Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 61
فَمَنْ حَآجَّكَ فِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ١۫ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ
فَمَنْ : سو جو حَآجَّكَ : آپ سے جھگڑے فِيْهِ : اس میں مِنْ بَعْدِ : بعد مَا : جب جَآءَكَ : آگیا مِنَ : سے الْعِلْمِ : علم فَقُلْ : تو کہ دیں تَعَالَوْا : تم آؤ نَدْعُ : ہم بلائیں اَبْنَآءَنَا : اپنے بیٹے وَاَبْنَآءَكُمْ : اور تمہارے بیٹے وَنِسَآءَنَا : اور اپنی عورتیں وَنِسَآءَكُمْ : اور تمہاری عورتیں وَاَنْفُسَنَا : اور ہم خود وَاَنْفُسَكُمْ : اور تم خود ثُمَّ : پھر نَبْتَهِلْ : ہم التجا کریں فَنَجْعَلْ : پھر کریں (ڈالیں) لَّعْنَتَ : لعنت اللّٰهِ : اللہ عَلَي : پر الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
پس جو شخص اس بارے میں آپ سے جھگڑا کرے بعد اس کے کہ آپ کے پاس علم آ چکا ہے۔ پس کہہ دیجئے ، آؤ، بلائیں ہم اپنی اولادوں کو ، تم اپنی اولادوں کو ، ہم اپنی عورتوں کو ، تم اپنی عورتوں کو۔ ہم اپنی جانوں کو ، تم اپنی جانوں کو۔ پھر ہم التجا کریں اور گڑ گڑائیں۔ پھر ہم سب اللہ کی لعنت کریں ان لوگوں پر جو جھوٹے ہیں۔
گذشتہ دروس میں یہ بیان ہوچکا ہے کہ مسیح (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں۔ وہ نہ تو خدا کے بیٹے ہیں اور نہ خود خدا ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فضیلت عطا فرمائی ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ بات ایک واضح مثال کے ذریعے سمجھائی۔ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا بغیر باپ کے پیدا ہونا ناممکنات میں سے نہیں ہے۔ آپ کی مثال حضرت آدم (علیہ السلام) کی مثال جیسی ہے۔ جسے اللہ نے بغیر ماں اور باپ کے پیدا فرمایا۔ اگر آدم (علیہ السلام) الوہیت کے درجے کو نہیں پہنچے ، تو عیسیٰ (علیہ السلام) الہ کیسے بن گئے۔ نجران کے عیسائی وفد کا تذکرہ ابتدائے سورة ہی سے ہورہا ہے۔ جب حضور ﷺ کے ساتھ عیسائیوں کی بحث نے طول پکڑا ، اور جھگڑا بڑھ گیا ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر وفد نجران کو مباہلہ کی دعوت دی۔ ارشاد فرمایا ۔ فمن حاجک فیہ من بعد ماجاءک من العلم۔ پس جو شخص اس معاملہ میں آپ سے جھگڑا کرے ، بعد اس کے کہ آپ کے پاس علم آ چکا ہے فقل تعالوا پس آپ ان سے کہیں آؤ، ندع ابناء نا وابناء کم۔ ہم اپنی اولادوں کو بلاتے ہیں ، تم اپنی اولادوں کو بلاؤ۔ ونساءنا ونساء کم۔ ہم اپنی عورتوں کو بلاتے ہیں ، تم اپنی عورتوں کو بلاؤ۔ وانفسنا و انفسکم۔ ہم خود بھی آتے ہیں تم بھی خود ا اؤ۔ ثم نبتھل ، پھر ہم سب گڑگڑائیں اور التجا کریں۔ فنجعل لعنت اللہ علی الکذبین۔ پھر جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مباہلہ کرنے کا ایک طریقہ بتایا ہے۔ کہ اگر واضح دلائل دینے کے باوجود یہ لوگ حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ تو پھر آپ انہیں چیلنج کریں کہ آؤ تم خود بھی آجاؤ اور اپنے گھر والوں کو بھی میدان میں لے آؤ۔ پھر ہم سب مل کر اللہ کے سامنے نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ دعا کریں۔ کہ مولا کریم ! جو فریق جھوٹا ہے۔ اس پر تیری لعنت ہو۔ ایسا گروہ تیرے عذاب میں گرفتار ہو۔ جب حضور ﷺ نے نصاری کو یہ دعوت دی۔ تو کہنے لگے ، ہم آپس میں مشورہ کرنے کے بعد جواب دیں گے۔ اس واقعہ کی تفصیل امام بیضاوی یوں بیان فرماتے ہیں لما دعوا الی المباھلۃ قالوا ننظر۔ جب انہیں مباہلہ کی دعوت دی گئی تو کہنے لگے ، ہم باہمی مشورہ کرتے ہیں۔ فلما تخالوا ، جب وہ علیحدگی میں ملے۔ تو ان میں سے جو زیادہ سمجھدار اور صاحب رائے تھا وہ کہنے لگا واللہ لقد عرفتم نبوتہ خدا کی قسم تم اس شخص کی نبوت کو پہچان چکے ہو۔ ولقد جاء کم بلفصل فی امر صاحبکم اور تمہارے صاحب یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق اس نے فیصلہ کن بات کی ہے۔ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ وہ الہ ہرگز نہیں ہیں۔ اور میں کہتا ہوں ، واللہ ما باھل قوم نبیا الا ھلکو ، خدا کی قسم جس قوم نے بھی کسی نبی سے مباہلہ کیا ، وہ قوم ہلاک ہوگئی۔ فان ابیتم الا الف دینکم ، اور اگر تم اس رسول برحق کا انکار کرتے ہو۔ اور اپنے ہی دین پر قائم رہنا چاہتے ہو۔ فوادع الرجل ، تو اس شخص کے ساتھ موادعت کرلو ، مصالحت کرلو ، اور یہاں سے واپس چلے جاؤ۔ مباہلہ سے فرار : چنانچہ وہ لوگ مشورہ کے لیے باہر چلے گئے۔ حضور ﷺ خود بھی گھر تشریف لے گئے۔ اور پھر اس حالت میں باہر آئے کہ حضرت حسین آپ کی گود میں تھے۔ واخذ بید الحسن اور آپ نے حضرت حسن ؓ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ حضرت فاطمہ آپ کے پیچھے پیچھے آ رہی تھیں۔ اور حضرت علی ان کے پیچھے تھے۔ آپ ان سے فرما رہے تھے ، اذا ان دعوت فامنوا ، جب میں مباہلے کے لیے دعا کروں ، تو تم آمین کہنا۔ گویا آپ مباہلہ کے لیے بالکل تیار ہو کر تشریف لے آئے۔ جب عیسائیوں نے آپ کو اس حالت میں دیکھا تو ان کا لاٹ پادری اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا ، یمعشر النصاری ، اے نصاری کے گروہ ! ، انی لاری وجوھاً : میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں ، لو سالوا اللہ ان یزیل جبلا من مکانہ لا زال ، اگر یہ اللہ تعالیٰ سے سوال کریں کہ یہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے ، تو وہ ضرور ہٹا دے گا۔ لہذا تمہاری خیریت اسی بات میں ہے فلا تباھلوا ، کہ تم مباہلہ نہ کرو۔ ورنہ تم تباہ و برباد ہوجاؤ گے۔ چنانچہ عیسائیوں کے وفد نے مباہلے کا چیلنج قبول نہ کیا۔ اور ان شرائط پر صلح نامہ کرلیا۔ کہ وہ مسلمانوں کے ماتحت رہ کر جزیہ ادا کرتے رہیں گے۔ تاہم اپنے مذہب اور اپنی رسومات پر قائم رہیں گے۔ اس معاہدے کے تحت نجران کے عیسائیوں نے سالانہ ٹیکس کے طور پر دو ہزار جوڑے کپڑے جو حلہ یا بعض روایات کے مطابق حمراء قسم کے طے پائے۔ ان میں سے ایک ہزار سوٹ صفر کے مہینہ میں اور ایک ہزار رجب کے مہینہ میں واجب الادا قرار پائے۔ اس کے علاوہ تیس زرہیں ، تیس گھوڑے ، تیس اونٹ اور لڑائی میں استعمال ہونے والے ہر قسم کے تیس تیس ہتھیار منجملہ تلوار ، نیزہ وغیرہ بھی بطور جزیہ ادا کرنے کا معاہدہ ہوا۔ صلح نامہ طے پاجانے کے بعد نصاری نے کہا۔ کہ ان کے ہمراہ کوئی دیانتدار عامل بھیج دیا جائے ، جو ایک تو ٹیکس کی اشیاء وصول کرے اور دوسرے ہمارے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کا تصفیہ کرے۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ ہاں ! میں تمہاری طرف ایک نہایت ہی امانتدار آدمی بھیجوں گا۔ چناچہ آپ نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح کو اس کام پر مامور فرمایا ، اور فرمایا ، لکل امۃ امین۔ ہر امت میں کوئی خاص امانتدار ہوتا ہے۔ اور میری امت کا سب سے بڑا امانتدار ابو عبیدہ ہے۔ بخاری اور ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت منقول ہے کہ ایک دفعہ ابوجہل نے اعلان کیا کہ اگر میں نے محمد کو کعبے کے پاس نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا تو ان کی گردن روند ڈالوں گا۔ لاطئن علی عنقہ ، جب حضور ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو فرمایا کہ اگر یہ بدبخت ایسی حرکت کرے گا ، تو فرشتے اس کو پکڑ لیں گے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ کو اس قبیح حرکت کی طاقت نہیں دے گا۔ آپ نے مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں یہودیوں کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ لوگ زندگی میں بڑے حریص ہیں۔ اگر ان کا پختہ ایمان ہے۔ کہ جنت صرف انہی کے لیے ہے ، کوئی دوسرا شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا تو پھر یہ لوگ موت کی تمنا کیوں نہیں کرتے ، حضور نے فرمایا۔ اگر یہ موت کی تمنا کرتے تو فوراً مر جاتے۔ اور اپنا ٹھکانا دوزخ میں دیکھ لیتے۔ قرآن پاک کا دعوی اس قدر سچا ہے کہ یہودیوں نے کبھی موت کی تمنا نہیں کی۔ نیز فرمایا کہ اگر نجران کے عیسائی مباہلہ پر آمادہ ہوجاتے ، تو جب واپس لوٹتے نہ ان کا مال باقی رہتا نہ اہل۔ ہر چیز فنا ہوجاتی۔ ایک دوسری روایت میں جسے امام بیضاوی (رح) نے نقل کیا ہے۔ یہ الفاظ آتے ہیں۔ لمسخوا قردۃ وخنازیر۔ اللہ تعالیٰ ان کی شکلیں مسخ کرکے بندر اور سور بنا دیتا۔ اللہ تعالیٰ وادی نجران پر آگ برساتا اور ساری وادی آگ سے بھڑک اٹھتی ، پوری وادی میں پرندوں اور درختوں تک کوئی چیز باقی نہ رہتی۔ بغیر مباہلہ کیے لوٹ جانے سے وہ لوگ اس وبال سے بچ گئے۔ مباہلہ اور اہلبیت : پہلے بیان ہوچکا ہے۔ کہ مباہلہ کے لیے حضور ﷺ اپنے اہل خانہ میں سے بیٹی فاطمہ ، حسن ، حسین اور علی ؓ کو لے کر نکلے۔ شیعہ حضرات اس ایک روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کے اہل بیت یہی افراد ہیں۔ ان کے علاوہ اور کوئی اہل بیت میں شامل نہیں ہے۔ حالانکہ اہل بیت میں ازواج مطہرات بھی شامل ہیں۔ مگر سب کو اس موقع پر لانا ضروری نہیں تھا۔ یہ تو دعا کا مقام تھا۔ آپ چند افراد کو لے کر فوراً نکل آئے۔ تاہم مذکورہ روایت میں واقعہ کی پوری تفصیل موجود نہیں ہے۔ ابن عساکر (رح) بہت بڑے مورخ گزرے ہیں۔ جنہوں نے بڑی مستند تاریخ لکھی ہے۔ وہ امام جعفر صادق (رح) سے اور وہ اپنے والد امام محمد باقر (رح) سے روایت بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی کریم ﷺ مباہلہ کے لیے تشریف لائے تو ان کے ساتھ حضرات ابوبکر صدیق ، عمر فاروق ، عثمانِ غنی علی المرتضی ؓ اور ان سب کی اولاد بھی تھی۔ یہ روایت امام جلال الدین سیوطی (رح) نے درمنثور میں اسی طرح بیان کی ہے۔ اور یہی روایت تفسیر روح المعانی میں بھی موجود ہے۔ تاہم پہلی مذکورہ روایت میں باقی تین حضرات اور ان کی اولاد کا ذکر نہیں ہے دونوں روایات کو جمع کرنے سے پوری صورت حال سامنے آجاتی ہے۔ شیعہ حضرات تو حقائق کو اس حد تک مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہ حضرت فاطمہ کے علاوہ حضور ﷺ کی کسی دوسری بیٹی کو تسلیم ہی نہیں کرتے حالانکہ آپ کی تین صاحبزادیاں حضرت فاطمہ کے علاوہ تھیں جو واقعہ مباہلہ سے قبل فوت ہوچکی تھیں۔ حضرت رقیہ 2 ھ میں فوت ہوئیں۔ آپ غزوہ بدر کے لیے تشریف لے گئے تو رقیہ مدینہ میں فوت ہوگئیں۔ آپ ان کے جنازے میں بھی شریک نہیں ہوسکے۔ بدر سے واپس آ کر ان کی قبر پر جا کر دعا کی۔ اس کے بعد ام کلثوم کا حضرت عثمان غنی سے نکاح ہوا ، مگر کچھ عرصہ بعد وہ بھی وفات پا گئیں۔ پھر آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی حضرت زینب 8 ھ میں فوت ہوئیں ، اس کا ذکر احادیث میں موجود ہے۔ واقعہ مباہلہ 9 ھ یا 10 ھ میں پیش آیا ، جب کہ آپ کی تین صاحبزادیاں 8 ھ تک فوت ہوچکی تھیں۔ مگر نہایت افسوس کا مقام ہے۔ کہ شیعہ سوائے حضرت فاطمہ کے آپ کی کسی اور صاحبزادی کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ ان حضرات کا معتبر مصنف ملا باقر مجلسی اپنی کتاب حیات القلوب میں لکھتا ہے کہ جب حضور ﷺ مباہلے کے لیے نکلے تو مہاجرین اور انصار سب آپ کے ساتھ تھے۔ قرآن پاک نے ازواج مطہرات کو صریحاً اہل بیت فرمایا ہے خود حضور ﷺ نے ایک موقع پر ازواج کو اہل بیت میں شریک کیا تھا۔ لہذا شیعوں کا عقیدہ باطل ہے۔ مباہلہ کی مشروعیت : یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے خود تو مباہلہ فرمایا ، کیا یہ آپ کے بعد بھی ہوسکتا ہے ؟ اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ ہمارے بزرگوں میں سے محقق فرماتے ہیں کہ مباہلہ اب بھی جائز ہے۔ مگر بعض فرماتے ہیں۔ کہ مباہلہ حضور ﷺ کی ذات کے ساتھ مخصوص تھا۔ اگر آپ کے بعد کوئی دوسرا شخص مباہلہ کرے گا ، تو اس کے وہ نتائج بر آمد نہیں ہوسکتے ، جو حضور ﷺ کے اپنے زمانے میں ہوتے ، تاہم اس کے جواز کی گنجائش موجود ہے۔ چناچہ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی (رح) اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں ، کہ جب نصاری حضور ﷺ کے مقابلہ پر آئے تو ان کے سمجھداروں نے کہا ، اے گروہ نصاریٰ ! تم خوب سمجھ چکے ہو کہ محمد ﷺ نبی مرسل ہیں اور انہوں نے مسیح (علیہ السلام) کے متعلق بڑی واضح اور فیصلہ کن بات کی ہے۔ تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے بنو اسماعیل میں آخری نبی بھیجنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ لہذا کچھ بعید نہیں کہ یہ وہی نبی ہوں جن کی بشارت ہم سنتے چلے آ رہے ہیں۔ یاد رکھو ! نبی کے ساتھ مباہلہ کسی قوم کے حق میں اس کے سوا کی انکل سکتا ہے کہ ایسی قوم کا کوئی چھوٹا بڑا عذاب الہی سے نہ بچ سکے۔ اور پھر پیغمبر کی لعنت کا اثر نسلوں تک پہنچے۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ ہم ان سے صلح کرکے اپنی بستیوں کو لوٹ جائیں۔ ہم سارے عرب سے لڑائی مول نہیں لے سکتے آخر آپ کی خدمت میں پہنچے۔ آپ حسن ، حسین ، فاطمہ اور علی ؓ کو ساتھ لیے باہر تشریف لا رہے تھے۔ یہ نورانی صورتیں دیکھ کر عیسائیوں کے لاٹ پادری نے کہا ، میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں جن کی دعا پہاڑوں کو بھی ان کی جگہ سے سرکا سکتی ہے۔ تم ان سے مباہلہ کرکے اپنی ہلاکت کو دعوت نہ دو ۔ ورنہ زمین پر ایک بھی نصرانی باقی نہیں رہے گا۔ چناچہ نجرانیوں نے مقابلہ ترک کردیا۔ جزیہ دینا قبول کیا اور صلح کرکے واپس چلے گئے۔ مولانا عثمانی (رح) لکھتے ہیں۔ کہ قرآن پاک نے یہ نہیں بتایا کہ مباہلہ حضور ﷺ کے بعد بھی کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ کہ مباہلے کا اثر آپ کے بعد بھی وہی ہونا چاہیے جو آپ کی موجودگی میں ہونے والا تھا۔ البتہ بعض سلف اور بعض فقہائے حنفیہ کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ مباہلے کی مشروعیت اب بھی باقی ہے مگر یہ صرف انہی معاملات میں ہو سکتا ہے ، جن کا قطعی ثبوت موجود ہو۔ اب مباہلے میں عورتوں اور بچوں کو شریک کرنا بھی ضروری نہیں۔ اور اس قسم کا عذاب آن ابھی لازمی نہیں جیسا کہ حضور ﷺ کے ساتھ مباہلہ پر آتا۔ تاہم اس وقت مباہلہ اتمام حجت اور بحث و مباحثہ کو ختم کرنے کی ایک صورت ہے۔ مولانا عثمانی یہ بھی فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں مباہلہ ایک عام کاذب کے ساتھ نہیں بلکہ کاذب معاند (عناد کرنیوالا) کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ان یباھل من عاند الحق فی امر عیسیٰ بعد ظھور البیان۔ کہ آپ ایسے شخص کے ساتھ مباہلہ کریں جو عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق حق کے ساتھ عناد رکھتا ہے۔ جب کہ دلائل وبراہین کے ساتھ بات بالکل واضح ہوچکی ہے۔ اور تمام قرائن سے ثابت ہوگیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) خدا کے پیدا کیے ہوئے اس کے بندے ہیں ، وہ خود الہ نہیں ہیں ، بہرحال مباہلہ اب بھی جائز ہے مگر اس قسم کے ٹھوس معاملات میں۔ بعض لوگ معمولی مسائل مثلاً فاتحہ خلف امام یا آمین وغیرہ میں مباہلہ پر تیار ہوجاتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ حق بات : فرمایا ان ھذا لھو القصص الحق۔ بیشک البتہ یہ بیان ہے سچا۔ مسیح (علیہ السلام) کے متعلق جو واقعات بیان ہوئے ، ہیں ، یہ بالک لصحیح ہیں۔ قصص ، قصہ کی جمع ہے اور قصہ واقعہ کو کہتے ہیں۔ قص یقص بیان کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ اس مقام میں قصص ، مصدر بمعنی بیان کرنا ہے ، قص کا اصل معنی نقش قدم کو تلاش کرنا ہے قاص واعظ کو بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ بھی واقعات کے پیچھے چلتا ہے۔ الغرض فرمایا کہ مسیح (علیہ السلام) کے متعلق یہ دعویٰ کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ، بالکل صحیح بیان ہے۔ وما من الہ الا اللہ ، اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الہ یعنی مستحق عبادت نہیں ہے وہ نافع اور ضار ہے ، خالق ، قیوم ، قادر مطلق اور علیم کل ہے۔ وہ جو چاہے کرے وہ ازلی ابدی قائم و دائم ہے۔ وہی بگڑی بنانے والا ہے۔ وہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے۔ سب اسی کے محتاج ہیں۔ آگے سورة مائدہ اور بعض دوسری سورتوں میں بھی عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں تفصیل سے موجود ہے کہ وہ خود بھی محتاج ہیں۔ فرمایا۔ وان اللہ لھو العزیز الحکیم۔ بیشک خدا تعالیٰ ہی غالب اور کمال قوت رکھنے والا حکیم ہے۔ وہ اپنی حکمت سے چاہے کسی کو بغیر باپ کے یا ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا فرما دے۔ وہ کمال حکمت کا مالک ہے۔ مفسدین کو تنبیہ : فرمایا ، فان تولوا۔ اگر یہ لوگ اعراض کریں۔ حق واضح ہوجانے کے بعد بھی خدا کی وھدانیت کو تسلیم نہ کریں۔ اور اسی طرح عناد کرتے رہیں۔ تو آپ فرما دییکجئے۔ فان اللہ علیم بالمفسدین۔ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔ اور زمین میں سب سے بڑا فساد شرک ہے۔ کیونکہ امن کا قیام ، ایمان ، توحید ، اطاعت اور نیکی سے ہی ممکن ہے۔ کفر ، شرک اور برائیوں سے بدامنی ، فساد ، بد اعتقادی ، ذہنی پستی اور طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ لہذا خوب اچھی طرح سمجھ لو ، کہ فسادی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہیں۔ فساد کی خاطر کفر و شرک کا ارتکاب کرنے والے اس کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ضرور سزا دے گا۔
Top