Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 190
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ
اِنَّ
: بیشک
فِيْ
: میں
خَلْقِ
: پیدائش
السَّمٰوٰتِ
: آسمان (جمع)
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
وَاخْتِلَافِ
: اور آنا جانا
الَّيْلِ
: رات
وَالنَّھَارِ
: اور دن
لَاٰيٰتٍ
: نشانیاں ہیں
لِّاُولِي الْاَلْبَابِ
: عقل والوں کے لیے
بیشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے ، اور رات اور دن کے اختلاف میں البتہ نشانیاں ہیں عقلمندوں کے لیے۔
سورة کی ابتداء اور انتہا : آج کے درس سے سورة آل عمران کا آخری رکوع شروع ہورہا ہے۔ سورة کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے مسئلہ توحید بیان فرمایا تھا۔ الم۔ اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم۔ یعنی اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ زندہ اور قائم ہے اب سورة کے آخری رکوع میں اللہ تعالیٰ نے مسئلہ توحید کے دلائل بیان فرمائے ہیں۔ گذشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور حاکمیت کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ وللہ ملک السموات والارض۔ تمام سلطنت اللہ ہی کی ہے۔ واللہ علی کل شیء قدیر۔ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ قادر مطلق اور معبود برحق وہی ہے۔ اب آمدہ آیات میں دعوی ملکیت ، قدرت تامہ اور توحید کے لائل بیان ہوئے ہیں۔ یہ ایسی صفات ہیں جو صرف اللہ رب العزت کے ساتھ مختص ہیں۔ متصرف فی الامور ، قادر مطلق ، مستحق عبادت ، نافع ، ضار صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ان امور میں کسی اور کو کوئی دخل حاصل نہیں۔ شان نزول : مفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ یہود و نصاری اور مشرکین حضور ﷺ سے طرح طرح کے بےہودہ سوال کرتے تھے ، آپ سے معجزات طلب کرتے تھے ، اور حیلے بہانے سے خود اسلام قبول نہیں کرتے تھے اور دوسروں کو قبول کرنے سے روکتے تھے۔ چناچہ اس آیت کے شان نزول کے متعلق فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مشرکین مکہ نے یہودیوں سے سوال کی کہ تمہارے نبی موسیٰ (علیہ السلام) کیسے تھے۔ وہ کہنے لگے کہ موسیٰ (علیہ السلام) عصا اور ید بیضا جیسی نشانیاں رکھتے تھے۔ ان کے ہاتھ پر کئی معجزے ظاہر ہوئے ، پانی میں راستہ بن گیا ، بارہ چشمے جاری ہوگئے ، من وسلوی نازل وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بعد مشرکین نے نصاری سے دریافت کیا کہ تمہارے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) کیسے تھے۔ عیسائیوں نے کہا ، وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے ، مادر زاد اندھوں کو بینا کرتے تھے اور کوڑھی کو شفا دیتے تھے۔ اس پر مشرکین نے حضور نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ دیکھیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی اپنی امت کے سامنے کیسی نشانیاں ظاہر کیں۔ آپ بھی ہمارے سامنے معجزہ پیش کریں اور وہ یہ کہ صفا پہاڑی کو سونے کا بنا دیں۔ مشرکین کے اس قسم کے مطالبات کا ذکر سورة بنی اسرائیل میں موجود ہے کہ انہوں نے اجرائے چشمہ کا معجزہ طلب کیا۔ اور کہا کہ آپ کے لیے کھجور اور انگور کا باغ ہونا چاہئے۔ جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں۔ یا ہم پر آسمان گرا دے یا اللہ اور فرشتوں کو ہمارے پاس لے آ ۔ تمہارے لیے سونے کا محل ہونا چاہئے یا آپ کو آسمان پر چڑھ جانا چاہئے اور پھر ہمارے سامنے آسمان سے کتاب نازل ہونی چاہئے وغیرہ تو اس مقام پر مشرکین نے صفا پہاڑی کو سونے کا بنانے کا مطالبہ پیش کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں یہ آیت نازل فرمائی۔ حضرت عطاء کی روایت میں ہے کہ انہوں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے عرض کیا کہ حضور نبی کریم (علیہ السلام) کا کوئی عجیب و غریب واقعہ بیان کریں۔ انہوں نے فرمایا ، حضور ﷺ کے تمام حالات عجیب و غریب تھے۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ ایک دفعہ حضور ﷺ رات کو میرے گھر تشریف لائے۔ میں لحاف میں لیٹی ہوئی تھی۔ آپ بھی تھوڑی دیر لحاف میں لیٹ گئے اور پھر فرمایا ، عائشہ ! مجھے اجازت دو ، میں اپنے رب کی عبادت کرلوں۔ چناچہ اٹھ کر آپ نے وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ آپ یہ آیت ان فی خلق السموات والارض۔ پڑھتے رہے اور روتے رہے حتی کہ سینہ مبارک آنسوؤں سے تر ہوگیا۔ اس طرح کافی وقت گزر گیا اور صبح ہوگئی۔ حضرت بلال اذان کے لیے آئے اور عرض کیا۔ آپ اس قدر گریہ زاری کیوں کرتے ہیں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف کردی ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ افلا اکون عبدا شکورا۔ کیا میں اپنے پروردگار کا شکر گزار بندہ بن جاؤں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ آج رات مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ان فی خلق السموات والارض واختلاف الیل والنھار لایت لاولی الالباب۔ بہرحال اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے سوال کے جواب میں اپنی الوہیت اور ملکیت کے متعلق دلائل پیش فرمائے ہیں ، دلائل عقلی اور نقلی دونوں قسم کے ہوسکتے ہیں تاہم یہاں پر عقلی دلائل کا تذکرہ ہے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت کے دلائل تو عام ہیں جن کا مشاہدہ تمام انسان شب و روز کرتے ہیں۔ لہذا ان کی موجودگی میں کوئی دوسرا معجزہ طلب کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ تاہم یہ لوگ تعصب اور عناد کی بنا پر حضور ﷺ سے ہر روز نئے نئے معجزات کی فرمائش کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔ ان فی خلق السموات والارض۔ بیشک زمین و آسمان کی تخلیق میں۔ واختلاف الیل والنہار۔ اور شب و روز کے اختلاف یعنی آگے پیچھے آنے میں۔ لایات لاولی الالباب۔ البتہ عقلمند کے لیے نشانیاں ہیں۔ ظاہر ہے کہ اتنے بڑے بڑے آسمانوں اور اتنی وسیع و عریض زمین کی تخلیق کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ان اشیاء کی پیدائش جن و انس کے بس کی بات نہیں۔ پھر اس زمین میں بڑے بڑے دریا چلائے اور سمندر پیدا کیے۔ بلند وبالا پہاڑ پیدا کرکے ان کے اندر انسانی فائدے کے لیے مع دنیات پیدا کیں۔ اسی زمین پر پھل ، پھول ، سبزیاں اور اناج پیدا کیے۔ اللہ تعالیٰ کی پہچان کے لیے کیا یہ کوئی کم دلائل ہیں۔ اس کے علاوہ رات اور دن کا اگے پیچھے مقرر اوقات میں آنا اور پھر موسموں کا تغیر و تبدل ، کبھی گرمی ہے ، کبھی سردی ہے۔ کبھی بہار ہے اور کبھی خزاں ہے۔ کبھی بارش برس کر سبزیوں اور پھلوں کو روئیدگی میں مدد دے رہی ہے۔ اور کبھی سخت دھوپ پھولوں اور فصلوں کو پکار رہی ہے۔ آخر یہ سب کچھ کیا خود بخود یعنی Automatic ہی ہورہا ہے ؟ اس پورے نظام کو چلانے والی کوئی ہستی موجود ہے یا نہیں۔ انسان پوری زندگی غور کرتا رہے۔ آخر کار اسے تسلیم کرن اپڑے گا کہ اس پورے کارخانہ قدرت کی چلانے والی واحد ذات ہے ، جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، جو ہر چیز پر قادر ہے۔ یہ اسی کی قدرت اور حکمت کا کام ہے ، جو الوہیت میں متفرد ہے۔ فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ کے یہ کم دلائل ہیں ؟ نہیں بلکہ صاحبانِ عقل و خرد کے لیے یہی دلائل کافی ہیں بشرطیکہ وہ غور و فکر کرکے ان کو سمجھنا چاہے۔ الباب لب کی جمع ہے اور لب مغز یا خلاصے کو کہتے ہیں۔ بادام ، اخروٹ وغیرہ کا مغز ہوتا ہے جسے انسان استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح انسان کا لب لباب اس کی عقل ہوتی ہے جسکے ذریعے وہ دوران زندگی بڑے بڑے فیصلے کرتا ہے۔ محنت مزدوری ، کاروبار ، تعلیم وتعلیم ہر چیز عقل پر موقوف ہے۔ انسان نیکی بدی اور حق و باطل کی پہچان بھی اسی عقل کے ذریعے کرتا ہے۔ چناچہ انسان کے لیے کسی قانون کی پابندی کا دارومدار بھی عقل پر ہی ہے۔ اسی کی وجہ سے انسان مکلف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل جیسا کمال جوہر عطا فرمایا ہے۔ جس کو بروئے کار لاکر انسان بڑے بڑے کام انجام دیتا ہے۔ تو فرمایا کہ تخلیق ارض و سما اور شب و روز کے تغیر و تبدل کے دلائل جو ہم نے پیش کیے ہیں۔ ان سے عقلمند ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ وہ ان دلائل قدرت میں غور و فکر کرکے اللہ تعالیٰ کو پہچان سکتے ہیں۔ فرمایا جو انسان عقل کو بروئے کار نہیں لاتے ، وہ انسان نہیں بلکہ جانور ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورة انفال میں فرمایا ہے۔ ان شر الدواب عند اللہ الصم البکم الذین لا یعقلون۔ بلکہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں گونگے اور بہرے ہیں۔ جانور بھی اپنے مالک کو پہچانتا ہے۔ مگر یہ حضرت انسان ہے جسے اللہ نے عقل جیسی عظیم نعمت عطا فرمائی ہے۔ مگر اسے بروئے کار لا کر اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں کرتا۔ وہ تو آسمان و زمین کو دیکھ کر ہی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا یقین کرلیتے ہیں کہ یہ کام سوائے اس مالک الملک کے اور کوئی نہیں کرسکتا۔ دن اور رات کی تبدیلی اسی کے حکم سے آتی ہے۔ یقلب الیل والنہار۔ یعنی رات اور دن کو پلٹیاں دینا اسی کا کام ہے ، اس میں کسی دوسرے کو تصرف حاصل نہیں۔ لہذا جو شخص اپنی عقل کو استعمال کرے گا وہ انسانیت میں کمال حاصل کرے گا اور اعلی درجہ پائے گا۔ باقی رہے مادہ پرست لوگ ، تو یہ دنیا کا کتنا بھی علم حاصل کرلیں ، یہ اللہ تعالیٰ کی مصنوعات کی تاروں میں ہی الجھ کر رہ جاتے ہیں اور صانع کی صحیح معرفت حاصل نہیں کرسکتے ، ایسے لوگ بڑے بڑے سائنس دان تو ہوسکتے ہیں ، بڑے بڑے فلاسفر تو کہلا سکتے ہیں ، محقق اور دانشور بھی ہوسکتے ہیں ، مگر قرآن پاک کی زبان میں اولی الالباب نہیں ہوسکتے ، جو غور و فکر کرکے اللہ تعالیٰ کی معرفت تک نہیں پہنچ سکے وہ احمق ہیں۔ انہیں دنیا کے بڑے سے بڑے علم نے بھی کچھ فائدہ نہیں دیا۔ جس نے خدا کو پہچان کر اس کی عبادت نہیں کی۔ اللہ کا ذکر نہیں کیا وہ کیسا سکالر ہے۔ وہ تو جاہل ہے اسے عقلمند نہیں کہہ سکتے۔ ذکر الہی : آگے فرمایا عقلمند وہ لوگ ہیں۔ الذین یذکرون اللہ۔ جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ قیما و قعودا و علی جنوبھم۔ کھڑے ہوں یا بیٹھے ہو یا اپنی کروٹوں کے بل لیٹے ہوں ہر حالت میں اپنے خالق ومالک کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ اور اس یاد آوری میں آگے ان کی دعاؤں کا ذکر بھی آ رہا ہے کہ وہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں کس قسم کی التجا کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی فکر کیسی صحیح ہے ، اور ان کے عقائد کیسے پختہ ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ کی یاد سے ہی عقلمند پہچانے جاتے ہیں ، یہی ان کی علامت ہے۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ کی روایت میں آتا ہے۔ کہ نبی (علیہ السلام) کان یذکر اللہ فی کل احیانہ۔ آپ تمام اوقات میں اپنے رب کو یاد کرتے رہتے تھے ، آپ کا کوئی وقت ذکر الہی کے بغیر نہ گزرتا تھا۔ عمران بن حصین کی روایت میں آتا ہے۔ کہ ذکر میں ہر قسم کی عبادت بھی شامل ہے ، جو کہ ہر حالت میں کی جاسکتی ہے۔ جیسے فرمایا۔ صل قائما۔ نماز کھڑے ہو کر پڑھو۔ اور اگر کھڑے ہو کر ادا نہیں کرسکتے۔ فصل قاعدا۔ تو بیٹھ کر پڑھ لو۔ اور ایسا بھی نہیں کرسکتے تو۔ علی جنبک۔ پہلو کے بل لیٹ کر ہی ادا کرلو۔ آگے فقہائے کرام نے اجتہاد سے یہ اشارہ فرمایا ہے۔ اگر لیٹ کر بھی نماز پڑھنے سے معزوری ہو تو اشارے سے بھی پڑھ لینی چاہئے۔ کیونکہ یہ اہم ترین عبادت ہے۔ اور بہترین ذکر۔ جیسا فرمایا اقم الصلوۃ لذکری۔ میرا ذکر کرنے کے لیے نماز پڑھو۔ مقصد یہ کہ ذکر میں تمام عبادات بھی شامل ہیں۔ اب ذکر قلبی بھی ہے اور زبانی بھی۔ ہم عوام لوگوں کے لیے زبانی ذکر ہی بہت بڑی سعادت ہے۔ قرآن پاک کی تلاوت تمام اور ادا کا سردار ہے۔ یا پھر وہ اذکار کریں جو قرآن پاک میں یا سنت خیر الانام میں وارد ہوئے ہیں یا پھر اسلاف کرام نے بتائے ہیں۔ ہمیں ایسے اذکار کی پابندی کرنی چاہئے۔ اس کے علاوہ مختلف اوقات کے خصوصی ذکر ہیں جیسے رات کا ذکر ، صبح کا ذکر ، وضو کرتے وقت کھانا ، کھاتے وقت ، بازار چلتے وقت ، نیند سے بیداری کے وقت وغیرہ وغیرہ۔ غرضیکہ کوئی وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہونا چاہئے ، جس قدر کثرت سے ذکر کرے گا ، اسی قدر فلاح حاصل ہوگی۔ واذکرو اللہ کثیرا لعلکم تفلحون۔ اللہ کا ذکر کثرت سے کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ، کامیاب ہوجاؤ۔ ذکر الہی ایک ایسی عبادت ہے جس کی کوئی حد نہیں۔ باقی تمام عبادات کی کوئی نہ کوئی حد (Limit) ہے ، جیسے نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ جیسی عبادات محدود ہیں مگر ذکر الہی کی کوئی حد نہیں مسند احمد کی روایت میں آتا ہے۔ اکثروا ذکر اللہ حتی یقولوا مجنون۔ اللہ کا ذکر اس کثرت سے کرو کہ لوگ کہنے لگیں یہ پاگل ہے۔ غرضیکہ ذکر انسان کی بلندی کا ذریعہ ہے۔ اب ذکر الہی سے دو چیزیں حاصل ہوتی ہیں یعنی حکمت خداوندی اور انسانیت کی تکمیل۔ اگر انسانیت میں کفر ، شرک اور معاصی کی وجہ سے فساد پیدا ہوجائے ، تو حکمت باطل ہوجاتی ہے۔ زمین و آسمان کو پیدا کرنے کا مقصد یہی ہے کہ انسانیت کی تکمیل ہو۔ لوگ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو پہچانیں اور خالص اس کی عبادت کریں۔ اور اگر انہی چیزوں میں فساد پیدا ہوجائے ، تو حکمت کا ابطال لازم آئے گا۔ انسان اپنے مقام سے گرجائے گا۔ جب انسان نے تخلیق ارض و سما اور اختلاف لیل و نہار میں غور و فکر کرکے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرلی تو وہ عقلمندوں میں شامل ہوگیا اور پھر عقلمندوں کی نشانی اور علامت یہ ہے کہ وہ ہر حالت اور ہر وقت اللہ کے ذکر میں مشغول رہتے ہیں۔ زبانی ذکر تو عام ہے۔ اس کے علاوہ قلبی ذکر بھی ہے۔ جو لوگ بزرگان دین سے تربیت حاصل کرتے ہیں ، وہ بزرگان دین انہیں قلبی ذکر بھی سکھلا دیتے ہیں جس کی وجہ سے انسان کا دل ہمیشہ بیدار رہتا ہے اور ذکر الہی میں مشغول رہتا ہے۔ ان کا کوئی سانس ذکر سے خالی نہیں ہوتا حتی کہ ان کے لطائف باطنی بھی ذکر کرنے لگتے ہیں۔ یہ چیزیں ایسے لوگوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ جو سلوک کی منازل طے کرتے ہیں۔ اور مرشدان برحق کا یہ طریقہ ہے کہ وہ ہر طالب کی تربیت اس کی صلاحیت کے مطابق کرتے ہیں۔ خواجہ شہاب الدین سہروردی (رح) کے پاس جو شخص ذکر کی تربیت کے لیے جاتا ، آپ اس کی مناسبت اسمائے الہی کے ساتھ معلوم کرتے اور پھر جس اسم کے ساتھ زیادہ مناسبت ہوتی ، اسی اسم پاک کا ذکر بتاتے۔ اگر کسی شخص کی اسمائے حسنہ میں سے کسی کے ساتھ بھی مناسبت نہ پاتے ، تو اس سے فرماتے کہ تم عقیدہ حقہ اور ایمان پر قائم رہو ، اور نیکی کرتے رہو۔ تمہارے لیے یہی کافی ہے۔ مصنوعات خداوندی میں غور و فکر : عقلمندوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کی پہلی صفت تو یہ ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ، اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ اور دوسری صفت یہ یہ بیان فرمائی۔ ویتفکرون فی خلق السموات والارض۔ کہ وہ آسمان و زمین کی تخلیق میں غور وفکر کرتے ہیں۔ اس غور و فکر کے نتیجے میں انسان اللہ تعالیٰ کی ، وحدانیت اور اس کی صفات کمال کو سمجھ سکے گا۔ چناچنہ حضرت شیخ الاسلام لکھتے ہیں کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ آسمان و زمین اور دیگر مصنوعاتِ الہی میں غور و فکر وہی کامیاب سمجھا جائے گا جس کا نتیجہ خدا تعالیٰ کی یاد اور آخرت کی طرف توجہ ہو۔ حضرت حسن بصری کی روایت میں آتا ہے کہ تفکر ساعۃ خیر من عبادۃ ستین سنۃ۔ یعنی ساٹھ سال کی عبادت کی نسبت ایک گھڑی بھر کا غور و فکر زیادہ قیمتی ہے۔ اگر کسی نے غور و فکر کے بعد اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرلی تو یہ چیز سال ہا سال کی عبادت بلا معرفت سے بدرجہا بہتر ہوگی۔ مصنوعات قدرت عبث نہیں : فرمایا صاحب عقل وہ لوگ ہیں جو اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور مصنوعات قدرت میں غور و فکر کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ ربنا ما خلقت ھذا باطلا۔ اے اہمارے پروردگار ! تو نے یہ سب چیزیں بیکار نہیں کیں۔ ان اشیا کی تخلیق میں ضرور کوئی حکمت ہے۔ اور دنیا کی حکمت آخرت ہے۔ الدنیا مزرعۃ الاخرۃ۔ فرمایا دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ یہ اگلی منزل کا راستہ ہے۔ اس راستے پر چل کر انسان آخرت میں پہنچ سکتا ہے۔ اس دنیا میں جو کچھ کمائی کرے گا۔ اسے آخرت میں پالے گا۔ مقصد یہ ہے کہ کائنات کی تخلیق بیکار محض یا کوئی کھیل تماشہ نہیں ، بلکہ اس کی کوئی غرض وغایت ہے اور وہ ہے آخرت۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کے سامنے عرض کی گئی ہے۔ سبحنک۔ اے مولا ! تیری ذات پاک ہے تو تمام عیوب ، نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے یہ تنزیہ فی العقیدہ ہوگیا۔ اے اللہ ! ہم تیری تسبیح اور پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔ فتعلی اللہ عما یشرکون۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے۔ نہ کوئی عبادت میں شریک ہے۔ نہ اختیار میں نہ مشکل کشائی میں ، نہ حاجت روائی میں۔ اس میں عقیدہ کی اصلاح کا پورا مواد موجود ہے اگر عقیدہ درست نہیں ، خدا کی تنزیہ کا قائل نہیں تو ایسا شخص عقلمند نہیں ہوسکتا ، وہ بیوقوف ہوگا۔ دوزخ سے نجات : جب عقیدہ صاف ہوگیا اور قیامت کے دن پر یقین ہوگیا تو ایسے لوگ پھر اللہ کے حضور دعا کرتے ہیں۔ فقنا عذاب النار۔ اے مولا کریم ! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے ، عقلمندوں کی یہ پہلی دعا ہے جو غور و فکر کے نتیجے میں ان کے دل سے نکلی ہے۔ اس کے بعد اگلی آیات میں باقی دعاؤں کا ذکر آئیگا۔
Top