Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 26
قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ١٘ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ١ؕ بِیَدِكَ الْخَیْرُ١ؕ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
قُلِ : آپ کہیں اللّٰهُمَّ : اے اللہ مٰلِكَ : مالک الْمُلْكِ : ملک تُؤْتِي : تو دے الْمُلْكَ : ملک مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے وَتَنْزِعُ : اور چھین لے الْمُلْكَ : ملک مِمَّنْ : جس سے تَشَآءُ : تو چاہے وَتُعِزُّ : اور عزت دے مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے وَتُذِلُّ : اور ذلیل کردے مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے بِيَدِكَ : تیرے ہاتھ میں الْخَيْرُ : تمام بھلائی اِنَّكَ : بیشک تو عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز قَدِيْرٌ : قادر
اے پیغمبر ! (آپ اپنی دعا میں اس طرح) کہیں ، اے اللہ ! جو بادشاہی کا مالک ہے۔ تو جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے۔ اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لیتا ہے۔ اور تو جس کو چاہے عزت دیتا ہے۔ اور جس کو چاہے ذلیل کرتا ہے۔ تیرے ہاتھ میں خیر ہے۔ بیشک تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔
ربط آیات : آج کی آیت کے شان نزول کے متعلق مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ آیات نجران کے وفد کے باطل زعم کے جواب میں نازل ہوئیں۔ نجران کے عیسائی خوب جانتے تھے کہ آپ وہی پیغمبر آخر الزماں ہیں۔ جن کی آمد کی پیش گوئیاں اور جن کی نشانیاں ان کی کتابوں میں موجود ہیں۔ مگر وہ محض اس لیے آپ پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں تھے کہ شاہ روم کی طرف سے ان کے جو وظیفے مقرر تھے ، وہ چھن جاتے تھے۔ مدینہ کی طرف سفر کے دوران ان کے لاٹ پادری ابو حارثہ بن علقمہ نے تسلیم کیا تھا۔ کہ آپ ہی وہ نبی ہیں۔ جن کی بعثت کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے۔ اور پھر اسی اقرار کی بناء پر اس کے بھائی کرز بن علقمہ ایمان کی دولت سے مشرف ہوئے تو مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ آیات نصاری کے اس باطل زعم کا جواب ہیں جو انہیں حکومت ، جاگیر یا وظیفہ مل رہا ہے وہ ضائع ہوجائیگا۔ تو اللہ تعالیٰ نے بندے کی زبان سے یہ الفاظ کہلوائے کہ سلطنت ، مال و دولت اور جاہ و جلال تو آنی جانی چیز ہے۔ ہر چیز کا مالک حقیقی تو اللہ وحدہ لاشریک ہے وہ جسے چاہے کسی مقام کی حکومت عارضی طور پر عطا کردے اور جس سے چاہے واپس لے لے ، اس کے کام میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتا۔ کائنات کے پورے نظام کو چلانے والا وہ خود ہے۔ اور ہر زی جان کا رزق بھی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے وہ جسے چاہے وافر رزق عطا کردے۔ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دعائیہ آیات میں اسم اعطم بھی موجود ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا وہ نام جس کے متعلق آتا ہے اذا دعی بہ اجاب واذا سئل بہ اعطیٰ ۔ یعنی جب اس اسم اعطم کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے تو وہ قبول کرتا ہے اور جب وہ نام لے کر مالک الملک سے کوئی سوال کیا جائے تو وہ پورا کرتا ہے۔ احادیث میں کئی ایک آیات کے متعلق آتا ہے کہ ان میں اسم اعظم ہے ایسا ہی سورة آل عمران کی پہلی آیت الم ، اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم۔ کے متعلق بھی بیان ہوچکا ہے۔ اس لحاظ سے آج کے درس کی دعا بھی بڑی مقبول دعا ہے۔ مالک الملک : ارشاد ہوتا ہے ، قل ، آپ اس طرح دعا کریں ، اللھم ملک الملک ، اے اللہ ! تو جو سلطنت کا مالک حقیقی ہے۔ کیونکہ دنیا کے ملوک تو عارضی مالک ہیں۔ ان کی ملکیت تو چند روزہ ہے۔ اصلی اور دائمی مالک تو وہی خداوند قدوس ہے۔ تیری یہ خاص صفت ہے کہ توتی الملک من تشاء ، تو سلطنت اور بادشاہی جس کو چاہے عطا کرتا ہے کیونکہ یہ صرف تیرے اختیار میں ہے۔ یہ بادشاہت تو اپنے خاص بندوں کے علاوہ آزمائش کے لیے بعض اوقات بڑے بڑے مجرموں اور نافرمانوں کو بھی دے دیتا ہے گذشتہ سورة میں نمرود کا واقعہ گزر چکا ہے۔ جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ جھگڑا کیا تھا۔ اسکے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، ان اتاہ اللہ الملک ، اللہ نے اس کو بہت بڑی سلطنت دے رکھی تھی۔ جس کی وجہ سے وہ شکر گزار بندہ بننے کی بجائے مغرور ہوگیا تھا۔ فرعون نے بھی یہی کہا تھا ، الیس لی ملک مصر ، مصر کی حکومت میری ہے۔ دیکھ لو۔ میرے حکم سے نہریں چل رہی ہیں۔ ڈیم بنے ہوئے ہیں۔ جن سے آبپاشی ہوتی ہے۔ خزانے بھرپور ہیں۔ طاقتور فوج موجود ہے۔ میرے سوا اور کون ہے۔ مقصد یہ کہ بعض اوقات اللہ اپنے نافرمانوں کو بھی حکومت کی چابیاں دے دیتا ہے اور وہ محض آزمائش ہوتی ہے۔ پھر جب اس کا وقت پورا ہوجاتا ہے۔ وتنزع الملک ممن تشاء۔ اور تو جس سے چاہے بادشاہی چھین لیتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایک وقت آیا جب اللہ تعالیٰ نے رومیوں اور ایرانیوں سے سلطنت چھین کر مسلمانوں کے حوالے کردی اور یہ سب کچھ حضرت عمر کے زمانے میں ہوا۔ غزوہ خندق 5 ھ؁ میں واقع ہوا۔ کفار کے مدینہ پر حملہ آور ہونے کی خبر پہنچی۔ تو حضور ﷺ نے صحابہ کو مشورہ کے لیے طلب فرمایا۔ چناچہ فیصلہ ہوا۔ کہ مدینہ کے اندر رہ کر دفاع کیا جائے۔ شہر کی حفاظت کے لیے اس کے گرد خندق کھودنے کا فیصلہ ہوا۔ کئی میل لمبے خندق کو آپ نے دس دس صحابہ کے حصہ میں چالیس چالیس گز کا ٹکڑا تقسیم کردیا پتھریلی زمین میں خندق کھودنا بڑے جان جوکھوں کا کام تھا۔ گرمی کے موسم میں فاقہ زدہ صحابہ نے یہ کٹھن کام چھ دن میں مکمل کرلیا۔ حضور ﷺ خود صحابہ کے ساتھ شریک کار رہے۔ دورانِ کھودائی ایک بڑی چٹان حائل ہوگئی جو صحابہ سے ٹوٹتی نہیں تھی۔ حضرت سلمان کو آپ کی خدمت میں بھیجا گیا۔ حضور ﷺ تشریف لائے۔ اللہ کا نام لے کر اپنے ہاتھ سے کدال مارا۔ آگ کے شعلے نکلے اور چٹان پارہ پارہ ہوگئی۔ آپ نے فرمایا اس روشنی میں اللہ نے مجھے ایران کے محلات دکھلائے ہیں۔ آپ نے دوسری دفعہ کدال مارا۔ پھر شعلے بلند ہوئے تو حضور ﷺ نے فرمایا ، اللہ نے مجھے رومیوں کے محلات بھی دکھا دیے۔ تیسری دفعہ کدال مارا تو فرمایا ، اللہ مجھے صنعا کے محلات دکھائے ہیں۔ اس کے بعد جبرائیل (علیہ السلام) نے آ کر بشارت سنائی کہ یہ تمام مقامات بہت تھوڑے عرصے میں آپ کے زیر نگیں آجائیں گے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بڑے خوش ہوئے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ نبی کریم ﷺ کا کلام برحق ہے۔ مگر مدینے کے منافقین نے تمسخر شروع کردیا۔ کہنے لگے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ باہر رفع حاجت کے لیے جانے سے عاجز آ چکے ہیں۔ مگر روم و شام کے محلات کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ مگر دنیا نے دیکھا 17 ۔ 18 ھ؁ میں حضور ﷺ کے وصال کے کچھ عرسہ بعد ہی شام ، ایران اور صنعا وغیرہ زیر نگین آگئے۔ مقصد یہ کہ وہ مالک الملک جس کو چاہتا ہے ملک عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ، چھین لیتا ہے۔ عرب تو سارے کا سارا حضور ختم المرسلین ﷺ کے زمانہ میں ہی اسلام داخل ہوچکا تھا۔ تاہم عرب ، ترک اور افغان قومیں مجموعی طور پر اسلام میں داخل ہوئیں۔ بڑے عرصہ تک اسلام کی نعمت سے محروم رہے۔ مگر جب قریب آئے تو ایک دن میں چار لاکھ ترک مسلمان ہوگئے۔ افغان قوم حضرت عثمان کے زمانے یا کچھ عرسہ بعد پوری کی پوری اسلام میں داخل ہوئی۔ حضرت انور شاہ صاحب کشمیری فرماتے ہیں کہ عرب تو قومی طور پر اسلام میں داخل ہوچکے تھے ، اس لیے دعا کا آغاز اس طرح ہورہا ہے۔ کہ اے اللہ ! تو جسے چاہے سلطنت عطا کرتا ہے۔ اور جس سے چاہے چھین لیتا ہے۔ غلبہ اسلام کے لیے دعا : دعا اس انداز میں سکھائی گئی ہے۔ کہ اے اللہ ! ان ظالموں سے حکومت چھین لے جو انسانیت کے دشمن ہیں اور جو دنیا میں ناانصافی کو ترقی دے رہے۔ مولا کریم ! ہم اس وقت عدل و انصاف کے علمبردار ہیں اور اس نظام کو پوری دنیا میں رائج کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ہی توحید خداوندی کے داعی ہیں۔ شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو ، کے پیرو کار ہم ہیں اور اسلموا ، کے مصداق بھی ہم ہیں ہیں۔ لہذا اب حکومت اور دنیا کی راہنمائی ہمارے سپرد کردے۔ ہم قائما بالقسط پر پورے اتریں گے۔ دنیا میں انصاف قائم کریں گے خود حضور ﷺ دشمن سے جنگ کرتے وقت یوں دعا کرتے۔ اللھم مجری السحاب و منزل الکتب و ھازم الاحزاب اھزم ھم وانصرنا علیھم۔ اے اللہ ! تو جو بادلوں کو چلانے والا ہے اور کتاب کو اتارنے والا ہے۔ اور جو باطل قوتوں کو شکست دینے والا ہے اب ان کو شکست دے اور ہمیں ان پر نصرت عطا فرما۔ مسلمانوں نے دنیا میں عدل و انصاف قائم کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں غلبہ عطا کیا حتی کہ حضور ﷺ کی بعثت سے لے کر پچاس سال کے عرصہ میں آدھی دنیا پر مسلمانوں کو تسلط حاصل ہوچکا تھا۔ حالانکہ قوموں کی زندگی میں پچاس سال کے عرصہ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ مسلمانوں کی یہ رواں دواں ترقی جنگ صفین پر آکر رک گئی جب حضرت امیر معاویہ اور حضرت علی کے درمیان تنازعہ پیدا ہوا۔ اور صفین کے مقام پر آپس میں لڑائی ہوئی۔ اسلام کی صداقت تو ہمیشہ قائم رہی۔ دین اپنے برہان اور حجت کے ساتھ تو ہمیشہ غالب رہا مگر پچاس سال کے قلیل عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے پولٹیکل طور پر بھی دنیا کے وسیع خطے پر غلبہ عطا کیا۔ امام ابوبکر جصاص متوفی 370 ھ؁ قرآن پاک کے عظیم مفسر ہوئے ہیں انہوں نے احکام القرآن کے نام سے صرف فقہی مسائل کی حد تک قرآن پاک کی تفسیر پیش کی ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی فرمایا کرتے تھے۔ کہ امام ابوبکر جصاص کی تفسیر اور حضرت شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغہ ایسی کتب ہیں جن کی مثال گذشتہ بارہ صدیوں میں نہیں ملتی۔ حضرت شاہ صاحب نے اسلام کا فلسفہ اور نظام سمجھایا ہے۔ اور امام ابوبکر نے قرآن پاک کی بہت بڑی تفسیر لکھی ہے۔ آپ مسلکاً حنفی تھے۔ آپ دو واسطوں سے امام محمد کے شاگرد بنتے ہیں اور تین واسطوں سے امام ابوحنیفہ سے سلسلہ قائم ہوتا ہے۔ امام ابوبکر جصاص نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ سلطنت عطا کرنے کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے انصاف قائم کرنے والوں کے ساتھ کیا ہے ، کافر ، مشرک ، اور ظالم شخص امت کی راہنمائی نہیں کرسکتا۔ کیونکہ کافر اس کا اہل نہیں اور فاسق اس کا پابند نہیں۔ ایسے لوگوں سے حق و انصاف کی بجائے ملوکیت ، شہنشاہیت ، ڈکٹیٹر شپ اور ظلم و جور کی توقع ہی کی جاسکتی ہے ۔ امت کی راہنمائی کے لیے ایماندار اور عادل لوگوں کی ضرورت ہے۔ شاہ ولی اللہ نے لکھا ہے کہ ایران کے کسری وغیرہ اور ان کے حواری عام لوگوں سے بیل اور گدھے کی طرح مشقت لیتے تھے اور انہیں اپنی فلاح و بہبود یا آخرت کے متعلق سوچنے کا موقع ہی نہ دیتے تھے۔ لہذا اللہ تعالیٰ کی مشیت اسی میں تھی کہ اس ظالمانہ نظام کو ختم کیا جائے اور نبی آخر الزمان کو مبعوث کیا جائے جو اسلام کا عادلانہ ، توحید اور اطاعت پر مبنی نظام قائم کریں۔ چناچہ جب تک مسلمان ان اصولوں پر قائم رہے۔ کوئی دوسری قوم ان کے مقابلے پر نہیں آئی اور ساڑھے چھ سو سال تک مسلمان دنیا میں غالب رہے۔ پھر جب خود انہوں نے مجموعی طور پر اس نظام سے روگردانی کرلی۔ تو ان کی حالت بگڑنا شروع ہوگئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دوسری قومیں ان کے مقابلہ میں کھڑی ہوگئیں۔ عزت اور ذلت : اے مالک الملک ! حقیقی مالک تو ہی ہے۔ و تعز من تشاء ، تو جسے چاہے عزت دیتا ہے۔ تو نے ہی اہل اسلام کو عزت بخشی۔ ایمان کی دولت دی۔ نیکی کا راستہ دکھایا۔ پیغمبر (علیہ السلام) کے اتباع کی توفیق بخشی اور پھر ظاہری اقتدار بھی عنایت کیا۔ وتزل من تشاء تو جس کو چاہے ذلیل کردیتا ہے۔ یہ بھی تیری ہی صفت ہے ، کفر ، شرک ، نفاق ، نافرمانی ، بدعت سب ذلت کی چیزیں ہیں۔ جب اللہ کی طرف سے آزمائش آتی ہے تو لوگ سیدھے راستے سے بھٹک کر ذلیل و خوار ہوجاتے ہیں۔ حضرت ابراہیم بن ادھم دعا کیا کرتے تھے اللھم انقلنا من زل المعصیۃ الی عز الطاعۃ۔ یعنی اے اللہ ! ہمیں معصیت کی ذلت سے اٹھا کر اطاعت کی عزت میں پہنچا دے۔ بزرگان دین کا یہ بھی مقولہ ہے۔ من یعصی اللہ فھو السفلہ۔ یعنی کمینہ سفلہ کسی ذات یا خاندان سے نہیں ہوتا۔ بلکہ ہر وہ شخص ذلیل ہے جو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے۔ خیر اور شر : فرمایا : بیدک الخیر ، مولا کریم ! تیرے ہاتھ میں خیر ہے۔ مفسرین کرام فرماتے۔ کہ جہاں خیر اللہ تعالیٰ کے دست قدرت میں ہے۔ وہاں شر بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ کیونکہ وہ بھی اسی کی پیدا کردہ ہے۔ مگر یہاں پر صرف خیر کا ذکر کیا گیا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرو ، شر کا یہاں ذکر نہیں۔ یہاں پر ایک اور مسئلہ بھی سمجھ لیا جائے۔ کہ جو چیز واقع میں شر نظر آتی ہے۔ وہ شر محض نہیں ہوتی۔ بلکہ شر اضافی ہوتی ہے کیونکہ شر میں کسی نہ کسی طریقے سے فائدہ بھی ہوتا ہے۔ لہذا خالق ہونے کے لحاظ سے دونوں چیزوں کا خالق وہی ہے۔ جیسے فرمایا جعل الظلمت والنور ، یعنی اندھیرا اور روشنی اس نے پیدا فرمائے۔ مجوسیوں کا یہ عقیدہ کہ خیر اور شر کا خالق علیحدہ علیحدہ ہے ، سراسر باطل ہے۔ یہ تو ثنویت ہے جو سراسر شرک ہے۔ فرمایا انک علی کل شیئ قدیر۔ تو ہی ہر چیز پر قادر ہے۔ یہ تمام تغیرات اور تمام تقلبات تیرے ہی دست قدرت میں ہیں۔ دن اور رات : تولج الیل فی النہار ، تو داخل کرتا ہے رات کو دن میں ، و تولج النہار فی الیل ، اور داخل کرتا ہے دن کو رات میں۔ یعنی شب و روز کو چھوٹا بڑا کرتا ہے۔ کبھی رات بڑی ہوتی ہے اور دن چھوٹا ہوتا ہے۔ اور کبھی دن لمبا ہوتا ہے اور رات مختصر ہوتی ہے۔ موسموں کے تغیر و تبدل میں یہ مشاہدہ میں آتا رہتا ہے ، یقلب اللہ الیل والنہار ، رات اور دن کو پلٹیاں دینا اسی ذات کا کام ہے۔ جب تک اس کو منظور ہے لیل ونہار کا یہ نظام چلتا رہے گا رات اور دن کی تشبیہ مصائب اور آسائش سے بھی ہوسکتی ہے۔ مصائب عند قوم ، فوائد ، یعنی ایک قوم کے مصائب و آلام دوسری قوم کے لیے عیش و راحت کا سامان بن جاتے ہیں۔ جیسے روم اور ایران کے کفار کی شکست مسلمانوں کے لیے خوشی کا مقام تھا۔ و تخرج الحی من المیت ، اور نکالتا ہے زندہ کو مردہ سے جس طرح گٹھلی سے اتنا بڑا درخت پیدا کردینا۔ انڈہ مردہ ہے اس سے زندہ بچہ پیدا کردینا۔ بےجان قطرہ آب سے زندہ انسان کو پیدا کردینا اور کافر سے مومن کی تخلیق کرنا سب کچھ تیرے ہی اختیار میں ہے۔ و تخرج المیت من الحی ، اور تو چاہے تو مردہ کو زندہ سے نکال دے۔ جیسے زندہ جانور سے مردہ انڈا پیدا ہونا۔ نیکوکار بلکہ پیغمبر جیسی عظیم الشان ہستی سے کافر اور ناہنجار اولاد کا پیدا ہونا ظاہر ہے۔ اے اللہ ! یہ تغیرات اور تصرفات سب تیرے ہی ہاتھ میں ہیں۔ تو ہی ہر چیز کا مالک ہے۔ رزق رسانی : و ترزق من تشاء بغیر حساب۔ تو روزی دیتا ہے جس کو چاہے بغیر حساب کے۔ بعض کو آسانی کے ساتھ رزق پہنچاتا ہے کہ انہیں کوئی مشقت نہیں اٹھانی پڑتی اور ملتی بھی اتنی زیادہ ہے جو شمار سے باہر ہو۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے فرمایا۔ ھذا عطاءنا فامنن او امسک بغیر حساب۔ یہ سلطنت اور ہر چیز ہماری عطا کردہ ہے جس کو چاہو دے دو اور چاہو تو روک لو۔ یہ بغیر حساب کے ہے۔ آپ سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی۔ کوئی مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ یہ ہماری بخشش ہے اور آپ کو اختیار بھی دے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی رعایت فرمائی۔ مگر دوسری جگہ یہ بھی فرمایا۔ لمن یشاء و یقدر ، جس کی چہاے روزی تنگ کردے۔ ساری دنیا کے ملوک چاہیں تو کسی کو ایک دانہ گندم کا نہ دے۔ اس کی مصلحت کو اس کے بغیر کوئی نہیں جانتا۔ اسی لیے دعا کے انداز میں فرمایا۔ اے مولا ! تو جسے چاہے روزی عطا کرتا ہے بغیر حسبا کے یعنی بیحد و بےشمار۔
Top