Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 49
وَ رَسُوْلًا اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ١ۙ۬ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ١ۙ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْئَةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ۚ وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ١ۚ وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَ١ۙ فِیْ بُیُوْتِكُمْ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ
وَرَسُوْلًا : اور ایک رسول اِلٰى : طرف بَنِىْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل اَنِّىْ : کہ میں قَدْ جِئْتُكُمْ : آیا ہوں تمہاری طرف بِاٰيَةٍ : ایک نشانی کے ساتھ مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب اَنِّىْٓ : کہ میں اَخْلُقُ : بناتا ہوں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنَ : سے الطِّيْنِ : گارا كَهَيْئَةِ : مانند۔ شکل الطَّيْرِ : پرندہ فَاَنْفُخُ : پھر پھونک مارتا ہوں فِيْهِ : اس میں فَيَكُوْنُ : تو وہ ہوجاتا ہے طَيْرًا : پرندہ بِاِذْنِ : حکم سے اللّٰهِ : اللہ وَاُبْرِئُ : اور میں اچھا کرتا ہوں الْاَكْمَهَ : مادر زاد اندھا وَالْاَبْرَصَ : اور کوڑھی وَاُحْىِ : اور میں زندہ کرتا ہوں الْمَوْتٰى : مردے بِاِذْنِ : حکم سے اللّٰهِ : اللہ وَاُنَبِّئُكُمْ : اور تمہیں بتاتا ہوں بِمَا : جو تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو وَمَا : اور جو تَدَّخِرُوْنَ : تم ذخیرہ کرتے ہو فِيْ : میں بُيُوْتِكُمْ : گھروں اپنے اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيَةً : ایک نشانی لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور اللہ تعالیٰ اس کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گا (اور وہ ان سے کہے گا) بیشک میں لایا ہوں تمہارے پاس نشانی تمہارے رب کی طرف سے۔ (اور وہ یہ ہے) کہ میں بناتا ہوں تمہارے سامنے گارے سے پرندے کی شکل کی طرح۔ پس میں پھونک مارتا ہوں اس میں ، پس وہ ہوتا ہے اڑنے والا ، اللہ کے حکم سے۔ اور میں اچھا کردیتا ہوں مادر زاد اندھے کو اور برص والے کو۔ اور میں زندہ کرتا ہوں مردوں کو اللہ کے حکم سے اور میں بتلاتا ہوں تم کو جو تم کھاتے ہو اور جو تم ذخیرہ بنا کر رکھتے ہو ، اپنے گھروں میں بیشک البتہ اس میں نشانی ہے تمہارے لیے ، اگر تم ایماندار ہو۔
ربط آیات : گذشتہ درس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے متعلق بشارت کا ذکر تھا۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے فرشتوں نے حضرت مریم کو خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ جو کلمہ تجھ کو عطا کرے گا۔ اس کا نام مسیح ابن مریم ہوگا۔ بڑی عزت والا اور دنیا و آخرت میں مقربین میں سے ہوگا۔ نیز یہ کہ وہ گود میں اور ادھیڑ عمر میں کلام کرے گا۔ اور نیکو کاروں میں سے ہوگا۔ حضرت مریم نے تعجب کا اظہار کیا۔ کہ اس کے ہاں بچہ کیسے ہوگا جب کہ نہ اس نے نکاح کیا ہے۔ اور نہ وہ کسی لغزش کا شکار ہوئی ہے۔ بلکہ کسی مرد نے اس کو چھوا تک نہیں تو اللہ کی جانب سے ارشاد ہوا۔ کہ اس کے لیے بغیر باپ کے بچہ عطا کردینا کچھ مشکل نہیں۔ وہ جو چاہے کرپاتا ہے۔ صرف اس کے حکم کی ضرورت ہوتی ہے کام ہوجاتا ہے۔ اس کے حکم کی تعمیل کے لیے اسباب و علل کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ پھر یہ بھی فرمایا۔ کہ اس پیدا ہونے والے بچے کو اللہ تعالیٰ براہ راست کتاب و حکمت کی تعلیم دیگا۔ اور اسے تورات اور انجیل بھی سکھائیگا۔ رسول بنی اسرائیل : اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ جس کلمۃ اللہ کی بشارت دی گئی ہے اس کی حیثیت یہ ہوگی ورسولا الی بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ اسے بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گا۔ نبوت اور رسالت اللہ تعالیٰ کے اعلی ترین مناصب ہیں جسے عطا ہوجائیں۔ یہ منصب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حصے میں بھی رکھ دیا کہ وہ رسول ہوں گے۔ مگر بنی اسرائیل کی طرف۔ آپ کی نبوت و رسالت تمام اقوام عالم کے لیے نہیں بلکہ صرف قوم بنی اسرائیل کے لیے ہے۔ یہ تو انجیل میں بھی موجود ہے کہ ایک عورت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئی۔ اور عرض کیا ، حضرت میں آپ سے فیض حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ آپ نے دریافت کیا ، تو کس قبیلہ سے تعلق رکھتی ہے عرض کیا کنعان قبیلہ سے متعلق ہوں۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے اس عورت کی راہنمائی کرنے سے انکار کردیا اور فرمایا ، میں تو بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ اس عورت نے بڑا اصرار کیا مگر آپ نے اس کی بات نہ مانی۔ جب وہ عورت چلی گئی تو آپ کے شاگردوں نے عرض کیا کہ آپ نے اس عورت کو کیسے محروم رکھا ، فرمایا ، میں تو بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ اس کے علاوہ یہ بھی آتا ہے کہ آپ نے فرمایا ، کیا میں انسانوں کی غذا کتوں کے آگے ڈال دوں ، انجیل میں موجود ہے کہ اس عورت نے پھر عرض کیا کہ کتے بھی اللہ کی مخلوق ہیں اور انہیں بھی فیاض لوگوں کی میز سے گرے ہوئے ٹکڑے مل جاتے ہیں ۔ تو آپ نے فرمایا۔ اے عورت ! تیرا ایمان بڑا مضبوط ہے۔ الغرض عیسیٰ (علیہ السلام) نے صاف کہہ دیا کہ میں صرف بنی اسرائیل کی اصلاح کیلیے مبعوث ہوا ہوں۔ اسی لیے آجکل کے عیسائیوں کی دعوت عامہ غلط ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) صرف بنی اسرائیل کے رسول ہیں۔ البتہ حضور خاتم النبیین ﷺ کی نبوت اور رسالت تمام اقوام عالم کے لیے ہے۔ قرآن پاک میں موجود ہے۔ وما ارسلناک الا کافۃ للناس بشیرا ونذیرا۔ ہم نے آپ کو تمام بنی نوع انسان کیلے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ سورة اعراف میں اللہ تعالیٰ نے خود حضور ﷺ کی زبان سے کہلوایا۔ قل یا ایہا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔ آپ کہہ دیں کہ اے دنیا جہان کے لوگو ! میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ آپ نے خود بھی فرمایا بعثت الی الاسود والاحمر۔ اللہ نے مجھے ہر سیاہ و سرخ کیطرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔ غرضیکہ آپ (علیہ السلام) کی نبوت عامہ ہے اور تمام بنی نوع انسان کے علاوہ جن وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔ حضور ﷺ سے قبل آپ کے جد امجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی تمام اقوام کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے۔ اس کی تصریح قرآن پاک میں موجود ہے۔ انی جاعلک للناس اما۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ میں تمہیں ساری دنیا کا امام بنانے والا ہوں۔ معجزات انبیاٗ : فرمایا جس عظیم المرتبت رسول کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ وہ آکر کہے گا۔ انی قد جئتکم بایۃ من ربکم۔ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں۔ نشانی سے مراد وہ معجزات ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور دیگر انبیاٗ کو عطا کئے۔ حدیث شریف میں آتا ہے۔ کوئی نبی ایسا نہیں ہوا ، جس کو اللہ تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی نشانی نہ عطا کی ہو۔ معجزے عام بھی ہوتے ہیں اور خاص بھی۔ مادی بھی اور روحانی بھی۔ حضور ﷺ نے فرمایا ، اللہ نے جو خاص معجزہ مجھے عطا فرمایا ہے۔ وہ قرآن کریم ہے۔ اس لیے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میرے ماننے والے سب سے زیادہ ہوں گے۔ میرا یہ معجزہ دائمی ہے۔ اور ہمیشہ لوگوں کے درمیان موجود رہے گا۔ لوگ اس کو پڑھیں گے ، اس پر ایمان لائیں گے۔ ہدایت اختیار کریں گے۔ تو حضور ﷺ کے پیروکاروں میں شمار ہوں گے ، یہ آپ کا زندہ معجزہ ہے۔ باقی معجزات وقتی نوعیت کے تھے ، جو اپنے اپنے وقت تک ہی قائم رہے۔ مصنوعی پرندہ : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے معجزات لوگوں کے سامنے پیش کیے۔ سب سے پہلے معجزے کے متعلق فرمایا۔ انی اخلق لکم من الطین کھیئۃ الطیر فانفخ فیہ۔ میں تمہارے سامنے مٹی سے ایک پرندے کی شکل بناتا ہوں۔ پھر اس میں پھونک مارتا ہوں۔ فیکون طیرا باذن اللہ۔ پس وہ اللہ کے حکم سے اڑنے لگتا ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا یہ خاص معجزہ تھا۔ آپ مٹی کا پرندہ بناتے اس میں پھونک مارتے تو وہ پھر سے اڑجاتا۔ اب ہماری شریعت میں کسی جاندار کی تصویر یا مجسمہ بنانا جائز نہیں ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا لعن اللہ المصورین۔ تصویر کشی کرنے والوں پر خدا کی لعنت ہے۔ وہ اس کی رحمت سے دور ہیں۔ حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا ، جس گھر میں تصویر اور کتا ہو ، وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ بہرحال عیسیٰ (علیہ السلام) نے تصویر سازی معجزہ کے طور پر کی۔ شفائے بیماراں : فرمایا میرا دوسرا معجزہ یہ ہے۔ وابرئ الاکمہ والابرص۔ میں مادر زاد اندھوں اور برص یا کوڑھ کے مریضوں کو اچھا کرتا ہوں برص پھلبہری یا جذام پر بولا جاتا ہے۔ یہ لاعلاج بیماریاں ہیں۔ یونانیوں کے زمانے سے لے کر آجتک حکماٗ نے ان بیماریوں پر قابو پانے کی بڑی کوشش کی ہے مگر پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکتے۔ جذام ایسی خطرناک بیماری ہے کہ اس کے مریض کے ہاتھ پاؤں کی انگلیاں اور ناک وگیرہ گل جاتے ہیں اور پھلبہری کے داگ بھی جب پیدا ہوجائیں تو رفع نہیں ہوتے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بطور معجزہ ان مہلک بیماریوں کا علاج کرتے تھے۔ اس زمانے میں طبابت کا بڑا چرچا تھا۔ بقراط اور جالینوس جیسے بڑے بڑے حکیم اسی زمانہ کے قریب گزرے ہیں۔ ایک سے ایک بڑا طبیب تھا۔ مگر مذکورہ بیماریاں لاعلاج تھیں۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے علاج کا دعویٰ کیا۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں میڈیکل سائنس نے بہت زیادہ ترقی کی ہے۔ خاص طور پر سرجری میں بڑی مہارت حاسل کی ہے۔ مگر پھر بھی لاتعداد کیس ایسے ہیں کہ بیماری کی سمجھ ہی نہیں آتی ، علاج تو بعد کی بات ہے۔ بہرحال یہ بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ تھا کہ لاعلاج بیماریوں کا علاج کرتے تھے۔ در اصل معجزہ کا مطلب ہی عاجز کردینے والی نشانی ہے۔ یعنی ایسی چیز جس کا عام لوگ جواب پیش کرنے سے عاجز آجائیں۔ خود قرآن پاک نے اپنے آپ کو بطور معجزہ پیش کرتے ہوئے چیلنج کیا۔ ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتوا بسورۃ من مثلہ۔ اگر تمہیں قرٓن پاک کے کلام الہی ہونے میں کوئی شک ہے۔ تو اس جیسی ایک سورة ہی بنا کر لاؤ۔ مگر فصاحت و بلاغت کا کوئی ماہر اس چیلنج کو قبول نہ کرسکا۔ بلکہ سب عاجز آگئے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں طبابت کا بڑا چرچا تھا۔ مگر مذکورہ بیماریوں کے سامنے سب عاجز تھے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ سے زندگی سے مایوس مریضوں کو شفا ملنے لگی۔ احیائے موتیٰ : اس سے بھی بڑھ کر آپ نے تیسرے معجزے کا اعلان کیا۔ واحی الموتی باذن اللہ۔ میں مردوں کو زندہ کرتا ہوں ، اللہ کے حکم سے۔ مفسرین کرام نے چار ایسے مردوں کا ذکر کیا ہے جنہیں عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے زندہ کیا۔ پہلا واقعہ آپ کے عاذر نامی دوست کا تھا۔ جس کا گھر آپ سے کئی دن کی مسافت پر تھا ، وہ سخت بیمار ہوا ، تو اس کی بہن نے آکر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے اس کی حالت زار بیان کی۔ آپ دو تین دن کا سفر طے کرکے اس کے گاؤں پہنچے ، تو دوست فوت ہوچکا تھا ، اور اسے دفن کیا جا چکا تھا۔ آپ نے اس کی قبر پر جا کر کہا۔ قم باذن اللہ۔ اللہ کے حکم سے کھرے ہوجاؤ۔ تو وہ مردہ زندہ ہوگیا۔ احیائے موتی کا دوسرا واقعہ ایک عورت کا بیٹا تھا۔ اس عورت نے آپ کی بری منت سماجت کی۔ تو آپ نے اس کو زندہ کردیا۔ اسی طرح ایک چنگی والے کی مردہ بیٹی کو زندہ کیا۔ چوتھا واقعہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے سام کا ہے۔ آپ نے اس کی قبر پر جا کر کہا۔ قم باذن اللہ۔ تو وہ گھبرائے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گئے۔ ان کا آدھا سر سفید ہوچکا تھا۔ کہنے لگے ، کیا قیامت برپا ہوگئی ہے۔ آپ نے نفی میں جواب دیا۔ اس زمانے میں لوگوں کے بال سفید نہیں ہوتے تھے۔ یہ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے سفید ہونا شروع ہوئے۔ گویا دنیا بحیثیت مجموعی اس وقت تک جوان تھی۔ پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے سے بڑھاپا آنا شروع ہوا۔ تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے سام سے پوچھا تمہارے بال کیسے سفید ہوگئے۔ تو انہوں نے کہا ، برزخ میں دہشت کی وجہ سے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے پوچھا ، کیا دوبارہ اسی حالت میں جانا پسند کرتے ہو ، انہوں نے کہا ، ہاں ، بشرطیکہ مجھ پر سکرات موت کی تلخی دوبارہ وارد نہ ہو۔ چناچہ وہ دوبارہ اسی حالت پر چلے گئے۔ باقی تین مردوں کے متعلق مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ انہوں نے کافی عرصہ دوبارہ زندگی گزار دی ، بلکہ بعض کے ہاں اولاد بھی پیدا ہوئی۔ وہ پھر اپنے اپنے وقت میں ختم ہوگئے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے احیائے موتی کا معجزہ بھی مسیح (علیہ السلام) کو عطا فرمایا۔ خوراک کی خبر : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس معجزے کا بھی تذکرہ کیا وانبئکم بما تاکلون میں تم کو بتلاتا ہوں جو کچھ تم گھر سے کھا کر آتے ہو۔ وما تدخرون فی بیوتکم اور جو کچھ تم گھر میں ذخیرہ کرکے رکھتے ہو۔ کسی مجلس میں لوگ بیٹھے ہوتے تو عیسیٰ (علیہ السلام) بتا دیتے کہ فلاں شخص اپنے گھر سے یہ چیز کھا کر آیا اور فلاں چیز اس کے گھر میں باقی رکھی ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ نے معجزہ عطا کیا تھا ، اس کے علاوہ باقی چیزوں کی آپ خبر نہیں دییتے تھے۔ فرمایا ان فی ذلک لایۃ لکم ان کنتم مومنین۔ اس میں تمہارے لیے نشانیاں ہیں اگر تم یقین رکھتے ہو ، یقین دہانی کے لیے اس قسم کے الفاظ قران پاک میں متعدد بار آئے ہیں کسی نبی کے ہاتھ پر کوئی خارق عادت فعل سرزد ہو تو معجزہ کہلاتا ہے۔ اور کسی ولی کے ہاتھ پر ہو تو کرامت کہلاتی ہے۔ تاہم یہ سب کچھ باذن اللہ یعنی اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔ کسی انسان ، نبی ، ولی کا اپنا اختیار نہیں ہوتا۔ معجزات کا انکار : موجودہ زمانے کے بعض منکرین معجزات نے ایسی آیات کی عجیب و غریب تاویلیں کی ہیں۔ انہوں نے اس آیت میں مذکورہ پرندوں سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری لیے ہیں ، جنہیں آپ نے تیزی سے جانے کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے مادر زاد اندھوں سے جاہل لوگ مراد لیے ہیں۔ اسی طرح وہ کوڑھی سے گندے اور غلیظ لوگ مراد لیتے ہیں۔ پرویز جیسے منکرین نے کمال الٹے معنی لیے ہیں۔ حالانکہ قرآن پاک میں معجزات کا صریح تزکرہ موجود ہے مثلاً پتھروں سے پانی نکلنا ، اور اونٹنی کا چٹان سے پیدا ہونا ، عصا ، ید بیضا وغیرہ۔ اس کے علاوہ حضرت داود اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کے کئی ایک معجزات کا ذکر صریح الفاظ میں موجود ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے جلائی جانے والی آگ کا معجزہ بڑا واضح ہے۔ یہ تمام معجزات اہل ایمان کے ایمان کا حصہ ہیں اور ان سے انکار کی مجال نہیں۔ مگر کتنے ہی دہریے ، نیچری ، قادیانی ، لاہوری ، سرسید احمد خاں اور پرویز وغیرہم گمراہ لوگ ہیں۔ جو صریح معجزات کی بیہودہ تاویلیں کرتے ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر ہی یقین نہیں کہ وہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ ان منکرین نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بغیر باپ کے پیدائش کا بھی انکار کردیا ہے۔ یہ کفر کی باتیں ہیں۔ مومن کی شان یہ ہے۔ آمنا وصدقنا کہے ۔ اگر کوئی چیز انسانی شعور میں نہ بھی آئے ، تو اس پر ایمان لانا چاہئے۔ انکار نہیں کرنا چاہئے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی فرماتے ہیں کہ ہم ہر چیز کو عقل سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ اعلی دماغ والے لوگ معجزات کی حقیقت سے آگاہ ہوسکتے ہیں مگر عام لوگوں کے سامنے ایسی چیزوں کا اظہار مناسب نہیں ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ فرمایا ومصدقا لما بین یدی من التوراۃ میں اپنے سے پہلے نازل ہونے والی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں۔ ہر نبی اپنے سے پہلی کتاب کی تصدیق کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ جس نبی سے چاہیں کسی پہلے نازل شدہ حکم کو منسوخ کرا دیں۔ اللہ تعالیٰ جس نبی سے چاہیں کسی پہلے نازل شدہ حکم کو منسوخ کرا دیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح (علیہ السلام) سے کہلوایا کہ میں تورات کا مصدق ہوں ، اس کا منحرف نہیں ہوں۔ فرمایا مجھے یہ فرض بھی سونپا گیا ہے۔ ولاحل لکم بعض الذی حرم علیکم۔ تاکہ میں تمہارے لیے بعض وہ چیزیں حلال کردوں جو تم پر حرام کردی گئی تھیں۔ مثال کے طور پر بنی اسرائیل پر مچھلی ، چربی اور بعض دوسری چیزیں حرام تھیں۔ ان اشیاٗ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعے حلال قرار دیا۔ یہ بات قابل وضاحت ہے کہ حلت و حرمت کی نسبت جب نبی کی طرف ہوتی ہے۔ تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ نبی حلت و حرمت کو ظاہر کرنے والا ہوتا ہے۔ وگرنہ کسی چیز کی حلت و حرمت اللہ تعالیٰ کی صفاتِ خاصہ میں سے ہے۔ نبی اپنی مرضی سے کسی چیز کو حلال یا حرام قرار نہیں دیتا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے پاس اس بات کا قطعی علم آگیا ہے کہ فلاں چیز حلال ہے یا حرام ہے۔ عیسائیوں نے اسی مقام پر غلطی کی۔ جب یہ منصب انہوں نے اپنے پادریوں کو سونپ دیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے شرک قرار دیا۔ اربابا من دون اللہ ، یہی تو ہے کہ حلال و حرام کے اختیار ات اپنے پیر پادری یا مولویوں کے سپرد کردیے جائیں۔ تو نبی کا حلال و حرام ٹھہرانا در اصل اللہ کے احکام کا اعلان ہوتا ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا وجئتکم بایۃ من ربکم۔ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح نشانیاں لے کر آیا ہوں۔ اس لیے میں تمہیں تعلیم دیتا ہوں۔ فاتقوا اللہ۔ اللہ سے ڈر جاؤ۔ واطیعون۔ اور میری بات مانو ، کیونکہ میں خدا کا رسول ہوں۔ اور اسی کا حکم تم کو سناتا ہوں۔ اگلی آیت میں تمام اقوام اور ادیان کا بنیادی عقیدہ بیان کیا گیا ہے۔
Top