Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 35
اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
اِذْ : جب قَالَتِ : کہا امْرَاَتُ عِمْرٰنَ : بی بی عمران رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں نَذَرْتُ : میں نے نذر کیا لَكَ : تیرے لیے مَا : جو فِيْ بَطْنِىْ : میرے پیٹ میں مُحَرَّرًا : آزاد کیا ہوا فَتَقَبَّلْ : سو تو قبول کرلے مِنِّىْ : مجھ سے اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
جب عمران کی بیوی نے کہا ، اے پروردگار ! میں نے تیرے لیے نذر مانی ہے ، جو کچھ میرے پیٹ میں ہے آزاد کیا ہوا۔ پس قبول فرما مجھ سے بیشک تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔
زوجہ عمران کی نذر : جیسا کہ گذشتہ دروس میں بیان ہوچکا ہے کہ اس سورة مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے نصاری کے غلط عقائد کی خاص طور پر تردید فرمائی ہے۔ آج کے درس میں حضرت مریم کی ولادت سے موضوع سخن کا آغاز کی اجا رہا ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ کہ اس واقعہ کو اپنے ذہن میں لاؤ۔ اذ قالت امرات عمران ، جب عمران کی بیوی نے کہا۔ رب انی نذرت لک ما فی بطنی محررا۔ اے مولا کریم ! میں نے تیرے لیے یہ نذر مانی ہے کہ جو کچھ میرے پیٹ میں ہے ، وہ میں نے محض تیری عبادت کے لیے آزاد کردیا۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں ، محررا ، یعنی آزاد کرنے سے مراد ہے ، مخلصا للعبادۃ ، یعنی ہونے والے بچے کو خالص اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا جائیگا۔ کسی دنیوی کام میں نہیں لگایا جائیگا۔ بعض دوسرے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ آزاد کرنے کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ پہلا معنی تو عام فہم ہے یعنی غلامی سے آزاد کردینا۔ اور دوسرا معنی کسی معاملہ میں کتابت یا تحریر کرلینا ہے۔ جب کوئی چیز تحریر میں آجاتی ہے۔ تو معاملہ صاف ہو کر کسی ممکنہ فساد و اضطراب سے آزادی حاصل کرلیتا ہے۔ اس بات کا تذکرہ بھی پہلے ہوچکا ہے۔ کہ تاریخ میں دو ایسے اشخاص کا تذکرہ آتا ہے۔ جن کے نام عمران ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے والد کا نام بھی عمران ہے۔ اور حضرت مریم کے والد بھی عمران ہیں۔ دونوں نیک اور صالح آدمی تھے ، مگر نبی نہیں تھے۔ اس مقام پر جس عمران کا تذکرہ ہے۔ وہ مریم کے والد ہیں۔ امام بیضاوی اور دوسرے مفسرین فرماتے ہیں۔ کہ ان کی بیوی کا نام حنہ بنت فاقوس تھا۔ وہ بھی صالحۃ خاتون تھیں۔ بعد میں ان کے نام پر گرجے بھی بنے۔ اس علاقے میں دیر حنہ وغیرہ مشہور تھے۔ اسی طرح حضرت مریم کے نام پر بھی گرجے اور عبادت خانے مشہور تھے۔ حنہ زوجہ عمران عمر رسیدہ ہوگئیں مگر اولاد سے محروم تھیں۔ امام ابن کثیر اور دوسرے مفسرین بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ انہوں نے چریا کو دیکھا کہ اپنے بچے کو دانہ کھلا رہی ہے یہ دیکھ کر ان کے دل میں بھی اولاد کی خواہش پیدا ہوئی۔ تو اللہ تعالیٰ سے عجز و انکساری کے ساتھ دعا کی۔ جو اللہ نے قبول فرمائی۔ جب وہ اس کبر سنی میں حاملہ ہوگئیں تو انہوں نے شکرانے کے طور پر یہ منت مانی کہ وہ پیدا ہونے والے بچے کو اللہ کی عبادت کے لیے وقف کردیں گی۔ ان کی دلی خواہش یہ تھی۔ کہ اللہ تعالیٰ بیٹا عطا کرے ، تو وہ اسے اللہ کی راہ میں آزاد کردیں گی۔ یہ نذر ماننے کے بعد پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ فتقبل منی اے اللہ ! مجھ سے یہ نذرانہ قبول کرلے۔ میں پیدا ہونے والے بیٹے کو تیری عبادت اور بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کردوں گی۔ انک انت السمیع العلیم۔ بیشک تو سننے والا ہے اور جاننے والا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ میں اس مکمل یقین کے ساتھ دعا کر رہی ہوں کہ تو میری التجا کو سن رہا ہے۔ اور میری اس نذر اور اس میں پائے جانے والے خلوص کو جانتا بھی ہے۔ جائز اور ناجائز نذر۔ امام ابوبکر جصاص فرماتے ہیں کہ جو نذر عمران کی بیوی نے مانی تھی ، ایسی نذر ہماری شریعت میں بھی جائز ہے۔ آج بھی کوئی شخص منت مانے کہ میں اپنے بیٹے کو دین کی خدمت کے لیے وقف کروں گا۔ وہ علم دین یعنی قرآن ، حدیث ، فقہ وغیرہ سیکھے گا ، اسے کسی دنیا کے کام میں نہیں لگاؤں گا ، تو ایسی نذر ماننا بالکل درست ہے۔ اور اس کا پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ البتہ اگر کوئی معصیت کی نذر مانے ، کسی ناجائز کام کے لیے منت مانے ، تو اس پر عمل کرنا جائز نہیں ہوتا۔ بلکہ ایسی نذر کو توڑ دینا ضروری ہوجاتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا من نذر ان یطیع اللہ ، جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو اس کو وہ نذر پوری کرنی چاہئے۔ اور لازماً اللہ کی اطاعت کرنی چاہئے برخلاف اس کے اگر کسی نے اللہ کی نافرمانی کرنے کی نذر مانی تو فرمایا فلا یعص اللہ ، ایسے شخص کو نافرمانی نہیں کرنی چاہئے۔ بلکہ ایسی غلط نذر کو توڑ کر اس کا کفارہ ادا کردینا چاہئے۔ کفارتہ کفارۃ الیمین ، نذر تورنے کا کفارہ قسم توڑنے کے برابر ہے۔ یعنی دس مساکین کو کھانا کھلائے یا انہیں کپڑے پہنائے یا تین دن کے متواتر روزے رکھے۔ بہرحال کسی نیک کام کے لیے نذر ماننا بمنزہ عبادت ہے اور درست ہے۔ کسی کو دین کی خدمت یا مسجد کی خدمت کے لیے وقف کیا جائے۔ یہ نذر صحیح ہے اور جائز ہے۔ البتہ کسی قبر کا مجاور بننے کی منت درست نہیں۔ کیونکہ اس سے شرک و بدعت کی آبیاری ہوتی ہے اور یہ معصیت کی نذر تصور ہوگی۔ اسی طرح قبروں پر چڑھاوا چڑھانے اور وہاں پر نذر و نیاز پیش کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ بعض صورتوں میں یہ شرک کا ارتکاب ہوتا ہے۔ اور بعض صورتوں میں یہ بدعت ہوتی ہے۔ لہذا درست نہیں۔ تاہم عمران کی بیوی نے جو نذر مانی تھی ، اس سے بیت المقدس کی خدمت مقصود تھی۔ اس زمانے میں اس قسم کے کام کے لیے لڑکوں کو وقف کیا جاتا تھا۔ اس مقصد کے لیے لڑکیوں کو وقف کرنے کا رواج نہیں تھا۔ ان کی خواہش اور دعا تھی کہ اللہ تعالیٰ لڑکا عطا کرے تو وہ اسے اللہ کے گھر کی خدمت پر مامور کردیں گی۔ امام ابوبکر جصاص فرماتے ہیں کہ مجہول کی نذر بھی درست ہے۔ یعنی ابھی علم ہی نہیں کہ پیدا ہونے والا لڑکا ہے یا لڑکی۔ مگر یہ نذر صحیح ہے کہ جو بھی اللہ تعالیٰ عطا کرے گا اسے وقف کردیا جائے گا۔ حضرم مریم کی ولادت : فلما وضعتھا ، جب عمران کی بیوی نے جنا ، تو وہ لڑکی تھی۔ قالت ، کہنے لگی ، رب انی وضعتھا انثی ، اے پروردگار ! میں نے تو لڑکی کو جنم دیا ہے۔ واللہ اعلم بما وضعت ، اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ اس نے جنا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ میں نے تو نذر مانی تھی کہ لڑکا ہوتا۔ تو اسے بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کردوں گی مگر لڑکی کو ایسے کام کے لیے مقرر کرنا مناسب نہیں۔ ولیس الذکر کالانثی ، اور لڑکا لڑکی کی طرح تو نہیں ہے۔ لڑکی وہ مشقت کا کام نہیں کرسکتی جو لڑکا کرسکتا ہے۔ بہرحال لڑکی جننے کے بعد انہوں نے کہا۔ وانی سمیتھا مریم۔ اور میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے۔ مریم کا معنی بعض کے نزدیک عابدہ یعنی عبادت گزار ہے اور بعض کے نزدیک خادمہ ہے۔ امام ابوبکر جصاص اور دوسرے مفسرین فرماتے ہیں۔ کہ عمران حضرت مریم کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہوچکے تھے۔ اور ان کی بیوی ہی نومولود کی کفیل اور سرپرست تھی۔ لہذا بچی کا نام انہوں نے خود رکھا۔ جس سے ثابت ہوا کہ ماں کو بھی بچے کا نام رکھنے کی اجازت ہے خصوصاً اس وقت جب کہ باپ موجود نہ ہو۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ بہتر یہ ہے کہ بچے کی پیدائش کے دن ہی اس کا نام رکھ دیا جائے۔ تاہم ساتویں دن بال اتارنا ، عقیقہ کرنا اور نام رکھنا بھی درست ہے۔ حضرت انس کے بھائی کی ولادت ہوئی۔ اسی دن اس کو اٹھا کر حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ حضور ﷺ نے نومولود کو گڑھتی دی اور عبداللہ نام بھی رکھا ، خود حضور ﷺ کے ہاں ماریہ قبطیہ ؓ کے بطن سے رات کو بچہ پیدا ہوا۔ صبح آپ نے فرمایا کہ رات میرے ہاں لڑکا تولد ہوا ہے۔ اور اس کا نام میں نے اپنے جد امجد کے نام پر رکھا ہے۔ گویا بچے کا نام اس کے باپ نے رکھا۔ مگر حضرت مریم کا نام ان کی والدہ نے رکھا۔ کیونکہ باپ موجود نہیں تھا۔ بعض مفسرین نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔ کہ باپ کی عدم موجودگی میں تو ماں سرپرست بن سکتی ہے۔ مگر اس کی موجودگی میں نہیں بن سکتی۔ نام رکھنے کے ساتھ ہی فرمایا۔ وانی اعیذھا بک و ذریتھا من الشیطن الرجیم ، اے اللہ ! میں اس بچی کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ تاکہ شیطان کسی قسم کی دخل اندازی نہ کرے حدیث شریف میں آتا ہے کہ شیطان نے ہر مولود کو چوکا لگایا ، سوائے حضرت مریم ؓ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے ، کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو محفوظ رکھا۔ یہ ان کی والدہ کی دعا کی وجہ سے ان کی خصوصیت تھی ، فتقبلہا ربھا بقبول حسن ، پس قبول کیا اس کو اس کے رب نے اچھی طرح قبول کرنا ، یعنی لڑکے کی بجائے لڑکی پیدا ہوئی ، تو اسے ہی عبادت کے لیے قبول فرمایا ، وانبتھا نباتا حسنا ، اور بڑھایا اس بچی کو اچھی طرح بڑھانا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی نشونما فرمائی۔ کہ حضرت مریم عام معمول سے بہت جلدی بڑی ہوگئی اور آپ کی صحت بھی بہت اچھی تھی۔ حضرت مریم کی کفالت : وکفلھا زکریا ، اس کی قراءت دو طرح سے آتی ہے یعنی کَفَلَہا اور کَفَّلہا ، کَفَلَہا کا معنی ہے کفیل بن گیا یا ضامن بن گیا ، گویا زکریا (علیہ السلام) حضرم مریم کے کفیل بن گئے ، اور کَفَّلہا کا معنی ہوگا کہ اللہ نے زکریا (علیہ السلام) کو حضرت مریم کا کفیل بنا دیا۔ بہرحال دونوں طرح مقصد ایک ہی ہے۔ بچی کا باپ موجود نہیں۔ ماں اس کو لے کر ہیکل مقدس میں آگئی۔ تو وہاں پر موجود ہر شخص نے خواہش ظاہر کی کہ اس بچی کو اپنی کفالت میں لے۔ مگر اللہ تعالیٰ کو حضرت زکریا (علیہ السلام) کی کفالت منظور تھی۔ آپ نیک اور صالح آدمی تھے اور بیت المقدس کے امام بھی تھے۔ ادھر آپ حضرت مریم کے رشتہ دار بھی تھے۔ یعنی ان کے خالو لگتے تھے۔ آپ کے گھر میں حنہ کی بہن ایشاع بنت فاقوس تھی۔ لہذا انہیں کفالت کا زیادہ حق تھا۔ ایسا ہی واقعہ حضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں بھی پیش آیا۔ جب حضرت حمزہ کی بچی کو مدینہ لایا گیا تو حضرت علی حضرت زید اور حضرت جعفر ؓ کے گھر میں بچی کی خالہ تھی۔ لہذا حضور ﷺ نے ان کی درخواست کو شرف قبولیت بخشا اور فرمایا الخالۃ بمنزلۃ الام ، خالہ بمنزلہ ماں کے ہوتی ہے۔ لہذا کفالت کی وہی زیادہ حقدار ہے۔ الغرض ! حضرت زکریا (علیہ السلام) حضرت مریم کے کفیل مقرر ہوئے۔ انہوں نے مریم کے لیے بیت المقدس میں الگ کمرہ بنا دیا۔ جہاں وہ دن بھر عبادت میں مصروف رہتی اور رات کو اسے اپنے گھر لے جاتے۔ آپ کی تعلیم و تربیت بھی کرتے۔ یہ اللہ کی قدرت تھی۔ کہ حضرت مریم کے طبن سے حضرت مسیح کی ولادت مقصود تھی۔ بخاری شرییف میں آتا ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) بڑھئی کا کام کرتے تھے۔ اور زیادہ وقت منصب نبوت کی ادائیگی میں صرف کرتے تھے اس لیے کبھی کھانے کو کچھ مل جاتا اور کسی دن فاقہ بھی برداشت کرنا پڑتا۔ عام طور پر انبیاء (علیہم السلام) کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کو حضرت مریم (علیہا السلام) کی پرورش بھی جلد از جلد منظور تھی۔ کیونکہ آپ کے بطن سے جلیل القدر پیغمبر تولد ہونے والے تھے۔ حضرت مریم کی کرامت : اس کا انتظام اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا کلما دخل علیہا زکریا المحراب جب زکریا (علیہ السلام) حضرت مریم کے کمرے داخل ہوئے ، وجد عندھا رزقا تو اس کے پاس روزی پاتے۔ حضرت زکریا کے پاس تو اس قدر وسائل نہ تھے۔ مگر وہ دیکھتے کہ حضرت مریم کے پاس بےموسم پھل موجود ہیں۔ سردیوں کے پھل موسم گرما میں اور گرمیوں کے پھل موسم سرما میں حضرت مریم کے پاس مہیا ہوتے۔ یہ حضرت مریم کی کرامت تھی کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت بالغہ اور قدرت تامہ سے انہیں روزی پہنچاتا تھا۔ جو خرق عادت فعل انبیاء (علیہم السلام) کے ہاتھ پر ظاہر ہو۔ وہ معجزہ ہوتا ہے اور جو اولیاء کے ہاتھ پر ظاہر ہو وہ کرامت ہوتی ہے۔ اہل سنت والجماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اولیاء اللہ کی کرامت برحق ہے۔ اس سے انکار کی مجال نہیں۔ عقائد کی کتابوں میں نبی کے معجزے اور ولی کی کرامت کو عقیدے میں شامل کیا گیا ہے۔ البتہ کسی ولی اللہ کے ساتھ جھوٹ موٹ کرامت منسوب کرنا غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شیخ عبدالقادر جیلانی کے ہاتھ پر بہت سی کرامات ظاہر فرمائیں۔ ان کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں منقول ہے۔ مگر کشتی کا بارہ سال والا قصہ جھوٹا اور من گھڑت ہے۔ بعض دیگر بزرگانِ دین کی طرف بھی لوگوں نے بہت سی جھوٹی باتیں منسوب کردی ہیں ، جو درست نہیں۔ بہرحال جب حضرت زکریا (علیہ السلام) نے حضرت مریم کے پاس پھل دیکھے تو فرمایا ، قال یمریم انی لک ھذا ، اے مریم یہ کہاں سے آگئے قالت ھو من عند اللہ ، تو انہوں نے جواب دیا۔ کہ یہ اللہ کی طرف سے آئے ہیں۔ یہ اس کی خاص عنایت تھی۔ تاکہ حضرت مریم جلد از جلد سن بلوغت کو پہنچیں۔ اور آگے نبوت کا سلسلہ جاری ہو۔ مسند ابی یعلی کے حوالے سے امام ابن کثیر نے بیان کیا ہے۔ کہ ایک موقع پر حضور ﷺ کئی روز سے فاقے سے تھے۔ آپ اپنی بیٹی فاطمہ کے گھر تشریف لائے اور کھانے کے لیے طلب کیا۔ جواب ملا ، ابا جی ! آج تو گھر میں کھانے کے لیے کوئی چیز نہیں ہے۔ چناچہ حضور ﷺ واپس تشریف لے آئے۔ اتفاق سے تھوڑی ہی دیر بعد کسی پڑوسن نے دو چھوٹی چھوٹی روٹیاں اور گوشت کا ایک ٹکڑا حضرت فاطمہ کو ہدیۃً بھیجا۔ وہ کھانا آپ نے بچوں کو کھلانے کی بجائے۔ حضور ﷺ کے لیے رکھ لیا اور آپ کو پیغام بھیجا۔ آپ تشریف لائے۔ حضرت فاطمہ نے کپڑے کے نیچے رکھا ہوا کھانا نکال کر حضور کی خدمت میں پیش کردیا۔ حضور نے فرمایا کہ تھوڑی دیر پہلے تو گھر میں کوئی کھانا نہ تھا۔ اب کہاں سے آگیا۔ تو حضرت فاطمہ نے وہی الفاظ کہے جو حضرت مریم نے کہے تھے۔ ھو من عنداللہ ، کہ یہ اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس کھانے میں اس قدر برکت ڈال دی کہ وہ مختصر سا کھانا حضور ﷺ نے خود تناول فرمایا۔ حضرات حسنین اور حضرت علی رض اللہ عنہم نے کھایا۔ آپ کی تمام ازواج مطہرات نے کھایا۔ پھر بھی بچ گیا تو پڑوسیوں میں تقسیم کیا گیا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ فاطمہ ! تمہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کا شبیہ بنایا ہے۔ انہوں نے بھی یہی کہا۔ کہ کھانا اللہ نے بھیجا ہے اور تو نے بھی یہی بات کی ہے۔ حقیقت یہ ہے۔ ان اللہ یرزق من یشاء بغیر حسا تا ب ، اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق عطا کرتا ہے یہ اس کی خاص مہربانی ہے۔ :
Top