک شخص شہید ہوگا ، چناچہ سید الشہداء حضرت امیر حمزہ اس خواب کی تعبیر بنے۔ خواب کا تیسرا جزو حضور نے یہ فرمایا کہ میں نے ایک محفوظ مقام پر زرہ میں ہاتھ ڈالا ہے آپ نے فرمایا کہ اس سے مراد مدینہ منورہ ہے۔ الغرض ! نبی (علیہ السلام) کی ذاتی رائے مدینہ کے اندر رہ کر مقابلہ کرنے کی تھی مگر آپ نے اکثریت کی رائے کو تسلیم کرتے ہوئے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا۔ بہرحال حضور ﷺ گھر تشریف لے گئے اور پھر زرہ پہن کر باہر تشریف لائے۔ بعض صحابہ نے اس بات پر ندامت کا اظہار کیا۔ کہ انہوں نے آپ کی ذاتی رائے پر عمل نہیں کیا۔ چناچہ انہوں نے عرض کیا کہ اگر آپ کی رائے کے مطابق بہتر یہی ہے۔ تو دشمن کا مقابلہ شہر کے اندر ہی کیا جائے ، مگر حضور ﷺ نے فرمایا کہ کسی نبی کے لائق نہیں ہے۔ کہ وہ ہتھیار پہن کر رک جائے ، لہذا اب باہر نکل کر ہی مقابلہ کرنا ہوگا۔ شوال کی 12 یا 13 تاریخ اور جمعہ کا دن تھا۔ حضور ﷺ نے جمعہ کی نماز مدینہ منورہ میں ادا کی اور اپنے جانثاروں کے ساتھ احد کی طرف روانہ ہوئے۔ ابتدا میں آپ کے ہمراہ ایک ہزار کا لشکر تھا ، مگر جیسا کہ آگے اشارات ملتے ہیں ، اس میں سے تین سو آدمی راستے میں سے واپس چلے گئے۔ واقعہ یوں ہوا کہ عبداللہ بن ابی نے بعض لوگوں کو جنگ سے بدگمان کردیا۔ ایک تو اس کی شہر میں لڑنے کی رائے سے اتفاق نہیں کیا گیا تھا۔ دوسرے وہ دشمن کے مقابلہ میں مسلمانوں کی قلیل تعداد کے پیش نظر ان کو کمزور سمجھتا تھا ، لہذا اس نے بزعم خود ہلاکت سے بچنے کے لیے اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو جنگ سے علیھدہ کرلیا۔ یہ سارے کے سارے لوگ منافق نہیں تھے ، مگر چونکہ عبداللہ بن ابی کے زیر اثر تھے ، اس لیے اس کے کہنے میں آگئے۔ بہرحال ان میں سے بہت سے لوگ منافق تھے۔ باقی سات سو افراد کا لشکر احد کے دامن میں صبح کے وقت پہنچا ، اور آپ نے اگلے دن صبح کی نماز وہیں ادا کی۔ اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا۔ واذ غدوت۔ اس ووقت کو دھیان میں لائیں جب آپ صبح کے وقت نکلے۔ من اھلک۔ اپنے گھر سے۔ جس دن آپ احد کے لیے روانہ ہوئے ، اس روز آپ کا قیام ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کے گھر پر تھا اور وہیں سے آپ ہتھیار بند ہو کر نکلے تھے اسی سے مفسرین کرام یہ استدلال کرتے ہیں کہ ام المومنین حضور ﷺ کے اہلبیت میں شامل ہیں۔ برخلاف اس کے روافض حضرت عائشہ کو نہ صرف اہلبیت سے خارج کرتے ہیں بلکہ آپ کو نعوذ باللہ منافق سمجھتے ہیں۔ یہاں پر اھلک کے لفظ نے شیعوں کے اس باطل عقیدہ کی تردید کردی ہے۔ میدان احد میں پہنچ کر حضور علیہ السلام۔ تبوئ المومنین مقاعد للقتال۔ لڑائی کے لیے مومنوں کے ٹھکانے مقرر کرتے تھے جگہ مقرر کرنا ، ڈیوٹی لگانا ، جنگ کے تقاضوں کے مطابق صف بندی کرنا وغیرہ سب چیزیں۔ تبوئ المومنین مقاعد للقتال ، میں آتی ہیں۔ یہ آیت صاف بتلا رہی ہے۔ کہ جنگ بدر کی طرح جنگ احد میں بھی کمان خود حضور ﷺ نے کی ، آپ کے علاوہ کوئی دوسرا کمانڈر نہیں تھا۔ آپ نے میدان جنگ کا اچھی طرح جائز ہ لیا۔ جبل احد پانچ سات میل میں پھیلا ہوا لمبا چوڑا پہاڑ ہے ، آپ نے جنگی حکمت عملی کے تحت پہاڑ کے ایک درے کے اوپر عبداللہ بن جبیر ؓ کی سرکردگی میں پچاس تیر اندازوں کا ایک دستہ مقرر فرمادیا۔ اور حکم دیا کہ وہ خوب چوکنے رہیں۔ کہیں دشمن پشت پر سے حملہ نہ کردے۔ اگر ایسی صورت ہو ، تو ان پر تیروں کی بارش کردینا اور اپنی جگہ کسی صورت میں بھی نہ چھوڑنا۔ مگر اس جماعت سے سخت غلطی ہوگئی جس کا ذکر آگے آئیگا۔ فرمایا۔ واللہ سمیع علیم۔ اللہ تعالیٰ تمام باتوں کو سنتا بھی ہے اور جانتا بھی ہے۔ بہرحال یہ بات اللہ تعالیٰ نے تمہید کے طور پر یہاں فرما دی ، اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ توکل علی اللہ : مدینے کے دو قبیلے بنوسلمہ اور بنوحارثہ تھے۔ ایک اوس خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور دوسرا خزرج سے۔ عبداللہ بن ابی ان قبیلوں پر بھی اثر انداز ہوا۔ اور انہیں جنگ احمد میں شرکت سے روکنا چاہا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر اس طرح کیا۔ اذ ھمت طائفتان منکم ان تفشلا۔ جب تم میں سے دوگروہوں نے بزدلی دکھانے کا ارادہ کیا۔ قریب تھا کہ یہ دو قبیلے عبداللہ بن ابی کے کہنے پر مسلمانوں سے الگ ہوجاتے ، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو مضبوط کردیا۔ ان کی دستگیری فرمائی اور وہ ثابت قدم ہوگئے۔ اللہ نے ان کی تعریف فرمائی ہے۔ واللہ ولیھما۔ اللہ تعالیٰ ہی ان کا کارساز ہے۔ اس نے عین موقع پر ان کی مدد فرمائی اور وہ غلطی سے بچ گئے ، ورنہ منافقین کی صف میں شامل ہوجاتے۔ اللہ نے فرمایا۔ وعلی اللہ فلیتوکل المومنون۔ اہل ایمان کو چاہئے کہ اللہ پر ہی مکمل بھروسہ رکھیں ، فتح وشکست اسی مالک الملک کے ہاتھ میں ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ اس پر بھروسہ کرتے ہوئے حتی الامکان کوشش کرے۔ اسلحہ جمع کرے ، مجاہدین تیار کرکے میدان جنگ میں اترے اور پھر نتیجہ اللہ کی ذات پر چھوڑ دے۔ فتح و نصرت اسی کی طرف سے ہوگی۔ مومنوں کو ہر حال میں اللہ پر توکل کرنا چاہئے۔ کمزوروں ، مجبوروں ، اور بےسہارا لوگوں کو خدا کی مدد پر بھروسہ کرکے میدان عمل میں اترنا چاہئے۔ مسلمان جبتک اس اصول پر پر عمل کرتے رہے۔ کامیاب ہوئے ، جب صبر اور تقوی کا دامن چھوٹ گیا ، تو نقصان اٹھانا پڑا۔
Top