Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 196
لَا یَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِی الْبِلَادِؕ
لَا يَغُرَّنَّكَ : نہ دھوکہ دے آپ کو تَقَلُّبُ : چلنا پھرنا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) فِي : میں الْبِلَادِ : شہر (جمع)
نہ مغالطے میں ڈالے آپ کو ان لوگوں کا مختلف شہروں میں چلنا پھرنا جنہوں نے کفر کیا۔
ربط آیات : گذشتہ دروس میں ذکر آ چکا ہے۔ کہ عقلمند وہ لوگ ہیں جو اللہ کی نشانیوں میں غور و فکر کرنے کے بعد ایمان قبول کرتے ہیں اور آخرت کی فکر میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں اور آخرت کی رسوائی سے بچنے کے لیے گڑگڑا کر دعائیں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ ان کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے۔ اور کسی عامل کے عمل کو ضائع نہیں کرتا۔ عمل کرنے والا خواہ مرد ہو یا عورت۔ ہر شخص کو اس کے عمل کے مطابق بدلہ ضرور ملے گا۔ خصوصاً جو لوگ مشقت کے کام کرتے ہیں ، اپنے گھر بار کو چھوڑ کر اللہ کے دین کی خاطر ہجرت کرتے ہیں اور جان ہتھیلی پر رکھ کر خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہیں ، کبھی غالب آتے ہیں۔ اور کبھی شہادت کا درجہ پاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے خدا تعالیٰ کے ہاں بڑا اجر وثواب ہے۔ استدراج : اب آج کے درس میں دوسری قسم کے لوگوں کا تذکرہ کرکے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو خبردار کیا ہے کہ کفار کی ظاہری شان و شوکت مال و دولت اور آرام و آسائش دیکھ کر کہیں دھوکے میں نہ پڑجائیں کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی نعمتیں عطا کی ہیں۔ وہ فی الحقیقت اللہ کے پسندیدہ لوگ ہیں۔ فرمایا ایسا نہیں ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ لایغرنک تقلب الذین کفروا فی البلاد۔ کفار کا مختلف شہروں میں آنا جانا کہیں آپ کو دھوکے میں نہ ڈال دے۔ فرمایا آپ دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں اور معاصی میں مبتلا ہیں ، وہ اس دنیا میں خوشحالی کی زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔ بہترین مکانوں میں رہائش پذیر ہیں۔ اعلی سواریاں حاصل ہیں ، کارخانے ہیں ، مربعے ہیں ، مال و دولت کی فراوانی ہے۔ مگر ایمان سے خالی ہیں۔ نیکی سے محروم ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان نہیں رکھتے ، نہ عاقبت کی انہیں کوئی فکر ہے۔ فرمایا ایسے لوگوں کے متعلق یہ گمان نہ کر بیٹھنا کہ شاید یہ لوگ اچھے ہیں۔ افراد سے بڑھ کر قوموں پر بھی یہ اصول منطبق ہوتا ہے۔ روسی اور امریکی اگر سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے ہیں۔ جاپانی صنعت میں سرفہرست ہیں ، جرمنی اور برطانوی انجینئرنگ میں کمال حاصل کرچکے ہیں ، انہیں دنیا میں اقتدار حاصل ہے ، لوگ خوشحال ہیں۔ روپے کی ریل پیل ہے۔ ، ڈالر ، مارک اور پونڈ کے ذریعے پوری دنیا کی معیشت ان کے قبضے میں ہے۔ اللہ نے فرمایا کہیں مغالطے میں نہ رہنا یہ استدراج ہے اور اللہ کے ہاں یہ سب جہنم کے کندہ ناتراش ہیں۔ ان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے یہ تو اللہ نے انہیں مہلت دے رکھی ہے کہ جو کچھ کرنا ہے کرلو۔ نولہ ماتولی۔ آخر پکڑے جاؤگے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں آتا ہے حضور ﷺ نے فرمایا۔ لایغبطن فاجرا فانک لاتدری ما ھو لاق بعد موتہ فان لہ عند اللہ قاتلا لای موت۔ تم کسی فاجر اور نافرمان آدمی کی حالت پر رشک نہ کرنا ، کیونکہ تم نہیں جانتے کہ مرنے کے بعد وہ کس چیز سے ملنے والا ہے۔ کیونکہ اس کے لیے اللہ کے ہاں ایسا قاتل ہے جو کبھی نہیں مرے گا۔ قاتل سے مراد موت ہے۔ جو کبھی اس سے جدا نہیں ہوگی اور وہ ہمیشہ ہلاکت میں مبتلا رہے گا۔ طرز تخاطب : لایغرنک ، میں صیغہ واحد مذکر حاضر استعمال کیا گیا ہے۔ کہیں آپ کو دھوکے میں نہ ڈالیں۔ وحی الہی کے مخاطب اول تو حضور نبی کریم (علیہ السلام) ہیں اور اسی لحاظ سے یہ آپ کو خطاب کیا جا رہا ہے۔ کہ کہیں مغالطہ کا شکار نہ ہوجائیں کہ کافر لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔ ظاہر ہے کہ نبی (علیہ السلام) کی ذات کے متعلق تو یہ گمان نہیں کیا جاسکتا کہ حضور ﷺ کو کبھی شک بھی گزرا ہو کہ کافر اللہ کے محبوب ہیں۔ لہذا اس خطاب کا مطلب یہ ہے کہ یہ خطاب تو آپ ہی سے ہے مگر بات ساری امت بلکہ ساری انسانیت کو سمجھائی جا رہی ہے۔ کہ کفار کی ظاہری شان و شوکت دیکھ کر کہیں غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجانا کہ وہ حق پر ہیں۔ اس قسم کا طرز تخاطب قرآن پاک کے ک مختلف مقامات پر آتا ہے۔ اکثر مقامات پر لفظ۔ قل۔ کے ذریعے نبی (علیہ السلام) کو مخاطب کیا گیا ہے مگر مقصود تمام متعلقین کو سمجھانا ہوتا ہے۔ ایک مقام پر حضور سے خطاب ہے۔ لاتطع الکفرین۔ یعنی آپ کفار کی اطاعت نہ کریں۔ حالانکہ آپ کی ذات والا صفات کے متعلق تو دور کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا مگر مقصد یہاں بھی عام اہل ایمان کی ہدایت ہے۔ سورة کوثر میں آتا ہے۔ فصل لربک وانحر۔ اے پیغمبر ! آپ اپنے رب کی نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔ صیغہ واھد استعمال ہونے کی بنا پر کیا یہ حکم صرف آپ کی ذات کے لیے ہی ہے۔ نہیں ، بلکہ ساری امت کو نماز اور قربانی کا حکم دیا گیا ہے۔ اور اگر یہ خطاب حضور ﷺ کی ذات تک ہی محدود سمجھا جائے ، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ کو یہ بات تاکید کے طور پر کہی جا رہی ہے کہ کافروں کے متعلق کسی غلط فہمی میں نہ پہلے آپ کبھی مبتلا ہوئے ہیں اور نہ آئندہ ہوں۔ اس قسم کی تاکید بعض دوسرے مقامات پر بھی آتی ہے۔ مثلاً حضور ﷺ کو فرمایا۔ لئن اشرکت لیحبطن عملک۔ آپ شرک نہ کریں اگر آپ نے بھی شرک کا ارتکاب کیا تو آپ کے عمل بھی ضائع ہوجائیں گے۔ اللہ کے تمام نبی تو شرک سے معصوم ہوتے ہیں۔ نبی کی ذات سے تو شرک کا شائبہ تک محال ہے مگر تاکید کے طور پر اس قسم کا خطاب کیا گیا ہے۔ کہ آپ ہمیشہ شرک سے بیزار رہے ہیں لہذا آئندہ بھی اس سے بچتے رہیں۔ بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں۔ کہ یہ خطاب عام ہے۔ اور ہر اس مخاطب کے لیے ہے جو حق کا طلبگار ہے اور حقیقت تک پہنچنا چاہتا ہے گویا عام طالبانِ حق کو بات سمجھائی جا رہی ہے۔ کہ کافروں کی خوشحالی دیکھ کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ متاع قلیل : فرمایا دنیا کا سارا سازوسامان جو اس زمین پر بسنے والے ایک ایک فرد کے پاس موجود ہے ، اور وہ خزانے جو پہاڑوں کی تہوں میں موجود ہیں اور بیش قیمت موتی جو سمندروں میں پائے جاتے ہیں ، مکان ، کوٹھیاں ، کاریں ، کارخانے ، زر و جواہرات ، مع دنیات غرضیکہ دنیا کی ہر چیز ایک جگہ پر اکٹھی کردی جائے ، تو پھر بھی یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے نزدیک۔ متاع قلیل۔ تھوڑا سا فائدہ اٹھانا ہے۔ یہ معمولی سامان ہے جو اللہ نے لوگوں کے استعمال کے لیے دے رکھا ہے ہے۔ حضور نبی (علیہ السلام) کے فرمان کے مطابق پوری دنیا کے مال و دولت کی مثال آخرت کے مقابلے میں ایسی ہے جو اللہ نے لوگوں کے استعمال کے لیے دے رکھا۔ حضور نبی (علیہ السلام) کے فرمان کے مطابق پوری دنیا کے مال و دولت کی مثال آخرت کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے کوئی شخص سمندر میں انگلی ڈبو کر نکال لے۔ انسان جس مال و متاع کی موجودگی پر اکڑ رہا ہے۔ اس کی حیثیت اتنی بھی نہیں جتنا پانی کسی انگلی کو لگ سکتا ہے۔ اب تو لوگوں کی عمریں چھوٹی ہوگئیں ہیں اور اس تھوڑے وقت میں انسان کیا کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ پہلے لوگوں نے بڑی لمبی لمبی عمریں پائیں اور اس طرح انہوں نے مال و دولت بھی زیادہ اکٹھا کیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت ادریس (علیہ السلام) کا زمانہ بلکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دور تک لوگوں کی عمریں طویل تھیں پھر کم ہونا شروع ہوگئیں۔ اس وقت لوگوں پر بڑھاپا بھی طاری نہیں ہوتا تھا۔ اب بڑھاپا آنے لگا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے لوگوں کے بال بھی سفید نہیں ہوتے تھے۔ سب سے پہلے آپ ہی کے بالوں میں سفیدی آئی۔ غرض ! اب تو پوری دنیا پر بڑھاپا طاری ہوگیا ہے ، ابتدائے دنیا سے لے کر جتنا بھی مال و متاع ہے آخرت کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ لہذا آپ کافروں کی طرف دیکھ کر کسی مغالطے میں نہ پڑجائیں کہ وہ محبوب خدا ہیں جو کچھ بھی ان کے پاس ہے بالکل حقیر چیز ہے۔ جو اس دنیا میں ختم ہوجائے گا۔ اور پھر جب وہ آخرت کی منزل میں قدم رکھیں گے۔ ثم ماواھم جھنم۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ وبئس المہاد۔ اور وہ بہت برا ٹھکا انا ہے جس کی طرف جا رہے ہیں۔ متقین کے لیے انعام : فرمایا یہ تو کفار کا انجام ہوگا۔ اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھئے۔ لکن الذین اتقوا ربھم۔ مگر وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈرتے رہے۔ شرک و کفر سے محفوظ رہے۔ معاصی سے بچتے رہے ان کے دلوں میں خدا کا خوف جاگزیں رہا اور اسی خوف کی وجہ سے اللہ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز نہیں کیا ، دنیا میں حلال و حرام کا امتیاز کیا۔ نیکی اور بدی کو پہچانا ، اپنے ایمان کی حفاظت کی ، اسی چیز کا نام تقوی ہے۔ چناچہ جن لوگوں نے تقوی کا راستہ اختیار کیا فرمایا۔ لھم جنت تجری من تحتھا الانھر۔ ان کے لیے باغات ہیں۔ جن کے سامنے نہریں بہتی ہیں۔ جنت کی نعمتوں کی جو تفصیلات قرآن پاک نے مختلف مقامات پر بیان کی ہیں وہ ایسی چیزیں ہیں جو انسان عام طور پر اپنے تصور میں لاسکتا ہے۔ مثلاً دنیا میں آرام و آسائش کے لیے اچھا مکان ، اچھی بیوی جو اچھے اخلاق واطوار کی حاملم ہو۔ قرا ان پاک نے انہیں۔ ازواج مطھرۃ۔ کا نام دیا ہے۔ ومسکن طیبۃ۔ یعنی پسندیدہ مکانوں کا ذکر کیا ہے۔ اور اسی طرح اچھی رفاقت کا تذکرہ آتا ہے جیسے گذشتہ درس میں گزر چکا ہے مع الابرار۔ نیک لوگوں کی رفاقت کی دعائیں انبیاء (علیہم السلام) بھی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ انسان اچھا لباس بھی پسند کرتا ہے اس کی موافقت سے جنت کے پاکیزہ لباس کا تذکرہ بھی آتا ہے۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے۔ کہ جنت کی حور کی اوڑھنی نصیفۃ خیر من الدنیا ومافیھا۔ اس پوری دنیا اور اس میں موجود ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہوگی۔ آخرت کا مال و متاع اور آرام و آسائش اس دنیا کے مقابلے میں لامحدود ہوگا۔ اسی طرح شراب طہور ، عسل مصفی ، دودھ کی نہروں اور غیر آسن پانی کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ سب چیزیں اہل جنت کو حاصل ہوں گی جن کا صحیح تصور ہم اس وقت نہیں کرسکے ، تاہم اللہ تعالیٰ نے اپنے انعام یافتہ بندوں کے لیے جن انعامات کا ذکر کیا ہے۔ وہ ایسی چیزیں ہیں جو کسی حد تک ہمارے تصور میں آسکتی ہیں۔ اسی لیے فرمایا کہ متقی لوگوں کے لیے باغات ہوں گے جن کے سامنے مصفی پانی کی نہریں بہتی ہوں گی۔ ان نہروں کا پانی کبھی خراب نہیں ہوگا اور اگر جنتی چاہیں گے تو یہ نہریں بغیر کسی رکاوٹ کے زمین کے اوپر چل رہی ہوں گی۔ فرمایا متقین اس جنت میں کسی مھدود عرصہ کے لیے نہیں جائیں گے بلکہ ، خلدین فیھا ، اس میں ہمیشہ ہمیشہ سکونت پذیر رہیں گے اور اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہاں سے انہیں نکالا نہیں جائیگا۔ اللہ تعالیٰ یہ بھی فرمائیں گے کہ تم مقام رضوان میں پہنچ چکے ہو۔ اب میں تم سے کبھی ناراض نہیں ہوں گا۔ اللہ کی طرف سے مہمانداری : فرمایا یہ ساری نعمتیں ، نزلا من عنداللہ ، اللہ کی طرف سے مہمانداری ہوگی۔ نزل۔ اس اچھی سے اچھی چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے جو مہمان کی آمد پر سب سے پہلے پیش کی جاتی ہے۔ ایسی نعمتوں کا اشارہ اگلی آیت کے اگلے حصے میں بھی آرہا ہے بہرحال اللہ تعالیٰ کی مہمانداری میں اعلی ترین چیزیں پیش کی جائیں گی جن میں مادی نعمتوں کے علاوہ تقرب الہی اور تجلیات الہی جیسی عظیم نعمتیں بھی شامل ہوں گی۔ نزل کو مہمانداری کے معانی میں عام عربی بول چال میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ امام بیضاوی ایک شعر نقل فرماتے ہیں۔ وکنا اذ الجبار بالجیش ضافنا جعلنا القنا والمرھفات لہ نزلا اگر جبار لشکر لے کر ہمارا مہمان بنتا ہے۔ تاہم اس کے لیے نیزے اور قاطع تلواریں مہمانی کے طور پر تیار رکھیں گے۔ مطلب یہ کہ ظالم شخص کا استقبال ہم تلواروں اور نیزوں سے کرتے ہیں یہ تحکم کے طور پر بات کی گئی ہے۔ تو بہرحال نزل کا معنی مہمانداری ہے۔ جو اللہ تعالیٰ جنتیوں کے لیے پیش کریں گے۔ ظاہر ہے کہ جن خوش قسمت لوگوں کا میزبان خود خدا ہوگا ، ان کو کتنی عزت اور کتنا شرف حاصل ہوگا۔ نیکوکاروں کے لیے بہتر اجر : فرمایا ، وما عنداللہ خیر للابرار ، جو کچھ اللہ کے پاس ہے یعنی اس کی اعلی سے اعلی نعمتیں بہتر ہیں نیکوکاروں کے لیے ابرار کا لفظ پہلے بھی گزر چکا ہے یہ بِر کی جمع ہے اور مراد وہ نیک لوگ ہیں جن کی نگاہ ہمیشہ انجام پر رہتی ہے اور نیکی کرنا ان کا شعار ہوتا ہے۔ وہ ہر چھوٹے بڑے ، اعلی ادنی کے ساتھ نیکی کرتے ہیں۔ بڑوں کا حق ادا کرتے ہیں ، اولاد اور دیگر عزیز و اقارب کے ساتھ شفقت سے پیش آتے ہیں۔ والدین کی خدتم کرتے ہیں برابر والوں سے حسن سلوک کرتے ہیں۔ دوست احباب اور پڑوسیوں سے میل ملاپ رکھتے ہیں ، غربا و مساکین کے ساتھ مطلوبہ سلوک روا رکھتے ہیں ، غرض وہ لوگ ہر وقت اور ہر ایک کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں۔ فرمایا اللہ کے پاس جو کچھ انعامات ہیں وہ ان نیک لوگوں کے لیے بہتر اجر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان کے گروہ میں شامل ہونے کا مستحق بنائے۔
Top