Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 45
اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ١ۖۗ اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ
اِذْ : جب قَالَتِ : جب کہا الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے يٰمَرْيَمُ : اے مریم اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُبَشِّرُكِ : تجھے بشارت دیتا ہے بِكَلِمَةٍ : ایک کلمہ کی مِّنْهُ : اپنے اسْمُهُ : اس کا نام الْمَسِيْحُ : مسیح عِيْسَى : عیسیٰ ابْنُ مَرْيَمَ : ابن مریم وَجِيْهًا : با آبرو فِي : میں الدُّنْيَا : دنیا وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَمِنَ : اور سے الْمُقَرَّبِيْنَ : مقرب (جمع)
اس واقعہ کو سامنے لاؤ، جب فرشتوں نے مریم سے کہا ، بیشک اللہ تعالیٰ تجھ کو خوشخبری دیتا ہے ایک کلمے کی اس کی طرف سے ، جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا۔ وہ وجاہت والا ہوگا دنیا میں اور آخرت میں اور مقربین میں سے ہوگا۔
ربط آیات : گذشتہ درس میں حضرت مریم کے کچھ مناقب بیان ہوئے تھے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم پیغمبر کی پیدائش کے لیے ان کا انتخاب کیا۔ اور اس ضمن میں انہیں تمام جہان والی عورتوں پر فضیلت بخشی۔ اس کے علاوہ انہیں ظاہری اور باطنی ہر لحاظ سے پاکیزہ بنایا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی عبادت کرنے کی نصیحت کی گئی۔ اور پھر یہ اصول بھی بیان کردیا کہ جو واقعات بیان کیے جا رہے ہیں۔ وہ غیب کی خبروں میں سے ہیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی انبیاء (علیہم السلام) تک پہنچاتے ہیں۔ اس بات کی وضاحت کی گئی کہ حضرت مریم کی کفالت کے متعلق جب قرعہ اندازی ہو رہی تھی تو اے پیغمبر آخر الزمان (علیہ السلام) آپ وہاں موجود نہیں تھے۔ نہ آپ غیب دان ہیں۔ بلکہ آپ تک یہ خبریں پہنچانے کا ہمارا اپنا انتظام ہے۔ اب آج کے درس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے متعلق خوشخبری اور آپ کے بعض معجزات کا تذکرہ ہے۔ اس کے علاوہ مریم کے اس استعجاب کا بیان ہے۔ جو انہیں بیٹے کی پیدائش کی خوشخبری پر ہوا۔ حضرت مریم کو بشارت : پہلے بیان ہوچکا ہے۔ کہ حضرت مریم کی پرورش اللہ تعالیٰ نے خاص طریقہ سے فرمائی اور وہ جلدی جلدی بڑی ہونے لگیں۔ پھر جب وہ سن بلوغت کو پہنچ گئیں تو فرشتوں نے آکر آپ کو بشارت دی۔ ارشاد ہوتا ہے۔ اذ قالت الملئکۃ اس واقعہ کو دھیان میں لاؤ، جب فرشتوں نے آ کر مریم سے کہا ، یمریم ، اے مریم ! ان اللہ یبشرک ، بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں بشارت دیتا ہے۔ بکلمۃ منہ ، اپنی طرف سے ایک کلمہ کی۔ بشارت اس خبر کو کہا جاتا ہے۔ جس میں خوشی ہو۔ خبر سن کر سرور حاصل ہو۔ جیسے سورة بقرہ میں گذر چکا ہے۔ و بشر الذین امنوا و عملوا الصلحت ان لھم جنت۔ جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اعمال کیے ، ان کو جنت کی بشارت دے دیجئے۔ ظاہر ہے۔ کہ یہ نہایت ہی خوشی کی بات ہے کہ کسی کے لیے جنت مقدر کردی جائے تاہم بعض اوقات بشارت سے مراد محض خبر بھی ہوتا ہے۔ جیسے کفار کے متعلق فرمایا۔ فبشرھم بعذاب الیم۔ انہیں دردناک عذاب کی خبر دے دو ۔ تاہم یہاں پر بشارت سے مراد اچھی اور خوش کن خبر ہے کہ اے مریم ! اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی طرف سے ایک کلمے کی خوشخبری دیتا ہے اس مقام پر کلمہ کا لفظ حضرت مسیح (علیہ السلام) پر بولا گیا ہے۔ آپ کو اللہ کا کلمہ اس خصوصیت کی بنا پر کہا گیا ہے۔ جو آپ کی ذات میں بن باپ کے پیدائش کی وجہ سے ہے۔ قرآن میں بعض دوسری چیزوں کی نسبت بھی خصوصی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے۔ جیسے سورة شمس میں ناقۃ اللہ یعنی اللہ کی اونٹنی کا ذکر آیا ہے۔ اونٹنیاں اور تمام چیزیں تو سب کی سب اللہ ہی کی ہیں۔ مگر صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کو خاص طور پر اللہ کی اونٹنی اس لیے کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی پیدائش خاص طریقہ سے کی تھی۔ یہ اونٹنی کسی ماں کے پیٹ کی بجائے چٹان سے نکالی گئی تھی۔ اس لیے اس کو اللہ کی اونٹنی کہا گیا۔ اسی طرح خانہ کعبہ کو بیت اللہ شریف یعنی اللہ کا گھر کہا گیا ہے۔ حالانکہ تمام مساجد اللہ ہی کے گھر ہیں۔ اس کے علاوہ کائنات کی ہر چیز اسی کی پیدا کردہ ہے لہذا اسی کی ہے۔ مگر بیت اللہ کو بیت اللہ اس لیے کہا گیا ہے۔ کہ وہاں پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی تجلیات ہر وقت نازل ہوتی رہتی ہیں۔ عام مساجد میں بھی اللہ تعالیٰ کی خصوصی مہربانی ہوتی ہے۔ اس لیے وہ بھی اللہ کے گھر ہیں۔ تو بہرحال فرشتوں نے حضرت مریم کو اللہ کے کلمے کی بشارت یعنی خوشخبری دی۔ امام ابوبکر جصاص فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کلمۃ اللہ کہنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بغیر باپ کے توسط کے پیدا کیا۔ گویا آپ اللہ تعالیٰ کے کلام اور اس کے حکم سے پیدا ہوئے۔ اس لقب کی دوسری وجہ یہ ہے کہ پہلی کتابوں میں مسیح (علیہ السلام) کے متعلق پیش گوئی موجود تھی کہ آپ اپنے مقررہ دور میں آ کر ہدایت کا ذریعہ بنیں گے۔ تو یہ وہی کلمۃ اللہ ہیں۔ جن کا ذکر پہلی کتابوں میں موجود ہے۔ کلمۃ اللہ کی تیسری توضیح یوں بیان کرتے ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کو کلمت ربک ، یعنی اللہ کے کلمے کہا ہے۔ اور یہ لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے۔ اسی طرح چونکہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کو بھی مخلوق کے لیے زریعہ ہدایت بنایا ، لہذا ان کا نام بھی کلمۃ اللہ رکھ دیا۔ فرمایا اے مریم ! اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے کلمے کی خوشخبری دیتا ہے۔ اسمہ المسیح عیسیٰ ابن مریم۔ اس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا۔ اکثر مفسرین کرام فرماتے ہیں۔ کہ لفظ مسیح عبرانی اور سریانی زبان کے اشتقاق سے آیا ہے اور اس کا معنی مبارک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پیدائش کے بعد پہلے ہی دن آپ کی زبان سے کہلوادیا تھا۔ کہ میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اللہ نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔ وجعلنی مبارکا این ما کنت۔ (سورۃ مریم) میں جہاں بھی ہوں ، مجھے برکت والا بنایا ہے۔ لہذا آپ کا لقب مسیح قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ آپ کا لقب یسوع بھی ہے جو یشوع سے آیا ہے اور اس کا معنی سردار یا سید ہے۔ عربی زبان میں مسیح کا معنی سیاح ہے۔ دجال کے ساتھ مسیح کا لفظ بھی انہی معانی میں آیا ہے۔ مسیح دجال یعنی سیاحت کرنے والا دجال ، کہتے ہیں کہ دجال چالیس دن میں پوری دنیا کے گرد گھوم جائیگا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی مسیح اس لیے کہتے ہیں۔ کہ آپ بھی سیاحت کرتے تھے۔ آپ نے زندگی بھر رہنے کے لیے اپنا گھر نہیں بنایا بلکہ ہمیشہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے تھے۔ مسیح کا اطلاق مسیح پر بھی ہوتا ہے۔ جس کا معنی ہاتھ پھیرنا ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو ہاتھ لگاتے تو اللہ تعالیٰ شفا عطا کردیتا۔ یہ ذکر آگے معجزات میں آئے گا۔ دجال کے ساتھ لفظ مسیح ، ممسوح کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے۔ جو کہ مفعولی کا صیغہ ہے۔ ممسوح العین۔ اس شخص کو کہتے ہیں۔ جس کی ایک ہی آنکھ ہو یعنی مٹائی ہوئی آنکھ والا۔ دجال کی دائیں آنکھ بالکل مٹی ہوئی ہوگی اور انگور کے پھٹے ہوئے دانے کی مانند ہوگی۔ اس کی بائیں آنکھ میں بھی عیب ہوگا۔ اس لیے اس کو ممسوح کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ممسوح بگڑی ہوئی فطرت والے کو بھی کہتے ہیں۔ دجال ممسوح الفطرت یعنی بگری ہوئی فطرت والا ہوگا۔ عیسائیوں کا باطل عقیدہ : عیسی بن مریم کہہ کر اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کے اس باطل عقیدہ کی تردید فرمائی ہے۔ جس کے مطابق وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا یا تین خداؤں میں سے تیسرا کہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں پر واضح کردیا ہے۔ کہ عیسیٰ ابن مریم ہے۔ جس کو اللہ نے ایک عورت کے بطن سے پیدا فرمایا۔ جو شخص کسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہو۔ وہ الہ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ وہ تو خود مخلوق ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے ، اس کے نبی اور برگزیدہ انسان ہیں۔ لم یلد و لم یولد۔ تو شان کداوندی ہے۔ یہ صفت کسی مخلوق میں کیسے ثابت کی جاسکتی ہے۔ بلکہ ایسا عقیدہ رکھنا اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔ سورة مریم میں موجود ہے۔ کہ یہ اتنا بڑا کلمہ ہے کہ تکاد السموت یتفطرن منہ و تنشق الارض و تخر الجبال ھدا۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں ، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں۔ اس بات پر کہ ان دعوا للرحمن ولدا۔ وہ خدا تعالیٰ کے لیے بیٹے کو پکار رہے ہیں۔ یہ اس قدر باطل عقیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بیٹا ثابت کرنا۔ یہ تو اس کی تنزیہہ کے ہی خلاہے۔ عیسی ابن مریم : قرآن پاک میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کا لقب عیسیٰ ابن مریم کئی مقامات پر آیا ہے۔ آخرت میں بھی آپ کو اسی لقب سے پکارا جائے گا۔ جب محاسبے کی منزل آئے گی ، تو اللہ تعالیٰ آپ کو اسی نام سے مخاطب کریں گے۔ سورة مائدہ میں آتا ہے واذ قال اللہ یعیسی ابن مریمء انت قلت للناس اتخذونی وامی الھین من دون اللہ۔ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا۔ کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا معبود بنا لو۔ تفسیر روح المعانی میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اس طرح خطاب فرمائیں گے ، تو آپ پر دہشت طاری ہوجائیگی اور آپ پانچ سو سال تک کپکپاتے رہیں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کو حوصلہ دے گا۔ تو عرض کریں گے قال سبحانک۔ اے اللہ ! تیری ذات پاک ہے۔ میں ایسی بات کیسے کہہ سکتا ہوں۔ جس کا مجھے حق ہی نہیں پہنچتا۔ تو تو دلوں کی باتوں کو بھی جانتا ہے ، مخفی ارادوں تک سے واقف ہے۔ اگر میں نے ایسی بات کی ہے تو تجھ سے تو پوشیدہ نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، وہ ایسا دن ہوگا ، کہ اس دن سچوں کو ان کی سچائی فائدہ دے گی۔ یہ سب سورة مائدہ میں آ رہا ہے۔ امام بخاری فرماتے ہیں۔ کہ قیامت کے دن ہر شخص کو باپ کی سنبت سے پکارا جائے گا۔ مگر عیسیٰ (علیہ السلام) کو ماں کے نام سے پکارا جائے گا۔ یعنی عیسیٰ ابن مریم۔ کیونکہ آپ کے لیے باپ کا توسط نہیں ہے اسی طرح سورة مریم میں جہاں یحییٰ (علیہ السلام) کا ذکر آتا ہے۔ وہاں وبراً بوالدیہ۔ کے الفاظ آتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے والدین یعنی ماں اور باپ دونوں کے ساتھ نیکی اور احسان کرنے والا۔ مگر جہاں عیسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ ہے۔ وہاں فرمای ابرا بوالدتی۔ اللہ نے مجھ کو میری ماں کے ساتھ نیکی اور احسان کرنے والا بنایا ہے۔ اس طرح گویا اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کے اس عقیدے کا رد فرمایا ہے جس کے مطابق وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا یا تین خداؤں میں سے تیسرا خدا مانتے ہیں۔ یہودیوں کی مسیح دشمنی : یہودی حضرت مسیح (علیہ السلام) کی حد درجہ تحقیر کرتے تھے۔ انہوں نے آپ کی والدہ پر حرام کاری کا الزام لگا کر ان کو بدکار عورت تک کہا۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو حرامی بچہ کہہ دیا۔ حتی کہ آپ کو سزائے موت دلانے کے لیے عدالت میں لے گئے اور راستے میں جاتے ہوئے العیاذ باللہ آپ کے چہرے پر تھوکا۔ یہ بدبخت لوگ بگڑی ہوئی ذہنیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے مسیح (علیہ السلام) کی بڑی توہین کی۔ حتی کہ انہیں سولی پر لٹکانے کے لیے تیار ہوگئے۔ انہوں نے تو ایسا کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا چھوری مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے ٓپ کو بچا لیا۔ انجیل میں موجود ہے کہ یہودیوں کے عالم بڑے بدبخت تھے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو سانپ کے بچوں سے تشبیہ دی ہے۔ آپ نے فرمایا ، تم کیسے بدبخت لوگ ہو ، جو لوگوں کو گمراہی مٰں ڈالتے ہو۔ اور ہدایت کی بات کو سنتے ہی نہیں۔ یہودی حضرت مسیح (علیہ السلام) کو دجال بھی کہتے تھے۔ کہ یہ لوگوں کو گمراہ کرتا ہے۔ ان کے عقیدے بگاڑتا ہے۔ مروجہ رسموں کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ اسی بنا پر وہ آپ کے دشمن بن گئے اور پھر آپ کے قتل کے درپے ہوئے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ قیامت کے قریب جب دجال ظاہر ہوگا۔ تو اس کو مسیح سمجھتے ہوئے اس کے پیچھے لگ جائیں گے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اصفہان کے ستر ہزار چغے پہنے ہوئے یہودی دجال کے پیچھے پیچھے جائیں گے۔ حضرت مسیح کے مناقب : آیت کے اگلے حصے میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی اس دشمنی کا پردہ چاک کیا ہے۔ اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بعض اوصاف بیان فرمائے ہیں کہ فرشوں نے جس مسیح عیسیٰ ابن مریم کی بشارت حضرت مریم کو دی وہ وجیھا فی الدنیا والاخرۃ دنیا اور آخرت میں وجاہت والا ہوگا۔ یعنی عزت اور مرتبے والا ہوگا۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہودیوں کی تمام تر دشمنی اور ہرزہ سرائی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو الزامات سے بری قرار دیا۔ اور ان ناپاک لوگوں کی ساش کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ جس کو اللہ تعالیٰ عزت کا اعلی مقام عطا کرے اسے کون ذلیل کرسکتا ہے۔ آپ تو دونوں جہانوں میں صاحب عزت ہیں۔ ان کی عزت کرنے والے کروڑوں اور اربوں لوگ موجود ہیں۔ عیسائیوں کا اگرچہ عقیدہ مشرکانہ ہے۔ مگر وہ آپ کی عزت تو کرتے ہیں۔ دنیا میں مسلمانوں کی آبادی ایک ارب کے لگ بھگ ہے یہ سب حضرت مسیح (علیہ السلام) کو سچا نبی تسلیم کرتے ہیں۔ جس کی دس آدمی عزت کرنے والے ہوں ، اس کا حوصلہ بلند ہوجاتا ہے۔ مگر یہاں تو اربوں کی تعداد میں مسیح (علیہ السلام) کو سچا رسول ماننے والے موجود ہیں۔ لہذا آپ عزت کے اعلی مقام پر فائز ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر بھی لوگوں نے طرح طرح کے الزام لگائے ان کی طرف غلط باتیں منسوب کیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں غلط الزامات سے بری قرار دیا۔ براہ اللہ مما قالوا۔ نیز یہ بھی فرمایا وکان عنداللہ وجیھا۔ وہ اللہ کے نزدیک بڑی عزت والے تھے۔ یہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق بھی وجیھا ، کا لفظ استعمال کیا ، کہ آپ بڑے عزت والے اور بڑے وقار والے تھے۔ یہودیوں کی الزام تراشیاں بکواس محض تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں آپ کو نبوت کے مقام پر سرفراز فرمایا۔ اور آخرت میں آپ اپنے صحیح ماننے والوں کی شفاعت کریں گے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا عزت اور وجاہت ہوسکتی ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) دنیا اور آخرت میں وجاہت والے ہوں گے۔ مقربین الہی : ومن المقربین ، عیسیٰ (علیہ السلام) تعالیٰ کے مقربین میں سے ہوں گے۔ انہیں خدا تعالیٰ کا تقرب حاصل ہوگا ، جو بہت بڑا مرتبہ ہے۔ ہر صاحب ایمان اپنے مالک کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ عبادت ریاضت ، قربانی ، صدقہ خیرات سب اسی واسطے سے ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو کر اپنا تقرب عطا کردے۔ تو اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو مقربین میں سے بنایا۔ بعض فرماتے ہیں کہ مقرب وہ ہے جو نہایت اونچے درجے کے کام کرتا ہو ، اور اس میں غایت درجے کا خلوص پایا جائے۔ از قربا قربانا ، میں یہی بات ہے۔ دو بھائیوں نے قربانی کی۔ جس قربانی میں زیادہ خلوص اور صلاحیت تھی ، اللہ نے اسے قبول کرلیا۔ اور جو برا تھا ، اس کی قربانی قبول نہ کی۔ شیخ ابو طالب مکی اپنی تصوف کی مشہور و معروف کتاب قوت القلوب میں فرماتے ہیں۔ مقرب وہ ہوتے ہیں جن کی نگاہ ازل کے فیصلے پر ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں۔ کہ پتہ نہیں ہمارا حساب کیا ہوگا۔ بزرگان دین کی نگاہ ازل کے اس فیصلے پر ہوتی ہے ، جب اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح کو دو مٹھیوں میں بند کرکے فرمایا تھا ھذہ للجنۃ ولا ابالی وھذہ للنار ولا ابالی یعنی اس مٹھی والے لوگ جنت میں جائیں گے اور مجھے کچھ پروا نہیں اور یہ لوگ دوزخی ہیں ، مجھے کچھ پروا نہیں۔ اللہ کے مقربین کو ہمیشہ یہ فکر لگی رہتی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ الایمان بین الخوف والرجی ، ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے جب کسی شخص کا آخری وقت آتا ہے موت کا فرشتہ اس کے قریب آجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کرتا ہے۔ کہ اے مولا کریم ! یہ شخص اہل ایمان میں سے ہے یا اہل نار میں سے مجھے حکم دے کہ میں اس کی روح کو ایمان کے ساتھ قبض کروں یا کفر کے ساتھ ، تو اللہ کے بندے اپنے آخری وقت کو یاد کرکے فکر مند رہتے ہیں کہ الہ العالمین ہمیں معلوم نہیں کہ ہمارا خاتمہ کیسے ہوگا۔ یا اللہ ! ہمیشہ اپنے مالک کی طرف لگی رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق بھی فرمایا کہ آپ مقربین میں سے ہوں گے۔ کم سنی میں کلام : حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بعض اوصاف بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کے بعض معجزات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ویکلم الناس فی المھد وکھلا آپ لوگوں سے کلام کریں گے گہو ارے میں (یا گود میں) اور ادھیڑ عمر میں۔ یہ بشارت تھی جو فرشتوں نے حضرت مریم کو دی۔ اور پھر جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش ہوئی۔ تو یہ بشارت حرف بحرف پوری ہوئی۔ سورة مریم میں موجود ہے۔ کہ پیدائش کے پہلے ہی دن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے باتیں کیں۔ جب حضرت مریم نومولد بچے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اٹھا کر قوم کے پاس آئیں تو قوم نے سخت غصے کا اظہار کیا۔ اور کہا ، اے ہارون کی بہن ! تیرے والدین تو ایسے نہیں تھے ، تو یہ بچہ کہاں سے لے آئی۔ تو حضرت مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا۔ لوگوں نے کہا ، گہوارے یا گود میں پڑا بچہ ہمارے ساتھ کیسے بات کرے گا۔ اس وقت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بول کر کہا ، انی عبداللہ ، میں اللہ کا بندہ ہوں۔ مجھے کتاب عطا کی گئی ہے اور نبی بنایا گیا ہوں۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے علاوہ بعض دیگر بچوں نے بھی کم سنی میں کلام کیا ہے۔ حضرت جریج ایک نیک آدمی تھے ان پر تہمت لگائی گئی کہ وہ زنا کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ایک فاحشہ عورت نے اپنے نومولود بچے کی نسبت ان کی طرف کی۔ لوگ آپ کو گھسیٹ کر عبادت خانے سے باہر لے آئے۔ آپ کو مارا پیٹا اور عبادت خانہ تباہ کردیا۔ اس اللہ کے بندے نے زندگی کی آخری نماز پڑھی۔ اور پھر اس بچے کے پیٹ پر انگلی رکھ کر کہا کہ خدا کے حکم سے بتاؤ، تمہارا باپ کون ہے۔ اللہ نے اس بچے کو قوت گویائی دی اور اس نے بول کر کہا کہ میرا باپ فلاں چرواہا ہے۔ یہ سن کر لوگ سخت پشیطان ہوئے کہ انہوں نے ایک نیک آدمی کو ناحق تکلیف دی ہے۔ کہنے لگے اگر چاہو تو تمہارا عبادت خانہ ، سونے اور چاندی سے تعمیر کردیں۔ حضرت جریج نے فرمایا۔ مجھے سونے چاندی کے محل کی جرورت نہیں۔ میرا جھونپڑا ویسا ہی مٹی سے بنا دو جیسے پہلے تھا۔ (بخاری مسلم) قرآن پاک میں موجود ہے ، وشھد شاھد من اھلھا ، جب زلیخا نے حضرت یوسف (علیہ السلام) پر تہمت لگائی ، تو ایک چھٹے بچے نے ہی آپ کی بریت کی گواہی دی تھی۔ فرعون کی بیٹی کو کنگھی کرنے والی عورت مومنہ تھی۔ اللہ تعالیٰ کی توحید اور موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت پر ایمان تھا۔ جب کنگھی اس کے ہاتھ سے نیچے گر پڑی تو اس نے بسم اللہ ، کہہ کر دوباری اٹھائی۔ اس پر فرون کی بیتی بگڑ گئی۔ فرعون کو پتہ چلا کہ یہ لوگ میرے علاوہ کسی اور خدا کو بھی مانتے ہیں۔ تو اس نے تانبے کا ایک بہت بڑا گھوڑا تیار کرایا۔ اور پھر اس کو گرم کرکے خاندان کے سب افراد کو اس کے پیٹ میں ڈال دیا۔ چھوٹے بچے کی ماں اپنے بچے کو جلتا ہوا دیکھ کر سخت پریشان ہوئی۔ مگر اس بچے کو اللہ نے قوت گویائی عطا فرمائی۔ اس نے بول کر کہا ، ماں ! گھبراؤ نہیں۔ جس چیز کو تم آگ سمجھ رہی ہو ، وہ تو باغ و بہار ہے۔ آؤ تم بھی اس اغ میں کود جاؤ تم حق پر ہو۔ قرا ان پاک میں اصحاب الاخدود کا واقعہ بھی اسی نوعیت کا ہے۔ یہ واقعہ حضور ﷺ کی بعثت سے ستر سال قبل پیش آیا ہے۔ یمن کے بادشاہ ذونواس نے اہل ایمان کی سرکوبی کے لیے بڑے بڑے گڑھے کھدوائے ان میں خوب آگ جلائی۔ اور پھر ہزاروں ایمان والوں کو اس آگ میں زندہ جلا دیا۔ مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے۔ کہ ایک ایماندار عورت لائی گئی جس کی گود میں بچہ بھی تھا۔ آگ کے شعلے دیکھ کر عورت کو تردد پیدا ہوا ، تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بچے کو قوت گویائی دی اور وہ کہنے لگا۔ امی اصبری ، انک علی الحق ، یعنی اے ماں ! صبر کرنا ، بلاشبہ تم حق پر ہو۔ بکاری شریف اور بعض دیگر احادیث مٰں ایک اور بچے کا واقعہ بھی آتا ہے۔ ایک عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی۔ پاس سے کچھ لوگ گزرے ، جو ایک عورت پر چوری اور بدکاری کا الزام لگا کر اسے پیٹتے جا رہے تھے مگر وہ زبان سے یہی کہہ رہی تھی۔ حسبی اللہ۔ دودھ پلانے والی عورت نے اس معتوب عورت کی حالت زار دیکھ کر اپنے بچے کے متعلق کہا ، خدا تجھے ایسا نہ بنائے۔ بچہ فوراً دودھ چھوڑ کر بولا اللھم اجعلنی مثلھا اے اللہ ! مجھے ایسا ہی بنا دے ، تھوڑی دیر بعد ایک بڑا مفرور اور سرکش آدمی گھوڑے پر سوار گزرا۔ ماں اس سوار کی شان و شوکت دیکھ کر کہنے لگی۔ اے اللہ ! میرے بچے کو بھی ایسا ہی بنا دے۔ بچہ دودھ چھوڑ پھر بولا ، یا اللہ ! مجھے ایسا نہ بنانا ، بہرحال تاریخ میں بعض دیگر بچوں کے حالات بھی ملتے ہیں جنہوں نے کم سنی میں اسی طرح کلام کیا ، جس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے پیدائش کے پہلے دن کلام کرکے اپنی ماں کی بریت کی۔ حکیمانہ کلام : بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بچپن اور کہولت میں کلام کرنے سے مراد حکیمانہ کلام ہے۔ عمر کے دونوں حصوں میں آپ کا کلام حکمت سے لبریز ہوگا۔ چناچہ بعض آثار میں آتا ہے۔ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) بارہ سال کی عمر مٰں تبلیغ کرتے تھے۔ اور ایسی حکیمانہ باتیں کرتے تھے ، کہ بڑے بڑے فلاسفر اور دانا حیران رہ جاتے تھے۔ تفسیر بیضاوی اور تفسیر روح المعانی میں حضرت سعید ابن مسیب اور حضرت زید بن اسلم تابعین میں سے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) کو 33 سال کی عمر میں آسمان پر اٹھایا گیا۔ آپ دوسرے آسمان پر ہیں۔ معراج والی حدیث میں موجود ہے۔ کہ دوسرے آسمان پر حضور ﷺ کی ملاقات حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) سے ہوئی۔ اور دوسری طرف یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ کہ سن کہولت چالیس سال کے بعد ہوتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) چالیس سال تک تو دنیا میں ٹھہرے ہی نہیں پھر کہولت میں کلام کرنے سے کیا مراد ہے۔ اسی لیے مفسرین کرام فرماتے ہیں۔ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا بچپن میں کلام کرنا تو مکمل ہوگیا مگر آپ کا کہولت یعنی ادھیڑ عمر میں کلام کرنا ابھی باقی ہے۔ اس کی تکمیل اس وقت ہوگی جب قرب قیامت میں آپ دوبارہ زمین پر آئیں گے ، تو اس عمر میں بھی حکیمانہ کلام کریں گے۔ ایک سو سے زیادہ احادیث موجود ہیں جن میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دوبارہ آنے کا ذکر ہے۔ بخاری ، مسلم اور دیگر کتب میں یہ بھی ہے ۔ کہ جب دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے ، تو حکومت کریں گے۔ دنیا میں عدل و انصاف قائم کریں گے۔ چالیس سال یا کم و بیش کا عرصہ دنیا میں ٹھہریں گے۔ بعض روایات میں سات سال کا ذکر بھی ہے۔ اس عرصے میں آپ نکاح کریں گے ، اولاد ہوگی۔ اور پھر طبعی وفات بھی ہوگی۔ حضور ﷺ نے فرمایا میرے ساتھ ہی دفن ہوں گے ترمذی شریف میں یہ حدیث موجود ہے جو درجہ حسن کی ہے۔ صالح عیسیٰ (علیہ السلام) : اللہ تعالیی نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعض معجزات کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا ومن الصلحین ، یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) صالحین میں سے ہوں گے۔ صالح کا معنی نیکو کار ہے۔ میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ صالح اس شخص کو کہتے ہیں جو نیکی کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرتا ہو۔ اور کسی کا حق ضائع نہ کرتا ہو۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود تھی۔ آپ اللہ کے اولو العزم پیغمبر اور صاحب کتاب رسول ہیں۔ لہذا فرشتوں نے حضرت مریم کو بشارت دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ جس کلمۃ اللہ کی بشارت دی جا رہی ہے۔ وہ نیکو کاروں میں سے ہوگا گذشتہ آیت کے آخر میں ذکر تھا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) مقربین میں سے ہوں گے اس آیت کے آخر میں فرمایا کہ وہ صالحین میں سے ہوں گے۔ حضرت مریم ؓ کی پریشانی : جب حضرت مریم نے فرشتوں کی زبان سے بیٹے کی پیدائش کی بشارت سنی تو بہ مقتضائے بشریت گھبرا گئیں۔ بات ہی ایسی تھی۔ وہ ایک عابدہ و زاہدہ دوشیزہ لڑکی ہے ، نکاح ہوا نہیں ، تو بچہ کیسے پیدا ہوگا۔ کیا نکاح ہوگا۔ اگر نہیں ہوگا۔ تو بچہ کیسے۔ حضرت مریم کو طرح طرح کے خیالات آنے لگے۔ آخر پریشان ہو کر کہنے لگیں۔ قالت رب انی یکون لی ولد۔ اے پروردگار ! میرے ہاں بچہ کیسے ولم یمسسنی بشر۔ مجھے تو کسی آدمی نے ہاتھ نہیں لگایا۔ عادت اللہ تو یہ ہے کہ مرد و زن کے ملاپ سے بچہ پیدا ہوتا ہے مگر نہ تو میرا نکاح ہوا ہے۔ نہ کسی ناجائز طریقے سے مرد کی قربت حاصل ہوئی ہے۔ تو بچہ کیسے پیدا ہوگا۔ فرشتوں نے جواب دیا۔ قال کذلک اللہ یخلق ما یشاٗ ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے ، جو دچا ہے۔ اس سے پہلے جب یحییٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے متعلق بشارت کا ذکر آیا تھا۔ تو وہ وہاں فرمایا تھا۔ کذلک اللہ یفعل ما یشاٗ یعنی اللہ تعالیٰ اسی طرح کرتا جس طرح چاہے۔ مگر یہاں پر یفعل کی بجائے یخلق کا لفظ استعمال کیا ہے۔ فرق یہ ہے کہ وہاں پر بوڑھے میاں بیوی سے بچہ پیدا کرنا مقصود تھا۔ جو کہ عام عادت کے خلاف ہے۔ مگر ممکن ہے۔ پچھلے دنوں اخبارات میں آیا کہ ہندوستان کے کسی علاقے میں سو سال کی عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوا اگرچہ یہ عام طور پر دشوار ہے مگر ناممکن نہیں۔ کیونکہ میاں بیوی دونوں موجود ہیں اگرچہ بوڑھے ہوچکے ہیں۔ مگر عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت میں یخلق کا لفظ اس لیے استعمال کیا۔ کہ یہاں پر باپ بھی موجود نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے بچہ پیدا ہوا۔ آگے آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کا ذکر بھی آرہا ہے۔ وہاں نہ ماں ہے اور نہ باپ ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے کلمہ کن کے ساتھ آدم (علیہ السلام) کی تخلیق فرما دی۔ اذا قضی امرا فانما یقول لہ کن فیکون۔ جب وہ کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو کہتا ہے ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی کام کے کرنے کے لیے اسباب کی ضرورت نہیں ہوتی ، بلکہ اس کا حکم ہی کافی ہوتا ہے۔ مسیح (علیہ السلام) بحیثیت معلم : فرمایا جس مسیح (علیہ السلام) کی بشارت دی جا رہی ہے۔ اس کی ایک صفت یہ بھی ہوگی۔ و یعلمہ الکتب والحکمۃ ، اور اللہ تعالیٰ اسے یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب اور حکمت سکھائیگا۔ عام مفسرین کرام کتاب سے مراد لکھنا لیتے ہیں اور حکمت سے دانائی۔ مگر بہت سے دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ کتاب سے مراد قرآن اور حکمت سے مراد سنت ہے۔ مسلم شریف میں امام ابن ابی ذئب کی روایت میں ہے کہ جب مسیح (علیہ السلام) دنیا میں دوبارہ نازل ہوں گے۔ تو وہ کتاب و سنت کے مطابق فیصلے کریں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو قرآن و سنت کا علم بھی بلا واسطہ دیں گے۔ آپ کسی استاذ سے تفسیر پڑھیں گے اور نہ سنت سیکھیں گے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ یہ چیزیں خود سکھائیگا۔ والتوراۃ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو تورات کا علم بھی دیا۔ تورات کا معنی قانون ہے اور یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی۔ فرعون کی غلامی سے نجات پانے کے بعد آپ کی امت نے درخواست کی ، کہ ہم غلامی کے قانون سے آزاد ہوچکے ہیں۔ اس لیے اب ہمارا اپنا قانون ہونا چاہئے ، تو اس فرمائش کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے تورات نازل فرمائی۔ والانجیل ، اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو انجیل کا علم بھی دیا گیا۔ انجیل کا لفظی معنی بشارت ہے۔ اور یہ کتاب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل فرمائی اور آپ کو اس بات کا پابند بنایا کہ تم جہاں بھی جاؤ لوگوں کو خوشخبری سناؤ مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد ( سورة صف) یعنی میں تم کو خوشخبری سنانے والا ہوں کہ میرے بعد ایک رسول آئے گا جس کا نام احمد ہوگا۔ سریانی زبان میں یہ نام فارقلیط ہے جو کہ اب عیسائیوں نے انجیل سے حذف کردیا ہے۔ ان دونوں الفاظ کا معنی ایک ہی ہے یعنی ستودہ جہاں تعریف والا نبی۔ وہ آنیوالا ہے اور اس کی شریعت ابد تک رائج رہیگی۔ اس کے بعد کوئی نیاقانون اور شریعت نہیں آئیگی۔ اس لیے اس کا نام ہی انجیل رکھا۔ اس میں اخلاق ، حکمت اور نصیحت کی باتیں ہیں۔
Top