Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 130
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَاْ كُلُوا : نہ کھاؤ الرِّبٰٓوا : سود اَضْعَافًا : دوگنا مُّضٰعَفَةً : دوگنا ہوا (چوگنا) وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! مت کھاؤ سود دگنے پر دگنا ، اور ڈرو اللہ سے تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔
گذشتہ دروس میں اللہ تعالیٰ نے غزوہ احد کا ذکر فرمایا۔ اور اس ضمن میں اہل ایمان کی تسلی کے لیے غزوہ بدر کا تذکرہ بھی ہوا۔ کہ اس جنگ میں اللہ نے اپنی خاص مہربانی سے اہل ایمان کے اطمینان اور بشارت کے لیے فرشتوں کو نازل فرمایا۔ مگر غزوہ احد میں مسلمانوں کی طرف سے کمزوری واقع ہوگئی تھی لہذا اس میں نقصان اٹھانا پڑا۔ پھر احد کی جنگ میں شریک ہونے والے مشرکین کے حق میں بد دعا کرنے سے اللہ نے منع فرما دیا۔ بدر میں کامیابی کا راز بتایا کہ مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل بھروسہ کیا۔ اور صبر اور تقوی کو اختیار کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت تامہ اور حکمت بالغہ کے ساتھ کامیابی عطا فرمائی۔ ان غزوات کے تزکرہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے درمیان میں سود کی حرمت کا حکم نازل فرمایا ہے۔ اور ساتھ ہی انفاق فی سبیل اللہ کی ترگیب دی ہے۔ سود اور انفاق فی سبیل اللہ دو متضاد چیزیں ہیں۔ اول الذکر سے اخلاق بگڑتا ہے اور ثانی الذکر سے اخلاق میں عمدگی آتی ہے۔ لہذا دونوں چیزوں کو اکٹھا بیان فرما کر ترہیب و ترغیب کا سامان پیدا فرمایا ہے۔ حرمت سود : ارشاد ہوتا ہے۔ یا ایہا الذین امنوا۔ اے ایمان والو ! لا تاکلوا الربوا اضعافا مضعفۃ۔ مت کھاؤ سو دگنے پر دگنا۔ یہاں پر لاتاکلوا الربوا اضعافا مضعفۃ۔ مت کھاؤ سود دگنے پر دگنا۔ یہاں پر لاتاکلوا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا معنی کھانا ہے۔ تو کیا سود کھانا ہی حرام ہے اور اس کا لینا دینا جائز ہے ؟ ہرگز نہیں۔ چونکہ کھانا ایک اہم چیز ہے اس لیے اس کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ورنہ مراد لینا دینا ہی ہے۔ جس طرح کسی چیز کا کھانا حرام ہے اسی طرح اس کا پہننا بھی حرام ہوگا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ سود کی رقم سے خرد کر وہ غلہ تو حرام ہو مگر اسی رقم سے لیا گیا کپڑا حلال ہو۔ سود خواہ کسی بھی شکل و صورت میں ہو ، حرام ہی ہوگا۔ لہذا لا تاکلوا سے مراد صرف کھانا ہی حرام نہیں ہوگا بلکہ سود کا استعمال ہر صورت میں حرام ہوگا۔ دوسری خاص چیز جو اس آیت کریمہ میں بیان کی گئی ہے۔ وہ دگنے کی قید ہے کہ دگنے پر دگنا سود نہ کھاؤ۔ یہ اضعافا مضعفۃ۔ اس لیے فرمایا کہ عربوں میں بھی ڈبل سود یعنی سود مرکب یا سود در سود کا رواج موجود تھا اور یہ سود کی بدترین صورت ہے اس لیے اس کا ذکر کیا ہے۔ وگرنہ سنگل سود یا سود مفرد بھی اسی طرح حرام ہے ، جس طرح سود مرکب ، سود کا ذکر سورة بقرہ میں آ چکا ہے۔ واحل اللہ البیع وحرم الربوا۔ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام خواہ وہ سود مفرد ہو یا مرکب۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ حقیقی سود وہ ہوتا ہے۔ جو ادھار دی گئی رقم پر حاصل کیا جائے۔ یہ سود خواہ نقدی کی صورت میں ہو ، سونا چاندی یا اجناس کی شکل میں وصول کیا جائے ، بہرحال حرام ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے۔ کہ ایک جنس کو دوسری جنس کے بدلے میں زیادتی یا ادھار کے ساتھ بیع کرنا حرام ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ سود مرکب کیسے ہوتا ہے۔ تو اس کی صورت آج بھی ویسی ہی ہے جیسے اس زمانے میں تھی جس کا تذکرہ قرآن پاک نے کیا ہے۔ کوئی رقم کسی خاص مدت کے لیے سود پر لی جاتی ہے۔ مقرر مدت میں اگر اصل رقم بمع سود واپس نہ کی جاسکے تو سود کو اصل زر میں شامل کرکے کل رقم کو اصل شمار کرلیا جاتا ہے اور پھر اس رقم پر سود کی مقرر شرح عاید کردی جاتی ہے۔ سود کی شرح عام طور پر سالانہ ہوتی ہے۔ ہر سال اصل رقم پر سود کا حساب کرکے اسے اصل زر میں شامل کرلیا جاتا ہے اور اس طرح کچھ عرصہ بعد قرض کی اصل رقم بڑھ کر کئی گنا ہوجاتی ہے۔ اسی کے متعلق فرمایا کہ اے ایمان والو ! دگنا چوگنا سود مت کھاؤ۔ واتقوا اللہ۔ اور اللہ سے ڈر جاؤ۔ لعلکم تفلحون۔ تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔ جذبہ انتقام : غزوہ احد میں مسلمانوں کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ خود حضور ﷺ کو بڑی جسمانی تکلیف پہنچی۔ سر مبارک زخمی ہوا ، دانت مبارک شہید ہوا ، ستر صحابہ شہید ہوگئے اور بہت سے زخمی ہوئے۔ اس واقعہ کے درمیان سود کے تذکرہ کے متعلق مولانا عبیداللہ سندھی فرماتے ہیں۔ کہ ہم نے اپنے استاد حضرت مولانا شیخ الہند سے دریافت کیا کہ حضرت ! غزوہ احد کے واقعہ کے درمیان حرمت سود کی آیت کا کیا محل ہے۔ تو فرمایا بعض اوقات ربط آیات کو سمجھنے کے لیے بڑے تدبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ بات در اصل یہ ہے کہ غزوہ احد میں جب مسلمانوں کو شکست ہوگئی ، تو ان کے دلوں میں جذبہ انتقام بھڑک اٹھا۔ چناچہ بعض روایات میں آتا ہے۔ کہ مسلمانوں نے عہد کیا کہ اگر آئندہ اگر کفار پر غالب آئے تو ان سے دوہرا انتقام لیں گے۔ کافروں نے ہمارے شہداء کے ساتھ بڑی تزلیل کا کام کیا ہے۔ ان کے چہرے مسخ کیے ، لہذا ہم بھی ان سے سخت انتقام لیں گے۔ تو مولانا فرماتے ہیں۔ کہ اسی جذبہ انتقام کو کم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اس آیت سود کو غزوہ احد کے واقعہ میں لائے ہیں۔ جس طرح سود انسان کا اخلاق بگاڑتا ہے ، اسی طرح جذبہ انتقام بھی بداخلاقی پیدا کرتا ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو متنبہ فرمایا کہ وہ اپنے جذبات پر قابو رکھیں کیونکہ سود اور انتقام ایک ہی قبیل سے ہیں۔ اور ان کے سبب اصل مقصد سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔ اسی آج کے درس میں آگے انفاق فی سبیل اللہ کی آیت بھی آ رہی ہے۔ سود خواری اور انفاق دو متضاد چیزیں ہیں۔ سود خوری سے انسانی اخلاق فاسد ہوتا ہے اور انفاق فی سبیل اللہ اخلاق عالیہ کا نمونہ ہے۔ چناچہ مستدرک حاکم کی روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، جس قوم میں زنا اور سود خوری جیسی بیماریاں پیدا ہوجائیں اس قوم پر خدا کا غضب نازل ہوگا۔ کیونکہ یہ اخلاقی بیماریاں خدا کے غضب کو دعوت دیتی رہتی ہیں۔ ڈرانے والی آیات : سود خوری سے ممانعت کے بعد فرمایا : واتقوا النار التی اعدت للکفرین۔ اس آگ سے ڈر جاؤ، جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ جہنم کی آگ بالذات کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ جہنم کی آگ بالذات کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ مگر اس آیت میں ایمان والوں کو ڈرایا گیا ہے۔ کہ اس آگ سے بچ جائیں۔ اس ضمن میں تفسیر مدارک والے لکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا ہے کہ قرآن پاک میں سب سے زیادہ ڈرانے وعالی آیت یہ ہے۔ جس میں ایمان والوں کو دوزخ کی آگ سے ڈرایا گیا ہے مقصد یہ ہے کہ اگر اہل ایمان بھی کافروں والے کام کریں گے ، کفر ، شرک ، بدعت اور معاصی میں مبتلا ہوں گے تو وہ بھی دوزخ کی آگ سے بچ نہیں سکیں گے۔ کامیابی کا راز : آگے اہل ایمان کو دوزخ سے بچنے اور کامیابی حاصل کرنے کا راز بتایا جا رہا ہے۔ واطیعوا اللہ ولرسول۔ اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرو۔ لعلکم ترحمون۔ تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہی کامیابی کی کنجی ہے۔ غزوہ احد میں اسی چیز کی کمی آگئی تھی جس کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ آپ نے پچاس آدمیوں کے ایک دستہ کو پہاڑ کی چوٹی پر مقرر فرمایا تھا۔ اور واضح حکم دیا تھا کہ ہمیں فتح ہو یا شکست ، تمہیں ہر صورت میں اس محاذ پر قائم رہنتا ہے۔ مگر جب انہوں نے دیکھا کہ جنگ میں مسلمانوں کا پلہ بھاری ہورہا ہے۔ تو وہ مورچہ چھوڑ کر پہاڑ سے نیچے اتر آئے۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں یہی کوتاہی ہوئی تھی جس کی وجہ سے مسلمانوں کو عظیم نقصان اٹھانا پڑا۔ لہذا اہل اسلام کو سمجھایا جا رہا ہے۔ کہ آئندہ ایسی غلطی نہ کرنا بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو ہمیشہ مقدم رکھنا۔ یہی کامیابی کا راز ہے اور اسی کی بدولت تم پر رحم کیا جائے گا۔ نیکی میں سبقت : نیز فرمایا۔ وسارعوا الی مغفرۃ من ربکم۔ اور سبقت کرو ، دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف ، مقصد یہ ہے کہ اگر اللہ اور اس کے رسول کا اتباع کروگے ، ایمان اور تقوی اختیار کروگے ، صبر کا دامن تھامے رکھو گے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے بخشش کی بشارت ہے۔ اور پھر بخشش کا نتیجہ ہوگا۔ وجنۃ۔ کہ تمہیں جنت میں داخلے کا ٹکٹ مل جائیگا۔ اور وہ جنت ایسی ہوگی جسے دنیا کے کسی بڑے سے بڑے باغ پر بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے جس جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ عرضھا السموات والارض۔ وہ اتنی وسیع ہے کہ اس کا عرض یعنی چوڑان ہی آسمانوں اور زمین کے برابر ہوگا۔ یہاں پر آسمان و زمین کی مثال اس لیے دی گئی ہے۔ کہ انسانی ذہن میں زمین و آسمان سے وسیع کوئی چیز نہیں ہے۔ لہذا انہی چیزوں کا ذکر کیا ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے۔ کہ اللہ رب العزت کی جنت آسمانوں اور زمین سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ اس کے نیچے سے لے کر اوپر تک آٹھ طبقات ہیں اور سب سے بالائی طبقے کا نام جنت الفردوس ہے اس میں ہر طرح کی نعمتیں میسر ہوں گی۔ ایسی نعمتیں جو اس وقت انسانی ذہن میں نہیں آسکتیں۔ اور یہ سب کچھ اعدت للمتقین۔ ان متقیوں کے لیے ہے۔ جو اللہ کے احکام کی پابندی کرنے والے ہیں۔ لہذا اپنے اندر وہ صفات پیدا کرو ، جو اللہ نے بیان فرمائی ہیں تاکہ تم جنت کے حقدار بن سکو۔ نیکی میں سبقت کرنے کے متعلق ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے۔ کہ سارعوا ابالاعمال سبعا۔ یعنی سات چیزیں پیش آنے سے پہلے پہلے اچھے اعمال انجام دے لو ، ورنہ پھر موقع نہیں ملے گا۔ وہ سات چیزیں کونسی ہیں۔ فرمایا ما ینتظر احدکم الا غنی مطغیا۔ ایسی دولت مندی آجائے جو انسان کو سرکشی میں ڈال دے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ ناداری کی حالت میں دین دار ہوتے ہیں جب مال آجاتا ہے۔ تو بغاوت پر اتر آتے ہیں۔ اس لیے فرمایا ایسی دولت مندی آنے سے پہلے پہلے اچھے اعمال کرلو۔ فرمایا۔ اوفقرا او منسیا۔ یا ایسا فقر لاحق ہوجائے جو سب کچھ فراموش کرا دے۔ ناداری کی حالت میں بعض اوقات انسان متفکر اور مغموم ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے نیکی کے کام بھول جاتے ہیں۔ ایسی حالت وارد ہونے سے پہلے نیکی میں سبقت حاصل کرلو۔ تیسری چیز فرمایا۔ او مرضا مفسدا۔ یا ایسی بیماری آجائے جو انسان کو فساد میں ڈال دے۔ بیماری میں بھی انسان نیکی سے محروم ہوجاتا ہے۔ چوتھی چیز فرمایا۔ او ھرما مفسدا۔ یا ایسا بڑھاپا آجائے جو انسان کو عقل و فہم سے عاری کردے۔ اسی لی ایسے بڑھاپے سے بھی پناہ مانگی گئی ہے جو انسان کے قوی کو کمزور کردیتا ہے پانچویں چیز فرمایا۔ او موتا مجھزا۔ یا موت ہی آ کر انسان کا فیصلہ کردے۔ پھر تو اعمال کی دنیا ختم ہوگئی۔ اب مزید نیکی کا کوئی موقع باقی نہیں رہا۔ چھٹی چیز فرمایا۔ اوالدجال۔ یا دجال۔ والدجال شر غائب ینتظر۔ اور دجال تو بڑی بری چیز ہے جس کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ دجال کا ظہور ہوگا ، تو بڑے فتنے برپا ہوں گے۔ لہذا اس کے ظہور سے پہلے نیکی کرلو۔ اور ساتویں چیز فرمایا۔ او الساعۃ۔ یا پھر قیامت برپا ہوجائے۔ والساعۃ ادھی و امر۔ اور قیامت تو بڑی کڑوی اور تلخ ہے۔ اس کے بعد تو ہر چیز فنا ہوجائے گی۔ اور پھر حساب کتاب شروع ہوجائے گا۔ اسی لیے فرمایا کہ ان سات چیزوں کے ظہور سے پہلے پہلے نیکی میں سبقت کرلو ، ورنہ پھر موقع نہیں ملے گا۔ انفاق فی سبیل اللہ : آگے اللہ تعالیٰ نے متقین کی بعض صفات بیان فرمائی ہیں۔ فرمایا ان کی پہلی صفت یہ ہے الذین ینفقون فی السراء والضراء وہ خرچ کرتے ہیں خوشی کی حالت میں بھی اور تکلیف کی حالت میں بھی یہی چیز ہے ۔۔ جو سود کی جڑ کو کاٹتی ہے۔ ایک طرف سود خور کسی غریب کی غربت سے فائدہ اٹھا کر قرضے پر سود در سود وصول کرتا ہے۔ اور دوسری طرف اہل ایمان ہیں کہ وہ ایسے غربا و مساکین پر ہمیشہ خرچ کرتے ہیں۔ وہ خود خواہ آسائش میں ہوں یا تکلیف میں مبتلا ہوں ، ان کی طرف سے انفاق فی سبیل اللہ جاری رہتا ہے اور یہی وہ عالی اخلاق ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کا سبب ہے۔ متقین کی صفات : متقین کی دوسری صفت ہے۔ والکظمین الغیظ۔ وہ غصے پر قابو پانے والے ہیں۔ یہ بھی بہت بڑی صفت ہے۔ بعض اوقات انسان غصے کی حالت میں دیوانہ ہوجاتا ہے۔ اور وہ کچھ کر بیٹھتا ہے۔ جس پر بعد میں ندامت اٹھانا پڑتی ہے۔ غصے کی حالت میں جوش انتقام میں مبتلا ہونے کی بجائے ، اس پر قابو پالینا ہی اصل مردانگی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اسے متقین کی صفات میں شمار کیا ہے۔ سورة شوری میں آتا ہے۔ والذین اذا اصابھم البغی ھم ینتصرون۔ ایمان والے وہ ہیں۔ کہ دیگر صفات کے علاوہ ان میں ایک صفت میں یہ بھی پائی جاتی ہے کہ جب ان پر سرکشی کی جاتی ہے۔ تو وہ انتقام پر آمادہ ہوجاتے ہیں وہ تو انتقام کی بات ہے۔ اور یہاں غصے پر قابو پانے کی بات ہورہی ہے کہ اہل ایمان غصے کو پی جاتے ہیں۔ یہاں پر یہ دو باتیں متعارض معلوم ہوتی ہیں۔ یعنی ایک طرف تو مومن انتقام پر آمادہ ہوجاتے ہیں ، اور دوسری طرف غصے کو دبا لیتے ہیں۔ اس ضمن میں مفسرین کرام فرماتے ہیں۔ کہ انتقام لینے والی بات کافروں اور نافرمانوں کے بارہ میں ہے۔ جب وہ کوئی غلط کام کرتے ہیں تو مسلمان بھی انتقام لینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ سورة مائدہ میں بھی آ چکا ہے۔ اعزۃ علی الکفرین۔ مسلمان کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں۔ جب کہ مومنوں کے لیے نرم دل ہیں۔ مفسرین ایک دوسری توجیہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ جو شخص ظلم اور زیادتی پر ڈٹا ہوا ہے ، اس کو معافی کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ معاف کرنے سے مزید خرابی پیدا ہوگی۔ البتہ جو شخص تائب ہوجائے اس سے انتقام لینا جائز نہیں ہے۔ فرمایا متقین کی تیسری صفت یہ ہے۔ والعافین عن الناس۔ وہ لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ، مفسرین کرام نے حضرت علی بن حسین یعنی حضرت امام حسین کے فرزند امام زین العابدین کا یہ واقعہ بیان کیا ہے۔ کہ آپ وضو فرما رہے تھے۔ لونڈی پانی ڈال رہی تھی۔ اتفاق سے لوٹے کا پانی آپ پر گر پڑا۔ آپ کے کپڑے بھیگ گئے۔ لونڈی کی غلطی تھی۔ جب اس نے آپ کو غصے کی حالت میں دیکھا تو اس کی زبان سے نکلا۔ والکظمین الغیظ۔ یہ سن کر آپ غصے کو پی گئے اور فرمایا میں تم سے کوئی انتقام نہیں لوں گا۔ لونڈی صاحب علم تھی ، کہنے لگی۔ والعافین عن الناس۔ یعنی مومنوں کی صفت تو یہ ہے کہ وہ نہ صرف غصے کو دبا دیتے ہیں بلکہ لوگوں کو معاف بھی کردیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ، جاؤ۔ میں نے تجھے معاف کیا۔ لونڈی نے مزید جرات کرکے آیت کا اگلا ٹکڑا پڑھ دیا۔ واللہ یحب المحسنین۔ اللہ اعلی درجے کی نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا جا تو آزاد ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا نیکی ہوسکتی ہے۔ کہ لونڈی نے غلطی کی مگر آپ نے اس کے ساتھ انتہائی درجے کی نیکی کی۔ لہذا مسلمانوں کو چاہئے۔ کہ اپنے اندر ایسی صفات پیدا کریں جن کا تذکرہ اس آیت میں کیا گیا ہے۔ اس کے برخلاف سود کی لعنت کو چھوڑ دینا چاہئے۔ جو انتہائی درجے کی بد اخلاقی کا سبب ہے۔
Top