Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 121
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
وَاِذْ : اور جب غَدَوْتَ : آپ صبح سویرے مِنْ : سے اَھْلِكَ : اپنے گھر تُبَوِّئُ : بٹھانے لگے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مَقَاعِدَ : ٹھکانے لِلْقِتَالِ : جنگ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور جب آپ صبح کے وقت نکلے اپنے گھر سے ، آپ ٹھکانے مقرر کرتے تھے ایمان والوں کے لی لڑائی کے واسطے ، اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔
ربط آیات : پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی دشمنی اور عناد کا تذکرہ کرکے ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی ممانعت فرمائی اور یہ بھی بتا دیا کہ جو عناد ان کے دلوں میں پایا جاتا ہے ، وہ بہت زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یاد دلایا کہ تم تمام آسمانوں کتابوں پر ایمان رکھتے ہو ، مگر اہل کتاب قرآن پاک کو اللہ کا کلام تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ، فرمایا ان حالات میں تمہاری اہل کتاب کے ساتھ دوستی کی کوئی گنجائش باقی نہیں۔ اگر ان سے قریبی تعلقات قائم کیے گئے تو وہ اہل اسلام کو نقصان پہنچائیں گے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتا دیا کہ اے ایمان والو ! اگر تم صبر اور تقوے پر قائم رہوگے ، تو اہل کتاب اپنی تمام تر عداوت کے باوجود تمہاری کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کے تمام اعمال کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ صبر اور تقوے : شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) سے تقوی کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے آیت کریمہ ان اللہ یامر بالعدل والاحسان۔ پڑھ کر سنا دی۔ آپ کا مطلب یہ تھا کہ تقوی سے مراد کفر ، شرک اور معاصی سے بچاؤ اور عدل و انصاف پر قیام ہے۔ عدل ایک بنیادی اصول ہے جس پر تمام بنی نوع انسان کا عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ عادل لوگ ہی دنیا میں اچھا نظام قائم کرسکتے ہیں۔ اسی عدل کی بدولت اچھی حکومت اور اچھی سوسائٹی معرض وجود میں آتی ہے۔ جہاں عدل نہیں ہوگا۔ وہاں نہ حکومت اچھی ہوگی ، نہ سوسائٹی۔ لہذا مسلمانوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ اگر انہیں شکست ہوجائے یا کوئی نقصان اٹھانا پڑے ، تو ان کو سمجھ لینا چاہئے کہ ان کے تقوے اور صبر میں خرابی پیدا ہوگئی ہے وہ ان زریں اصولوں پر قائم نہیں رہ سکے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم ان اصولوں پر قائم رہوگے ، تو دشمن کی کوئی تدبیر تمہارے خلاف کامیاب نہیں ہوگی۔ اب آج کے درس میں دو واقعات کی طرف اشارہ کرکے مثال بیان کی جا رہی ہے۔ کہ دیکھو ! بدر کے میدان میں اہل ایمان نے اللہ کی ذات مکمل بھروسہ کیا ، تقوے اور صبر کا دامن تھامے رکھا ، تو اللہ نے انہیں فتح عطا کی ، حالانکہ تعداد کے لحاظ سے مسلمان قلیل تھے ، اور سامان حرب کی بھی شدید قلت تھی۔ دوسری طرح احد کے میدان میں مسلمانوں کی تعداد بدر کی نسبت زیادہ تھی ، مگر صبر اور تقوے میں کمی آنے کی وجہ سے شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ آگے جنگ احد کے واقعات تفصیلاً آ رہے ہیں۔ اور اس موقع پر مسلمانوں کی طرف سے جو غلطی سرزد ہوئی تھی ، اس پر تنبیہ فرمائی گئی ہے ، کہ آئندہ ایسی چیز کا اعادہ نہیں ہونا چاہئے۔ جنگ احد کا پس منظر : رمضان 2 ھ میں جنگ بدر لڑی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسی شاندار فتح عطا کی ، جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ قریش مکہ اپنی اس شکست سے سخت سیخ پا ہوئے اور ان کے دلوں میں انتقام کا جذبہ بھڑکنے لگا۔ ابوسفیان کے جس تجارتی قافلہ کی حفاظت کے نام پر یہ جنگ لڑی گئی ، اس کا سارا منافع مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لیے وقف کردیا گیا۔ جنگ بدر میں بڑے بڑے آئمہ کفر مارے گئے تھے ، کسی کا باپ مارا گیا ، کسی کا بیٹا قتل ہوا ، سب غیظ و غضب سے بھرے ہوئے تھے۔ لہذا وہ پوری تیار کے ساتھ مدینہ طیبہ پر حملہ آور ہوئے۔ صحابہ ؓ سے مشورہ : جب اس حملہ کی خبر مدینہ منورہ پہنچی تو حضور ﷺ نے صحابہ کو جمع کرکے ان کا مشورہ طلب کیا ، کہ دشمن کا مقابلہ شہر کے اندر رہ کر کرنا چاہئے یا شہر سے باہر کھلے میدان میں۔ اس معاملہ میں واضح طور پر دو رائیں تھیں۔ نوجوان طبقہ خصوصاً وہ صحابہ جو جنگ بدر میں شامل نہیں ہوسکے تھے ، ان میں جوش و ولولہ تھا ، اور وہ دشمن کا مقابلہ باہر نکل کر کرنا چاہتے تھے۔ ان کی اکثریت تھی۔ تاہم انصار کی اکثریت کی رائے یہ تھی کہ دشمن کی کثیر تعداد کے پیش نظر مقابلہ شہر کے اندر رہ کر کرنا چاہئے۔ ان کا خیال تھا کہ مجاہدین کے علاوہ عورتیں اور بچے بھی شہر کی جنگ میں شریک ہوسکتے ہیں۔ وہ پتھروں کی بارش کرکے بھی غنیم کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس سے پہلے تجربہ بھی یہی تھا۔ کہ شہر پر حملہ آور ہونے والوں کو چنداں کامیابی نہیں ہوتی رہی تھی ، لہذا ان لوگوں کا مشورہ یہ تھا کہ شہر میں رہ کر مقابلہ کیا جائے۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کی رائے بھی یہی تھی۔ خود حضور نبی کریم ﷺ کی ذاتی رائے بھی اندرون شہر مقابلہ کرنے کے متعلق تھی۔ چونکہ اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی وحی نہیں آئی تھی۔ اس لیے عام اصول۔ وشاورھم فی الامر۔ کے مطابق آپ نے مشورہ طلب کیا اور اکثریت رائے کے مطابق شہر سے باہر جا کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یاد رہے کہ مشورہ کرنا اسلام کے اہم اصولوں میں سے ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے ، جو بات مشورے سے کی جاتی ہے ، اس میں نقصان نہیں ہوتا۔ پھر یہ بھی ہے کہ مشورہ ہر کس و ناکس سے نہیں ہوتا بلکہ دانا ، سمجھدار ، متقی اور صائب الرائے لوگوں سے ہوتا ہے۔ یہ ایک الگ اصول ہے جس کی تشریح اسی سورة میں آگے آ رہی ہے۔ حضور ﷺ کے خواب : اس دوران حضور ﷺ نے خواب دیکھا ، جس کی تعبیر بھی خود آپ نے بیان فرما دی۔ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں ایک ذبح شدہ گائے دیکھی۔ جس کی تعبیر یہ ہے کہ ہمیں خیر حاصل ہوگی۔ خواب کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ میں نے اپنی تلوار ذوالفقار کو حرکت دی تو وہ ٹوٹ گئی اور اس میں دندانے پڑگئے ، اس کی تعبیر یہ ہے۔ کہ ہمیں ہزیمت ہوگی۔ مورخ ابن ہشام لکھتے ہیں کہ تلوار میں دندانے پڑنے کی تعبیر میں حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرے اہل بیت کا ایک شخص شہید ہوگا ، چناچہ سید الشہداء حضرت امیر حمزہ اس خواب کی تعبیر بنے۔ خواب کا تیسرا جزو حضور نے یہ فرمایا کہ میں نے ایک محفوظ مقام پر زرہ میں ہاتھ ڈالا ہے آپ نے فرمایا کہ اس سے مراد مدینہ منورہ ہے۔ الغرض ! نبی (علیہ السلام) کی ذاتی رائے مدینہ کے اندر رہ کر مقابلہ کرنے کی تھی مگر آپ نے اکثریت کی رائے کو تسلیم کرتے ہوئے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا۔ بہرحال حضور ﷺ گھر تشریف لے گئے اور پھر زرہ پہن کر باہر تشریف لائے۔ بعض صحابہ نے اس بات پر ندامت کا اظہار کیا۔ کہ انہوں نے آپ کی ذاتی رائے پر عمل نہیں کیا۔ چناچہ انہوں نے عرض کیا کہ اگر آپ کی رائے کے مطابق بہتر یہی ہے۔ تو دشمن کا مقابلہ شہر کے اندر ہی کیا جائے ، مگر حضور ﷺ نے فرمایا کہ کسی نبی کے لائق نہیں ہے۔ کہ وہ ہتھیار پہن کر رک جائے ، لہذا اب باہر نکل کر ہی مقابلہ کرنا ہوگا۔ شوال کی 12 یا 13 تاریخ اور جمعہ کا دن تھا۔ حضور ﷺ نے جمعہ کی نماز مدینہ منورہ میں ادا کی اور اپنے جانثاروں کے ساتھ احد کی طرف روانہ ہوئے۔ ابتدا میں آپ کے ہمراہ ایک ہزار کا لشکر تھا ، مگر جیسا کہ آگے اشارات ملتے ہیں ، اس میں سے تین سو آدمی راستے میں سے واپس چلے گئے۔ واقعہ یوں ہوا کہ عبداللہ بن ابی نے بعض لوگوں کو جنگ سے بدگمان کردیا۔ ایک تو اس کی شہر میں لڑنے کی رائے سے اتفاق نہیں کیا گیا تھا۔ دوسرے وہ دشمن کے مقابلہ میں مسلمانوں کی قلیل تعداد کے پیش نظر ان کو کمزور سمجھتا تھا ، لہذا اس نے بزعم خود ہلاکت سے بچنے کے لیے اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو جنگ سے علیھدہ کرلیا۔ یہ سارے کے سارے لوگ منافق نہیں تھے ، مگر چونکہ عبداللہ بن ابی کے زیر اثر تھے ، اس لیے اس کے کہنے میں آگئے۔ بہرحال ان میں سے بہت سے لوگ منافق تھے۔ باقی سات سو افراد کا لشکر احد کے دامن میں صبح کے وقت پہنچا ، اور آپ نے اگلے دن صبح کی نماز وہیں ادا کی۔ اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا۔ واذ غدوت۔ اس ووقت کو دھیان میں لائیں جب آپ صبح کے وقت نکلے۔ من اھلک۔ اپنے گھر سے۔ جس دن آپ احد کے لیے روانہ ہوئے ، اس روز آپ کا قیام ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کے گھر پر تھا اور وہیں سے آپ ہتھیار بند ہو کر نکلے تھے اسی سے مفسرین کرام یہ استدلال کرتے ہیں کہ ام المومنین حضور ﷺ کے اہلبیت میں شامل ہیں۔ برخلاف اس کے روافض حضرت عائشہ کو نہ صرف اہلبیت سے خارج کرتے ہیں بلکہ آپ کو نعوذ باللہ منافق سمجھتے ہیں۔ یہاں پر اھلک کے لفظ نے شیعوں کے اس باطل عقیدہ کی تردید کردی ہے۔ میدان احد میں پہنچ کر حضور علیہ السلام۔ تبوئ المومنین مقاعد للقتال۔ لڑائی کے لیے مومنوں کے ٹھکانے مقرر کرتے تھے جگہ مقرر کرنا ، ڈیوٹی لگانا ، جنگ کے تقاضوں کے مطابق صف بندی کرنا وغیرہ سب چیزیں۔ تبوئ المومنین مقاعد للقتال ، میں آتی ہیں۔ یہ آیت صاف بتلا رہی ہے۔ کہ جنگ بدر کی طرح جنگ احد میں بھی کمان خود حضور ﷺ نے کی ، آپ کے علاوہ کوئی دوسرا کمانڈر نہیں تھا۔ آپ نے میدان جنگ کا اچھی طرح جائز ہ لیا۔ جبل احد پانچ سات میل میں پھیلا ہوا لمبا چوڑا پہاڑ ہے ، آپ نے جنگی حکمت عملی کے تحت پہاڑ کے ایک درے کے اوپر عبداللہ بن جبیر ؓ کی سرکردگی میں پچاس تیر اندازوں کا ایک دستہ مقرر فرمادیا۔ اور حکم دیا کہ وہ خوب چوکنے رہیں۔ کہیں دشمن پشت پر سے حملہ نہ کردے۔ اگر ایسی صورت ہو ، تو ان پر تیروں کی بارش کردینا اور اپنی جگہ کسی صورت میں بھی نہ چھوڑنا۔ مگر اس جماعت سے سخت غلطی ہوگئی جس کا ذکر آگے آئیگا۔ فرمایا۔ واللہ سمیع علیم۔ اللہ تعالیٰ تمام باتوں کو سنتا بھی ہے اور جانتا بھی ہے۔ بہرحال یہ بات اللہ تعالیٰ نے تمہید کے طور پر یہاں فرما دی ، اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ توکل علی اللہ : مدینے کے دو قبیلے بنوسلمہ اور بنوحارثہ تھے۔ ایک اوس خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور دوسرا خزرج سے۔ عبداللہ بن ابی ان قبیلوں پر بھی اثر انداز ہوا۔ اور انہیں جنگ احمد میں شرکت سے روکنا چاہا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر اس طرح کیا۔ اذ ھمت طائفتان منکم ان تفشلا۔ جب تم میں سے دوگروہوں نے بزدلی دکھانے کا ارادہ کیا۔ قریب تھا کہ یہ دو قبیلے عبداللہ بن ابی کے کہنے پر مسلمانوں سے الگ ہوجاتے ، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو مضبوط کردیا۔ ان کی دستگیری فرمائی اور وہ ثابت قدم ہوگئے۔ اللہ نے ان کی تعریف فرمائی ہے۔ واللہ ولیھما۔ اللہ تعالیٰ ہی ان کا کارساز ہے۔ اس نے عین موقع پر ان کی مدد فرمائی اور وہ غلطی سے بچ گئے ، ورنہ منافقین کی صف میں شامل ہوجاتے۔ اللہ نے فرمایا۔ وعلی اللہ فلیتوکل المومنون۔ اہل ایمان کو چاہئے کہ اللہ پر ہی مکمل بھروسہ رکھیں ، فتح وشکست اسی مالک الملک کے ہاتھ میں ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ اس پر بھروسہ کرتے ہوئے حتی الامکان کوشش کرے۔ اسلحہ جمع کرے ، مجاہدین تیار کرکے میدان جنگ میں اترے اور پھر نتیجہ اللہ کی ذات پر چھوڑ دے۔ فتح و نصرت اسی کی طرف سے ہوگی۔ مومنوں کو ہر حال میں اللہ پر توکل کرنا چاہئے۔ کمزوروں ، مجبوروں ، اور بےسہارا لوگوں کو خدا کی مدد پر بھروسہ کرکے میدان عمل میں اترنا چاہئے۔ مسلمان جبتک اس اصول پر پر عمل کرتے رہے۔ کامیاب ہوئے ، جب صبر اور تقوی کا دامن چھوٹ گیا ، تو نقصان اٹھانا پڑا۔
Top