Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 192
رَبَّنَاۤ اِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَیْتَهٗ١ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ
رَبَّنَآ
: اے ہمارے رب
اِنَّكَ
: بیشک تو
مَنْ
: جو۔ جس
تُدْخِلِ
: داخل کیا
النَّارَ
: آگ (دوزخ)
فَقَدْ
: تو ضرور
اَخْزَيْتَهٗ
: تونے اس کو رسوا کیا
وَمَا
: اور نہیں
لِلظّٰلِمِيْنَ
: ظالموں کے لیے
مِنْ
: کوئی
اَنْصَارٍ
: مددگار
اے ہمارے پروردگار ! بیشک تو نے جس کو دوزخ کی آگ میں داخل کردیا پس بیشک تو نے اس کو رسوا کردیا ، اور نہیں ہوگا ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والا۔
ربط آیات : جیسا کہ گذشتہ درس میں عرض کیا تھا کہ اس سورة کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ایمان اور توحید کے مسائل بیان فرمائے ہیں۔ اور ان میں عقلی اور سمعی یا نقلی دونوں قسم کے دلائل موجود ہیں۔ گذشتہ درس میں عقلی دلائل بیان ہوچکے ہیں اور اب نقلی دلائل پیش ہو رہے ہیں ابتداء میں ذکر آ چکا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور شب و روز کے اختلاف میں اہل عقل کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ جن کے ذریعے انسان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، اس کی حکمت کاملہ اور قدرت تامہ کو سمجھ سکتا ہے اور ایمان اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو اختیار کرسکتا ہے۔ پھر عقلمندوں کی علامات یہ بتائیں کہ ہر وہ حالت میں اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور آسمان و زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اے اللہ ! تو نے یہ سب کچھ عبث پیدا نہیں کیا۔ تخلیق ارض و سما میں غور و فکر کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسان اللہ کی مصنوعات میں تو غور و فکر کرسکتا ہے اور اس کی صفت اور وحدانیت کو سمجھ سکتا ہے ، مگر خود خدا تعالیٰ کی ذات میں غور و فکر نہیں کرسکتا۔ یہ بات امام غزالی نے اپنی متعدد کتابوں میں درج کی ہے۔ اور حضرت شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں یہ اصول بیان کیا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے۔ کہ لافکرۃ فی الرب۔ یعنی رب تعالیٰ کی ذات میں غور و فکر نہیں ہوسکتا۔ تفکروا فی الخلق ولا تتفکروا فی الخالق۔ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیا میں غور و فکر کرو ، خود خالق کائنات کی ذات میں فکر مت کرو ، کیونکہ ذات خداوندی وہ ذات ہے ، جسے غور و فکر کے ذریعے نہیں پایا جاسکتا۔ مخلوق میں غور و فکر سے اللہ تعالیٰ کی صفت سمجھ میں آتی ہے اور اس کی وحدانیت کا ادراک ہوتا ہے۔ چناچہ عقلمند لوگ غور وفکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ کہ اے مولا کریم ! تو نے یہ تمام چیزیں بیکار پیدا نہیں کیں۔ ہم تیری تسبیح بیان کرتے ہیں ، تو وحدہ لا شریک ہے۔ اس طرح گویا توحید کا مسئلہ بھی سمجھ میں آگیا۔ سورة یوسف میں موجود ہے۔ وکاین من ایۃ فی السموت والارض یمرون علیھا وھم عنھا معرضون۔ لوگ زمین و آسمان کی بیشمار نشانیوں کے قریب سے گزر جاتے ہیں مگر ان میں غور و فکر کرکے نتیجہ اخذ نہیں کرتے ، بلکہ غافل رہتے ہیں۔ مقصد یہ کہ زمین و آسمان ، اس کے ستارے اور سیارے ہر وقت انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ نظام شمسی : جس نظام شمسی (Solar system) میں ہم رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ مشہور سیارے زہری ، قمر ، شمس ، عطارد ، مریخ ، مشتری اور زحل ہیں۔ ان کے آجکل بڑے چرچے ہو رہے ہیں۔ خلا پیما سائنس دان ان سیاروں پر کمندیں ڈال رہے ہیں۔ بلکہ ان سات میں قمر سیارے پر تو انسان پہنچ چکا ہے اور اس کی وضع قطع معلوم ہوچکی ہے۔ چاند پر سردترین علاقہ بھی معلوم ہوا ہے ، اگر انسان وہاں پہنچ جائے تو برف کا ٹکڑا بن جائے اسی طرح وہاں پر اڑھائی سو سنٹی گریڈ تک گرم ترین علاقہ بھی موجود ہے۔ جو لوگ چاند پر پہنچے ہیں وہ اس زمینی لباس میں نہیں گئے ، یہ تو فوراً جل جائیگا ، وہاں پر خلائی لباس پہن کر ہی پہنچا جاسکتا ہے۔ اور یہ ایسا لباس ہے جس کی تیاری پر اڑھائی تین لاکھ روپے خرچ آتا ہے۔ قرآن پاک کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ چاند پر انسانی رہائش قریباً ناممکن ہے۔ انسان وہاں پر پہنچا بھی ہے تو محدود وقت کے لیے ماہرین فلکیات بتاتے ہیں کہ چاند پر ایک پونڈ انسانی خوراک پہنچانے پر تیس ہزار پونڈ خرچ آئے گا۔ ظاہر ہے کہ اس قدر فضول عیاشی کی کون جرات کرے گا۔ یہ اس سیارے کی بات ہے جو زمین سے قریب ترین ہے۔ نظام شمسی کا دوسرا سیارہ سورج زمین سے نوکروڑ تیس لاکھ میل دور ہے۔ یہ اپنی پیدائش سے لے کر پورے نظام شمسی کو گرمی اور روشنی پہنچا رہا ہے۔ اس کی روشنی ہم تک سات منٹ اور آٹھ سیکنڈ میں پہنچتی ہے۔ مگر اللہ مالک الملک نے فرمایا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا۔ اذ الشمس کورت۔ جب یہ سورج اور اس کی روشنی لپیٹ دی جائے گی یہ پورا نظام شمسی درہم برہم ہوجائے گا۔ اس کے بعد ایک دوسرا نظام قائم ہوگا ، جسے آخرت اور حشر کا نظام کہا جاسکتا ہے۔ علم فلکیات : ستاروں سے متعلق علم کی دو قسمیں ہیں۔ ایک علم نجوم ہے۔ جس میں ستاروں کے تغیر و تبدل کے حساب سے کسی شخص کی قسمت یا سعادت اور شقاوت کا حال معلوم کیا جاتا ہے۔ اس قسم کے علم کو حضور ﷺ نے شرک کا حصہ قرار دیا ہے۔ اور سحر کی طرح حرام کہا ہے۔ من اتی منجما۔ فرمایا جو کوئی شخص نجومی کے پاس جا کر قسمت کا حال معلوم کرتا ہے ، وہ شخص محمد ﷺ کی شریعت کا انکار کرتا ہے۔ ایسے شخص کو توبہ کرکے تجدید ایمان کرنی چاہئے۔ قرا ان پاک میں ایسے ستارے کا بھی ذکر ہے جس کی عرب کے لوگ پوجا کرتے تھے۔ سورة نجم میں موجود ہے۔ وانہ ھو رب الشعری۔ یعنی شعری ستارے کا مالک بھی وہی خدا ہے ، جو چاند اور سورج کا خدا ہے ، لہذا تم اس ستارے کی پورجا کیوں کرتے ہو۔ تفسیر الجواہر میں مذکور ہے اور ماہرین فلکیات بھی بتاتے ہیں کہ شعری ستارہ ہمارے سورج سے بیس ہزار گنا بڑا ہے۔ ستاروں سے متعلق دوسرا علم ، علم فلکیات یا (Astronomy) کہلاتا ہے۔ اور کے ذریعے خلا میں موجود ستاروں کے حالات معلوم کیے جاتے ہیں جن پر غور و فکر کرکے انسان کے لیے ترقی کی راہیں کھلتی ہیں۔ شعری ستارے کا حجم اسی علم کے ذریعے حاصل ہوا ہے۔ پھر ماہرین فلکیات یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہماری یہ زمین سورج سے اس قدر چھوٹی ہے کہ ان کے حجم کی نسبت ایک اور تیرہ لاکھ کی ہے۔ گویا زمین سورج سے تیرہ لاکھ گنا چھوٹی ہے۔ مگر بہت دوری کی وجہ سے اتنا بڑا فرق نظر نہیں آتا۔ اور پھر چاند زمین سے بھی چھوٹا ہے۔ مریخ سرخ سیارہ ہے ، سائنسدان اس پر بھی پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کی تصاویر اور دیگر حالات معلوم کیے جا رہے ہیں۔ بہرحال ان سب چیزوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانیاں رکھی ہیں۔ ان میں غور کرکے فوراً خدا کی توحید کا قائل ہوجاتا ہے کہ جس مالک الملک نے یہ سارا نظام قائم کیا ہے ، وہ وحدہ لاشریک ہے۔ یہ نظام شمسی ہے ، اس کے اوپر عالم بالا اور پھر ملاء اعلی ، حظیرۃ القدس اور آخرت کا نظام ہے۔ اور یہ سب نظام اس کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ ان تمام پر اللہ تعالیٰ کا تصرف ہے۔ سورۃ کی ابتداء میں ذکر ہوچکا ہے کہ ہر چیز کو تھامنے والی فقط ذات خداوندی ہے۔ ربوبیت بھی اسی کے ساتھ مختص ہے۔ ہر چیز کو وہی حد کمال تک پہنچانا ہے نشونما کے تمام سامان پیدا کرنے والا بھی وہی مالک الملک ہے۔ لہذا اس کے سوا معبود بھی کوئی نہیں ہوسکتا ، نافع ، ضار ، ہمہ دان ، ہمہ بین اور ہمہ تواں صرف اور صرف وہی ہے۔ اسی لیے انسان یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ سبحنک۔ اے اللہ ! تیری ذات پاک ہے۔ الغرض ! جب انسان تخلیق کائنات میں غور و فکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ ربنا ماخلقت ھذا باطلا۔ تو وہ اس حقیقت کو بھی پالیتا ہے کہ لامحالہ یہ تمام نظام آخرت پر منتج ہونے والا ہے اس لیے وہ رب العزت سے دعا کرتا ہے۔ فقنا عذاب النار۔ اے مولا کریم ! آخرت میں پیش آنے والے دوزخ کے عذاب سے بچالے۔ وہ سمجھ چکا ہے کہ دوزخ کا عذاب کس قدر ہولناک ہے۔ اس لیے مزید دعا کرتا ہے۔ ربنا انک من تدخل النار فقد اخزیتہ۔ اے اللہ ! جس کو تو نے دوزخ کی آگ میں ڈال دیا ، تو نے اس کو رسوا کردیا۔ کافروں کی رسوائی تو اضح ہے کیونکہ وہ ابدی جہنمی ہیں۔ تاہم بعض مومن بھی کچھ عرصہ کے لیے دوزخ میں جائیں گے اگرچہ ان کا یہ قید و بند دوامی نہیں ہوگا بلکہ ان کے تزکیہ کے لیے ہوگا۔ تاکہ گناہوں کی وجہ سے جو میل کچیل ان پر جم چکا ہے ، اسے صاف کرکے اس شخص کو پاک مقام پر جانے کا اہل بنایا جاسکے گا۔ تو بہرحال مفسرین کرام فرماتے ہیں۔ کہ مومن جتنا عرصہ بھی دوزخ میں رہے گا ، اتنا عرصہ تو رسوائی ضرور ہوگی۔ اسی لیے بندہ عرض کرتا ہے۔ کہ مولی کریم ! دوزخ سے بچا لے کیونکہ وہ رسوائی کا مقام ہے اور پھر وہ یہ بھی جانتا ہے۔ وما لظلمین من انصار۔ جو شخص اپنے گناہوں کی وجہ سے دوزخ میں چلا گیا ، اس کے لیے وہاں کوئی مددگار نہیں ہوگا اس دنیا میں تو لوگ حیلے بہانے اور سفارشات کے ذریعے کسی نہ کسی طرح سزا سے بچ جاتے ہیں مگر وہاں پر چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں ہوگی ، مقررہ سزا بہرحال بھگتنا ہوگی۔ اب تک تو عقلی دلائل کی بات ہورہی تھی کہ انسان عقلی طور پر غور و فکر کرکے کسی نتیجے پر پہنچ جاتا ہے۔ اب آگے نقلی یا سمعی دلیل کا بیان آ رہا ہے۔ مومن بارگاہ رب العزت میں عرض کرتا ہے۔ ربنا اننا سمعنا منادیا ینادی للایمان ان امنوا بربکم۔ اے مولا کریم ! بیشک ہم نے ایک منادی کرنے والے کی آواز کو سنا جو ایمان کی دعوت دیتا ہے۔ کہ اپنے رب پر ایمان لے آؤ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ منادی کرنے والا کون ہے۔ تو مفسرین کرام فرماتے ہیں۔ کہ اگر اس سے صامت یعنی خاموش منادی کرنے والا مراد لیا جائے تو وہ قرآن پاک ہے۔ اور اگر ناطق یعنی بولنے والا منافی ہو تو وہ پیغمبر (علیہ السلام) کی ذات مبارکہ ہے۔ قرآن پاک بظاہر خاموش ہے۔ مگر وہ زبان حال سے پکار پکار کر ایمان کی دعوت دے رہا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس وقت انسان صراط مستقیم پر قدم رکھتا ہے ، تو کوئی شخص اس کو کہتا ہے۔ استقم ولا تعد۔ یعنی سیدھے چلے جانا اور دائیں بائیں نہ مڑنا۔ جب صراط مستقیم کا مسافر آگے کی طرف سفر شروع کرتا ہے۔ تو دائیں بائیں طرف موجود دیواروں پر سے پردہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے پھر اوپر سے کوئی دوسرا شخص آواز دیتا ہے کہ بھائی پردہ نہ اٹھاؤ، ایسا کروگے تو غلط راستے پر چل پڑوگے جہاں سے واپس نہیں آ سکوگے۔ فرمایا یہ صراط مستقیم اسلام کا راستہ ہے۔ اور جو ہستی انسان کو اس پر سیدھا چلنے کی دعوت دیتی ہے ، وہ قرآن پاک ہے۔ اور جب کوئی شخص حرام یا ناجائز چیز کی طرف جاتا ہے تو گویا دیوار کا پردہ اٹھاتا ہے۔ اس وقت جو شخص اسے ایسا کرنے سے منع کرتا ہے وہ انسان کا زندہ ضمیر ہوتا ہے۔ وہ انسان کو جھنجھوڑ کر کہتا ہے۔ کہ غلط راستے پر مت جاؤ۔ مگر جب کوئی شخص گناہوں پر اصرار کرتا ہے تو اس کا ضمیر مردہ ہوجاتا ہے ، جو آخر کار ایسے غلط کار کو منع کرنا بھی چھوڑ دیتا ہے اور مسلسل گناہوں کی وجہ سے انسان کے دل پر تاریکی چھا جاتی ہے۔ کلا بل۔ ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون۔ فرمایا لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ چڑھ جاتا ہے۔ جس طرح نمی لگنے سے لوہا زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ اسی طرح گناہوں کی وجہ سے لوگوں کے دل سیاہ ہوجاتے ہیں۔ اگر اس منادی سے مراد ناطق منادی لیا جائے تو وہ نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ ہے۔ آپ بلا واسطہ منادی ہیں ، جنہوں نے ہر مقام پر براہ راست ایمان کی دعوت دی۔ آپ نے کوہ صفا پر ایمان کی دعوت دی۔ کعبۃ اللہ کے پاس اعلان کیا۔ طائف پہنچ کر اللہ کا پیغام پہنچایا۔ گلیوں میں ، بازاروں میں ، میلوں میں اور منڈیوں میں آپ نے ہر جگہ یہی دعوت دی۔ یا ایہا الناس قولوا لا الہ الا اللہ تفلحو۔ اے لوگو ! لا الہ الا اللہ کہہ دو ، فلاح پاجاؤ گے۔ یہ دعوت حضور ﷺ نے اپنے صحابہ کے واسطے سے لوگوں تک آگے بھی پہنچائی۔ یہ دعوت بالواسطہ ہوگئی۔ صحابہ کے بعد تابعین ، تبع تابعین ، بزرگانِ دین ، عالمان دین ، مفسرین اور مفکرین اس دعوت کو دوسروں تک پہنچا کر رسالت کا حق ادا کر رہے ہیں۔ دعائے مغفرت : بہرحال فرمایا کہ ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا جو بلند آواز سے پکار کر کہہ رہا تھا کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ۔ اس دعوت کے جواب میں ہم نے کہا۔ فامنا۔ پس ہم ایمان لے آئے ہیں۔ اور عرض کرتے ہیں۔ ربنا فاغفر لنا ذنوبنا۔ اے ہمارے پروردگار ! ہمارے گناہوں کو معاف فرما دے۔ یہاں پر ذنوب کا لفظ ہے اور اس سے مراد بڑے بڑے گناہ ہیں ، جن سے معافی کی درخواست کی جا رہی ہے۔ و کفر عنا سیاتنا۔ اور مٹا دے ہم سے ہماری چھوتی چھوٹی کوتاہیاں۔ یعنی بڑے چھوٹے سارے ہی گناہ معاف فرما دے۔ بلکہ ان کی بجائے ہمارے نامہ اعمال میں نیکیاں درج فرما دے ، جیسا کہ اللہ نے بعض مقامات پر ارشاد فرمایا۔ فاولئک یبدل اللہ سیاتھم حسنت۔ اللہ تعالیٰ ان کی کوتاہیوں کو نیکیوں میں تبدیل کردیتا ہے۔ ہم بھی ایسی ہی درخواست کرتے ہیں۔ فرمایا ، صاحب بصیرت لوگوں کی اگلی دعا یہ ہوتی ہے۔ وتوفنا مع الابرار۔ اے مولا کریم ! ہمیں وفات بھی نیک لوگوں کے ساتھ دے۔ مرنے سے پہلے اور بعد نیک لوگوں کی رفاقت اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔ سورة نساء میں فرمایا کہ جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی۔ فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبین والصدیقین والشھداء والصلحین۔ وحسن اولئک رفیقا۔ اللہ کے انعام یافتہ لوگ منجملہ نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں اور صالحین کے ساتھ ہوں گے ، اور یہ بہت اچھی رفاقت ہے (جسے نصیب ہوجائے) یہ ایسی چیز ہے جس کے لیے انبیاء (علیہم السلام) بھی دعائیں مانگتے رہے۔ جیسے یوسف (علیہ السلام) نے دعا کی۔ فاطر السموات والارض انت ولیی فی الدنیا والاخرۃ توفنی مسلما والحقنی بالصلحین۔ مجھے اسلام پر موت دنیا اور صالحین کی رفاقت نصیب کرنا۔ میرا انجام نیک لوگوں کے ساتھ ہو۔ یہاں پر ابرار کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جو ، بر ، کی جمع ہے اور معنی نیکوکار یا نیک خصلت ہے۔ ایسے لوگ جو ہمیشہ نیکی پر توجہ رکھتے ہیں۔ نیکوکاروں کی صحبت یا اچھی سوسائٹی کی ضرورت اس زندگی میں بھی ہے ، اچھے اور نیکی والے وہی لوگ ہوں گے جن کے ذہن اچھے اور جن کی تربیت اچھی ہوئی ہے۔ مقصود یہ ہونا چاہئے کہ ایمان والے تقوی والے ، طہارت والے اور صداقت والے لوگوں کی سوسائٹی نصیب ہو ، مگر آج ایسی مجلس کہاں ملے گی۔ ہر طرف دھوکے ، فریب ، فراڈ ، شرک اور بدعت کا زور ہے ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اخلاق ہمیشہ ماحول سے سیکھا جاتا ہے۔ جب ہمارا ماحول ہی درست نہیں ہے۔ ہماری گلیوں اور بازاروں میں گالی گلوش لہو و لعب ، عیاشی اور فحاشی کا دور دورہ ہے۔ بچے گلیوں میں آوارہ پھر رہے ہیں۔ تو اچھی تربیت کیسے ہوگی اور اچھی سوسائٹی کہاں سے آئے گی۔ قرآن پاک کہتا ہے کہ مومن غافل نہیں ہوسکتا ، وہ ماحول کو درست رکھنے کی کوشش کرتا ہے ، وہ جانتا ہے کہ اگر ماحول خراب ہوگیا تو معاشرہ بگڑ جائے گا۔ اور پھر آنے والی نسل کی درستگی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا۔ فرمایا عقلمند لوگوں کی منتہائے مقصود یہ دعا ہوتی ہے ربنا واتنا ما وعدتنا علی رسلک۔ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں وہ کچھ عطا کر جو تو نے اپنے رسولوں کی زبان پر وعدہ کیا ہے اور وہ وعدہ یہ ہے۔ انا لننصر رسلنا والذین امنوا فی الحیوۃ الدنیا ویوم یقوم الاشہاد۔ ہم اپنے رسولوں اور اہل ایمان کی دنیا میں بھی مدد فرمائیں گے ، انہیں فتح و نصرت اور غلبہ عطا کریں گے اور آخرت میں بھی جنت اور درجات عالیہ کا وعدہ ہے۔ اللہ کی مخلوق میں غور و فکر کرنے والے اہل خرد یہ بھی عرض کرتے ہیں۔ اے مولا کریم۔ ولا تخزنا یوم القیمۃ۔ ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کرنا ہمیں یقین ہے۔ انک لاتخلف المیعاد ۔ بیشک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ منتہائے کار دو ہی باتیں ہیں اور وہ یہ کہ انسان آخرت میں کامیابی کے مقام پر یعنی جنت میں پہنچ جائے اور خدا کے غضب کے مقام دوزخ سے بچ جائے۔ اور یہ مقصود حاصل کرنے کے لیے صرف دو چیزوں کی ضرورت ہے۔ اول یہ کہ انسان ایمان ، توحید اور اطاعت کو اختیار کرلے اور دوسرا یہ کہ انسان معاصی سے بچا رہے۔
Top