Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 61
فَمَنْ حَآجَّكَ فِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ١۫ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ
فَمَنْ
: سو جو
حَآجَّكَ
: آپ سے جھگڑے
فِيْهِ
: اس میں
مِنْ بَعْدِ
: بعد
مَا
: جب
جَآءَكَ
: آگیا
مِنَ
: سے
الْعِلْمِ
: علم
فَقُلْ
: تو کہ دیں
تَعَالَوْا
: تم آؤ
نَدْعُ
: ہم بلائیں
اَبْنَآءَنَا
: اپنے بیٹے
وَاَبْنَآءَكُمْ
: اور تمہارے بیٹے
وَنِسَآءَنَا
: اور اپنی عورتیں
وَنِسَآءَكُمْ
: اور تمہاری عورتیں
وَاَنْفُسَنَا
: اور ہم خود
وَاَنْفُسَكُمْ
: اور تم خود
ثُمَّ
: پھر
نَبْتَهِلْ
: ہم التجا کریں
فَنَجْعَلْ
: پھر کریں (ڈالیں)
لَّعْنَتَ
: لعنت
اللّٰهِ
: اللہ
عَلَي
: پر
الْكٰذِبِيْنَ
: جھوٹے
پس جو شخص اس بارے میں آپ سے جھگڑا کرے بعد اس کے کہ آپ کے پاس علم آ چکا ہے۔ پس کہہ دیجئے ، آؤ، بلائیں ہم اپنی اولادوں کو ، تم اپنی اولادوں کو ، ہم اپنی عورتوں کو ، تم اپنی عورتوں کو۔ ہم اپنی جانوں کو ، تم اپنی جانوں کو۔ پھر ہم التجا کریں اور گڑ گڑائیں۔ پھر ہم سب اللہ کی لعنت کریں ان لوگوں پر جو جھوٹے ہیں۔
گذشتہ دروس میں یہ بیان ہوچکا ہے کہ مسیح (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں۔ وہ نہ تو خدا کے بیٹے ہیں اور نہ خود خدا ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فضیلت عطا فرمائی ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ بات ایک واضح مثال کے ذریعے سمجھائی۔ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا بغیر باپ کے پیدا ہونا ناممکنات میں سے نہیں ہے۔ آپ کی مثال حضرت آدم (علیہ السلام) کی مثال جیسی ہے۔ جسے اللہ نے بغیر ماں اور باپ کے پیدا فرمایا۔ اگر آدم (علیہ السلام) الوہیت کے درجے کو نہیں پہنچے ، تو عیسیٰ (علیہ السلام) الہ کیسے بن گئے۔ نجران کے عیسائی وفد کا تذکرہ ابتدائے سورة ہی سے ہورہا ہے۔ جب حضور ﷺ کے ساتھ عیسائیوں کی بحث نے طول پکڑا ، اور جھگڑا بڑھ گیا ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر وفد نجران کو مباہلہ کی دعوت دی۔ ارشاد فرمایا ۔ فمن حاجک فیہ من بعد ماجاءک من العلم۔ پس جو شخص اس معاملہ میں آپ سے جھگڑا کرے ، بعد اس کے کہ آپ کے پاس علم آ چکا ہے فقل تعالوا پس آپ ان سے کہیں آؤ، ندع ابناء نا وابناء کم۔ ہم اپنی اولادوں کو بلاتے ہیں ، تم اپنی اولادوں کو بلاؤ۔ ونساءنا ونساء کم۔ ہم اپنی عورتوں کو بلاتے ہیں ، تم اپنی عورتوں کو بلاؤ۔ وانفسنا و انفسکم۔ ہم خود بھی آتے ہیں تم بھی خود ا اؤ۔ ثم نبتھل ، پھر ہم سب گڑگڑائیں اور التجا کریں۔ فنجعل لعنت اللہ علی الکذبین۔ پھر جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مباہلہ کرنے کا ایک طریقہ بتایا ہے۔ کہ اگر واضح دلائل دینے کے باوجود یہ لوگ حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ تو پھر آپ انہیں چیلنج کریں کہ آؤ تم خود بھی آجاؤ اور اپنے گھر والوں کو بھی میدان میں لے آؤ۔ پھر ہم سب مل کر اللہ کے سامنے نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ دعا کریں۔ کہ مولا کریم ! جو فریق جھوٹا ہے۔ اس پر تیری لعنت ہو۔ ایسا گروہ تیرے عذاب میں گرفتار ہو۔ جب حضور ﷺ نے نصاری کو یہ دعوت دی۔ تو کہنے لگے ، ہم آپس میں مشورہ کرنے کے بعد جواب دیں گے۔ اس واقعہ کی تفصیل امام بیضاوی یوں بیان فرماتے ہیں لما دعوا الی المباھلۃ قالوا ننظر۔ جب انہیں مباہلہ کی دعوت دی گئی تو کہنے لگے ، ہم باہمی مشورہ کرتے ہیں۔ فلما تخالوا ، جب وہ علیحدگی میں ملے۔ تو ان میں سے جو زیادہ سمجھدار اور صاحب رائے تھا وہ کہنے لگا واللہ لقد عرفتم نبوتہ خدا کی قسم تم اس شخص کی نبوت کو پہچان چکے ہو۔ ولقد جاء کم بلفصل فی امر صاحبکم اور تمہارے صاحب یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق اس نے فیصلہ کن بات کی ہے۔ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ وہ الہ ہرگز نہیں ہیں۔ اور میں کہتا ہوں ، واللہ ما باھل قوم نبیا الا ھلکو ، خدا کی قسم جس قوم نے بھی کسی نبی سے مباہلہ کیا ، وہ قوم ہلاک ہوگئی۔ فان ابیتم الا الف دینکم ، اور اگر تم اس رسول برحق کا انکار کرتے ہو۔ اور اپنے ہی دین پر قائم رہنا چاہتے ہو۔ فوادع الرجل ، تو اس شخص کے ساتھ موادعت کرلو ، مصالحت کرلو ، اور یہاں سے واپس چلے جاؤ۔ مباہلہ سے فرار : چنانچہ وہ لوگ مشورہ کے لیے باہر چلے گئے۔ حضور ﷺ خود بھی گھر تشریف لے گئے۔ اور پھر اس حالت میں باہر آئے کہ حضرت حسین آپ کی گود میں تھے۔ واخذ بید الحسن اور آپ نے حضرت حسن ؓ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ حضرت فاطمہ آپ کے پیچھے پیچھے آ رہی تھیں۔ اور حضرت علی ان کے پیچھے تھے۔ آپ ان سے فرما رہے تھے ، اذا ان دعوت فامنوا ، جب میں مباہلے کے لیے دعا کروں ، تو تم آمین کہنا۔ گویا آپ مباہلہ کے لیے بالکل تیار ہو کر تشریف لے آئے۔ جب عیسائیوں نے آپ کو اس حالت میں دیکھا تو ان کا لاٹ پادری اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا ، یمعشر النصاری ، اے نصاری کے گروہ ! ، انی لاری وجوھاً : میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں ، لو سالوا اللہ ان یزیل جبلا من مکانہ لا زال ، اگر یہ اللہ تعالیٰ سے سوال کریں کہ یہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے ، تو وہ ضرور ہٹا دے گا۔ لہذا تمہاری خیریت اسی بات میں ہے فلا تباھلوا ، کہ تم مباہلہ نہ کرو۔ ورنہ تم تباہ و برباد ہوجاؤ گے۔ چنانچہ عیسائیوں کے وفد نے مباہلے کا چیلنج قبول نہ کیا۔ اور ان شرائط پر صلح نامہ کرلیا۔ کہ وہ مسلمانوں کے ماتحت رہ کر جزیہ ادا کرتے رہیں گے۔ تاہم اپنے مذہب اور اپنی رسومات پر قائم رہیں گے۔ اس معاہدے کے تحت نجران کے عیسائیوں نے سالانہ ٹیکس کے طور پر دو ہزار جوڑے کپڑے جو حلہ یا بعض روایات کے مطابق حمراء قسم کے طے پائے۔ ان میں سے ایک ہزار سوٹ صفر کے مہینہ میں اور ایک ہزار رجب کے مہینہ میں واجب الادا قرار پائے۔ اس کے علاوہ تیس زرہیں ، تیس گھوڑے ، تیس اونٹ اور لڑائی میں استعمال ہونے والے ہر قسم کے تیس تیس ہتھیار منجملہ تلوار ، نیزہ وغیرہ بھی بطور جزیہ ادا کرنے کا معاہدہ ہوا۔ صلح نامہ طے پاجانے کے بعد نصاری نے کہا۔ کہ ان کے ہمراہ کوئی دیانتدار عامل بھیج دیا جائے ، جو ایک تو ٹیکس کی اشیاء وصول کرے اور دوسرے ہمارے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کا تصفیہ کرے۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ ہاں ! میں تمہاری طرف ایک نہایت ہی امانتدار آدمی بھیجوں گا۔ چناچہ آپ نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح کو اس کام پر مامور فرمایا ، اور فرمایا ، لکل امۃ امین۔ ہر امت میں کوئی خاص امانتدار ہوتا ہے۔ اور میری امت کا سب سے بڑا امانتدار ابو عبیدہ ہے۔ بخاری اور ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت منقول ہے کہ ایک دفعہ ابوجہل نے اعلان کیا کہ اگر میں نے محمد کو کعبے کے پاس نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا تو ان کی گردن روند ڈالوں گا۔ لاطئن علی عنقہ ، جب حضور ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو فرمایا کہ اگر یہ بدبخت ایسی حرکت کرے گا ، تو فرشتے اس کو پکڑ لیں گے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ کو اس قبیح حرکت کی طاقت نہیں دے گا۔ آپ نے مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں یہودیوں کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ لوگ زندگی میں بڑے حریص ہیں۔ اگر ان کا پختہ ایمان ہے۔ کہ جنت صرف انہی کے لیے ہے ، کوئی دوسرا شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا تو پھر یہ لوگ موت کی تمنا کیوں نہیں کرتے ، حضور نے فرمایا۔ اگر یہ موت کی تمنا کرتے تو فوراً مر جاتے۔ اور اپنا ٹھکانا دوزخ میں دیکھ لیتے۔ قرآن پاک کا دعوی اس قدر سچا ہے کہ یہودیوں نے کبھی موت کی تمنا نہیں کی۔ نیز فرمایا کہ اگر نجران کے عیسائی مباہلہ پر آمادہ ہوجاتے ، تو جب واپس لوٹتے نہ ان کا مال باقی رہتا نہ اہل۔ ہر چیز فنا ہوجاتی۔ ایک دوسری روایت میں جسے امام بیضاوی (رح) نے نقل کیا ہے۔ یہ الفاظ آتے ہیں۔ لمسخوا قردۃ وخنازیر۔ اللہ تعالیٰ ان کی شکلیں مسخ کرکے بندر اور سور بنا دیتا۔ اللہ تعالیٰ وادی نجران پر آگ برساتا اور ساری وادی آگ سے بھڑک اٹھتی ، پوری وادی میں پرندوں اور درختوں تک کوئی چیز باقی نہ رہتی۔ بغیر مباہلہ کیے لوٹ جانے سے وہ لوگ اس وبال سے بچ گئے۔ مباہلہ اور اہلبیت : پہلے بیان ہوچکا ہے۔ کہ مباہلہ کے لیے حضور ﷺ اپنے اہل خانہ میں سے بیٹی فاطمہ ، حسن ، حسین اور علی ؓ کو لے کر نکلے۔ شیعہ حضرات اس ایک روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کے اہل بیت یہی افراد ہیں۔ ان کے علاوہ اور کوئی اہل بیت میں شامل نہیں ہے۔ حالانکہ اہل بیت میں ازواج مطہرات بھی شامل ہیں۔ مگر سب کو اس موقع پر لانا ضروری نہیں تھا۔ یہ تو دعا کا مقام تھا۔ آپ چند افراد کو لے کر فوراً نکل آئے۔ تاہم مذکورہ روایت میں واقعہ کی پوری تفصیل موجود نہیں ہے۔ ابن عساکر (رح) بہت بڑے مورخ گزرے ہیں۔ جنہوں نے بڑی مستند تاریخ لکھی ہے۔ وہ امام جعفر صادق (رح) سے اور وہ اپنے والد امام محمد باقر (رح) سے روایت بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی کریم ﷺ مباہلہ کے لیے تشریف لائے تو ان کے ساتھ حضرات ابوبکر صدیق ، عمر فاروق ، عثمانِ غنی علی المرتضی ؓ اور ان سب کی اولاد بھی تھی۔ یہ روایت امام جلال الدین سیوطی (رح) نے درمنثور میں اسی طرح بیان کی ہے۔ اور یہی روایت تفسیر روح المعانی میں بھی موجود ہے۔ تاہم پہلی مذکورہ روایت میں باقی تین حضرات اور ان کی اولاد کا ذکر نہیں ہے دونوں روایات کو جمع کرنے سے پوری صورت حال سامنے آجاتی ہے۔ شیعہ حضرات تو حقائق کو اس حد تک مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہ حضرت فاطمہ کے علاوہ حضور ﷺ کی کسی دوسری بیٹی کو تسلیم ہی نہیں کرتے حالانکہ آپ کی تین صاحبزادیاں حضرت فاطمہ کے علاوہ تھیں جو واقعہ مباہلہ سے قبل فوت ہوچکی تھیں۔ حضرت رقیہ 2 ھ میں فوت ہوئیں۔ آپ غزوہ بدر کے لیے تشریف لے گئے تو رقیہ مدینہ میں فوت ہوگئیں۔ آپ ان کے جنازے میں بھی شریک نہیں ہوسکے۔ بدر سے واپس آ کر ان کی قبر پر جا کر دعا کی۔ اس کے بعد ام کلثوم کا حضرت عثمان غنی سے نکاح ہوا ، مگر کچھ عرصہ بعد وہ بھی وفات پا گئیں۔ پھر آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی حضرت زینب 8 ھ میں فوت ہوئیں ، اس کا ذکر احادیث میں موجود ہے۔ واقعہ مباہلہ 9 ھ یا 10 ھ میں پیش آیا ، جب کہ آپ کی تین صاحبزادیاں 8 ھ تک فوت ہوچکی تھیں۔ مگر نہایت افسوس کا مقام ہے۔ کہ شیعہ سوائے حضرت فاطمہ کے آپ کی کسی اور صاحبزادی کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ ان حضرات کا معتبر مصنف ملا باقر مجلسی اپنی کتاب حیات القلوب میں لکھتا ہے کہ جب حضور ﷺ مباہلے کے لیے نکلے تو مہاجرین اور انصار سب آپ کے ساتھ تھے۔ قرآن پاک نے ازواج مطہرات کو صریحاً اہل بیت فرمایا ہے خود حضور ﷺ نے ایک موقع پر ازواج کو اہل بیت میں شریک کیا تھا۔ لہذا شیعوں کا عقیدہ باطل ہے۔ مباہلہ کی مشروعیت : یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے خود تو مباہلہ فرمایا ، کیا یہ آپ کے بعد بھی ہوسکتا ہے ؟ اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ ہمارے بزرگوں میں سے محقق فرماتے ہیں کہ مباہلہ اب بھی جائز ہے۔ مگر بعض فرماتے ہیں۔ کہ مباہلہ حضور ﷺ کی ذات کے ساتھ مخصوص تھا۔ اگر آپ کے بعد کوئی دوسرا شخص مباہلہ کرے گا ، تو اس کے وہ نتائج بر آمد نہیں ہوسکتے ، جو حضور ﷺ کے اپنے زمانے میں ہوتے ، تاہم اس کے جواز کی گنجائش موجود ہے۔ چناچہ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی (رح) اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں ، کہ جب نصاری حضور ﷺ کے مقابلہ پر آئے تو ان کے سمجھداروں نے کہا ، اے گروہ نصاریٰ ! تم خوب سمجھ چکے ہو کہ محمد ﷺ نبی مرسل ہیں اور انہوں نے مسیح (علیہ السلام) کے متعلق بڑی واضح اور فیصلہ کن بات کی ہے۔ تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے بنو اسماعیل میں آخری نبی بھیجنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ لہذا کچھ بعید نہیں کہ یہ وہی نبی ہوں جن کی بشارت ہم سنتے چلے آ رہے ہیں۔ یاد رکھو ! نبی کے ساتھ مباہلہ کسی قوم کے حق میں اس کے سوا کی انکل سکتا ہے کہ ایسی قوم کا کوئی چھوٹا بڑا عذاب الہی سے نہ بچ سکے۔ اور پھر پیغمبر کی لعنت کا اثر نسلوں تک پہنچے۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ ہم ان سے صلح کرکے اپنی بستیوں کو لوٹ جائیں۔ ہم سارے عرب سے لڑائی مول نہیں لے سکتے آخر آپ کی خدمت میں پہنچے۔ آپ حسن ، حسین ، فاطمہ اور علی ؓ کو ساتھ لیے باہر تشریف لا رہے تھے۔ یہ نورانی صورتیں دیکھ کر عیسائیوں کے لاٹ پادری نے کہا ، میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں جن کی دعا پہاڑوں کو بھی ان کی جگہ سے سرکا سکتی ہے۔ تم ان سے مباہلہ کرکے اپنی ہلاکت کو دعوت نہ دو ۔ ورنہ زمین پر ایک بھی نصرانی باقی نہیں رہے گا۔ چناچہ نجرانیوں نے مقابلہ ترک کردیا۔ جزیہ دینا قبول کیا اور صلح کرکے واپس چلے گئے۔ مولانا عثمانی (رح) لکھتے ہیں۔ کہ قرآن پاک نے یہ نہیں بتایا کہ مباہلہ حضور ﷺ کے بعد بھی کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ کہ مباہلے کا اثر آپ کے بعد بھی وہی ہونا چاہیے جو آپ کی موجودگی میں ہونے والا تھا۔ البتہ بعض سلف اور بعض فقہائے حنفیہ کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ مباہلے کی مشروعیت اب بھی باقی ہے مگر یہ صرف انہی معاملات میں ہو سکتا ہے ، جن کا قطعی ثبوت موجود ہو۔ اب مباہلے میں عورتوں اور بچوں کو شریک کرنا بھی ضروری نہیں۔ اور اس قسم کا عذاب آن ابھی لازمی نہیں جیسا کہ حضور ﷺ کے ساتھ مباہلہ پر آتا۔ تاہم اس وقت مباہلہ اتمام حجت اور بحث و مباحثہ کو ختم کرنے کی ایک صورت ہے۔ مولانا عثمانی یہ بھی فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں مباہلہ ایک عام کاذب کے ساتھ نہیں بلکہ کاذب معاند (عناد کرنیوالا) کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ان یباھل من عاند الحق فی امر عیسیٰ بعد ظھور البیان۔ کہ آپ ایسے شخص کے ساتھ مباہلہ کریں جو عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق حق کے ساتھ عناد رکھتا ہے۔ جب کہ دلائل وبراہین کے ساتھ بات بالکل واضح ہوچکی ہے۔ اور تمام قرائن سے ثابت ہوگیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) خدا کے پیدا کیے ہوئے اس کے بندے ہیں ، وہ خود الہ نہیں ہیں ، بہرحال مباہلہ اب بھی جائز ہے مگر اس قسم کے ٹھوس معاملات میں۔ بعض لوگ معمولی مسائل مثلاً فاتحہ خلف امام یا آمین وغیرہ میں مباہلہ پر تیار ہوجاتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ حق بات : فرمایا ان ھذا لھو القصص الحق۔ بیشک البتہ یہ بیان ہے سچا۔ مسیح (علیہ السلام) کے متعلق جو واقعات بیان ہوئے ، ہیں ، یہ بالک لصحیح ہیں۔ قصص ، قصہ کی جمع ہے اور قصہ واقعہ کو کہتے ہیں۔ قص یقص بیان کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ اس مقام میں قصص ، مصدر بمعنی بیان کرنا ہے ، قص کا اصل معنی نقش قدم کو تلاش کرنا ہے قاص واعظ کو بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ بھی واقعات کے پیچھے چلتا ہے۔ الغرض فرمایا کہ مسیح (علیہ السلام) کے متعلق یہ دعویٰ کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ، بالکل صحیح بیان ہے۔ وما من الہ الا اللہ ، اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الہ یعنی مستحق عبادت نہیں ہے وہ نافع اور ضار ہے ، خالق ، قیوم ، قادر مطلق اور علیم کل ہے۔ وہ جو چاہے کرے وہ ازلی ابدی قائم و دائم ہے۔ وہی بگڑی بنانے والا ہے۔ وہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے۔ سب اسی کے محتاج ہیں۔ آگے سورة مائدہ اور بعض دوسری سورتوں میں بھی عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں تفصیل سے موجود ہے کہ وہ خود بھی محتاج ہیں۔ فرمایا۔ وان اللہ لھو العزیز الحکیم۔ بیشک خدا تعالیٰ ہی غالب اور کمال قوت رکھنے والا حکیم ہے۔ وہ اپنی حکمت سے چاہے کسی کو بغیر باپ کے یا ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا فرما دے۔ وہ کمال حکمت کا مالک ہے۔ مفسدین کو تنبیہ : فرمایا ، فان تولوا۔ اگر یہ لوگ اعراض کریں۔ حق واضح ہوجانے کے بعد بھی خدا کی وھدانیت کو تسلیم نہ کریں۔ اور اسی طرح عناد کرتے رہیں۔ تو آپ فرما دییکجئے۔ فان اللہ علیم بالمفسدین۔ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔ اور زمین میں سب سے بڑا فساد شرک ہے۔ کیونکہ امن کا قیام ، ایمان ، توحید ، اطاعت اور نیکی سے ہی ممکن ہے۔ کفر ، شرک اور برائیوں سے بدامنی ، فساد ، بد اعتقادی ، ذہنی پستی اور طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ لہذا خوب اچھی طرح سمجھ لو ، کہ فسادی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہیں۔ فساد کی خاطر کفر و شرک کا ارتکاب کرنے والے اس کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ضرور سزا دے گا۔
Top