Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 21
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ حَقٍّ١ۙ وَّ یَقْتُلُوْنَ الَّذِیْنَ یَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ١ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ جو يَكْفُرُوْنَ : انکار کرتے ہیں بِاٰيٰتِ : آیتوں کا اللّٰهِ : اللہ وَيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے ہیں النَّبِيّٖنَ : نبیوں کو بِغَيْرِ حَقٍّ : ناحق وَّيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے ہیں الَّذِيْنَ : جو لوگ يَاْمُرُوْنَ : حکم کرتے ہیں بِالْقِسْطِ : انصاف کا مِنَ النَّاسِ : لوگوں سے فَبَشِّرْھُمْ : سو انہیں خوشخبری دیں بِعَذَابٍ : عذاب اَلِيْمٍ : دردناک
بیشک وہ لوگ جو کفر کرتے ہیں اللہ کی آیتوں کے ساتھ ، اور قتل کرتے ہیں اللہ کے نبیوں کو ناحق۔ اور قتل کرتے ہیں ان لوگوں کو جو حکم دیتے ہیں لوگوں کو انصاف کرنے کا لوگوں میں سے۔ پس ایسے لوگوں کو خوشخبری سنا دیجیے ، عذاب الیم کی۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی ہٹ دھرمی کا ذکر کیا تھا۔ کہ اہل کتاب نے دین میں اختلاف نہیں کیا مگر علم آجانے کے بعد محض سرکشی ، حسد ، عناد ، اور بغض کی وجہ سے انہوں نے دنیا کے جاہ و مال ، ریاست اور اقتدار کی خاطر دین حق کو قبول نہ کیا نیز یہ بھی بیان ہوا کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرے گا۔ وہ اللہ کی گرفت سے بچ نہیں سکتا۔ اس کے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ وہ اللہ کے سچے دین کو مان لے۔ صحیح عقیدہ اختیار کرلے اور خدا تعالیٰ کا مطیع و فرمانبردار ہوجائے۔ آیات سے انکار : ان آیات میں بھی اہل کتاب کا ہی ذکر ہے۔ فرمایا ان الذین یکفرون بایات اللہ ، جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔ ان کو تسلیم نہیں کرتے ان کے ساتھ کفر کرتے ہیں۔ اب کفر کی کئی ایک قسمیں ہیں۔ کفر انکار سے بھی ہوتا ہے۔ شک اور تردد سے بھی کفر لازم آتا ہے اور ایک عملی کفر ہے اسی طرح نفاق کا کفر ہے۔ مگر سب سے بڑا کفر اللہ کی آیات اور اس کے احکام کو تسلیم نہ کرنے کا نام ہے۔ احکام الٰہی کا منکر مکمل کافر ہوجاتا ہے۔ یہ کفر والی بیماری مشرکین مکہ کے بعد اہل کتاب میں بھی سرایت کرچکی تھی۔ تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کی اس بیماری کا ذکر فرمایا ہے۔ قتل ناحق : اہل کتاب کی دوسری خطرناک بیماری کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا۔ ویقتلون النبیین بغیر حق۔ وہ اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کردیتے تھے۔ حضور ﷺ کے زمانہ کے یہود و نصاریٰ کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ تکفیر آیات اور قتل انبیاء کی بیماری انہیں اپنے آباء و اجداد سے ورچے میں ملی ہے۔ جس طرح انہوں نے انبیاء کو ناحق قتل کیا۔ حضور ﷺ کے زمانہ کے اہل کتاب بھی اسی روش پر چل رہے ہیں۔ حضرت اوعبیدہ بن جراح سے روایت ہے کہ حضور خاتم النبیین ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ قیامت کے دن سب سے بڑا مجرم کون ہوگا۔ آپ (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا سب سے بڑا مجرم وہ ہوگا من قتل نبیا ، جس نے اللہ کے نبی کو قتل کیا ، او قتلہ نبی یا وہ بڑا مجرم ہوگا جسے اللہ کا نبی قتل کردے۔ نبی تو معصوم ہوتے ہیں۔ لوگوں کے خیر خواہ اور ہمدرد ہوتے ہیں۔ لہذا ایسی ہستی کو قتل کرنا بلاشبہ بہت بڑا جرم ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نبی کسی کو ناحق قتل نہیں کرتا۔ اور جس کو نبی قتل کردے وہ یقیناً بہت بڑا مجرم ہوگا۔ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ غرضیکہ نبی کا قاتل یا نبی کا مقتول دونوں بڑے مجرموں میں شمار ہوتے ہیں۔ قتلِ ناحق اس قدر بری چیز ہے۔ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نبی اسرائیل نے صرف ایک دن میں اللہ 43 نبیوں کو قتل کیا۔ وہ لوگوں کو اچھی بات بتاتے تھے ، برائی سے روکتے تھے ، مگر وہ مشتعل ہو کر انبیاء کو قتل کردیتے تھے۔ انبیاء کے قتل کے بعد کچھ نیک لوگ آگے آئے۔ انہوں نے بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام شروع کیا۔ لوگوں کو طعن و ملامت کی کہ تم نے اللہ کے نبیوں کو قتل کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان بدبختوں نے اسی دن پچھلے پہر ایک سو بارہ یا ایک سوستر نیک لوگوں کو بھی قتل کردیا۔ یہ ان کا ایک دن کا کارنامہ تھا۔ اسی چیز کی طرف اللہ پاک نے اشارہ کیا۔ کہ جو کفر کرتے ہیں۔ اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کرتے ہیں۔ ویقتلون الذین یامرون بالقسط من الناس۔ اور ان لوگوں کو بھی قتل کرتے ہیں۔ جو لوگوں کو انصاف کا حکم دیتے ہیں۔ قسط کا لفظ قرآن پاک میں متعدد مقامات پر آیا ہے اور اس سے مراد عام طور پر انصاف لیا جاتا ہے۔ قل امر ربی بالقسط۔ تو کہہ دے کہ میرے رب نے حکم کردیا ہے انصاف کا۔ سورة الرحمن میں فرمایا ، واقیموا الوزن بالقسط ولا تخسروا المیزان ، یعنی کسی کے تول میں خرابی نہ کرو۔ ناپ تول میں انصاف قائم کرو۔ انصاف کا قیام انسانیت کی بنیادی صفت ہے۔ پہلے آیت گذر چکی ہے ، قائما بالقسط ، خدا تعالیٰ خودا تعالیٰ خود بھی انصاف کرتا ہے اور دوسروں کو بھی انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے بخاری شریف کی روایت میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، انی حرمت ظلما علی نفسی و جعلتہ بینکم حراما ، یعنی اے بنی آدم ! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام قرار دیا ہے۔ اور تمہارے درمیان بھی ظلم حرام ہے۔ فلا تظلموا ، پس ایک دوسرے پر ظلم نہ کیا کرو۔ اللہ تعالیٰ کے اس واضح حکم کے باوجود اہل کتاب کا شیوہ یہ تھا کہ وہ اللہ کے نبیوں کو قتل کرتے تھے۔ اور ان لوگوں کو بھی قتل کرتے جو انصاف کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے۔ خود حضور ﷺ کے زمانہ میں خیبر کے یہودیوں نے آپ کے قتل کا قصد کیا۔ آپ کے کھانے میں زہر ملا دیا گیا۔ مدینہ طیبہ میں بھی بنو نضیر اور بنو قینقاع کی بستی میں آپ کے خلاف سازش کی گئی کہ آپ کو دیوار کے نیچے کھڑا کرکے اوپر سے پتھر گرا دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی خبر آپ کو بذریعہ وحی دی اور آپ وہاں سے چلے گئے۔ الغرض ! اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اہل کتاب کی یہ خصلت بیان فرمائی۔ کہ وہ اللہ کے نبیوں اور حق و انصاف کے داعیان کو قتل کرتے ہیں۔ قسط اور عدل ہم معنی الفاظ ہیں ، جو ظلم کے برعکس ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جگہ جگہ عدل کا حکم دیا ہے۔ ان اللہ یا مر بالعدل والاحسان ، دوسری جگہ فرمایا ، اعدلوا ھو اقرب للتقوی ، یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں عدل و احسان کا حکم دیتا ہے۔ اور یہ کہ عدل کرو جو کہ تقوی سے قریب تر ہے۔ عدل و قسط کا مفہوم بڑا وسیع ہے۔ اس میں عقیدہ بھی داخل ہے۔ یعنی ایمان اور توحید پر قائم رہو۔ عدل کا لفظ کفر اور شرک کے الٹ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے عقیدے کو پاک رکھو۔ آپس میں ایک دوسرے کی جان و مال عزت و آبرو کا خیال رکھو۔ یہ سب قسط میں داخل ہے۔ عذاب الیم : فرمایا انبیاء کے قاتلوں اور حق و انصاف کے دشمنوں کے متعلق حکم یہ ہے ، فبشرھم بعذاب لیم ، انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجئے ، یہاں پر خوشخبری کا لفظ تحکم کے طور پر آیا ہے مقصد یہ ہے کہ ایسے لوگوں پر واضح کردیجئے کہ تمہارا انجام دنیا میں بھی برا ہوگا۔ ایسے لوگ دنیا میں گھاس پھونس کی طرح کاٹ دیے جاتے ہیں۔ ظالم سمجھتا ہے کہ وہ نسلاً بعد نسلاً دنیا میں قائم رہے گا۔ مگر اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ کے لیے مٹا دیتا ہے یزید کا واقعہ آپ کے سامنے ہے۔ وہ خاندان سادات کا مکمل خاتمہ چاہتا تھا۔ صرف ایک فرد بیمار ہوجانے کی وجہ سے بچ گیا۔ ورنہ وہ بھی تلوار کی زد میں تھا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس ایک فرد سے امام حسین ؓ کی نسل کو کس طرح چلایا۔ آج جگہ جگہ حسینی موجود ہیں۔ برخلاف اس کے یزید کے پندہ ربیٹے اور پانچ بیٹیاں تھیں۔ امام ابن کثیر (رح) نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ ان میں سے ایک بھی زندہ نہ رہا آگے کوئی نسل نہ چل سکی۔ خود بائبل میں لکھا ہے کہ اہل بابل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابراہیم ! لوگ تجھے مٹانا چاہتے ہیں۔ مگر میں تیری اولاد کو ریت کے ذرات سے زیادہ پھیلاؤں گا۔ ظالم کچھ چاہتا ہے مگر اللہ کی مشیت کچھ اور ہوتی ہے۔ اسی لیے فرمایا ظالموں کی سزا دردناک عذاب ہے۔ اولئک الذین حبطت اعمالھم فی الدنیا والاخرۃ۔ ان کے اعمال دنیاو آخرت ہر دو مقامات پر ضائع ہوگئے۔ دنیا میں کفر و شرک اور ظلم وعدوان کی بنا پر ان کی نیکی ضائع ہوگئی اور آخر میں بھی کوئی ثمرہ نہیں ملے گا۔ وما لھم من نصرین۔ ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ اللہ نے تنبیہ فرمائی کہ ایسے لوگ دنیا و آخرت میں بےیارو مددگار رہ جائیں گے۔ دعوت الی الکتاب : اہل کتاب کو ان کی خرابیوں کی وجہ سے تنبیہ کرنے کے بعد ان کی ایک اور بری خصلت کا ذکر ہورہا ہے۔ کہ جب انہیں برائیوں سے روک کر کتاب اللہ کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔ تو وہ خود اپنی کتاب سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ اور اس کے احکام ماننے سے انکار کردیتے ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے : الم تر الی الذین اوتوا نصیبا من الکتب ، کیا ا اپ نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا۔ جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا ہے۔ یدعون الی کتب اللہ ، انہیں اللہ کی کتاب کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔ لیحکم بینہم تاکہ وہ کتاب ان کے درمیان فیصلہ کرے ، مگر وہ اس دعوت کو قبول کرنے کی بجائے ، ثم یتولی فریق منہم ، ان میں سے ایک گروہ روگردانی کرتا ہے ، وھم معرضون ، اور وہ اعراض کرنے والے ہوتے ہیں۔ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے دعوت الی الکتاب کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں۔ کہ اگرچہ وہ لوگ مکمل تورات و انجیل کے حاملین ہونے کے دعویدار تھے۔ مگر یہاں پر نصیبا من الکتب ، یعنی کتاب کا کچھ حصہ فرمایا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان بدبختوں کا پوری کتاب پر ایمان ہی نہیں تھا ، تورات و انجیل کا کچھ حصہ تو انہوں نے خود ہی ضائع کردیا۔ کچھ میں تحریف کردی تھی اور بقیہ کچھ حصہ موجود تھا اگر اس پر بھی ایمان لے آتے تو ہدایت پا جاتے۔ تورات ، انجیل میں حضور ﷺ کی آمد اور آپ کی بعض نشانیاں موجود تھیں۔ اگر وہ لوگ انہی پر ایمان لا کر حضور ﷺ کہ تم کو سچا نبی مان لیتے تو کوئی جھگڑا باقی نہ رہتا۔ مگر وہ ضود اور عناد کی وجہ سے ایمان سے محروم رہے انجیل کے متعلق خود پادریوں نے تسلیم کیا۔ کہ اس میں تین ہزار غلطیاں ہیں۔ جو لوگوں نے شامل کردی ہیں۔ اصل کتاب تو عبرانی یا سریانی زبان میں نازل ہوئی تھی مگر اب دنیا میں اصل نسخہ کہیں نہیں ملتا۔ اس کی بجائے اب بائیبل میں چار انجیلیں موجود ہیں۔ ہر ایک میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ یوحنا کچھ کہتا ہے۔ مرقس کا مضمون کچھ اور ہے ، متی کی اپنی الگ راگنی ہے اور لوقا کچھ اور بتاتا ہے ان کے علاوہ پانچویں انجیل برنباس بھی ہے بلکہ مجموعی طور پر تو ایک سو بیس انجیلوں کی نشاندہی ملتی ہے۔ مگر ان کا اکثر حصہ ضائع ہوچکا ہے۔ کچھ تھوڑا بہت اصل حصہ موجود ہے جس کے متعلق فرمایا کہ اگر اس پر بھی ایمان لے آتے تو راہ راست کو پا لیتے۔ کتاب اللہ سے مراد قرآن پاک بھی ہوسکتا ہے۔ اگر اس آخری آسمانی کتاب کو ہی تسلیم کرلیں تو سارا مسئلہ حل ہوجائے۔ مگر یہ بدبخت لوگ کسی چیز کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ فہم القرآن : بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ کتاب کے کچھ حصے سے مراد فہم القرآن بھی ہوسکتا ہے۔ اگر یہ معنی لیا جائے تو مقصد یہ ہوگا کہ وہ لوگ جنہیں کتاب اللہ کا کچھ فہم عطا کیا گیا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے۔ کہ کسی کو دین کی سمجھ عطا کردے۔ یہ بھی ایک عظیم نعمت ہے۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ حضور خاتم النبیین ﷺ نے عام مسلمانوں کے علاوہ ہمیں کوئی خاص چیز عنایت نہیں کی۔ سوائے اس کہ سفر پر جاتے ہوئے چند احکام آپ نے دیے تھے۔ وہ تحریر صورت میں میری تلوار کی میان میں رکھے ہوئے ہیں ۔ یہ چند مسائہل ہیں جن میں دیت کا مسئلہ اور قیدیوں کو چھڑانے سے متعلق چند احکام ہیں۔ فرمایا البتہ ایک چیز مجھے خ اس طور پر دی گئی ہے۔ واوتی فھما ، یعنی قرا ان کی سمجھ عطا کی گئی ہے۔ جو کہ ایک نعمت عظمیٰ ہے ، اس کے علاوہ ہمیں اور کوئی خاص چیز نہیں دی گئی۔ اس مقام پر شیعہ حضرات کے ان عقائد کی نفی ہوتی ہے کہ حضرت علی کو قرآن پاک کے دس پارے علیحدہ دیے گئے۔ یا کوئی راز کی بات بتلائی گئی جو باقی مسلمانوں کو معلوم نہیں یہ سب غلط ہے۔ بہرحال حاصل کلام یہ ہے کہ اس آیت کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ نے جن لوگوں کو کتاب کا فہم عطا کیا ہے۔ تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کریں ، پھر ان میں سے ایک گروہ روگردانی کرتا ہے اور وہ اعراض کرنے والے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی ہی ان کے نصیب میں ہے۔ شفاعت کا غلط عقیدہ : فرمایا کتاب اللہ سے اعراض کی وجہ شفاعت سے متعلق ان کا باطل عقیدہ ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ذلک بانھم قالوا لن تمسنا النار الا ایاما معدودات۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی۔ مگر چند دن کے لیے یہودیوں میں یہ باطل عقیدہ راسخ ہوچکا تھا۔ کہ وہ صرف اتنے ہی دن کے لیے دوزخ میں جائیں جتنے دن ان کے آباء و اجداد نے بچھڑے کی پوجا کی تھی۔ اس کے بعد ہمارے بڑے ہمیں چھڑا لائیں گے۔ بلکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دوزخ کے کنارے پر کھڑے ہوں گے۔ اور جو بھی ختنے والا اسرائیلی ہوگا اسے جہنم میں نہیں گرنے دیں گے۔ اسے پکڑ کر جنت میں داخل کردیں گے۔ یہ جبری شفاعت والا عقیدہ ہے کہ ہمارے نبی ہمیں زبردستی خدا تعالیٰ کی گرفت سے چھڑا لیں گے۔ یہ تو یہودیوں کا عقیدہ ہے۔ اور نصاریٰ کا باطل عقیدہ یہ ہے کہ ہم جو چاہے کرتے پھریں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ہماری طرف سے صلیب پر لٹک کر کفارہ ادا کردیا ہے۔ ہمیں اب کوئی پروا نہیں۔ یہ تو عقل کے بھی مخلاف ہے کہ جرم کوئی کرے اور سزا کوئی دوسرا بھگتے۔ یہ تو ممکن ہی نہیں اصل بات یہ ہے کہ جو کوئی کریگا ، وہی بھرے گا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین میں تو یہ قطعی واضح مسئلہ ہے کہ الا تزر وازرۃ وزر اخری۔ کسی ایک کا بار دوسرا نہیں اٹھائے گا۔ گنہگار اپنے گناہ کی سزا خود بھگتے گا۔ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی بھی ہے۔ لا تجنی علیہ ولا یجنی علیک جس کا گناہ ہوگا اسی کی گردن پر پڑے گا۔ ایک کا گناہ دوسرے پر نہیں ڈالا جائے گا۔ افتراء فی الدین : اہل کتاب کے باطل عقیدے اس بات کی غمازی کرتے ہیں۔ وغرھم فی دینہم ما کانوا یفترون ، کہ ان کے افتراء نے ان کے دین میں انہیں دھوکا دیا۔ افتراء سے مراد وہ باطل عقائد ہیں ، جو انہوں نے خودبخود گھڑ لیے تھے۔ جیسے اہلبیت کا عقیدہ ، شرک کا عقیدہ ، جبری سفارش کا عقیدہ یا کفارے کا عقیدہ وغیرہ یہ سب افتراء میں داخل ہیں۔ اسی طرح صرف چالیس روز تک دوزخ میں رہ کر نکل آنے کا عقیدہ بھی یہودیوں کا افتراء تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اسی افتراء نے انہیں دھکا میں رکھا اور وہ اپنی آخرت برباد کربیٹھے۔ افتراء کی بیماری اب مسلمانوں میں بھی سرایت کرچکی ہے۔ اس زمانے میں جس قدر بدعات ہیں سب افتراء میں داخل ہیں۔ قبر پرستی ، چڑھاوے چرھانا ، عرس منانا ، مردے کا تیسرا ، ساتواں اور چالیسواں کرنا سب دین میں گھڑی ہوئی باتیں ہیں۔ جن کی کوئی اصل نہیں۔ اسی طرح گیارہویں کا التزام ، قوالی ، خواجہ فرید الدین کے دروازے سے ہر سال گزرنا کیا ہے ؟ کیا اللہ اور اس کے رول نے ایسے کاموں کا حکم دیا ہے ؟ ہرگز نہیں۔ یہی تو افتراء فی الدین ہے۔ مگر آج کا مسلمان انہیں کار ثواب سمجھ کر کر رہا ہے۔ بھائی اگر مردوں کو ایصال ثواب مقصود ہے ، تو سلف صالحین کا طریقہ اختیار کرو۔ دعا اور استغفار کرو۔ صدقہ و خیرات کرو ، نہ کہ بدعات ایجاد کرو۔ فرمایا ، فکیف اذا جمعنہم لیوم لا ریب فیہ ، ایسے لوگوں کا اس دن کیا حال ہوگا ، جب ہم انہیں قیامت کے دن اکٹھا کریں گے اور اس دن کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ وہ ضرور آئے گا۔ ووفیت کل نفس ما کسبت ، اس دن ہر نفس کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ جو اس نے کمایا۔ ہر نیکی اور ہر برائی اس دن سامنے آئے گی۔ دوسرے مقام پر فرمایا ، فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ ، جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ ، اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی ، وہ اسے بھی پا لیگا۔ خدا کے علم میں ذرہ ذرہ محفوظ ہے۔ وہ مقرر دن پر سب کو پورا پورا بدلہ دیگا ، وھم لا یظلمون ، اس روز کسی پر طلم و زیادتی نہیں ہوگی۔ اہل کتاب کو تنبیہ کی جا رہی ہے۔ کہ تمہارے باطل عقائد اور باطل اعمال کا ریکارڈ اللہ کے ہاں محفوظ ہے۔ اس کا بدلہ تمہیں بہرحال چکھنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نکلنے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوسکے گی۔ اور یہ تمہارے اپنے اعمال کا یہی نتیجہ ہوگا۔ تم پر ظلم نہیں ہوگا۔
Top