Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 190
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ
اِنَّ : بیشک فِيْ : میں خَلْقِ : پیدائش السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَاخْتِلَافِ : اور آنا جانا الَّيْلِ : رات وَالنَّھَارِ : اور دن لَاٰيٰتٍ : نشانیاں ہیں لِّاُولِي الْاَلْبَابِ : عقل والوں کے لیے
بیشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے ، اور رات اور دن کے اختلاف میں البتہ نشانیاں ہیں عقلمندوں کے لیے۔
سورة کی ابتداء اور انتہا : آج کے درس سے سورة آل عمران کا آخری رکوع شروع ہورہا ہے۔ سورة کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے مسئلہ توحید بیان فرمایا تھا۔ الم۔ اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم۔ یعنی اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ زندہ اور قائم ہے اب سورة کے آخری رکوع میں اللہ تعالیٰ نے مسئلہ توحید کے دلائل بیان فرمائے ہیں۔ گذشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور حاکمیت کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ وللہ ملک السموات والارض۔ تمام سلطنت اللہ ہی کی ہے۔ واللہ علی کل شیء قدیر۔ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ قادر مطلق اور معبود برحق وہی ہے۔ اب آمدہ آیات میں دعوی ملکیت ، قدرت تامہ اور توحید کے لائل بیان ہوئے ہیں۔ یہ ایسی صفات ہیں جو صرف اللہ رب العزت کے ساتھ مختص ہیں۔ متصرف فی الامور ، قادر مطلق ، مستحق عبادت ، نافع ، ضار صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ان امور میں کسی اور کو کوئی دخل حاصل نہیں۔ شان نزول : مفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ یہود و نصاری اور مشرکین حضور ﷺ سے طرح طرح کے بےہودہ سوال کرتے تھے ، آپ سے معجزات طلب کرتے تھے ، اور حیلے بہانے سے خود اسلام قبول نہیں کرتے تھے اور دوسروں کو قبول کرنے سے روکتے تھے۔ چناچہ اس آیت کے شان نزول کے متعلق فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مشرکین مکہ نے یہودیوں سے سوال کی کہ تمہارے نبی موسیٰ (علیہ السلام) کیسے تھے۔ وہ کہنے لگے کہ موسیٰ (علیہ السلام) عصا اور ید بیضا جیسی نشانیاں رکھتے تھے۔ ان کے ہاتھ پر کئی معجزے ظاہر ہوئے ، پانی میں راستہ بن گیا ، بارہ چشمے جاری ہوگئے ، من وسلوی نازل وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بعد مشرکین نے نصاری سے دریافت کیا کہ تمہارے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) کیسے تھے۔ عیسائیوں نے کہا ، وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے ، مادر زاد اندھوں کو بینا کرتے تھے اور کوڑھی کو شفا دیتے تھے۔ اس پر مشرکین نے حضور نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ دیکھیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی اپنی امت کے سامنے کیسی نشانیاں ظاہر کیں۔ آپ بھی ہمارے سامنے معجزہ پیش کریں اور وہ یہ کہ صفا پہاڑی کو سونے کا بنا دیں۔ مشرکین کے اس قسم کے مطالبات کا ذکر سورة بنی اسرائیل میں موجود ہے کہ انہوں نے اجرائے چشمہ کا معجزہ طلب کیا۔ اور کہا کہ آپ کے لیے کھجور اور انگور کا باغ ہونا چاہئے۔ جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں۔ یا ہم پر آسمان گرا دے یا اللہ اور فرشتوں کو ہمارے پاس لے آ ۔ تمہارے لیے سونے کا محل ہونا چاہئے یا آپ کو آسمان پر چڑھ جانا چاہئے اور پھر ہمارے سامنے آسمان سے کتاب نازل ہونی چاہئے وغیرہ تو اس مقام پر مشرکین نے صفا پہاڑی کو سونے کا بنانے کا مطالبہ پیش کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں یہ آیت نازل فرمائی۔ حضرت عطاء کی روایت میں ہے کہ انہوں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے عرض کیا کہ حضور نبی کریم (علیہ السلام) کا کوئی عجیب و غریب واقعہ بیان کریں۔ انہوں نے فرمایا ، حضور ﷺ کے تمام حالات عجیب و غریب تھے۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ ایک دفعہ حضور ﷺ رات کو میرے گھر تشریف لائے۔ میں لحاف میں لیٹی ہوئی تھی۔ آپ بھی تھوڑی دیر لحاف میں لیٹ گئے اور پھر فرمایا ، عائشہ ! مجھے اجازت دو ، میں اپنے رب کی عبادت کرلوں۔ چناچہ اٹھ کر آپ نے وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ آپ یہ آیت ان فی خلق السموات والارض۔ پڑھتے رہے اور روتے رہے حتی کہ سینہ مبارک آنسوؤں سے تر ہوگیا۔ اس طرح کافی وقت گزر گیا اور صبح ہوگئی۔ حضرت بلال اذان کے لیے آئے اور عرض کیا۔ آپ اس قدر گریہ زاری کیوں کرتے ہیں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف کردی ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ افلا اکون عبدا شکورا۔ کیا میں اپنے پروردگار کا شکر گزار بندہ بن جاؤں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ آج رات مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ان فی خلق السموات والارض واختلاف الیل والنھار لایت لاولی الالباب۔ بہرحال اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے سوال کے جواب میں اپنی الوہیت اور ملکیت کے متعلق دلائل پیش فرمائے ہیں ، دلائل عقلی اور نقلی دونوں قسم کے ہوسکتے ہیں تاہم یہاں پر عقلی دلائل کا تذکرہ ہے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت کے دلائل تو عام ہیں جن کا مشاہدہ تمام انسان شب و روز کرتے ہیں۔ لہذا ان کی موجودگی میں کوئی دوسرا معجزہ طلب کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ تاہم یہ لوگ تعصب اور عناد کی بنا پر حضور ﷺ سے ہر روز نئے نئے معجزات کی فرمائش کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔ ان فی خلق السموات والارض۔ بیشک زمین و آسمان کی تخلیق میں۔ واختلاف الیل والنہار۔ اور شب و روز کے اختلاف یعنی آگے پیچھے آنے میں۔ لایات لاولی الالباب۔ البتہ عقلمند کے لیے نشانیاں ہیں۔ ظاہر ہے کہ اتنے بڑے بڑے آسمانوں اور اتنی وسیع و عریض زمین کی تخلیق کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ان اشیاء کی پیدائش جن و انس کے بس کی بات نہیں۔ پھر اس زمین میں بڑے بڑے دریا چلائے اور سمندر پیدا کیے۔ بلند وبالا پہاڑ پیدا کرکے ان کے اندر انسانی فائدے کے لیے مع دنیات پیدا کیں۔ اسی زمین پر پھل ، پھول ، سبزیاں اور اناج پیدا کیے۔ اللہ تعالیٰ کی پہچان کے لیے کیا یہ کوئی کم دلائل ہیں۔ اس کے علاوہ رات اور دن کا اگے پیچھے مقرر اوقات میں آنا اور پھر موسموں کا تغیر و تبدل ، کبھی گرمی ہے ، کبھی سردی ہے۔ کبھی بہار ہے اور کبھی خزاں ہے۔ کبھی بارش برس کر سبزیوں اور پھلوں کو روئیدگی میں مدد دے رہی ہے۔ اور کبھی سخت دھوپ پھولوں اور فصلوں کو پکار رہی ہے۔ آخر یہ سب کچھ کیا خود بخود یعنی Automatic ہی ہورہا ہے ؟ اس پورے نظام کو چلانے والی کوئی ہستی موجود ہے یا نہیں۔ انسان پوری زندگی غور کرتا رہے۔ آخر کار اسے تسلیم کرن اپڑے گا کہ اس پورے کارخانہ قدرت کی چلانے والی واحد ذات ہے ، جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، جو ہر چیز پر قادر ہے۔ یہ اسی کی قدرت اور حکمت کا کام ہے ، جو الوہیت میں متفرد ہے۔ فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ کے یہ کم دلائل ہیں ؟ نہیں بلکہ صاحبانِ عقل و خرد کے لیے یہی دلائل کافی ہیں بشرطیکہ وہ غور و فکر کرکے ان کو سمجھنا چاہے۔ الباب لب کی جمع ہے اور لب مغز یا خلاصے کو کہتے ہیں۔ بادام ، اخروٹ وغیرہ کا مغز ہوتا ہے جسے انسان استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح انسان کا لب لباب اس کی عقل ہوتی ہے جسکے ذریعے وہ دوران زندگی بڑے بڑے فیصلے کرتا ہے۔ محنت مزدوری ، کاروبار ، تعلیم وتعلیم ہر چیز عقل پر موقوف ہے۔ انسان نیکی بدی اور حق و باطل کی پہچان بھی اسی عقل کے ذریعے کرتا ہے۔ چناچہ انسان کے لیے کسی قانون کی پابندی کا دارومدار بھی عقل پر ہی ہے۔ اسی کی وجہ سے انسان مکلف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل جیسا کمال جوہر عطا فرمایا ہے۔ جس کو بروئے کار لاکر انسان بڑے بڑے کام انجام دیتا ہے۔ تو فرمایا کہ تخلیق ارض و سما اور شب و روز کے تغیر و تبدل کے دلائل جو ہم نے پیش کیے ہیں۔ ان سے عقلمند ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ وہ ان دلائل قدرت میں غور و فکر کرکے اللہ تعالیٰ کو پہچان سکتے ہیں۔ فرمایا جو انسان عقل کو بروئے کار نہیں لاتے ، وہ انسان نہیں بلکہ جانور ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورة انفال میں فرمایا ہے۔ ان شر الدواب عند اللہ الصم البکم الذین لا یعقلون۔ بلکہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں گونگے اور بہرے ہیں۔ جانور بھی اپنے مالک کو پہچانتا ہے۔ مگر یہ حضرت انسان ہے جسے اللہ نے عقل جیسی عظیم نعمت عطا فرمائی ہے۔ مگر اسے بروئے کار لا کر اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں کرتا۔ وہ تو آسمان و زمین کو دیکھ کر ہی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا یقین کرلیتے ہیں کہ یہ کام سوائے اس مالک الملک کے اور کوئی نہیں کرسکتا۔ دن اور رات کی تبدیلی اسی کے حکم سے آتی ہے۔ یقلب الیل والنہار۔ یعنی رات اور دن کو پلٹیاں دینا اسی کا کام ہے ، اس میں کسی دوسرے کو تصرف حاصل نہیں۔ لہذا جو شخص اپنی عقل کو استعمال کرے گا وہ انسانیت میں کمال حاصل کرے گا اور اعلی درجہ پائے گا۔ باقی رہے مادہ پرست لوگ ، تو یہ دنیا کا کتنا بھی علم حاصل کرلیں ، یہ اللہ تعالیٰ کی مصنوعات کی تاروں میں ہی الجھ کر رہ جاتے ہیں اور صانع کی صحیح معرفت حاصل نہیں کرسکتے ، ایسے لوگ بڑے بڑے سائنس دان تو ہوسکتے ہیں ، بڑے بڑے فلاسفر تو کہلا سکتے ہیں ، محقق اور دانشور بھی ہوسکتے ہیں ، مگر قرآن پاک کی زبان میں اولی الالباب نہیں ہوسکتے ، جو غور و فکر کرکے اللہ تعالیٰ کی معرفت تک نہیں پہنچ سکے وہ احمق ہیں۔ انہیں دنیا کے بڑے سے بڑے علم نے بھی کچھ فائدہ نہیں دیا۔ جس نے خدا کو پہچان کر اس کی عبادت نہیں کی۔ اللہ کا ذکر نہیں کیا وہ کیسا سکالر ہے۔ وہ تو جاہل ہے اسے عقلمند نہیں کہہ سکتے۔ ذکر الہی : آگے فرمایا عقلمند وہ لوگ ہیں۔ الذین یذکرون اللہ۔ جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ قیما و قعودا و علی جنوبھم۔ کھڑے ہوں یا بیٹھے ہو یا اپنی کروٹوں کے بل لیٹے ہوں ہر حالت میں اپنے خالق ومالک کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ اور اس یاد آوری میں آگے ان کی دعاؤں کا ذکر بھی آ رہا ہے کہ وہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں کس قسم کی التجا کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی فکر کیسی صحیح ہے ، اور ان کے عقائد کیسے پختہ ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ کی یاد سے ہی عقلمند پہچانے جاتے ہیں ، یہی ان کی علامت ہے۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ کی روایت میں آتا ہے۔ کہ نبی (علیہ السلام) کان یذکر اللہ فی کل احیانہ۔ آپ تمام اوقات میں اپنے رب کو یاد کرتے رہتے تھے ، آپ کا کوئی وقت ذکر الہی کے بغیر نہ گزرتا تھا۔ عمران بن حصین کی روایت میں آتا ہے۔ کہ ذکر میں ہر قسم کی عبادت بھی شامل ہے ، جو کہ ہر حالت میں کی جاسکتی ہے۔ جیسے فرمایا۔ صل قائما۔ نماز کھڑے ہو کر پڑھو۔ اور اگر کھڑے ہو کر ادا نہیں کرسکتے۔ فصل قاعدا۔ تو بیٹھ کر پڑھ لو۔ اور ایسا بھی نہیں کرسکتے تو۔ علی جنبک۔ پہلو کے بل لیٹ کر ہی ادا کرلو۔ آگے فقہائے کرام نے اجتہاد سے یہ اشارہ فرمایا ہے۔ اگر لیٹ کر بھی نماز پڑھنے سے معزوری ہو تو اشارے سے بھی پڑھ لینی چاہئے۔ کیونکہ یہ اہم ترین عبادت ہے۔ اور بہترین ذکر۔ جیسا فرمایا اقم الصلوۃ لذکری۔ میرا ذکر کرنے کے لیے نماز پڑھو۔ مقصد یہ کہ ذکر میں تمام عبادات بھی شامل ہیں۔ اب ذکر قلبی بھی ہے اور زبانی بھی۔ ہم عوام لوگوں کے لیے زبانی ذکر ہی بہت بڑی سعادت ہے۔ قرآن پاک کی تلاوت تمام اور ادا کا سردار ہے۔ یا پھر وہ اذکار کریں جو قرآن پاک میں یا سنت خیر الانام میں وارد ہوئے ہیں یا پھر اسلاف کرام نے بتائے ہیں۔ ہمیں ایسے اذکار کی پابندی کرنی چاہئے۔ اس کے علاوہ مختلف اوقات کے خصوصی ذکر ہیں جیسے رات کا ذکر ، صبح کا ذکر ، وضو کرتے وقت کھانا ، کھاتے وقت ، بازار چلتے وقت ، نیند سے بیداری کے وقت وغیرہ وغیرہ۔ غرضیکہ کوئی وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہونا چاہئے ، جس قدر کثرت سے ذکر کرے گا ، اسی قدر فلاح حاصل ہوگی۔ واذکرو اللہ کثیرا لعلکم تفلحون۔ اللہ کا ذکر کثرت سے کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ، کامیاب ہوجاؤ۔ ذکر الہی ایک ایسی عبادت ہے جس کی کوئی حد نہیں۔ باقی تمام عبادات کی کوئی نہ کوئی حد (Limit) ہے ، جیسے نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ جیسی عبادات محدود ہیں مگر ذکر الہی کی کوئی حد نہیں مسند احمد کی روایت میں آتا ہے۔ اکثروا ذکر اللہ حتی یقولوا مجنون۔ اللہ کا ذکر اس کثرت سے کرو کہ لوگ کہنے لگیں یہ پاگل ہے۔ غرضیکہ ذکر انسان کی بلندی کا ذریعہ ہے۔ اب ذکر الہی سے دو چیزیں حاصل ہوتی ہیں یعنی حکمت خداوندی اور انسانیت کی تکمیل۔ اگر انسانیت میں کفر ، شرک اور معاصی کی وجہ سے فساد پیدا ہوجائے ، تو حکمت باطل ہوجاتی ہے۔ زمین و آسمان کو پیدا کرنے کا مقصد یہی ہے کہ انسانیت کی تکمیل ہو۔ لوگ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو پہچانیں اور خالص اس کی عبادت کریں۔ اور اگر انہی چیزوں میں فساد پیدا ہوجائے ، تو حکمت کا ابطال لازم آئے گا۔ انسان اپنے مقام سے گرجائے گا۔ جب انسان نے تخلیق ارض و سما اور اختلاف لیل و نہار میں غور و فکر کرکے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرلی تو وہ عقلمندوں میں شامل ہوگیا اور پھر عقلمندوں کی نشانی اور علامت یہ ہے کہ وہ ہر حالت اور ہر وقت اللہ کے ذکر میں مشغول رہتے ہیں۔ زبانی ذکر تو عام ہے۔ اس کے علاوہ قلبی ذکر بھی ہے۔ جو لوگ بزرگان دین سے تربیت حاصل کرتے ہیں ، وہ بزرگان دین انہیں قلبی ذکر بھی سکھلا دیتے ہیں جس کی وجہ سے انسان کا دل ہمیشہ بیدار رہتا ہے اور ذکر الہی میں مشغول رہتا ہے۔ ان کا کوئی سانس ذکر سے خالی نہیں ہوتا حتی کہ ان کے لطائف باطنی بھی ذکر کرنے لگتے ہیں۔ یہ چیزیں ایسے لوگوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ جو سلوک کی منازل طے کرتے ہیں۔ اور مرشدان برحق کا یہ طریقہ ہے کہ وہ ہر طالب کی تربیت اس کی صلاحیت کے مطابق کرتے ہیں۔ خواجہ شہاب الدین سہروردی (رح) کے پاس جو شخص ذکر کی تربیت کے لیے جاتا ، آپ اس کی مناسبت اسمائے الہی کے ساتھ معلوم کرتے اور پھر جس اسم کے ساتھ زیادہ مناسبت ہوتی ، اسی اسم پاک کا ذکر بتاتے۔ اگر کسی شخص کی اسمائے حسنہ میں سے کسی کے ساتھ بھی مناسبت نہ پاتے ، تو اس سے فرماتے کہ تم عقیدہ حقہ اور ایمان پر قائم رہو ، اور نیکی کرتے رہو۔ تمہارے لیے یہی کافی ہے۔ مصنوعات خداوندی میں غور و فکر : عقلمندوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کی پہلی صفت تو یہ ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ، اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ اور دوسری صفت یہ یہ بیان فرمائی۔ ویتفکرون فی خلق السموات والارض۔ کہ وہ آسمان و زمین کی تخلیق میں غور وفکر کرتے ہیں۔ اس غور و فکر کے نتیجے میں انسان اللہ تعالیٰ کی ، وحدانیت اور اس کی صفات کمال کو سمجھ سکے گا۔ چناچنہ حضرت شیخ الاسلام لکھتے ہیں کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ آسمان و زمین اور دیگر مصنوعاتِ الہی میں غور و فکر وہی کامیاب سمجھا جائے گا جس کا نتیجہ خدا تعالیٰ کی یاد اور آخرت کی طرف توجہ ہو۔ حضرت حسن بصری کی روایت میں آتا ہے کہ تفکر ساعۃ خیر من عبادۃ ستین سنۃ۔ یعنی ساٹھ سال کی عبادت کی نسبت ایک گھڑی بھر کا غور و فکر زیادہ قیمتی ہے۔ اگر کسی نے غور و فکر کے بعد اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرلی تو یہ چیز سال ہا سال کی عبادت بلا معرفت سے بدرجہا بہتر ہوگی۔ مصنوعات قدرت عبث نہیں : فرمایا صاحب عقل وہ لوگ ہیں جو اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور مصنوعات قدرت میں غور و فکر کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ ربنا ما خلقت ھذا باطلا۔ اے اہمارے پروردگار ! تو نے یہ سب چیزیں بیکار نہیں کیں۔ ان اشیا کی تخلیق میں ضرور کوئی حکمت ہے۔ اور دنیا کی حکمت آخرت ہے۔ الدنیا مزرعۃ الاخرۃ۔ فرمایا دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ یہ اگلی منزل کا راستہ ہے۔ اس راستے پر چل کر انسان آخرت میں پہنچ سکتا ہے۔ اس دنیا میں جو کچھ کمائی کرے گا۔ اسے آخرت میں پالے گا۔ مقصد یہ ہے کہ کائنات کی تخلیق بیکار محض یا کوئی کھیل تماشہ نہیں ، بلکہ اس کی کوئی غرض وغایت ہے اور وہ ہے آخرت۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کے سامنے عرض کی گئی ہے۔ سبحنک۔ اے مولا ! تیری ذات پاک ہے تو تمام عیوب ، نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے یہ تنزیہ فی العقیدہ ہوگیا۔ اے اللہ ! ہم تیری تسبیح اور پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔ فتعلی اللہ عما یشرکون۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے۔ نہ کوئی عبادت میں شریک ہے۔ نہ اختیار میں نہ مشکل کشائی میں ، نہ حاجت روائی میں۔ اس میں عقیدہ کی اصلاح کا پورا مواد موجود ہے اگر عقیدہ درست نہیں ، خدا کی تنزیہ کا قائل نہیں تو ایسا شخص عقلمند نہیں ہوسکتا ، وہ بیوقوف ہوگا۔ دوزخ سے نجات : جب عقیدہ صاف ہوگیا اور قیامت کے دن پر یقین ہوگیا تو ایسے لوگ پھر اللہ کے حضور دعا کرتے ہیں۔ فقنا عذاب النار۔ اے مولا کریم ! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے ، عقلمندوں کی یہ پہلی دعا ہے جو غور و فکر کے نتیجے میں ان کے دل سے نکلی ہے۔ اس کے بعد اگلی آیات میں باقی دعاؤں کا ذکر آئیگا۔
Top