Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 181
لَقَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ فَقِیْرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِیَآءُ١ۘ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوْا وَ قَتْلَهُمُ الْاَنْۢبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ١ۙ وَّ نَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ
لَقَدْ سَمِعَ : البتہ سن لیا اللّٰهُ : اللہ قَوْلَ : قول (بات) الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے قَالُوْٓا : کہا اِنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ فَقِيْرٌ : فقیر وَّنَحْنُ : اور ہم اَغْنِيَآءُ : مالدار سَنَكْتُبُ : اب ہم لکھ رکھیں گے مَا قَالُوْا : جو انہوں نے کہا وَقَتْلَھُمُ : اور ان کا قتل کرنا الْاَنْۢبِيَآءَ : نبی (جمع) بِغَيْرِ حَقٍّ : ناحق وَّنَقُوْلُ : اور ہم کہیں گے ذُوْقُوْا : تم چکھو عَذَابَ : عذاب الْحَرِيْقِ : جلانے والا
البتہ تحقیق اللہ نے ان لوگوں کی بات سنی ہے جنہوں نے کہا کہ بیشک اللہ تعالیٰ فقیر ہے اور ہم مالدار ہیں۔ ہم ضرور لکھیں گے اس چیز کو جو انہوں نے کہی ہے۔ اور ان کا اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کرنا بھی۔ اور پھر ہم (جزائے عمل کے وقت) کہیں گے کہ چکھو جلانے والے عذاب کا مزہ۔
شان نزول : اس سے پہلے درس میں یہودیوں کے بخل کا تذکرہ ہوچکا ہے۔ آج کی آیات بھی اسی سلسلہ سے متعلق ہیں۔ یہ تو معلوم ہے کہ حجور نبی کریم (علیہ السلام) کی ہجرت مدینہ کے وقت خود مدینہ طیبہ اور اس کے ارد گرد یہودی کثیر تعداد میں آباد تھے۔ خیبر یہودیوں کا خاص گڑھ تھا۔ اس کے علاوہ جوار مدینہ میں بنی قریظہ ، بنی نضیر اور بنی قینقاع کی بستیاں تین تین چار میل کے فاصلے پر آباد تھیں۔ ان آیات کے شان نزول کے متعلق جو واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ اسے امام بیضاوی ، صاحب تفسیر مظہری اور ابن جریر وغیرہ نے محمد بن اسحاق مورخ کی روایت سے نقل کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق کو دعوت اسلام کا پیغام دے کر بنی قینقاع کی طرف بھیجا۔ یہ دعوت نامہ بایں مضمون تھا کہ اتقوا اللہ ۔ یعنی اللہ سے ڈر جاؤ۔ ایمان لے آؤ کیونکہ تم جانتے ہو کہ محمد رسول اللہ ﷺ اللہ کے برحق رسول ہیں اور اس بات کی گواہی خود تمہاری کتب میں موجود ہے۔ الذی یجدونہ مکتوبا عندھم فی التوراۃ والانجیل۔ نیز یہ بھی کہ نماز قائم کرو ، زکوۃ ادا کرو۔ واقرضوا اللہ قرضا حسنا۔ اور اللہ کو قرض حسن دو ۔ حضرت صدیق اکبر یہ مکتوب لے کر بنی قینقاع کے ہاں پہنچے اس وقت یہودیوں کا بڑٓ عالم فنحاص بن عازوراء بیت المدراس میں تعلیم دے رہا تھا۔ حضور ﷺ کا مکتوب پڑھ کر کہنے لگا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا فقیر ہے اور ہم مالدار ہیں۔ اسی لیے تو وہ ہم سے قرضہ طلب کرتا ہے (العیاذ باللہ) ۔ یہودی عالم نے یہ بھی کہا کہ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر سود حرام کیا ہے اور ہمارے لیے جائز بنایا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق یہ سن کر برداشت نہ کرسکے اور اس یہودی عالم کے تھپڑ دے مارا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر ہمارے اور تمہارے درمیان معاہدہ حائل نہ ہوتا تو میں تلوار سے تمہارا کام تمام کردیتا۔ روایت میں آتا ہے کہ فنحاص بن عازوراء نے حضور نبی کریم ﷺ سے شکایت کی کہ حضرت ابوبکر صدیق نے اس کے ساتھ زیادتی کی ہے آپ کے دریافت کرنے پر صدیق اکبر نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! اس شخص نے اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کی تھی ، کہتا تھا ، ان اللہ فقیر و نحن اغنیاء ۔ یعنی اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں۔ اللہ ہم سے قرض مانگتا ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہود کی اس گستاخی کا جواب دیا ہے۔ قرض حسن : جہاں تک اللہ کو قرض حسن دینے کی بات ہے۔ اسے یہودی اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے نہ سمجھ سکے۔ اللہ تعالیٰ نہ تو فقیر ہے (نعوذ باللہ) اور نہ اسے اپنی مخلوق سے قرض کی ضرورت ہے۔ اس نے جس قرض حسن کا ذکر کیا ہے۔ اس سے مراد یتیموں ، مسکینوں ، بیواؤ اور دیگر مستحقین پر خرچ کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا مقصود یہ ہے۔ کہ تم اپنے مال میں سے مستحقین پر خرچ کرو۔ اور اس کا اجر مجھ سے وصول کرلو۔ فرمایا۔ من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسنا فیضعفہ لہ۔ جو اللہ کو قرض دے گا۔ میں اس کا دگنا چوگنا اجر عطا کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے راستے میں خرچ کرنے والوں کو یقین دلایا ہے۔ کہ تمہارا خرچ کیا ہوا مال ضائع نہیں جائے گا۔ بلکہ اس کے عوض میں تمہیں بڑھا چڑھا کر عطا کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ تو غنی ہے اس کے سامنے تمام مخلوق مھتاج ہے۔ جیسا کہ اس کا اپنا ارشاد ہے۔ یا ایہا الناس انتم الفقراء الی اللہ۔ واللہ ھو الغنی الحمید۔ اس کی ذات بےنیاز ہے اور تم سب اس کے سامنے فقیر اور محتاج ہو۔ حلال و حرام کی حکمت : یہاں پر یہ بات سمجھ لینی چاہئے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے حلت و ھرم کے جتنے احکام نازل فرمائے ہیں وہ سب انسانوں ہی کے فائدے کے لیے ہیں یا ان کے نقصان سے بچنے کے لیے ہیں۔ لوگ جس قدر صدقہ خیرات کرتے ہیں یا زکوۃ ادا کرتے ہیں ، ان میں سے اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی چیز نہیں جاتی اور نہ ہی اس کو ان چیزوں کی ضرورت ہے۔ وہ تو غنی ہے۔ اس میں باقی انسانوں کے لیے فائدے ہیں۔ امیر آدمی کے صدقہ خیرات سے محتاج کی پرورش ہوجاتی ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ نے آپس میں ہمدردی اور غمگساری کا ذریعہ پیدا فرما دیا ہے اس سے پاکیزہ جذبات پیدا ہوتے ہیں اور انسان کو تہذیب نفس حاصل ہوتی ہے۔ اس سے انسان کے اخلاق کی تکمیل ہوتی ہے۔ یہ چیزیں بہرحال بنی نوع انسان کے لیے مفید ہوتی ہیں۔ اسی طرح اللہ جل جلالہ نے جن چیزوں کو حرام ٹھہرایا ہے۔ ان میں لوگوں کے لیے نقصانات ہیں۔ اول تو کوئی نہ کوئی جسمانی نقصان ہوگا ، وگرنہ روحانی نقصان تو لازمی ہوگا ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو انسانوں کے لیے حرام قرار دے دیا ہے۔ یہود کی گستاخیاں : یہودیوں نے حرص اور بخل کی وجہ سے اللہ جل شانہ کی شان میں بہت سی گستاخیاں کیں جن کا تذکرہ قرآن پاک میں ملتا ہے۔ جب ان بدبختوں کو مالی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تو کہنے لگے۔ یداللہ مغلولۃ۔ خدا تعالیٰ کے ہاتھ جکڑے گئے ہیں وہ ہم پر فیاضی نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا۔ غلت ایدیھم ولعنوا۔ ان بےنصیبوں کے اپنے ہاتھ جکڑے ہوئے ہیں اور ان پر اللہ کی لعنت برس رہی ہے۔ فرمایا۔ بل یدہ مبسوطتان۔ بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ تو کشادہ ہیں۔ وہ تو اپنی فیاضی کی بارش نازل فرما رہا ہے۔ وہ جس طریقے سے چاہے خرچ کرتا ہے ، اس کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہودی کفر کے کلمات بول کر گستاخی کا ارتکاب کر رہے ہیں اور بےادبی میں مبتلا ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے کا واقعہ سورة بقرہ میں بیان ہوچکا ہے۔ انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا۔ لنل نومن لک حتی نری اللہ جھرۃ۔ ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے حتی کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی ان کھلی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس گستاخی کی فوراً سزا دی اور وہ گرفت میں آگئے۔ آج کے درس کی آیت کریمہ میں بھی یہودیوں کی گستاخی کا تزکرہ کرتے ہوئے فرمایا۔ لقد سمع اللہ قول الذین قالوا ان اللہ فقیر و نحن اغنیاء۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی بات سن لی جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ (معاذ اللہ) فقیر ہے اور ہم غنی ہیں۔ فرمایا یہودیوں کے اس گستاخانہ کلام کا بدلہ یہ ہے کہ سنکتب ما قالوا۔ ہم اس بات کو ضرور لکھ لیں گے۔ اللہ تعالیٰ تو علیم کل ہے اسے لکھنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ہر چیز اس کے علم میں ہے۔ تاہم انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ان کی یہ بات لکھ لی جائیگی۔ اور دفرت میں محفوظ ہوجائیگی۔ پھر حساب کتاب کے دن لاکر ان کے سامنے رکھ دی جائیگی۔ تاکہ وہ اس کا انکار نہ کرسکیں۔ قتل انبیاء : اس گستاخی کے علاوہ یہودیوں کی ایک بہت بری خصلت ناحق قتل انبیاء ہے فرمایا۔ و قتلھم الانبیاء بغیر حق۔ ان کی جانب سے اللہ کے نبیوں کا ناحق قتل بھی ہم نے لکھ رکھا ہے۔ ہم اس کی بھی ان کو ضرور سزا دیں گے۔ نبی کا قتل تو یقیناً ناحق ہوتا ہے۔ بلکہ کسی عام مسلمان کا قتل ناحق بھی اکبر الکبائر میں سے ہے۔ اور بدترین جرم ہے۔ تاہم یہاں پر لفظ بغیر حق سے مراد یہ ہے۔ کہ انبیاء کا قتل خود ان قاتلین کے نزدیک بھی ناحق تھا۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے سخت سزا کا مستحق وہ شخص ہوگا۔ جس نے اللہ کے نبی کو شہید کیا ہوگا۔ یا وہ شخص سب سے زیادہ ملعون ہوگا۔ جسے اللہ کا نبی قتل کردے۔ ایسے شخص کی مثال ابی بن خلف کی ہے۔ جو غزوہ اھد میں نبی (علیہ السلام) کے نیزہ کی زد میں آکر جہنم واصل ہوا تھا۔ بنی اسرائیل کے قتل کا ذکر تو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جگہ جگہ کیا ہے خود حضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں بھی یہودیوں نے نبی (علیہ السلام) کو شہید کرنے کی کئی مذموم کوششیں کیں۔ خیبر میں آپ کو زہر دیا گیا مگر اللہ نے آپ کو محفوظ رکھا۔ پھر بنی نضیر کے علاقے میں دیوار کے اوپر سے آپ (علیہ السلام) پر پتھر گرانے کی سعی لاحاصل کی گئی۔ یہ لوگ اپنے آباء و اجداد کے ان قبیح کارناموں کو نظر استحسان دیکھتے تھے اور ان پر فخر کرتے تھے۔ اگرچہ حضور ﷺ کے زمانے کے یہودی قاتلین انبیاء کے صدیوں بعد آئے مگر اپنے سابقین کی برائی کی حمایت کرنے کی وجہ سے یہ اس قتل ناحق میں شریک سمجھے گئے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ کہ ایک شخص بالفعل برائی نہیں کرتا ، مگر برائی کرنے والے کو دل سے اچھا سمجھتا ہے ، تو وہ بھی برائی کرنے والے کے ساتھ شامل سمجھا جائے گا۔ البتہ ایسا شخص جو اپنے سامنے برائی ہوتی دیکھ کر دل سے برا مناتا ہے ، تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ گستاخی کی سزا : ان گستاخیوں کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا۔ وتقول ذوقوا عذاب الحریق۔ اور پھر ہم اجزائے عمل کے وقت کہیں گے جلانے والے عذاب کا مزہ چکھو۔ تم خدا تعالیٰ کی شان میں بےہودہ کلمات بولتے تھے کہ خدا فقیر ہوگیا ہے جو ہم سے قرض مانگتا ہے۔ لو آج اس گستاخی کی سزا بھگت لو۔ فرمایا ہماری سخت سزا تمہارے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی۔ بلکہ ذلک بما قدمت ایدیکم۔ یہ اس وجہ سے ہے جو کچھ تمہارے ہاتھوں نے آگے بھیجا۔ تم نے دنیا میں جس قسم کے اعمال انجام دیے یہ انہی کا بدلہ ہے۔ سورة بقرہ میں بھی گزر چکا ہے۔ لھا ما کسبت وعلیھا ما اکتسبت۔ تمہاری اپنی ہی کمائی تمہارے سامنے آئے گی۔ یہ تمہاری بد اعمالیوں کا صلہ ہے۔ جو تمہیں مل رہا ہے۔ اور یاد رکھو ! وان اللہ لیس بظلام للعبید۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کرتا ، وہ تو انصاف کرنے والا ہے۔ رحیم و کریم ہے۔ یہاں پر ظلام مبالغہ کا صیغہ ہے اور معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بالک ظلم نہیں کرتا یا ذرہ بھر بھی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرتا۔ مگر انسان خود اپنی نافرمانی ، بدا عتقادی ، بد اعمالی اور معاصی کی وجہ سے شدید تر سزا کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
Top