Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 152
وَ لَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗۤ اِذْ تَحُسُّوْنَهُمْ بِاِذْنِهٖ١ۚ حَتّٰۤى اِذَا فَشِلْتُمْ وَ تَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَ عَصَیْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَةَ١ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِیَبْتَلِیَكُمْ١ۚ وَ لَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ
وَ : اور لَقَدْ صَدَقَكُمُ : البتہ سچا کردیا تم سے اللّٰهُ : اللہ وَعْدَهٗٓ : اپنا وعدہ اِذْ : جب تَحُسُّوْنَھُمْ : تم قتل کرنے لگے انہیں بِاِذْنِھٖ : اس کے حکم سے حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب فَشِلْتُمْ : تم نے بزدلی کی وَ تَنَازَعْتُمْ : اور جھگڑا کیا فِي الْاَمْرِ : کام میں وَعَصَيْتُمْ : اور تم نے نافرمانی کی مِّنْ بَعْدِ : اس کے بعد مَآ اَرٰىكُمْ : جب تمہیں دکھایا مَّا : جو تُحِبُّوْنَ : تم چاہتے تھے مِنْكُمْ : تم سے مَّنْ يُّرِيْدُ : جو چاہتا تھا الدُّنْيَا : دنیا وَمِنْكُمْ : اور تم سے مَّنْ يُّرِيْدُ : جو چاہتا تھا الْاٰخِرَةَ : آخرت ثُمَّ : پھر صَرَفَكُمْ : تمہیں پھیر دیا عَنْھُمْ : ان سے لِيَبْتَلِيَكُمْ : تاکہ تمہیں آزمائے وَلَقَدْ : اور تحقیق عَفَا : معاف کیا عَنْكُمْ : تم سے (تمہیں) وَاللّٰهُ : اور اللہ ذُوْ فَضْلٍ : فضل کرنے والا عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اور البتہ تحقیق اللہ نے تمہارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کر دکھایا تھا۔ جب کہ تم ان (دشمنوں) کو کاٹ رہے تھے اللہ کے حکم سے۔ یہاں تک کہ جب تم بزدل ہوگئے اور تم نے معاملہ میں جھگڑا کیا۔ اور تم نے نافرمانی کی اس کے بعد کہ اللہ نے تمہیں وہ چیز دکھائی ، جسے تم پسند کرتے ہو۔ تم میں سے بعض وہ ہیں جو دنیا کا ارادہ کرتے ہیں۔ اور بعض وہ ہیں جو آخرت کا ارادہ کرتے ہیں۔ پھر پھیر دیا تم کو ان سے تاکہ تم کو آزمائش میں ڈالے۔ اور البتہ تحقیق اللہ نے تم کو معاف کردیا ہے۔ اور فضل والا ہے اہل ایمان پر۔
ربط آیات : گذشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین اور منافقین کی بات ماننے سے منع فرمایا۔ اور اس سے پہلے سابقہ انبیاء کرام اور ان کے متبعین کا اسوہ اختیار کرنے کا حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ نے خبردار کیا کہ اگر کافروں اور منافقوں کی بات مانوگے تو وہ تمہیں الٹا جاہلیت کی طرف لے جائیں گے۔ اور تمہیں تمہارے پاکیزہ نظریات سے برگشتہ کردیں گے جو کہ تمہارے لیے سخت نقصان کا باعث ہوگا۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ تمہیں مخالفین کے پراپیگنڈا سے متاثر نہیں ہونا چاہئے ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی نصرت پر مکمل بھروسہ کرنا چاہئے۔ وہی تمہارا آقا اور مددگار ہے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی بیان ہوچکا ہے۔ کہ کفار و مشرکین کے نظریات باطل ہیں وہ وہم میں مبتلا ہیں۔ اللہ تعالیٰ انکے دلوں میں تمہارا رعب ڈال دے گا۔ وہ جہنم کے مستحق ہیں ، لہذا ان کی بات کو کسی طور تسلیم نہیں کرنا۔ غزوہ احد ۔ سرسری جائزہ : گذشتہ دروس میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بیان ہوچکا ہے۔ کہ اے اہل ایمان ! اگر تم تقوی اور صبر کی راہ پر مستقیم رہوگے ، تو یقیناً تم کو بلندی حاصل ہوگی۔ چناچہ جنگ احد کے ابتدائی حصہ میں حالات مسلمانوں کے حق میں تھے۔ کافر تعداد میں بھی زیادہ تھے ، اور ادھر مسلمانوں کے ایک ہزار مجاہدین میں سے تین سو کا لشکر عبداللہ بن ابی منافق کی معیت میں پہلے ہی علیحدہ ہوگیا۔ کافروں کے پاس سامان حرب کی بھی فراوانی تھی مگر مسلمانوں کے پاس محض واجبی سا سامان تھا۔ اس کے باوجود ابتدائے جنگ میں مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا اور اللہ نے غلبہ عطا فرمایا۔ بیس کے قریب کافر واصل بجہنم ہوئے۔ دشمن کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ دور تک بھاگتے چلے گئے مگر مسلمانوں کی ایک کوتاہی کی وجہ سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور اہل اسلام کی فتح شکست میں تبدیل ہوگئی۔ حضور ﷺ نے ایک پہاڑی پر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کی قیادت میں پچاس تیر اندازوں کی ایک جماعت مقرر کی تھی اور انہیں حکم دیا تھا کہ ہمیں فتح ہو یا شکست تم اپنے مورچے کو مت چھوڑنا۔ جب تیر اندازوں نے دیکھا کہ نیچے مسلمانوں کو فتح حاصل ہوگئی ہے دشمن بھاگ نکلا ہے ، تو ان میں اختلاف رائے پیدا ہوا کہ آیا انہیں اپنے مورچے کو چھوڑ دینا چاہئے۔ یا حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق وہیں ڈٹے رہنا چاہئے۔ ان کے قائد کی رائے یہ تھی کہ حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق انہیں یہیں موجود رہنا چاہئے۔ تاہم اکثریت کی رائے تھی کہ حضور کا موجود رہنے کا حکم مسلمانوں کی فتح تک کے لیے تھا۔ اب جب کہ فتح حاصل ہوگئی ہے تو اب وہاں ٹھہرنا کچھ ضروری نہیں رہا۔ چناچہ تیر اندازوں کی اکثریت پہاڑ سے نیچے اتر کر مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف ہوگئی۔ اور پہاڑی پر حضرت عبداللہ کے ہمراہ صرف دس آدمی باقی رہ گئے۔ نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ الحرب خدعۃ۔ یعنی لڑائی داؤ پیچ سے ہوتی ہے۔ اس ہتھیار کو کفار کے رسالہ کے کمانڈر حضرت خالد بن ولید نے آزمایا ، جو ابھی تک دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ وہ اپنے دستہ کے تین سو گھوڑ سواروں کے ہمراہ اس پہاڑی پر حملہ آور ہوئے جسے مسلمان تیر انداز چھوڑ چکے تھے۔ پہاڑی پر موجود دس گیارہ مجاہدین کی جماعت حملہ کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئی۔ کفار کے بھاگتے ہوئے سپاہیوں نے جب دیکھا کہ ان کا رسالہ مسلمانوں کے عقب میں پہنچ گیا ہے ، تو وہ بھی واپس لوٹے اور اس طرح مسلمان جو پہلے ہی قلیل تعداد میں تھے کفار کے دو لشکروں کے درمیان گھر گئے۔ ان میں ایسی افراتفری پھیلی کہ خود مسلمان مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہونے لگے۔ حضرت حذیفہ ؓ کے والد حضرت یمان اسی افراتفری میں شبہ میں شہید ہوگئے ، خود حضور ﷺ کا رخسار مبارک زخمی ہوا۔ ہونٹ پھٹ گیا اور نیچے کا ایک دانت مبارک شہید ہوا۔ خود کی کڑیاں ٹوٹ کر سر مبارک میں داخل ہوگئیں۔ خون بہنے لگا۔ آپ (علیہ السلام) پر بےہوشی طاری ہوگئی اور آپ زمین پر گر گئے۔ آپ کا دفاع کرنے والے دس میں سے نو مسلمان شہید ہوگئے۔ بعض مجاہدین نے زبردست جرات کا مظاہرہ کیا۔ حضرت طلحہ کے ہاتھ پر نیزے اور تیر کے زخم آئے جس سے ہاتھ شل ہوگیا۔ ابودجانہ نے اپنی پشت کو ڈھال بنا کر حضور نبی کریم ﷺ کا دفاع کیا۔ مسلمانوں کو تنبیہ : ان حالات کے پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ان کی غلطی پر تنبیہ فرمائی ہے۔ اور ساتھ تسلی بھی دی ہے۔ کہ یہ واقعہ تمہارے لیے آزمائش تھی۔ اس ابتلا سے دل برداشتہ نہیں ہونا چاہئے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ ولقد صدقکم اللہ وعدہ۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ اذ تحسونھم باذنہ۔ جب تم اللہ کے حکم سے کافروں کو کاٹ رہے تھے ان کو تہ تیغ کر رہے تھے۔ اور وہ وعدہ یہی تھا۔ کہ اگر تم تقوی اور صبر سے کام لوگے تو تمہاری مدد کی جائیگی۔ چناچہ ابتدائے جنگ میں اللہ نے تمہاری مدد فرمائی تم ان پر غالب آئے اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ حس کا معنی محسوس کرنا ، پشت پر مالش کرنا ، کاٹنا ، استیصال کرنا وغیرہ آتا ہے۔ یہاں پر کاٹنا یا استیصال کرنا زیادہ مناسب حال ہے ، مقصد یہ کہ ابتدائے جنگ میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں کفار پر غلبہ عطا کیا۔ حتی اذا فشلتم۔ حتی کہ جب تم بزدل ہوگئے۔ وتنازعتم فی الامر۔ اور تم نے آپس کے معاملہ میں جھگڑا کیا۔ یعنی بعض نے کہا کہ ہمیں اس پہاڑی پر قائم رہنا چاہئے۔ جب کہ دوسروں نے کہا کہ اب اس کی ضرورت نہیں ہے لہذا انہوں نے مورچہ چھوڑ دیا۔ جنگ کے موقع پہ اختلاف رائے ہی نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ پوری فوج کو یک جان ہو کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ آگے سورة انفال میں آئے گا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپس میں تنازعہ نہ کیا کرو۔ اس سے تفرقہ پڑ کر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے فوج بزدل ہوجاتی ہے۔ اس کی ہوا اکھڑ جاتی ہے۔ دشمن پر اس کا رعب ختم ہوجاتا ہے۔ لہذا جنگ کے دوران مکمل یک جہتی کی فضا برقرار رہنی چاہئے۔ غزوہ احد کے موقع پر یہ حالت برقرار نہ رہ سکی تین سو افراد کا گروہ مدینے سے روانگی کے وقت ہی علیحدہ ہوگیا تھا اس کے علاوہ مقام جنگ کے متعلق بھی مسلمانوں میں اختلاف رائے پیدا ہوا۔ کچھ لوگ شہر سے باہر نکل کر مقابلہ کرنا چاہتے تھے اور بعض دوسرے شہر کے اندر مورچہ بندی کرنا چاہتے تھے اور پھر آخری اختلاف یہ ہوا کہ حضور ﷺ کی مقرر کردہ پچاس تیر اندازوں کی جماعت اپنے مورچہ پر قائم نہ رہی۔ درحقیقت یہ حضور نبی کریم ﷺ کے حکم کی نافرمانی تھی۔ چناچہ اسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ وعصیتم۔ اور تم نے نافرمانی کی۔ من بعد ما اراکم ما تحبون۔ بعد اس کے کہ اللہ نے تمہیں وہ چیز دکھا دی جو تم پسند کرتے تھے ، تمہاری پسندیدہ چیز تو فتح تھی جو تم نے دیکھ لی۔ دشمن بھاگ رہا تھا اور تم مال غنیمت اکٹھا کر رہے تھے۔ اس کے بعد تم نے نافرمانی کی ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فوج میں ابتری پھیل گئی۔ اور تمہاری فتح شکست میں تبدیل ہوگئی۔ طلب دنیا اور طلب آخرت : فرمایا یہ صورت حال اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ منکم من یرید الدنیا۔ تم میں سے بعض لوگ ایسے تھے جو دنیا کے طالب تھے یہ انہی تیر اندازوں کی طرف اشارہ ہے ، جو مورچہ کو چھوڑ کر مال غنیمت اکٹھا کرنے لگے۔ مال غنیمت کے اسی تعاقب کو حصول دنیا سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ومنکم من یرید الاخرۃ۔ اور تم میں سے بعض دوسرے تھے جو آخرت کے طالب تھے۔ پچاس میں سے صرف دس گیارہ آدمی رہ گئے تھے جو حضور ﷺ کے حکم کی تعمیل میں مورچے پر قائم رہے اور شہید ہوگئے۔ بلاشبہ انہوں نے دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دی۔ یہی لوگ آخرت کا ارادہ کرنے والے تھے۔ فرمایا ثم صرفکم عنہم۔ پھر تم کو ان سے پھیر دیا۔ ابتداء میں تم کافروں پر غالب آ چکے تھے۔ کافروں کے ایک لشکر نے پیچھے سے حملہ کردیا اور دوسرے لشکر نے واپس پلٹ کر مسلمانوں کو گھیرے میں لے لیا۔ فرمایا یہ سب کچھ اس لیے ہوا۔ لیبتلیکم۔ تاکہ اللہ تعالیٰ تمہیں آزمائش میں ڈال دے۔ مقصد یہ کہ میدان احد میں کفار کا جو پلہ بھاری ہوگیا تھا۔ یہ مسلمانوں کی آزمائش تھی کہ وہ اس قسم کے نامساعد حالات میں میں بھی کس حد تک ثابت قدم رہتے ہیں۔ انسانوں کو اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا ہی پڑتا ہے۔ اس مقام پر بعض حضرات نے غلطی کھائی ہے کہ کیا بعض صحابہ کرام واقعی دنیا کے طالب تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ تمام صحابہ سچے اور مخلص اہل ایمان تھے ان میں محض دنیا کا طالب کوئی بھی نہیں تھا۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ مالک الملک ہے۔ وہ اپنے مقربین کی معمولی سی لغزش کا بھی نوٹس لیتا ہے۔ صحابہ کرام بڑے پائے کے ربی لوگ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس معمولی سی غلطی پر بھی انہیں آزمائش میں ڈال دیا۔ اس موقع پر ان کا مال غنیمت کا تعقاقب بھی محض دنیا کے لیے نہیں بلکہ آخرت ہی کے لیے تھا۔ شرعی قانون کے مطابق مال غنیمت میں سے ہر مجاہد کو حصہ ملتا ہے ، خواہ وہ خود اسے جمع کرے یا کوئی دوسرا یہ فرض انجام دیتا رہے۔ لہذا ان صحابہ کا مورچہ چھوڑ کر مال غنیمت جمع کرنا اس وجہ سے نہیں تھا۔ کہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو حصہ سے محروم ہوجائیں گے۔ بلکہ یہ فریضہ بھی وہ تمام مسلمانوں کے مشترکہ مقصد کی خاطر ہی ادا کر رہے تھے۔ لہذا مال غنیمت کے تعاقب کو طلب دنیا سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے۔ ان کے دوسرے ساتھی جو مورچے پر قائم رہے اور غنیمت کا کچھ خیال نہ کیا ، وہ دنیا کی طلب کے بغیر محض آخرت کے طالب تھے۔ گویا دونوں گروہ در حقیقت آخرت ہی کے طلبگار تھے۔ ایک گروہ دنیا کے راستے آخرت کا طالب تھا اور دوسرا براہ راست آخرت چاہتا تھا۔ دنیا سے رغبت کسی کو نہ تھی چونکہ اس وقت مال غنیمت سامنے موجود تھا ، اس لیے اسے طلب دنیا سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بایں ہمہ صحابہ کرام کی دنیا داری سے مراد وہ دنیا طلبی نہیں ہے جو ہماری اور بعد میں آنے والے لوگوں کی ہے۔ ہم لوگ دنیا کے خواہشمند بالذات ہیں جب کہ صحابہ کرام طالب دنیا بالذات نہیں تھے۔ بلکہ طالب بالعرض تھے یعنی آخرت کی خاطر دنیا کے طالب تھے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے اس پر بھی تنبیہ فرما دی۔ یہ ایک آزمائش تھی۔ غلطی معاف ہوگئی : اس آزمائش کے بعد فرمایا۔ ولقد عفا عنکم۔ اللہ تعالیٰ نے تمہاری غلطیوں کو معاف فرما دیا۔ ظاہر ہے کہ جسے اللہ معاف فرما دے ، وہ پاک ہوگیا۔ یہ غلطی کوئی قصداً یا عمداً نہیں ہوئی۔ بلکہ اجتہادی غلطی تھی جسے اللہ نے معاف کردیا۔ صحابہ کا مقصد یہ تھا کہ دشمن کو ڈرانا بھی ضروری ہے اور مال غنیمت اکٹھا کرنا بھی لازم ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل ہو۔ چناچہ اس بات پر اللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرما دی اور ساتھ تسلی بھی دے دی کہ اللہ نے تمہاری غلطی معاف کردی ہے کیونکہ واللہ ذو فضل علی المومنین۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان پر فضل کرنے والا ہے۔ مسلمانوں کی زبوں حالی : آگے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اس زبوں حالی کا تذکرہ فرمایا ہے۔ جب کہ وہ سخت افراتفری کے عالم میں مبتلا ہوگئے تھے۔ ارشاد ہے۔ اذ تصعدون۔ جب تم اوپر جا رہے تھے۔ صعود کا معنی اوپر چڑھنا بھی ہے اور دور چلے جانا بھی۔ مقصد یہ ہے کہ جب کفار نے تم پر دو طرف سے حملہ کردیا ، تو تم دباؤ میں آگئے اور ان کے سامنے ٹھہر نہ سکے۔ تم دور تک چلے گئے حتی کہ پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔ ولا تلون علی احد۔ کسی کی طرف توجہ نہیں کر رہے تھے۔ حالانکہ والرسول یدعوکم فی اخریکم ۔ اللہ کا رسول تمہیں پیچھے سے پکار رہا تھا۔ آپ فرما رہے تھے۔ الی یا عباد اللہ۔ اللہ کے بندو ! میری طرف آؤ، میں تو یہاں ہوں ، حضور ﷺ کی شہادت کی افواہ نے لوگوں میں سخت بد دلی پیدا کردی تھی۔ کافروں کا دباؤ پڑا۔ تو مسلمان بھاگ نکلے اور ان میں حضرت عثمان بھی شامل تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے سب کو معاف کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو یاد دلاتے ہوئے فرمایا۔ فاثابکم غما بغم۔ تمہیں غم پر غم دیا۔ ایک شکست کا غم ، دوسرے حضور ﷺ کی شہادت کا غم تھا فرمایا یہ آزمائش اس لیے ڈالی گئی تھی۔ لکیلا تحزنوا علی ما فاتکم۔ تاکہ تم اس چیز پر غم نہ کرو ، جو تم سے فوت ہوگئی ہے۔ یہ تو ابتلا تھی۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح کوئی استاذ اپنے شاگرد کی اصلاح کے لیے اسے سزا دیتا ہے مقصد تمہاری اصلاح تھا تاکہ آئندہ اس قسم کی غلطی سے بچ جاؤ۔ نیز فرمایا ایسی چیز پر بھی غمگین نہ ہو۔ ولا ما اصابکم۔ جو تم کو پہنچی ہے۔ یعنی جو تکلیف اور پریشانیاں تمہیں آئی ہیں۔ نہ ان پر زیادہ فکر مند ہو اور نہ اس چیز پر جو تمہارے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ یعنی اگر فتح حاصل نہیں ہوسکی۔ تو کوئی بات نہیں۔ فکر مت کرو۔ اللہ تعالیٰ آئندہ بہتر فتوحات عطا کرے گا۔ واللہ خبیر بما تعملون۔ اللہ تعالیٰ تمہارے تمام کاموں سے باخبر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات موجود ہے۔ کہ تمہاری غلطی محض اجتہادی غلطی تھی ، لہذا اللہ نے اس غلطی کو معاف کردیا آئندہ محتاط رہو۔ اہل اسلام اور کفار میں مکالمہ : مسلمانوں پر عقب سے حملہ ہونے کی وجہ سے جب یہ افواہ اڑ گئی کہ حضور نبی کریم ﷺ شہید ہوگئے ہیں اور لوگ بھاگ کھڑے ہوئے۔ تو اللہ کے رسول نے آواز دی کہ بھئی ! میں تو یہاں ہوں۔ پہلے تو کسی نے آپ کو پہچانا ہی نہیں۔ مگر بعد میں آپ کے صحابی حضرت کعب نے آپ کو پہچان لیا اور مسلمانوں کو آواز دی کہ اللہ کے رسول یہاں زندہ سلامت موجود ہیں۔ اس پر لوگ پھر آپ کے گروہ جمع ہوگئے۔ اس موقع پر ابوسفیان نے پکار کر کہا ابن ابی کبشہ کہاں ہے۔ قریش مکہ حضور ﷺ کو خاندان رضاعت کی بنا پر یہ لقب دیتے تھے۔ اور اس سے آپ کی (نعوذ باللہ) تحقیر مقصود ہوتی تھی۔ پھر ابو سفیان نے کہا ابن ابی قحافہ کہاں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی کنیت تھی۔ وہ سمجھا کہ سب شہید ہوگئے ہیں آگے سے کوئی جواب نہیں آ رہا ہے ہے۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے جواب دیا ، اللہ کے دشمن ! ہم سب یہاں موجود ہیں۔ اللہ کا رسول بھی ہے۔ ابوبکر بھی ہے اور میں عمر بھی ہوں۔ ابو سفیان نے نعرہ مارا ، اعل ھبل کی جے ، اس پر حضور ﷺ نے جوابی نعرہ لگایا۔ اللہ اعلی و اجل۔ اللہ ہی سب سے بڑا اور بزرگ ہے۔ ابوسفیان نے پھر کہا۔ لنا العزا ولا عزی لکم۔ ہمارا حامی عزی ہے۔ اور تمہارا کوئی عزی نہیں۔ آپ نے فرمایا۔ تم یوں کہو۔ اللہ مولانا ولا مولی لکم۔ ہمارا مولا اللہ ہے۔ اور تمہارا کوئی مولا نہیں۔ اس نے پھر کہا۔ کہ ہم نے تمہارے شہیدوں کے ناک کان کاٹ ڈالے ہیں۔ نہ میں نے اس کا حکم دیا ہے اور نہ میں اس پر ناراض ہوں۔ غرض میدان جنگ میں اس قسم کے مکالمے کا تبادلہ ہوا۔ مسلمانوں نے ان پر دوبارہ حملہ کیا اور وہ واپس لوٹ گئے۔ باقی تفصیلات اگلی آیات میں دو تین رکوع تک آئیں گی۔
Top