Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 159
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ١ۚ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ١۪ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ١ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَ
فَبِمَا
: پس۔ سے
رَحْمَةٍ
: رحمت
مِّنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
لِنْتَ
: نرم دل
لَھُمْ
: ان کے لیے
وَ
: اور
وَلَوْ كُنْتَ
: اگر آپ ہوتے
فَظًّا
: تند خو
غَلِيْظَ الْقَلْبِ
: سخت دل
لَانْفَضُّوْا
: تو وہ منتشر ہوجاتے
مِنْ
: سے
حَوْلِكَ
: آپ کے پاس
فَاعْفُ
: پس آپ معاف کردیں
عَنْھُمْ
: ان سے (انہیں)
وَاسْتَغْفِرْ
: اور بخشش مانگیں
لَھُمْ
: ان کے لیے
وَشَاوِرْھُمْ
: اور مشورہ کریں ان سے
فِي
: میں
الْاَمْرِ
: کام
فَاِذَا
: پھر جب
عَزَمْتَ
: آپ ارادہ کرلیں
فَتَوَكَّلْ
: تو بھروسہ کریں
عَلَي اللّٰهِ
: اللہ پر
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
يُحِبُّ
: دوست رکھتا ہے
الْمُتَوَكِّلِيْنَ
: بھروسہ کرنے والے
پس اللہ کی رحمت سے آپ ان کے لیے نرم خو ہیں۔ اور اگر آپ سخت مزاج اور تنگ دل ہوتے ، تو یہ لوگ آپ کے اردگرد سے پراگندہ ہوجاتے ہیں پس ان کو معاف کردیں اور ان کے لیے اللہ سے بخشش مانگیں اور معاملے میں ان سے مشورہ کریں۔ پس جب آپ نے پختہ ارادہ کرلیا ، تو اللہ پر بھروسہ کریں۔ بیشک اللہ تعالیٰ بھروسہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو خبردار کیا کہ کافروں کے ساتھ مشابہت نہ کریں۔ وہ تمہیں بزدل بنا کر دین اسلام سے برگشتہ کرنا چاہتے ہیں۔ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ جہاد میں شریک ہونے والا لازماً ہی شہید نہیں ہوگا ، بلکہ اگر اس کی زندگی باقی ہے ، تو وہ میدان جنگ سے بھی زندہ سلامت واپس آئے گا۔ اور جس شخص کی موت لکھی جا چکی ہے وہ اگر اپنے گھر میں بھی بیٹھا ہوگا تو عین موقع پر اپنی قتل گاہ پر پہنچ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ بھی یاد دلایا کہ اگر وہ راہ خداوندی میں شہید ہوگئے تو اللہ کی مہربانی ان کے شامل حال ہوگی۔ اور دنیا کے اس مال و متاع سے بہتر ہوگی جسے لوگ زندگی بھر اکٹھا کرتے رہتے ہیں۔ فرمایا کوئی طبعی موت مرے یا راہ حق میں شہید ہوجائے ، سب کو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اکٹھا ہونا ہے ، جہاں تمہاری بہتری کے وافر سامان موجود ہیں۔ لہذا موت سے گبھرانا نہیں چاہئے۔ اب آج کے درس کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب (علیہ السلام) کی تعریف فرمائی ہے۔ کہ اللہ کے فضل سے آپ نہایت ہی نرم دل ، شفیق اور مہربان ہیں۔ اپنے صحابہ کے ساتھ حسن سلوک فرماتے ہیں۔ غزوہ احد کے موقع پر انہوں نے غلطی ضرور کی۔ جس کی وجہ سے بہت سی تکلیف اٹھانا پڑی۔ مگر بہرحال یہ لوگ مخلص تھے۔ آپ ان کی غلطیوں کی اصلاح فرمائیں اور آپ تنگ دل ہو کر ان پر ناراض نہ ہوں۔ اگر ایسا ہوا تو دین کی ترقی رک جائے گی اور مسلمانوں کی جو تھوڑی سی جماعت قائم ہوگئی ہے۔ اس کے ٹوٹ جانے کا مزہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے اخلاق حمیدہ اور اپنی خصوصی عنایت کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد ہے۔ فبما رحمۃ من اللہ۔ پس اللہ کی رحمت کے سبب۔ لنت لھم۔ آپ ان کے لیے نرم ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہے۔ کہ آپ کو اپنے صحابہ کے لیے نرم بنایا۔ یہاں پر فبما میں مَا زاید ہے۔ عربی زبان میں یہ تاکید کے لیے آتا ہے اور اس کی مثالیں قرآن پاک میں مختلف مقامات پر موجود ہیں۔ جیسے فبما نقضھم میثاقھم۔ پس بہ سبب بنی اسرائیل کے عہد و پیمان توڑنے کے ہم نے ان پر سختیاں کیں اور ان کو گرفت میں لیا۔ عربی کا مشہور شاعر اعشیٰ بھی اپنے کلام میں ما کا لفظ انہی معنوں میں استعمال کرتا ہے۔ اذھبی ما الیک ادرکنی الحلم عدانی عن ھیجکم اشفاقی جاؤ اب میرے اندر بربداری آگئی ہے۔ تم جس شوق و محبت سے مجھے ابھارتی تھی وہ اب مجھ سے دور ہوگئی۔ مجھے خود بھی خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ بہرحال یہ ، ما ، تاکیدی ہے۔ اگر اس کو درمیان سے ہٹا بھی دیا جائے تو معنی میں خاص فرق نہیں آئے گا۔ جیسے فبرحمۃ من اللہ۔ اللہ کی مہربانی سے ، لنت لھم ، آپ ان کے لیے نرم ہیں۔ ولو کنت فظا۔ اور اگر آپ تند خو ہوتے یا سخت مزاج ہوتے ، یا پھر غلیظ القلب ، تنگ دل ہوتے۔ لانفضوا من حولک۔ تو یہ لوگ آپ کے ارد گرد سے پراگندہ ہوجاتے۔ یہ اللہ کا فضل عظیم ہے کہ آپ عالی اخلاق اور نرم مزاج ہیں۔ آپ کی رحم دلی کا یہ عالم ہے۔ کہ غزوہ احد میں جلیل القدر صحابہ کے تتر بتر ہوجانے کے باوجود آپ نے ان کو ملامت نہیں کی اور نہ ان سے سختی سے پیش آئے۔ آپ نے ہر ممکن حد تک صحابہ کی اصلاح فرمائی ہے۔ اگر آپ دنیوی سلاطین کی طرح صاحب اقتدار ہوتے تو صحابہ کی اس غلطی کا سختی سے نوٹس لیتے اور ان کو سرزنش کرتے۔ مگر ایسی کوئی بات نہیں ہوئی ، کیونکہ آپ نرم دل اور شائستہ مزاج تھے۔ اگر آپ میں یہ عالی ظرفی نہ ہوتی ، تو لوگ آپ کے گرد جمع نہ ہوتے۔ بخشش ، معافی اور مشورہ : اس بات کا امکان تھا کہ حضور ﷺ کے دل میں کچھ رنجش باقی رہتی کہ صحابہ کرام نے خلاف توقع عمل کیوں کیا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے سفارش کردی فاعف عنھم۔ اے نبی کریم ! اپنے صحابہ کی یہ لغزش معاف کردیں دل میں ان کے متعلق کسی قسم کا رنج نہ رکھیں بلکہ واستغفرلھم ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کریں۔ ظاہر ہے کہ جس شخص کے لیے اللہ کا رسول بخشش طلب کرے گا۔ وہ ضرور فائز المرام ہوگا۔ اس بات کا بھی امکان تھا کہ حضور ﷺ کے دل میں کوئی رنج تو باقی نہ رہے ، مگر ان کی لغزش کی وجہ سے آئندہ آپ صحابہ سے مشورہ ہی نہ کیا کریں۔ جیسے غزوہ احد کے موقع پر کیا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں بھی صاف فرما دیا۔ وشاورھم فی الامر۔ اور معاملات میں ان سے مشورہ فرما لیا کریں۔ حضور ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ جنگ یا دیگر معاملات میں صحابہ سے مشورہ کرلیا کرتے تھے۔ ہاں مشورہ کی ضرورت ان امور میں پیش آتی تھی جن میں وحی الہی کے ذریعے واضح حکم موجود نہیں ہوتا ہے کیونکہ جہاں اللہ کا حکم موجود ہو۔ وہاں اس کا اتباع لازم ہے ، جیسا کہ نماز ، روزہ ، زکوۃ وغیرہ جیسے فرائض میں احکام الہی کا اتباع ضروری ہوتا ہے۔ اور اگر وحی نہ آئے تو پھر پیغمبر (علیہ السلام) اجتہاد بھی کرتے ہیں اور مشورہ بھی افک کے معاملہ میں مہینہ بھر وحی نہ آنے کی وجہ سے آپ پریشان تھے۔ آپ مننبر پر کھڑے ہو کر فرماتے تھے۔ یا ایھا الناس اشیروا علی۔ لوگو ! مجھے مشورہ دو کہ اس معاملہ میں کیا کرنا چاہئے ، میں نے تو اپنی بیوی میں کوئی برائی نہیں دیکھی مگر بعض لوگ برائی کا خیال ظاہر کرتے ہیں۔ پھر جب وحی نازل ہوگئی تو سارے اتہام اور بہتان ختم ہوگئے ، آپ کی تسلی ہوگئی اور مجرموں کو سزا دی گئی۔ منافقوں کو ہمیشہ کے لیے جہنمی قرار دے دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ کے متعلق دو رکوع نازل فرمائے۔ مشاورت کی مثالیں : حضور ﷺ نے بہت سے معاملات میں اپنے صحابہ کرام سے مشورہ کیا۔ غزوہ خندق کے موقع پر خندق کھودنے کا مشورہ سلمان فارسی نے دیا تھا۔ انہوں نے عرض کیا حضور ! میں نے اپنے ملک میں دیکھا ہے کہ جب دشمن ہجوم کرتا ہے۔ تو بسا اوقات اپنے شہروں اور بستیوں کے ارد گرد خندق کھود کر دفاع کیا جاتا ہے۔ آپ نے اس مشورہ کو شرف قبولیت بخشا اور خندق کھود کر دفاع کیا جاتا ہے۔ آپ نے اس مشورہ کو شرفِ قبولیت بخشا اور خندق کھودنے کا حکم دیا۔ چناچہ مدینہ کی تین اطراف میں خندق کھود دیا گیا۔ اور ایک طرف خود دشمن کا دفاع کیا۔ مجاہدین صرف تین چار ہزار تھے۔ جب کہ مقابلے میں پچیس ہزار کا جم غفیر تھا۔ مشرکین نے بڑی تیاری اور سازو سامان کے ساتھ حملہ کیا مگر ناکام رہے آپ نے فرمایا ، مشرکوں کا یہ آخری حملہ تھا ، آئندہ وہ حملہ کرنے کی جرات نہیں کریں گے بلکہ اللہ کے فضل و کرم سے ہم ہی ان پر حملہ آور ہوں گے۔ اسی جنگ کے دوران جب دشمن کا دباؤ زیادہ بڑھ گیا تو حضور ﷺ کا خیال ہوا کہ قبیلہ غطفان کے بعض سرداروں سے معاہدہ کرلیا جائے۔ آپ کا خیال تھا کہ مدینے کے درختوں کی آمدنی یا پھل کا کچھ اس قبیلہ کو پیش کردیا جائے اور اس کے بدلے میں ان سے عہد لیا جائے کہ وہ مشرکوں کا ساتھ نہ دیں۔ معاملہ بڑا ہی نازک تھا۔ خطرے کی وجہ سے مسلمانوں کے دل اچھل کر گلے تک آ رہے تھے۔ اس منظر کو اللہ تعالیٰ نے سورة احزاب یوں بیان فرمایا۔ بلغت القلوب الحناجر۔ اس تمام تر دباؤ کے باوجود مدینے کے انصار صحابہ حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے حضور ﷺ کی رائے سے اتفاق نہ کیا بلکہ عرض کیا ، حضور ! ہم اپنے دفاع کی سر توڑ کوشش کریں ، ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے بہتری کا سامان پیدا کرے گا ، مگر مدینے کی آمدنی کا کچھ حسہ قبیلہ غطفان کو دینا منظور نہیں ہے۔ حضور ﷺ نے ان صحابہ کی رائے سے اتفاق کیا۔ آپ نے مجوزہ معاہدہ نہ کیا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کی مدد فرمائی اور مشرک ناکام و نامراد واپس لوٹ گئے۔ اسی طرح غزوہ بدر کے موقع پر حباب بن منذر نے مشورہ دیا تھا کہ اگر ہم فلاں مقام پر پڑاؤ کریں تو ہمیں پانی اور دیگر ضروریات کے حصول میں سہولت رے گی آپ نے اس رائے کو قبول فرماتے ہوئے اسی مقام پر ڈیرا جمایا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں بھی مسلمانوں کی مدد فرمائی اور انہیں فتح عظیم سے نوازا۔ غرضیکہ اس قسم کے اور بھی بہت سے واقعات ہیں جن میں نبی کریم (علیہ السلام) نے صحابہ سے مشورہ فرمایا۔ جب اللہ تعالیٰ کا واضح حکم بذریعہ وحی نہیں ملتا تھا تو آپ مشورہ بھی کرتے تھے اور اجتہاد بھی فرماتے تھے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے مشورہ کا قانون بھی سمجھا دیا۔ مشورہ کی فقہی حیثیت : مشورے کی فقہی حیثیت کے متعلق بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں۔ کہ یہ نبی (علیہ السلام) کے لیے مستحب تھا۔ مگر بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں۔ کہ ۔ شاورھم۔ امر کا صیغہ ہے۔ لہذا حضور ﷺ کا صحابہ سے مشورہ فرمانا وجوب کا درجہ رکھتا ہے۔ جو حضرات مستحب ہونے کے قائل ہیں وہ فرماتے ہیں کہ آپ کے لیے مشورہ کرنا ضروری نہیں تھا۔ بلکہ صحابہ کرام کی طیب خاطر کے لیے تھا۔ امام ابوبکر جصاص (رح) بہت بڑے مفسر قرآن ہوئے ہیں۔ انہوں نے قرآن کے احکام پر عظیم کتاب لکھی جس میں صرف احکام پر بحث کی گئی ہے۔ آپ حنفی امام تھے ، رئی کے رہنے والے تھے۔ یہ علاقہ بڑا مردم خیز خطہ ہو۔ جس میں امام عبدالقادر رازی ، عبداللہ بن مبارک ، امام فخر الدین رازی رحمہم اللہ وغیرہ ہوئے ہیں۔ امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ شاورھم کا حکم وجوبی ہے۔ جس معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل نہ ہو اس معاملہ میں حضور کا صحابہ سے مشورہ کرنا واجب تھا۔ البتہ یہ بات قابل غور ہے کہ مشورہ کن صحابہ سے کیا جائے۔ ہر شخص تو مشورہ دینے کا اہل نہیں ہوتا۔ اس کا الگ قانون موجود ہے۔ تاہم حضور ﷺ اکثر معاملات میں کبار صحابہ سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ آپ نے بدر کے قیدیوں کے متعلق مشورہ کیا اور پھر حضرت ابوبکر صدیق کی رائے کو تسلیم کیا اگرچہ حضرت عمر ؓ کی رائے مختلف تھی۔ مسند احمد کی حدیث میں یہ الفاظ آتے ہیں۔ کہ حضور ﷺ نے حضرت صدیق اکبر اور عمر فاروق سے فرمایا لوجتمعتما ما خالفتکما۔ اگر تم دونوں کسی معاملہ میں متفق ہوجاؤ۔ تو میں تمہارے خلاف نہیں کروں گا۔ یعنی تمہاری رائے کو اختیار کرلوں گا۔ شیخان اور بعض دوسرے صحابہ نہایت ثقہ لوگ تھے ، صاحب فہم ، موقع شناس اور سمجھدار تھے۔ لہذا آپ ایسے ہی لوگوں سے مشورہ فرمایا کرتے۔ غرضیکہ اکثریت کی رائے یہ ہے کہ مشورہ کا حکم وجوبی ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی (رح) بھی فرماتے ہیں کہ مشاورت واجب ہے اور یہ صائب الرائے لوگوں سے ہونی چاہئے۔ مگر آج کے مسلمان امرا ، ملوک اور سلاطین صحیح لوگوں سے مشورہ کرنا ترک کرچکے ہیں۔ برخلاف اس کے من مانی کارروائیاں کر رہے ہیں جس کی وجہ سے قوم و ملت کو بڑا نقصان پہنچا ہے۔ جب خود پیغمبر ﷺ مشورہ کرنے کے پابند تھے۔ تو کسی حاکم کو یہ حق نہیں پہنچتا وہ اصحاب حل وعقد سے مشورہ کیے بغیر اپنی خواہشات نفسانیہ کے پیچھے چلتا رہے۔ ہماری تاریخ میں بنو عباس کے زمانے سے یہ مصیبت چلی آ رہی ہے۔ کہ ملوک مشورہ سے معاملہ سلجھانے کی بجائے من مانی کرتے ہیں۔ اور اگر مشیر رکھے ہوئے ہیں تو ایسے جو محض ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے ہوں ، جو کچھ صاحب اقتدار نے کہہ دیا انہوں نے اس پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ یہی چیز قوم کو تباہی کی طرف لے جانے والی ہے۔ حضرت علی ؓ کی روایت میں آتا ہے۔ کہ انہوں نے حضور نبی کریم ﷺ سے عرض کیا ، حضور ! جو بات ہمیں قرآن و سنت میں نہ مل سکے اس کے متعلق کیا طریقہ اختیار کیا جائے آپ نے فرمایا شاوروا فقھاء العابدین۔ یعنی دین میں سمجھ رکھنے والے اور نیک لوگوں سے مشورہ کیا کرو ولا تمضوا رایۃ الخاصۃ اور کسی خاص ا کے د کے کی بات کو نہ مانو کسی فاجر فاسق کو اپنا مشیر نہ بناؤ بلکہ نیک اور صالح لوگوں سے مشورہ کیا کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں میں برکت ڈالے گا۔ نانی کی وراثت کا کا مسئلہ پیدا ہوا تو حضرت صدیق اکبر ؓ نے فرمایا اس کا حل میں قرآن و سنت میں تو نہیں پاتا لہذا لوگوں سے مشورہ کروں گا۔ آپ نے اس کے لیے اعلان فرمایا۔ پھر جس کے پاس علم تھا اس نے آکر گواہی دی تو معاملہ طے ہوا۔ اسی طرح حضرت عمر ؓ بھی اہل لوگوں سے مشورہ کیا کرتے تھے حتی کہ بعض معاملات میں عورتوں کی رائے بھی لے لیتے تھے۔ الغرض ! اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم رؤوف الرحیم سے فرمایا کہ آپ ایسے معاملات میں مشورہ کرلیا کریں۔ فاذا عزمت۔ پھر جب آپ پختہ ارادہ کرلیں۔ آپ معاملہ کے متعلق کسی نتیجہ پر پہنچ جائیں مشورہ کے ذریعے کوئی بات طے ہوجائے۔ فتوکل علی اللہ۔ تو اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس معاملہ میں عمل پیرا ہوجائیں اور کوئی حکم ہو تو اس کو جاری کردیں۔ اس سے مفسرین کرام نے قانون اخذ کیا ہے کہ اگر کسی معاملہ میں آراء مختلف ہوں تو پھر امیر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اکثریت کے فیصلہ کو قبول کرے یا قلیت کی رائے کو تسلیم کرتے ہوئے اپنا آخری فیصلہ جاری کردے۔ عام دنیوی امور میں کثرت رائے کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے۔ مگر اسلام کا اصول یہ ہے کہ اگر کوئی معاملہ اتفاق رائے سے طے ہوتا ہے تو اسے بعینہ تسلیم کرلیا جائے اور اگر اس میں اختلاف رائے واقع ہوجائے تو پھر امیر اپنی صوابدید سے اکثریت یا اقلیت میں سے کوئی بھی رائے تسلیم کرکے فیصلہ دے سکتا ہے وہ کثرت رائے کو تسلیم کرنے کا پابند نہیں ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ اے نبی کریم ! جب آپ کسی کام کا پختہ ارادہ کرلیں ، تو پھر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے۔ اس کو پایہ تکمیل پر پہنچا دیں۔ کیونکہ معاملہ جنگ کا ہو یا کوئی اور ہو اس کا بناؤ یا بگاڑ اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ وہ مسبب الاسباب ہے۔ آپ اس کے بھروسہ پر کام شروع کردیں کیونکہ ان اللہ یحب المتوکلین۔ بیشک اللہ تعالیٰ انہی کو پسند فرماتا ہے جو اس پر بھروسہ کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ متوکل علی اللہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنے معبود حقیقی کو پہچانتے ہیں۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے دوسرا قانون یہ بیان فرمایا۔ ان ینصرکم اللہ فلا غالب لکم۔ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد فرمائے گا تو کوئی دوسرا تم پر غالب نہیں آسکتا۔ اللہ تعالیٰ نیکی کے کاموں میں مدد کرے گا۔ فسق و فجور ، عیاشی ، فحاشی اور فیشن کے کاموں میں مدد نہیں کرے گا اور نہ وہ ایسے لوگوں کو غالب کرے گا۔ اور دوسری بات یہ۔ وان یخذلکم۔ اور اگر وہ تم کو رسوا کردے۔ اور وہ برائی ، بیحیائی ، ظلم اور کفر کرنے والوں کو ذلیل و خوار بھی کردیتا ہے۔ اگر ایسی صورت پیدا ہوجائے تو فرمایا یاد رکھو ! فمن ذالذی ینصرکم من بعدہ۔ پھر اس کے سوا تمہاری کون مدد کرے گا۔ کوئی بڑے سے بڑا حاکم بادشاہ یا ڈکٹیٹر کوئی بھی ہو تمہاری مدد کو نہیں پہنچ سکتا کیونکہ احکم الحاکمین نے تمہاری مدد روک لی ہے اور اس سے بڑی سپر پاور اور کوئی نہیں جو اس کے حکم اور ارادے کو بھی چیلنج کرسکے ، لہذا تمہین اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہوگا ، اس کی مشیت کے خلاف کوئی بھی تمہاری مدد کو نہیں پہنچے گا۔ فرمایا جب یہ اصول اٹل ہے تو پھر یہ بھی حقیقت ہے۔ وعلی اللہ فلیتوکل المومنون۔ کہ جن لوگوں کے دل نور ایمان سے منور ہیں وہ اللہ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ وہ ادھر ادھر اندھیرے میں ٹکریں نہیں مارتے۔ غیر اللہ کے دروازوں پر نہیں جاتے بلکہ فقط اسی ذات وحدہ لاشریک پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے معاملات اسی کے سپرد کردیتے ہیں۔
Top