Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 21
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ حَقٍّ١ۙ وَّ یَقْتُلُوْنَ الَّذِیْنَ یَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ١ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ
اِنَّ
: بیشک
الَّذِيْنَ
: وہ جو
يَكْفُرُوْنَ
: انکار کرتے ہیں
بِاٰيٰتِ
: آیتوں کا
اللّٰهِ
: اللہ
وَيَقْتُلُوْنَ
: اور قتل کرتے ہیں
النَّبِيّٖنَ
: نبیوں کو
بِغَيْرِ حَقٍّ
: ناحق
وَّيَقْتُلُوْنَ
: اور قتل کرتے ہیں
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
يَاْمُرُوْنَ
: حکم کرتے ہیں
بِالْقِسْطِ
: انصاف کا
مِنَ النَّاسِ
: لوگوں سے
فَبَشِّرْھُمْ
: سو انہیں خوشخبری دیں
بِعَذَابٍ
: عذاب
اَلِيْمٍ
: دردناک
بیشک وہ لوگ جو کفر کرتے ہیں اللہ کی آیتوں کے ساتھ ، اور قتل کرتے ہیں اللہ کے نبیوں کو ناحق۔ اور قتل کرتے ہیں ان لوگوں کو جو حکم دیتے ہیں لوگوں کو انصاف کرنے کا لوگوں میں سے۔ پس ایسے لوگوں کو خوشخبری سنا دیجیے ، عذاب الیم کی۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی ہٹ دھرمی کا ذکر کیا تھا۔ کہ اہل کتاب نے دین میں اختلاف نہیں کیا مگر علم آجانے کے بعد محض سرکشی ، حسد ، عناد ، اور بغض کی وجہ سے انہوں نے دنیا کے جاہ و مال ، ریاست اور اقتدار کی خاطر دین حق کو قبول نہ کیا نیز یہ بھی بیان ہوا کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرے گا۔ وہ اللہ کی گرفت سے بچ نہیں سکتا۔ اس کے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ وہ اللہ کے سچے دین کو مان لے۔ صحیح عقیدہ اختیار کرلے اور خدا تعالیٰ کا مطیع و فرمانبردار ہوجائے۔ آیات سے انکار : ان آیات میں بھی اہل کتاب کا ہی ذکر ہے۔ فرمایا ان الذین یکفرون بایات اللہ ، جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔ ان کو تسلیم نہیں کرتے ان کے ساتھ کفر کرتے ہیں۔ اب کفر کی کئی ایک قسمیں ہیں۔ کفر انکار سے بھی ہوتا ہے۔ شک اور تردد سے بھی کفر لازم آتا ہے اور ایک عملی کفر ہے اسی طرح نفاق کا کفر ہے۔ مگر سب سے بڑا کفر اللہ کی آیات اور اس کے احکام کو تسلیم نہ کرنے کا نام ہے۔ احکام الٰہی کا منکر مکمل کافر ہوجاتا ہے۔ یہ کفر والی بیماری مشرکین مکہ کے بعد اہل کتاب میں بھی سرایت کرچکی تھی۔ تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کی اس بیماری کا ذکر فرمایا ہے۔ قتل ناحق : اہل کتاب کی دوسری خطرناک بیماری کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا۔ ویقتلون النبیین بغیر حق۔ وہ اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کردیتے تھے۔ حضور ﷺ کے زمانہ کے یہود و نصاریٰ کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ تکفیر آیات اور قتل انبیاء کی بیماری انہیں اپنے آباء و اجداد سے ورچے میں ملی ہے۔ جس طرح انہوں نے انبیاء کو ناحق قتل کیا۔ حضور ﷺ کے زمانہ کے اہل کتاب بھی اسی روش پر چل رہے ہیں۔ حضرت اوعبیدہ بن جراح سے روایت ہے کہ حضور خاتم النبیین ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ قیامت کے دن سب سے بڑا مجرم کون ہوگا۔ آپ (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا سب سے بڑا مجرم وہ ہوگا من قتل نبیا ، جس نے اللہ کے نبی کو قتل کیا ، او قتلہ نبی یا وہ بڑا مجرم ہوگا جسے اللہ کا نبی قتل کردے۔ نبی تو معصوم ہوتے ہیں۔ لوگوں کے خیر خواہ اور ہمدرد ہوتے ہیں۔ لہذا ایسی ہستی کو قتل کرنا بلاشبہ بہت بڑا جرم ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نبی کسی کو ناحق قتل نہیں کرتا۔ اور جس کو نبی قتل کردے وہ یقیناً بہت بڑا مجرم ہوگا۔ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ غرضیکہ نبی کا قاتل یا نبی کا مقتول دونوں بڑے مجرموں میں شمار ہوتے ہیں۔ قتلِ ناحق اس قدر بری چیز ہے۔ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نبی اسرائیل نے صرف ایک دن میں اللہ 43 نبیوں کو قتل کیا۔ وہ لوگوں کو اچھی بات بتاتے تھے ، برائی سے روکتے تھے ، مگر وہ مشتعل ہو کر انبیاء کو قتل کردیتے تھے۔ انبیاء کے قتل کے بعد کچھ نیک لوگ آگے آئے۔ انہوں نے بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام شروع کیا۔ لوگوں کو طعن و ملامت کی کہ تم نے اللہ کے نبیوں کو قتل کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان بدبختوں نے اسی دن پچھلے پہر ایک سو بارہ یا ایک سوستر نیک لوگوں کو بھی قتل کردیا۔ یہ ان کا ایک دن کا کارنامہ تھا۔ اسی چیز کی طرف اللہ پاک نے اشارہ کیا۔ کہ جو کفر کرتے ہیں۔ اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کرتے ہیں۔ ویقتلون الذین یامرون بالقسط من الناس۔ اور ان لوگوں کو بھی قتل کرتے ہیں۔ جو لوگوں کو انصاف کا حکم دیتے ہیں۔ قسط کا لفظ قرآن پاک میں متعدد مقامات پر آیا ہے اور اس سے مراد عام طور پر انصاف لیا جاتا ہے۔ قل امر ربی بالقسط۔ تو کہہ دے کہ میرے رب نے حکم کردیا ہے انصاف کا۔ سورة الرحمن میں فرمایا ، واقیموا الوزن بالقسط ولا تخسروا المیزان ، یعنی کسی کے تول میں خرابی نہ کرو۔ ناپ تول میں انصاف قائم کرو۔ انصاف کا قیام انسانیت کی بنیادی صفت ہے۔ پہلے آیت گذر چکی ہے ، قائما بالقسط ، خدا تعالیٰ خودا تعالیٰ خود بھی انصاف کرتا ہے اور دوسروں کو بھی انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے بخاری شریف کی روایت میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، انی حرمت ظلما علی نفسی و جعلتہ بینکم حراما ، یعنی اے بنی آدم ! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام قرار دیا ہے۔ اور تمہارے درمیان بھی ظلم حرام ہے۔ فلا تظلموا ، پس ایک دوسرے پر ظلم نہ کیا کرو۔ اللہ تعالیٰ کے اس واضح حکم کے باوجود اہل کتاب کا شیوہ یہ تھا کہ وہ اللہ کے نبیوں کو قتل کرتے تھے۔ اور ان لوگوں کو بھی قتل کرتے جو انصاف کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے۔ خود حضور ﷺ کے زمانہ میں خیبر کے یہودیوں نے آپ کے قتل کا قصد کیا۔ آپ کے کھانے میں زہر ملا دیا گیا۔ مدینہ طیبہ میں بھی بنو نضیر اور بنو قینقاع کی بستی میں آپ کے خلاف سازش کی گئی کہ آپ کو دیوار کے نیچے کھڑا کرکے اوپر سے پتھر گرا دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی خبر آپ کو بذریعہ وحی دی اور آپ وہاں سے چلے گئے۔ الغرض ! اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اہل کتاب کی یہ خصلت بیان فرمائی۔ کہ وہ اللہ کے نبیوں اور حق و انصاف کے داعیان کو قتل کرتے ہیں۔ قسط اور عدل ہم معنی الفاظ ہیں ، جو ظلم کے برعکس ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جگہ جگہ عدل کا حکم دیا ہے۔ ان اللہ یا مر بالعدل والاحسان ، دوسری جگہ فرمایا ، اعدلوا ھو اقرب للتقوی ، یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں عدل و احسان کا حکم دیتا ہے۔ اور یہ کہ عدل کرو جو کہ تقوی سے قریب تر ہے۔ عدل و قسط کا مفہوم بڑا وسیع ہے۔ اس میں عقیدہ بھی داخل ہے۔ یعنی ایمان اور توحید پر قائم رہو۔ عدل کا لفظ کفر اور شرک کے الٹ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے عقیدے کو پاک رکھو۔ آپس میں ایک دوسرے کی جان و مال عزت و آبرو کا خیال رکھو۔ یہ سب قسط میں داخل ہے۔ عذاب الیم : فرمایا انبیاء کے قاتلوں اور حق و انصاف کے دشمنوں کے متعلق حکم یہ ہے ، فبشرھم بعذاب لیم ، انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجئے ، یہاں پر خوشخبری کا لفظ تحکم کے طور پر آیا ہے مقصد یہ ہے کہ ایسے لوگوں پر واضح کردیجئے کہ تمہارا انجام دنیا میں بھی برا ہوگا۔ ایسے لوگ دنیا میں گھاس پھونس کی طرح کاٹ دیے جاتے ہیں۔ ظالم سمجھتا ہے کہ وہ نسلاً بعد نسلاً دنیا میں قائم رہے گا۔ مگر اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ کے لیے مٹا دیتا ہے یزید کا واقعہ آپ کے سامنے ہے۔ وہ خاندان سادات کا مکمل خاتمہ چاہتا تھا۔ صرف ایک فرد بیمار ہوجانے کی وجہ سے بچ گیا۔ ورنہ وہ بھی تلوار کی زد میں تھا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس ایک فرد سے امام حسین ؓ کی نسل کو کس طرح چلایا۔ آج جگہ جگہ حسینی موجود ہیں۔ برخلاف اس کے یزید کے پندہ ربیٹے اور پانچ بیٹیاں تھیں۔ امام ابن کثیر (رح) نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ ان میں سے ایک بھی زندہ نہ رہا آگے کوئی نسل نہ چل سکی۔ خود بائبل میں لکھا ہے کہ اہل بابل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابراہیم ! لوگ تجھے مٹانا چاہتے ہیں۔ مگر میں تیری اولاد کو ریت کے ذرات سے زیادہ پھیلاؤں گا۔ ظالم کچھ چاہتا ہے مگر اللہ کی مشیت کچھ اور ہوتی ہے۔ اسی لیے فرمایا ظالموں کی سزا دردناک عذاب ہے۔ اولئک الذین حبطت اعمالھم فی الدنیا والاخرۃ۔ ان کے اعمال دنیاو آخرت ہر دو مقامات پر ضائع ہوگئے۔ دنیا میں کفر و شرک اور ظلم وعدوان کی بنا پر ان کی نیکی ضائع ہوگئی اور آخر میں بھی کوئی ثمرہ نہیں ملے گا۔ وما لھم من نصرین۔ ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ اللہ نے تنبیہ فرمائی کہ ایسے لوگ دنیا و آخرت میں بےیارو مددگار رہ جائیں گے۔ دعوت الی الکتاب : اہل کتاب کو ان کی خرابیوں کی وجہ سے تنبیہ کرنے کے بعد ان کی ایک اور بری خصلت کا ذکر ہورہا ہے۔ کہ جب انہیں برائیوں سے روک کر کتاب اللہ کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔ تو وہ خود اپنی کتاب سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ اور اس کے احکام ماننے سے انکار کردیتے ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے : الم تر الی الذین اوتوا نصیبا من الکتب ، کیا ا اپ نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا۔ جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا ہے۔ یدعون الی کتب اللہ ، انہیں اللہ کی کتاب کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔ لیحکم بینہم تاکہ وہ کتاب ان کے درمیان فیصلہ کرے ، مگر وہ اس دعوت کو قبول کرنے کی بجائے ، ثم یتولی فریق منہم ، ان میں سے ایک گروہ روگردانی کرتا ہے ، وھم معرضون ، اور وہ اعراض کرنے والے ہوتے ہیں۔ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے دعوت الی الکتاب کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں۔ کہ اگرچہ وہ لوگ مکمل تورات و انجیل کے حاملین ہونے کے دعویدار تھے۔ مگر یہاں پر نصیبا من الکتب ، یعنی کتاب کا کچھ حصہ فرمایا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان بدبختوں کا پوری کتاب پر ایمان ہی نہیں تھا ، تورات و انجیل کا کچھ حصہ تو انہوں نے خود ہی ضائع کردیا۔ کچھ میں تحریف کردی تھی اور بقیہ کچھ حصہ موجود تھا اگر اس پر بھی ایمان لے آتے تو ہدایت پا جاتے۔ تورات ، انجیل میں حضور ﷺ کی آمد اور آپ کی بعض نشانیاں موجود تھیں۔ اگر وہ لوگ انہی پر ایمان لا کر حضور ﷺ کہ تم کو سچا نبی مان لیتے تو کوئی جھگڑا باقی نہ رہتا۔ مگر وہ ضود اور عناد کی وجہ سے ایمان سے محروم رہے انجیل کے متعلق خود پادریوں نے تسلیم کیا۔ کہ اس میں تین ہزار غلطیاں ہیں۔ جو لوگوں نے شامل کردی ہیں۔ اصل کتاب تو عبرانی یا سریانی زبان میں نازل ہوئی تھی مگر اب دنیا میں اصل نسخہ کہیں نہیں ملتا۔ اس کی بجائے اب بائیبل میں چار انجیلیں موجود ہیں۔ ہر ایک میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ یوحنا کچھ کہتا ہے۔ مرقس کا مضمون کچھ اور ہے ، متی کی اپنی الگ راگنی ہے اور لوقا کچھ اور بتاتا ہے ان کے علاوہ پانچویں انجیل برنباس بھی ہے بلکہ مجموعی طور پر تو ایک سو بیس انجیلوں کی نشاندہی ملتی ہے۔ مگر ان کا اکثر حصہ ضائع ہوچکا ہے۔ کچھ تھوڑا بہت اصل حصہ موجود ہے جس کے متعلق فرمایا کہ اگر اس پر بھی ایمان لے آتے تو راہ راست کو پا لیتے۔ کتاب اللہ سے مراد قرآن پاک بھی ہوسکتا ہے۔ اگر اس آخری آسمانی کتاب کو ہی تسلیم کرلیں تو سارا مسئلہ حل ہوجائے۔ مگر یہ بدبخت لوگ کسی چیز کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ فہم القرآن : بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ کتاب کے کچھ حصے سے مراد فہم القرآن بھی ہوسکتا ہے۔ اگر یہ معنی لیا جائے تو مقصد یہ ہوگا کہ وہ لوگ جنہیں کتاب اللہ کا کچھ فہم عطا کیا گیا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے۔ کہ کسی کو دین کی سمجھ عطا کردے۔ یہ بھی ایک عظیم نعمت ہے۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ حضور خاتم النبیین ﷺ نے عام مسلمانوں کے علاوہ ہمیں کوئی خاص چیز عنایت نہیں کی۔ سوائے اس کہ سفر پر جاتے ہوئے چند احکام آپ نے دیے تھے۔ وہ تحریر صورت میں میری تلوار کی میان میں رکھے ہوئے ہیں ۔ یہ چند مسائہل ہیں جن میں دیت کا مسئلہ اور قیدیوں کو چھڑانے سے متعلق چند احکام ہیں۔ فرمایا البتہ ایک چیز مجھے خ اس طور پر دی گئی ہے۔ واوتی فھما ، یعنی قرا ان کی سمجھ عطا کی گئی ہے۔ جو کہ ایک نعمت عظمیٰ ہے ، اس کے علاوہ ہمیں اور کوئی خاص چیز نہیں دی گئی۔ اس مقام پر شیعہ حضرات کے ان عقائد کی نفی ہوتی ہے کہ حضرت علی کو قرآن پاک کے دس پارے علیحدہ دیے گئے۔ یا کوئی راز کی بات بتلائی گئی جو باقی مسلمانوں کو معلوم نہیں یہ سب غلط ہے۔ بہرحال حاصل کلام یہ ہے کہ اس آیت کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ نے جن لوگوں کو کتاب کا فہم عطا کیا ہے۔ تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کریں ، پھر ان میں سے ایک گروہ روگردانی کرتا ہے اور وہ اعراض کرنے والے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی ہی ان کے نصیب میں ہے۔ شفاعت کا غلط عقیدہ : فرمایا کتاب اللہ سے اعراض کی وجہ شفاعت سے متعلق ان کا باطل عقیدہ ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ذلک بانھم قالوا لن تمسنا النار الا ایاما معدودات۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی۔ مگر چند دن کے لیے یہودیوں میں یہ باطل عقیدہ راسخ ہوچکا تھا۔ کہ وہ صرف اتنے ہی دن کے لیے دوزخ میں جائیں جتنے دن ان کے آباء و اجداد نے بچھڑے کی پوجا کی تھی۔ اس کے بعد ہمارے بڑے ہمیں چھڑا لائیں گے۔ بلکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دوزخ کے کنارے پر کھڑے ہوں گے۔ اور جو بھی ختنے والا اسرائیلی ہوگا اسے جہنم میں نہیں گرنے دیں گے۔ اسے پکڑ کر جنت میں داخل کردیں گے۔ یہ جبری شفاعت والا عقیدہ ہے کہ ہمارے نبی ہمیں زبردستی خدا تعالیٰ کی گرفت سے چھڑا لیں گے۔ یہ تو یہودیوں کا عقیدہ ہے۔ اور نصاریٰ کا باطل عقیدہ یہ ہے کہ ہم جو چاہے کرتے پھریں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ہماری طرف سے صلیب پر لٹک کر کفارہ ادا کردیا ہے۔ ہمیں اب کوئی پروا نہیں۔ یہ تو عقل کے بھی مخلاف ہے کہ جرم کوئی کرے اور سزا کوئی دوسرا بھگتے۔ یہ تو ممکن ہی نہیں اصل بات یہ ہے کہ جو کوئی کریگا ، وہی بھرے گا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین میں تو یہ قطعی واضح مسئلہ ہے کہ الا تزر وازرۃ وزر اخری۔ کسی ایک کا بار دوسرا نہیں اٹھائے گا۔ گنہگار اپنے گناہ کی سزا خود بھگتے گا۔ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی بھی ہے۔ لا تجنی علیہ ولا یجنی علیک جس کا گناہ ہوگا اسی کی گردن پر پڑے گا۔ ایک کا گناہ دوسرے پر نہیں ڈالا جائے گا۔ افتراء فی الدین : اہل کتاب کے باطل عقیدے اس بات کی غمازی کرتے ہیں۔ وغرھم فی دینہم ما کانوا یفترون ، کہ ان کے افتراء نے ان کے دین میں انہیں دھوکا دیا۔ افتراء سے مراد وہ باطل عقائد ہیں ، جو انہوں نے خودبخود گھڑ لیے تھے۔ جیسے اہلبیت کا عقیدہ ، شرک کا عقیدہ ، جبری سفارش کا عقیدہ یا کفارے کا عقیدہ وغیرہ یہ سب افتراء میں داخل ہیں۔ اسی طرح صرف چالیس روز تک دوزخ میں رہ کر نکل آنے کا عقیدہ بھی یہودیوں کا افتراء تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اسی افتراء نے انہیں دھکا میں رکھا اور وہ اپنی آخرت برباد کربیٹھے۔ افتراء کی بیماری اب مسلمانوں میں بھی سرایت کرچکی ہے۔ اس زمانے میں جس قدر بدعات ہیں سب افتراء میں داخل ہیں۔ قبر پرستی ، چڑھاوے چرھانا ، عرس منانا ، مردے کا تیسرا ، ساتواں اور چالیسواں کرنا سب دین میں گھڑی ہوئی باتیں ہیں۔ جن کی کوئی اصل نہیں۔ اسی طرح گیارہویں کا التزام ، قوالی ، خواجہ فرید الدین کے دروازے سے ہر سال گزرنا کیا ہے ؟ کیا اللہ اور اس کے رول نے ایسے کاموں کا حکم دیا ہے ؟ ہرگز نہیں۔ یہی تو افتراء فی الدین ہے۔ مگر آج کا مسلمان انہیں کار ثواب سمجھ کر کر رہا ہے۔ بھائی اگر مردوں کو ایصال ثواب مقصود ہے ، تو سلف صالحین کا طریقہ اختیار کرو۔ دعا اور استغفار کرو۔ صدقہ و خیرات کرو ، نہ کہ بدعات ایجاد کرو۔ فرمایا ، فکیف اذا جمعنہم لیوم لا ریب فیہ ، ایسے لوگوں کا اس دن کیا حال ہوگا ، جب ہم انہیں قیامت کے دن اکٹھا کریں گے اور اس دن کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ وہ ضرور آئے گا۔ ووفیت کل نفس ما کسبت ، اس دن ہر نفس کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ جو اس نے کمایا۔ ہر نیکی اور ہر برائی اس دن سامنے آئے گی۔ دوسرے مقام پر فرمایا ، فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ ، جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ ، اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی ، وہ اسے بھی پا لیگا۔ خدا کے علم میں ذرہ ذرہ محفوظ ہے۔ وہ مقرر دن پر سب کو پورا پورا بدلہ دیگا ، وھم لا یظلمون ، اس روز کسی پر طلم و زیادتی نہیں ہوگی۔ اہل کتاب کو تنبیہ کی جا رہی ہے۔ کہ تمہارے باطل عقائد اور باطل اعمال کا ریکارڈ اللہ کے ہاں محفوظ ہے۔ اس کا بدلہ تمہیں بہرحال چکھنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نکلنے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوسکے گی۔ اور یہ تمہارے اپنے اعمال کا یہی نتیجہ ہوگا۔ تم پر ظلم نہیں ہوگا۔
Top