Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 31
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
قُلْ : آپ کہ دیں اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تُحِبُّوْنَ : محبت رکھتے اللّٰهَ : اللہ فَاتَّبِعُوْنِيْ : تو میری پیروی کرو يُحْبِبْكُمُ : تم سے محبت کریگا اللّٰهُ : اللہ وَيَغْفِرْ لَكُمْ : اور تمہیں بخشدے گا ذُنُوْبَكُمْ : گناہ تمہارے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے ، اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو ، تو میرا اتباع کرو۔ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا۔ اور تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور اللہ تعالیٰ بہت بخشش کرنے والا ہے۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفر کا رد فرمایا اور توحید پر ایمان لانے کی ترغیب دی۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا قانون بتلایا۔ اب ان آیات میں ایمان بالرسالت کا تذکرہ ہے۔ جس طرح اللہ کی وحدانیت پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اور اس سے انکار بمنزلہ کفر ہے۔ اسی طرح رسول کی رسالت پر ایمان لانا بھی ضروری ہے جس طرح اللہ کی اطاعت فرض ہے ، اسی طرح رسول کی تابعداری بھی ضروری ہے۔ دعوی محبت : نزولِ قرآن کے زمانے میں مشرکین عرب یہود اور نصاری محبت الٰہی کا دعوی کرتے تھے۔ جب مشرکین سے کہا جاتا کہ تم شرک کیوں کرتے ہو ، تو جواب دیتے ما نعبدھم الا لیقربونا الی اللہ زلفی۔ ہم ان معبودوں کی عبادت محض ا سلیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کا قرب دلا دیں گے۔ یعنی بتوں کی پرستش تقرب الہی کے لیے ہے۔ اور جب یہی سوال نصاری سے کیا جاتا کہ تم کیوں شرک میں مبتلا ہو۔ تو وہ بھی محبت الٰہی کا دعوی کرتے اور کہتے کہ مسیح (علیہ السلام) اللہ کا بیٹا ہے اور اس کی پرستش اللہ کی محبت کے لیے ہے۔ نصاری حضرت مریم کو مادر خدا ، یا خود خدا تسلیم کرتے ، یا تین خدا مانتے تو ان کا ادعا جیسا کہ آگے آئے گا ، اللہ کی محبت میں غلطان ہونا تھا۔ یہود بھی کہتے تھے۔ نحن ابناء اللہ و احباءہ۔ ہم اللہ کی اولاد ہیں کیونکہ اس کے مقرب انبیاء کی اولاد ہیں۔ گویا وہ بھی اللہ کے محبوب ہونے کے دعویدار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے باطل دعاوی کا رد فرمایا ہے اور اپنی محبت کا معیار مقرر فرمایا ہے۔ جو کوئی اس معیار پر پورا اترے گا ، وہی حقیقی محبوب ہوگا ، اس کے علاوہ کفر و شرک ہوگا۔ اس کے بعد اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ محبت رکھنے والے لوگوں کا ذکر کیا ہے۔ اور اس ضمن میں حضرت مسیح (علیہ السلام) ، حضرت مریم اور آل عمران کی مثال بیان فرمائی ہے مشرکین اور اہل کتاب کی تردید کی ہے۔ کیونکہ وہ معیار محبت پر پورے نہیں اترتے۔ معیار محبت : ارشاد ہوتا ہے ، قل ، اے پیغمبر (علیہ السلام) ! آپ کہہ دیجئے ، ان کنتم تحبون اللہ ، اور اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو اور اس کے دعویدار ہو ، تو اس کا ایک ہی معیار ہے ، فاتبعونی ، میرا اتباع اختیار کرلو۔ گویا پہلی بات تو رسالت کے متعلق ا اگئی کہ اللہ کی محبت نبی کی اطاعت کے بگیر ممکن نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے مرضیات اور نامرضیات نبی کی اطاعت کے بغیر معلوم نہیں ہوسکتیں۔ لہذا رسالت پر ایمان لانا ضروری ٹھہرا۔ اللہ تعالیٰ پر اس لیے ایمان لانا ضروری ہے کہ وہ خالق ہے ، مالک ہے اور معبود ہے اور رسول پر ایمان لانا اس لیے لازمی ہے ، کہ خدا تعالیٰ کی مرضیات اور نا مرضیات اس کے واسطے سے معلوم ہوتی ہیں اور یہ چیزیں انسان محض اپنی عقل سے معلوم نہیں کرسکتا۔ رسول پر ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوگا۔ جب تک اس کا اتباع نہیں ہوگا۔ اس کے بغیر محبت کا دعوی باطل محض ہے۔ لہذا جو کوئی رسول کا اتباع کرے گا۔ وہ اللہ کی محبت کو پا لے گا ، اور اللہ کا محبوب بن جائے گا۔ حب رسول : جیسے کہ عرض کیا ہے یہود و نصاری کا دعویٰ محبت محبت باطل تھا ، وہ تو کفر و شرک کے مرتکب تھے۔ نبی (علیہ السلام) کا اتباع کہاں کرتے تھے۔ اسی لیے تو حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، لایومن احدکم حتی یکون ھواہ تبعا لم اجئت بہ ، تم میں سے کوئی کامل الایمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ اس چیز کا اتباع نہ کرے جسے میں لایا ہوں۔ نیز یہ کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی میرے ساتھ محبت تمام مخلوق سے زیادہ نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مطاع مطلق ہے اور رسول تو اللہ کی محبت تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ لہذا اس کا اتباع بھی ضروری ہے۔ اور اس کے ساتھ محبت بھی لازمی ہے۔ کسی ذات کے ساتھ محبت اس کے جمال ، کمال اور احسان کی وجہ سے ہوتی ہے۔ مالکِ حقیقی اور محسن حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ اس کا کمال بھی ہے اور جمال بھی ہے۔ اور مخلوق میں سب سے زیادہ محسن اللہ کا نبی ہے آپ نے فرمایا۔ میں نے کوئی چیز ایسی نہیں چھوری جو اللہ کی رضا کا ذریعہ اور جنت تک پہنچانے والی ہو کہ تم کو نہ بتلائی ہو۔ اور اسی طرح کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی جو خدا تعالیٰ کے غضب کا ذریعہ ہو ، تم کو نہ بتلائی ہو۔ مقصد یہ کہ میں نے ہر اچھی اور بری چیز کی نشاندہی کردی ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ خالق مالک اور محبوب حقیقی ہے۔ لہذا اہل ایمان کی سب سے زیادہ محبت اللہ کے ساتھ ہونی چاہئے۔ جیسا فرمای اوالذین امنوا اشد حبا للہ۔ اور مخلوق میں سے ، النبی اولی بالمومنین من انفسہم ، اللہ کا نبی مومنوں کے ساتھ ان کی جانوں سے بھی زیادہ لگاؤ رکھتا ہے۔ یعنی مسلمانوں کا اپنا نفس ان کے لیے اتنا مفید اور خیر خواہ نہیں ہے ، جتنا اللہ کا رسول ہے۔ وہ ہمیشہ اہل ایمان کی بھلائی چاہتا ہے۔ لہذا اس پر ایمان لانا اور اس کا اتباع کرنا ضروری ہے۔ مشکوۃ شریف میں امام بیہقی کی روایت موجود ہے کہ ایک موقع پر حضور ﷺ وضو فرما رہے تھے کہ کچھ لوگ آپ کے ماء مستعمل کو اپنے جسموں پر مل رہے تھے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو ، تو انہوں نے جواب دیا۔ حبا للہ و رسولہ ، اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی بناء پر ایسے کرتے ہیں۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اور اس کے رسول کی محبت کی بناء پر ایسے کرتے ہیں۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ تمہاری محبت اس وقت ثابت ہوگی ، جب زبان سے سچ بولوگے ، امانت میں خیانت نہیں کروگے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف دینے والی کوئی بات نہیں کروگے۔ ظاہر ہے کہ سچ بولنا بڑا مشکل کام ہے ، امانت دار ہونا بھی بڑی بات ہے۔ پڑوسی کو ایذاء سے محفوظ رکھنا بھی ایمان کی نشانی ہے تو جب تک حضور ﷺ کے ارشادات کا اتباع نہیں ہوگا محض زبانی محبت کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ غرضیکہ تکمیل ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اتباع رسول میں فرق نہ آنے پائے۔ اتباع رسول : بہرحال فرمایا اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرا اتباع کرو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا۔ یحببکم اللہ۔ اللہ تم سے محبت کریگا۔ اور اتباع رسول کی تکمیل اس وقت ہوگی۔ جب اس کو زندگی کے ہر شعبہ میں اختیار کیا جائیگا۔ صرف نماز پڑھنے سے اتباع کا حق ادا نہیں ہوگا۔ بلکہ تجارت ، معاملات ، اخلاق ، لین دین ، عبادات ، سیاسیات ، جہاد ، جنگ ، صلح ، شادی ، غمی غرضیکہ معاشرہ میں پیش آنے والے ہر معاملہ میں اتباع رسول کو لازم پکڑنا ہوگا۔ اب تو وقت یہاں تک آپہنچا ہے۔ کہ عبادات بھی اپنی خواہش کے مطابق ہونے لگی ہیں۔ رسول کے طریقے کی کوئی پروا نہیں کی جاتی ، چہ جائیکہ دیگر معاملات میں سنت رسول کی پیروی کی جائے۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے۔ کہ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کیا ، حضور ! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا ذرا سوچ سمجھ کر بات کرو کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ اس شخص نے عرض کیا۔ حضور ! میں خدا کی قسم اتھا کر کہتا ہوں۔ کہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا۔ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو ، تو فقر کو اپنی زندگی کا جزو بنا لو ، کیونکہ میرے ساتھ محبت کرنے والوں کے پاس فقر اس قدر تیزی سے آتا ہے۔ کہ سیلاب بھی اپنے منتہا کی طرف اتنی تیزی سے نہیں جاتا۔ غرضیکہ حب رسول کا دعویدار مال جمع نہیں کرسکتا۔ وہ ہمیشہ محتاج رہے گا۔ اگر کوئی شخص عیش و عشرت میں زندگی گذارتا ہے بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرتا ہے۔ اور پھر محبت کا دعوی بھی کرتا ہے ، تو وہ اپنے دعوے میں سچا نہیں کیونکہ یہ حضور ﷺ کے مقرر کردہ معیارِ محبت کے خلاف ہے جس طرح اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والا کسی نہ کسی ابتلا میں ضرور مبتلا ہوگا۔ اسی طرح رسول کی محبت کا دعویدار فقیر ہوگا ، مال و دولت اور محبت رسول متضاد چیزیں ہیں۔ محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ لوگ نوع انسان کے ساتھ ہمدردی اور غمخواری کریں۔ ان کی جائز حاجات کا خیال رکھیں ، اگر ان چیزوں کی طرف دھیان دے تو اس کے پاس مال جمع نہیں ہوسکتا ، لہذا فقیر ہوگا۔ اللہ کی محبوبیت : الغرض ! فرمایا کہ اتباع رسول کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یحببکم اللہ ، تم اللہ کے محبوب بن جاؤگے اور پھر اللہ کی محبوبیت کا تقاضا یہ ہے۔ ویغفرلکم ذنوبکم۔ وہ تمہاری غلطیاں ، لغزشیں اور گناہ معاف فرما دے گا۔ گناہ کی معافی کا قانون اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان کردیا ہے۔ کہ خالی گناہ تو استغفار سے ہی معاف ہوجائے گا۔ سچے دل سے توبہ کرلی تو اللہ نے معاف فرما دیا۔ اگر فرائض میں کوتاہی ہوئی ہے۔ تو پہلے ان کو ادا کرو۔ پھر اللہ سے معافی مانگو ، اللہ معاف کردے گا۔ نماز رہ گئی ہے ، روزہ قضا ہوگیا۔ پہلے انہیں ادا کرلو۔ اور اگر حقوق العباد میں کوتاہی کی ہے کسی کا حق غصب کیا ہے۔ تکلیف پہنچائی ہے تو پہلے اس کا حق ادا کرو یا اس سے معافی مانگ کر جان چھڑا لو۔ اگر اس دنیا میں حقوق العباد ادا نہیں کرسکے ، تو پھر قیامت کے دن اس کے بدلے میں اپنی نیکیاں نماز ، روزہ ، خیرات وگیرہ حقدار کو دینا ہوں گی اور اگر نیکیاں ختم ہوگئیں ، تو حقدار کے گناہ حق دہندہ کے سر پر ڈالے جائیں گے۔ جس کا نتیجہ جہنم کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ لہذا حقوق العباد کا فیصلہ اسی دنیا میں کرجاؤ۔ اور اللہ سے معافی مانگ لو ، واللہ غفور رحیم ، اللہ تعالیٰ بہت بخشش کرنے والا اور بڑا مہربان ہے۔ یہ اس کی مہربانی ہے کہ اپنے نبی کو بھیجا ، کتاب نازل فرمائی ، اور ہدایات کا سامان پیدا کیا۔ تاکہ انسان گناہ سے بچ جائیں۔ اور پھر جہنم سے بچ کر جنت میں داخل ہوجائیں۔ عصمتِ انبیاء : اس کے بعد فرمایا ، قل اطیعوا اللہ والرسول ، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کی تابعداری کرو ، کیونکہ وہ خالق ، مالک اور معبود برحق ہے اس کی اطاعت فرض مطلق ہے۔ اور اس کے ساتھ رسول کی تابعداری کرو۔ کہ وہ خدا کی اطاعت تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ جب تک رسول کی اطاعت نہیں ہوگی۔ خدا کی اطاعت ممکن نہیں۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوینے اسی آیت سے عصمت انبیاء کی دلیل پکڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسول کی اطاعتِ مطلقہ کا حکم دیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ رسول غلطی نہیں کرتا۔ اگر غلطی کا امکان ہوتا۔ تو اللہ تعالیٰ اطاعت مطلقہ کا حکم نہ دیتا۔ خود حضور ﷺ کا واقعہ آتا ہے۔ آپ نے کسی موقع پر مزاح فرمایا۔ صحابہ نے عرض کیا۔ آپ اللہ کے رسول ہو کر مزاح فرماتے ہیں۔ فرمایا ہاں ! مگر ایسی حالت میں بھی میری زبان سے کوئی باطل بات نہیں نکلتی بلکہ ، لا اقول الا الحق ، میں حق کے سوا کوئی بات نہیں کرتا۔ آنحضرت ﷺ کی مزاح کے انداز میں فرمائی ہوئی ایک بات سے فقہاء نے ایک سو مسئلہ نکالا ہے۔ اللہ نے نبی کی زبان پر ایسا حق جاری فرمایا۔ غرضیکہ نبی معصوم ہوتا ہے۔ یہ جو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ نبی سے اپنی حفاظت اٹھا لیتا ہے اور بعض غلطیاں بھی سرزد ہونے دیتا ہے۔ تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ آپ بھی بشر اور مخلوق ہیں ، یہ عقیدہ درست نہیں ہے۔ نبی سے عصمت کی حفاظت کسی وقت نہیں اٹھائی جاتی۔ ورنہ رسول پر اعتماد ہی ختم ہوجائے گا۔ نبی کو تو گارنٹی حاصل ہوتی ہے کہ اس کی زبان پر ہمیشہ حق ہوتا ہے۔ غلطی سرزد نہیں ہوتی ، بعض معمولی لغزشیں ہوتی ہیں۔ جو کہ عام لوگوں کے لیے تو وہ گناہ نہیں ہوتا مگر انبیاء کے لیے وہ بھی قابل مواخذہ ہوتی ہیں۔ تاہم وہ گناہ کی فہرست میں آتا نبی گناہ سے ہمیشہ پاک ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ کے ساتھ نبی کی اطاعت مطلقہ کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ فرمایا ، فان تولوا ، اگر تم روگردانی کروگے۔ فان اللہ لا یحب الکفرین ، تو اللہ تعالیٰ کفر کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا فرض ہے اسی طرح نبی پر ایمان لانا بھی فرض ہے۔ ان میں سے کسی ایک کا انکار بھی کفر ہوگا۔ نبی پر ایمان کا ادنیٰ درجہ یہ ہے۔ کہ اس پر محض ایمان لایا جائے اور اعلی درجہ ایمان کا یہ ہے۔ کہ اس کے ساتھ محبت ہو۔ اور محبت کا تقاضا ہے کہ اتباع ہو۔ اگر دعوے محبت کے ساتھ اتباع نہیں تو دعوے جھوٹا ہے۔ یہ بھی کافرانہ بات ہے۔ جیسا کہ عورتوں کے بارے میں فرمایا کہ یہ کفران کرتی ہیں۔ حضور ﷺ سے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا ہاں و تکفرن العشیر۔ یہ خاوند کی ناشکر گذاری کرتی ہیں۔ اس کو کفر باللہ نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ کفران نعمت ہے۔ مشرکین ، یہود و نصاری ، کا کفر تو صریح کفر ہے۔ کہ وہ حضور ﷺ پر ایمان ہی نہیں لائے۔ مگر جو مسلمان محبت کا دعوی کرنے کے باوجود اتباع نہیں کرتا ، وہ کفرانِ نعمت کا مرتکب ہوتا ہے۔ ان کا دعوی محبت درست نہیں ہے۔ لہذا ایسے لوگ قابل مواخذہ ہیں۔ چناچہ فرمایا اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ پھر اگر یہ روگردانی کریں ، تو اللہ تعالیٰ کفر کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا کافر خواہ کفر باللہ کرنے والا ہو یا کفرانِ نعمت کرنے والا ہو۔ محبوب خدا نہیں بن سکتا۔
Top