Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 192
رَبَّنَاۤ اِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَیْتَهٗ١ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ
رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّكَ : بیشک تو مَنْ : جو۔ جس تُدْخِلِ : داخل کیا النَّارَ : آگ (دوزخ) فَقَدْ : تو ضرور اَخْزَيْتَهٗ : تونے اس کو رسوا کیا وَمَا : اور نہیں لِلظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کے لیے مِنْ : کوئی اَنْصَارٍ : مددگار
اے ہمارے پروردگار ! بیشک تو نے جس کو دوزخ کی آگ میں داخل کردیا پس بیشک تو نے اس کو رسوا کردیا ، اور نہیں ہوگا ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والا۔
ربط آیات : جیسا کہ گذشتہ درس میں عرض کیا تھا کہ اس سورة کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ایمان اور توحید کے مسائل بیان فرمائے ہیں۔ اور ان میں عقلی اور سمعی یا نقلی دونوں قسم کے دلائل موجود ہیں۔ گذشتہ درس میں عقلی دلائل بیان ہوچکے ہیں اور اب نقلی دلائل پیش ہو رہے ہیں ابتداء میں ذکر آ چکا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور شب و روز کے اختلاف میں اہل عقل کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ جن کے ذریعے انسان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، اس کی حکمت کاملہ اور قدرت تامہ کو سمجھ سکتا ہے اور ایمان اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو اختیار کرسکتا ہے۔ پھر عقلمندوں کی علامات یہ بتائیں کہ ہر وہ حالت میں اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور آسمان و زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اے اللہ ! تو نے یہ سب کچھ عبث پیدا نہیں کیا۔ تخلیق ارض و سما میں غور و فکر کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسان اللہ کی مصنوعات میں تو غور و فکر کرسکتا ہے اور اس کی صفت اور وحدانیت کو سمجھ سکتا ہے ، مگر خود خدا تعالیٰ کی ذات میں غور و فکر نہیں کرسکتا۔ یہ بات امام غزالی نے اپنی متعدد کتابوں میں درج کی ہے۔ اور حضرت شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں یہ اصول بیان کیا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے۔ کہ لافکرۃ فی الرب۔ یعنی رب تعالیٰ کی ذات میں غور و فکر نہیں ہوسکتا۔ تفکروا فی الخلق ولا تتفکروا فی الخالق۔ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیا میں غور و فکر کرو ، خود خالق کائنات کی ذات میں فکر مت کرو ، کیونکہ ذات خداوندی وہ ذات ہے ، جسے غور و فکر کے ذریعے نہیں پایا جاسکتا۔ مخلوق میں غور و فکر سے اللہ تعالیٰ کی صفت سمجھ میں آتی ہے اور اس کی وحدانیت کا ادراک ہوتا ہے۔ چناچہ عقلمند لوگ غور وفکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ کہ اے مولا کریم ! تو نے یہ تمام چیزیں بیکار پیدا نہیں کیں۔ ہم تیری تسبیح بیان کرتے ہیں ، تو وحدہ لا شریک ہے۔ اس طرح گویا توحید کا مسئلہ بھی سمجھ میں آگیا۔ سورة یوسف میں موجود ہے۔ وکاین من ایۃ فی السموت والارض یمرون علیھا وھم عنھا معرضون۔ لوگ زمین و آسمان کی بیشمار نشانیوں کے قریب سے گزر جاتے ہیں مگر ان میں غور و فکر کرکے نتیجہ اخذ نہیں کرتے ، بلکہ غافل رہتے ہیں۔ مقصد یہ کہ زمین و آسمان ، اس کے ستارے اور سیارے ہر وقت انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ نظام شمسی : جس نظام شمسی (Solar system) میں ہم رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ مشہور سیارے زہری ، قمر ، شمس ، عطارد ، مریخ ، مشتری اور زحل ہیں۔ ان کے آجکل بڑے چرچے ہو رہے ہیں۔ خلا پیما سائنس دان ان سیاروں پر کمندیں ڈال رہے ہیں۔ بلکہ ان سات میں قمر سیارے پر تو انسان پہنچ چکا ہے اور اس کی وضع قطع معلوم ہوچکی ہے۔ چاند پر سردترین علاقہ بھی معلوم ہوا ہے ، اگر انسان وہاں پہنچ جائے تو برف کا ٹکڑا بن جائے اسی طرح وہاں پر اڑھائی سو سنٹی گریڈ تک گرم ترین علاقہ بھی موجود ہے۔ جو لوگ چاند پر پہنچے ہیں وہ اس زمینی لباس میں نہیں گئے ، یہ تو فوراً جل جائیگا ، وہاں پر خلائی لباس پہن کر ہی پہنچا جاسکتا ہے۔ اور یہ ایسا لباس ہے جس کی تیاری پر اڑھائی تین لاکھ روپے خرچ آتا ہے۔ قرآن پاک کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ چاند پر انسانی رہائش قریباً ناممکن ہے۔ انسان وہاں پر پہنچا بھی ہے تو محدود وقت کے لیے ماہرین فلکیات بتاتے ہیں کہ چاند پر ایک پونڈ انسانی خوراک پہنچانے پر تیس ہزار پونڈ خرچ آئے گا۔ ظاہر ہے کہ اس قدر فضول عیاشی کی کون جرات کرے گا۔ یہ اس سیارے کی بات ہے جو زمین سے قریب ترین ہے۔ نظام شمسی کا دوسرا سیارہ سورج زمین سے نوکروڑ تیس لاکھ میل دور ہے۔ یہ اپنی پیدائش سے لے کر پورے نظام شمسی کو گرمی اور روشنی پہنچا رہا ہے۔ اس کی روشنی ہم تک سات منٹ اور آٹھ سیکنڈ میں پہنچتی ہے۔ مگر اللہ مالک الملک نے فرمایا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا۔ اذ الشمس کورت۔ جب یہ سورج اور اس کی روشنی لپیٹ دی جائے گی یہ پورا نظام شمسی درہم برہم ہوجائے گا۔ اس کے بعد ایک دوسرا نظام قائم ہوگا ، جسے آخرت اور حشر کا نظام کہا جاسکتا ہے۔ علم فلکیات : ستاروں سے متعلق علم کی دو قسمیں ہیں۔ ایک علم نجوم ہے۔ جس میں ستاروں کے تغیر و تبدل کے حساب سے کسی شخص کی قسمت یا سعادت اور شقاوت کا حال معلوم کیا جاتا ہے۔ اس قسم کے علم کو حضور ﷺ نے شرک کا حصہ قرار دیا ہے۔ اور سحر کی طرح حرام کہا ہے۔ من اتی منجما۔ فرمایا جو کوئی شخص نجومی کے پاس جا کر قسمت کا حال معلوم کرتا ہے ، وہ شخص محمد ﷺ کی شریعت کا انکار کرتا ہے۔ ایسے شخص کو توبہ کرکے تجدید ایمان کرنی چاہئے۔ قرا ان پاک میں ایسے ستارے کا بھی ذکر ہے جس کی عرب کے لوگ پوجا کرتے تھے۔ سورة نجم میں موجود ہے۔ وانہ ھو رب الشعری۔ یعنی شعری ستارے کا مالک بھی وہی خدا ہے ، جو چاند اور سورج کا خدا ہے ، لہذا تم اس ستارے کی پورجا کیوں کرتے ہو۔ تفسیر الجواہر میں مذکور ہے اور ماہرین فلکیات بھی بتاتے ہیں کہ شعری ستارہ ہمارے سورج سے بیس ہزار گنا بڑا ہے۔ ستاروں سے متعلق دوسرا علم ، علم فلکیات یا (Astronomy) کہلاتا ہے۔ اور کے ذریعے خلا میں موجود ستاروں کے حالات معلوم کیے جاتے ہیں جن پر غور و فکر کرکے انسان کے لیے ترقی کی راہیں کھلتی ہیں۔ شعری ستارے کا حجم اسی علم کے ذریعے حاصل ہوا ہے۔ پھر ماہرین فلکیات یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہماری یہ زمین سورج سے اس قدر چھوٹی ہے کہ ان کے حجم کی نسبت ایک اور تیرہ لاکھ کی ہے۔ گویا زمین سورج سے تیرہ لاکھ گنا چھوٹی ہے۔ مگر بہت دوری کی وجہ سے اتنا بڑا فرق نظر نہیں آتا۔ اور پھر چاند زمین سے بھی چھوٹا ہے۔ مریخ سرخ سیارہ ہے ، سائنسدان اس پر بھی پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کی تصاویر اور دیگر حالات معلوم کیے جا رہے ہیں۔ بہرحال ان سب چیزوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانیاں رکھی ہیں۔ ان میں غور کرکے فوراً خدا کی توحید کا قائل ہوجاتا ہے کہ جس مالک الملک نے یہ سارا نظام قائم کیا ہے ، وہ وحدہ لاشریک ہے۔ یہ نظام شمسی ہے ، اس کے اوپر عالم بالا اور پھر ملاء اعلی ، حظیرۃ القدس اور آخرت کا نظام ہے۔ اور یہ سب نظام اس کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ ان تمام پر اللہ تعالیٰ کا تصرف ہے۔ سورۃ کی ابتداء میں ذکر ہوچکا ہے کہ ہر چیز کو تھامنے والی فقط ذات خداوندی ہے۔ ربوبیت بھی اسی کے ساتھ مختص ہے۔ ہر چیز کو وہی حد کمال تک پہنچانا ہے نشونما کے تمام سامان پیدا کرنے والا بھی وہی مالک الملک ہے۔ لہذا اس کے سوا معبود بھی کوئی نہیں ہوسکتا ، نافع ، ضار ، ہمہ دان ، ہمہ بین اور ہمہ تواں صرف اور صرف وہی ہے۔ اسی لیے انسان یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ سبحنک۔ اے اللہ ! تیری ذات پاک ہے۔ الغرض ! جب انسان تخلیق کائنات میں غور و فکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ ربنا ماخلقت ھذا باطلا۔ تو وہ اس حقیقت کو بھی پالیتا ہے کہ لامحالہ یہ تمام نظام آخرت پر منتج ہونے والا ہے اس لیے وہ رب العزت سے دعا کرتا ہے۔ فقنا عذاب النار۔ اے مولا کریم ! آخرت میں پیش آنے والے دوزخ کے عذاب سے بچالے۔ وہ سمجھ چکا ہے کہ دوزخ کا عذاب کس قدر ہولناک ہے۔ اس لیے مزید دعا کرتا ہے۔ ربنا انک من تدخل النار فقد اخزیتہ۔ اے اللہ ! جس کو تو نے دوزخ کی آگ میں ڈال دیا ، تو نے اس کو رسوا کردیا۔ کافروں کی رسوائی تو اضح ہے کیونکہ وہ ابدی جہنمی ہیں۔ تاہم بعض مومن بھی کچھ عرصہ کے لیے دوزخ میں جائیں گے اگرچہ ان کا یہ قید و بند دوامی نہیں ہوگا بلکہ ان کے تزکیہ کے لیے ہوگا۔ تاکہ گناہوں کی وجہ سے جو میل کچیل ان پر جم چکا ہے ، اسے صاف کرکے اس شخص کو پاک مقام پر جانے کا اہل بنایا جاسکے گا۔ تو بہرحال مفسرین کرام فرماتے ہیں۔ کہ مومن جتنا عرصہ بھی دوزخ میں رہے گا ، اتنا عرصہ تو رسوائی ضرور ہوگی۔ اسی لیے بندہ عرض کرتا ہے۔ کہ مولی کریم ! دوزخ سے بچا لے کیونکہ وہ رسوائی کا مقام ہے اور پھر وہ یہ بھی جانتا ہے۔ وما لظلمین من انصار۔ جو شخص اپنے گناہوں کی وجہ سے دوزخ میں چلا گیا ، اس کے لیے وہاں کوئی مددگار نہیں ہوگا اس دنیا میں تو لوگ حیلے بہانے اور سفارشات کے ذریعے کسی نہ کسی طرح سزا سے بچ جاتے ہیں مگر وہاں پر چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں ہوگی ، مقررہ سزا بہرحال بھگتنا ہوگی۔ اب تک تو عقلی دلائل کی بات ہورہی تھی کہ انسان عقلی طور پر غور و فکر کرکے کسی نتیجے پر پہنچ جاتا ہے۔ اب آگے نقلی یا سمعی دلیل کا بیان آ رہا ہے۔ مومن بارگاہ رب العزت میں عرض کرتا ہے۔ ربنا اننا سمعنا منادیا ینادی للایمان ان امنوا بربکم۔ اے مولا کریم ! بیشک ہم نے ایک منادی کرنے والے کی آواز کو سنا جو ایمان کی دعوت دیتا ہے۔ کہ اپنے رب پر ایمان لے آؤ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ منادی کرنے والا کون ہے۔ تو مفسرین کرام فرماتے ہیں۔ کہ اگر اس سے صامت یعنی خاموش منادی کرنے والا مراد لیا جائے تو وہ قرآن پاک ہے۔ اور اگر ناطق یعنی بولنے والا منافی ہو تو وہ پیغمبر (علیہ السلام) کی ذات مبارکہ ہے۔ قرآن پاک بظاہر خاموش ہے۔ مگر وہ زبان حال سے پکار پکار کر ایمان کی دعوت دے رہا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس وقت انسان صراط مستقیم پر قدم رکھتا ہے ، تو کوئی شخص اس کو کہتا ہے۔ استقم ولا تعد۔ یعنی سیدھے چلے جانا اور دائیں بائیں نہ مڑنا۔ جب صراط مستقیم کا مسافر آگے کی طرف سفر شروع کرتا ہے۔ تو دائیں بائیں طرف موجود دیواروں پر سے پردہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے پھر اوپر سے کوئی دوسرا شخص آواز دیتا ہے کہ بھائی پردہ نہ اٹھاؤ، ایسا کروگے تو غلط راستے پر چل پڑوگے جہاں سے واپس نہیں آ سکوگے۔ فرمایا یہ صراط مستقیم اسلام کا راستہ ہے۔ اور جو ہستی انسان کو اس پر سیدھا چلنے کی دعوت دیتی ہے ، وہ قرآن پاک ہے۔ اور جب کوئی شخص حرام یا ناجائز چیز کی طرف جاتا ہے تو گویا دیوار کا پردہ اٹھاتا ہے۔ اس وقت جو شخص اسے ایسا کرنے سے منع کرتا ہے وہ انسان کا زندہ ضمیر ہوتا ہے۔ وہ انسان کو جھنجھوڑ کر کہتا ہے۔ کہ غلط راستے پر مت جاؤ۔ مگر جب کوئی شخص گناہوں پر اصرار کرتا ہے تو اس کا ضمیر مردہ ہوجاتا ہے ، جو آخر کار ایسے غلط کار کو منع کرنا بھی چھوڑ دیتا ہے اور مسلسل گناہوں کی وجہ سے انسان کے دل پر تاریکی چھا جاتی ہے۔ کلا بل۔ ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون۔ فرمایا لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ چڑھ جاتا ہے۔ جس طرح نمی لگنے سے لوہا زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ اسی طرح گناہوں کی وجہ سے لوگوں کے دل سیاہ ہوجاتے ہیں۔ اگر اس منادی سے مراد ناطق منادی لیا جائے تو وہ نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ ہے۔ آپ بلا واسطہ منادی ہیں ، جنہوں نے ہر مقام پر براہ راست ایمان کی دعوت دی۔ آپ نے کوہ صفا پر ایمان کی دعوت دی۔ کعبۃ اللہ کے پاس اعلان کیا۔ طائف پہنچ کر اللہ کا پیغام پہنچایا۔ گلیوں میں ، بازاروں میں ، میلوں میں اور منڈیوں میں آپ نے ہر جگہ یہی دعوت دی۔ یا ایہا الناس قولوا لا الہ الا اللہ تفلحو۔ اے لوگو ! لا الہ الا اللہ کہہ دو ، فلاح پاجاؤ گے۔ یہ دعوت حضور ﷺ نے اپنے صحابہ کے واسطے سے لوگوں تک آگے بھی پہنچائی۔ یہ دعوت بالواسطہ ہوگئی۔ صحابہ کے بعد تابعین ، تبع تابعین ، بزرگانِ دین ، عالمان دین ، مفسرین اور مفکرین اس دعوت کو دوسروں تک پہنچا کر رسالت کا حق ادا کر رہے ہیں۔ دعائے مغفرت : بہرحال فرمایا کہ ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا جو بلند آواز سے پکار کر کہہ رہا تھا کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ۔ اس دعوت کے جواب میں ہم نے کہا۔ فامنا۔ پس ہم ایمان لے آئے ہیں۔ اور عرض کرتے ہیں۔ ربنا فاغفر لنا ذنوبنا۔ اے ہمارے پروردگار ! ہمارے گناہوں کو معاف فرما دے۔ یہاں پر ذنوب کا لفظ ہے اور اس سے مراد بڑے بڑے گناہ ہیں ، جن سے معافی کی درخواست کی جا رہی ہے۔ و کفر عنا سیاتنا۔ اور مٹا دے ہم سے ہماری چھوتی چھوٹی کوتاہیاں۔ یعنی بڑے چھوٹے سارے ہی گناہ معاف فرما دے۔ بلکہ ان کی بجائے ہمارے نامہ اعمال میں نیکیاں درج فرما دے ، جیسا کہ اللہ نے بعض مقامات پر ارشاد فرمایا۔ فاولئک یبدل اللہ سیاتھم حسنت۔ اللہ تعالیٰ ان کی کوتاہیوں کو نیکیوں میں تبدیل کردیتا ہے۔ ہم بھی ایسی ہی درخواست کرتے ہیں۔ فرمایا ، صاحب بصیرت لوگوں کی اگلی دعا یہ ہوتی ہے۔ وتوفنا مع الابرار۔ اے مولا کریم ! ہمیں وفات بھی نیک لوگوں کے ساتھ دے۔ مرنے سے پہلے اور بعد نیک لوگوں کی رفاقت اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔ سورة نساء میں فرمایا کہ جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی۔ فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبین والصدیقین والشھداء والصلحین۔ وحسن اولئک رفیقا۔ اللہ کے انعام یافتہ لوگ منجملہ نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں اور صالحین کے ساتھ ہوں گے ، اور یہ بہت اچھی رفاقت ہے (جسے نصیب ہوجائے) یہ ایسی چیز ہے جس کے لیے انبیاء (علیہم السلام) بھی دعائیں مانگتے رہے۔ جیسے یوسف (علیہ السلام) نے دعا کی۔ فاطر السموات والارض انت ولیی فی الدنیا والاخرۃ توفنی مسلما والحقنی بالصلحین۔ مجھے اسلام پر موت دنیا اور صالحین کی رفاقت نصیب کرنا۔ میرا انجام نیک لوگوں کے ساتھ ہو۔ یہاں پر ابرار کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جو ، بر ، کی جمع ہے اور معنی نیکوکار یا نیک خصلت ہے۔ ایسے لوگ جو ہمیشہ نیکی پر توجہ رکھتے ہیں۔ نیکوکاروں کی صحبت یا اچھی سوسائٹی کی ضرورت اس زندگی میں بھی ہے ، اچھے اور نیکی والے وہی لوگ ہوں گے جن کے ذہن اچھے اور جن کی تربیت اچھی ہوئی ہے۔ مقصود یہ ہونا چاہئے کہ ایمان والے تقوی والے ، طہارت والے اور صداقت والے لوگوں کی سوسائٹی نصیب ہو ، مگر آج ایسی مجلس کہاں ملے گی۔ ہر طرف دھوکے ، فریب ، فراڈ ، شرک اور بدعت کا زور ہے ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اخلاق ہمیشہ ماحول سے سیکھا جاتا ہے۔ جب ہمارا ماحول ہی درست نہیں ہے۔ ہماری گلیوں اور بازاروں میں گالی گلوش لہو و لعب ، عیاشی اور فحاشی کا دور دورہ ہے۔ بچے گلیوں میں آوارہ پھر رہے ہیں۔ تو اچھی تربیت کیسے ہوگی اور اچھی سوسائٹی کہاں سے آئے گی۔ قرآن پاک کہتا ہے کہ مومن غافل نہیں ہوسکتا ، وہ ماحول کو درست رکھنے کی کوشش کرتا ہے ، وہ جانتا ہے کہ اگر ماحول خراب ہوگیا تو معاشرہ بگڑ جائے گا۔ اور پھر آنے والی نسل کی درستگی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا۔ فرمایا عقلمند لوگوں کی منتہائے مقصود یہ دعا ہوتی ہے ربنا واتنا ما وعدتنا علی رسلک۔ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں وہ کچھ عطا کر جو تو نے اپنے رسولوں کی زبان پر وعدہ کیا ہے اور وہ وعدہ یہ ہے۔ انا لننصر رسلنا والذین امنوا فی الحیوۃ الدنیا ویوم یقوم الاشہاد۔ ہم اپنے رسولوں اور اہل ایمان کی دنیا میں بھی مدد فرمائیں گے ، انہیں فتح و نصرت اور غلبہ عطا کریں گے اور آخرت میں بھی جنت اور درجات عالیہ کا وعدہ ہے۔ اللہ کی مخلوق میں غور و فکر کرنے والے اہل خرد یہ بھی عرض کرتے ہیں۔ اے مولا کریم۔ ولا تخزنا یوم القیمۃ۔ ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کرنا ہمیں یقین ہے۔ انک لاتخلف المیعاد ۔ بیشک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ منتہائے کار دو ہی باتیں ہیں اور وہ یہ کہ انسان آخرت میں کامیابی کے مقام پر یعنی جنت میں پہنچ جائے اور خدا کے غضب کے مقام دوزخ سے بچ جائے۔ اور یہ مقصود حاصل کرنے کے لیے صرف دو چیزوں کی ضرورت ہے۔ اول یہ کہ انسان ایمان ، توحید اور اطاعت کو اختیار کرلے اور دوسرا یہ کہ انسان معاصی سے بچا رہے۔
Top